معاصر جہاد: افغانستان، فلسطین وکشمیر وغیرہ میں محصور
|
:عنوان |
|
 |
معاصر جہاد کے متعلق ایک سوال کا جواب |
|
|
معاصر جہاد: افغانستان، فلسطین وکشمیر وغیرہ میں
محصور
جوابات از: مدیر ایقاظ
سوال: آپ کے
مجلہ میں ہم پڑھتے ہیں آپ معاصر جہاد کی پرزور تائید کرتے ہیں تاہم اس کا دائرہ
افغانستان، فلسطین اور کشمیر
وغیرہ سے بڑھ کر پاکستان اور سعودیہ وغیرہ جیسے ممالک تک پھیلانے کے ساتھ آپ متفق نہیں۔کچھ عرصہ پیشر آپ کے اس موقف کے خلاف
ایک کتاب منظر عام پر آچکی ہے۔ ہمارا خیال تھا آپ کی طرف سے اس کا جواب آئے گا
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیا اس پر آپ قارئین کے ابہامات دور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں
کرتے؟
جواب: برادر عزیز! ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اِن نزاعات سے ہم
کوسوں دور رہیں اور اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف ان امور پر صرف کریں جو اہل اسلام
میں ہم آہنگی لانے کا باعث ہوں۔
سرسری مطالعہ کرلینے سے ہی آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ ایقاظ اپنے قارئین کا ایک خاص
حلقہ رکھتا ہے؛ اور وہ اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے میں اپنا ایک معیار اور ایک ذوق رکھتا ہے۔ عوامی کھپت mass consumption کےلیے
کم از کم اِس طرح کے موضوعات پر ہمارے ہاں نہیں لکھا جاتا۔ جس طبقے کےلیے لکھا
جاتا ہےان کو ہمارا یہ اسلوب ہمارے خیال میں کفایت کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ صرف
علمی ضرورت کے تحت ہی ایسے حساس موضوعات کسی وقت ہمارے زیربحث آجاتے ہیں؛ البتہ ان
موضوعات کے حوالے سے کوئی فریق بن جانا کبھی ہمارے پیش نظر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس
موضوع پر بھی ہمیں کسی جواب در جواب سلسلہ
میں الجھنے کی ضرورت یا افادیت نظر نہیں آئی۔ صرف ایک بات تشنۂ
وضاحت لگی اور اس کی بابت پچھلے سال (2013) جولائی کے شمارہ میں ’’دولتِ اسلامی کی غیرموجودگی میں علماء کی
اتھارٹی‘‘ کے زیرعنوان ہم نے چند کلمات عرض کردیے تھے، جن سے مطلع ہونے کےلیے
ہمارے اسی مضمون سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس پر مزید کچھ کہنے کی ہم اب بھی ضرورت
محسوس نہیں کرتے۔ علمی طور پر ہمارا موقف بلاشبہ وہی ہے جو سوال میں بیان ہوا،
یعنی ہم معاصر قتال کے دائرہ کو افغانستان، فلسطین اور کشمیر وغیرہ ایسے مقبوضہ
خطوں تک ہی محدود رکھتے ہیں اور علماء کے جماہیر کو اِسی رائے پر پاتے ہیں۔
|
|
|
|
|
|