صلیبی قبضہ کار کے خلاف چلی آتی ایک مزاحمتی تحریک کے ضمن میں
(مضمون
کا دوسرا حصہ)
حامد
کمال الدین
چند
بار بار اٹھائے جانے والے ایشوز کو ایڈریس کرتے چلیں…
دو
بہت بودے سوال – یا اعتراض – جو اگر اس کثرت سے نہ دہرائے گئے ہوتے کہ ایک عام
مسلمان اسے اعتراض جاننے لگے، تو شاید جواب دینے کے نہ تھے:
1. کیا فرق ہے حالیہ برسوں کے اندر پائی جانے
والی کابل حکومت میں اور آپ کی اسلام آباد حکومت میں؟
2. افغان طالبان کس دلیل سے آپ کے نزدیک ٹھیک
ہیں؟ اور ٹی ٹی پی کو پھر کس دلیل سے آپ غلط کہنے چل دیتے ہیں؟
یہ
دراصل دو نہیں ایک ہی سوال ہے۔ پیچھے، گفتگو کے عین شروع میں، ہم مسلم خطوں کی ایک
سہ گانہ تقسیم کر آئے ہیں۔ ایک بڑی سطح پر، دراصل وہ ایک دوگانہ تقسیم ہے۔ چند
نکات اس سلسلہ میں ہم درجہ بدرجہ عرض کرتے ہیں، جس نکتہ پر ہماری بات غلط ہو، ہمیں
ٹوک دیجیے:
1. پچھلی کوئی پون صدی سے، یعنی جب سے مسلم
ملکوں کی ایک بڑی تعداد بیرونی استعمار سے آزادیاں حاصل کر پائی ہے… علمائےاسلام
کی معتد بہٖ تعداد، اور ان کی پیروی میں مسلم معاشروں کا غالب بیانیہ، عالم اسلام
کے ان دو قسم کے خطوں میں فرق کرتا آ رہا ہے:
i.
ایک،
جہاں پر بیرونی قبضہ ختم ہو گیا ہوا ہے مانند ہمارا ملک، یا جہاں بیرونی قبضہ کبھی
ہوا ہی نہیں، مانند ترکی و سعودی عرب۔ یہاں کے جیسے کیسے مقامی لوگ ہی ملک کے سب
فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے ریفرنس کےلیے انہیں ہم "آزاد مسلم ممالک" کہہ لیتے
ہیں۔ ان کی آزادی کو محدود کرنے والا اصل عامل کسی دوسرے ملک کا یہاں پر عسکری
قبضہ نہیں بلکہ ان ملکوں کا اپنا لاغر پن اور "زندگی" کے مقومات essentials
of life سے
از خود منہ موڑ رکھنا ہے۔ یہ بھی بےشک ایک طرح کی "غلامی" پر منتج ہوتا
ہے، اور گاہے اس کو غلامی کہہ بھی دیا جاتا ہے، لیکن غلامی کی یہ صورت "دست
نگری" کی قبیل سے ہے۔ ایک ٹیکنیکل مثال دے دیں: "غلام" یا
"لونڈی" کی ایک تعریف وہ ہے جو آپ کو فقہ یا قانون کر کے دیتا ہے اور جس
کا مصداق عملاً دنیا میں آج ناپید ہے (الا ما شاء اللہ)۔ تاہم فقہ یا قانون کی
تعریف میں جو شخص "غلام" نہیں بلکہ "آزاد" ہے، وہ بھی اگر بلا
کا غرض مند و آرام طلب ہے، اپنی کر کے کھانے پر آمادہ نہیں اور اس وجہ سے کسی
دوسرے کا دست نگر اور جی حضوری بنا رہنے میں مسئلے کا ایک حل دیکھ لیتا ہے، یوں اُس
کے ‘دسترخوان’ سے مستفید ہونے کی قیمت اپنی عزت و آبرو اور اپنے فیصلوں کی آزادی
سے کٹوتی کروانے میں کوئی بڑی
رکاوٹ نہیں پاتا، تو ایسے شخص کو بھی ایک طرح کا غلام
کہنا اگرچہ بجا ہے لیکن فقہ اور قانون میں وہ اب بھی ایک آزاد انسان ہی ہے)۔ اس
معنیٰ میں ہم نے بولا ہے "آزاد مسلم ممالک"۔
ii.
دوسرے
وہ مسلم خطے جہاں پر صیہونی یا صلیبی یا بھارتی بُوٹ چڑھ آئے ہوئے ہیں۔ انہیں ہم
"مقبوضہ مسلم خطے" کہتے ہیں۔ جیسے کشمیر سات عشروں سے مسلسل۔ فلسطین سات
عشروں سے مسلسل۔ افغانستان اپنے اس مرحلہ میں جب سوویت افواج اس پر چڑھ آئیں، اور
جوکہ ایک عشرہ کے لگ بھگ جاری رہا۔ پھر افغانستان اپنے اس مرحلہ میں جب امریکہ اور
ناٹو افواج اس پر چڑھ آئیں، اور جوکہ پچھلے دو عشرے سے چلا آتا ہے اور جو کہ
آفیشلی officially آج کی ڈیٹ (14 اگست
2021)
تک جاری ہے۔
2. علمائے اسلام کی ایک بھاری تعداد – اور ان
کی پیروی میں جماھیرالمسلمین – کا عمومی
کنونشن/طرزِعمل "آزاد مسلم ممالک" میں کوئی مسلح عسکری عمل اختیار کرنے سے
متعلق یہ ہے کہ وہ اسے رد ہی کرتے ہیں؛ اور ایسی کسی پکار کو – جب وہ کسی تکفیری
یا قوم پرست ٹولی کی طرف سے لگائی جائے – خاصے تعجب اور استنکار سے دیکھتے ہیں۔
یہاں جیسی کیسی اچھی بری کوئی حکومت ہو، ملک کےلیے لوگ اسے کسی "شدید ہنگامی"
یا "معمول سے بالکل ہی نکلی ہوئی" صورتحال پر محمول نہیں کرتے (اس میں
کچھ متنازعہ استثناءات آپ کو نہ ہونے کے برابر ملیں گی، مانند شام وغیرہ)۔ مسلح
عسکری عمل کو مسترد ٹھہرانے کا یہ کنونشن/طرزِعمل اس حوالہ سے بھی کوئی فرق نہیں
کرتا کہ مقابلے پر کوئی جمہوری حکومت ہے یا غیر جمہوری۔ سِول یا فوجی۔ بلا تمییزِ
جمہوریت و آمریت، ایک مسلح عسکری عمل "آزاد مسلم ممالک" میں علماء و
عوام کے ہاں اعتناء نہیں پاتا۔ اور ایسا ہونے کی کوئی مثال بھی آپ کو نہیں ملتی۔
جبکہ دوسری قسم کی، جس کی وضاحت آ رہی ہے، عملی مثالیں متعدد ہیں۔
3. البتہ جہاں تک "مسلم مقبوضہ
خطوں" کا تعلق ہے، تو یہ علماء ایک بڑی تعداد میں – اور ان کی پیروی میں
جماھیرالمسلمین – وہاں کی مسلم اقوام کا حقِ مزاحمت تسلیم کرتے آئے ہیں۔ اس میں
ایک ضمنی شرط "استطاعت" اور ایک مزید شرط "مصلحت کا راجح
ہونا" بھی گو ذکر ہو جاتی ہے، لیکن ایک اصولی حق مزاحمت کا وہاں کے مسلمانوں
کےلیے بہرحال تسلیم ہوتا ہے۔
4. یہ بات ایک بار پھر واضح کر دیں کہ فی
زمانہ علماء – اور ان کی پیروی میں
جماھیرالمسلمین – کا یہ کنونشن/طرزِعمل… ایک
آزاد مسلم ملک میں مسلح عسکری عمل کی صدا کو لائقِ توجہ نہ جاننے میں نہ تو کسی
جمہوری/غیرجمہوری حکومت کا فرق کرتا ہے اور نہ شریعت قائم کر رکھنے والی /شریعت
قائم نہ کر رکھنے والی حکومت کا اور نہ مقبول/غیرمقبول حکومت کا۔
5. اوپر جو بیان ہوا، میں یہ نہیں کہتا کہ کہ
اس کے سوا یہاں کوئی رائے نہیں۔ اور نہ میں اس پر کسی اجماع کا دعوىٰ کر رہا ہوں۔
یوں بھی سب کا اتفاق کسی بھی مسئلہ پر کب ہوتا ہے، الا ما شاء اللہ۔ (کسی ملک کے
آفیشل آئین پر بھی سب کا اتفاق نہیں ہوتا)۔ البتہ مسلم علماء اور شعوب کے یہاں، سب
سے مقبول popular کنونشن/طرزِعمل یہی ہے۔
گویا اس سے ہٹ کر آنے والا کوئی بھی بیانیہ مسلمانوں کےلے اچھا خاصا اجنبی ہو گا؛
اور ان کا اس پر قائل ہونا ایک دشوار مفروضہ۔
6. اگر یہ درست ہے کہ حال کے کچھ امور ماضی
قریب میں گزرے ان سے ملتےجلتے امور ہی کی روشنی میں دیکھے سمجھے جائیں گے… تو یہ
ایک واقعہ ہے کہ:
i.
افغانستان
میں سوویت افواج کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے دوران، یا اس سے متصل بعد، وہاں پر
کسی کابل حکومت کا "موجود" ہونا یا اس حکومت کا "افغان" ہونا
اس مزاحمت کے درست ہونے پر کبھی کوئی سوالیہ نشان نہیں بن سکا۔ بلکہ دنیا کی
مزاحمتی تاریخ میں، قبضہ کار کے زیرسایہ "دی جانے" والی مقامی حکومت کی
اپنی کوئی الگ حیثیت ہوتی ہی نہیں۔ اسلامی حوالہ سے، اوپر ہم اس پر کچھ بات کر آئے
ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت تسلیم کرنا فی الحقیقت قبضہ کار کے قبضہ کو تسلیم کرنا،
بلکہ آئندہ کےلیے بھی ایسا کوئی حیلہ اختیار کر کے مسلم سرزمینوں پر قابض ہونے کا
ایک بلینک چیک کافر کو دے ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ ولن
يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلاً.
ii.
سوویت افواج کے، جنیوا معاہدہ کے تحت افغانستان سے نکل جانے
کے بعد، وہ مزاحمت کار جنہوں نے ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں سوویت افواج کو نکال
باہر کیا تھا، سوویت افواج کے معتمد جانشینوں کےخلاف بھی اپنی کارروائیاں اسی شد و
مد کے ساتھ جاری رکھے رہے تھے۔ جہانی طور پر universally اس بات کو کوئی اچھنبہ نہیں دیکھا
گیا – اور نہ اس پر آپ کسی اچھنبے کی توقع ہی کر سکتے تھے – کہ سوویت افواج کے
وہاں سے نکلنے کے ساتھ ہی کیوں وہاں سوویت افواج کے خلاف برسرِ مزاحمت چلے آتے طبقوں
نے اپنے ہتھیار پھینک کر لڑائی ختم نہیں کر دی!؟ یعنی سارا میدان فی الفور سوویت
یونین کے چھوڑے ہوئے "مقامی" حکمرانوں کے سپرد نہیں کر دیا!؟ اور نہ
سوویت افواج کے وہاں سے نکلنے کے ساتھ ہی، یا پھر سوویت افواج کے
"عنقریب" نکلنے کی توقع ہو جانے کے ساتھ ہی، پہلے سے جاری مزاحمت پر
کوئی ایسا سوال اٹھانے کی "گنجائش" سامنے آئی کہ بھئی کیا فرق ہے کابل
میں بیٹھی ایک "مقامی" حکومت میں اور اسلام آباد یا ریاض یا استنبول میں
بیٹھی ایک "مقامی" حکومت میں!!! قاعدہ بھی یہی ہے کہ فرع اپنی اصل کے
تابع رہے۔ نیز جو کالعدم ہے اس کی وہ حیثیت جوں کی توں رہے۔ چنانچہ مزاحمت کاروں
کے پہلے قتال کو درست کہنے والے جو جو کوئی طبقے تھے، خواہ مسلم خواہ غیرمسلم، ان
کے ہاں یہ ایک طبعی بات جانی گئی کہ جنگ کا جو فریق کسی بیرونی قبضے کی وجہ سے یہ
جنگ شروع کرنے پر مجبور ہوا، وہ اب اس جنگ کا کوئی تسلی بخش اختتام کرے۔ قبضہ کار
کے جانشینوں کا اقتدار تسلیم کرنے سے بڑھ کر کوئی بیہودہ اور لغو بات ہو ہی نہیں
سکتی۔
iii.
مزاحمتوں کی تاریخ میں، جو ایک عمومی جہانی طرزِ عمل سامنے
آ چکا ہے وہ بھی یہی کہ قابض افواج کے نکلنے کے بعد سب سے پہلے قابض افواج کا
مقامی دست و بازو چلے آنے والے طبقوں سے چھٹکارا پایا جائے۔ قبضہ کار کے وقت سے ان
کا حکومت میں چلا آنا، اس حوالہ سے، ان طبقوں کے حق میں نہیں ان کے خلاف جانے والی
چیز ہے۔ قبضہ کار کے مقامی معتمَد و آلۂ کار طبقوں کے مقابل، قبضہ کار کو نکال
باہر کرنے والے مزاحمت کار کی اپنی ایک حیثیت، اس کی کامیاب مزاحمت کی بدولت، بن
جانا، مزاحمتوں کی دنیا کی ایک عمومی رِیت ہے۔ گو یہ کہنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ
مزاحمت کار، اپنی مزاحمت کی دلیل سے، ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ملک کے حاکم بن گئے۔ مقصد
یہ کہ سردست initially
وہ ملک کو ایک ڈگر پر ڈال دینے کےلیے مجاز حیثیت، اپنی اُس کامیاب مزاحمت کی
بدولت، بہرحال پا لیتے ہیں۔ تاآنکہ ملک کو بیرونی قبضہ کی پیداکردہ اُس شدید
ہنگامی صورتحال سے کسی قدر نکل آنا، اور قبضہ کار کے براہِ راست باقیات سے ایک بڑی
سطح پر چھٹکارا پا لینا، نصیب ہو جائے۔ یوں جب ملک کو ایک قدرے معمول کی حالت پر
ڈال لیا جائے، تو پھر قومی اتفاقِ رائے سے ملک چلانے کا کوئی مستقل خودکار نظام ہی
ان کو وہاں پر دینا ہوتا ہے۔ یعنی ایک عبوری سا دور جو قبضہ کار اور اس کی کٹھ
پتلیوں کے منظر سے ہٹنے اور کسی مستقل و خودکار نظام کے قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ
تیار ہو کر آنے کے بیچ ہوتا ہے۔
iv.
یہاں ایک چھوٹی سی عقلی دلیل بھی ہے اور اس کا مخاطب ہمارے
وہ اصحاب: جو بیرون کی قابض افواج کے خلاف تو آپ کو مزاحمت کی اجازت دیتے ہیں
البتہ ان قابض افواج کے زیرسایہ، اور اس جنگ میں قابض افواج کے ہم رکاب، چلی آتی،
"مقامی" حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ممانعت فرماتے، بلکہ سوال
اٹھاتے ہیں کہ کیا فرق ہے ا س میں اور عالم اسلام کی کسی بھی اور حکومت میں…:! تھوڑی
دیر کےلیے اگر یہ قاعدہ تسلیم کر لیا جائے کہ قابض افواج کے ملک سے نکلنے، یا ملک
سے نکلنے کا عندیہ دینے، کے ساتھ ہی، مزاحمت کاروں پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ (اس
"مقامی" حکومت کے آگے) ہتھیار ڈال دیں… جس کا خودبخود یہ مطلب ہو گا کہ
قابض افواج کے زیرسایہ، اور جنگ میں قابض افواج کے ہم رکاب، چلی آتی، "مقامی"
حکومت کا پورا کنٹرول نہ صرف ملک کے طول و عرض پر فی الفور ہو جائے گا بلکہ خود ان مزاحمت
کاروں اور ان کی جانوں پر بھی ہو جائے گا جن کی مزاحمت کو آپ جائز تسلیم فرما آئے
ہیں، اور جنہوں نے یہ سب مزاحمت ملک میں عزت و آزادی کے ساتھ رہنے کےلیے ہی جھیلی
تھی…! دوسرے لفظوں میں قبضہ کار کے "مقامی" پارٹنرز کی یہ بھرپور پوزیشن
کہ ان مزاحمت کاروں کےلیے پورے ملک میں اب وہ کٹہرے، ٹکٹکیاں، کال کوٹھڑیاں اور
پھانسی گھاٹ نصب کر دیں، اور اپنا اور اپنے بیرونی قبضہ کار دوستوں کا وہ دو عشرے
سے کھولتا چلا آتا غیظ و غضب پوری آزادی و دستیابی کے ساتھ ان برسرِ مزاحمت رہ چکے
طبقوں پر جی بھر کر نکالیں اور انہیں رہتی نسلوں تک کےلیے عبرت بنا دیں…… تو کیا
اس کے بعد بھی ہمارے یہ نکتہ ور دنیا کے کسی ملک میں بیرونی قبضہ کار کے خلاف "مقامی
مزاحت" ایسا واقعہ ہونے کا امکان مانیں گے؟ کم از کم ان ملکوں میں تو نہیں جہاں اِن
کا فتویٰ سنا جاتا ہے! وہ "مزاحمت کا حق" جو یہ حضرات بہت فیاضی کے ساتھ
"بیرونی قبضہ کے خلاف" مقامی لوگوں کو تفویض فرماتے ہیں، جبکہ اس کا
ڈراپ سین "مزاحمت کی کامیابی" کی صورت میں یہ ہونا ہے، یعنی مزاحمت
کاروں پر واجب کر دیا جانا کہ اپنا آپ اب وہ ایسے ہی کسی بھیانک انجام کے سپرد
کردیں جہاں قبضہ کار کا معتمد ٹولہ ان کی قسمتوں کا شرعی و قانونی مالک ہو جائے…
ایک نری بےمعنى چیز ہی تو ہو گا! (خصوصاً جبکہ معلوم ہو، مزاحمت کاروں کو بڑے بڑے
بینک بیلینس کے ساتھ ملک سے بھاگ کر لندن، پیرس، برلن اور میونخ میں ‘سیاسی پناہ’
اپلائی کرنے کی سہولت بھی آپ نہیں دلوا رہے!)۔ یعنی ان پاسدارانِ حریت کے پاس تو
نہ جائے رفتن آپ چھوڑنے کے روادار اور نہ پائے ماندن! مزاحمت کی اِس نوع کا "جواز"
سن کر تو دنیا کے حریت کار کانوں کو ہاتھ لگائیں اور سات پشتوں کو "مزاحمت"
کی راہ چلنے سے خبردار کریں! پس معقول بات یہی ہے کہ
o
یا
تو شروع دن سے آپ کسی مزاحمت کو جائز نہ رکھیں۔ وحیدالدین خان وغیرہ مذہب پر چلتے
ہوئے ہر آنے والے قبضہ کار کے آگے "ہینڈزاَپ" ہی یہاں کی قوموں پر فرض رکھیں۔
اس پر آپ کو کتنا ہی دنیا کا سانس گھٹتا محسوس ہو، آگے چل کر ان بیچاروں کے ہاتھ
پیر باندھ کر انہیں قبضہ کار کے پارٹنرز کے سپرد کروا آنے والے لطیفے سے یہ بہرحال
بہتر ہو گا۔
o
اور
اگر اتنی سی حریت پسندی آپ نے گوارا فرما لی اور ان کو مزاحمت کا حق تفویض کر ہی
ڈالا، تو پھر اس مزاحمت کو کہیں سرے بھی لگنے دیں۔ جس پوائنٹ تک پہنچا کر آپ البتہ
اسے حرام کرنے چلے… اور جو انعام ایک "کامیاب مزاحمت" کے پہلے ہی مرحلے
پر کسی قوم کے جری
مزاحمت کاروں کےلیے آپ مقرر فرمانے چلے، وہ تو غرائب
میں ذکر ہونے کے لائق ہے!
o
اور یہ نکتہ تو امید ہے یہ حضرات یہاں نہیں اٹھائیں گے کہ
قبضہ کار کے مقامی پارٹنرز کی جانب سے مزاحمت کاروں کو ‘کھلی معافی’ دلوانے کا
آپشن بھی تو ابھی پڑا ہے! بنابریں… وہ ٹولہ جس کی اخلاقی حالت ابتداءً یہ تھی کہ
ملک پر چڑھ آنے والے بیرونی ٹینکوں پر بیٹھ کر منصۂ اقتدار پر نمودار ہوا اور ان
کے شانہ بشانہ اپنے ان بےسروسامان ہم وطنوں کے ساتھ لڑتا رہا جن کی حمیت اور مزاحمت کو خود آپ سندِ جواز دے آئے ہیں… مزاحمت
کاروں پر واجب ہوا، اس قماش کے کسی ٹولے کی جانب سے ہرگز کسی بدعہدی کا خدشہ دل
میں نہ لاتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے اس کو تھما دیں! اور ہاں ان
کی حمیت اور مزاحمت بالکل ٹھیک اور حق بجانب تھی!
o
غرض
یا تو مزاحمت کا نام ہی آپ نہ
لیں۔ یا مزاحمت کو اپنا طبعی عمل due course بھی مکمل کرنے دیں۔ حتى تضعَ الحربُ
أوزارَها۔ یہاں، بوجوہ محسوس
ہوتا ہے – جیسا کہ حصۂ اول میں بھی بیان ہوا – مزاحمت کے "گرمجوش قائل"
یہ حضرات مزاحمت کو شاید کوئی مذاق قسم کی چیز سمجھ بیٹھے ہیں۔ کوئی ایک رات بھی
اُن پہاڑوں جنگلوں کے اندر "مزاحمت" کو فروکش دیکھ آنے اور آتش و آہن کے
مسلسل نشانے پر رہنے کی حالت کو محسوس کر سکنے والا شخص یہ آسودہ فکری اور تونگری مشکل سے نگل
سکے گا۔
v.
سوویت انخلاء کے بعد، سوویت کی معتمد و جانشین حکومت کے
خلاف بھی، مزاحمت کاروں کی اس پیچھے سے چلی آتی مزاحمت کا عین اُسی ڈھب سے جاری
رہنا؛ یہ ایک مسئلہ ہوا۔ اب اس سے آگے بڑھتے ہیں…
vi.
سوویت افواج کی جانشین "کابل حکومت" کے خلاف کچھ
سالوں کی مزاحمت سے جب وہاں کے بڑے بڑے شہر بشمول کابل، مزاحمت کاروں کے ہاتھ آئے
تو ان مزاحمت کاروں نے وہاں اپنی حکومت بھی قائم کی۔ یہ کسی انتخابات کے نتیجے میں
بننے والی حکومت نہیں تھی پھر بھی دنیا کے بہت سے ملکوں نے اس حکومت کو تسلیم کیا۔
کہیں سے اسے تسلیم کرنے میں دیر یا پس و پیش بھی ہوئی، تو اس کی وجہ یہ نہیں بتائی
گئی تھی کہ یہ تو منتخب ہو کر نہیں آئی۔ اس کی عمومی وجہ یہی کہ یہ ایک قبضہ کار
کو نکال اور اُس کے اعتماد کی ایک "کالعدم" حکومت کو گرا کر آئی تھی، جو
کہ ایک قسم کا خلا vacuum باور ہوتا ہے۔ اور اِس کی اپنی حیثیت
– اس
"خلا" میں – اگر کوئی تھی تو اس کا منبع سردست "انتخابات"
نہیں بلکہ اس کی "مزاحمتی پوزیشن" تھی جو ایک ایسی صورتحال سے اِس کو
ملی تھی جب ملک اس مزاحمت کا متقاضی رہا تھا۔ یہاں ہم پر یہ استدراک کیا جا سکتا
ہے کہ تب حکومت میں آنے کےلیے بےشک انتخابات نہیں ہوئے تھے لیکن مزاحمتی گروپوں کا
ایک بھاری بھرکم اتفاق اور اتحاد ضرور سامنے آیا تھا جبکہ یہاں یہ صورت نہیں ہے۔
اس کے جواب میں ہم صرف یہ عرض کریں گے کہ اُس اتفاق اور اتحاد کے ‘سامنے آنے’ کی
ضرورت اس لیے تھی کہ مزاحمت کار کوئی ایک جماعت نہیں بلکہ بکھرے ہوئے ٹولے تھے،
اور کہیں کہیں تو متحارب۔ جبکہ یہاں مزاحمت کار پہلے سے ایک جماعت ہیں اور پورے
ملک میں یکجان و یکجہت، جو بکھرے ہوئے ٹولوں کے کسی ‘اتفاق اور اتحاد’ سے قوی تر
ایک چیز ہے۔ کہنے کی حد تک اگر ایک اور جماعت بقیادت گلبدین حکمتیار امریکی افواج
کے خلاف مزاحمت کا عَلم اٹھائے ہوئے اِس بار بھی تھی، تو وہ کئی سال پہلے اس سے
دستبردار ہو کر میدان سے نکل چکی، جبکہ مزاحمتی عمل کو اس سے کوئی کمی اور کمزوری
لاحق نہیں ہوئی۔ سو مزاحمت کار اگر ہوں ہی ایک سیسہ پلائی جماعت اور کسی ایک سپر
پاور کی مدد سے دوسری سپر پاور کے خلاف نہیں بلکہ تن تنہا ایک "سپریم پاور"
کے خلاف پورے ملک میں وہ اپنی مزاحمتی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہوں تو یہ اُن
بکھرے ہوئے مشکل سے اکٹھا بیٹھنا قبول کرنے والے مزاحمتی ٹولوں کا ایک ‘اتفاق اور
اتحاد’ سامنے آنے سے قوی تر بات کیوں نہیں ہے؟
اب
جب ہم
نے چند بنیادی فرق عرض کر دیے ہیں: عالم اسلام کے ان خطوں میں جہاں بیرونی قبضہ
وغیرہ کا کوئی سین scene نہیں ہے، اور عالم
اسلام کے ان خطوں میں جہاں بیرونی قبضہ کی ایک واضح صورت درپیش ہے… تو امید کرتے
ہیں آپ کو اس سوال کا جواب مل گیا ہو گا کہ اس وقت کی کابل حکومت میں اور آپ کی
اسلام آباد حکومت یا مسلم دنیا کی تقریباً کسی بھی اور حکومت میں "کیا"
فرق ہے۔ یعنی ایک ملک جو اندریں حالات مزاحمت کا محل ہے اور دوسرا ملک جہاں کسی
مزاحمت کا سوال ہی دور نزدیک سے نہیں اٹھا ہے۔ اور جب دونوں کا فرق ہی مزاحمت کا
جائز محل ہونے اور نہ ہونے سے وابستہ ہے، تو اس سوال کا جواب خود بخود اس کے اندر
آ گیا کہ افغان طالبان ایسی ایک مزاحمت اور ٹی ٹی پی ایسی ایک تخریب میں جوہری طور
پر فرق "ہی" کیا ہے۔
مضمون کا پہلا حصہ: صلیبی قبضہ کار کے خلاف چلی آتی ایک مزاحمتی تحریک کے ضمن میں