’اجتہاد‘ برائے
کرسمس!
(مسلمان اور کرسمس 2)
یہاں آج آپکو
جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش
آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین اجتہاد ہے۔ یعنی آپکا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار
آپ پر بند کرے گا اور آپکو ’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا...! یہی وجہ ہے کہ وہ
’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں
پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام
ہے! اِس میں رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمد ﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے
حدوحساب رکھ دیا ہے اور ’’مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً‘‘ اِس وافر
انداز میں یہاں خال خال کسی روسیاہ کو ملتی ہے۔ محسوس وہ بھی کررہے ہیں کہ قرآن
پڑھنے والا یہ معاشرہ نہ تو ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال‘‘ کا سدھایا ہوا کوئی لکیر کا فقیر انبوہ۔
حامد کمال الدین
hamid@eeqaz.org
دنیا جانتی ہے، نظریاتی سطح پر اِس وقت
عالم اسلام میں دشمن کے دو بڑے پراجیکٹ ہیں:
ایک: دین اسلام کی حقیقت کو دھندلا
کرنا، خاص طور پر کفر و اسلام کے فرق کو ملیامیٹ کرنا؛ (وہ جانتے ہیں، اس
محاذ پر اگر وہ کامیاب ہوگئے تو اسلام کے بےشمار مسلَّمات کا خود ہی گھونٹ بھرا
جائے گا، خصوصاً مسلمانوں کے تصورِ جہاد کا)۔ ’’بین الملل رواداری‘‘ کی تحریک
سمجھئے اس کا ہراول ہے۔ اس سے پچھلی صف میں ’’فکرِ ارجاء‘‘ کے تہہ در تہہ غول کھڑے
ہیں جو کچھ نہایت ’علمی بنیادوں‘ پر مسئلہ ایمان و کفر کو ’وہابی خوارج‘ کا کھڑا
کیا ہوا ایک فتنہ ثابت کریں گے (ورنہ صوفیہ نے کہاں کبھی ’’مسلم‘‘ اور ’’کافر‘‘ کا
فرق کیا تھا؛ یہاں تو ہندو، مسلمان، سکھ سبھی ہم پیالہ وہم مشرب رہے ہیں اور
’’ملتوں‘‘ کا فرق کبھی موضوع تک نہیں رہا!)، پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!
دوسرا: مسلمانوں کا عقائدی و فقہی انفراسٹرکچر تباہ
کرنا۔
شریعت کے فہم و تعبیر کے سلسلہ میں مسلمان جس طرح قدم قدم پر ’’پیچھے‘‘ مڑ کر
دیکھتا اور دستورِ سلف کا اتباع کرتا ہے.. ’طرزِ کہن پہ اڑنے‘ کی اِس ذہنیت سے
عالم اسلام کو اب نجات دلوانا۔ اِس ’اینلائٹنمنٹ‘ کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں
اب وہ ہر کسی کو سمجھ آتے ہیں: کچھ علمی پیمانے اور فقہی دستور جو مسلمانوں کے
یہاں چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور اُن کے مجوزہ ’جہانِ نو‘ کی راہ میں کسی
ہمالیہ کی طرح حائل ہیں، اب ناقابل برداشت ہیں؛ اور ان کو لازماً متروک ٹھہرایا
جانا ہے۔ (عالم اسلام میں اصل تصرف!) البتہ وہ دیدہ دلیر طبقے ابھی یہاں بہت تھوڑے
ہیں جو منہ پھاڑ کر کہہ دیں کہ اپنے فقہاء و محدثین کے ہاں اگر کچھ اصول اور قواعد
طے پا گئے اور صدیوں چلتے رہے تو بھی ان کی کیا حیثیت ہے ہم تو دین کے ہر ہر مسئلہ
کا فائل ہی آج ازسرنو کھولیں گے اور اس کے لیے سب اصول ہم خود ہی وضع کریں گے
(اپنے فقہی ورثے کو چیلنج کرنے والا طبقہ جس کی ایک مثال ’’المورد‘‘ ہے) اور جبکہ
دشمن کی اصل امیدیں ہمارے اِسی دیدہ دلیر طبقے سے وابستہ ہیں، البتہ اِس ہونہار
بروا کے جوان ہونے کا انتظار مشکل ہوا جاتا ہے۔ تاہم ایک بڑی تعداد یہاں ایسی ہے
جو اپنی فقہی روایات کے ساتھ ’’تصادم‘‘ کی بجائے ان کو ’’نظرانداز‘‘ کردینے کی روش
پر ہے؛ لہٰذا اِس عمومی طبقہ کے ذریعے بھی فی الحال یہ کام نکالا جا سکتا ہے کہ کچھ
ایسے جدید نظائر new precedents یہاں پر جاری کروالیے جائیں اور کچھ ایسے
بے نظیر رجحانات unprecedented trends اور انوکھی روایات
first-time practices کو فروغ دلوا لیا جائے جن سے یہ امت چودہ
سو سال ناواقف رہی ہے، جبکہ یہ سب جدید نظائر اور یہ سب بے نظیر رجحانات اور یہ سب
انوکھی روایات اُن کے اس مجوزہ جہان کی ہی تشکیل کررہی ہوں!... ہاں، البتہ اُس
فریق کے ساتھ ایک کھلی جنگ.. جو ہر قول کے لیے متقدمین کے نظائر ڈھونڈتا پھرے ، جو
امت میں پہلے سے طے شدہ مسائل کے فائل آج نئے سرے سے کھولنے پر معترض ہو، اور جو
امت کو قرونِ سلف سے چلے آنے والے علمی دساتیر کی پابندی کروائے.. اور سب سے بڑھ
کر؛ جو دنیا کو ’’کفر اور اسلام‘‘ کا فرق بتائے۔ یہ طبقہ تو بلاشبہ گردن زدنی ہے!
’’وھابیت‘‘ اور ’’سَلَفِیت‘‘
سے بڑھ کر بھلا اِس ’جدید‘ دور میں کیا جرم ہوسکتا ہے اور ’مذاہبِ اربعہ‘ کا پابند
رہنے سے بڑھ کر بری بات دنیا میں کیا ہوسکتی ہے!
آپ تسلیم کریں گے... یہ دونوں پراجیکٹ ایسے
ہیں جن میں دینی طبقوں کا پورا پورا تعاون درکار ہے! صرف عدمِ مزاحمت
نہیں... بلکہ باقاعدہ تعاون! سیاستدان، ڈپلومیٹ، تعلیم کار، میڈیا، سب اپنی
اپنی جگہ اہم ہوں گے مگر ’مذہبی قیادتوں‘ کی اپنی ایک برکت ہے؛ اور یہ ’مذہبی
خانہ‘ کسی اور کے پُر کرنے کا نہیں!
آپ اس بربادی کا
اندازہ کر سکتے ہیں کہ اندھادھند وسائل کے مالک ادارے، این جی اوز اور قونصل خانے
آج ہمارے مولویوں اور مذہبی پیشواؤں کی قدرافزائی کی جانب متوجہ ہو جائیں!
حضرات! یہ واقعہ
عملاً ہو چکا ہے اور مسلسل رُو بہ ترقی ہے۔ آنے والے سالوں میں اب آپ اِس کے ثمرات
دیکھنے والے ہیں!
فاللّٰھم لا تقتلنا
بغضبک، ولا تھلکنا بعذابک، وعافِنا قبل ذٰلک۔
*****
یہ منظرنامہ اگر
آپ پر واضح ہے... تو اِس وقت یہاں مقبول کروایا جانے والا ایک ایک ’’نیا رجحان‘‘
اہم ہو جاتا ہے۔ ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا آپ
کے حق میں نہایت کافی ہوتا ہے؛ کہ کیا بعید دشمن وہاں سے جو راستہ بنائے وہ آپ کے
باقی سب محاذ الٹ کر رکھ دے۔ وہ کوئی انتہائی ناعاقبت اندیش سپہ سالار ہو گا جو یہ
طرزِفکر رکھے کہ ’صرف ایک محاذ چلا جانے سے کیا فرق پڑتا ہے‘! اور یوں وہ اپنے سب
محاذ ’ایک ایک‘ کر کے دشمن کو دیتا چلا جائے! (ذرا دو سو سال پیچھے نگاہ دوڑا کر
دیکھئے؛ آپ کیا کیا کچھ دے آئے ہیں؛ اور اپنے ’ہنوز دلی دور است‘ والے اس طرزِ فکر
کا جائزہ لیجئے، جس کی رُو سے ہر بار ’’اِتنا سا‘‘ دے دینے میں کچھ مضائقہ نہیں
ہوتا! اور جس کی رُو سے کسی ایک ہی ایشو کو ’’بڑھا چڑھا دینا‘‘ ایک معیوب روّیہ
ہے!)... جہاں آپ کو ایسے سپہ سالار نصیب ہوں وہاں دشمن شدید بے وقوف ہوگا اگر سب
کچھ آپ سے ایک ہی بار طلب کرے؛ جبکہ ہمارا دشمن بے وقوف نہیں ہے! وہ ایک ہنڈیا کو
دھیمی آنچ پر پکانا خوب جانتا ہے اور اگر آپ نظر اٹھاکر دیکھیں تو وہ یہاں اپنے
پکوانوں کا ایک عظیم بازار سجا چکا ہے۔ جبکہ ہم اپنے اُسی منہج پر قائم کہ ہم اِن
بدیسی اشیاء کو ایک پیکیج کے طور پر کبھی نہ لیں گے بلکہ pick & chose کا وہ ’زریں اصول‘ ہی لاگو رکھیں گے جس نے چند عشروں میں
اِس گھر کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’حکومتی اقدامات‘ کا رونا اب بہت پیچھے
رہ گیا؛ یہاں ہمارا وہ سماجی فیبرک ہی تار تار ہو چکا جس سے آج تک ہم نے اپنا تن
ڈھانپا تھا! کہاں وہ وقت جب اِس گھر کے گر جانے پر ہمارا آہ و گریہ نہ تھمتا تھا؛
اور کہاں یہ وقت کہ اپنی تن برہنگی کا رونا رونا بھی آج خبط اور انتہاپسندی ہے!
اِس پر دشمن سے
زیادہ اپنے اس منہج کو داد دینا بنتا ہے جو اپنی نہاد میں ’مرحلہ در مرحلہ پسپائی‘
کا پورا ایک پروگرام رکھتا ہے اور جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قوم کو
’’شکست‘‘ کے ہر بیدارکن جھٹکے سے محفوظ رکھتا ہے!
*****
ایک ایک محاذ پر ڈٹ جانے کی
رِیت البتہ ہمیں آج بھی زندہ کر سکتی ہے؛ خصوصاً عقیدہ کے محاذوں پر؛ جوکہ ہماری
زندگی کا اصل راز ہے اور دشمن کو مات دینے کا اصلی اور یقینی نسخہ۔ اور اب تو ہمای
جنگ کا اصل میدان۔ جس میں اگر ہم ثابت قدم رہ کر دکھا دیں تو ان شاء اللہ ہماری
فتح یقینی ہے:
ادْخُلُواْ عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ
فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ
’’عقیدہ‘‘ کے
محاذوں پر رباط
آج سب سے بڑھ کر ضروری ہے۔ جس کا ایک ایک
مورچہ اِس وقت خطرے میں ہے؛ اور جس کا ایک ایک میدان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے!
اِس محاذ پر مسلسل
پسپائی آج ہمیں اِس مقام پر لا چکی ہے کہ شرک کے تہواروں پر صرف کیک ہی نہیں کاٹے
جارہے، بلکہ اِس پورے معاملے میں ہمیں اپنے چودہ سوسالہ دستور سے ہٹ کر ایک ’نئے
اجتہاد‘ کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی ہے، بلکہ کچھ لوگ ہمت کر کے گول مول الفاظ
میں ’’لاحَرَج‘‘ کے راگ الاپنے
بھی لگے ہیں؛ کہ جانتے ہیں باطل کو اپنا آغاز کرانے کے لیے ایک گول مول اسلوب ہی
بہت کافی ہوتا ہے؛ ’وقت‘ ایک ایسا بے رحم فیکٹر ہے کہ ہر ’گول مول‘ خودبخود
’’سپاٹ‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابھی یہ رونا ’جدت پسندوں‘ کا نہیں بلکہ روایات کے
محافظ طبقوں کا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ’پیچ ڈھیلے کرنے‘ کا کام کس سطح پر جا
پہنچا ہے!
*****
یہاں سے آپ پر اُس
’اجتہاد‘ کی حقیقت کھلتی ہے جس کا تقاضا اِس وقت آپ کا ’’دین‘‘ نہیں بلکہ ’حالات‘
اور ’ضرورتیں‘ کروا رہی ہیں... اور جس میں آگے بڑھتے وقت آپ ہربار ایک داخلی خلجان
سے گزرتے ہیں!
آپ کی الجھن آج یہ
ہوگئی ہے کہ: وہ راہ ہی جس پر آپ قدم رکھ چکے اپنی انتہائی صورت میں باطل
کے گھر جاتا ہے ۔ آپ کی اِس راہ کو بند کرنے والا خود آپ کا دین ہے۔ پس یہاں آپ کو
جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین
اجتہاد ہے۔ یعنی آپ کا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار آپ پر بند کرے گا اور آپ کو
’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا!
اِس کا پائیدار حل
یا تو یہ ہے کہ آپ اُس راستے سے جان چھڑا لیں جو اپنی انتہائی صورت میں آپ کو باطل
کا پیروکار بناتا ہے... اور یا پھر اِس دین سے جان چھڑا لیں جو اُس راستے کو آپ پر
باربار بند کرتا ہے!
اور یہی آپ کا اصل
مخمصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ
’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے
ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام ہے! ’حالات‘ مسلسل زور لگا رہے ہیں مگر اُن کی
فرمائش کا ’اجتہاد‘ عالم اسلام سے ہو کر نہیں دےرہا۔ پورا جہان اِس کے لیے چیخ چیخ
کر رہ گیا، مگر ہمارا یہ ’اجتہاد‘ ہے کہ سامنے آنے سے مسلسل جھجک رہا ہے! اِس میں
رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمد ﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے حدوحساب رکھ دیا ہے
اور مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً کی ہمت یہاں خال
خال کسی روسیاہ کو ہوتی ہے ۔ محسوس وہ بھی کر رہے ہیں کہ قرآن پڑھنے والا یہ
معاشرہ نہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال‘‘ کا سدھایا ہوا کوئی لکیر کا
فقیر انبوہ۔
یہاں سے؛ اُن کا
یہ مخمصہ بے اندازہ بڑھ جاتا ہے!
اور اگر صاحب
بصیرت داعیوں کی کوئی باصلاحیت جماعت آج میدان میں اترآتی ہے اور اُن مقامات پر
جہاں اس دین کی قوت پوشیدہ ہے اپنی پورا زور دے لیتی ہے... تو یہ ’مخمصہ‘ دلچسپ
بھی بے اندازہ ہے!
*****
مسئلہ کی یہ
سنگینی اگر آپ پر واضح ہو جاتی ہے تو قوم کو خبردار کرنے کا کوئی ایک بھی موقع
ضائع جانا آپ کو گوارا نہ ہونا چاہئے..
ایک پوری جنگ ہار
دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا کافی اور کاری ہوسکتا ہے... تو کسی
ایک محاذ پر دشمن کو پسپا کر دینے میں کامیاب ہونا ایک پوری جنگ جیت جانے کے لیے
بنیاد بھی بن سکتا ہے!
اور یہ تو عقیدہ
کا مسئلہ ہے جو اہل ایمان کے ہاں ہمیشہ سنجیدگی کا متقاضی رہا ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ ہمارے
نظریاتی وجود کا ہی دوسرا نام ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے لیے حساس
نہیں ہوتی۔ اِس پر کوئی مصلح خاموش کیسے رہ سکتا ہے؟