شیعہ سٹوڈنٹ کے ساتھ دوستی،
شادی بیاہ
سوال:
السلام
علیکم سر۔ یونیورسٹی میں اہل تشیع افراد سے کس طرح کا تعلق جائز ہے یعنی ان سے
دوستی کس حد تک جائز ہے اور ان سے شادی بیاہ کے معاملے پر آپکی رائے درکار ہے
======
جواب:
وعلیکم السلام۔
عام شیعہ (اثنا عشریہ) کو ہم ایک بدعتی فرقہ جانتے ہیں (کافر نہیں)۔ یعنی حق سے ہٹا
ہوا، ہلاکت کی راہ پر ایک ٹولہ۔
دوستی کرنے کی
تین صورتیں ہیں:
ایک: جس میں آپ کے
اپنے ایک بدعتی کلاس فیلو سے کچھ نہ کچھ
متاثر ہونے کا امکان کسی قدر قوی ہے۔ کم از کم بھی یہ کہ اس دوستی میں عقیدہ کی
حدود نظرانداز ہوں گی، اور جب وہ اپنے بعض بدعتی معمولات یا عقائد کا کچھ بےساختہ
ذکر کرے گا تو اس پر عدم انکار سے ملتی جلتی ایک خاموشی تو ہو گی ہی۔ نیز دورِحاضر
کا ایک معروف ’ہیومنسٹ‘ رویہ: ’’ہر کسی کا اپنا اپنا عقیدہ‘‘، جو کہ ’’انکارِ
باطل‘‘ ایسے ہمارے ایک معلوم اصلِ دین سے صریح متعارض ہے.. رواداری کے اس باطل تصور پر
مبنی رویہ بھی آپ سے سرزد ہونے کا واضح امکان ہو۔ اِس دوستی کی دین میں ممانعت ہو
گی۔
دوستی کی دوسری
صورت: جس میں آپ کے ایک بدعتی سٹوڈنٹ کو کچھ نہ کچھ متاثر کر لینے کا واضح امکان
ہے نہ کہ اس سے متاثر ہو جانے کا۔ اُس کے باطل عقائد یا معمولات کا ذکر آنے پر ایک
حکیمانہ انکار کی آپ استعداد رکھتے ہیں؛ اور نری خاموشی کے روادار بہرحال نہیں۔
اُس کے کسی باطل پر خاموش ہوں گے بھی تو کسی دعوتی تدریج کے تحت، جو کہ حق ہے۔
دوستی کی یہ صورت مستحب ہو گی، یعنی دین
میں مستحسن۔ اُس کے ساتھ ہر طرح کا احسان اور نیک سلوک باعثِ اجر ہو گا، ان شاء
اللہ۔
دوستی کی تیسری صورت: ایک واجبی سا تعلق۔ مانند
نوٹس لے لینا، دے دینا۔ کام پڑنے پر اس کی مدد کو جا پہنچنا۔ یا کوئی عام سرسری
امر۔ وغیرہ۔ یہ سب عام ’’حسنِ سلوک‘‘ میں آتا ہے، جو ہر کسی کے ساتھ کرنا واجب ہے،
خواہ کوئی کافر ہے یا کوئی بدعتی یا سنی۔ وَقُوْلُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔ بدتمیزی یا درشت یا توہین آمیز رویہ رکھنا یہاں بہرحال ممنوع
ہے۔ آدمی کو شدید طور پر نظرانداز کرنا حد درجہ معیوب ہے۔ لوگوں کے ساتھ بہترین انسانی رویے رکھنا اہل سنت کا ایک معلوم اصل
ہے، اس سے کسی طور دستبردار نہ ہوا جائے گا۔ سوائے جب ایک بدعتی فرد آپ کو صاف معاند نظر آتا ہو، یعنی بنفسِ نفیس وه ہمارے دین یا صحابہؓ کے
ساتھ اظہارِ دشمنی کرنے والا ہو۔ ہاں اس صورت میں اس کے ساتھ درشت رویہ رکھنا
مشروع ہو گا۔ البتہ جب تک ایسا نہیں، اس کے ساتھ نیک سلوک اور اعلیٰ ترین رویہ
رکھنا دین کا تقاضا رہے گا۔
*****
جہاں تک شادی
بیاہ کا تعلق ہے تو پہلی وضاحت یہ کر دوں کہ شادی بیاہ کی حرمت ایک تو وہ ہے جو
دین میں منصوص (یعنی جس پر نص ہے) یا مقیس ہے (یعنی نص پر قیاس ہے)۔ کسی بھی بدعتی شخص کے ساتھ، جب تک آپ اس کی تکفیر تک نہیں جاتے،
شادی بیاہ کی یہ حرمت تو بہرحال نہیں ہے۔
دوسرا ہے ایک
چیز کو اس کے واضح عواقب (نتائج) کے لحاظ سےحرام یا مکروہ ٹھہرانا۔ خصوصاً شادی بیاہ جو کہ ہمارے
اس معاشرے میں عموماً دو افراد کے مابین نہیں بلکہ خاندانوں کے مابین ہوتا اور کچھ
باقاعدہ سماجی مضمرات رکھتا ہے۔ پھر یہ نرا ایک ’حاضر‘ رشتہ نہیں بلکہ اولاد کے ’’مستقبل‘‘
سے بھی براہِ راست جڑا ہوتا ہے۔ ان سب گرہ در گرہ امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مختصراً
یہ کہا جائے گا کہ:
1۔ بدعتی کو
رشتہ دینے کا تو سوال ہی نہ رکھا جائے، سوائے کچھ غیر معمولی استثنائی حالات میں۔
2۔ ہاں جہاں
تک رشتہ لینے کا معاملہ ہے تو اگر اوپر ’’دوستی‘‘ کے ضمن میں دی گئی (تین میں سے) دوسری صورتحال سے ملتی جلتی
صورتحال ہو تو ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہے۔ لیکن چونکہ ’’دوستی‘‘ کو ختم کرنا کسی
بھی وقت ممکن ہے جبکہ ’’رشتہ‘‘ مستقل بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے، اس لیے اس میں
کہیں زیادہ محتاط اور اپنے عقیدہ میں آدمی کا قوی ہونا ضروری ہے۔ اولاد وغیرہ کے
معاملہ میں تو امور پہلے سے واضح واضح طے ہو جانے چاہیں کہ توحید پر ان کی تربیت اور اپنی ماں کے عقائد سے ان کے
بچاؤ کی کیا صورت ہو گی، پھر خاص دینی معاملات میں ان کا ننھیال سے جو برتاؤ ہو گا
وہ کیا ہو گا۔ یعنی کچھ حدود اور قیود کا صراحت کے ساتھ پیشگی تعین اور ان کے رو
بعمل آنے کی بھی کوئی واقعی (غیر رومینٹک) یقین جوئی۔ یہ بات اس لیے کہی گئی کہ ’’رومانس‘‘ اس معاملہ میں
ہرگز کوئی معوَّل علیہ dependable چیز نہیں۔ ناچاقی ہو جانے
یا شوہر کے دنیا میں نہ رہنے کی صورت میں، ہم نے مغرب میں ایک مسلمان کے بچے کو
ماں یا ننھیال کے زیراثر چرچ جاتے اور سینے پر صلیب لٹکاتے دیکھا ہے۔ پھر بیوی کے
فوت ہو جانے کی صورت میں تو، خود ہمارے یہاں بچے کی حضانت (پرورش) کا حق بالعموم بچے کی نانی
کے پاس جاتا ہے۔ یہاں؛ اکیلی بیوی کی یقین دہانیاں خواہ وہ ’’رومانس‘‘ سے بالاتر
ہو کر کیوں نہ کرائی گئی ہوں، بے اثر ہوتی ہیں۔ لہٰذا بچوں کے دین کا معاملہ محض
دو اشخاص (شوہر بیوی) کی سطح پر طے ہونا ایک شدید ناکافی امر ہے۔ یاد رہے، ’’حفظِ دین‘‘ ہمارے مقاصدِ شریعت میں ہر ترجیح
سے بالاتر ترجیح مانی جاتی ہے۔
اللہ اعلم
*****
وَسُئِلَ رحمه الله
عَنْ " الرَّافِضَةِ "، هَلْ تُزَوَّجُ؟
فَأَجَابَ:
الرَّافِضَةُ
الْمَحْضَةُ هُمْ أَهْلُ أَهْوَاءٍ وَبِدَعٍ وَضَلَالٍ وَلَا يَنْبَغِي
لِلْمُسْلِمِ أَنْ يُزَوِّجَ مُوَلِّيَتَهُ مِنْ رافضي. وَإِنْ تَزَوَّجَ هُوَ
رافضية صَحَّ النِّكَاحُ إنْ كَانَ يَرْجُو أَنْ تَتُوبَ وَإِلَّا فَتَرْكُ
نِكَاحِهَا أَفْضَلُ لِئَلَّا تُفْسِدَ عَلَيْهِ وَلَدَهُ. وَاَللَّهُ أَعْلَمُ. (مجموع
فتاوى ابن تيمية: ج 32 ص 61)
’’(ابن تیمیہؒ سے)
روافض بارے پوچھا گیا، کیا ان سے شادی بیاہ کیا جائے گا؟
فرمایا:
جو نرے رافضی ہیں وہ
اہلِ اھوء اور اہل ضلال و بدعات ہیں۔ مسلمان کےلیے درست نہیں کہ وہ اپنے زیر ولایت
ایک لڑکی کو کسی رافضی کے بیاہ میں دے۔ ہاں یہ اگر کسی رافضی عورت سے بیاہ کر لے
تو نکاح صحیح ہے اگر یہ امیدوار ہے کہ وہ عورت تائب ہو جائے گی۔ نہیں، تو اس سے
شادی نہ کرنا افضل (زیادہ فضیلت والی بات) ہو گا تا کہ وہ (عورت) اس کی اولاد کی
خرابی کا باعث نہ ہو۔ واللہ اعلم‘‘
(مجموع
فتاویٰ ابن تیمیہ کے متعلقہ صفحہ کا لنک)