رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے
آفیشل موقف کا ہے
تحریر: حامد کمال الدین
مسئلہ
"آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب، اہل سنت کے آفیشل موقف یا مواقف کا ہے۔
(رافضہ
کے مسئلہ پر چلتی "بحثوں" کے حوالہ سے چھوٹی سی ایک پوسٹ)
* ایک
مسئلہ پر اہل سنت (فرقہ ناجیہ/ طائفہ منصورۃ/ زمین پر صحابہؓ سے چلی آتی علمی لڑی)
کا اگر ایک ہی موقف ہے، تو اس کو بیان کر دیجیے۔
* مسئلہ
پر اہل سنت کے مواقف اگر ایک سے زیادہ ہیں، جیسا کہ اِس مسئلہ میں، تو ضرور وہ ایک
موقف بیان کیجیے اور اس کے حق میں دلائل دیجیے جو آپ کو صحیح لگتا ہے یا جس کی آپ
تقلید کرتے ہیں۔ پھر بھی ایک نیکی اپنے "فیس بک فالوورز" بیچاروں کے
ساتھ ضرور کر جائیے جو شاید آپ ہی کو اس
مسئلہ پر کُل جہان سمجھ رہے ہوں: کھل کر فرما دیجیے کہ یہ ان کئی ایک مواقف میں سے
ایک موقف ہے جو اہل سنت کے ہاں باقاعدہ اختیار کر رکھے گئے ہیں،
جبکہ موقف طائفہٴ زیر بحث کو کافر جاننے کا بھی اہلِ حق کے ایک بڑے فریق کے ہاں
بہرحال موجود ہے (اگر آپ کا موقف اس طائفہ کی عدم تکفیر کا ہے) یا یہ کہ موقف
طائفہٴ زیر بحث کو کافر نہ جاننے کا بھی اہل حق کی ایک معتد بہٖ تعداد کے ہاں یقیناً
موجود ہے (اگر آپ کا موقف اس طائفہ کی تکفیر کا ہے)… اور یہ کہ یہ ان مسائل میں سے
ہے جن میں اہل حق کا اختلاف چلا آیا ہے، یعنی مسائلِ دین کا وہ خطہ جہاں ہر دو
فریق کو اس اسلوب کی پابندی کرنی ہوتی ہے کہ "مسئلہ ہذا پر میرا موقف درست
ہے، اس احتمال کے ساتھ کہ اس کے مخالف موقف ہی صحیح تر ہو"۔ جس کا خود بخود
مطلب ہو گا کہ
· طائفہٴ زیر بحث کی عدم تکفیر کے قائل اس کی
تکفیر کرنے والوں کو شدت پسندی، کوڑھ مغزی، ’فرقہ پرستی‘، تنگ نظری اور کم علمی کے
طعنے نہیں دیتے پھریں گے۔
· جبکہ تکفیر کے قائلین عدم تکفیر کا موقف رکھنے
والوں کو مداہنت، بداعتقادی، "فقدانِ حمیت" اور "بےغیرتی" کے
کوسنے نہیں دیں گے۔
بلکہ
ایک مسئلہ میں دو مختلف رائے رکھنے کے باوجود ہر دو فریق "ایک ہی جماعت"
نظر آئیں گے۔ اور ہر دو، اہلِ ضلال کے خلاف بدستور متحد و یک آواز۔
تاہم
مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔
خدا
را اپنے "ارادت مندوں" کو، جو شاید سمجھتے ہیں کہ یا تو کوئی طائفہ کافر
ہوتا ہے اور یا پھر اس کے ساتھ ہمارا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا… اہل سنت کے ہاں چلے
آتے "اہلِ ضلال" یا "اہلِ اھواء" یا "اہلِ بدعت"
والے خانے سے بھی روشناس کروائیے۔
"فرقوں"
سے متعلق اپنے برصغیر میں پائی جانے والے اس افراط و تفریط پر بطور طالبعلم میں نے
جتنا غور کیا، یہ سمجھ آئی کہ ایک بڑا مسئلہ طائفہٴ زیر بحث کی "عدم
تکفیر" کا موقف رکھنے والوں کی اکثریت کی جانب سے سامنے آنے والے ایک مخصوص
طرز عمل کا پیدا کردہ ہے: یہ ایک "طائفہٴ ضلال" کی تکفیر نہیں کرتے، اس
حد تک تو کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ علمی حد تک ہو سکتا ہے یہی (عدم تکفیر والا) موقف
راجح تر ہو، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ "اہلِ بدعت" کے زیر عنوان وہ ایک خانہ
جو "اہل حق" اور "اہل کفر" کے بیچ آتا ہے، یعنی ایک طائفہ
اگرچہ کافر نہیں لیکن وہ اہلِ ضلال ضرور ہے، اور اس سے وہ اصولی براءت ہونا اور
رہنا ضروری ہے جس سے اہل سنت کے تراث کی کتب بھری پڑی ہیں… وہ خانہ ان اکثر حضرات
کے عملی مواقف میں ناپید ہے۔ نتیجتاً "عدم تکفیر" کا تقریباً یہ مطلب ہو
گیا ہے کہ ’کوئی بڑا مسئلہ نہیں‘ (اُس طرف سے بھی اور اِس طرف سے بھی)!!! گویا طائفہٴ
مذکورہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ رفع دفع؛ ان کے ساتھ ہمارا کوئی "اختلاف" ہو
گا تو وہ اسی قبیل کا جس کو برداشت کرنے کی ’رواداری‘ تلقینیں میڈیا تا درسی نصاب
ہر جگہ ہو رہی ہیں! اب وہ فریق جو اس مسئلہ کو رفع دفع ہونے کے لائق نہیں سمجھتا
اور وہ اس ضلال کو ایک سنگین مسئلہ دیکھتا ہے، وہ اس سنگینی کے بیان کےلیے
"تکفیر" سے کم کوئی پیرایہ اپنی لغت میں دستیاب نہیں پاتا! یہاں سے وہ
افراط اور تفریط آ گئی: "رافضہ" کو ایک سنگین مسئلہ کے طور پر لینا ہے
تو "تکفیر" کے سوا کوئی لفظ یہ مضمون ادا ہی نہیں کر سکتا! اور اگر
"تکفیر" ہونے سے رہ گئی تو اس ضلال کے خلاف آپ کی کوئی محاذآرائی بھی
باقی نہیں رہی! اصل وجہ وہی جو میں نے عرض کی: کتبِ اہل سنت میں "اہل بدعت"
یا "اہل اھواء" یا "فاسق اعتقادی" یا "اہلِ
شقاق" یا "فرقوں" وغیرہ کے
زیر عنوان پایا جانے والا خانہ آپ کے فکری/ تحریکی عمل میں غائب پایا جانا۔ اور یہ
الجھن ہر دو طرف پائی جاتی ہے: اس فریق کے ہاں بھی جو اس کی سنگینی سامنے لانے پر
محنت و کوشش میں لگا ہے۔ اور اس فریق کے ہاں بھی جو اس کی عدم تکفیر کے دلائل دے
کر گویا اس موضوع کا حق ادا کر دیتا ہے!
غرض
یہ مسئلہ [یعنی رافضہ (اثناعشریہ) کو (1) کافر جاننا؟ (2) یا ان کو کافر نہ جانتے ہوئے
صرف اہلِ زیغ و ضلال جاننا؟] منجملہ ان مسائل کے ہے جن میں اہل سنت کا اختلاف ہوا
ہے… بعد اس کے کہ اسے اہلِ زیغ جاننے اور اس کے خلاف محاذ آرا رہنے پر ان کے مابین
کامل اتفاق و یکسوئی ہے۔ گویا اصل بھینٹ اس بحثابحثی میں اس بنیادی مسئلہ کی دی
جاتی ہے جو اہل سنت کے مابین طےشدہ و متفق
علیہ ہے!!!
*****
یہ
ذکر کر دینا شاید خالی از فائدہ نہ ہو کہ راقم ان ائمہ کے مسلک پر ہے جو رافضہ (اثنا
عشریہ) کو صرف اہلِ زیغ و ضلال کہنے تک رہتے ہیں، یعنی اس کی تکفیر تک نہیں جاتے۔ موضوع
ھٰذا پر ہماری چند گزشتہ تحریریں/ پوسٹیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں:
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
شیعہ سٹوڈنٹ کے ساتھ دوستی، شادی بیاہ
نیز یہ ایک ٹویٹ
اور یہ ایک پوسٹ