صلیبی قبضہ کار کے خلاف چلی آتی ایک
مزاحمتی تحریک کے ضمن میں
حامد
کمال الدین
>>دنیا
آپ کے "تنظیمی منہج" سے تھوڑی بڑی ہے!<<
تنظیموں جماعتوں کی میں نہایت قدر کرتا ہوں۔ ان کے
مناہج کا حد درجہ احترام کرنے والوں میں ہوں۔ مسئلہ یہاں نہ کسی جماعت کے ساتھ ہے
نہ اس کے منہج کے ساتھ۔ مسئلہ ہے کچھ لوگوں کا اپنے تنظیمی فلسفے یا منہجِ عمل کو
پورے جہان پر لاگو کرنے چل دینا۔ اور اسی کی بنیاد پر ہر دور اور خطے میں مسلمانوں کی دینی خدمات یا ان کی پوزیشن
کا محاکمہ کر کے لوٹنا!
آپ کے تنظیمی مقررات، زیادہ سے زیادہ، آپ کے اپنے ملک
میں پائی جانے والی صورتحال کے لحاظ سے ایک اجتہاد ہو سکتا ہے۔ وہ بھی ہر دس بیس
سال بعد شاید کسی حد تک قابلِ نظر ثانی۔ جبکہ اجتہادات اور نکتہ ہائےنظر اور بھی
ہو سکتے ہیں، خود آپ کے ملک میں۔ نصرتِ اسلام کی یہ سب راہیں ضروری نہیں ایک دوسری
کا متبادل یا حریف ہوں جو ایک دوسری کے "مقابلے پر" دیکھی جائیں۔ بہتر
اور فائدہ مند اپروچ یہی ہے کہ یہ سب راہیں ایک دوسری کو "مکمل کرنے
والی" ہوں۔ بس اِس کےلیے آپ کو "تنظیمی/گروہی" نظر سے تھوڑا اوپر
آنا ہوتا ہے، باقی کوئی مسئلہ نہیں۔ (اس لیے ہم کہتے ہیں، مسلمان کی تربیت اور ذہن
سازی صرف "اصولِ ملت" کی بنیاد پر؛ اگرچہ عمل کے میدان ان کے کتنے ہی
متنوع ہوں)۔ البتہ اپنے ملک کے علاوہ خطوں میں جاری امور کو دیکھنے اور سراہنے
کےلیے آپ کو اور بھی کشادہ نظر درکار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہر خطے کے اپنے معروضی
حالات ہیں، جو آپ کی دنیا سے خاصے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ہر جگہ ہر وقت
"آپ" والے طریقِ عمل کی من و عن اتباع اگر ضروری ٹھہرا دی جائے تو مسلمان
ایک خوامخواہ مصیبت میں جا پڑیں۔
یہاں ہم کہتے ہیں، اپنی کسی مخصوص زمانی یا مکانی
صورتحال پر صادق آتے پیمانوں کو پوری دنیا پر لاگو کرنا اور ہر زمان و مکان کے موافق
سمجھنا، راست فکری نہیں ہے۔
بلاشبہ عالم اسلام کے کئی خطوں میں ایسا ہے کہ اسلام کے
فائدہ کےلیے آپ کسی ‘جمہوری آئینی’ جدوجہد کا موقع یا اس کی کچھ افادیت پاتے ہیں۔ بالکل
کوئی حرج نہیں، ایک موقع لینے کے طور پر – نہ کہ اسے آئیڈیلائز کرتے ہوئے – آپ اس راہ سے وہاں اسلام کا کوئی فائدہ کر آئیں،
یا اس کی کوشش کر دیکھیں… [بشرطیکہ ‘جمہوریت’ democracy
اور ‘آئین پرستی’ constitutionalism
کی تہہ میں بیٹھے شرک "ہیومن ازم" کے
ابطال اور اس سے بیزاری پر ایک ٹھیٹ موحدانہ تربیت آپ پا چکے ہوں۔ (ایک اور
"شرط" بھی ویسے ہم تو کہتے ہیں: اس راہ سے بہت زیادہ "اسلامی"
امیدیں نہ لگانا، جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں)]۔
اور بلا شبہ عالم اسلام کے کئی خطوں میں ایسا ہے کہ کسی
‘جمہوری آئینی’ جدوجہدکی صورت ہی وہاں میسر نہیں ہے یا اس کی افادیت سرے سے عنقا
ہے، مثلاً عرب کے اکثر ممالک، اور اس کے علاوہ بھی مسلم دنیا کے بہت سے خطے۔ لیکن
اسلام کو حتى المقدور کھڑا کرنا خدا کی زمین کے اُس گوشے میں بھی ظاہر ہے فرض ہی
ہے۔ ایسے ہر ہر گوشے میں، وہاں کی صورتحال کے مناسب، اور رجالِ سنت کی سرکردگی میں
رہ کر، مسلمان اگر کوئی ایک یا متعدد لائحۂ عمل اختیار کرتے ہیں جو ظاہر ہے آپ کی
‘جمہوری آئینی’ جدوجہد سے مختلف ہی ہو گا… تو اس کو سراہنا اور اس میں ان کے ساتھ
اظہارِ یکجہتی بھی اتنا ہی ضروری ہو گا۔ (یہاں؛ بعید نہیں کوئی ایک ابن باز رحمہ اللہ، تن
تنہا، کسی دوسرے
ملک کی ایک بڑی اسلامی جماعت سے زیادہ اسلام کا فائدہ کر جاتا رہا ہو، علیٰ سبیل
المثال)۔ اس پوری کیٹگری category کو اگرچہ ہم نے ایک رکھا ہے، مگر حق یہ ہے کہ
ایسا ہر ہر خطہ اپنی جگہ ایک کیٹگری ہو سکتا ہے، کیونکہ ہر ہر خطے کے معروضی حالات
اور وہاں پر دستیاب مواقع ایک دوسرے سے بالکل جدا ہو سکتے ہیں۔ گویا بیک وقت ہم
بہت سارے "جائز" و "شرعی" مناہج methodologies کی بات کر رہے ہیں۔
البتہ ایک تیسری صورت آپ کی ایسی کسی بھی معمول کی
جمہوری/غیر جمہوری جدوجہد والے دائرۂ کار سے بالکل ہی مختلف ہے: یہ ہیں عالم اسلام
کے وہ خطے جہاں کافر قبضہ کار گھس آیا ہوا، یا گھس آیا رہا ہے۔ مانند فلسطین، جس
پر پچھلے سات عشروں سے یورپ کے صیہونی یہودی قابض ہیں۔ کشمیر، جس پر اتنے ہی عرصے
سے بھارتی متعصب ہندو قابض ہیں۔ افغانستان، جس پر کوئی ڈیڑھ عشرہ سوویت
ملحد/عیسائی کمیونسٹ قابض رہے، اور اب کوئی دو عشرے سے امریکی صلیبی ملحد، جن کا
اب وہاں سے چل چلاؤ ہے۔ اور اسی طرح کے کچھ دیگر مسلم خطے۔
جہاں تک مسلم خطوں کی اِس تیسری صنف کا تعلق ہے، یعنی
بھارتی یا صیہونی یا صلیبی افواج کے تسلط میں آئے رہنے والے مسلم خطے… تو ہمارے اس
دور میں علمائے سنت کو اگرچہ کتنا ہی دباؤ اور زباں بندی کا سامنا ہو، ان کی
معتدبہٖ تعداد مسلمانوں کے ایسے تمام خطوں میں کافر قبضہ کار کے خلاف – بشرطِ
استطاعت – ہتھیار اٹھانے کو ایک بالکل جائز
اور مشروع امر ٹھہراتی آئی ہے۔
اب جب یہ مسلم خطوں کی ایک باقاعدہ کیٹگری ہے، اور
بیرونی قبضہ کے باعث ان خطوں کے کچھ خصوصی و استثنائی احکام، خصوصاً قتال کے حوالہ
سے… تو یہاں؛سب سے زیادہ تعجب آپ کو ان حضرات پر ہوتا ہے جو ‘آئینی جدوجہد’ والی
اپنی وہی ایک رَٹی ہوئی عبارت عالم اسلام کے اِن مقامات پر بھی ہمیں سنانے آ جاتے
ہیں؛ گویا ‘جمہوری آئینی جدوجہد’ کے سوا کوئی لفظ اور کوئی تعبیر دنیا میں مسلمان
کے برسرِ عمل ہونے کےلیے ان حضرات نے نہیں جان رکھی ہوئی!
افغانستان کا مسئلہ چونکہ ان دنوں کچھ زیادہ ہائی لائٹ
ہوا ہے، لہٰذا اس پر تھوڑی روشنی ڈال دینا ضروری معلوم ہوتا ہے…
>>مزاحمتی عمل کا ایک منطقی تسلسل<<
افغان سرزمین پر امریکی افواج کا قابض ہونا، جو پچھلے
دو عشرے سے چلا آتا ہے، ایک لحاظ سے سوویت افواج کے افغانستان پر قابض ہونے کی
نسبت کہیں بدتر، شنیع تر اور ناقابلِ قبول تر واقعہ ہے۔ سوویت افواج جس وقت یہاں
آئی تھیں، وہ اُس وقت کابل میں بیٹھی جیسی کیسی ایک ‘افغان حکومت’ کی دعوت یا اپیل
پر آئی تھیں۔ یعنی "جواز" legitimacy
کا ایک برائےنام شبہ موجود تھا۔ اس کے باوجود "مہذب دنیا" کے
ایک بہت بڑے حصے نے اسے صاف مسترد کر دینے اور قوم کو اس کے خلاف ہتھیار اٹھوا
دینے کے معاملہ میں کچھ نہایت زبردست نظائر precedents قائم کر ڈالے کہ "سند رہیں اور بوقتِ ضرورت
کام آئیں"۔ جبکہ امریکی افواج جس وقت یہاں آئیں،
ان کو افغان سرزمین پر اتر آنے کی دعوت دینے والی کوئی نام کی حکومت بھی کابل کے
اندر موجود نہیں تھی۔ یہ سیدھا سیدھا ایک حملہ تھا جبکہ ملک کے بڑے حصے میں انتظام
اور امن و امان کی حالت دنیا کے بےشمار خطوں کی نسبت قابل رشک تھی۔ یہاں؛ اسلام کے
اصول تو ایک مسلم سرزمین پر چڑھ آنے والی کافر قبضہ کار افواج کے خلاف مسلمانوں کے
– بشرطِ استطاعت – اٹھ کھڑا ہونے کے وجوب پر واضح ہیں ہی، حالیہ بین الاقوامی اَعراف
conventions
اور نظائر
precedents میں بھی بہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو اس کی صاف
اجازت دیتا ہے۔ اور، الحمد للہ، ہمارے معترضین کو بھی اس نقطہ پر بہت کم اعتراض کی
ہمت ہوتی ہے۔ یعنی مزاحمت کا حق افغانوں کا معلوم اور مسلّم ہے۔
اب اگر یہ بات غلط نہیں کہ افغان دھرتی پر قابض صلیبی
افواج کے خلاف ہمارے افغان بھائی ہتھیار اٹھانے کے مجاز تھے، خصوصاً اسلامی حوالے
سے وہ اس کے مجاز تھے جو کہ ہم امتِ اسلام کےلیے اصل حوالہ ہے، اور جبکہ یہ فریضہ – یعنی ایک مسلم سرزمین پر اتر آنے والے کافر
قبضہ کار کے خلاف جہاد، جو دورِحاضر میں "مزاحمت" کے نام سے موسوم ہوتا
ہے – ہمارے افغان بھائیوں نے بدرجۂ اتم
انجام دیا، بلکہ دنیا کے سب مادی تجزیہ کاروں اور ‘طاقت کے توازن’ پر بولنے لکھنے
والوں کو اُس ورطۂ حیرت میں ڈال کر رکھ دیا جو تاریخ میں ان شاءاللہ عرصۂ دراز
تک ذکر ہو گا، گویا اسلام کا ایک زندہ معجزہ تھا جو اپنے اس مادی دور میں ہم نے ان
خدا توکل درویشوں کے ذریعے بچشمِ سر رونما ہوتا دیکھا… تو اگلی بات یہ جاننے کی ہے
کہ:
اپنے ملک پر حملہ آور، دنیا کی سب سے بڑی پاور کے خلاف،
صف آرا ہونا اور اسے دھول چٹانا کوئی مذاق بہرحال نہیں تھا۔ دنیا کی اس سب سے تگڑی
فوج اور اس کے مقامی مددگاروں سے نبردآزما ہونا
کوئی آسان چیز نہ تھی، جس میں دو عشرے کی جان لیوا محنت کر کے آخر یہ اچھے
دن دیکھنے کو ملے… تو جن لوگوں نے ایسی ایک کٹھن ناقابل یقین مہم اپنا وجود صرف کر
کے اور اپنی جانوں کی قیمت پر انجام دی، ان کی ایک قدرتی پوزیشن بھی بیرونی حملہ
آوروں اور ان کے مقامی مددگاروں کے مقابل خودبخود سامنے آ جاتی ہے۔ آپ ان کی اس
پوزیشن کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے، الا یہ کہ دنیا کی ایک سپرپاور کو اپنے ملک
سے چلتا کرنا آپ کی نظر میں ایک مذاق قسم کی چیز ہو جو بس یونہی بیٹھے بٹھائے ہو
جاتا ہے! (اور اِلا یہ کہ آپ سرے سے اس بات کے قائل یا مُبلّغ ہوں کہ بیرونی قبضہ کار
سے کسی کو کیا تکلیف ہے، بلکہ یہ تو افغانستان یا کسی بھی مسلم ملک کے حق میں ایک
نعمت ہے! اس صورت میں، آپ کے ساتھ گفتگو ظاہر ہے کسی اور مقام پر ہو سکتی ہے۔ یہاں
ہماری بات ان حضرات سے ہو رہی ہے جو کسی بھارتی یا صیہونی یا صلیبی قبضہ کار کے
خلاف "جنگِ آزادی" سے متعلق وہاں کی مسلم قوموں کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں،
خواہ اسلامی بنیادوں پر اور خواہ قومی بنیادوں پر)۔ اب اس پوزیشن کی بیناد پر جو
اپنے اس زبردست اقدام initiative کی بدولت انہیں حاصل ہے، اور جس کی دلیل اور گواہی ایک سپرپاور کا
وہاں سے نامراد نکلنا بجائےخود ہے، جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے، دو عشرے کوہ و دشت
میں ہر طرف دشمن کے نشانے پر رہنے والے، ان اہل عزیمت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے،
بلکہ حق نہیں حسب استطاعت ان کا یہ فرض ٹھہرتا ہے، کہ وہ اپنے اس مبارک عمل کو اس
کے منطقی انجام تک پہنچائیں اور اتنی ساری دو عشروں پر محیط قربانیوں کو فضول اور بےثمر
نہ جانے دیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں، ایسے ایک تاریخ ساز موڑ پر کہ
جب قبضہ کار کے قدم وہاں سے اکھڑنے لگے ہوں، اگر آپ کسی بھی دانشمند سے پوچھ لیں
کہ قربانیوں کی ایک ایسی لازوال داستان کی منطقی حد یا تسلسل کیا ہو سکتا ہے؟ تو
وہ آپ کو یہی بتائے گا کہ: قبضہ کار کو اس کے مقامی دست و بازو سمیت، اور اُس کے
قبضہ کے سبھی محرکات سمیت، ملک سے بےدخل کرنا اور اپنی ان بےمثال قربانیوں کو اس
کاز کے حق میں بارآور ہونے دینا جس کی خاطر جان دینے والوں نے فی الحقیقت اپنی جانیں
پیش کیں اور جو کہ ان میں سے زندہ رہ جانے والوں کی گردن میں فی الحقیقت ایک امانت
ہوا کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر دیں، مزاحمت اور وہ بھی ایک سپرپاور کے خلاف اور وہ
بھی جب دنیا کا کوئی اور ‘بلاک’ آپ کے ساتھ نہ کھڑا ہو مذاق بہرحال نہیں ہے۔ یہ
چیلنج لینے کےلیے اگر کوئی اٹھا ہے، اور اِس میں اُس نے اپنی ایک حیثیت بھی منوائی
ہے، تو ایک جانب اپنے قتال کے محرکات اور دوسری جانب دشمن کے قتال کے محرکات اور
چالوں کی ایک برسرِ زمین تقییم on
ground assessment کا بھی وہ آپ سے
بڑھ کر حق رکھے گا۔
قطعی بات ہے، جن عاشقانِ جنت نے اس ناقابل یقین منزل کو
ممکن بنانے کےلیے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانیں پیش کیں، وہ کسی ایسے دن کےلیے
نہیں کیں جب وہ حامد کرزائی یا اشرف غنی ایسے امریکی ٹینکوں میں بیٹھ کر اقتدار
میں آنے والے ٹولے کو اس غیور قوم کی امامت کے منصب پر دیکھیں، جبکہ ملک کی آزادی سر تا سر انہی
سرفروشوں کی قربانیوں کی مرہونِ منت اور انہی کی دیندار۔ اور جبکہ مزاحمت کا وہ
عمل اپنے منطقی اختتام کو ابھی پہنچا نہیں ہے۔
بنا بریں…؛ نہ
اس بات کے پیچھے کوئی شرعی دلیل ہے اور نہ عقلی، کہ قبضہ کار کے نکلنے کے ساتھ ہی
اُس کا مقامی دست وبازو چلا آنے والا ایک امریکہ و بھارت نواز ٹولہ یہاں مسلمانوں
کا ‘شرعی ولی الامر’ قرار دے دیا جائے۔ واقعتاً اسلام اگر یہی کہتا ہے، یعنی کسی
مفتی کا اگر یہ زعم ہے، تو تصور کریں کافر کو آپ کی اس نام نہاد "فقہ"
کا یہ مسئلہ معلوم ہو جائے کہ کسی مسلم ملک پہ چڑھ آنے کے وقت اگر وہ کوئی ایک
طوفانی قسم کا فوجی ایکشن کر کے اپنے "پےرول" پر پایا جانے والا ایک
‘مقامی’ آدمی ان پر مقرر کر دے تو اس سے اگلے لمحے اسے وہ "ولی الامر"
ماننا مسلمانوں کی شرعی مجبوری ہو گی جس کی اطاعت ازروئےشریعت اِن پر فرض ہوتی ہے……!!!
تو کافر کو بلادِ اسلام پر اپنی "شرعی حکومت" قائم کرنے کی کیسی زبردست
بنیاد یہ حضرات ازروئے اسلام پیش کر دیتے ہیں! ایسا فتوىٰ اگر واقعتاً دین میں مان
لیا جائے تو بلادِ اسلام کے کسی گوشے پر قابض ہو جانے والی یہودی یا صلیبی یا ہندو
افواج بےوقوف ہی ہوں گی جو برس ہا برس یہاں مسلمانوں کی اس "مسلح مزاحمت"
کا سامنا کرتی خوار ہوتی پھریں جس کی اسلام مسلمانوں کو اجازت دیتا یا جسے اِن پر
واجب ٹھہراتا ہے! اُن (قابض ہندوؤں/صیہونیوں/صلیبیوں) کو تو بس چاہیے، وہ ایک مسلم
سرزمین پر دھاوا بولنے کے ساتھ ہی، فی الفور، ایک عدد اپنے پےرول کے ‘حامد کرزائی’ کا بندوبست کریں، بلکہ آتے وقت ہی کچھ ‘اشرف
غنی وعبداللہ عبداللہ’ وغیرہ اپنے ساز و سامان میں رکھیں جنہیں فٹ کرتے ہی
مسلمانوں پر ان کی "اطاعت" واحب اور ان کی "نافرمانی" حرام ہو
جاتی ہے! یہ تو آپ نے بلاد المسلمین پر ہندوؤں، صیہونیوں اور صلیبیوں کے ‘شرعی و
مشینی قبضہ’ کا ایک ایسا کم خرچ بالا نشیں نسخہ دریافت کر کے ان کو پیش فرما دیا
ہے جو ہمیشہ اور ہر جگہ اُن کے کام آئے! ایک وِن وِن win
win پوزیشن، کافر کو شریعت کی عطا کی ہوئی!
پس ہزاروں جانیں دے کر ایک "مزاحمت" کو
کامیابی کے اِس پہلے زینے تک پہنچانے والے "مزاحمت کاروں" کو اپنی اس
"مزاحمت" کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا حق ہونا، ایک ایسی صورتحال
میں جہاں مسلم قربانیوں کے خاک میں مل جانے کا بھاری اندیشہ ہو، سب سے زیادہ سمجھ
آنے والی بات ہے۔
>>اسلام سے زیاہ جمہوریت کی فکر؟<<
اور جہاں تک مسئلہ ہے ملک میں "انتقالِ
اقتدار" کے کسی مستقل نظام و طریقِ کار کا، تو اس کے متعلق بحثیں کرنے کا وقت
ان شاءاللہ ضرور ہو گا جب ملک استحکام کی کسی کم از کم سطح کو پہنچ لے۔ حالتِ جنگ میں تو
خدا کی مقرر کی ہوئی شرعی حدود کا معاملہ تھوڑا بہت مؤخر کر لیا جاتا ہے، آپ وہاں
"جمہوریت" کے فوری نوٹس دینے پہنچ گئے! لہٰذا افغانستان کے معاملہ میں
اگر آپ جمہوریت کے شیدائی ہیں بھی، اور اپنی ایک رائے رکھنے کا حق تو یقیناً آپ کو
ہے، تو بھی صلیبی قبضہ کار کے ساتھ ہوتی چلی آنے والی وہ جنگ اُس قبضہ اور قبضہ کے
محرکات کی جڑ کاٹ دینے کے ایک بنیادی ترین مرحلہ سے جب تک نہیں گزر لیتی، اور وہاں
کی اسلامی زندگی کسی قدر معمول پر نہیں آ لیتی، تب تک یہ جھگڑے اٹھانا ٹھیک نہ ہو
گا۔ عین اِس موقع پر "جمہوریت" کا نام لے کر آسمان سر پر اٹھا لینا اگر
آپ کی سادہ لوحی نہیں تو پھر شاید وہ اسی بات پر محمول ہو کہ ملک پر بیس سال سے
چلے آنے والے صلیبی قبضہ اور اس کے ملحقات کے قدم اکھڑتے دیکھنا یہاں آپ کےلیے
ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے، اور اسلام کے سر اٹھانے کے اس مبارک عمل کے آگے بڑھنے
کو روکنے میں آپ اپنا حصہ کچھ اِس طریقے سے ڈالنا چاہ رہے ہیں۔
مجھے بخوبی معلوم ہے، افغانستان کےلیے اِس وقت
"جمہوریت" کا شور اٹھانے والا کوئی ایک طبقہ نہیں۔ بڑےبڑے خرانٹ ایجنڈے جہاں
اس مہم کے اندر جان ڈال رہے ہیں… اسلام کےلیے اپنی جان مال وار رکھنے والے اصحابِ
شریعت کے خلاف نفرت اور بغض کے کسی مخصوص لہجے کی ایک باقاعدہ ‘تشکیل’ کر رہے ہیں،
کہ جانتے ہیں آئندہ کچھ مراحل میں اس کی بہت ضرورت رہے گی۔ بلکہ ‘عالمی کمیونٹی’ کے
متوازی، اِن گھاگ ایجنڈوں کے رونے ‘جمہوریت’ کے یقینی قتل پر مصر کےلیے چند سال پیشتر اتنے اخلاص سے نہیں
ہوئے ہوں گے (بلکہ تھوڑی ہی دیر میں ان کے سب تعلقات اُس کے ساتھ معمول پر آ گئے
اور شاید معمول سے بھی بڑھ گئے)، ان مخصوص اہداف کے حامل عالمی ایجنڈوں کے نوحے
‘جمہوریت’ کے دن دہاڑے قتل پر تیونس کےلیے چند ہفتے پہلے اتنے دل گیر نہیں
رہے ہوں گے، امریکہ کی گُڈ بُکس میں چلے
آتے کسی عرب ملک کےلیے کبھی اتنے زور کے نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے، جتنے ‘جمہوریت’
کے کسی ممکنہ قتل پر افغانستان کےلیے ہوں گے اور رہیں گے… اور اصل میں تو
یہ اُنہی کی مہم ہے اور اِس کے سب تانےبانے اُسی نام نہاد ‘عالمی کمیونٹی’ کی
حسرتوں کے بُنے ہوئے، اور وہی اس کا "والیم" اونچانیچا کرنے والے…… وہاں
اس پرائی مہم کو تھوڑی اسلامی سپورٹ دینے کو ہمارے کچھ نیک طبقے آتے ہیں جو
نادانستہ، اور پورے اخلاص سے – "اپنے بھائی کےلیے وہی پسند کرو جو اپنے
لیے" کے مصداق – افغانستان میں اسلام
کےلیے اُسی شے پر قناعت کروانا چاہ رہے ہیں جو اِن کے اپنے ملک میں
"جمہوریت" سے اسلام کے کھاتے میں اِن حضرات کے ہاتھ آیا، یا آ رہا، یا
آنے کا امکان ہے۔ "جمہوریت" پر اپنے یقینِ محکم عملِ پیہم کے زیراثر اب
یہ نیک حضرات راضی برضا ہیں کہ اپنے یہاں شہرِ جمہوریت میں جو "غالب کی
آبرو" ہے وہی اللہ اُدھر افغانستان میں بھی دے دے۔ ڈریں یا وحشت کھائیں گے تو
بس اِس بات سے کہ ہم، یا ہمارے افغان بھائی، یا جہان کا کوئی بھی مسلمان، اللہ سے
کسی غیرجمہوری حالت میں جا ملے! ایک چیز
کو عشروں تک آئیڈیلائز کرتے چلے جانے سے ایک دیندار طبقے نے اب وہ مقام انٹرنلائز
کر لیا ہے کہ وہ اسلام لے کر بھی کیا کرنا جو جمہوریت کی راہ سے نہ ہو! ہاں خدا کی
دی ہوئی جمہوریت اگر گھر میں ہے اور اسلام نہیں بھی ہے، تو البتہ کیا بڑی بات ہے!!!
آخر چل ہی رہا ہے… ہر جگہ!
دے دے گا اللہ اسلام بھی کسی دن!
کاش ہم جان لیں آج دنیا کے کسی ایک بھی خطہ میں اسلام
کا سر اٹھا کر نہ کھڑا ہونا… پوری زمین کا اِس پہلو سے سائیں سائیں کرنا… کس قدر
وحشت اور ہول دلانے والی بات ہے! "واإسلاماہ!"
جو روئےزمین پر حکومتِ اسلام کا آخری گڑھ ہاتھ سے جانے کا تصور ہی کر کے مصر کے
کسی دھڑکتے دل نے عین جالوت کے تاریخی مقام پر الاپ ڈالا تھا، اور جسے سن کر
مسلمانوں کےلیے ایسی کسی دنیا میں جینا بلکہ اس کےلیے سوچنا درخورِ اعتناء نہ رہ
گیا تھا، یہاں تک کہ اِس ایک الاپ نے انہیں دیوانہ کر ڈالا، اور وہ گھڑیوں میں عین
جالوت کا معجزہ کر گئے… اُس "واإسلاماہ!"
کا قائل آج اسلام کو جہان کی مسندوں سے مسلسل روپوش، لائنوں میں کھڑا، مطالبوں کی
زبان بولتا، شہریت کے فارم بھرتا، اپیلوں کی مشق کرتا، قراردادوں سے گلا خشک، ‘پانچ
پانچ برس’ کر کے زمانہ گزارتا اور نری ‘امید’ پر جیتا، دیکھے… تو اس کا کیا حال ہو!؟
خدایا کیا یہ ہو جانے کے بعد بھی دنیا ہے!؟
بہرحال یہاں ہم یہ بحث نہیں کریں گے کہ کہیں پر اگر آپ
کو یہ دو سیناریو اس انداز میں درپیش ہوں کہ ان میں سے ایک ہی چناؤ کا آپشن ہو: یا
اسلام جمہوریت کی قیمت پر، یا جمہوریت اسلام کی قیمت پر…
[یعنی تھوڑی دیر کےلیے یہ فرض کر لیں کہ جمہوریت
واقعتاً اسلام کا ایک حصہ ہے، لیکن پھر بھی
1. ایک سیناریو یہ ہے کہ اسلام کا وہ
‘جمہوریت’ والا حصہ تو کسی وجہ سے آپ کو میسر نہیں ہے لیکن "تمکین فی الارض"
سے متعلق ان چار اساسی و ابتدائی فرائض کی اقامت وہاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے جو
اس آیت میں مذکور ہوئی: {الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ
فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا
بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ
(الحج: 41) "جنہیں اگر
ہم ملک میں طاقت بخشیں، تو وہ نماز قائم کر دیں، زکات کی ادائیگی (کا انتظام)
کریں، امر بالمعروف، اور نھی عن المنکر کرنے لگیں"}۔ نیز سودی معیشت کی وہاں
کامل بیخ کنی ہے۔ ولاء اور اجتماع کی بنیاد وہاں اسلام ہے نہ کہ وطن یا زمین۔ کافر
ملتوں سے – اجتماعی سطح پر – براءت ہوتی ہے۔ (جوکہ داخلی طور پر اہل ذمہ کے ساتھ
حسنِ سلوک اور خارجی طور پر معاہد قوموں کے ساتھ اچھے تعلقات میں مانع نہیں)۔ کافر
ملکوں خصوصاً ان کے سربراہوں کو رب العزت کے ساتھ شرک سے رک جانے اور رسالتِ محمدی
پر ایمان لے آنے کی دعوت (باقاعدہ ریاستی سطح پر)۔ قانونی حیثیت صرف خدا کے اتارے
ہوئے کو ہونا۔ وغیرہ وغیرہ سب کچھ وہاں ہے، بس ایک جمہوریت نہیں ہے۔
2. دوسرا سیناریو یہ ہے کہ اسلام کا بس وہ
جمہوریت والا حصہ ہی وہاں ہے، باقی وہ سب چیزیں جو اوپر ذکر ہوئیں کسی وجہ سے وہاں
نہیں ہیں: نہ ریاستی سطح پر نماز قائم کروائی جانا۔ نہ زکات کا کوئی نظام، زکات کی
دِین اور عبادت والی سپرٹ کے ساتھ۔ نہ ریاست کی بھاری بھرکم طاقت سے معروف کا چلن
کروایا جانا۔ اور نہ ریاستی قوت سے منکر کو مٹایا جانا۔ سود بھی پوری طرح برقرار۔
نہ اجتماع کی بنیاد دین۔ نہ کافر ملتوں سے براءت۔ نہ خدا کی توحید اور محمدﷺ کی
رسالت سے اعراض کرتے چلے آنے والے افراد، ملکوں اور سربراہوں کو – ریاستی سطح پر –
اس کفر سے تائب ہونے کی دعوت دینے کا دُور دُور تک کوئی تصور (بلکہ ایسی سوچ بھی آ
جانے پر شرم سے پانی پانی ہونا، کہ یہ تو لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں ایسی بات
‘ریاست’ کے منہ پر آ جانا بھلا کیونکر!)۔ نہ خدا کے اتارے ہوئے کی آپ سے آپ قانونی
حیثیت۔ یہ کچھ نہیں۔ بس ایک جمہوریت ہے (اور چلیں یہ بھی کہہ لیں فی الواقع
جمہوریت ہے، نہ کسی دھاندلی کا رونا، نہ کسی جھرلو کا پیٹنا، اپوزیشن خوشی خوشی
الیکشن میں ہار قبول کرتی ہے اور اس کےلیے کسی ‘طاقت کے مرکز’ کو ذمہ دار ٹھہرانے
کا وسوسہ تک دل میں نہیں آتا! اور جو کہ جمہوریت کے حوالے سے ہنوز آپ کا ایک خواب
ہے اور شاید ‘دِلی’ سے بھی زیادہ دُور۔ غرض ‘اصلی’ جمہوریت)]۔
ان دو سیناریوز میں سے اگر کسی وقت آپ کو ایک ہی کے
چناؤ کا آپشن ہو – یا اسلام جمہوریت کی قیمت پر، یا جمہوریت اسلام کی قیمت پر – تو
آپ کس کو ترجیح دیں گے… یہ بحث فی الحال ہم نہیں کریں گے۔ یہ بحث ہم اُس دن کر لیں
گے جس دن واقعتاً آپ کو ایسا کوئی چناؤ درپیش ہو۔ فی الحال تو ہم یہ کہتے ہیں کہ
افغانستان کے جن طبقوں نے ملک کو بیرونی قبضہ اور اس کے ملحقات سے واگزار کروانے
کے مشن میں ایک اہم منزل سر کی ہے، انہیں اپنے اِس مشن میں ملک کو استحکام دلانے
اور معمول کی زندگی بحال کر لانے کی سطح کو پہنچنے دیجیے۔ ملک کو درپیش اس سب سے
بڑی ترجیح – استحکام – سے ان کی توجہ
ہٹانے کا کوئی بھی موضوع فی الحال مت چھیڑیے۔ ہاں جس دن وہ اپنی قوم کو ایک مستحکم
ملک دے لیتے ہیں، یعنی بیرونی قبضہ کی پیداکردہ یہ انتہائی ہنگامی صورت جیسے ہی دم
لیتی ہے… تو بےشک آپ یہ جمہوریت وغیرہ کی
سب بحثیں اُس دن چھیڑ لیجیے، کہ رائے رکھنا اور دینا بہرحال آپ کا حق ہے۔ آپ کی رائے
اُس دن قبول ہو جائے تو مسئلہ ہی ختم۔ نہ ہو تو یہ عالم اسلام کا کوئی پہلا ملک
نہیں ہو گا جس میں آپ کو جمہوریت میسر نہیں ہے۔ جو لائحۂ عمل آپ برس ہا برس سے اور
برس ہا برس تک کےلیے عالم اسلام کے ان ملکوں میں رکھتے ہیں جہاں آپ کو جمہوریت
میسر نہیں ہے، یا جہاں جمہوریت کے نام پر آپ کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے اور آپ کا صبح
شام کا رونا وہاں ‘غیرجمہوری قوتیں’ ہیں یعنی جمہوریت کے نام پر ایک کھلا استبداد،
تاہم جمہوریت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام بھی وہاں مسندِ اقتدار پر فائز نہیں ہے…
ویسا کوئی لائحۂ عمل آپ کسی ایسے سیناریو کے اندر بھی اگر چاہیں تو – اُس دن –
اختیار کر لیجیے گا جہاں اسلام تو کم از کم مسند اقتدار پر فائز ہو لیکن اسلام کا
وہ جمہوریت والا حصہ کسی وجہ سے ڈراپ ہو گیا ہو۔ اُس دن آپ ضرور اصرار کر لیجیے کہ
آپ کو اسلام اور جمہوریت دونوں بیک وقت چاہییں۔ اور اگر یہ دونوں نعمتیں کسی وجہ
سے آپ کو ایک ساتھ ملنے سے انکار ہو جائے، تو اُس دن آپ اپنا یہ فیصلہ بھی سنا
دیجیے کہ ان دونوں میں سے وہ کونسی "ایک چیز" ہے جو آپ کو ہر حال میں
اور دوسری کی قیمت پر چاہیے۔ لیکن ابھی تو
پورے مسلم جہان کو چھوڑ کر، کہ جس کے کسی ایک بھی ملک میں آپ کی مطلوبہ جمہوریت
شاید ہی آپ کو میسر ہو، خاص افغانستان میں جمہوریت کے الاپ لے بیٹھنا اور ملک میں
صلیبی افواج سے برسر پیکار طبقوں کو دو عشرے پر محیط اپنی اس مزاحمتی جدوجہد کو اس
کے منطقی انجام تک پہنچانے ہی نہ دینا – اس لیے کہ وہاں ہار جانے والی ‘عالمی
کمیونٹی’ کی اس وقت یہی ضرورت ہے کہ اُس کے بُوٹ وہاں نہیں جم پائے تو اب کچھ شور
ہی وہاں ڈلوا لیا جائے اور کسی بھی طریقے سے مسلم جاں نثاروں کی اِس مزاحمتی
جدوجہد کی منزل کھوٹی کر دی جائے، جبکہ اس منزل سے اُس کے بُغض کی کوئی وجہ نہیں
سوائے اس ایک بات کے کہ سرفروشوں کی اس مزاحمتی جدوجہد کی منزل اسلام ہے؛ اور یہی
اِس دو عشرے سے چلی آتی جنگ کا اصل محرک و محور، ہر دو جانب سے – تو ‘عالمی کمیونٹی’ کی اِس ہنگامی مہم میں ایک
مسلمان کا دامے درمے قدمے سخنے حصہ ڈال آنا، یعنی اُس کی بروقت مدد کو پہنچنا، اگر
سادہ لوحی نہیں تو بہت بڑی زیادتی ہے۔
(جاری)
مضمون
کا دوسرا حصہ بعنوان: مزاحمتوں کی تاریخ میں
کونسی چیز نئی ہے؟