5
جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
پانچویں قسط
سوال1:
کیا موجودہ دور میں ریاست میں
تبدیلی کے دستیاب ٹول "جمہوریت" میں شامل ہوکر اسلام یا اسلامی نظام کے
لیے کوشش کرنا منہج سلف یا قرآن و سنہ سے صریح بغاوت کہلائے گی؟
جواب:
بالکل شامل ہونا چاہیے اندریں حالات، بشرطیکہ توحید پر ایک
اچھی تربیت آپ پا چکے ہوں۔ اور پورا زور لگا دینا چاہیے، اِس راہ سے، معاملے کو
مسلمان کے حق میں جس قدر ہو سکتا ہے کر لینے یا اس کی کوشش کر دیکھنے میں۔ نہ یہ
منہجِ سلف سے ہرگز کوئی انحراف ہے اور نہ قرآن و سنہ سے کوئی بغاوت۔ بلکہ اس سے
بڑھ کر، ہم تو کہتے ہیں: اس کےلیے جمہوریت کو "اسلامی" کرنا بھی ایک غیر
ضروری شرط ہے (اور حق تو یہ کہ ایک گمراہ کن رجحان، تاہم اس موضوع پر ابھی ہم نہیں
آ رہے)۔ جمہوریت کے "کلمہ" پڑھنے کے انتظار میں اپنی اس شرکت کو مؤخر
رکھنا اور تب تلک جمہوریت کے ایوان میں قدم دھرنے کو کفر کے مساوی جاننا یا حرام
رکھنا، در حالیکہ مصالح المسلمین یہاں آپ کی شرکت کا تقاضا کر رہے ہوں، ہماری نظر
میں ایک غیر ضروری تشدد ہے۔ دنیا کے اُن ملکوں میں بھی جہاں اس "کافر کو
مسلمان کرنے" کی رسمی کارروائی تک نہیں ہوئی ہے، یہاں تک کہ امریکہ، برطانیہ،
کینیڈا اور بھارت کی جمہوریت میں جہاں اس کو ‘مسلمان’ کرنے کا سوال ہی سراسر غیر
متعلقہ ہے – اسلام اور مسلمان کا کچھ نہ کچھ بھلا کرنے کےلیے – مسلمانوں کا شریک
ہونا ایک بالکل جائز و مشروع امر ہے۔ ہمارے اہل علم کے فتاوىٰ اس پر کثرت سے موجود
ہیں۔ چند تقریرات اس پر دیکھ لینے کےلیے آپ سعودی عرب کے شیخ (ایک عرصہ سے قید)
ابراھیم السکران کے رسالہ "مفاتیح السیاسة الشرعیة"
کی فصل "النظام السياسي غير المشروع:
بين الإنشاء والمشاركة" یا ہمارا اس سے
اردو استفادہ بعنوان "غیر شرعی نظام کو
بنانے اور اس کے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے" ملاحظہ فرما
سکتے ہیں۔
یہ ایک بہت اہم رُوٹ route ہے جو ہمارے
مشائخ اس باب میں اختیار کرتے ہیں، اور جو کہ ہمارے ان دینی طبقوں کی جمہوریت میں
شرکت سے خاصا مختلف ہے جو جمہوریت کو کسی نہ کسی درجے میں آئیڈیلائز کر تے ہیں اور
پھر کچھ اعتراضات سے بچنے کےلیے اس پر "ضرورات" والی دلیل کا سہارا بھی
لے لیتے ہیں۔ تھوڑی وضاحت کر دوں، کس طرح:
جمہوریت وغیرہ ایسے کسی بھی "غیر مشروع" نظام میں
ہماری شرکت کی بنیاد ہوتی ہے: دین کےلیے جلبِ
مصالح یا دفعِ مفاسد کے دستیاب مواقع کو حسبِ استطاعت بروئےکار لانا۔ یعنی
مسئلہ کی بنیاد ہوئی: کسی دستیاب موقعے کو لینے سے متعلق مصالح اور مفاسد کا ایک
دقیق شرعی موازنہ۔ کہیں پر مفاسد کا پلڑا بھاری ہوا تو وہ دستیاب موقع باوجود
دستیاب ہونے کے، نہیں لیا جائے گا۔ مصالح کا پلڑا بھاری ہوا تو وہ موقع لیا جائے
گا۔ یہاں سے؛ دو مسئلے نکلے:
1. مسئلہ کی بنیاد جب "مصالح و مفاسد کا موازنہ" ہے تو اس
"موازنہ" کی بنیاد پر ہمارا اس میں شریک ہونا کہیں (کسی صورتحال میں)
دین کا تقاضا ہو گا تو کہیں (کسی صورتحال میں) دین کا تقاضا نہیں ہو گا۔ سو کہیں
پر اس کی اجازت دی جائے گی تو کہیں پر اس سے ممانعت کی جائے گی۔ ہر دو حال میں اس
کو "تضاد" contradiction پر محمول نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ ہر دو حال
میں ایک ہی اصول لاگو ہوا ہے۔ ظاہر ہے جمہوریت کو آئیڈیلائز کرنے والا فریق اس بات
کو حیرانی سے لے گا کہ "کہیں پر اس کی اجازت اور کہیں پر اس سے
ممانعت؟"، اس لیے کہ وہ اس کو ‘ہر حال میں دین کا مطلوب’ قسم کی شےء گنے گا۔ یہ
ایک بنیادی فرق ہوا ہمارا اور ان اصحاب کا۔
2. مسئلہ کی بنیاد جب ایک دی ہوئی صورتحال میں in a given
situation دین کے کسی ناگزیر مفاد کی تحصیل (شرعی زبان
میں "جلب
المصلحة")، یا دین کو لاحق کسی بڑے نقصان کو دین سے ٹال رکھنا (شرعی زبان میں
"دفع
المفسدة") ہے… تو یہ قاعدہ "کسی بھی خلافِ شریعت نظام" پر لاگو ہو گا،
اور اس حوالہ سے "جمہوریت" کی کوئی خصوصیت نہ رہی۔ اصولاً، یہ
ایک "جمہوری" سیٹ اپ میں مسلمان کے شرکت کر آنے کے حق میں بھی درست valid ہوگا، ایک "ملوکیتی" سیٹ اپ میں بھی، ایک
"آمریتی" سیٹ اپ میں بھی… غرض ہر خلافِ شریعت سیٹ اپ میں۔ جو جو
"دستیاب مواقع" یہاں آئیں گے کہ انہیں بروئےکار لا کر ہم اسلام کا کچھ
شیرازہ مجتمع کر سکیں، کافر سے ارضِ اسلام اور شرعِ اسلام کا جتنا کتنا تحفظ کر
سکیں اور اِس پر اُس کی چیرہ دستی نہ ہونے دیں، قلمروئےاسلام میں سر اٹھاتے نفاق
کا جس قدر ممکن ہو سر کچل سکیں، اپنی نسلوں کی تعلیم اور تربیت اللہ اور اس کے
رسولؐ اور اس کے دین سے وابستگی پر کر سکیں اور ابلیس کی تعلیم (پڑھائی) اور تلقین
(ابلاغ) سے ان کا بچاؤ کر سکیں، اسلامی تہذیب کو یہاں کا سکۂ رائج الوقت رکھ
سکیں، وغیرہ… تو ایسے مواقع – بشرطِ موازنہ – ہم ضرور لیں گے اور کسی ‘خلافِ شریعت
نظام’ کی دلیل سے ہم ان عظیم مصالحِ اسلام کو معطل ہرگز نہ ہونے دیں گے، خواہ یہ
مواقع – ناگزیر طور پر – ہمیں کسی ایک قسم کے ‘غیر شرعی نظام’ میں ملیں یا دوسری
قسم کے۔ ہم دراصل اس پوائنٹ سے چلے ہی نہیں جہاں ‘کسی نظام میں ہمارا شرکت کرنا’
لازماً necessarily ‘اس نظام کو ہمارا
سندِ جواز عطا کرنا’ ہو، جیسا کہ ایک بڑی تعداد کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے۔ ہم یہ
بات بنیاد سے واضح کر چکے (دیکھیے شیخ ابراہیم السکران
کی محولہ بالا تحریر) کہ ایک ‘غیر شرعی نظام’ کو وجود میں لانا ایک اور پوزیشن
ہے، البتہ مصالحِ اسلام کو معطل نہ ہونے دینے کی خاطر وہاں دستیاب مواقع کو –
بشرطِ موازنہ – لے لینا بالکل اور پوزیشن۔ اس پر سب سے بڑی دلیل ابن تیمیہؒ نے
یوسف علیہ السلام کے عمل سے دی ہے، جو اِس وقت ہمارے بعض جمہوریت میں شرکت کرنے
والے اصحاب کے ہاں بھی متداوَل ہے۔ بےشک یہ دلیل ایک جمہوری سیٹ اپ میں شرکت کےلیے
بھی درست valid ہے، لیکن بھولنا نہ
چاہیے کہ جہاں سے آپ یہ "دلیل" لے رہے ہیں وہ ایک "ملوکیتی سیٹ
اپ" میں شرکت ہے! چونکہ ہمارے ان اصحاب کے ہاں "ضرورات" والی دلیل
کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو "آئیڈیلائز" کرنے والے محور پر بھی بیک وقت
معاملہ آگے بڑھ رہا ہے، اس لیے یہ "جواز" کے معاملے کو کسی بھی دلیل سے
"جمہوریت" ہی کے اندر محصور رکھنے کی کوشش کریں گے، جبکہ کسی
‘غیرجمہوری’ سیٹ اپ میں شرکت کر آنے کو خاصی اوپری نظر سے دیکھیں گے اگرچہ شرکت کی
بنیاد وہاں بھی "ضرورات" اور "مصالحِ اسلام کو معطل نہ ہونے
دینا" ہو! اور اگرچہ "مصالحِ اسلام" کی تحصیل نسبتاً (یعنی جمہوری
ادوار کی نسبت) وہاں تھوڑی زیادہ ہی ہوئی ہو! بلکہ شاید ان کے نزدیک یہ ایک طعنہ
ہو جسے یہ کبھی نہ سہہ سکیں! (ایک آمرانہ سیٹ اپ میں شرکت کا کسی بھی صورت روادار
نہ ہونا)! اور اگر کبھی ایسا کر لیا ہو (ضیاءالحق کے دورِ آمریت میں تھوڑی سی شرکت
اور تعاون، بطورِ مثال!) تو یہ خواہش کہ کہیں کوئی اس کا قصہ نہ چھیڑ دے! یعنی
احساسِ گناہ والی وہ پوری کیفیت! میں دوبارہ عرض کروں گا "ضرورات" کے
مُنْطَلَق premise سے چلنا ہر دو فریق کے
یہاں تقریباً نامانوس unfamiliar
ہے۔ (پہلی انتہا extreme کے ہاں ضرورات کا اعتبار نہیں ہے؛ لہٰذا ایک
"نظام" خلافِ شریعت ہے تو وہ
ترک ہو گا خواہ اسلام اور امت کا اس سے کتنا ہی بڑا نقصان ہوتا ہو اور
مسلمانوں کے کرنے کو وہاں کچھ نہ رہ جاتا ہو۔ جبکہ دوسری انتہا کے ہاں ضرورات کا اعتبار
نہیں ہے؛ لہٰذا ایک "خلافِ شریعت" کو کسی طرح "موافقِ شریعت"
بنانے کی کوشش کی جائے گی!)۔ حالانکہ "ضرورات" کا اعتبار ہی معاملے کو
وہ لچک flexibility دیتا ہے جو اس کو ٹوٹنے سے بچا لے؛ شرعی حکم بھی
اپنی جگہ باقی رہے اور امت کو لاحق کوئی بڑا نقصان بھی حتَّی الامکان ٹال لیا
جائے۔ اور یہ ہے ہمارے مشائخ کی راہ: "فقہ الموازنات"۔ اور یہ ہے وہ بات
جو ابن تیمیہؒ کے ہاں بیان ہوئی: نرا خیر اور شر کا جاننا فقہ نہیں، فقہ اصل ہے:
دو خیروں میں سے خیر اور دو شروں میں سے شر کو نکالنا۔
مسئلے کو لینے کا یہ رُوٹ جو ہمارے مشائخ کے
ہاں اختیار ہوتا ہے، اگر واضح ہو گیا ہے… تو پھر ایک قسم کے "خلافِ شریعت
نظام میں شرکت" کو طعنہ اور دوسری قسم کے "خلافِ شریعت نظام میں
شرکت" کو فخر جاننا اور اس میں اپنی "خدمات" کو بیان ہونے کی چیز
گننا… نری لاعلمی یا شاید وقت کی جاہلیت سے متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے۔ طعنہ اگر
"ایک خلافِ شریعت نظام میں شرکت" ہے نہ کہ کچھ اور، تو یہ یہاں بھی ہے
اور وہاں بھی۔ اس کو طعنہ نہ رہنے دینے والی بات اگر "ضرورات کا اعتبار"
ہے نہ کہ کچھ اور، تو یہ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔ پھر کیوں ایک "شرکت"
میں معیوب ہونے کا پہلو ہماری فکر کے اندر بولنے لگتا ہے اور دوسری
"شرکت" میں مطلوب و مقصود ہونے کا؟ یہاں؛ ذہنوں پر ہونے والے بیرونی
اثرات کو کیسے ہم خارج rule out کر سکتے ہیں؟
البتہ ہم بلا خوفِ ملامت یہ کہتے ہیں: مسئلے
کی مناط (بنیاد) اگر مصالحِ اسلام کی تحصیل اور دین کو لاحق مفاسد سے اس کا تحفظ
ہے، نہ کہ کوئی ہیومن اسٹ پیراڈائم جسے ہم لاشعوری طور پر لاگو کر جاتے ہوں، تو
ہمارے وہ ادوار جن میں ہم نے "ایک خلافِ شریعت نظام" کے تحت اسلام کےلیے
فتوحات کیں، براعظموں کو زیر و زبر کیا، ہند و افریقہ و یورپ کے بتکدے توڑے، ملکوں
کے ملک اسلام میں داخل کیے، ‘مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری’، قلمروئےاسلام
میں شرق تا غرب (مجموعی طور پر) شرعِ محمدؐ کو حکمران رکھا اور اس کے علاوہ کسی
شرع اور قانون سے ہم واقف نہیں رہے… ہمارے وہ ادوار جن میں تہذیبِ افرنگ کے مظاہر
کو نہ صرف ہمارے بچے دور سے سلام کرتے اور ان پر تعجب سے ہنس لیتے تھے بلکہ ہماری
گلیوں کے کتے ان (مظاہر) پر بھونکنے سے نہیں رہتے تھے… ہمارے وہ تمام
"اسلامی" ادوار جو کہ صدیوں پر محیط ہیں، ہمارے اِن ‘enlightened’ ادوار سے لاکھ کروڑ درجہ
بہتر اور تاب ناک ہیں جہاں "ایک خلافِ شریعت نظام" کے تحت ہمیں
‘قراردادِمقاصد’ وغیرہ ایسی ایک آدھ چیز کے سوا تاحال کچھ نہیں ملا۔
واضح رہے، خاص اس واقعے (اپنے ماضی و حال کے
اس موازنے) سے جو اوپر ذکر ہوا، یہ ثابت
کرنا ہرگز میرا مقصود نہیں کہ ان میں سے ایک قسم کا "خلافِ شریعت نظام"
دوسری قسم کے "خلافِ شریعت نظام" سے بہتر ہے تو خاص اس وجہ سے یہ نتائج
آئے، حاشا و کلا۔ کیونکہ مصالحِ اسلام کی بہتر تحصیل کے پیچھے کوئی ایک ہی عامل
کارفرما نہیں ہوتا جو ہم اس تمام تر مسئلہ کو کسی دور کے "نظام" اور اس
کی ماہیت کے ساتھ ہی نتھی کر دیں (یہ ہمارے مدرسہ "اھل الأثر" کا ایک
اور بہت اہم مبحث ہے، جس میں ہم "انقلابی" مدرسہ سے بالکل جدا ایک
پوزیشن رکھتے ہیں، یعنی پورے مسئلے کو "نظام" کے گرد نہ گھمانا)۔ بلکہ
کسی دور میں اسلام کے اوپر جانے یا نیچے آنے کے پیچھے عوامل بےشمار ہوتے ہیں۔ اور
وہ عوامل ایک الگ بحث ہیں۔ یہاں مقصد صرف
اس طرزِ فکر پر تنبیہ کرنا ہے جو ہمارے دورِ ملوکیت میں پائے جانے والے
"نظام" کے ساتھ ہمارے ائمہ و فقہاء کے تعامل پر بات کرتے ہوئے اگر کسی وقت ان (متقدمین) پر مہربان ہو بھی لے،
اور ہتھ ہولا بھی رکھ لے، تو وہ اس حد تک کہ اس پر اُن کےلیے "عذر"
وغیرہ ایسی شے تلاش کرے گا (مہربان نہ ہو، تو الامان والحفیظ!)… البتہ ہمارے اِس
دورِ جمہوریت میں "نظام" کے اندر مسلمان کے ایک قوی شرکت اور فعال کردار
ادا کرنے کو قریب قریب ‘کارِ پیغمبری’ جانے گا! ہم کہتے ہیں یہ ایک بہت بڑا مسخ
اور خلل ہے جو حالیہ صدی میں مسلم ذہن کے اندر واقع ہوا؛ اور جس کے زہریلے سوتے اس
جدید تعلیم اور ابلاغ کے پیندے میں پڑے ہیں، جہاں سے خاصا کچھ ہماری اسلامی چھلنی
سے گزر کر بھی کسی نہ کسی طرح ہم تک پہنچ ہی گیا ہے۔
اب یہ انہی زہر ناک سوتوں سے پھوٹ آنے والی
ایک چیز ہے جو آج بہت سے دین داروں کے خیالات تک میں بولنے لگی – اور جوکہ فی
زمانہ ایک خالص جاہلی تعبیر ہے – کہ ایک بدترین جمہوریت بھی کسی بہترین غیر
جمہوریت سے اعلیٰ و برتر ہی مانی جائے گی! اصولاً، یہ وہی شخص کہے گا جسے کتاب اور
ایمان کی ہوا تک نہ لگی ہو۔ اس کے برعکس، ہمارا کہنا ہے: انحصار کرتا ہے depends، کہاں اسلام
عزیز و متمکن ہے اور کہاں اسلام
اپنی اس حیثیت سے مسلوب۔ جتنا کہیں پر اسلام کا کلمہ بلند، اتنا ہماری نظر
میں وہ اعلیٰ و برتر۔ اور جتنا کہیں پر معاملہ اس سے برعکس، اتنا وہ بدتر اور
مسلمان کی میزان میں مبغوض تر۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا نام جمہوریت ہے، ملوکیت ہے،
یا کچھ اور۔
خلاصہ: آپ کے سوال کا جواب: ہاں، یہ ایک جائز
امر ہے۔ یہ طویل وضاحت صرف اس لیے ہوئی کہ ہمارے مدرسہ میں اس "ہاں" کی
جو بنیاد اختیار کی جاتی ہے وہ ذہن نشین کرا دی جائے۔
پچھلی
قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
اگلی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں