نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے
حامد کمال الدین
تھوڑی حیرت آپ کو یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ متقدمین اہل علم کے ہاں یہ موضوعات
آداب و اخلاق کی ذیل میں بیان ہوتے ہیں! اس بات کی اپنی ایک معنویت ہے، جس پر ہم
تھوڑا آگے چل کر بات کریں گے۔ ابن تیمیہؒ کے ایک نامور شاگرد، اپنے وقت کے ایک
عظیم حنبلی عالم، ابن مفلح مقدسیؒ اخلاق اور تعمیرِ سیرت پر اپنی مایہ ناز تالیف ’’الآداب الشرعیۃ والمنح
المرعیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو دَاوُد
(بَابٌ فِي الْعَصَبِيَّةِ) ثُمَّ رَوَى بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ إلَى سِمَاكٍ عَنْ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِيهِ مَوْقُوفًا
وَمَرْفُوعًا قَالَ: «مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ فَهُوَ
كَالْبَعِيرِ الَّذِي رَدِيَ فَهُوَ ينْزعُ بِذَنَبِهِ»...... وَعَنْ بِنْتِ
وَاثِلَةَ سَمِعَتْ أَبَاهَا يَقُولُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا
الْعَصَبِيَّةُ قَالَ «أَنْ تُعِينَ قَوْمَكَ عَلَى الظُّلْمِ» حَدِيثٌ حُسْنَ
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد.
وَلِأَحْمَدَ وَابْنِ
مَاجَهْ «قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ
الرَّجُلُ قَوْمَهُ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ
الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ». وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي
سُلَيْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ مَرْفُوعًا «لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا
إلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَصَبِيَّةً، وَلَيْسَ مِنَّا
مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ».
...
... ...
وَلِمُسْلِمٍ مِنْ
حَدِيثِ جُنْدُبٍ «مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً
أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ» . قَالَ صَالِحُ بْنُ
أَحْمَدَ فِي مَسَائِلِهِ عَنْ أَبِيهِ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ
«إيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْغُلُوُّ»
قَالَ أَبِي: لَا تَغْلُو فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى الْحُبُّ وَالْبُغْضُ قَالَ
أَبُو دَاوُد (بَابٌ فِي الْهَوَى) حَدَّثَنَا حيوة بْنُ شُرَيْحٍ ثنا بَقِيَّةُ
عَنْ ابْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ بِلَالِ
بْنِ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ قَالَ: «حُبُّكَ لِلشَّيْءِ يُعْمِي
وَيُصِمُّ». (ابن مفلح: الآداب الشرعية والمنح المرعية. 1: 52)
ابو داودؒ باب باندھتے ہیں: ’’عصبیت کا بیان‘‘۔
پھر ایک اچھی سند سے روایت لاتے ہیں جو حضرت ابن مسعودؓ سے موقوف بھی مروی ہے اور
مرفوع بھی، فرمایا: ’’جو شخص اپنی قوم کا ناحق ساتھ دے تو وہ ایسے اونٹ کی طرح ہے
جو کسی گڑھے میں جا گرا اور اسے دُم سے کھینچ کر نکالا جا رہا ہو‘‘۔ فسیلہؒ اپنے
والد حضرت واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت کرتی ہیں، کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے
رسول! عصبیت کیا ہے؟ فرمایا: ’’یہ کہ تم اپنی قوم کا ساتھ دو، ظلم و ناانصافی کے
معاملہ میں‘‘۔ یہ حدیث حسن ہے بروایت ابو داود۔
مسند احمد اور سنن ابن ماجہ کی روایت ہے (حضرت
واثلہ بن الاسقعؓ سے): میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا یہ عصبیت شمار ہو گا کہ
آدمی اپنی قوم سے محبت لگاؤ رکھے؟ فرمایا: نہیں، عصبیت میں تو (صرف) یہ چیز آتی ہے
کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم و ناانصافی کے اندر ساتھ دینے لگے۔ جبیر بن مطعمؓ سے
مرفوع روایت ہے: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی جے بلائے۔ وہ شخص ہم میں سے
نہیں جو عصبیت کےلیے لڑے۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے‘‘۔
مسلم میں حضرت جندبؓ سے حدیث مروی ہے، فرمایا:
’’جو شخص کسی اندھیارے پرچم تلے لڑا، عصبیت کی جے بولا یا عصبیت کی نصرت کرتا رہا
تو اس کا مارا جانا جاہلیت کا مارا جانا ہے۔ امام احمد کے بیٹے صالح امام صاحب سے
اپنے دریافت کردہ مسائل میں ذکر کرتے ہیں کہ میں نے امام سے حضرت ابن عباسؓ کی اس
حدیث کی بابت دریافت کیا کہ: ’’خبردار غلو نہ کرنا؛ کیونکہ تم سے پہلوں کو اسی غلو
نے مروایا تھا‘‘۔ اس پر میرے والد (امام احمد) نے وضاحت فرمائی: کسی بھی چیز میں
غلو مت کرو حتی کہ محبت اور بغض میں بھی۔ ابوداوٗد نے باب باندھا: ’’چاہت اور لو
لگانے کا بیان‘‘۔ اس میں وہ بلال بن ابی الدرداءؓ سے نبیﷺ کی حدیث لائے، فرمایا: ’’تمہارا ایک چیز سے محبت کرنا تمہیں اندھا اور بہرا بنا سکتا ہے‘‘۔
*****
ابن مفلحؒ کی نقل کردہ ان روایات سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے، یہ معاملات
عقیدہ و نظریہ کے ساتھ ساتھ آداب و اخلاق سے کیونکر جُڑے ہیں۔ ایک اعلیٰ اور
متوازن شخصیت پیدا کرنا جو حقیقت میں انسان کے شایاں ہو، شرائع کا مرکزی ترین
مضمون ہے۔ جس طرح یہ روا نہیں کہ یہ اشرف المخلوقات ایک اللہ کے سوا کسی ہستی کے
آگے اپنا ماتھا جھکائے یا کسی کے در پر ہاتھ پھیلائے، یعنی سجدہ اور دعاء وغیرہ۔
اسی طرح خدائی تخلیق کے اِس شاہکار کےلیے یہ بھی روا نہیں کہ ایک اللہ کے سوا یہ
کسی کی عظمت پر مرے۔ کسی کی بڑائی کی جے بولے۔ اور کسی کےلیے غیرمشروط طور
پر جذبات میں آئے۔ یا اپنی اجتماعیت کا مطلق اور بالاترین حوالہ خدا اور اس کے
پیغمبروں اور اس کی شریعت اور زمین پر انسان کو خدا کی جانب سے سونپے ہوئے کچھ
برگزیدہ مقاصد کے سوا کسی چیز کو مانے۔ ایسا کر کے یہ انسان اپنی اُس اعلیٰ حیثیت
سے جس پر خدا اِسے دیکھنا چاہتا ہے، نیچے آ جاتا ہے۔ وہ شریعت جو اونچی ڈکار لینے
یا ہاتھ منہ پر رکھے بغیر جمائی لینے کو اِس اعلیٰ مخلوق کے حق میں ناپسندیدہ
جانتی ہے، یہاں تک کہ اِس کو متنبہ کرتی ہے کہ (جمائی کےلیے) اِس کا منہ کھلا دیکھ
کر دشمنِ خدا کو اس پر ہنسائی کا موقع ملتا ہے... کیسے ہو سکتا ہے وہ شریعت نظریاتی یا
سماجی حوالوں سے اشرف المخلوقات کو کسی ایسی حالت پر رہنے دے جو اِس کی عظمت کے
منافی ہو؟ کنبے، قبیلے، برادریاں، قومیں، زبانیں، جغرافیے، معاشی مفادات
انسان کی زندگی کا حصہ ضرور ہیں لیکن یہ اس کو اپنا بندہ نہیں بنا سکتے۔ بندہ یہ
خدا کا ہے، اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اپنی اجتماعی حیثیت میں بھی۔ دھرتی اِس
کےلیے پیدا کی گئی، یہ البتہ فدا ہو گا تو آسمان والے کی محبت پر جو اِن سب نعمتوں
کا مالک ہے، یا خود اُس کی جانب سے تفویض کیے ہوئے کسی اعلیٰ و اَرفع مقصد پر۔
عربی میں ایک تعبیر چلتی ہے: عقلية القطیع۔ یعنی ریوڑ والی ذہنیت۔ بھیڑچال۔ باپ دادا کی
پیروی۔ قبیلہ و برادری کے پیچھے جانااور ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا، بےپروا
اس سے کہ خدائی میزان میں کہاں تک کوئی حق پر ہے۔ ٹوٹنے اور جڑنے کےلیے مطلق حوالہ ’میں‘ اور ’میرے لوگ‘۔ اُدھر ’وہ‘ اور ’اُس
کے لوگ‘۔ اِس کو اپنی قوم کےلیے جینا اور مرنا ہے اور اُس کو اپنی قوم
کےلیے جینا اور مرنا ہے! یہ اگر اُدھر پیدا ہوا ہوتا تو اِسی جذبے اور ولولے کے
ساتھ اُدھر سے اِس کے ساتھ لڑنے کےلیے آتا! اور وہ اگر اِدھر پیدا ہوا ہوتا تو
اِسی جوش اور حمیت کے ساتھ اِدھر سے اُس کے ساتھ لڑنے کےلیے میدان میں اترتا! محض
ایک ایسی بنیاد پر جو سراسر اتفاق an
incidental happening ہے، یہ دونوں
مرنے مرانے تک چلے گئے ہیں! یہ بات اِس عقل و شعور کی مالک مخلوق کےلیے، جو
شرائع کے نزول کا محل رہی ہے، ہرگز شایاں
نہیں۔ یہ حیوانیت کا بدترین درجہ ہے، اگرچہ اس کو ڈاروِن کا حیوان کیوں نہ
مان لیا گیا ہو۔ عقل و شعور کی مالک اِس مخلوق کو، جو مکارِم کی
بلندیاں سر کرنے کےلیے وجود میں آئی، اپنی اجتماعی وابستگی کے معاملہ میں بھی کچھ اخلاقی بنیادوں کا پابند رکھا گیا ہے۔ قوم برائے قوم،
قبیلہ برائے قبیلہ، جغرافیہ برائے جغرافیہ.. یہ سب حضرتِ انسان کے مقام سے کہتر ہے۔ قوم، قبیلہ، جغرافیہ ایسی اشیاء انسان کے وجود سے منسلک ضرور
ہیں مگر یہ اس کی زندگی میں کوئی مرکزی
حیثیت اختیار کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔ نہ یہ عزت و ذلت کا معیار ہو سکتی ہیں۔
نہ یہ کوئی ایسی چیز جس کی جے بولی جائے۔ اِن اشیاء کی نفی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ
انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ مگر اِن کی تعظیم بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ انسان کو انسان پر کسی وجہ کے بغیر برتری دینا ہے۔
انسان نے آخر کسی نہ کسی قبیلے، کسی نہ کسی قوم اور کسی نہ کسی خطے میں پیدا
ہونا ہی ہوتا ہے! ان وابستگیوں کی حد بس اتنی ہے کہ انسانوں کے مابین یہ
ایک جان پہچان کی بنیاد ہو۔ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ
لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ (الحجرات: 13)’’اور ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو۔ بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم
میں زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اُدھر دوسری برادری میں بھی انسان ہیں۔
اُدھر دوسرے قبیلے، دوسری قوم، دوسرے ملک میں بھی خدا کی ایسی ہی مخلوق آبادہے۔ اُن کے دلوں کے اندر بھی ویسے ہی دل دھڑکتے اور
ویسے ہی جذبات مچلتے ہیں۔ اور خدا کو اپنی ساری ہی مخلوق پیاری ہے۔ فضیلت کی کوئی بنیاد ہے تو یہ کہ
کوئی زندگی کا مقصد پورا کرنے میں کیسا ہے؟ یعنی وہ خدا کے کتنا قریب ہے؟ خدا کو ماننے اور خدا کے بھیجے ہوئے
رسولوں کا جہانِ انسانی کے اندر استقبال کرنے میں اس کا رویہ کیسا رہا ہے؟ نیز
اعلیٰ قدروں کو قائم کرنے میں اس کا کیا برتاؤ ہے؟ ہاں یہ وہ بنیاد ہے جس پر
انسانوں کے ساتھ قربت بھی ہو گی اور دوری بھی۔ ٹوٹنا بھی اور جڑنا بھی۔
یہ ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ اسلام جہاں ایک اصولی دستورِ حیات ہے وہاں فطرت
کے مقاصد کا بہترین نگہبان بھی ہے۔ اپنے کنبے قبیلے سے عام انسانوں کی نسبت آدمی
کو زیادہ محبت ہونا، خاص اپنی زبان اور پھر زبان میں بھی خاص اپنا لہجہ بولا جا
رہا ہو تو آدمی کا اس پر پھڑک اٹھنا، اپنے خون کےلیے آدمی میں کچھ مخصوص جذبات
موجزن ہونا، اپنے کھیتوں اور کھلیانوں سے آدمی کو ایک غیرمعمولی انس ہونا، اپنے
خطے اور اقلیم سے اس کو ایک لگاؤ ہونا، اپنی قوم سے ایک خصوصی ہمدردی اور وابستگی
رہنا، اپنے لوگوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر یا ان کو ذلت یا غلامی یا کسمپرسی میں
گرفتار پا کر آدمی کا مضطرب ہونا... یہ سب جائز اور فطری رویے ہیں۔ شریعت ہرگزہرگز ان پر قدغن لگانے نہیں آئی۔ یہ وجہ ہے کہ اوپر ابن مفلحؒ کی بیان کردہ احادیث میں یہ غلط فہمی
باقاعدہ دور کرائی جاتی ہے کہ آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا بھی کہیں ’’عصبیت‘‘
شمار نہ کیا جانے لگے۔ اپنی برادری، زبان، علاقے (شہر، صوبہ، ملک، خطے وغیرہ) سے
آدمی کی محبت دوسرے کا حق مارنے تک چلی جائے تو ہاں یہ وہ عصبیت ہے جس کی مذمت
شرعی نصوص کے اندر جابجا ہوئی ہے۔ ورنہ یہ محبت یا لگاؤ فی نفسہٖ مذموم نہیں۔
شریعت انسان کے طبعی جذبوں کے ساتھ کہیں پر بھی الجھتی نہیں بلکہ ان کی رکھوالی
اور باقاعدہ سرپرستی کرتی ہے۔ نیز ان کی صحیح حدود کا تعین کرتی ہے، تاکہ وہ خیر
کی بجائے شر نہ بن جائیں۔ اور یہ تو واقعہ ہے کہ انسان کے جائز جذبے بھی، جب
اپنی حدود سے تجاوز کر لیں، تو زمین کے اندر شر کا موجب بنتے ہیں۔ شرائع ان جذبوں
کو ایک صالح رُخ اور ایک ضبط ہی دلوانے آئی ہیں۔
*****
یہاں ہمیں دو وضاحتیں کرنی ہیں۔ ایک نیشنلزم کی بابت۔ اور دوسری ’قوم‘ کے اُس
فطری مفہوم کی بابت جو اوپر احادیث میں وارد ہوا۔
جہاں تک ان فطری رویوں اور وابستگیوں کی بات ہے جو انسان میں اس کے خون،
قبیلے، برادری، زبان اور علاقے کی نسبت سے پائی جاتی ہیں تو وہ انسان میں اُس وقت
سے ہیں جب سے انسان دنیا میں ہے۔ البتہ ’’نیشنلزم‘‘ باقاعدہ ایک تصور کے طور پر
خاصا جدید فنامنا ہے۔ ہمارا ایک طبقہ جو جدید تہذیب کی مصنوعات میں جا بجا
’اسلامی‘ چیزوں کی نشاندہی فرمانے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی ’’فطری وابستگیوں‘‘
اور عہدِ جدید کے ’’نیشنلزم‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ ہم اپنے بعض دیگر مضامین
میں قدرے تفصیل سے بیان کر چکے کہ ’’نیشن‘‘ کا
معاصر contemporary تصور انسان کے
کسی فطری جذبے مانند قبیلے، لسان یا خونی رشتے وغیرہ ایسی بنیاد پر سرے سے قائم
نہیں ہے۔ بلکہ بہت اوقات یہ ہوتا ہے کہ ماڈرن سٹیٹ ایک ہی خون یا ایک ہی کلچر یا
ایک ہی اقلیم (خطے) کے لوگوں یا ایک ہی زبان بولنے والوں کو بہت سی ’نیشنز‘ میں کاٹ
پھاڑ اور بڑی بےرحمی کے ساتھ ان کے مابین سرحدیں اٹھا رہی ہوتی ہے۔ اس کے
مقابل، بسا اوقات کچھ دُوردَراز کے نسلی یا لسانی یا اقلیمی عناصر کو ملا کر
ایک ’نیشن‘ ٹھہراتی ہے۔ یعنی ایسے دُوردَراز کے عناصر جو آپس میں ایک دوسرے کی
بولی تک نہ سمجھ پائیں اور ان کے بچے ایک دوسرے کا لباس اور رہن سہن صرف دیکھ کر
ہی ہنسنے لگیں۔ لیکن وہ ایک ’قوم‘ ہوتے
ہیں! جیسے بھارت۔ اس سے بھی بڑھ کر، بسا اوقات یہ (ماڈرن سٹیٹ) ایسا کرتی ہے کہ
ایک ہی رنگ، نسل اور لسان کے لوگوں کو تو مختلف ’نیشنز‘ میں کاٹ پھاڑ
رہی ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے پر بڑے ہی دُوردَراز کے رنگوں، نسلوں اور لسانوں کے
لوگوں کو حکم دے رہی ہوتی ہے کہ تم آپس میں ایک ’نیشن‘ بنو۔ یعنی ایک لسانی یا
نسلی یا اقلیمی وحدت کو تو تتربتر کردیا جبکہ کچھ متباعد لسانی یا نسلی یا اقلیمی
گروہوں کو ایک ہار کے اندر پرو دیا۔ دونوں کام بیک وقت، ماڈرن سٹیٹ کے نام پر! ’فطری جذبوں‘ سے بھلا اس بات
کو کیا تعلق؟ اِس بوالعجبی کے مظاہر اِس ماڈرن جہان میں آپ جابجا دیکھ سکتے ہیں۔ حق یہ کہ ماڈرن سٹیٹ ایک بےرحم چیز ہے
جس میں طبعی جذبوں اور رشتوں کا ہزارہا انداز سے قتل ہوتا ہے۔
آپ غور فرمائیں تو ماڈرن سٹیٹ کے زیرِاستعمال لفظ ’نیشن‘ وہ معنیٰ نہیں دیتا
جو آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے لفظِ ’’قوم‘‘ سے ایک طبعی سے انداز میں آپ کے ذہن
میں آ جاتا تھا۔ حق یہ ہے کہ ’قوم‘ کا
وہ معنیٰ جو آج سے سو سال پہلے آپ لیتے رہے تھے، ’نیشن‘ کے تحت لانا یہاں
ایک اشکال کا موجب ہو رہا ہے۔ آپ غور فرمائیں تو ’قوم‘ کے مقابلے پر ایک اور لفظ
تاریخی طور پر ہماری لغت میں مستعمل رہا ہے: ملت۔ یعنی ایک ایسی اَرفع اجتماعیت جس
کے مقابلے پر آدمی اپنی قوم، اپنے خون اور اپنی زبان وغیرہ ایسی طبعی وابستگیوں کو
ہیچ جانتا اور بوقتِ ضرورت اس پر قربان کر ڈالتا ہے۔ جس کی بابت اقبالؒ نے
کہا تھا ’بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا۔ نہ تورانی رہے باقی
نہ ایرانی نہ افغانی‘۔ حق یہ کہ یہ ’’ملت‘‘ کا
تصور بھی انسان کے اندر فطری ہے، کیونکہ یہ دین سے پھوٹتا ہے؛ اور دین انسان کے اندر
فطری ہے۔ ’’ملت‘‘ یعنی کوئی ایسی مقدس وحدت جس پر آدمی اپنے خون، قبیلے، قوم، رنگ
اور لسان ایسی وابستگیوں کو قربان کر دینے میں ایک فخر محسوس کرے۔ ’’ملت‘‘ کے اِس
تصور سے انسان کبھی جان نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی انسان اس سے باہر نہیں آیا۔ بس ہوا
یہ کہ دورِحاضر کے انسان کا ’’دین‘‘ اور ’’خدا‘‘ یکسر بدل گیا تو طبعی بات تھی کہ
’’ملت‘‘ بھی اسی قدر ایک مختلف صورت دھار لیتی۔ کسی مافوق الفطری ہستی (یا ہستیوں)
کو اس منصب سے معزول کر دینے کے بعد کہ وہ انسان کی اجتماعیت کےلیے ایک حوالہ بن
کر رہے، ’’مادہ‘‘ اور ’’معاشی مفادات‘‘ آج حضرتِ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا اور
سب سے اَرفع حوالہ ہے۔ یہی اس کا دین، یہی اس کا خدا۔ پس لازم تھا کہ ’’مادی
مفادات‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے اجتماعی یونٹ انسان کی زندگی میں ’’ملت‘‘ ہی کا
معنیٰ ادا کرنے لگیں۔ اِس چیز کو ماڈرن لغت ’’نیشن‘‘کہتی ہے۔ کوئی ’نیشن‘
(مادی مفادات کا ایک خودمختار اجتماعی یونٹ)جب کبھی وجود میں آیا تھا تب کونسے
عوامل اس کے ایک ’’یونٹ‘‘ بن جانے کے پیچھے کارفرما رہے ہوں گے، ماڈرن نیشن کے
یہاں تقریباً ایک غیرمتعلقہ مسئلہ ہے۔ مادی مفادات کا ایسا کوئی یونٹ ’بننے‘ کی
وجہ تو کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ ایسے کسی یونٹ (نیشن) کی تعریف میں انسان کے
طبعی رشتوں یا رہن سہن یا اقلیمی حقیقتوں کو کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ پکی بات ہے اور
ہمارے اسلامی جدت پسندوں کو لازماً اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔ یہاں ایک جنس
کے لوگ کئی ’نیشنز‘ میں کٹےپھٹے ہو سکتے ہیں، جیسا کہ پیچھے ہم کہہ چکے۔ اس کے
مقابلے پر، ہو سکتا ہے بہت سی اجناس اور اقوام مل کر بھی ایک ’نیشن‘ بنانے کےلیے
کم ہوں۔ اِس معاملہ میں کوئی قاعدہ قانون نہیں۔ یہاں چند ہزار لوگ ایک فل فلیج
’نیشن‘ ہو سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر کئی کروڑ لوگ مل کر اپنے آپ کو رائج
معنوں میں ’نیشن‘ کہیں تو گردن زدنی ہو سکتے ہیں، (مانند کشمیری یا
فلسطینی)۔ یہاں چند درجن مربع کلومیٹر کی ایک ’نیشن‘ ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس سے
سو گنا وسیع رقبے کے لوگ اپنے لیے ’نیشن‘کا لفظ بول لیں یا ایسا کوئی مطالبہ ہی
زبان پر لے آئیں تو ان پر بغاوت کی فردِ جرم لگ سکتی ہے۔ غرض انسان کی طبعی
و اقلیمی تقسیمات کو ’’نیشن‘‘ کے ماڈرن تصور سے کوئی علاقہ نہیں۔ ماڈرن
’’نیشن‘‘ کے تحت آپ درحقیقت کسی طبعی معنیٰ کی ’قوم‘ کے بجائے ’’ملت‘‘ کا ایک معنیٰ زیادہ قوی پاتے ہیں۔
’’ملت‘‘ جس پر آپ کو اپنا رنگ، نسل، زبان اور (طبعی معنیٰ کی) قوم وغیرہ سب کچھ
قربان کرنا اور اپنے اِس عمل پر ایک راحت اور سکون محسوس کرنا ہوتا ہے۔
یہاں البتہ ہم کہتے ہیں، یہ طبعی رشتے اور جذبے مانند خون، قوم، قبیلہ، لسان،
اقلیم وغیرہ ’’انسان‘‘ کی ساخت کرنے والی کچھ معتبر چیزیں ہیں۔ ان کو بھی ایک درجہ
کی حرمت حاصل ہے، کیونکہ یہ انسان کی سرشت سے برآمد ہیں۔ (رشتوں کی حرمت شرائع کا
ایک بڑا موضوع ہے: وَالَّذِينَ
يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ)۔ ان کو قربان کیا جا سکتا ہے تو کسی ایسی چیز پر جو ’’انسان‘‘ کی سرشت میں
اس سے بھی برگزیدہ اور مقدس ہو اور جوکہ کوئی ’’مادی مفادات كا یونٹ‘‘ نہیں ہو
سکتا، بلکہ انسان کا وہ کائناتی دین یعنی ’’اسلام‘‘ ہی ہو سکتا ہے جس کےلیے یہ
زمین و آسمان اور خود یہ انسان وجود میں آیا۔ ’’رنگ‘‘، ’’نسل‘‘، ’’زبان‘‘،
’’رشتے‘‘ باقاعدہ انسان کے عناصرِ وجود ہیں۔ ’’انسان‘‘انہی چیزوں کے اجتماع سے
تشکیل ہوتا ہے۔ اِس ’’انسان‘‘ کو گزند پہنچانے پر شرائعِ آسمانی قدم قدم پر آپ کے
آڑے آئیں گی۔ ’’انسان‘‘ سے مقدس چیز روئےزمین پر فی الحقیقت نہیں۔ یہ
’’انسان‘‘ اگر قربان ہو سکتا ہے تو صرف ایک ہستی پر؛ اور وہ ہے اِس کا معبود۔ ورنہ
کوئی اِس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
یہ ہے وہ مقام جہاں سے ’’نیشنلزم‘‘ (عبادتِ مادہ) اور ’’توحید‘‘ (دینِ
فطرت) کا تعارض آتا ہے۔ ’’ملت‘‘ کا
تصور البتہ انسان کی زندگی میں ویسے کا ویسا رہا۔ یہ ناگزیر تھا اور رہے گا۔ مراد
یہ کہ انسان کی ’’طبعی‘‘ وابستگیوں کو اس کی کسی ’’مطلق‘‘ وابستگی پر قربان ہونا
ہی ہوتا ہے۔ اِس کا نام ہے ’’ملت‘‘۔ نیشنلزم اس ’’ملت‘‘ کے خانے کو پُر کرنے
کےلیے کسی بھی ’’مادی مفادات‘‘ پر قائم یونٹ کو قبول کر لیتا ہے ،خواہ اس ’’یونٹ‘‘
کے وجود میں آنے کے پیچھے کیسے ہی تاریخی عوامل رہے ہوں۔ (اس لحاظ سے ہم کہیں گے،
ایک لایعنی یونٹ جو کسی بھی وجہ سے پایا جا سکتا ہے اور کسی بھی وجہ سے تحلیل ہو
سکتا ہے) اور پھر اس لایعنی یونٹ کے گھاٹ پر ’’انسان‘‘ کو باقاعدہ قربان کر واتا
ہے؛ کیونکہ اصل چیزاس کے نزدیک انسانی اجتماعیتوں کے مادی مفادات ہیں۔ البتہ
’’ملت‘‘ کا معنیٰ نیشنلزم میں بھی
ختم نہیں ہوتا۔ کمیونزم بھی یہ ’’ملت‘‘ کا
معنیٰ ختم نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ کوئی بھی نظریہ ’’ملت‘‘ کا تصور ختم نہیں کر سکتا، صرف اس کو
اپنے دیے ہوئے ’’خدا‘‘ کے ساتھ ایک نسبت دے سکتا ہے۔ اور دیتا ہے۔ اس نیشنلزم (قوم
پرستی) کے مقابلے پر توحید (خداپرستی) البتہ یہ کہتی ہے کہ انسان اس سے کہیں زیادہ
برگزیدہ اور اَرفع ہے کہ اس کے طبعی رشتے اور جذبے کسی ’’مادی وحدت‘‘ پر
قربان ہوں۔ یہ قربانی انسان سے اگر مانگی جائے تو ایک ایسی برگزیدہ وحدت
کےلیے جس کا حوالہ خدائےبرحق کی عبادت ہو۔
*****
یہاں سے ہم ایک اور مبحث میں داخل ہوتے ہیں اور وہ ہے ’’مسجدوں اور اذانوں‘‘ کا پاکستان۔ دیس کا وہ تصور جو لاالٰہ الااللہ سے تشکیل پاتا ہو (’اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی
ہے‘)۔ یہ ایک جینوئن مسئلہ ہے اور دو فریقوں میں سے ایک کے دوسرے کو مکمل طور پر پچھاڑ دیے بغیر ختم ہونے
کا نہیں۔ اس میں ہرگز کوئی تعجب ہے نہ اچھنبا۔ دو نظریوں میں بلاشبہ
ایسی ہی ایک آویزش conflict ہے۔
ان دونوں کا کیس سمجھنا ضروری ہے: دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پنجابی کو سندھی،
پشتونی اور بلوچی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک ’’وحدت‘‘ بننا اور رہنا ہے۔ اس وحدت کا
نام اِس وقت ’’پاکستان‘‘ ہے، یہ بھی دونوں میں طے ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ اِس
وحدت کا حوالہ کیا ہو؟ یعنی جب ایک بلوچی یہاں کے پنجابی سے خدانخواستہ علیحدہ
ہوجانے کی بات کرےتو اس بلوچی کو دُکھ سُکھ پنجابی ہی کے ساتھ سانجھا رکھنے کےلیے
واسطہ کسبات کا دیا جائے؟ ایک سندھی کو
پنجابی سے جڑے رہنے کی تاکید کرتے وقت آپ کی بنیاد اور دلیل کیا ہو، کہ کیوں وہ
پنجابی اور پشتونی ہی کے ساتھ جڑا رہے؟ کوئی ایک جنس اگر بالفرض یہاں یہ سمجھ بھی
رہی ہو کہ اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، حتیٰ کہ اگر کبھی اس بندھن میں
(خدانخواستہ) کسی کو فی الواقع محرومیتوں کا سامنا ہو (گھروں میں آخر کیا کچھ نہیں
ہو جاتا) تو بھی وہ اس بڑی وحدت کی محبت میں صبر و برداشت ہی سے کام لے اور ’ربطِ
ملت‘ کو ہر حال میں اور ہر شرط پر قائم رکھے، ایسا تقاضا رکھتے وقت یہاں کی ایک
جنس کو کونسے ربط کا حوالہ دیا
جائے؟ لاالٰہ الااللہ کا رشتہ؟ جوکہ اٹوٹ اور دائمی ہے۔ اس رشتے کو اپنی
اجتماعیت کی ترکیب میں اگر مرکزی عنصر کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ
دونوں قیامت تک بھائی ہیں، اس کے ٹوٹنے کا
ان شاءاللہ سوال ہی نہیں، بس اِسی کا حوالہ قیامت تک دیا جا سکتا ہے۔ یا پھر
کوئی اور رشتہ؟ قوم پرست حضرات یہاں فرماتے ہیں: خالی ’’نیشن‘‘
ہونے کا واسطہ۔ ( یعنی ہم نے فرما دیا کہ تم نیشن ہو، تو بس نیشن ہو!) ان کے خیال میں بس یہی کافی اور ضروری ہے کہ اس کے دم سے
ایک بلوچی پنجابی کے ساتھ اور ایک سندھی پشتون کے ساتھ سدا یکجان رہے۔
یہاں وہ علیحدگی پسند پوچھتا ہے کہ ’نیشن‘ تو سراسر ایک ضرورت کی چیز اور ایک
ناپائیدار، اضافی اور غیرمعیَّن
حوالہ ہے، ’نیشن‘ کو ایک سے دو ہوتے بھلا کوئی دیر لگتی ہے؟ اِس دنیا میں کیا
لوگ ایک دوسرے سے ملکالگ نہیں کرتے؟ ’نئی قومیں‘ معرضِ وجود میں آتی
کیا آپ نے نہیں سنیں؟ جتنا مرضی چھوٹا کردو ایک ملک کو اور جتنی مرضی قومیں ایک قوم کے اندر سے نکال لو، صرف اس
کےلیے عالمی قوتیں آپ پر مہربان ہونی چاہئیں (اور وہ آج عالم اسلام کے
ہر علیحدگی پسند پر غیرمعمولی حد تک مہربان ہیں)، کوئی قاعدہ قانون تھوڑی ہے اِس
ماڈرن جہان کے اندر ’ایک ملک‘ کو ’’کئی ملک‘‘ یا ’کئی ملکوں‘ کو ’’ایک ملک‘‘ کر
ڈالنے کے معاملہ میں؟ یہ تو زور چلنے کی بات ہے، آپ دلیل دینا چاہ رہے ہیں!
پس یہ ہے وہ اصل سوال جس پر دو نظریے پچھلے کئی عشروں سے باہم گتھم گتھا ہیں:
کس چیز پر اپنے خون، لسان اور اقلیم کے رشتے قربان کر دینے کا مطالبہ یہاں کی
مختلف و متنوع اجناس کے آگے رکھا جائے؟ اور کس دلیل سے؟
یہ سوال معروضی حالات میں البتہ کچھ زیادہ ہی اہم ہو جاتا ہے جب افق پر
منڈلاتے کچھ ناگہانی خطرات کی طرف آپ کی نگاہ اٹھتی ہے۔ عالم اسلام کی چند ابھرتی
قوتوں مانند پاکستان اور ترکی وغیرہ کو ’عراق‘ بنا کر رکھ دینے کی کچھ
زورآور کوششیں اس وقت پراسیس میں ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے معاملہ ’بھارتی کینہ و
بغض‘ سے بڑی ایک جہت اختیار کر چکا، یعنی کچھ ’عالمی‘ تیور۔ اپنے استحکام کےلیے
یہاں آپ کو کچھ ایسے مضبوط حوالوں کی ضرورت پڑنے والی ہے جو آنے والے ایام
کے زوردار جھٹکے سہہ لیں۔ یہاں عصبیتوں کی ایک نئی آگ بھڑکانے کی کچھ غیرمعمولی
کوششیں اندر اور باہر سے بیک وقت ہونے والی ہیں۔ مسلم سرزمینوں میں خدانخواستہ
خدانخواستہ آپ کو کئی ایک ’مکتی باہنیوں‘ سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ (چونکہ ان عصبیتوں
کو بیک قت سیکولرزم کا تڑکا بھی لگا ہو گا، نیز ان کا مالیاتی سرچشمہ بھی وہی ہو
گا جو یہاں کے بہت سے ابلاغی، تعلیمی اور ’این جی او‘ پروگراموں کا ہے، لہٰذا
میڈیا اور دانش پر حاوی ایک طبقہ بڑی دیر تک ان ممکنہ ’مکتی باہنیوں‘ سے ہماری
توجہ پھیرتا رہے گا۔ پڑوس سے ہونے والی ایک کھلم کھلا مداخلت کو جس کا دائرہ
بلوچستان تک پھیل چکا، نرا ’کچھ لوگوں کا وہم‘ تو یہ بڑی دیر سے قرار دے رہا ہے۔
اور اب اس کینہ پرور ’پڑوس‘ کے ساتھ کچھ ’سات سمندر پار‘ عوامل بھی مل جائیں تو
کیا ہے)۔ آئندہ ایام میں خاصا امکان ہے کہ ’سیکولرزم‘ اور ’عصبیتیں‘ یہاں
ایک غیرعلانیہ حلیف کے طور پر آئیں۔ وجہ اس کی بڑی سادہ ہے اور واضح: دونوں اپنی
غذا کےلیے کہیں ’بیرون‘ پر سہارا کر رہے ہیں اور دونوں کا مصدرِاِلہام source of inspiration اس وقت تقریباً ایک
ہے۔
*****
اس موضوع کی کچھ مزید جہتیں ہم اپنی آئندہ تحریر میں زیربحث
لائیں گے ان شاءاللہ، بعنوان’’مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان‘‘۔