عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
حُنَفَاء کا حج و قربانی.. اور ’انتھروپالوجسٹوں‘ کا شرک
:عنوان

اپنےاولمپیا کے "زیوس" کو 2000سال بعد دوبارہ نکال لانےوالےکھنڈرات پرستوں کا بس چلےتو آج وہ ہمیں "ھبل"، "لاۃومناۃ" اور "گندھارا"، "بدھا" اور "سومنات" کےمیلے کروا کےدیں اور ہمارےیہاں بتوں کا پورا کلچر بحال کروادیں

. اصولعبادت . ثقافتعلوم طبعى وسماجى . بازيافتتُراث :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف


حُنَفَاء کا حج و قربانی.. اور ’انتھروپالوجسٹوں‘ کا شرک


’کھنڈر پرستی‘ کی ایک عالمی تحریک جس کا اصل مقصد دنیائے عیسائیت کو اس کے دورِ ما قبل عیسائیت اور دنیائے اسلام کو اس کے دورِ ما قبل اسلام سے جوڑنا ہے؛ گلوب کی تشکیلِ نو میں دھیرے دھیرے بڑھتی آ رہی ہے۔ (یعنی اِس گلوب کی دو عظیم ترین ملتوں کا ابراہیمؑ سے ناطہ توڑ کر اِن کی پرانی اصیل جاہلیت کی جانب لوٹانے کی ایک نظریاتی تہذیبی موومنٹ)۔ دنیائےعیسائیت میں یہ کچھ عظیم الشان کامیابیاں حاصل کر آئی۔ جبکہ دنیائےاسلام میں پچھلے سو سال سے یہ کچھ بھاری انٹیلیکچول مووز کرا چکی ہے۔ یہاں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ پانے کے باوجود البتہ ہمت ہارنے پر آمادہ نہیں؛ اور ابھی بھی طریقے طریقے سے ہمارے اذہان پر حملہ آور ہے۔ یہاں کی اقوام کے دلوں میں کبھی ’موہنجودڑو‘ تو کبھی ’راجہ داہر‘ وغیرہ کو زندہ کروانے کی ایک دانشورانہ سعی، جس کے شواہد یہاں آپ کو بآسانی نظر آ جائیں گے، اپنے پیچھے ایک بڑے ثقافتی ایجنڈا کی خبر دیتی ہے۔ شیخ سفر الحوالی اس کو ماڈرن انتھروپالوجسٹ تحریک کا نام دیتے ہیں۔ عالم اسلام میں حج و قربانی کے شعائر کیونکر اِس ایجنڈا کے ابطال کا ذریعہ بنتے اور ہر سال اُن کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہیں، یہاں کی اقوام کو کس طرح خواجۂ یثربﷺ کے ساتھ جوڑتے، بتانِ آذری سے اِن کو برگشتہ، ’تیشۂ ابراہیمؑ‘ کو پھر سے اِن کے قلوب میں زندہ اور اپنے مشرک آباء سے اِن کو بیزار کرواتے ہیں، زیرِنظر مضمون میں اس کا کچھ بیان ہے۔

ہمارا حج... عشرہ ذوالحج، قربانی اور ایامِ تشریق کی ہماری یہ تکبیریں... ملتِ ابراہیمؑ کی یاد آوری کا یہ پورا سیزن... بتکدے گرانے اور مورتیوں کی نفرت دلوں میں بٹھانے کے یہ مِلّی اسباق... خدا کی توحید اور عظمت پر مر مٹنے اور قوم قبیلے اور دھرتی کو خدا کی محبت پر قربان کر ڈالنے کے یہ فضائل... ابراہیمؐ کی قربانی اور محمدﷺ کی ہجرت، جنگ اور جہاد کے یہ دل آویز تذکرے، اور پھر ان واقعات کی یاد دلاتے مقامات کی قدم قدم زیارت اور وہاں پر اشک گرا کر آنے کا ایک شعوری روحانی عمل... ہر سال... وقت کی ایک ’انتھروپالوجسٹ‘ تحریک کے عالم اسلام میں تمام ایجنڈا کو دریابرد کروا دیتا ہے۔ کوئی تصور کرے، ہمارا یہ وِرد اُن کےلیے کس قدر سوہانِ روح ہے:

لَا إلٰهَ إلا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إلَّا إيَّاهُ، مُخۡلِصِیۡنَ لَهُ الدِّيْنَ، وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْن...!

’’نہیں کوئی خدا مگر اللہ۔ ہم نہیں پوجنے کے مگر ایک اُسی کو، پورا دین اور عبادت اُسی ایک کےلیے خالص کرتے ہوئے، چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی برا لگے‘‘۔

(بعض روایات میں ہے، نبیﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ مذکورہ بالا وِرد فرماتے)۔

کرۂ ارض کے چپے چپے سے حُنَفاء کا جذب و کیف کے ساتھ توحید کے اِس قدیمی منبع پر پہنچنا... یہاں؛ لاکھوں انسانوں کا ایک تکبیر پر خدائے واحد کے آگے سجدے میں گر پڑنے کا یہ دل گیر منظر... شیاطینِ جن و انس کو انگاروں پر لوٹاتا ہے۔

اپنے اولمپیا کے ’’زیوس‘‘ [1] کو دو ہزار سال بعد دوبارہ نکال لانے والے ان کھنڈرات پرستوں کا بس چلے... تو آج وہ ہمیں ’’ھُبل‘‘ اور ’’لاۃ‘‘ اور ’’مناۃ‘‘ اور ’’گندھارا‘‘ اور ’’بدھا‘‘ اور ’’سومناتھ‘‘ کے میلے کروا کے دیں، ہمارے بےحال نوجوانوں سے ان پر دھمال ڈلوائیں اور ہمارے یہاں بتوں کا پورا کلچر بحال کروا دیں (جس کی کسی وقت ’کلچر‘ تو کسی وقت ’ٹورزم‘ اور نہ جانے کن کن دلفریب ناموں اور بظاہر بےضرر عنوانات کے تحت کوشش ہو بھی رہی ہے، اور جس کے پیچھے ایک نہایت دُوررَس ایجنڈا اور واضح تہذیبی اہداف کارفرما ہیں)... زمین میں اوندھی پڑی بت پرست تہذیبوں کا احیاء... اِس بار ’پوجا‘ کے نام پر نہیں تو ’ثقافت‘ کے نام پر؛ کہ جاننے والے جانتے ہیں ’کلچر‘ اور ’سوسائٹی‘ بذاتِ خود آج ’پوجا‘ کی ایک بہت بڑی صورت اور بجائےخود ایک معبود ہے!

اِدھر... کوہِ صفا پر چڑھ کر ہر حاجی جس اعلانیہ کا وِرد کرتا ہے وہ ملتِ شرک کو قلوب اور اذہان میں باربار دفن کرواتا ہے:

لا إله إلا الله وحدَه ، أنجز وعدَه ، ونصر عبدَه ، وهزم الأحزاب وحدَه

’’نہیں کوئی عبادت کے لائق ہستی مگر اللہ، وہی یکتا، اُس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا، اپنے بندے (محمدﷺ) کو جیت دلوائی، اور (اس سے دشمنی کرنے والے) سب اتحادی لشکروں کو شکستِ فاش دی، یکتا اُسی نے‘‘۔

غرض توحید کے پھریرے چہار دانگ عالم لہرانے پر فخر کرنے اور بت پرستی کو ہر سُو شکست ہونے کے اس جہانی واقعہ کو اِن شعائر اور مناسک کا ایک باقاعدہ مضمون بنا دیا گیا؛ جس کی خود اِن کے اِس دور اور اِس جہان میں ایک عظیم الشان دلالت ہے:

یہ تہذیبیں ہم نے بڑی محنت اور جان جوکھوں سے ختم کی ہیں۔ ایک طویل جہاد کے بعد ان کو اللہ کے فضل سے نیست و نابود کیا ہے۔ اِن کو موت کے گھاٹ اتارنے میں ہمارے اسلاف کا خون پسینہ لگا ہے۔ اِن پُر رونق و آباد بتکدوں کو ہمارے ’’وَرَأیۡتَ النَاسَ یَدۡخُلُونَ فِی دِینِ اللہِ أفۡوَاجاً‘‘ کے براعظموں پر محیط ایک تاریخی عمل نے ہی بالآخر ویران کیا ہے۔ اِن ملکوں کا محمدﷺ کے دین میں آنا، نصف معمورۂ ارض میں یہ اذانوں کی گونج اور تکبیرات کا شور یہاں مورتیوں اور دیویوں کی منتا ختم کر دینے کے بعد ہی ایک جہانی واقعہ بنا ہے؛ کہ جس کے بعد روئے زمین پر اِس بڑی سطح پر ’’ابراہیمؑ کے رب‘‘ کی عبادت ہونے لگی ہے۔  اِس امت کےلیے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں۔ ورنہ اس سے پہلے شرک اور بت پرستی کی یہ تہذیبیں زمین میں اوندھی پڑی صرف آسمانی عذاب کے نتیجے میں ہی دیکھی جاتی تھیں۔ مگر تاریخ کے اِس عہد میں خدا نے یہ کام امتِ محمدؐ کے زورِ بازو سے کروایا اور اِن کی تلواروں کو یہ شرف بخشا؛ جس پر ہم جس قدر خدا کا شکر کریں کم ہے۔ اِس سے بڑا اعزاز ہم سے پہلے کسی امت کو ملا ہی نہیں۔ بت پرست تہذیبوں اور مشرک ملتوں سے ہماری اِس بیزاری کے تذکرے ہمارے حج و عمرہ کے اذکار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے صبح شام کے اذکار میں شامل ہیں۔ بتوں سے ہماری وہ جنگ اور عداوت ہماری عبادت کا حصہ ہے۔ قیامت تک ہم اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ آزمائے گئے ہیں۔ یعنی ان بتوں کو ماننے والے ہمیں مٹانے کےلیے زور لگائیں اور ہم ان کو مٹانے کےلیے۔ اِدھر ہمارے کچھ نابغوں کا زمین میں اوندھی پڑی اِن بت پرست تہذیبوں کو مٹی سے نکال لانا...؟ عالم اسلام کے بہت سے گوشوں میں مختلف عنوانات کے تحت آج اِن کی پروموشن... اور سرپرستی؟؟؟ عبادتِ غیراللہ کے ساتھ سازگاری... اور اس کےلیے نرم گوشہ پیدا کروانا، ’پرستش‘ کے نام پر نہیں تو ’کلچر‘ کے تقدس کے نام؟؟؟ جبکہ دعویٰ ملتِ ابراہیم کا اور محمدﷺ کے مشن پر ایمان رکھنے کا؟؟؟!... سبحان اللہ!

بلاشبہ آج ہمیں ملتِ ابراہیمؑ کے یہ اسباق ازسرنو اپنی نسلوں کو ازبر کروانے ہیں۔ مناسک کے یہ اذکار اور وظائف بلا سوچے سمجھے پڑھنے کے بہرحال نہیں ہیں۔

*****

ہم عالم اسلام پر اللہ کا یہ فضل ہے کہ اپنے تہذیبی وفکری وجود کا آغاز ہم ”اسلام“ سے ہی کرتے ہیں اور اپنی تاریخی شناخت انبیاءِ کرام سے ہی وابستہ رکھتے ہیں۔ نبیِ آخر الزمان ﷺ کی بعثت سے ماقبل عرب زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف اور صرف ’زمانۂ جاہلیت‘ کے عنوان کے تحت۔ خود اِس برصغیر میں اپنے ہندو آباء کے نام تک شاید آج ہمیں یاد نہیں۔ کچھ یاد ہے تو بو بکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ۔ کہیں اپنی جڑیں نظر آتی ہیں تو اُس ملتِ ابراہیمؑ میں جس کا تیشہ (فَجَعَلَھُمۡ جُذَاذًا إلَّا کَبِیۡرًا لَّھُمۡ۔ سورۃ الانبیاء) ہماری تلاوت میں ’’وإذ بَؤّأنَا لِإبۡرَاھِیمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ‘‘ (سورۃ الحج) سے پہلے آتا ہے۔ اپنا ’’آغاز‘‘ کہیں نظر آتا ہے تو محمدﷺ کے برپا کیے ہوئے اِس خالص آسمانی تہذیبی واقعے میں۔

’’حج‘‘ کا انسٹی ٹیوشن اِس ایک یکسر جدا ثقافت کے احیاء میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

ہم اگر ہند کی اقوام ہیں تو ہندو آباء کے ساتھ ہم  __ بطورِ مسلمان __  اپنا رشتۂ شناخت ہمیشہ کیلئے ختم کرچکے۔ بلکہ ان سب ناطوں کو کالعدم کر لینے پر فخر کرتے ہیں۔ زمزم کا ایک قطرہ ہمیں گنگا وجمنا اور راوی و سندھ کے شمال تا جنوب سے عزیز تر ہے۔ خاکِ بطحاء ہمیشہ کیلئے اب ہماری آنکھ کا سرمہ ہے۔ ’کاغان‘ ہو یا ’مہران‘، ہمارا ایک بے دین سے بے دین بھی خواجۂ یثرب سے تعلق رکھنے کا یہی تقاضا جانتا ہے۔

یہی حال سب کی سب مسلم اقوام کا ہے۔ مسلمانانِ مصر، فراعنہ کی تہذیب کو عذاب کا عنوان دے کر ہی پڑھتے ہیں۔ اسلامیانِ عراق، بابل کی تہذیب کو کھنڈروں کی صورت میں ہی دیکھنے کے روادار ہیں۔ شام اپنے سب ماقبل اسلام رشتے یکسر بھلا چکا۔ افغانستان میں بدھا کے مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑتے دیکھنا یہاں کے ’باشندوں‘ کو بہت بھلا لگا تھا! مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اسلام ہی سے رشتہ جوڑ رکھنے پر پورا پورا اتفاق پایا جاتا ہے۔ ”اسلام“ ہی اب ان سب اقوام کا باپ ہے اور اسلام ہی ان کا نسب۔

بے شک وہ یہ دیکھ کر ہم پر بے حد جلتے بھنتے ہیں اور ہمارے اندر کچھ انتھروپالوجسٹ پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں رہے ہیں جو ہمیں ایک نئے سرے سے ہمارا ’نسب‘ پڑھائیں اور ”آسمان“ سے ہمارا رشتہ کاٹ کر از سر نو ’زمین‘ کے ساتھ جوڑ دیں اور ’دھرتی‘ کو اپنی ماتا منوائیں۔ مگر انہیں معلوم ہے دو سو سال تک ہمیں پڑھا لینے کے بعد بھی وہ ہمیں یہ سبق یاد نہ کرا سکے اور ایسے ’لائق‘ شاگرد جو اُن کا پڑھایا ہوا سبق یاد کرلیں ہمارے مابین حد درجہ گنے چنے ہیں اور اس قدر طاقتور ذرائعِ ابلاغ رکھنے کے باوجود ان کی منحنی آواز اذانوں کی اس پنج وقتہ گونج میں یہاں بالکل ہی دب کر رہ جاتی ہے.... اس پر ہم جتنا بھی خدا کا شکر کرسکیں کم ہے۔

البتہ ”ملتِ روم“ کا معاملہ اس سے مختلف ہے، خصوصاً آج کے دور میں جب تاریخ میں اپنی جڑیں تلاش کرنے کی ضرورت قوموں کے مابین حد درجہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ نہ اپنے وجود کا آغاز ”دین“ سے کرتے ہیں اور نہ اپنے ”دورِ ماقبل دین“ کا ذکر ’زمانۂ جاہلیت‘ کے طور پر۔ یہ اس کے متحمل ہی نہیں! بلاشبہہ ’عیسائیت‘ سے اپنی تاریخی وابستگی کو یہ اپنی پہچانوں میں سے ’ایک‘ پہنچان بنا کر رکھتے ہیں اور صلیبی تعصب کا جہاں موقعہ ملے وہاں اس کا بھر پور ثبوت بھی دیتے ہیں، تاہم اپنی تاریخی شناخت کے معاملہ میں ’عیسائیت‘ ان کے ہاں ایک اضافہ  addition  ہے نہ کہ شناخت کی کلی بنیاد۔ اپنے تہذیبی وجود کے معاملہ میں یہ ’عیسائیت‘ کو کوئی ’نقطۂ ابتدا‘ بہر حال نہیں مانتے بلکہ اس باب میں تاریخ کے پردے ہٹاتے ہوئے ’عیسائیت‘ سے ماقبل ادوار میں بھی یہ اسی جذب و کیف کے ساتھ جاتے ہیں جس شوق و سرور کے ساتھ یہ اپنے وجود کی ’مذہبی جہتوں‘ کو کسی وقت زیرِ بحث لاتے ہیں۔

چنانچہ آپ دیکھتے ہیں، یہ اپنے تہذیبی وجود کو یونان کے کھنڈروں میں آج بھی پورے ذوق وشوق کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اپنا تاریخی آغاز قریب قریب وہیں سے کراتے ہیں۔ یونان کی دیومالا (خرافات) Greek Mythology میں یہ ’علم وحکمت‘ کے موتی عین اسی عقیدت سے تلاش کرتے ہیں جس طرح علمِ غیب کے باب میں ہمارے یہاں انبیاء کی سچی داستانیں پورے ضبط کے ساتھ نقل ہوتی ہیں! یونانی اور رومانی دیوتاؤں کے نام قریب قریب ان کو اسی طرح یاد ہوتے ہیں (خود ہمارے انگلش لٹریچر ڈیپارٹمنٹوں میں ازبر کرائے جاتے ہیں!) اور قدم قدم پر ان کے حوالے اور استشہادات ان کے ہاں اسی طرح ذکر ہوتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ! ہفتے کے دن اور مہینوں کے نام ان کے ہاں آج بھی یونانی اور رومانی خداؤں سے منسوب ہیں۔ بت پرستی  idolatry  پر مبنی بہت سے گریک اور رومن تہوار آج بھی ان کے ہاں پورے جوش وخروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں اور ان کا ایک پوری وابستگی کے ساتھ چرچا ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کا مغرب اپنی تاریخِ پیدائش صرف ’یسوع مسیح‘ اور ’کنواری مریم‘ اور ’روح القدس‘ وغیرہ ابواب میں نہیں ڈھونڈتا۔ ان کے فخر و اعزاز کی اکثر بنیادیں بت پرست رومن ایمپائر کے ملبے میں ہی پڑی ہیں بلکہ رومن ایمپائر کی تعمیر میں جس یونانی تہذیب کا اینٹ گارا استعمال ہوا وہ مواد بھی اپنی تہذیبی وعمرانی شناخت کروانے کیلئے ان کے ہاں اتنا ہی کارآمد ہے جتنا کہ ’مذہبی‘ پہنچان کروانے کے لئے سینٹ پال کے دئیے ہوئے چرچ اور صلیب کا مواد۔

یہ وجہ ہے عیسائیت نے بڑی محنت اور جان جوکھوں سے جس اولمپیا کے زیوس دیوتا کے پہاڑ نما بت کو دفن کروا ڈالا تھا، اور بت پرستی کے اس میلے کو ہمیشہ کےلیے کالعدم outlaw   کروا دیا تھا، اور پھر صدیوں کی خاک نے اس کے نشانات تک دنیا سے اوجھل کر دیے تھے... یہ ’انتھروپالوجسٹ‘ اپنی کھدائیاں کرتے کرتے اُس کو تاریخ کے ملبے سے پھر نکال لائے اور پورے ایک پروگرام کے تحت اس کو نہ صرف یورپ کا بلکہ پوری دنیا کا سب سے بڑا میلہ بنا ڈالا۔

یہ کھنڈروں کے پجاری، ہمیں بھی اپنی اسی ’معصوم‘ انتھروپالوجی کی ڈالی پر لگا کر... چاہتے تھے کہ ہم بھی اپنے کسی ’موہنجوداڑو‘ کو پوجیں، ’بابل‘ کے قدیم بت خانوں کی خاک چھانیں، ’فراعنہ‘ اور ’اَہرام‘ کے قصیدے گا گا کر بےحال ہوں، اور ان میں اپنی قومیت و اجتماعیت کے سب حوالے ڈھونڈیں... مگر ہر سال ہماری ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ ، واللہ اکبر اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ اِن سب لغویات کو بہا کر لے جاتی ہے۔ ہمارے ’’قافلے حجاز‘‘ کے جو مشاعرِ حرم پر ہر سال اپنے آنسو چھڑک کر آتے ہیں ان شیاطین کا سب کیا کرایا غارت کردیتے ہیں۔

فَلِلّٰه الْحَمْد۔

خدایا تیرا لاکھ لاکھ شکر! ہم لاکھ بےحال سہی... ’’آسمان والے‘‘ کی تعظیم اور توحید ’’آسمان والے‘‘ کی شرطوں پر ہمارے سوا آج کون کرتا ہے! ’’خدا کے حق‘‘ پر ہمارے سوا آج جہان میں کون جھگڑتا ہے! دو برسرِ جنگ تہذیبوں کا یہ فنامنا، کہ جس کا مرکزی مضمون خدائے واحد کی عبادت اور باطل معبودوں کا انکار ہو، ہمارے سوا آج کس کے دم سے قائم ہے؟

هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ... سورۂ حج: 19 ’’یہ دو جھگڑنے والے، جن کا جھگڑا اپنے رب کے متعلق ہے‘‘۔

اللهم فَتَقَبَّلۡ..

وجهت وجهي للذي فطر السماوات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين

إن صلاتي، ونسكي، ومحياي، ومماتي، لله رب العالمين. لاشريك له، وبذلك أمِرتُ، وأنا أول المسلمين.

الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر، ولله الحمد.



[1]     اِس مضمون میں چونکہ اولمپیا کے زیوس کا ایک حوالہ ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے قارئین اس کی کچھ تفصیل جاننے کےلیے ہمارا یہ ایک دوسرا مضمون ملاحظہ فرما لیں: اولمپکس، تاریخی و مذہبی پس منظر۔ اس سے عالم اسلام میں اس جدید #انتھروپالوجسٹ ایجنڈا کی بابت ہمارا مدعا زیادہ واضح ہو جائے گا۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
"حُسینٌ منی & الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنة" صحیح احادیث ہیں؛ ان پر ہمارا ایمان ہے
بازيافت- سلف و مشاہير
Featured-
حامد كمال الدين
"حُسینٌ منی & الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنة" صحیح احادیث ہیں؛ ان پر ہمارا ایمان ہے حامد۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز