7
"اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان ہونے کی چیز
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
ساتویں قسط
سوال
3:
سوال یہ ہے کہ اگر مسلم اکثریت
کو ایک بڑی سطح پر تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنے دینی سیاسی حقوق کی اہمیت دلوا کر
اس کے نتیجے میں اگر ایک حکومت ہاتھ آ جائے گی تو، آئینی تبدیلیوں کے ذریعے اسے
عین خلافت راشدہ کے ڈیزائن کے قریب ترین نظام سے کنیکٹ کرنے کا خیال ایک خیال غلط
کہلا سکتا ہے
_
جبکہ اس سارے عمل سے کٹے رہنے کی
صورت میں کا نتیجہ لبرل اور سیکولر ازم کو مسلسل ریاستی اقلیم پر پھن پھلا کر قابض
رہ کر اپنے مطابق قانون و آئین سازی کا اختیار دے چکا ہے _
جواب:
اس کا جواب کچھ ہو چکا۔ "مسلم اکثریت کو ایک بڑی سطح
پر تعلیم و تربیت" دے لی جانا، درحالیکہ آپ کے یہاں تعلیم اور ابلاغ کی باگ
کچھ دین ناآشنا یا شاید دین بیزار طبقوں کے ہاتھ ہو، ایک نیک خواہش wishful
thinking کہلا سکتی ہے۔ "اکثریت" کو "ایک
بڑی سطح پر" تعلیم و تربیت دے لینا – بغیر آپ کے ایک لمبا عرصہ اقتدار میں
رہے، یا اہل اقتدار کے ساتھ کوئی حکیمانہ پارٹنرشپ رکھے – خیال اور محال ہے۔ اس
واہمہ سے جلد نکل آنا چاہیے۔ سماجی حقیقتوں سے ہم الجھ نہیں سکتے۔
بجائے اس کے کہ معاملہ "اکثریت کے بڑی سطح پر تعلیم و تربیت پا لینے"
پر موقوف رہے (جو بغیر اقتدار ہونے والا نہیں)، اس سے ایک کہیں بہتر اور کرنے کا
کام… میری نظر میں یہ ہے کہ ایک غیرمعمولی outstanding صلاحیتوں کی مالک ، صالح
اعتقاد پر تربیت پا چکی "اقلیت" ہی فی الحال آپ میدان میں لے آئیے جو
یہاں کے ہر شعبے میں ٹاپ تک پہنچنے کی ہمت اور جِگرا رکھتی ہو۔ "اقتدار"
وغیرہ کو ایک لمبے عرصے تک ذہن سے نکال دیجیے جو کہ ویسے بھی اتنی آسانی سے آنے
والا نہیں، اور اگر کسی تدبیر سے آ بھی گیا تو ایک بڑے عرصے تک وہ اسلام کو لے کر
چلنے والا نہیں، جیسا کہ پیچھے گزر چکا، (جبکہ ہمارا اپنا وِژن ویسے ہی
"اقتدار" نہیں بلکہ "اصلاح" کے گرد گھومتا ہے، مگر فی الحال
یہ ہمارا موضوع نہیں)… وقت کی جاہلیت سے صحیح معنیٰ میں براءت کر رکھنے والے،
اعلیٰ تربیت کی بھٹی سے گزارے گئے غیر معمولی صلاحیت اور غیر معمولی ہمت کے دس سے
پندرہ ہزار نفوس میرا خیال ہے بائیس کروڑ کے اِس ملک میں دس سال کے اندر معجزے کر
سکتے ہیں۔ یہاں کے سب سماجی شعبوں میں، اوپر کی پوزیشنیں "اسلامیوں" کے
حوالہ سے فی الحال سائیں سائیں کر رہی ہیں۔ اور شعبوں کو چھوڑیے جو کہ ہزاروں ہیں،
کالجوں یونیورسٹیوں میں تدریس کے ڈائس پر کھڑا جاہلیت کے پرخچے اڑا سکنے والا اپنے
سبجیکٹ میں لاثانی، شستہ زبان اور ایک اچھے کارزما charisma کا مالک اسلام
پسند پروفیسر آج سو میں سے نہیں ہزار میں سے ایک دیکھنے کو مل جائے تو بڑی بات ہے۔
بلکہ وہ بھی شاید نہیں۔ (پاکستان کی بات ہو رہی ہے)۔ "تاثیر" کے مقامات
کو اپنی گرفت میں کر کے، اقتدار کے بغیر بھی، تہذیبوں کی جنگ میں آپ کسی وقت بہت
اچھا پرفارم کر جاتے اور کچھ بڑے بڑے برج الٹ لیتے ہیں۔ معاشرے پر پورا نہیں تو
آدھا قابو آپ اِس طریقے سے بھی حاصل کر جاتے ہیں، اور وہ "آدھا" قابو جو
یہاں "اصلاح" کی ڈھیروں صورتیں آپ کو سرِ دست میسر کراتا اور معاشرے میں
کفر کی پیش قدمی کی راہ میں پہاڑ حائل کر لیتا ہے، بسا اوقات اُس "خالی
رہنے" سے ہزار درجہ بہتر ثابت ہوتا ہے جو "پورے" کے انتظار میں گلے
سے لگا رکھا جاتا ہے؛ اور جس کے باعث آپ اور سے اور دیوار سے لگتے اور معاشرے میں
اپنا لیوریج leverage
کھوتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر جب کسی معجزے کے نتیجے میں "پورا" ہمارے
پاس آ بھی جاتا ہے تو گویا ہم کسی نیند سے جاگتے ہیں کہ اب کیا کریں! ائمۂ سنت کو
ہم نے اپنے اپنے زمانے کے سوشل سائنٹسٹ کہا تو وہ ان کی اس صلاحیت کی بنیاد پر جب
"مسندِ اِرشاد" بغیر اقتدار میں ہوئے معاشرے کی آدھی پونی باگ ڈور اپنے
ہاتھ میں رکھتی تھی؛ اور حاکم کے اقتدار کو محدود کر دینے کی سائنس میں یکتا۔ یہاں
تک کہ اہل اقتدار بہت پہلوؤں سے اپنے آپ کو ان کی گرفت میں محسوس کرتے۔ پھر کسی
وقت اس "تاثیر" penetration کے نتیجے میں، جو محلات تک کو اپنی زد میں کامیابی کے ساتھ لے لیا
کرتی تھی – کیونکہ "تصادم"، "نعرہ بازی" اور "حکمران کی
صبح شام مذمت" کی راہ سے گریز رکھتی تھی –
ایسےایسے اچھے کردار کے شہزادے مسند اقتدار پر فائز ہو جاتے تھے جو ہم شاید
بڑی دیر تک اقتدار کو، اگر وہ ہمیں مل بھی جائے، نہ دے سکیں۔ غرض… کسی خاص توڑپھوڑ
کے بغیر بہت کچھ سنوار لینا ہمارے ائمہ پر ختم تھا۔ وہ جو اسلامی کمیاں ہمیں ماضی
کے ان حکمرانوں میں نظر آتی ہیں جو (ایک وسیع تر معنیٰ میں) ہمارے ائمہ و فقہاء کے
زیر اثر تھے… کیا معلوم ہمیں وہ کمیاں بھول جائیں جس دن ہم سے تربیت پانے والے لوگ
اقتدار پر پہنچیں، اگر کبھی پہنچیں! کہنے کو ترکی اور تیونس میں اسلام پسندوں کے
پاس کیا "اقتدار" نے آ کر دکھا نہیں دیا اور ہمیں معلوم نہیں کروا دیا
کہ ‘کہانی’ تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے!؟ (مصر کی بات چلیں نہیں کرتے کیونکہ وہاں
اقتدار میں آتے ہی ہمارے ساتھ زبردستی ہو گئی تھی، نیز اپنے صوبۂ سرحد پر گزرنے
والا ایک پنج سالہ بابرکت عہد بھی فی الحال زیر بحث نہیں لاتے تا کہ بات کسی اور
طرف نہ چلی جائے)… تو کیا "مجبوریوں اور نارسائیوں" کی وہ ایک لمبی
فہرست جو کم از کم ترکی اور تیونس میں "اسلام" کی جلدی کرنے والوں کےلیے
ہمارے پاس تیار حالت میں موجود رہی ہے، یہ بتانے کےلیے کافی نہیں کہ
"اقتدار" سے بڑھ کر بھی یہاں بہت کچھ دیکھنے اور کرنے اور پریشان ہونے
کا ہے!؟ یہ "اقتدار سے بڑھ کر" جو چیز ہے اسے ہم اصلاح کہتے ہیں جو
"نفس" اور "منہج" کی ایک استعداد کا نام ہے، یا ایک مخصوص
"معاشرتی" اپروچ یا اہلیت یا ذہنیت یا اندازِ سرگرمی کہہ لیجیے، جو
اقتدار کے بغیر بھی باطل کے بہت سے قلعے ڈھا لیتا ہے اور مقاصدِ حق کے ایک بڑے حصے
کو "اس دوران" بھی زنگ آلود ہونے نہیں دیتا۔ اور جس کے آپ کے یہاں معدوم
یا ناتواں ہونے کی صورت میں اقتدار پا کر بھی آپ اسلام کے حق میں کالمعدوم رہتے
ہیں۔ ہاں اس "اپروچ" یا "اہلیت" یا "اندازِ سرگرمی"
کے ہوتے ہوئے اگر کسی وقت اللہ آپ کو اقتدار دے دے تو وہ اسلام کے سماجی مقاصد کو
بہت ہی اعلیٰ سطح پر حاصل کرانے لگتا ہے۔ ورنہ خالی آپ پھر بھی نہیں رہتے۔ أصابھا وابلٌ
فآتت اُکُلَہا ضِعفین، فإن لم يُصِبْها وابلٌ فطلّ۔ اس شے کا بندوبست کرنے کی ہی اس وقت سب سے
بڑھ کر فکر کرنی چاہیے، میری رائے میں۔
"اقتدار پا لینے" کی صورت میں آپ معاشرے کو کیا دے سکیں گے، اس کا
اندازہ کرنا خاصا آسان ہے – اور یہ آئینہ ہر دم آپ کے سامنے دھرا ہے – اور وہ یہ
کہ "اقتدار کے بغیر" آپ معاشرے کو کیا دے سکے ہیں اور اپنے مقاصدِ حق کے
ساتھ اس کی رگوں میں کتنا سرایت کر سکے اور اس کے وجود کا سب سے زیادہ ارتعاش
انگیز the most vibrant حصہ اپنےآپ کو کہاں تک ثابت کر سکے ہیں۔
ایک بھاری "اکثریت" کو اسلام کے
مقاصد کی شاہ راہ پر اپنے پیچھے آپ کس کامیابی سے چلا اور دوڑا سکیں گے، خود اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ ایک زیرک، بیدار، فعّال، باصلاحیت، باتدبیر، پیش بند، سبک
رفتار "قلیل" کے طور پر اپنے ان مقاصدِ حق کے معاملہ میں وہاں آپ کتنا
کامیاب کھیل پائے ہیں۔ ایک ایسی چیز، جس کے حوالہ سے معاملہ اس وقت دگرگوں ہے۔ پس
میرا مشورہ تو یہی ہے کہ "اکثریت" پر نظر ٹکانے کی بجائے آپ کسی ایسے
"قلیل" کا انتظام کر لائیے جو معاشرے پر اثرانداز ہونے کے فن میں طاق
ہو۔ ہمارے بہت سے رکے ہوئے کام ان شاء اللہ تب بھی کسی نہ کسی سطح پر ہونے لگیں گے
اور "اسلام" کم از کم آپ کو میدان میں ضرور نظر آنے لگے گا، جوکہ فی
الوقت ڈھونڈنا پڑ رہا ہے۔ "اصلاح" اگر نفس اور منہج کی ایک استعداد کا
نام ہے... تو "اقتدار" اور نہ "عدم اقتدار" کوئی ایسی صورتحال
نہیں جس میں یہ اپناآپ نہ بتائے۔ ہو، تو یہ ضرور بولتی ہے۔ یہ ہر موسم میں پھل
دینے والا شجر ہے؛ اور اس کےلیے کوئی پت جھڑ نہیں۔ تُؤْتِي
أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا۔
پچھلی
قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب اگلی قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں