مسجدوں
اور اذانوں کا پاکستان
حامد
کمال الدین
پیش
ازیں ہمارے شائع ہو چکے ایک مضمون ’’نیشنلزم
اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے‘‘ کے
تسلسل میں۔
*****
ہمارے
فقہاء بہت پہلے کہہ چکے، اصطلاحات میں کوئی تنگی نہیں۔ ایک ہی لفظ مختلف ادوار یا مختلف
طبقوں میں مختلف معنیٰ دے، عین ممکن ہے اور اس
میں چنداں مضائقہ نہیں۔ یہ بات بحث و جدل کا سبب نہ بننی چاہئے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کہاں ایک لفظ کا کیا مطلب
لیا جاتا ہے۔ اصرار کریں تو حقائق پر نہ کہ لفظوں اور پیرایوں پر۔
العِبْرَةُ بالمَعَانِي، لَا بِالألفَاظِ وَالمَبَانِي.
ایک
علمی گفتگو کی حد تک تو بالکل ایسا ہے ۔ رہ گیا الفاظ کا عوامی استعمال تو
اصطلاحات ایک پھسلن بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی یہ اندیشہ کہ ایک دَور یا ایک طبقے میں
مستعمل ایک لفظ کا مفہوم آپ کسی دوسرے دَور یا دوسرے طبقے میں مستعمل اُسی لفظ کے
مفہوم کے ساتھ خلط کر جائیں۔ یہاں سے؛ کچھ فکری وارداتیں ہو جانے کا امکان رہتا
ہے۔ لہٰذا اصطلاحات کے مسئلہ کو اتنا سادہ لینا بھی درست نہیں۔ اب مثلاً ’’قوم‘‘ کا لفظ حدیث میں کیا اُسی معنیٰ کے اندر
استعمال ہوا ہے جو ’’نیشن‘‘ کے تحت ہمارے سیاسی استعمال میں آج ہے؟
«قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ
قَوْمَهُ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ
قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ» ’’میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت
شمار ہو گا کہ آدمی کو اپنی قوم سے محبت ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت شمار
ہو گی یہ بات کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم میں ساتھ دے‘‘۔
یہاں ظاہر ہے قوم سے مراد پورے چار عناصر (آبادی، رقبہ،
حکومت اور حاکمیتِ اعلیٰ) کے اجتماع سے سامنے آنے والی وہ ایک مخصوص انسانی وحدت نہیں جو ’’نیشن‘‘ کے
زیرعنوان دورِحاضر میں معروف ہے۔ بلکہ ’’قوم‘‘ سے مراد یہاں وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ
دو صدی پہلے تک خاصے طبعی سے انداز میں آدمی کے ذہن میں آ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں
اس سے مراد اسی طرح کی اشیاء ہیں۔ جیسے اُس
زمانہ میں بنو تغلب، بنو بکر یا قحطان، ربیعہ اور مُضر وغیرہ۔ پس ضروری ہے کہ ’’قوم سے محبت‘‘ کا وہ حوالہ جو حدیث سے سمجھ آتا ہے اپنے
اُس طبعی معنیٰ پر رہے۔ اس کو فی زمانہ ’’نیشن‘‘
کا وہ مخصوص معنیٰ پہنانا جولفظ ’’قوم‘‘ کے اُس طبعی معنیٰ سے ہٹ کر ایک
چیز ہے، در ست نہ ہو گا۔ (اس نقطہ کو ذرا آگے چل کر ہم مزید کھولیں گے)۔ حدیث میں
مذکورہ ’’قوم‘‘ سے مراد آدمی کی برادری یا ہم زبان یا ہم علاقہ لوگ رہیں گے۔ اب
جہاں تک برادری، زبان یا علاقہ ایسی اشیاء کا تعلق ہے تو ان کو دیکھنے کا حوالہ
بڑے قریب کا بھی ہو سکتا ہے اور خاصے دُور کا بھی۔ اپنی اپنی نسبت سے ایسا ہر
دائرہ آدمی کی ’قوم‘ ہو گا۔ مثلاً ایک ہاشمی کےلیے قریش کے بقیہ خانوادوں کے
مقابلے پر تو بنوہاشم ہی اس کی قوم ہوں گے
لیکن کنانہ کے بقیہ گوتوں کے مقابلے پر پورا قریش اس کی قوم کہلائے گا۔ جبکہ
عدنانی شاخوں کے مقابلے پر صرف قریش نہیں تمام کنانہ اور اس سے اوپر کی سطح پر
تمام عدنان اس ’’ہاشمی‘‘ کی قوم ہو گا۔ علیٰ ھٰذالقیاس۔ (بڑے دائرے کے مقابلے پر
چھوٹا دائرہ آدمی کی ’قوم‘ کہلائے گا)۔ یہ ہے حدیث میں آنے والے اِس لفظ کا مفہوم۔
یہاں سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، اور میں
معذرت خواہ ہوں اگر کچھ لوگوں کے ’نیشنلسٹ‘ جذبات اس سے مجروح ہوں۔ وہ سوال یہ ہے
کہ حدیث کا ذکرکردہ یہ طبعی ’محبت اور لگاؤ‘ جو آدمی کو اپنی ’قوم‘ سے ہو جاتا ہے،
اس کا رخ اور ترتیب کیا ہے: آیا یہ لگاؤ ’وسیع‘ دائرہ سے جنم پا کر ’تنگ‘ کی طرف
آئے گا یا ’تنگ‘ سے جنم پا کر ’وسیع‘ کی طرف
جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، آدمی کی
یہ ’طبعی محبت‘ اپنے قریب کے خونی رشتوں یا خاص اپنے محلے اور گاؤں کے لوگوں سے شروع ہو کر اپنے شہر
اور اپنے صوبے وغیرہ سے ہوتی ہوئی اپنے ملک تک جائے گی؟ یا اپنے ملک سے شروع ہو کر
اپنے صوبے اور اپنے شہر سے ہوتی ہوئی اپنے محلے اور گاؤں تک پہنچے گی؟ ظاہر ہے،
محبت کا حوالہ اگر طبعی ہے (نظریاتی نہیں ہے)
تو اس کا آغاز چھوٹے دائرہ سے ہو گا۔ یعنی سب سے پہلے آپ کو اپنا محلہ یا
گاؤں پیارا ہو گا، پھر اپنا شہر، پھر اپنا صوبہ اور پھر اپنا ملک، پھر اس سے کوئی
بڑا دائرہ (اگر ہو، جیسے مثلاً ’یورپی یونین‘ یا ’عرب لیگ‘ وغیرہ)۔ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے الٹ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس طبعی محبت کے
برعکس، ہم سب کے نزدیک یہ واجب اور ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے وسیع تر دائرہ ہی سے
زیادہ محبت کی تاکید کرائی جائے۔
دنیا
میں پائے جانے والے تمام قومی و مِلّی
فلسفے اس پر متفق ہیں کہ معاشرے میں ایک وسیع تر دائرہ کی محبت پر ایک تنگ تر
دائرہ کی محبت کو قربان کر دینے ہی کی مسلسل تلقین کی جائے۔ اِسی سے انسان ’’بڑا‘‘
ہوتا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ’’طبعی محبت‘‘
کا رخ اس سے برعکس ہے! بالفاظِ دیگر، کوئی
محبت یہاں ضرور ایسی ہونی چاہئے جو آپ کی ’طبعی محبت‘ پر غالب ہو۔ اس کے بغیر
انسانی اجتماعیتوں کا گزارا نہیں۔ نیز اس کے بغیر انسان کا خودغرضی سے چھٹکارا
پانا متصور نہیں۔ خودغرضی یعنی خاص اپنی ذات یا اپنی جنس ہی کو بقیہ انسانوں پر
ترجیح دینا۔ پس کوئی نہ کوئی دائرہ انسان کو ایسا
رکھنا ہو گا جس پر اپنی ذات یا اپنی جنس کو ترجیح دینا اس کے حق میں عیب کہلائے
اور وہ بار بار اس سے بلند ہو کر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مخلوق ثابت کرنے کی
’آزمائش‘ سے گزارا جائے۔ یہ ایک فارِق divider ہے جو اس کی ’’انسانیت‘‘ کو اس کی ’’حیوانیت‘‘
سے ممیّز کرتا ہے۔ وابستگی کے اِس بالا و برگزیدہ دائرہ کی گو اپنی ایک حد ہونی
چاہئے، یہ بھی سبھی کا ماننا ہے۔ اس چیز کا نام ہماری تاریخی اصطلاح میں ’’ملت‘‘
ہے۔ انسان کی انسانیت کا ظہور کروانے کےلیے یہ ناگزیر ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے
کہ اِس خانہ کو اپنی حیاتِ اجتماعی میں آپ کس اعلیٰ چیز سے پُر کرتے ہیں؟ واضح
رہے، اِس خانہ کو ختم کرنا آپ کے بس میں
نہیں۔ اِس کو آپ نے پُر ہی کرنا ہے۔
اب
ایک بات تو یہ طے ہوئی کہ طبعی (جبلِّی) محبت بالکل اور چیز ہے جبکہ ہمارا اور
’جدید انسان‘ کا ما بہ النزاع ایک
بالکل اور چیز۔ دوسرا، یہ طے ہوا کہ طبعی (جبلِّی) محبت کو قربان ہونا ہی
ہونا ہے، اس سے مفر نہ ہم ’قدامت پسندوں‘ کو ہے اور نہ ان داعیانِ جدت کو۔ سوال بس یہ ہے کہ وہ محبت کیا ہو جس کا آدمی کی جبلِّی
محبت پر غالب ہونا فرض رکھا جائے؟ وہ
کیا حوالہ ہو جس پر آدمی کو اپنے خون، نسل، اقلیم اور زبان ایسے عزیز رشتے خوشی
خوشی قربان کر دینے چاہئیں، اور ا س کی دلیل کیا ہو؟ بھرنے کو تو میڈیا اور
تعلیم آج جس چیز میں بھی رنگ بھر دے اور اسے ’یہی دستورِ دنیا ہے‘ (وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ
يَفْعَلُونَ) کا
ایک ’ناقابلِ رد‘ سٹیٹس دلوا دے، یہاں تک کہ ایک ذہن سازی کے نتیجے میں پہلی و
دوسری عالمی جنگ میں ہندوستانی ماؤں
کے بچے تاجِ برطانیہ کی عظمت پر قربان ہونے کےلیے جاپان اور سنگاپور کی خاک چھاننے
جا پہنچتے ہیں، لیکن اس بات کی دلیل کیا ہو
کہ کسی چیز کی عظمت پر لوگ اپنے طبعی رشتے اور وابستگیاں فخر سے وار دیا
کریں؟
ہم
دیکھ آئے، لفظ ’’قوم‘‘ کا وہ جبلِّی مفہوم بالکل اور ہے جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ نیچے سے
شروع ہو کر اوپر جاتا ہے۔ جبکہ اِسی لفظ کا یہ ’’نیشن‘‘ والا نظریاتی مفہوم جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ اوپر سے شروع ہو کر نیچے
آتا ہے، بالکل اور ہے۔ بقیہ گفتگو میں اب ہم ان دونوں کو الگ الگ رکھیں گے۔ آسانیِ
مبحث کی خاطر، پہلے کےلیے ہم بولتے ہیں: جبلِّی محبت، یا جبلِّی قوم۔ جبکہ دوسرے
کےلیے: نظریاتی محبت، یا نظریاتی قوم۔
انسان
کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی فی الحقیقت اپنی اپنی جگہ اور گنجائش ہے۔ حیاتِ
اجتماعی کے اِن دو الگ الگ خانوں کو آپ نے الگ الگ ہی پُر کرنا ہوتا ہے۔ لفظ
’’قوم‘‘ کا ماڈرن استعمال ذرا دیر نظرانداز کر دیں تو انہی دو مفہومات کو الگ الگ ادا کرنے کےلیے
ہمارے تاریخی استعمال میں دو لفظ رہے ہیں: ایک، قوم۔ دوسرا، ملت۔ قوم کا حوالہ:
جبلِّی۔ اور ملت کا حوالہ: نظریاتی۔ (’نظریاتی‘ یا ’نظریہ‘ کےلیے ہمارے ہاں ’عقیدہ‘ کا لفظ مستعمل رہا ہے)۔ حق یہ ہے کہ اِن دو لفظوں ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کو آج بھی آپ ان کے الگ الگ معانی میں استعمال
کریں تو یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔
1) اول الذکر یعنی ’’قوم‘‘ آپ کو بہت عزیز ہوتی ہے، خود
شریعت آپ کے اِس (طبعی و جبلِّی) جذبے
کا بھرپور لحاظ کرتی ہے۔ بس اس کےلیے قید اتنی سی رکھتی ہے کہ اس کی محبت میں بہہ
کر آپ دوسرے پر ظلم کرنے تک نہ چلے جائیں۔ خود اپنی قوم کو آپ حق اور انصاف کے
اصولوں کا پابند رکھنے کا مکلَّف رہتے ہیں۔ مگر یہ (جبلِّی معنیٰ
کی) ’’قوم‘‘ ایک لحاظ سے انسان کے حیوانی خصائص میں آتی ہے۔ یعنی اپنی جنس سے آدمی
کا ایک تعلق اور اس کے مقابلے پر دوسری اجناس سے اس کا ایک بُعد، خودبخود، طبعی طور
پر۔ یہ بھی ایک درجہ میں انسان کی ضرورت یقیناً ہے۔ جس طرح اپنے نفس کی محبت انسان
میں سب سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ اسی سے زندگی کو تمام تر مہمیز ملتی ہے، اسی
طرح اپنی اپنی جنس کے ساتھ لگاؤ انسانی زندگی کو ایک رنگا رنگ سرگرمی عطا کرتا ہے۔
2) البتہ ’’ملت‘‘ اس کے مقابلے پر انسان کے خالص انسانی
خصائص میں سے ہے۔ عقل و شعور ملا ہونے کے باعث انسان کو دراصل ’’اجتماع‘‘ اور
’’تعاونِ باہمی‘‘ کا ایک اعلیٰ تر
تصور بھی عطا ہوا ہے۔ ایسے ایک ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاون‘‘ کا حوالہ انسان کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ’’ملتیں‘‘ وجود میں آتی ہیں۔ جس
قسم کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ انسان کی اختیارکردہ ’’اجتماعیت‘‘ میں کارفرما
ہوں گے اسی درجہ کی ’’ملت‘‘ پر وہ پایا جائے گا۔ چونکہ لازم ہے کہ انسان کے انسانی خصائص اس کے بہیمی
خصائص پر حاوی ہو کر رہیں، اس لیے واجب ہوا کہ انسان
کی ’’ملت‘‘ اس کی ’’قوم‘‘ پر مقدم ہو۔ اصولاً اس پر نہ اہل مشرق کو اعتراض ہے نہ
اہل مغرب کو۔ قدیم انسان کو اور نہ جدید انسان
کو۔ فرق صرف یہاں سے آتا ہے کہ ’’ملت‘‘ کا خانہ آپ کس چیز
سے پُر کرتے ہیں۔
ایک خلط ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم ’’نیشن‘‘ کا مطلب ایک
روایتی (و جبلِّی)
معنیٰ کی ’’قوم‘‘ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہماری روایتی لغت میں ’’نیشن‘‘ کا معنیٰ
ادا کرنے کےلیے ایک اور لفظ قدرے مناسب تر پایا گیا ہے اور وہ ہے ’’ملت‘‘۔ اس ’’ملت‘‘ کی بنیاد آج
’’ریاست‘‘ ہے تو وہ اس لیے کہ ’’ریاست‘‘ اِس جدید انسان کا دین ہے
نہ کہ محض ایک انتظامی اکائی۔ یہ ’’ریاست‘‘ چرچ کو انسان کی زندگی میں مرکزی ترین حیثیت رکھنے کے اُس پرانے منصب سے معزول
کر کے اور ’’چرچ‘‘ کی جگہ یہاں پر خود کو رونق افروز کروا کر سامنے آئی ہے۔ اب
’’ریاست‘‘ محض کسی حکومتی انتظامِ کار کا نام نہیں؛ اب یہ انسان کی نظریاتی
وفاداری اور جہان میں اس کا باقاعدہ تشخص ہے۔ یوں ’’ملت‘‘ اب بھی انسان کے
قوم، قبیلہ، رنگ اور نسل وغیرہ ایسی جبلِّی اشیاء پر غالب رہی۔ فرق یہ آیا کہ ’’ملت‘‘ اپنے وجود کےلیے اب
’’چرچ‘‘ نہیں بلکہ ’’ریاست‘‘ سے رجوع کرنے لگی
ہے۔ غرض جدید انسان کا دین بدلا، خدا بدلا، تو کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کی ملت نہ
بدلتی؟ اِس کا خدا چونکہ دھرتی پر ہی آ بیٹھا ہے اور اِس کا دین اِس دھرتی والے خدا
ہی کو زیادہ سے زیادہ آسودہ کرنا، لہٰذا اِس کی ’’ملت‘‘ بھی اِسی دھرتی سے وابستہ
ٹھہری۔ پس ملت بدل گئی، یہ درست ہے۔ ملت
کا حوالہ اب آسمان نہیں رہا بلکہ دھرتی ہو گئی، یہ سچ ہے۔ لیکن ملت انسان کی جبلِّی وابستگیوں پر غالب
رہے گی، یہ چیز ویسے کی ویسے برقرار ہے۔ اور یہ چیز کبھی نہیں بدلے گی۔ انسان کی نظریاتی
وابستگی
اس کے ہر رشتے اور تعلق پر بالاتر رہے گی، یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔
’’معاشرے‘‘ نام کی چیز اس کے بغیر پائی
ہی نہیں جا سکتی؛ کیونکہ ’’معاشرہ‘‘ خالصتاً ایک انسانی عمل ہے اور ’ریوڑ‘ سے خاصی
منفرد ایک چیز۔
عالم
اسلام میں آئیں تو سب کشمکش آج اس پر ہے، اور ہو گی، کہ ہم اپنی اُسی ملت پر اصرار
کریں جو چودہ سو سال سے ہماری نظریاتی تشکیل کرتی آئی؛ اور اُن کے دیے ہوئے اِس
نئے تصورِ ملت کو اپنے لیے قبول نہ کریں۔ ’اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ
کر‘نے کا اپنا وہ کھلم کھلا اعلان نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کے عملی اطلاقات کی
طرف پورے اعتماد، جرأت، اور بےپروائی سے بڑھیں اور اسی کی بنیاد پر یہاں اپنی
اجتماعی زندگی کی بلند و بالا تعمیرات اٹھائیں، خواہ اسلام کی اِس (مِلّی) حیثیت
کو ناپید کروانے کے خواہشمند جہان میں ہماری اس سرگرمی کو کتنا ہی ناپسند کریں (وَلَو
کَرِہَ المُشۡرِکُونَ)۔ ہاں یہ ایک بڑا میدانِ جنگ ہے جو
دو نظریوں کے مابین ابھی مزید سجے گا، عالمی طور پر بھی اور کسی حد تک مقامی طور
پر بھی۔ بقیہ مضمون میں اب ہم اس پر کچھ بات کریں گے۔
*****
لوگوں
کا خیال ہے ’’نیشن‘‘ (ملت) کےلیے صحیح حوالہ تجویز کرنے پر دنیائے اسلام نے اتباعِ
مغرب کا طوق برضاورغبت پہن لیا ہے۔ اور یہ کہ
عالمِ اسلام میں یہ معاملہ حتمی طور پر سرے لگ چکا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایک
بڑی خلقت یہاں اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔ بہ برحق ہے۔ اپنی سب جبلِّی وابستگیوں (مانند
قوم، نسل، زبان اور اقلیم وغیرہ) کو اس ملک پر ہم ہزار بار قربان کرتے ہیں۔ بلکہ
جتنا ہم اپنے ملک کو چاہتے ہیں اتنا کوئی قوم اپنے ملک کو چاہ ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ
اُن کی چاہت کا کُل حوالہ یہی دنیا کی فانی محبتیں ہیں (مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا)۔ جبکہ ہماری محبت کا حوالہ اِس دنیاو ما فیہا سے بڑا۔ (ایک
ایسی چیز جو خدا و آخرت پر ایمان نہ رکھنے والی قوم کو کبھی عطا نہیں ہو سکتی)۔ مگر یہ
خلقتِ حق اپنےاِس لازوال رشتے کو جو نام اور حوالہ دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ
ان تمام حوالوں سے منفرد ہے جو مغرب کی چربہ قوموں کے ہاں چلتا ہے، اور یہ ہے
لاالٰہ الا اللہ۔
بےشک آپ
چند (لبرل) لوگ اس لڑی کو جو پٹھان، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو ایک وحدت میں
پروتی ہے، کوئی بھی حوالہ دیں، حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اِس ملک کو
بناتے وقت چند لوگوں کا حوالہ لا الٰہ الا
اللہ کے ماسوا کوئی چیز رہا تھا، اور بےشک وہ
چند لوگ یہاں ڈھیروں اختیارات کے مالک بھی چلے آئے ہوں یہاں تک کہ تعلیم و ابلاغ
کی بہت سی تاریں آج بھی انہی کی ہلائی ہلتی ہوں... اس کے باوجود ایک خلقتِ
عظیم اِس ملک کو بنانے سے لے کر آج تک اس کی روح لاالٰہ الا اللہ میں دیکھتی ہے۔ یہاں
کے ایک فرد کو دوسرے سے اور یہاں کی ایک نسلی یا لسانی یا اقلیمی اکائی کو دوسری
سے جوڑنے کا حوالہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے سوا
کسی چیز میں نہیں پاتی۔ اور اسی لاالٰہ الا اللہ پر ان کے اعتقاد کو پختہ کرانے
میں اس لڑی کے پختہ سے پختہ تر ہونے کا راز۔ یہاں کی مختلف اجناس کو ایک ’’نیشن‘‘ ٹھہرا دینے
والی چیز اس خلقت کی نظر میں سوائے اِن کے دین کے کچھ نہیں ہے۔ خود یہ دین اِن کو
ایک ہونے اور ایک رہنے (عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ) کا حکم
دیتا ہے اور اِن
کا ٹکڑیوں میں بٹا ہونے کو اِن پر شیطان کا وار چل جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ پس یہاں کی رنگارنگ اجناس کی اِس باہمی محبت،
مودت اور وابستگی کا حوالہ یہاں بدستور ’’خدا اور رسولؐ‘‘ رہتا ہے اور یہی اِس قوم
کو متحد اور اٹوٹ اکائی بنا رکھنے والے عناصر میں مضبوط ترین۔ اِس کے سوا بہت کچھ
ہو گا مگر سب اِس ایک حوالہ کے بعد اور اِس کے تابع۔
’جدید
انسان‘ کے نقطۂ نگاہ سے ظاہر ہے یہ ایک بڑا خلطِ مبحث ہے، بلکہ تڑپ اٹھنے کی بات!
اس کے نزدیک ’’نیشن‘‘ نام ہے ایک ایسی انسانی اجتماعی اکائی کا جو اپنا کوئی حوالہ
’مذہب‘ سے تو بالکل نہ لے (جبکہ ’نسل‘، ’لسان‘ اور ’اقلیم‘ سے وہ پہلے ہی نہیں لے
سکتی، کیونکہ ’’نیشن‘‘ اس کی نظر میں ان وابستگیوں سے بلندتر ایک چیز ہے، جیساکہ
پیچھے گزر چکا۔ پھر وہ اپنا حوالہ کس چیز سے لے؟ ’مادی مفادات کا حصول ممکن بنا
رکھنے والی ایک جداگانہ اکائی‘ کے سوا
اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کہ جس کی محبت اور اپنائیت ownership
میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سکھ، یہودی اور ملحد یکساں رہیں اور یہاں اپنی تعداد و نفوذ سے قطعی بےلحاظ،
خالص قومی جذبے و اجتماعی اسپرٹ سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے قدم سے قدم ملا دل سے دل جوڑ چلتے
جائیں اور ایک دوسرے پر فدا ہونے کی اعلیٰ سے اعلیٰ داستانیں رقم کریں)۔ یعنی ایک
چیز کےلیے ان کو جینا اور مرنا تو ہے، اور جہان میں اسی کو اپنا اجتماعی وجود اور
تشخص بھی ٹھہرانا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ہرگز ہرگز آسمان سے نہیں جوڑنا (نیز
کسی جبلِّی رشتے سے بھی نہیں جوڑنا، جوکہ اِس ماڈرن نیشنلزم کی تشخیص میں نہایت
نوٹ کرنے کی چیز ہے، اور جس پر کچھ گفتگو پیچھے ہو چکی)۔
یہ جتھہ
بندی جدید انسان (اور خود ہمارے اسلامی جدت پسند) کے نزدیک فرض تو ہے اور اس پر
اپنی ذات، برادری، نسل، لسان اور علاقے سمیت اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو قربان کر
دینا یہاں بسنے والے انسانوں پر واجب (بلکہ اَوجبُ الواجبات)۔ لیکن ایسی کسی الفت
اور یگانگت کا قوی ترین حوالہ خدا اور رسولؐ کو مانا گیا ہو اور اس ’’پاکستان‘‘ کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا وِرد ان
کے یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو؟ یہ
اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ’عجم ہنوز نہ داند رموزِ نیشنلزم‘! اتنا پڑھا
سکھا لینا گویا اِس قوم پر بےاثر ہی رہا، یہ برابر اپنے اجتماعی رشتوں میں ’دھرتی‘
اور ’مادہ‘ کے ماسوا حوالے گھسیٹ لاتی ہے (جنہیں یہ ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ پر مقدم
جاننے کا پاپ بھی کثرت سے کرتی ہے۔ یوں عالمی معیاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اسلامی
جدت پسندوں کےلیے باعثِ آزار چلی آتی ہے)! اِس کو اتنا پڑھا سکھا لیا کہ ’’خدا اور
رسولؐ‘‘ کو یہ اپنے اِس ’مقدس‘ رشتے سے یکسر باہر کر دے اور محض ایک مادی دائرے کو
ہی اپنی اجتماعی زندگی کی کُل کائنات جانے اور اسی پر فدا ہو ہو کر بےحال ہو...
مگر یہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو چھوڑ کر ’ملت‘ میں گم ہونے پر آتی ہی نہیں! ’’خدا اور
رسولؐ‘‘ کو اپنی اجتماعی زندگی میں ایک نہایت ’پرائیویٹ مسئلہ‘ ٹھہرا دینے پر یہ ابھی
تک آمادہ نہیں! اندازہ کر لیجئے، دو سو سال کی شبانہ روز تعلیم، اور تاحال یہ پسماندگی
اور ہٹ دھرمی! کتنا اور پڑھایا جائے اِس کو اور کس دن کی آس رکھی جائے!
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید انسان ’’نیشن‘‘ والے
اِس مسئلہ پر کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے نہ لینے میں کم از کم کسی تضاد کا شکار نہیں
ہے۔ البتہ ہمارا اسلامی جدت پسند ’’نیشن‘‘ کے اِس تصور پر جسے مذہب سے
کوئی حوالہ نہیں لینا، احادیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کرنا نہیں بھولتا!
*****
غرض
پاکستان سے محبت میں ایک کثیر خلقت یہاں جو بنیاد رکھتی ہے وہ اپنی نہاد میں ملت
کے اُس تصور پر کھڑی ہے جو اِس کے دین اور اِس کی تاریخ سے چلا آتا ہے اور جوکہ
مغرب کے دیے ہوئے اصولِ اجتماع کے ساتھ ایک جوہری تصادم رکھتا ہے۔ ہاں اس بات سے
ہمیں انکار نہیں کہ مناسب اسلامی تعلیم نہ ہونے کے باعث، نیز خارجی تعلیمی اثرات
کے تحت، اِس معاملہ کی تفصیلات میں یہ اپنی اشیاء کو مغرب کی اشیاء کے ساتھ کہیں
کہیں گڈمڈ بھی کر بیٹھی ہے۔ نتیجتاً اسلام اور نیشنلزم کا کچھ خلط بعض نیک طبقوں
کے یہاں نظر آ جانا مستبعَد نہیں۔ مگر یہ کچھ جزئیات یا تعبیرات کی حد تک ہو سکتا
ہے۔ بنیاد خاصی سلامت ہے۔ یہاں کا کوئی بھی نمازی اللہ کا شکر ہے ایسا نہیں جو نری
دھرتی پر مرتا ہو۔ وہ اِن وادیوں اور کہساروں کو اور اِن دریاؤں سے سیراب ہونے
والے کھیتوں اور کھلیانوں کو پہلے اپنی
نماز اور سجدہ گاہ سے جوڑتا ہےاور یہاں گونجتی اذانوں اوربلند ہوتی تکبیرات پر فدا
ہوتا ہے اور پھر اِس ’’اسلام کے دیس‘‘ کو ہر میلی آنکھ سے تحفظ دلانے کےلیے بےچین
ہوتا اور اس مقصد کی خاطر اپنا جان مال اور
جگرگوشے پیش کر دینے نیز اِس کی تعمیر و ترقی کےلیے سرگرم ہونے کو اپنے حق میں
باعثِ سعادت جانتا ہے۔ بتائیے اس میں نیشنلزم کہاں ہے؟ کچھ مسائل آئے ہوں گے
تفصیلات یا تطبیقات میں۔ ان اشیاء کی
تنقیح اب جتنی بھی ضروری ہو، مگر میرے نزدیک یہ وقت ہے کہ اُس اصولی بنیاد ہی کو
پختہ کرایا جائےجو دو سو سال کا ’تعلیمی تیزاب‘ سہہ لینے کے بعد بھی اذہان سے محو
نہ ہو سکی (گو ایک حد تک متاثر ہوئی ہے) مگر اب تو اِس پر کلہاڑے برسائے جانے لگے
ہیں۔ خصوصاً جبکہ تفصیلات میں ایک بڑا دائرہ فقہی آراء کا بھی رہے گا جن میں عام
خلقت کو الجھانا درست ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس دائرہ میں تو فی الحال جس بھی علمی گروہ
کی راہنمائی اِس قوم کو میسر ہو، عوامی سطح پر اسی پر اکتفاء کروانا چاہئے خواہ آپ
کی اپنی رائے اس سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ ہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بھی
پختگی اور بہتری لائی جا سکتی ہے؛ جس کےلیے علمی رویوں کو پروان چڑھانا اور صبر و
حوصلہ سےکام لینا ہو گا۔ داعیوں کی اصل توجہ فی الوقت جس چیز
پر مرکوز ہونی چاہئےوہ ہے اصولِ اجتماع میں مغرب کی دی ہوئی بنیادوں کا اِبطال اور
اسلام کی دی ہوئی بنیادوں کا اِحیاء۔ نیز ان رجحانات کی حوصلہ شکنی جو اِن دو
متضاد عقیدوں کو گانٹھنے اور ایک بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں ۔
رہی اس
کی تفصیلات تو ان کے بہت سے ایریاز areas ایسے رہیں گے جن میں جانا یا تو
اِس وقت ہماری ضرورت نہیں، یا ہماری انتہائی محدود توانائی ان بحثوں کی متحمل
نہیں، یا پھر وہ فقہی آراء کا محل ہے جس میں قبولِ اختلاف ہمارا پرانا دستور چلا
آتا ہے۔ پس تفصیلات میں بھی انہی ایریاز areas تک رہنا ہو گا جو اِس حالتِ اژدہام کو ختم کرانے
اور لوگوں کو ایک بڑی شاہراہ پر چڑھا لانے کےلیے فی الوقت ناگزیر ہیں اور جن میں
ہماری ابلاغی محنت عوام کو دلجمعی اور یکسوئی دے نہ کہ پہلے سے بڑھ کر الجھنیں اور
بحثیں۔ دینی طبقے کی چونچیں آپس میں الجھتی دیکھنے سے بڑھ کر کوئی چیز اس وقت لبرل
کو خوش کرنے والی نہیں۔ کلیرٹی clarity اِس موقع پر ہمارا بہت
بڑا ہتھیار ہو گا۔ عملاً یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دعوت کو اندریں حالات اصولی اشیاء
پر ہی زیادہ سے زیادہ فوکس رکھوایا جائے، خواہ نصابیات کے شائقین یا یہاں کے
جذباتی طبقے ہماری اِس سٹرٹیجی سے کتنی ہی بےچینی و عدم تشفی محسوس کریں۔ ہمیں ایک
جنگ درپیش ہے، جس میں سبھی طبقوں کو اینٹرٹین entertain
کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک مغربی مفکر کا کہنا
’ابھی میں صرف جنگ کروں گا، اس امکان کو پیدا کرانے کےلیے کہ کل میرا بیٹا
یونیورسٹی میں پڑھے‘۔
*****
ہمارا
کُل سامنا encounter یہاں کے لبرل بیانیہ سے ہے۔ تاہم دو ’مذہبی‘
رجحانات ایسے ہیں جو ہمارے اسلامی مواقف کو یا تو تفریط اور یا پھر اِفراط کی جانب
دھکیل دیتے ہیں۔ یوں عملاً ہمارا راستہ بند کر دیتے اور نادانستہ ہمارے مدمقابل کا
راستہ وسیع اور آسان کر دیتے ہیں:
1)
پہلا
گروہ ہمیں آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر مغرب کے راستے میں۔ یہ ہمارے ریاست کےلیے
’اسلامی‘ کا لفظ ہی بول دینے پر چیخ
اٹھتا اور یہاں کی قراردادِ مقاصد تک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نیشن اور
اجتماع کے تصور کو دین سے برآمد کرنے پر ہی بنیاد سے معترض ہے۔ (حق تو یہ ہے کہ
اعتراضات کے معاملہ میں یہ طبقہ ہمارے دورِسلف و صحابہؓ تک پیچھے جاتا اور پورے دین کی ایک نئی تعبیر دینے کےلیے کوشاں
ہے)۔ سقوطِ بنگال کو یہاں پائے جانے والے دوقومی نظریے کے بطلان پر ایک قوی دلیل
یا اس کی ناکامی و بےبسی پر ایک حوصلہ شکن مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اصولِ
اجتماع کے موضوع پر اس کے کھڑے کیے ہوئے کچھ اشکالات ، جو تاحال ہمارے زیربحث نہیں
آئے، ان پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔
2)
دوسری
جانب ایک گروہ ’خلافت‘ وغیرہ کے زیرعنوان ہمیں کچھ ایسے راستوں پر چلانے میں
دلچسپی رکھتا ہے جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں اور ایک غیر معینہ مدت تک ان
کا نشان ملنا بھی مشکل ہے۔ خلافت سر آنکھوں پر۔ لیکن پچھلے کئی عشروں پر محیط بند
کمروں کی محنت سے اس طبقہ نے یہ موضوع کچھ ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارے مخلص و
باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک حسین
یوٹوپیا میں بسنے لگی ہے۔ یہ طبقہ ’’امکان‘‘
اور ’’مثالیت‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ جب بھی ہم یہاں کے پنجابی، بلوچی، سندھی
اور پختونی کے رشتے کو خالص اسلام اور لاالٰہ الا اللہ پر کھڑا کرنے کی بات کرتے
ہیں، اور جوکہ اندریں حالات ہمارے لیے امکان کا ایک حقیقی دائرہ اور محنت کا ایک
باقاعدہ میدان فراہم کرتا ہے، یہ نیک طبقہ فوراً معترض ہوتا ہے کہ مراکش کا صوبہ
طنجہ اور فلپائن کا جزیرہ منڈاناؤ ساتھ کیوں نہیں! اس کے
خیال میں ان ناممکنات اور ممکنات کا اکٹھا ذکر نہ کرنا ہی ’’نیشنلزم‘‘ ہے! یہی
نہیں بلکہ اس کی اٹھائی ہوئی الجھنوں نے ہمارے مدمقابل فریق کو ہمارے کیس پر طعن
کے کچھ تُند و تیز فقرے بھی عطا کر دیے ہیں۔
چنانچہ جب بھی ہم پنجابی اور بلوچی کے مابین رشتۂ لا الٰہ الا اللہ کی بات
کرتے ہیں یہاں کا لبرل بھی ہمیں یہاں سے نکال کر ’مراکش‘ اور ’انڈونیشیا‘ کی طرف بھیج
دینے کی کوشش کرتا ہے۔
پہلا
رجحان تفریط تو دوسرا اِفراط۔ اپنے اِن
دونوں قابل احترام طبقوں کے ساتھ بھی اِس موقع پر ہمارا کوئی بحث کرنا نہیں بنتا۔
بس جس حد تک یہ دونوں ہمارے فریقِ مقابل کا راستہ آسان کرتے ہیں اس حد تک اِن کا
رد کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اِن دونوں رجحانات پر الگ الگ مضمون میں ہم کچھ بات کریں
گے۔ ان شاء اللہ