میڈیا کے جغادریو اِس طیش کی نوبت کیوں آئی؟
|
:عنوان |
|
 |
|
|
|
میڈیا
کے جغادریو اِس طیش کی نوبت کیوں آئی؟
ابن
علی
ناموس رسالت کے جلوسوں میں اگر کچھ تخریب ہوئی اور مسلمانوں کے اپنے ہی جان ومال کا نقصان ہوا، تو اس کی تائید کوئی بھی نہیں کرتا۔ یہاں صرف میڈیا کا اصل تعصب دکھانا مقصود ہے جو اس موقع پر ہونے والے جان و مال کے نقصان کو بنیاد بنا کر اِس پورے ایشو کو منفی انداز میں پینٹ کررہا ہے۔ حالانکہ یہ جن ایشوز کو اٹھانے پر زور لگا رہا ہوتا ہے (جیسے افتخار چودھری کی بحالی کے وقت تھا یا بی نظیر کے قتل پہ تڑپ اٹھنے کا مسئلہ تھا، حالانکہ ڈھیروں نقصانات اُس وقت بھی ہوئے تھے) وہاں یہ نقصانات کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرتا جتنا کہ اُس ’’ایشو‘‘ کو اٹھانے اور ہائی لائٹ کرنے پر جوکہ معاملے کی اصل جان ہوتی ہے۔ مگر یہاں یہ ناموس رسالت کے ایشو کو نہیں اٹھا رہا البتہ اس سے سامنے آنے والے نقصانات کو ہائی لائٹ کرتا جارہا ہے۔ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا خباثت کارفرما ہے۔۔۔ ادارہ ایقاظ میڈیا
کے ظالمو!
تمہاری
چیخیں آج ہی کیوں نکلیں؟
نبیﷺ
کی آبرو پر حرف اٹھانے والی اس ملعون فلم کے منظرعام پر آئے کتنے دن ہوچکے؟
کتنی
دیر سے دنیا بھر کی سکرینوں اور اخباری صفحات پر خیرالبشر ﷺ کا ٹھٹھہ اور مذاق
ہورہا ہے؟
اس
پر تمہاری چیخیں کیوں نہ نکلیں؟
یہ
پریشانی جو آج تمہارے تن بدن میں نظر آرہی ہے، اتنے دن کہاں روپوش رہی؟
اتنی
کوریج ’ناموسِ رسالت‘ کے مسئلے کو آج یکدم کیوں مل گئی؟
ناموسِ
رسالت کے مسئلہ پرایسی توجہ؟
خدایا
یہ ہمارا ہی میڈیا ہے؟
’پرتشدد
مظاہروں‘ کی مذمت کرنے سے پہلے ہر بار ایک آدھ جملہ ’ناموسِ رسالت‘ کے حق میں بھی!!!
خدایا۔۔۔
میڈیا اور مسئلۂ ناموسِ رسالت کا اعتراف!
خواہ
یہ اعتراف ایک اچٹتے جملے میں ہی کیوں نہ ہو!
کس
کے دم سے یہ سب کرشمے ہونے لگے!
تحریکِ
ناموسِ رسالت کے شہیدوں کو سلام!
اِن
شہداء کا گرنا یقیناً ایک بہت بڑا نقصان ہے
خدا
اِن شہیدوں کو اپنے اور ان شہیدوں کے محبوب ﷺ کے ساتھ جنت الفردوس میں اکٹھا کرے،
جس کی ناموس کےلیے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے
’انفرمیشن‘
پر کنڈلی مار کر بیٹھنے والے اس میڈیا نے رسولؐ کے حق میں آواز اٹھانا واقعتاً
اتنا ہی مشکل کررکھا تھا
قادیانیت
کی میڈیا انوسٹمنٹ نے نبیﷺ کی ناموس کے مسئلہ کو فضاؤں پر چھاجانے کو اسی قدر
دشوار بنا دیا ہوا تھا
انہی
ظالموں نے توہینِ رسالت کے موضوع پر کمال فنکاری کے ساتھ یہ بلیک آؤٹ کررکھا تھا۔
آبروئے
محمدﷺ کو وقت کا سب سے بڑا عالمی مسئلہ بنادینا جان جوکھوں کا کام بنادیا گیا تھا۔
شاید
پھر کچھ قربانیوں کا وقت آگیا تھا۔
فرعون
کے جادوگروں کا طلسم توڑنے کے لیے شمعِ رسالت کے پروانوں کو ایک بار پھر امتحان
درپیش تھا
نبیؐ
کی ناموس سے بڑھ کر عالم اسلام کےلیے کونسا مسئلہ اہم ہوسکتا ہے؟
تو
پھر اس مسئلہ کو مسئلہ کے طور پر کیسے منوایا جاتا، جہاں صبح شام ابلاغی محنت اس
بات پر ہورہی ہے کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں!
اس
مسئلہ کو عالمی سطح تک پہچانا کسی میڈیا کی مدد کے بغیر، بلکہ خرانٹ میڈیا کی کھڑی
کی ہوئی آہنی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے، آج کہاں آسان رہ گیا تھا۔
اس
کو تو ایک شہر کا مسئلہ نہیں بننے دیا جارہا تھا!
ایک
ملک کا مسئلہ نہیں بننے دیا جارہا تھا؟
پھر
یہ عالمی مسئلہ کیسے بنتا؟
کرائے
کے میڈیا کی کھڑی کی ہوئی ان رکاوٹوں کا حصار کون توڑتا؟
یہ
ہدف اس بار بےحد مشکل کردیا گیا تھا
اور
اس مشکل ہدف کو اِس بار ناموسِ رسالت کے شہیدوں نے اپنا خون دے کر سر کیا۔
’میڈیا
انقلاب‘ کا یہ سحر توڑنا ہرگز آسان نہ رہ گیا تھا
اور
وہ تو کب کے بغلیں بجا رہے تھے کہ عالم اسلام کو کرائے کے میڈیا کے ذریعے گھیر لیا
گیا ہے!
مسلم
سٹریٹ کو میڈیا کے ذریعے قابو کرلیا گیا ہے
دماغوں
کو ان سکرینوں کے ذریعے جکڑ لیا گیا ہے
بغض
سے بھرے ہوئے عالمی شیاطین نے آبروئے محمدؐ کے خلاف یہ سٹیج سجایا ہی تب تھا اور
کارٹونوں سے شروع ہونے والے اس شیطانی سفر کا آغاز ہی تب کیا تھا جب اُس نے ہمارے
یہاں ’انفرمیشن‘ کی انجنئرنگ مکمل کرلی تھی!
یہ
کہانی بڑی خوبصورتی سے مکمل ہورہی تھی
وہ
ہمیں مارتے تھے، اِدھر سے دلاسہ دیا جاتا تھا!
وہ
ہمارے نبی کی توہین کرتے تھے، اِدھر سے ’صبر‘ کی تلقین کی جاتی تھی
وہ
ہمارا قرآن جلاتے تھے، ادھر سے بے حسی کے انجکشن دیے جاتے تھے
وہ
ہم پر اپنے ٹینک اور طیارے اور ڈیزی کٹر چڑھالاتے تھے، ادھر سے ہمیں کرکٹ کا سکور
سنایا جاتا تھا اور آرٹ اور فیشن سے محظوظ ہونے کا شوق دلایا جاتا تھا
میڈیا
کی سب ’ایکسائٹ منٹ‘ سب چہک ثانیہ مرزا کے لیے تھی
میڈیا
کی سب غیرت آسیہ بی بی کےلیے تھی
میڈیا
کی سب حمیت ممتاز قادری کو مذموم ٹھہرانے کےلیے تھی
میڈیا
کی سب آنیاں جانیاں رمشا کی ناموس کےلیے تھی
میڈیا
کا سب پروفیشنل ازم کوڑوں والی فلم کو اصلی کرکے دکھانے کےلیے تھا
میڈیا
کی سب ’جدوجہد‘ بھارت کےلیے امن اور محبت کے سُر گانے کےلیے تھی
میڈیا
کی تمام تر لگن پاکستان میں ہندؤں اور عیسائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو ہائی
لائٹ کرنے کےلیے تھی
شہیدو!
تمہاری عظمت کو سلام!
تم
نے ناموسِ رسالت کے مسئلہ کو پھر بھی سرفہرست کردیا
اپنا
خون دے کر مقدساتِ اسلام کی اہانت کے مسئلہ کو پھر ہائی لائٹ کردیا
میڈیا
جو دماغوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھا تھا
میڈیا
جو انفرمیشن کو اپنے گھر کی باندی بنا کر بیٹھا تھا
اپنی
مرضی کے ایشوز کو کھڑا کرتا اور اپنی مرضی کے ایشوز کو موت کی نیند سلاتا ہے
میڈیا
جو ناموسِ رسالت کے موضوع کو موت کی نیند سلانے کےلیے پچھلے سات سال سے اپنے مغربی
سپانسرز کے نمک کا حق ادا کررہا ہے
آج
کا پورا دن ناموسِ رسالت کے لیے وقف کرچکا ہے!
بے
شک وہ ناموسِ رسالت کے اس پورے احتجاجی عمل کو انتہائی منفی انداز میں کوریج دیتا
رہا ہے۔
ناموس
رسالت کے مظاہروں کو ’نقصانات‘ کا پلندہ بنا کر پیش کررہا ہے
بڑی
شیطنت کے ساتھ لوگوں کو اس ایشو سے ہی متنفر کررہا ہے کہ آئندہ ایسی کسی حرکت کی
کوشش نہ ہو۔
چند
شرپسند عناصر جو ہمیشہ ہی احتجاجات وغیرہ میں گھس کر تخریبی کارروائیوں کا موقع
پالیتے ہیں، ان کو گھما گھما کر اس طرح ہائی لائٹ کیا جارہا ہے کہ لوگ اس پورے عمل
سے ہی دل کھٹا کرلیں۔
بجائے
اس کے کہ اس صورتحال کی ذمہ داری ان شیاطینِ مغرب پر ڈالی جاتی جنہوں نے مسلم غیرت
اور حمیت کو امتحان میں ڈالا۔۔۔ بجائے اس کے کہ اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر ڈالی
جاتی جنہوں نے ڈیڑھ ہفتہ تک کچھ نہ کرکے عوامی ردعمل کو اس حد تک بپھرجانے پر
مجبور کیا اور جنہوں نے کوئی ایک بھی کام ایسا نہیں کیا جس سے گستاخانِ رسول کو
کوئی سبق ملتا اور جس کے نتیجے میں عوامی غیظ و غضب کا سامنے آنا قدرتی بات تھی۔۔۔
بجائے اس کے کہ اُس صورتحال کو کوسا جاتا جو مسلم پبلک کو اس حد تک اکسانے اور
مایوس کرنے کی ذمہ دار ہے، میڈیا کے تجزیہ کار سارا دن مظاہرین کی ہی ایک غلط
تصویر بنا کر پیش کرنے میں مصروف رہے۔
گویا
اس موقع پر بھی اور ان شہادتوں پر بھی وہ اپنے ہی ایجنڈے کو فروغ دیتا رہا
آج
کے احتجاجی مظاہروں کی ’بھرپور‘ کوریج دیتے ہوئے بھی اپنے ہی مقاصد پورے کرتا رہا
پھر
بھی ناموسِ رسالت کا مسئلہ کوریج پا کر رہا!
خدا
کے فضل سے مقدساتِ اسلام کو توجہ مل کر رہی!
دنیا
کو معلوم ہوا کہ عالم اسلام کی حکومتیں غیرت اسلامی سے تہی دامن ہیں تو یہاں کی
اقوام اپنے نبی کی ناموس کے سوال پر ہر حد تک چلے جانے پر تیار ہیں۔
پورے
جہان کو پتہ چلا کہ مسلم حکومتوں نے اپنے عوام کو مایوس کیا۔ مگر یہ عوام اپنی
حکومتوں کے مایوس کن کردار کے علی الرغم، اور اپنے ملکی میڈیا کے پردہ ڈال رکھنے
کے باوجود، اس مسئلہ کو اٹھانے میں پوری طرح کامیاب رہے۔
یہاں
تک کہ اب مغرب میں کسی شیطانی فلم کو اداکار ملنا مشکل ہوگئے، کوئی اداکار ایسی
کسی فلم کو سائن کرنے پر تیار نہ ہوگا جس میں اداکاری کرکے وہ اپنی جان کو خطرے
میں ڈال سکتا ہے!
ایسے
تیور دکھائے بغیر یہ پیغام پہنچانا بھلا کب ممکن تھا؟
میڈیا
کے ظالمو!
آج
تمہارا سارا دن ’پرامن‘ کی ضرورت پر زور دیتے گزرا!
حالانکہ
تم اپنے بارے میں خوب جانتے ہو۔۔۔ اور اسلامی ایشوز کے ساتھ اپنے بغض سے خوب واقف
ہو۔۔۔
اسلام
پسند قوتیں اپنے ایشوز پر کروڑوں کے اجتماعات بھی کرلیں تو وہ تمہاری توجہ سے
محروم رہتی ہیں۔
اسلام
پسند اپنے مظاہروں میں پوری دنیا کو اکٹھا کرلیں تو وہ تمہارے معتصب کیمرے کی نظر
سے روپوش رہتی ہیں
کہو
تو اسلام پسند قوتوں کا وہ ٹھاٹھیں مارتا لانگ مارچ جو انہوں نے ’’دفاعِ پاکستان‘‘
کے عنوان کے تحت تمہارے اتحادی ’’ناٹو‘‘ کی سپلائی کی بحالی کے خلاف نکالا تھا اور
جو لاہور سے چل کر اسلام آباد پرامن طور پر پہنچا تھا۔۔۔ کہو تو اُس انسانی سمندر
کو تم سے کتنی توجہ ملی تھی؟
اسلام
پسندوں کے پرامن مظاہروں کو تم نے کوریج دی ہی کب ہے۔
اسلام
پسندوں کے بعض جذباتی طبقوں میں یہ فرسٹریشن پیدا کرنے کے ذمہ دار تو تم خود ہو
اسلام
پسندوں کے ایشوز کو موت کی نیند سلانے میں ہی تو آج تک تمہاری تمام تر مہارت صرف
ہوئی ہے
اور
اب اس صورتحال کو پیدا کرنے کے بعد تم ’پرامن‘ کی گردان کرنے لگے ہو
یعنی
جب وہ ’پرامن‘ ہوتا ہے تو کسی توجہ کے قابل نہیں ہوتا
اور
جب وہ ’پرامن‘ نہیں رہتا تو مذمت کے قابل ہوتا ہے۔
تمہارا
خیال ہے کوئی اس خباثت کو نہیں سمجھتا۔۔۔
یاد
رکھو، یہاں ایک آتش فشاں کھول رہا ہے
تمہارا
وہ مغرب نواز اور قادیانیت نواز کردار بہت کھل کر سامنے آرہا ہے
اس
ملک کو رخ دینے کا تمہارا یہ خواب پورا ہونے والا نہیں
ناموس
رسالت کے مسئلہ سے اٹھنے والا یہ سیلاب، جو شعور اور آگہی کی منزلیں تیزی کے ساتھ
طے کرنے لگا ہے، عنقریب تمہارا بہت کچھ بہا لےجانےوالا ہے۔
|
|
|
|
|
|