ابن تیمیہؒ کی تقریر: ملوکیت ہماری امت میں جائز نہیں
|
:عنوان |
|
|
ہماری اس امت کے حق میں خلافتِ نبوت ہی کو فرض ٹھہرایا گیا ہے، جس پر ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ حدیث نص ہے: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ‘‘۔ چنانچہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہی اس امت کے حق میں لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ |
|
|
ملوکیت
(بادشاہت) سے متعلق بعض فضلاء وقتاً فوقتاً یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ قرآن مجید میں یوسف،
داؤد اور سلیمان علیہم السلام ایسے انبیاء کو بادشاہت ملنے کا ذکر ہوا ہے۔ ستائش
کے ایک نہایت واضح سیاق میں طالوت کو وقت کے نبی کے ہاتھوں بادشاہ بنانے کا ذکر
ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کو خدا کی نعمتیں یاد کروانے کے دوران یہ
بیان آیا ہے کہ اللہ نے تمہیں بادشاہتیں عطا کیں۔ تاریخی طور پر بھی بنی اسرائیل
کے ہاں بادشاہتوں کا سلسلہ معروف ہے، درحالیکہ ان سب ادوار میں انبیاء ان کے ہاں تسلسل
سے پائے گئے، بلکہ انبیاء کے ہاتھوں ان کے معاملات چلائے جاتے رہے۔ لہٰذا ملوکیت
(بادشاہت) میں کیا قباحت ہے؟ بلکہ کچھ لوگ تو خلافت اور ملوکیت میں کوئی بڑا فرق
کرنے کے بھی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں، صورت کا تھوڑا
فرق ہے۔
کچھ
عرصہ پیشتر مجھے امام ابن تیمیہ کی تالیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اردو میں ترجمہ کرنے
کا موقع ملا، جو تاحال طباعت کے مراحل سے گزر نہیں سکا۔ اس میں ابن تیمیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ
ملوکیت (بادشاہت) کا ہماری اِس امت کے حق میں کیا حکم ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
اس اشکال کے معاملہ میں ابن تیمیہ کا جواب چند نکات میں مختصر کر دیا جائے۔
ابن
تیمیہ کی تقریر کی رُو سے:
o
’’خلافتِ نبوت‘‘ اور
’’مُلک‘‘ (جس کو ہم اردو میں ’’ملوکیت‘‘ کہہ دیتے ہیں، یعنی بادشاہت) دو الگ الگ
چیزیں ہیں، اور یہ بات نص سے ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں آپﷺ نے خلافتِ نبوت کے تیس
سال تک رہنے کی پیش گوئی فرمائی، اور تیس سال کے بعد مُلک یعنی بادشاہت آ جانے کا
ذکر فرمایا۔ پس ثابت ہوا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک نہیں۔ بلکہ ابن تیمیہ کے
بقول، یہ نبوی پیش گوئی جن احادیث میں وارد ہوئی، ان میں سے بعض روایات کے اندر
معاملہ کے ’’خلافتِ نبوت‘‘ سے ’’ملوکیت‘‘ پر چلا جانے پر نبیﷺ کا کچھ اظہارِ تشویش
فرمانا بھی ملتا ہے۔
o ہماری اس امت کے حق میں ’’خلافتِ نبوت‘‘ ہی واجب
ہے جبکہ ’’ملوکیت‘‘ ناحق۔
o یہاں ابن تیمیہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے
خود نبی کی دو قسمیں ذکر کرتے ہیں: ’’نبیِ مَلِک‘‘، جیسے داود اور سلیمان علیہما
السلام وغیرہ۔ اور ’’رسولِ عبد‘‘ جیسے ہمارے نبیﷺ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: (حدیث میں) ہمارے
نبیﷺ کو باقاعدہ یہ چناؤ دیا گیا کہ چاہو تو ’’نبیِ ملک‘‘ بن جاؤ اور چاہو تو
’’رسولِ عبد‘‘۔ یہاں جبریل نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے آگے تواضع
اختیار کیجئے اور ’’رسولِ عبد‘‘ ہونا مانگ لیجئے، سو آپﷺ نے اپنے لیے یہی مانگا۔
ابن تیمیہ کے نزدیک: ’’رسولِ عبد‘‘ درجے اور اجر میں ’’نبیِ ملک‘‘ سے اوپر ہوتا
ہے۔ چنانچہ نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمدﷺ درجے میں یوسف، داود و سلیمان
علیہم السلام سے اوپر ہیں۔
o رہ گیا پچھلی امتوں میں بادشاہتوں کا ذکر، تو یہ حق ہے۔ مگر ہماری اس امت کے حق میں
خلافتِ نبوت ہی کو فرض ٹھہرایا گیا ہے، جس پر ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ حدیث نص ہے: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا
بالنواجذ‘‘۔ چنانچہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہی اس امت کے
حق میں لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ وہی ہے جو تیس سال تک رہا۔ نہ کہ وہ جو اس
کے بعد آیا۔
o خلافتِ نبوت (خلفائےراشدین کے طریقہ) پر قائم
رہنا، اگرچہ فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ تاہم اس فرض کا چھوٹ جانا ابن تیمیہ کے
نزدیک دو صورتوں میں ہو سکتا ہے:
1) قدرت رکھتے ہوئے ایسا کرنا، جوکہ ظلم اور گناہ
ہو گا۔
جو لوگ
عربی عبارت خود پڑھ سکتے ہوں، وہ ابن تیمیہ کے بیان کردہ اس مبحث کو دیکھنے کےلیے
اس لنک سے رجوع فرما سکتے ہیں:
|
|
|
|
|
|