کرسمس سے دیوالی تک
’اجتہاد‘ درکار ہے!
اِن لکیروں کو جو "انسان" کو
تقسیم کردینے کا سبب چلی آئی ہیں اور جوکہ "ادیان" کے
نام پر کھینچ ڈالی گئی ہیں، مٹادینا اِس
عقیدۂ "ہیومن
ازم" کا اَوجب الواجبات ہے۔ اِس پوری کہانی سے جو شخص باخبر ہے، وہ جانتا ہے کہ ’مولوی
اور پادری‘ کا
یہ فوٹوسیشن، معاذاللہ ثم معاذاللہ ’قرآن اور صلیب
کی یہ دوستی‘ اپنی دلالت میں آج کتنی بڑی اور کتنی
بھیانک حقیقت کا بیان ہیں۔
حامد کمال الدین
بھیانک حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ میں
چھپانا کوئی اِس تہذیبِ سامری سے سیکھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر الفاظ اور تعبیرات جو آپ
کو مسحور کرتے چلے جاتے ہیں، جس پر ’ابلاغ‘ اور سے اور رنگ بکھیرتا اور روشنیاں
انڈیلتا چلا جاتا ہے۔ ’روشنیوں‘ کے اِس سیلاب میں قریباً ہر آدمی بہہ جانے کو ہے۔
الفاظ کی اِس شیشہ گری کے پیچھے البتہ جو ’’کہانی‘‘ ہےوہ انتہائی بھیانک ہے۔ آپ
صریح لفظوں میں سننا چاہیں تو یہاں آپ کے ایمان کا سودا مطلوب ہے۔ آپ کی اس امت کو
بھی تاریخ کے اُسی بھاڑ میں جھونکنے کا
’ہدف‘ درپیش ہے جس میں پہلی امتوں نے برضاورغبت اپنا آپ جھونک لیا اور وہ کُوڑا
بالآخر تاریخ کی راکھ بن گیا یا زیادہ سے زیادہ ایک تہذیبِ فاسد کی مشینوں اور
گراریوں کو چلانے میں کام آتا ہے۔
اس ’پروسیجر‘ کے لیے جو اصل ٹیکنیکل لفظ
مستعمل ہے وہ تو ہے اسلام کا ’’ری فارم‘‘ بحقِ
سالمیت و استحکامِ عالم! یعنی اُس اسلام اور
مسلمان سے اب دنیا کی جان چھڑاؤ جس نے اس کی ناک میں دم کرکے رکھا تھا، جس نے روم
وفارس و ہند کو زیروزبر کرڈالا تھا، جو چودہ صدیوں تک دنیا میں شرک کو موت کا
پیغام سناتا رہا اور دوردراز تک ملکوں کے ملک صاف کراتا، بتکدے گراتا اور صنم کدے
خاک میں ملاتا رہا ہے اور ایک خالص آسمانی نقشے پر دنیا کی تہذیبی ساخت کرتا رہا
ہے، یعنی وہ اسلام اور مسلمان جو ’’بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے
پروردگار کی بندگی میں، بندوں کو ادیان کے
ظلم وجہل سے نکال کر اسلام کے عدل میں، اور دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت
کی وسعت میں لے آنے‘‘کے
اُس خدائی آسمانی مشن پر گامزن رہا ہے۔ اُس اسلام اور مسلمان کا محض مغلوب ہوجانا
آج اُن کی نظر میں کافی نہیں، کیونکہ اس طرح تو یہ ’خطرہ‘ جوں کا توں رہا؛ کیا
معلوم آج کا مغلوب کل کا غالب اور آج کا غالب کل کا مغلوب ہو اور قدیم سے چلی آنی
والی اِس کہانی میں کسی بھی لحظہ کوئی نیا موڑ آجائے؛ لہٰذا پیرس اور مین ہیٹن کے
نائٹ کلب اِس دنیا میں اُس مطلق بےفکری کا حظ کیونکر اٹھاسکتے ہیں جب تک کہ دنیا
کا یہ سیناریو بدل جانے کا اندیشہ ہی ہمیشہ کےلیے ختم نہ کردیا جائے؛ لہٰذا اُس
’اسلام اور مسلمان‘ کا محض مغلوب ہونا اور پابندِسلاسل ہونا کافی نہیں؛ بلکہ اب یہ
کہانی دنیا میں ختم ہی ہوجانی چاہئے؛ اب یہاں ’اسلام اور مسلمان‘ ہی اور قسم کا
چاہئے جو یہ سبق پڑھائے کہ شرک کو موت کا پیغام سنانا ظلم اور جہالت ہے اور شرک کے
ساتھ ہاتھ ملانا اور عبادتِ غیراللہ کے ساتھ سازگاری اختیار کرنا شریعتِ آسمانی کا
اصل الاصول! ری فارم آف اسلام! یعنی اسلام کی ’تشکیل نو‘ یا پھر اسلام
میں عصری تقاضوں کے مطابق کچھ ’ہلکی پھلکی‘ اصلاحات! جس کےلیے اگر ہم اپنی ٹھیٹ
شرعی اصطلاح استعمال کریں تو کہیں گے: اسلامی احکام کی کھلم کھلا تحریف۔ جبکہ
تکلفات کے عادی طبقے اس کو ایک ’نئے اجتہاد‘ کا نام دیں گے۔ یعنی کل تین طبقے ہوئے:
أ.
باہر کے لوگ اس کو
’اسلام کے ری فارم‘ کے تحت بیان کریں گے؛
کیمبرج، ہارورڈ، یا آکسفورڈ کا ایک پروفیسر اِس کےلیے یہی لفظ بولے گا۔ البتہ ’ملک
کے اندر‘ ایسے ناشائستہ الفاظ اور اسلوب اپنانا ’دانشمندی‘ کی زمرے میں نہ آئے گا!
ب.
ہم اہل شرع اس کو
’’اسلام میں تحریف‘‘ کا نام دیں گے۔ ہمارے نزدیک یہ اسلام کو اس کی تاریخی پٹڑی سے
ہٹا دینے کی ایک ایسی صریح کوشش ہے کہ دینِ محمدﷺ پر اس سے بڑھ کر تباہ کن حملہ
بنی یہود اپنی پوری تاریخ میں نہ کرپائے ہوں گے۔
ج.
جبکہ بیچ کی مخلوق
عین اسی چیز کو ’اجتہاد‘ یا ’ارتقاء‘ سے تعبیر کرے گی۔
مختصر
یہ کہ کچھ نئے عالمی تقاضوں پر ’کما
حقہ‘ پورا اترنے کےلیے۔۔۔ یہاں آپ کو اسلام میں کچھ ایسی اشیاء کےلیے ’’گنجائش‘‘
نکالنا ہوگی جن سے ’’اسلام‘‘ کے نام پر آپ کبھی واقف نہیں رہے تھے!
یعنی ایسی ایسی اشیاء جن کا اسلام میں کبھی
دستور ہی نہیں تھا۔ ایک بالکل نئی ریت جو آج چلائی جارہی ہے اور میڈیا کی اندھی
طاقت کو کام میں لاکر اس وقت عام کرائی جارہی ہے۔ حضرات و خواتین! یہ جو ’ری فارم
آف اسلام‘ المعروف ’اجتہاد‘ اور ’ارتقاء‘ کا عمل ہے اور جوکہ استشراق کے شاگردوں
کے دم سے ہمارے یہاں زوروشور سے ترقی کررہا ہے۔۔۔ اس کی نشاندہی کرنا ان شاء اللہ ہمارا کام رہا۔ اِس
کےلیے شرعِ محمدﷺ کے اندر ’گنجائش‘ کتنی ہے اور کس شدومد کے ساتھ اپنے یہاں اِس کی
پزیرائی کرائی جانا ہے، یہ طے کرنا البتہ آپ پر ہےاور آپ کے ایمان پر!
بنیادی طور پر یہ ایک طویل موضوع ہے اور اس
کے بےشمار جوانب۔ اگر ہمارے وقت نے ساتھ دیا تو شاید یہ ایک کتاب بن جائے، مگر
اختصار کے ساتھ یہاں ہمارا موضوعِ سخن عالمی تحریکِ یکجہتیِ ادیان interfaith
harmony اور اس سے پھوٹنے والے کچھ
مباحث ہوں گے۔
*****
حضرات!
’گلوبلائزیشن‘ کی زبان میں ’’زمانہ‘‘ آپ سے اب کن نئی نئی اشیاء کی فرمائش
کرنے لگا ہے، یہ آپ سے آپ واضح ہے۔ اور
اگر آپ ’زمانے‘ کے یہ اشارے سمجھ کر نہیں دیتے تو ’ترقی‘ کے خواب تو رہے ایک طرف،
اور ’پتھر کا دور‘ بھی ایک طرف، اس تیز رفتار دنیا میں اب آپ کی بقاء ہی ممکن نہیں۔
سیدھی بات ہے، اِس گلوبل ولیج کا اپنا ایک
دستور ہے، جو وہ آپ سے پوچھ کر نہیں بناتا اور نہ آپ سے پوچھنا اُس پر فرض ہے۔
البتہ جب و ہ بن جائے تو اس پر پورا اترنا آپ پر فرض ہے۔ اِس کے ’فرض‘ ہونے کی
دلیل آپ اپنی قومی لغت سے لینا چاہیں تو دستیاب ہے۔ اور اگر اس پر ’اسلام‘ کو زحمت
دینا چاہیں تو اب وہ حاضر ہے! صاف صاف، اِس گلوبل بستی کا
ایک دستور ہے اور اِس کی ’شہریت‘ اِس کے
دستور کو ماننے کے ساتھ مشروط۔ دنیا کا ہر مذہب، ہر دھرم، ہر فلسفہ آج اس بات کا
پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس عالمی دستور کے موافق کرے۔ وہ یہ کام کس
طرح کرے، یہ اُس کا داخلی مسئلہ ہے۔ اِسی کا نام ’مذاہب کا ریفارم‘ ہے۔ ایک مذہب
’گلوبلائزیشن‘ کا دیا ہوا یہ ہدف کس طرح پورا کرے، تحریفِ لفظی کا سہارا لے یا
تحریفِ معنوی سے ہی گزارا کرے، یہ اُس کا اپنا دردِسر ہے۔ آپ کو اس سلسلہ میں
تعلیم وابلاغ کی صورت کچھ سہولیات میسر ضرور ہیں جن سے کام لے کر آپ عالمی فری میسن کا دیا
ہوا یہ ہدف سر کرسکتے ہیں، مگر یہ آپ کا
استحقاق بہرحال نہیں؛ اِس جہانی مطالبے پر پورا اتر کر دکھانا آپ کا اپنا بوجھ ہے۔
ہر مذہب ا ِس ’باربر‘ سے اپنی حجامت کراکر اچھا خاصا ہلکا پھلکا ہوچکا ۔۔۔ اور ان کا خیال ہے کہ صرف
ہم باقی رہ گئے ہیں جن کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’’فسق و فجور‘‘ ہی آسکا ہے ان کا
مذہب ابھی تک اِس ’اصلاح‘ کے عمل سے نہیں گزارا جاسکا ہے؛ وہ آج بھی اُسی طرح شرک
کی مذمت کرتا اور اہل شرک سے براءت کا سبق دیتا ہے جس طرح آج سے چودہ سال پہلے
دیتا تھا اور اپنی کسی ایک بات میں تبدیلی لانے پر تیار نہیں!
ہمارا ’فسق و فجور‘ کبھی اُن کو بےحد عزیز
تھا۔ مگر اِس سے اب اُن کا دل بھر چکا، اب یہ شدید ناکافی ہے۔ وہ کام جو ’فسق
وفجور‘ کے تحت ہوتے تھے اب وہ کام ’’دینداری‘‘ ہی کے تحت ہونے چاہئیں۔ ’کرسمس کیک‘ اب بسم اللہ پڑھ کر کاٹا جانا
چاہئے! (معاذاللہ ثم معاذاللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی سالگرہ کی تقریب میں اب تلاوتِ
کلام پاک کی کارروائی کے ساتھ شریک ہونا چاہیے! شرک کے شعائر میں اب ’’اسلام‘‘ کی
نمائندگی ہونی چاہئے! اِس پر آسمان گرپڑے یا زمین شق ہوجائے، مگر کچھ شقی دلوں کو
جنبش نہ ہوپائے گی اور وہ برابر اس پر ’اجتہاد اجتہاد‘ کے نعرے الاپتے رہیں
گے۔ آج کرسمس، کل دیوالی اور پرسوں نہ
جانے کیا! سوائے دورِاکبری کے، بھلا کب ہماری ملت کے لوگ اہل شرک کی ان تقریبات کو
رونق بخش آنے کے روادار ہوئے ہوں گے؟ صحابہؓ جوکہ آدھی دنیا میں پھیل گئے تھے اور
ہر مذہب ہر ملت کے لوگوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی اعلیٰ ترین مثال خود اپنے
ہاتھوں قائم کرگئے اور جبکہ یہ ملتیں اُس وقت بھی اپنے یہ تہوار مناتی ہی رہی
تھیں۔۔۔ اِس معاملہ میں اُن صحابہؒ کا بھی تو کوئی دستور رہا ہوگا، اور اُن کے
متبعین فقہاء و محدثین نے بھی تو نسل درنسل صحابہؓ کے اس دستور کو چلایا ہوگا!
حضرات وخواتین! کوئی ہماری اِس گفتگو سے یہ نہ سمجھ لے کہ ہم
محض ایک مسئلہ کرسمس کے پیچھے پڑگئے ہیں۔۔۔ مسلم ’جبہ ودستار‘ کو کرسمس تقریبات
میں رونق افروز کرانا آج اِس ایک بھیانک کہانی کا محض عنوان ہے۔ یہ محض ایک علامتی
اہمیت symbolic
significance کی حامل چیز ہے۔ اِس کے پیچھے جو اصل کہانی ہے
اُس کا نام ہے ’’تقاربِ ادیان‘‘۔ یعنی ادیان کے فرق کو زیادہ سے زیادہ حاشیائی اور
غیرمؤثر کرانا اور دنیا کو عملاً ایک ملت بنانا۔ وقت کے نبیؐ پر ایمان لانے اور
کفر کرنے والوں کو ایک سطح پہ لاکر اور بھائی بھائی بنا کر دکھانا۔ اِس کے پیچھے ابلیس
کی ٹکسال سے نکلے ہوئے بہت سے عقیدے بیک وقت بول رہے ہیں جن میں سے ایک ’’ہیومن
ازم‘‘ ہے۔ یعنی آدمی کی پہچان، آدمی کی ولاء، آدمی کی دوستی، آدمی کی وابستگی اور
آدمی کی برادری، اور آدمی کو پابند کرنے والی شریعت آدمی کی ’’انسانیت‘‘ ہے جس کا
کل تعلق اِس زمین سے ہے نہ کہ آسمان سے اترنے والی کوئی حقیقت جو کسی خدائی شریعت
اور کسی ’مافوق الفطری‘ چیز پر قائم ہو۔ اس
کی رو سے انبیاء پر اتری ہوئی کسی چیز پر آدمی کا ایمان لانا یا اس سے کفر کرنا وہ
چیز ہے ہی نہیں جو ’’انسان‘‘ کو ملتوں میں تقسیم کردے۔ لہٰذا اِن لکیروں کو جو
’’انسان‘‘ کو تقسیم کردینے کا سبب چلی آئی ہیں اور جوکہ ’’ادیان‘‘ کے نام پر کھینچ
ڈالی گئی ہیں، مٹادینا اِس عقیدۂ ہیومن
ازم کا اَوجب الواجبات ہے۔اِس پوری کہانی سے جو شخص ذرہ بھر باخبر ہے، وہ جانتا ہے
کہ ’مولوی اور پادری‘ کا یہ فوٹوسیشن، معاذاللہ ثم معاذاللہ ’قرآن اور صلیب کی یہ
دوستی‘ اور کرسمس کیک پر کھلتی چلی جانے والی یہ باچھیں اپنی دلالت میں آج کتنی
بڑی اور کتنی بھیانک حقیقت کا بیان ہیں۔ ذرا اِس پہلو سے دیکھیں تو آپ اتفاق کریں
گے کہ یہ ’ایک مسئلے‘ کے پیچھے پڑنا نہیں بلکہ ایک ممکنہ تباہی کی نشاندہی ہے۔
حضرات! اِس سے بڑا ظلم کوئی ہے ہی نہیں کہ
اس کو ’اجتہاد‘ کا نام دیا جائے۔ ذرا نگاہ اٹھا کر اُس طوفان کو دیکھئے جو آپ کا
سب کچھ تہ وبالا کردینے والا ہے بلکہ کرچکا ہے۔فی الحال ہماری یہ گفتگو
’’تقاربِ ادیان‘‘ کے حوالے سے ہے، مگر یہ طوفان اپنے دوش پر بہت کچھ لارہا ہے۔ یوں
سمجھئے یہ دجالی ’گلوبلائزیشن‘ ایک بڑے دیوہیکل عمل کا نام ہے۔ اِس دیو کا کوئی
لقمہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ اِس کا پیٹ بھرنے کے لیے فی الوقت جس ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت
ہے اُس کو پورا کرنے سے بڑوں بڑوں کی سانس پھولتی ہے۔ ناواقف طبقہ گو یہی خیال
کرتا ہے کہ کسی چھوٹی موٹی تواضع سے اِس کا پیٹ بھرا جائے گا، اور اپنے اُن مدارس
اور مساجد میں جہاں صدیوں سے قال اللہ وقال الرسول کے دل پذیر نغمے گونجتے ہیں
’پادریوں اور بشپوں‘ کے اعزاز میں ایک آدھ ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ اسٹیج سجا کر
اور چند مسکراہٹوں کا تبادلہ کرکے مسئلہ اختتام کو پہنچے گا۔ مگر واقفانِ حال
جانتے ہیں کہ ایک سیاہ منحوس چیز کی یہ کچھ نہایت معمولی اور ناقابل ذکر شروعات
ہیں؛ جس کا.. انجام۔۔۔ خدا جانے! منہ پر آنا تو ناممکن ہے، بس سوچئے اور جھرجھری
لیجئے۔
بڑے بڑے دیندار اور اصحابِ جبہ ودستار آج
اپنا دین بیچنے جارہے ہیں۔ ہمارے نبیؐ نے
شاید ایسے ہی کسی دور کی بابت یہ کہا ہوگا کہ جس میں: الْقَابِضُ عَلَی دِیْنِہٖ
کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ اپنے دین کو تھام
کر رکھنے والا گویا جلتے انگاروں کو تھام کر بیٹھا ہے!
آئیے اپنا فرض پورا کیجئے۔ بےعلم کو اِس
فتنہ سے آگاہ کیجئے۔ جاہل کو پڑھائیے۔ غافل کو جگائیے۔ ظالم کو روکئے۔ اور دین
فروشوں کو معاشرے میں مسترد کروائیے۔
مضمون کا دوسرا حصہ: کرسمس
تا دیوالی… اشکالات آج ہی کیوں؟
مضمون کا تیسرا حصہ: ’اجتہاد‘
برائے کرسمس!