دین و دنیا.. اور ’نظام‘ کی بحث
یہ میں مانتا ہوں کہ زندگی کے ہنگاموں میں شریک
رہتے ہوئے دین اور اس کے تقاضوں پر قائم رہنا ایک مشکل کام ہے۔ اسی کا نام
’’توازن‘‘ ہے، جو کسی قدر کمیاب ہے، سوائے جس کےلیے اللہ آسان کر دے۔ اس کے مقابلے
پر، مسئلے کی دونوں انتہائیں سہولت سے پُر ہیں: زندگی کے ہنگاموں سے دور رہ کر
اپنی ’دینداری‘ بچانا اور اس پر ولایت کا زعم پالنا اور کچھ پھسلنے والوں کے احوال
بیان کر کر کے اپنی حقانیت جتلانا بھی آسان ہی ہے۔ اور دنیا کے منجدھار میں قدم
رکھتے ہوئے اسی کی نذر ہوجانا اور دین کے تقاضے یکسر چھوڑ بیٹھنا بھی کچھ مشکل
نہیں۔ ہاں مگر اس منجدھار میں اپنے دین پر گرفت مضبوط رکھنا جان جوکھوں کا کام۔ حق
یہ کہ انسان کی ’’آزمائش‘‘ یہی ہے؛ اور اس میں انسان کے ’’کامیاب‘‘ ہونے کا معیار
بھی خالصتاً یہی۔ اِس ’’آزمائش‘‘ میں گِر گِر کر اٹھنا، لڑھکنے کے بعد سنبھلنا اور
ٹھوکروں سے درستی کی جانب بڑھنا تک اہل عدل و استقامت کے ہاں قابل قدر جانا گیا؛
اور یہی فی الحقیقت ’’نصیحت‘‘ اور ’’تواصی
بالحق‘‘ کا میدان۔ رہے وہ دونوں ’آسان‘ کام، تو فی الحقیقت وہ ناکامی کی صورتیں
ہیں، خواہ ان میں سے ایک کا نام عرفِ عام میں ’دینداری‘ ہو اور دوسرے کا
’دنیاداری‘۔ ’’کامیابی‘‘ دراصل دین اور دنیا کو خدا کی حدوں میں رہتے ہوئے ایک
ساتھ چلانے کا نام ہے؛ جو مشکل بےشک ہے مگر ناممکنات میں نہیں۔ بخشش، مہربانی اور
گریس مارکس وغیرہ موضوعات ابھی الگ ہیں؛ جہاں ایک پرچے کو محض ’اٹیمپٹ‘ attempt کرنے پر ہی کچھ نمبر مل جاتے ہیں اور پرچہ دینے
والوں کی کمزوریاں اور رونی صورتیں بھی کسی وقت وہاں کام کر جاتی ہیں۔ غرض اصل چیز
اِس منجدھار سے گزرنے کی ایک مردانہ وار کوشش ہے؛ لڑکھڑانے پر امید ہے پکڑ تک نہ
ہو۔ اِس راہ میں لغزشیں کر لینے والوں تک کے ساتھ خدا کا ایک خاص معاملہ ہے؛ اور
’’امید‘‘ کے بےشمار در اس پر بھی وا کر رکھے گئے ہیں۔ اور ایسا آدمی اپنے تمام تر
قصوروں، غلطیوں اور لغزشوں کے باوجود اُس شخص سے تو بہرحال افضل ہے جس نے
پرچے کو ہاتھ لگانے ہی کی زحمت نہ کی۔
کمال یہ کہ اِس توازن – یا توازن کی ایک مخلصانہ کوشش – کو ’’ناممکن‘‘ قرار دے کر متروک اور
ناقابلِ التفات ٹھہرانے پر جہاں دنیا پرستوں نے ایک ’’اجماع‘‘ کر رکھا ہے وہاں
دینداروں کا ایک فریق بھی اس پر ’’اجماع‘‘ ہی کروانے پر مُصِر ہے! چھوڑو جی، یہ
راستہ بھلا کس کے چلنے کا ہے!!! گویا اس ایک مسئلے پر یہ دونوں متحارب فریق اکٹھے
ہیں۔ جس طرح ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ایمان کو ناقابلِ تقسیم (غیر متجزئ) قرار
دینے پر خوارج اور مرجئہ اپنے تمام تر بعد المشرقین کے باوجود اکٹھے ہیں اور مل کر
اہل سنت سے جھگڑتے ہیں، اور جوکہ عام طالب علم کےلیے شدید باعثِ تعجب ہے، اسی طرح
مسئلہ ہٰذا میں یہ دونوں فریق شدید الگ الگ راہیں رکھنے کے باوجود ایک ہیں۔ دونوں
کے نزدیک ایک راستہ قطعی بند ہے اور اپنے اِس ’حتمی‘ موقف پر یہ مل کر اہل عدل سے
جھگڑتے ہیں۔ ہاں اس کو ’’بند‘‘ کہہ دینے کے بعد؛ اپنے تئیں وہ ’دین‘ کا راستہ چلتا
ہے اور یہ ’دنیا‘ کا!
یہ بات مسئلے کی ایک اصولی جہت بیان کرنے کےلیے
ہوئی۔ تاہم ’’زندگی کے ہنگامے‘‘ کسی وقت اپنی شرعی تکییف میں اتنے سادہ نہیں ہوتے۔
خیر اور شر ایک معاملے میں شدید خلط ہو سکتے ہیں۔ یہاں معاملہ نرا ’’تغلیب‘‘ کا
ہوتا ہے یعنی کوئی عالم ایک معاملے میں خیر کو غالب تر دیکھتا ہے اور کوئی دوسرا
عالم شر کو۔ یہاں ’’زندگی کے ہنگاموں‘‘ میں شریک رہنے کے مسلک پر گامزن فریق بھی اپنے اجتہادات
میں مختلف ہو سکتا ہے؛ کسی کے خیال میں ایک کام کرنے کا ہو گا اور کسی کے خیال میں
نہیں ہو گا۔ البتہ یہ ایک اجتہادی اختلاف رہتا ہے اور اِس اختلاف کے اپنے آداب اور
قیود۔ یہاں یہ فریقِ حق اپنے چلنے کے راستوں میں کچھ فرق کے باوجود اپنے مابین ایک
وحدت اور یگانگت کا پتہ دیتا ہے اور بلاشبہ ہمارے علماء اپنے تمام تر اختلاف کے
باوجود آج بھی انہی آداب اور اخلاق کا مظہر ہیں؛ جوکہ طریقِ کار کے فرق کے باوجود
اِن کو ایک جماعت ہونے کا معنیٰ دیتا ہے۔ اس حوالہ سے، میں چاہوں گا ہمارے طالب
علم، محض مثال کے طور پر، ابن باز رحمہ اللہ اور قرضاوی حفظہ اللہ کے مابین ہو چکی
مراسلت کے کچھ نمونے دیکھ لیں۔ نیز ابن باز رحمہ اللہ کی کچھ مراسلت جو انہوں نے
مودودی رحمہ اللہ کے ساتھ کی اور کچھ مسئلوں پر اُن سے نہایت کھل کر اختلاف کیا
تھا۔ مگر اس اختلاف کا رنگ کیا تھا، اصل سیکھنے کی چیز طالبعلموں کےلیے یہاں ہے۔
البتہ ان پیچیدہ امور میں اپنی اُسی ’’حتمیت‘‘ اور ’’قولِ فیصل‘‘ کے ساتھ رائے
صادر فرمانے والے طبقے عموماً وہی ہوتے ہیں جن کا شروع میں ذکر ہوا، مگر مسئلے کی
پیچیدگی کے باعث یہاں ان کی بات میں بظاہر دلائل آ جاتے ہیں جو ایک سادہ شخص کو
متاثر تک کر لیتے ہیں مگر شریعت کے ایک طالبعلم پر وہ بہرحال مخفی نہیں رہتے۔ اس
طرزِ فکر کی سادہ پہچان ایک ہے: اہل علم کے مابین مختلَف فیہ مسائل میں ایک آدمی کا حتمیت اور
قطعیت کے لہجے ظاہر کرنا۔
اِنہی پیچیدہ امور میں ایک مسئلہ دورِ حاضر کے
اندر ’’نظام‘‘ کا ہے۔ ظاہر ہے مسلمانوں کی صدیوں پر محیط پسپائی کے نتیجے میں
زندگی کے تقریباً سب دھارے اہلِ دین کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں چلے
گئے؛ اور یہاں معاملے کو ایک نئے رخ پر لانے کےلیے اہل علم و عدل کے اجتہادات
مختلف ہوئے ہیں۔ اس گتھی کو سلجھانے میں خاصا مددگار ایک مضمون شیخ ابراہیم
السکران (جو عرصہ دو سال سے سعودی عرب میں جیل کی ہوا کھا رہے ہیں اور فی الحال
پانچ سال کےلیے بند ہیں) کا تحریر کردہ ہم نے عرصہ پیشتر ایقاظ میں دیا تھا، جس کا
لب لباب یہ تھا کہ ایک ’نظام‘ کے معاملہ میں مقامِ انشاء اور مقامِ مشارکہ دونوں اپنے اندر واضح فرق رکھتے ہیں۔
یعنی ایک نظام اگر ہم خود بناتے ہیں تو اس کا حکم اور ہو گا اور وہ ہو سکتا ہے
بالکل جائز نہ ہو (مقامِ انشاء)۔ جبکہ ایک نظام جسے ہم نے نہیں بنایا مگر وہ ہے
اور فی الحال رہے گا اور ہماری زندگی کا بہت کچھ اس سے متعلقہ بھی ہے جس سے مستغنی
رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس سے معاملہ کرنا البتہ ہو سکتا ہے اہل علم کے ہاں کچھ
خاص حدود و قیود کے تحت ایک مختلف حکم رکھے اور وہ جائز ہو (مقامِ مشارکہ)۔ شیخ
ابراہیم نے مسئلے کی محض ایک علمی تکییف کی تھی، ورنہ اصل اس پر وہ اقوالِ علماء
ہی ہیں جو دورِ حاضر کے اِن مسائل پر بہت شروع سے صادر ہوتے آئے ہیں، اور جوکہ ہم
مانتے ہیں اجماعی نہیں بلکہ آراء میں سے ایک رائے ہیں۔ فریقِ مخالف سے بھی ہماری
اسی قدر درخواست ہے کہ ان کو آراء میں سے ایک رائے مانے اور اس پر عمل پیرا
جماعتوں کی جان بخشی کرے اور پھر جس قدر جی چاہے اس سے اختلاف کرے۔ اختلاف سے، خدا
شاہد ہے، ہمیں ہرگز کوئی شکایت نہیں۔ ہمیں مسئلہ ہے ’حق کی اجارہ دار‘ اُس لٹھ سے
جو اہل علم کے ہاں چلی آنے والی آراء میں سے کسی رائے پر عمل پیرا لوگوں کے سر پر
دے ماری جاتی ہے۔ اس لٹھ کو خدا را پیچھے کر لیجئے ہاں بات جس قدر چاہیں ہمارے
ساتھ کیجئے، ہم آپ کی سنیں گے اور اپنی سنائیں گے مگر جس مسندِ حق پر آپ چڑھے
بیٹھے ہیں وہاں سے اتر آئیے۔ علماء کی آراء جب بھی آپ پیش کریں گے ہم ان کو خوش
آمدید کہیں گے، انہیں قبول کرنا یا ان سے اختلاف کرنا ایک الگ بات۔
شیخ ابراہیم کا تاصیل کردہ یہ مبحث آپ کی زندگی
میں قدم قدم پر پیش آتا ہے۔ کم ہی کوئی شخص یہاں اس سے مفر پاتا ہو گا۔ ’نظامِ
سیاست‘ کو آپ چلیے طرح دے لیجئے، یہاں سرکاری و نجی شعبوں میں سے بےشمار ایسے ہیں
کہ جنہیں اگر خود ہم قائم کرتے تو ہمارے لیے انہیں اُس ہیئت پر ’’بنانا‘‘ جس پر کہ
وہ اِس وقت ہیں حرام ہی ہوتا۔ مگر ان میں ’’جانا‘‘ کچھ خاص حدود اور قیود کے تحت
ہو سکتا ہے ہم جائز رکھتے ہوں۔ ایک نظامِ تعلیم ہی کی مثال لیجئے جو اِس وقت یہاں
رائج ہے، خواہ پرائیویٹ شعبے میں اور خواہ سرکاری شعبے میں، میرا نہیں خیال کوئی
عالمِ شریعت اسے باطل نہ کہتا ہو۔ (اس کے بطلان کو خاص ’کو ایجوکیشن‘ وغیرہ ایسی
بنیادوں پر خدا را مت لیجئے۔ ویسے تو فزیکل سائنسز کی تعلیم ہی یہاں جس اپروچ پر
قائم ہے وہ صاف جاہلیت ہے، مگر سوشل سائنسز کی تعلیم تو یہاں ہیومن ازم کی باقاعدہ
تاسیس اور ترسیخ ہے؛ جبکہ یہ ہیومن ازم کا شرک اُس سیکولرزم کا باپ جو آپ کو کسی
وقت سیاست سے متعلقہ مباحث میں نظر آتا ہے۔ جبکہ یہاں کے سوشل سائنسز کے سب کورسز
اُسی ہیومن ازم کا مِن و عن پرتَو، حتیٰ کہ اپنی اسلامیات کے کورسز شاید اس سے
پوری طرح پاک نہ ہوں۔ غرض اِس نظامِ تعلیم کو باطل کہنے کا سپیکٹرم ہمارے یہاں ’کو
ایجوکیشن‘ وغیرہ کو مسئلے کی بنیاد بنانے کی نسبت خاصا بڑا ہے)۔ مگر ایک ایسے باطل
نظامِ تعلیم میں، جسے اگر ہم ’’بناتے‘‘ تو یہ ہمارے حق میں حرام ہی ہوتا، ’’جانے‘‘
کا بھلا کیا حکم ہے، خواہ طالبعلم کے طور پر اور خواہ پروفیسر کے طور پر اور خواہ
ڈین اور چیئرمین یا حتیٰ کہ وائس چانسلر کے طور پر؟ آپ میں سے کون کون اسے حرام
کہتا ہے؟ اب یہ باطل نظامِ تعلیم اگر یہاں کے طلبہ، پروفیسروں، ڈینز اور وائس
چانسلرز کے ذریعے نہیں چلتا تو پھر کس مخلوق کے ذریعے چلتا ہے؟ ہاں ہم جو اِسے
باطل کہتے ہیں، البتہ اس بات کے داعی ہیں کہ اہل عدل کو ضرور اس کوچے کا رخ کرنا
چاہئے اور یہاں طالبعلم سے لے کر پروفیسر، ڈین اور وائس چانسلر تک ایک ایک سیٹ پر
پہنچنا اہل حق پر لازم؛ اور فی الحال کےلیے اجتہاد یہی ہے۔ کیسے؟ کم از کم ہمارا
جواب وہی ایک ہے: مقامِ انشاء اور مقامِ مشارکہ کا فرق۔ ہم نے کہا نا یہ مبحث، جب
سے یہ ’’زندگی‘‘ آپ کے ہاتھ سے نکلی ہے، قدم قدم پر آپ کو پیش آتا ہے؛ بصورتِ دیگر
آپ اپنی ولایت کو بچاتے ہوئے گھر بیٹھتے ہیں یا پھر دنیا اور اس کے تقاضوں کی نذر
ہوتے ہیں۔ (دونوں؛ یکسر آسان کام)۔ ہاں دنیا کے گھمسان سے گزرنا اور دولتِ دین کو
بچا کر یہاں چلنا ایک مشکل کام ہے اور لڑکھڑانے، ٹھوکریں کھانے، پلٹ پلٹ کر گرنے
اور لغزشیں کرنے کی نوبت اِسی راہ میں آتی ہے، جس کے باعث اُن دونوں بھلے مانس
فریقوں نے بڑی دیر سے یہ راستہ اصولاً بند کر رکھا ہوا ہے؛ ایک نے ’دنیا‘ کو ممکن
بنانے کے نام پر اور ایک نے ’دین‘ کو۔
غرض اس مسئلے کے سوتے بہت پیچھے سے پھوٹتے ہیں،
اور جوں جوں مسئلے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں توں توں ان دونوں انتہاپسند اپروچوں
پر ’دلائل‘ کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ ’دلائل‘ کی جانچ پرکھ کے ہم منکر نہیں اور پیچیدہ
معاملات میں تو بلاشبہ ان کی ضرورت پڑتی ہے، مگر یہ چیز علمی اہلیت سے مشروط
بہرحال ہے۔ طالب علم کےلیے ابتداءً جو چیز تجویز کی جاتی ہے وہ ہے علمائے امت کا
دامن تھام رکھنا اور یہ دیکھنا کہ وہ کونسے ایشوز ہیں جو علماء کے ہاں علمی و
اجتہادی دائرے میں مانے جاتے ہیں۔ اِس مجتہَد فیہ دائرہ میں ’مارشل لا‘ لگا رکھنے
والوں سے طالب علم کو اتنا ہی بچنا ہے جتنا اُس دائرہ میں ’گنجائش‘ دینے والوں سے
جسے علمائے امت انحراف اور شذوذ گنتے ہوں۔ ہر دو صورت میں اسے بہرحال علمائے امت
کے پیچھے اور انہی کے تشکیل کردہ دائرہ میں رہنا ہوتا ہے۔
ہاں اہل علم بھی اگر ایک بات کی اجازت دیتے ہیں
تو وہ کچھ حدود اور قیود کے تحت ہوتی ہے؛ کوئی ’کھلا لائیسینس‘ بہرحال وہ نہیں
ہوتا۔ کل
کے ایک مضمون میں اِسی حوالہ سے ایک بات ہوئی تھی، اور میں على وجہ البصیرت
کہتا ہوں وقت کے علمائے توحید کی ایک بڑی تعداد کی یہی رائے ہے جو اس میں ملخص
ہوئی۔ اس پر سخت سخت رد عمل دینے والے حضرات بھی میرے لیے قابل احترام ہیں اور ان
سبھی کی کرم فرمائی میرےلیے لائقِ صد تشکر، تاہم علمی حلقوں میں اس مسئلہ کی
پوزیشن یہی ہے۔ اجماعی رائے تو میں نے اس کو نہیں کہا البتہ اہل علم کا ایک بڑا
فریق اسی قول پر ہے کہ جمہوریت کے باطل معانی کو اپنے فکری پیراڈائم میں آنے نہ
دیا جائے تو ایک اسلامی تحریک اپنی بہترین صوابدید کے مطابق کسی دی گئی صورتحال
میں ممکنہ بہتری لانے کےلیے اس کے اندر کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ بلکہ تعبیرات
کے فرق کو ذرا نظرانداز کر دیا جائے تو میں کہوں گا، علمائے توحید و سنت کی ایک
بہت بڑی تعداد کی یہی رائے ہے۔ پھر بھی چونکہ یہ ایک طبقے ہی کی رائے چاہے وہ
جمہور کیوں نہ ہو، لہٰذا اس سے ہٹ کر رائے رکھنے کی پوری گنجائش ہے۔ مگر اسے
’’رائے‘‘ ہی کی حیثیت میں آنا چاہئے۔
رہ گئی وہ احتیاط جس کا ہماری اُس تحریر میں بطورِ
خاص ذکر ہوا، یعنی ان مغربی اشیاء کو اپنے فکری پیراڈائم میں جگہ دینے سے بچنا، تو
اگر کوئی بھائی اسے ایک صائب طرزِ فکر مانتے ہوئے کسی خاص جماعت کی بابت یہ اندیشہ
رکھتا ہے کہ وہ ان اشیاء کو اپنے افکار و عقائد کے احاطہ میں جگہ دے بیٹھے گی تو بھی
اُسے اپنے ان بھائیوں کی فکری و عقائدی سلامتی کےلیے دعاء کرنی چاہئے۔ جہاں تک اس پر
متنبہ کرنے اور اس کےلیے دعا گو رہنے کی بات ہے، تو ہماری اُس تحریر کا یہی مقصد اور
مضمون تھا۔ البتہ ضمانت کوئی شخص اپنے راست رَو رہنے کی نہیں دے سکتا۔ یہاں کل امید
اور سہارا اپنی اور اپنے بھائیوں کی سلامت روی کےلیے خدا کی ذات ہے: ۞ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ
لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ
رَّحِيمٌ.