عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, December 27,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 25
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ابن تیمیہؒ کی تقریر: ملوکیت ہماری امت میں جائز نہیں
:عنوان

ہماری اس امت کے حق میں خلافتِ نبوت ہی کو فرض ٹھہرایا گیا ہے، جس پر ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ حدیث نص ہے: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ‘‘۔ چنانچہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہی اس امت کے حق میں لازم ٹھہرایا گیا ہے۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ملوکیت (بادشاہت) سے متعلق بعض فضلاء وقتاً فوقتاً یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ قرآن مجید میں یوسف، داؤد اور سلیمان علیہم السلام ایسے انبیاء کو بادشاہت ملنے کا ذکر ہوا ہے۔ ستائش کے ایک نہایت واضح سیاق میں طالوت کو وقت کے نبی کے ہاتھوں بادشاہ بنانے کا ذکر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کو خدا کی نعمتیں یاد کروانے کے دوران یہ بیان آیا ہے کہ اللہ نے تمہیں بادشاہتیں عطا کیں۔ تاریخی طور پر بھی بنی اسرائیل کے ہاں بادشاہتوں کا سلسلہ معروف ہے، درحالیکہ ان سب ادوار میں انبیاء ان کے ہاں تسلسل سے پائے گئے، بلکہ انبیاء کے ہاتھوں ان کے معاملات چلائے جاتے رہے۔ لہٰذا ملوکیت (بادشاہت) میں کیا قباحت ہے؟ بلکہ کچھ لوگ تو خلافت اور ملوکیت میں کوئی بڑا فرق کرنے کے بھی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں، صورت کا تھوڑا فرق ہے۔

کچھ عرصہ پیشتر مجھے امام ابن تیمیہ کی تالیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا، جو تاحال طباعت کے مراحل سے گزر نہیں سکا۔  اس میں ابن تیمیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ملوکیت (بادشاہت) کا ہماری اِس امت کے حق میں کیا حکم ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اشکال کے معاملہ میں ابن تیمیہ کا جواب چند نکات میں مختصر کر دیا جائے۔

ابن تیمیہ کی تقریر کی رُو سے:

o    ’’خلافتِ نبوت‘‘ اور ’’مُلک‘‘ (جس کو ہم اردو میں ’’ملوکیت‘‘ کہہ دیتے ہیں، یعنی بادشاہت) دو الگ الگ چیزیں ہیں، اور یہ بات نص سے ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں آپﷺ نے خلافتِ نبوت کے تیس سال تک رہنے کی پیش گوئی فرمائی، اور تیس سال کے بعد مُلک یعنی بادشاہت آ جانے کا ذکر فرمایا۔ پس ثابت ہوا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک نہیں۔ بلکہ ابن تیمیہ کے بقول، یہ نبوی پیش گوئی جن احادیث میں وارد ہوئی، ان میں سے بعض روایات کے اندر معاملہ کے ’’خلافتِ نبوت‘‘ سے ’’ملوکیت‘‘ پر چلا جانے پر نبیﷺ کا کچھ اظہارِ تشویش فرمانا بھی ملتا ہے۔

o    ہماری اس امت کے حق میں ’’خلافتِ نبوت‘‘ ہی واجب ہے جبکہ ’’ملوکیت‘‘ ناحق۔

o    یہاں ابن تیمیہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے خود نبی کی دو قسمیں ذکر کرتے ہیں: ’’نبیِ مَلِک‘‘، جیسے داود اور سلیمان علیہما السلام وغیرہ۔ اور ’’رسولِ عبد‘‘ جیسے ہمارے نبیﷺ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: (حدیث میں) ہمارے نبیﷺ کو باقاعدہ یہ چناؤ دیا گیا کہ چاہو تو ’’نبیِ ملک‘‘ بن جاؤ اور چاہو تو ’’رسولِ عبد‘‘۔ یہاں جبریل نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے آگے تواضع اختیار کیجئے اور ’’رسولِ عبد‘‘ ہونا مانگ لیجئے، سو آپﷺ نے اپنے لیے یہی مانگا۔ ابن تیمیہ کے نزدیک: ’’رسولِ عبد‘‘ درجے اور اجر میں ’’نبیِ ملک‘‘ سے اوپر ہوتا ہے۔ چنانچہ نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمدﷺ درجے میں یوسف، داود و سلیمان علیہم السلام سے اوپر ہیں۔

o    رہ گیا پچھلی امتوں میں بادشاہتوں کا ذکر، تو یہ حق ہے۔ مگر ہماری اس امت کے حق میں خلافتِ نبوت ہی کو فرض ٹھہرایا گیا ہے، جس پر ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ حدیث نص ہے: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ‘‘۔ چنانچہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہی اس امت کے حق میں لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ وہی ہے جو تیس سال تک رہا۔ نہ کہ وہ جو اس کے بعد آیا۔

o    خلافتِ نبوت (خلفائےراشدین کے طریقہ) پر قائم رہنا، اگرچہ فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ تاہم اس فرض کا چھوٹ جانا ابن تیمیہ کے نزدیک دو صورتوں میں ہو سکتا ہے:

1)       قدرت رکھتے ہوئے ایسا کرنا، جوکہ ظلم اور گناہ ہو گا۔

2)      البتہ کسی وقت معاملہ بس سے باہر ہونا اور چار و ناچار اس کی صورت پیش آ جانا۔ امت کے بہت سے صلحاء کے حق میں ابن تیمیہ اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ متعدد سماجی فیکٹر ایسے ہو سکتے ہیں جو ان کےلیے گنجائش نہیں چھوڑتے (جبکہ معاملات کو معطل کرنا ممکن نہیں ہوتا)۔ (کچھ دوسرے مقامات پر) ابن تیمیہ حضرت معاویہؓ کی بادشاہت کو بھی اس زمرے میں رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ ابن تیمیہ بعض ایسی احادیث کا بھی ذکر کرتے ہیں جس میں ’’خلافتِ نبوت‘‘ کے بعد ’’ملکٌ ورحمۃٌ‘‘ کی پیش گوئی کا ذکر ہے (مثلاً البانی کے سلسلۂ احادیثِ صحیحہ میں ابن عباس کی یہ روایت رقم 3270: أولُ هذا الأمرِ نبوةٌ ورحمةٌ، ثمَّ يكونُ خلافةٌ ورحمةٌ، ثمّ يكون مُلكاً ورحمةً، ثمّ يتكادمون عليه تكادُم الحُمُرِ ’’اس معاملہ کا آغاز ہے نبوت اور رحمت۔ پھر یہ ہو جائے گا خلافت اور رحمت۔ پھر یہ ہو جائے گا بادشاہت اور رحمت۔ پھر وہ اس پر یوں منہ مارنے لگیں جیسے گدھے منہ مارتے ہیں‘‘)۔ ابن تیمیہؒ کے نزدیک  ’’ملکٌ ورحمۃٌ‘‘ کے یہ الفاظ حضرت معاویہؓ کی بادشاہت پر لازماً لاگو ہوتے ہیں۔

o    خلفائے راشدین کے بعد کے حکمرانوں پر لفظ خلیفہ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ گو یہ خلفائے انبیاء نہیں بلکہ بادشاہ ہیں۔ ان پر لفظ خلیفہ بولنے کا جواز صحیحین کی اس حدیث سے ملتا ہے«كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ» ’’بنی اسرائیل کا معاملہ یوں رہا کہ انبیاء ان کو چلاتے رہے، جیسے ہی کوئی نبی فوت ہوتا ایک دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا۔ بےشک اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ہاں خلفاء ہوں سو وہ بہت ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کی: تو آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا: جس کی پہلے بیعت ہو بس اسی کی بیعت نبھاتے رہو۔ تم ان کو ان کا حق دیتے رہو، کیونکہ اللہ نے ان کی رعیت میں جو کچھ دیا، اس کی بابت ان سے وہ خود سوال کر لینے والا ہے‘‘۔یہاں ابن تیمیہ کہتے ہیں: خلفائے راشدین کل چار ہوئے۔ جبکہ نبیﷺ فرماتے ہیں کہ خلفاء آپﷺ کی امت میں بہت ہوں گے۔ لہٰذا بعد والوں کو لفظ خلفاء کے تحت ایک درجے میں ذکر کر لیا جانے کی گنجائش ہے۔ مزید اس کی دلیل ابن تیمیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اسی  حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ جس کی پہلے بیعت ہو گئی ہو بس اسی کی وفاداری نبھاتے رہنا۔ جس میں اشارہ ملتا ہے کہ کوئی ایسے واقعات بھی ہوں گے کہ ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے دوسرے خلیفہ کی بیعت ہونے لگی ہو۔ جبکہ خلفائے راشدین کے عہد میں ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے کبھی کسی دوسرے شخص کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت نہیں ہوئی، لہٰذا آپﷺ کا یہ اشارہ خلفائے راشدین کے بعد کے عہد پر ہی منطبق ہو گا۔ لہٰذا ان (بعد کے حکمرانوں پر) اس حدیث کی رُو سے لفظ خلیفہ کا اطلاق کر لینا ایک درجے میں درست ہو گا۔ نیز ابن تیمیہ کے نزدیک اسی حدیث سے ان کی اطاعت کا وجوب بھی نکلتا ہے: ’’تم ان کو ان کا حق دیتے رہو، کیونکہ اللہ نے ان کی رعیت میں جو کچھ دیا، اس کی بابت ان سے وہ خود سوال کر لینے والا ہے‘‘۔

جو لوگ عربی عبارت خود پڑھ سکتے ہوں، وہ ابن تیمیہ کے بیان کردہ اس مبحث کو دیکھنے کےلیے اس لنک سے رجوع فرما سکتے ہیں:

http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-16461

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز