3
جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا "آئیڈیل"؟
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
تیسری قسط
مراسلہ نگار کی بات سے بطور مبدأ in principle اتفاق کرتے ہوئے بھی، یہ کہنے میں حرج نہیں کہ
جس چیز کو آپ ماضی کا اجتہاد کہتے ہیں اور پھر جس چیز کو دورِ حاضر کا اجتہاد کہتے
ہیں، دونوں میں کچھ نہایت اہم فرق بھی ہیں جو ملحوظ رہنا چاہییں:
ایک بڑا فرق یہ کہ ماضی میں "رومی یا ساسانی
ڈیزائن" سے مسلمانوں کے ہاں اگر کچھ لیا گیا تو وہ ایک غالب کا مغلوب سے کچھ
لینا تھا۔ جبکہ آج آپ جو لیں گے وہ مغلوب کا غالب سے کچھ لینا، جو اپنی نہاد میں
اول الذکر سے بڑھ کر تباہ ناک ہوتا ہے۔ غالب مغلوب سے عموماً اپنی مرضی کی چیز
لیتا اور اپنے پیراڈائم کی جکڑ میں لا کر اسے قبول کرتا ہے، گو اس کے باوجود
معاملہ ہوشیار رہنے کا ہے۔ جبکہ مغلوب، الا ما شاء اللہ، غالب سے اُس کی مرضی کی
شےء لے گا، اصولاً نہیں تو عملاً۔ اُس کی کسی بات کو آپ کا مجتہد کتنی ہی ناں ناں
کرے، قومی سطح پر وہ آپ کے بند توڑ کر آئے گی، یہاں تک کہ آپ کا پہلے سے پڑا بہت
کچھ بہا لے جائے گی۔ گویا آپ کو لینے کے دینے پڑ گئے؛ ایک اجتہاد آگے کئی کئی
اجتہادات کا متقاضی! اور یہ سلسلہ مشکل سے شاید کہیں تھمے۔ اغلب یہ کہ اُس کی جو
شےء آپ لینا چاہیں وہ تو آپ کو مشکل سے ملے البتہ جس شےء سے آپ کو پرہیز ہو وہ آپ
کے یہاں تھوک کے حساب سے بِکتی پھرے۔
اس کے باوجود میں یہ نہیں کہتا کہ دورِ مغلوبیت میں ہم غالب
کا کچھ بھی لینے پر پابندی لگا دیں۔ کیونکہ یہ آپشن بھی بہرحال ہمارے پاس نہیں ہے۔
(غلامی فی الحقیقت کوئی چھوٹی لعنت نہیں، جہاں "نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ
تدبیریں"۔ بس اس سے اللہ کی پناہ ہی مانگیں)۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں، اس مقام
پر وہ صرف دو باتیں ہیں:
پہلی: ماضی میں بیرون سے لی گئی ایک شے اور آج لی جانے
والی ایک شے، اپنے اس مشترک وصف کے باوجود کہ ہر دو متبنّىٰ adopted ہیں، اپنے
تہذیبی عوامل، لینے اور دینے والے کی پوزیشن اور اپنے سماجی مضمرات کے لحاظ سے
زمین آسمان کا فرق رکھیں گی۔ لہٰذا؛ میری نظر معاملہ کے صرف اس "مشترک"
پہلو پر نہیں ہو گی کہ وہ ایک اجتہاد تھا تو یہ بھی ایک اجتہاد ہے (باوجود اس کے
کہ دونوں کو میں اجتہاد ہی مانوں گا)، یا یہ کہ یہ باہر سے آئی ہے تو وہ بھی تو
باہر سے آئی تھی (باوجود اس کے کہ ہر دو باہر سے ہی آئی ہیں)۔ بلکہ میری نظر
معاملہ کے اس تشویش ناک پہلو پر کہیں زیادہ مرکوز ہو گی کہ وہ چیز لیتے ہوئے میں
اور میری قوم کہاں کھڑی تھی اور یہ چیز لیتے ہوئے میں اور میری قوم کہاں کھڑی ہے۔
یہاں؛ وہ یکساں نظر آنے والی چیزیں بےحد مختلف ہو جاتی ہیں۔ پس اِنہیں دیکھنے کی
ایک نہیں دو جہتیں ہو گئیں: ایک پہلو سے ان کا یکساں ہونا اور اس لحاظ سے ان کا
باہم قیاس ہو سکنا، جو اپنی جگہ ایک صحیح نظر ہے۔ جبکہ ایک دوسرے پہلو سے ان کا
یکساں نہ ہونا، یوں ان کا ایک دوسرے پر
مطلق قیاس ہونے والی چیزیں نہ رہنا؛ اور یہ بھی ایک صحیح نظر ہے۔ اب جب جہتیں ایک
معاملے کو دیکھنے کی دو ہیں، تو کسی وقت ہمارے بیان میں اس کی ایک جہت آئے گی تو
کسی وقت دوسری۔ نہ اس کا مذمت والا پہلو ہمارے یہاں موقوف ہو گا اور نہ اس کو ایک
ناگزیر برائی کے طور پر قبول کرنے کا پہلو ہمارے بیان سے رُوپوش۔ اور یہاں…؛ ایک
سطحی ذہن، خواہ وہ پیچھے مذکور پہلی انتہاء کا عکاس ہو یا دوسری انتہاء کا، ہم پر "تضاد"
contradiction کی پھبتی کس دے گا کہ دیکھو کبھی یہ اِس طرف کو
ہو جاتے اور کبھی اُس طرف کو! راہِ وسط کی یہ ہمیشہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ہر دو
طرف کے طعنے لے! "ایک طرف کو ہو لینا" اہلِ وسط کے ہاں انتہاء extreme کہلائے گا جبکہ اہلِ انتہاء کے ہاں معاملے کا اصل
نبیڑا! اوپر ابن تیمیہؒ سے دیا جانے والا اقتباس اسی مسئلہ کی تاصیل کےلیے لایا
گیا: ایک ہی عمل میں شریعت بیک وقت اپنے کچھ موجبات بھی رکھ سکتی ہے اور اپنے کچھ
موانع بھی۔ طالب علم کو نظریں یہ دونوں ہی وہاں پر رکھنا ہوں گی: شریعت کا (1) ایک
چیز کو برا جاننا بھی اور (2) اس سے بد تر چیز کو رد کرنے کے باب سے؛ اس کا اقتضاء
کر رکھنا بھی۔
دوسری بات: وہ بنیادی جمعیت جسے میدان میں اتر کر اللہ
کی مدد سے اس پوری صورتحال کی کایا پلٹنی ہے… اس کی تربیت میں وقت کی جاہلیت سے،
جس میں جمہوریت بھی آتی ہے، ایک انکار اور اِباء defiance کے جو کچھ زوردار لہجے built in ہونے چاہئیں وہ
میں فی الحال یہاں ناپید دیکھتا ہوں۔ (عوام کو کنفیوز کرنے کا میں بالکل قائل
نہیں، لہٰذا عوام کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ عوام کو لے کر چلنے والی "بنیادی
جمعیت" کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بات براہ کرم نوٹ رہے)۔ فی الحال میں جو دیکھ
رہا ہوں وہ یہ کہ "جمہوریت" کو جو کہ
وقت کی باطل تہذیب کا ایک باقاعدہ بنچ مارک benchmark اور ایک سیلنگ پوائنٹ selling point ہے… "جمہوریت"
کو اس کی ایک عمومی حیثیت میں مطعون ٹھہرا دینے پر ہی، کوئی اور نہیں سب سے پہلے
آپ کا وہ اسلامی کارکن بگڑ اٹھتا ہے جسے وقت کے اِس باطل دین کے ساتھ دو دو ہاتھ
کرنے کےلیے میدان میں اترنا تھا! ہیں، جمہوریت کو برا کہا!؟ گویا ایمانیات پر کوئی
زد آ گئی! غرض میرا مسئلہ اُس "اجتہاد" کے ساتھ نہیں جو اپنے مالہٗ وما
علیہ کے ساتھ ایک مجتہد کے بیان میں آیا کرتا ہے۔ بلکہ میرا مسئلہ اُس "تحریک
اور عمل" سے ہے جو اس اجتہاد کو بنیاد بنا کر ایک باطل سے معاملہ کرنے کا
خواہاں ہے۔ "اجتہاد" اور "تحریک" کے مابین یہاں فاصلہ تشویش
ناک حد کو پہنچا ہوا ہے۔ ایسے میں، ایک سرنڈر surrender یقینی ہے جہاں
"اجتہاد" کے حوالے دینا تقریباً غیر متعلقہ ہو جاتا ہے، اور حق تو یہ کہ
گمراہ کن misleading اور ضرررساں۔
اس دوسری بات کو میں تھوڑا اور کھول دوں:
جمہوریت وغیرہ کی مذمت اُن فارغ لوگوں سے تو میں بہت سنتا
ہوں جو اِس گھمبیر صورتحال میں قوم کو ایک انچ آگے بڑھانے کےلیے کوئی راستہ، کوئی
تدبیر اور کوئی لائحہ عمل اپنے یہاں نہیں رکھتے، سوائے دبے لفظوں میں عسکریت militancy
کی تحسین کر جانے کے… یا سماجی محاذوں پر جتی
ہوئی ہماری اُن دینی جماعتوں کے صبح شام لتّے لینے کے، جو کچھ ناگزیر برائیوں کو
قبول کر کے یہاں کے کچھ ضروری رخنے پُر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں… یا سوائے مہدی کا
"انتظار" کرنے کے۔ مختصراً، وہ طبقہ جو ہمارے ہاں پیچھے بیان ہو چکی اول
الذکر انتہا extreme پر ہے۔ اِس
طبقہ کے جمہوریت کی مذمت کرنے سے، ظاہر ہے، مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیونکہ یہ
بجائےخود ایک انحراف سے پھوٹ کر آ رہی اور ایک تخریب یا تعطیل تک لے جانے والی ہے۔
یہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسے خوارج کا "حُکم بغیر ما أنزل اللہ" کے
خلاف بولنا اور "إنِ
الْحُكْمُ إلا لِلّٰه" كا نعرہ بلند کرنا۔ عین
وہ شےء جس کی بابت امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک تاریخی جملہ
ارشاد فرمایا تھا: كَلِمَةُ
حَقٍّ، اُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ "بات حق، مگر مقصود اس سے ایک
باطل"۔
جمہوریت – جوکہ وقت کا دین ہے اور باطل تہذیب کا ایک بنچ
مارک – کو مذموم ٹھہرانا میرے لیے ان لوگوں کا معتبر ہو گا جو "ضرورات کا
اعتبار کرتے ہوئے ایک مفسدت کو دوسری سے دفع کرنے" کے شرعی مسلک پر ہیں۔ وہ
اہلِ نظر جو ایک مفسدت کو دوسری سے دفع کرتے ہیں تو اُس "دوسری" میں بھی
ان کے ہاں وہ "مفسدت" والی نظر سلامت ہی رہتی ہے۔ یعنی کسی بڑے نقصان یا خرابی کے مقابلے پر
"کمتر" ہونے کے ناطے وہ ان کے یہاں اختیار ہونے میں بھی آئی، رُو بہ عمل
بھی رہی، البتہ "مفسدت" والا معنیٰ اس کے اندر روپوش بھی نہیں ہوا۔ ہے
ان کے نزدیک یہ اب بھی ایک برائی اور اپنی جگہ ایک مذمت کی چیز۔ قصیدے اس کے یہ
کبھی نہیں کہیں گے۔ یہ ہے اصل شرعی نظر۔ البتہ یہاں میں جس طبقہ کو دیکھتا ہوں،
الا ما شاء اللہ، اس کے ہاں مسئلہ "چھوٹی مفسدت" والے اعتبار سے شروع ہو
کر "مطلوبِ شرائع" کے قریب قریب جا پہنچتا ہے…… اور "ضرورات"
وغیرہ کا وہ پورا مقدمہ جو کسی اجتہاد کی بنیاد بنا تھا، کہیں پیچھے چھوڑ آئی گئی
چیز۔ "مفسدت" والا معنیٰ اب بیان کرنے پر تو یہاں دنگا ہو سکتا ہے! یہاں
تک کہ ایک ہی جماعت کی پرانی چیزیں اس کو دکھانا جنگ چھیڑنے کے مترادف!
اب یہاں پہنچ کر آپ دیکھتے ہیں،
"ضرورات" کا اعتبار دونوں فریقوں کے ہاں نہ رہا۔ "موازنۂ
مفاسد" ہر دو جانب ناپید۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں ہر دو انتہا یکجا ہو جاتی
ہیں! اکثر دو انتہاؤں کا ویسے آپ یہی ماجرا دیکھیں گے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ نوٹ
کرواتے ہیں کہ مسائلِ ایمان میں کہاں خوارج اور کہاں مرجئہ، لیکن ایمان کی تبعیض
کے انکار میں، (جوکہ ان تمام مسائل کی اصل جڑ ہے) مرجئہ اور خوارج دونوں کا موقف
یکساں؛ اور دونوں مل کر اہل سنت سے الجھنے والے!
پچھلی
قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں اگلی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں