عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, December 3,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 1
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
اسلامی تحریکی عمل میں چند جذری ترمیمات سفارشات
:عنوان

ایک"دی ہوئی صورتحال"میں جو امور زیرِغور آتے ہیں،انکی سب شرعی بنیادیں اسی"دی ہوئی صورتحال"کےحوالےسےاختیار کی گئی ہوتی ہیں۔انکو کسی مطلق حوالےکےطورپر لینا یا ان پر کسی مستقل حوالے سےنقد کرنا درست نہ ہوگا۔ہم یہ گزارش ہی کرسکتےہیں۔ باقی"نشر"کرنےوالوں کی مرضی

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

اسلامی تحریکی عمل میں چند جذری ترمیمات

سفارشات

اداریہ 6

بہت دوستوں نے اصرار کیا ہے کہ ملک میں اسلامی عمل کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے ہم کچھ سفارشات قوم کے دردمندوں کے آگے پیش کریں۔

یہ امتِ محمدؐ ہے؛ کوئی یہاں امت کے مفاد سے قیمتی تر نہیں۔ کسی سے قربت، کسی سے دُوری، کسی کا ڈر، کسی کی رضا، کسی کی خفگی یہ ایک امانت اداکرنے میں مانع آئے، یہ ایک مسلمان کےلیے جائز نہیں۔ واللہ أحقُّ أن تخشاہ۔ نہایت اختصار کے ساتھ، اور اپنی بہترین صوابدید سے کام لیتے ہوئے، ہم ایک امانت قوم کے چارہ گروں کے سپرد کرنا چاہیں گے، ان تین مقدمات کے بعد:

1.          ہماری یہ تجاویز اِس ملک کے اندر درکار ایک دینی راہنمائی سے متعلق ہیں۔ وہ سب لوگ جو کسی درجے میں قوم کو دینی راہنمائی دینے کے عمل سے وابستہ ہیں، اپنی اپنی اہمیت، تاثیر اور پوزیشن کے بقدر ہماری ان گزارشات کے مخاطب ہوں گے۔

2.          یہ سب لائحۂ عمل چونکہ ایک مخصوص (الجھی ہوئی) صورتحال سے متعلق ہے، لہٰذا ان سب باتوں کو کسی مطلق سیاق  an absolute context  میں نہ لیا جائے۔ ایک دی ہوئی صورتحال میں جو امور زیرِغور آتے ہیں، ان کی سب شرعی بنیادیں اور سب علمی پراسیس اُسی دی ہوئی صورتحال کے حوالے سے اختیار کیے گئے ہوتے ہیں۔ ان کو کسی مطلق حوالے an absolute reference  کے طور پر لینا یا ان پر کسی مستقل حوالے سے نقد کرنا درست نہ ہو گا۔ ہم یہ گزارش ہی کر سکتے ہیں۔ باقی نشر کرنے والوں کی اپنی سمجھ، اور ان کا ضمیر۔

3.                      اسلامی عمل یہاں اب سے نہیں طویل عرصے سے بند گلی پر پہنچا ہوا ہے۔ کسی کو اب بھی اصرار ہے کہ سب ٹھیک جا رہا ہے تو وہ ضرور اپنا کام اسی ڈگر پہ جاری رکھے۔ البتہ ہمارے مخاطب وہ حضرات ہیں جن کا ماننا ہے کہ معاملہ کہیں پر خراب ضرور ہے۔

اور اب ہماری یہ سفارشات:

نظریۂ انقلاب پر ایک نظرثانی کی ضرورت

انقلاب اور غلبۂ اسلام ایسی اشیاء کو دعوت کا عنوان بنانے پر اسلامی تحریکی عمل کو ایک نظرثانی کرنا ہو گی۔

 بہت سے مسلم ملکوں میں یہ نظرثانی ہو چکی؛ تحریکیں وہاں انقلاب اور اسلامی حکومت ایسے نعروں کو اب آگے نہیں رکھ رہیں۔ (لیکن یہ عمل  کس طریقے سے وہاں انجام پایا ہے، اس پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے، اورخود ہمارے اِس پر ملاحظات ہیں)۔ البتہ کچھ پیش رفت اِس نظرثانی کے بعد ہی اُن ملکوں کے اندر ہو پائی ہے۔ میں عرض کروں گا، اس کے بغیر آگے بڑھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس کو مؤخر کرتے جانا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والی بات ہو گی۔ یہ بلاضرورت تاخیر آپ کا ڈھیروں نقصان کروا چکی۔ ایک چیز ہونی تو بہرحال ہے؛ البتہ اس میں دیر کرنا وقت کے فیکٹر کو آپ کے خلاف کرتا چلا جاتا ہے؛ بالآخر آپ زیادہ قیمت دے کر وہی کام کرتے ہیں!

جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم پہلے دن سے انقلابی منہج کو کوئی صائب طریق نہیں جانتے۔ (البتہ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر، حالیہ شمارہ میں ہم نے الگ سے ائمۂ سنت کے کلاسیکل منہج اور دورِحاضر کے انقلابی منہج کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اس موضوع کی تفصیلات کےلیے وہیں سے رجوع کیا جائے)۔  اِس نظرثانی سے متعلقہ چند پہلوؤں کے حوالہ سے، ہم تین سال پہلے ایک طویل اداریہ قلمبند کر چکے ہیں بہ عنوان پیراڈائم شفٹ اپنے پختہ تر مراحل میں۔ اُس مضمون سے بھی ہمارا مقصود کچھ واضح ہو سکتا ہے۔ اُس کا مکمل اِعادہ یہاں ممکن نہیں۔ مختصراً:

1.          پیراڈائم (یعنی تصورات) کے اندر تو ایک شدید درجہ کا ٹھیٹ پن رکھنا۔ دورِحاضر کی فکری اھواء کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت conciliation  قبول نہ کرنا؛ اور یہاں پر چیزوں کو خالص سے خالص رکھنا۔ اِسی ٹھیٹ دین پر جینا، اسی پر مرنا، اسی کو پیچھے والوں کےلیے چھوڑ کر جانا (كلمةً باقيةً)، اسی پر حشر کی آرزو۔ سلف کی تفاسیر دیکھیں تو یہی معنیٰ قوی تر ٹھہرتا ہے کہ اہل باطل کے ساتھ تَوَلِّی (رفاقت) اور ان کی جانب رُکُون (جھکاؤ کر لینا) جس پر شدیدترین وعیدیں آئی ہیں، وہ اصل میں نظریات کے اندر ہوتا ہے، جن میں ٹھیٹ پن رکھنا آپ کی خصوصی ترجیح اور محنت ہونی چاہئے۔ داخلی کھپت internal consumption (خود اپنے لوگوں کے حوالہ کےلیے) اصطلاحات تک کافروں سے لینے کا روادار نہ ہونا۔

2.          البتہ عمل اور پیش قدمی کے اندر منہجِ استطاعت اختیار کرنا۔[1] اسی کو ہم دستیاب مواقع کو اختیار کرنا بھی کہتے ہیں۔ جس کی صورت ظاہر ہے ہماری طرف سے پیشگی طے نہیں ہوتی (کہ ہم واقعات کی ایک خاص ترتیب کو منہج کہہ ڈالیں) بلکہ اس کی صورت دستیاب مواقع خود طے کریں گے جو مختلف حالات میں اور مختلف ممالک کے اندر مختلف ہو  سکتی ہے۔ یہاں سے؛ اپنے آگے بڑھنے کے راستے بنانے کےلیے آپ کو ایک ڈائنامزم ملتا ہے۔ یعنی مواقع پر آپ اپنی پیشگی شروط عائد کر کے اپنے راستے تنگ نہیں کر لیتے (کہ مواقع اگر آپ کی شرطیں پوری نہیں کرتے تو آپ کو بیٹھ رہنا ہے اور انتظار کرنا ہے کہ وہ آپ کی شرطوں پر آئیں کیونکہ منہج یہی ہے!) بلکہ مواقع کے اندر، وہ جیسے ہیں، خود اپنے راستے بناتے ہیں اور بالآخر ان کو اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں (بشرطیکہ پیراڈائم میں آپ آخری درجے کے ثابت قدم stubborn   واقع ہوئے ہوں؛ جوکہ آپ کی اصل قوت ہے اور اسی پر آپ کو بہت سی توجہ دینا ہوتی ہے؛ بصورتِ دیگر یہ میلہ دیکھنا بےحد مہنگا پڑ سکتا ہے، اس سے ہم آپ کو پیشگی خبردار کیے دیتے ہیں)۔ البتہ اس ساری پیش قدمی کو ضبط میں رکھنے کےلیے ہمارے پاس ایک قاعدہ رہتا ہےاور وہ ہے مصالح اور مفاسد کا شرعی موازنہ۔ یعنی ایک عمل میں پائی جانے والی مصلحت اور مفسدت میں سے جو چیز بھاری ہو اس کا اعتبار کیا جائے[

سب سے اہم بات دعوت کا مضمون اور عنوان ہے۔ انقلاب کو دعوت کا مضمون و عنوان بنانے والے حضرات بالعموم مکی مرحلے سے استدلال بھی فرماتے ہیں۔ ہم عرض کریں گے: چلیے اس مکی مرحلے کو ہی لے لیں اور مکی قرآن کو ہی لے لیں، اس کے موضوعات میں انقلاب کا ذکر کہاں ہے؟ اپنے زمانے کے شرک کی ایک جابجا نفی ہے اور اس کا شدید ابطال ہے۔ خدا کی تعظیم اور تنہا اُسی ایک کی عبادت کا جابجا اِثبات ہے۔ حکومت یا ریاست حاصل کرنے کا تو کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ (آپ قرآن و سیرت کا وہ سارا مکی بیان پڑھ جائیے)۔  شرک اور توحید کے اُس بیان سے جو مکی قرآن میں ملتا ہے، نیز جو نبیﷺ کے مکی مضامین میں ملتا ہے، اسلام کی ایک حکومت ہونے کا لزوم کسی حد تک ذہنوں کے اندر آتا ہے۔ یہ ہم مانتے ہیں۔ لیکن ہم کہیں گے: یہاں قرآن اور سیرت کی بہترین اتباع یہی ہو گی کہ وہ چیز جو ذہنوں میں خودبخود آتی ہے اس کو آپ بھی زبان پر مت لائیے اور خودبخود ہی ذہنوں میں آنے دیجئے۔ مکی قرآن اور مکی سیرت کی صحیح تطبیق تو یہ ہو گی۔ زبان پر البتہ آپ کے وہی موضوعات ہوں جو وہاں زبان پر تھے: صرف شرک کا ابطال۔ توحید کا اِثبات۔ سب معاملات خدا کی جانب لوٹانے کی تاکید۔ اور قلوب کو خدا کے ساتھ جوڑتے اور نفوس کو آخرت کے ساتھ وابستہ کرتے پل پل پر دہرائے جانے والے بیانات۔ خدا کو نفسِ انسانی میں مرکزی ترین حیثیت دلوانا۔ ایک بات کو دعوت کا موضوع بنانے سے ہماری یہی مراد ہے۔  ورنہ غلبۂ اسلام پر ایمان ہم بھی رکھتے ہیں۔ البتہ زیرِبحث مسئلہ آپ کی پریزنٹیشن presentation   کا ہے کہ وہ کیا ہو۔  یہ جگہ انقلاب کے پاس چلی جانا بلکہ دعوت کا عنوان ہی یہ بن جانا نہ تو کوئی مکی مرحلہ ہے اور نہ مدنی۔  جو چیز لزوم کے زمرے میں آنی چاہئے اس کو عنوان مت بنائیے۔ اور جو چیز عنوان ہونا چاہئے اس کو لزوم کے خانے میں مت جانے دیجئے۔

اسی چیز کو ایک دوسرے پہلو سے ہم تنظیمی عمل کی بجائے دعوتی عمل بھی کہتے ہیں۔  (تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو ہمارے اِسی شمارہ میں شامل مضمون کلاسیکل ڈسکورس کا انقلابی ڈسکورس سے فرق پوائنٹ 8)۔  یہاں آپ تنظیمی کی بجائے دعوتی فارمیٹ اپنے عمل میں لے آئیے؛ بفضلِ خدا آپ ایک طوفان برپا کر سکیں گے؛ کیونکہ جو قوت دعوت میں ہے وہ تنظیم میں ہے اور نہ کسی چیز میں۔ کون ہماری تنظیم میں آ رہا ہے اور کون ابھی ہماری تنظیم میں آنے کےلیے تیار نہیں، اِس اپروچ ہی کو اپنے یہاں سے ختم کر دیجئے (’’دعوت‘‘ کے اندر)۔  کس کا ایک چیز پر ایمان ہے اور وہ اس کو اپنی تواصی کا موضوع بنانے پر آمادہ ہے اور کون اس چیز کو ماننے سے پس و پیش کرتا ہے، سارا فوکس اِس پوائنٹ پر چلا جانا چاہئے۔ (’’دعوت‘‘ بہرحال اِسی چیز کا نام ہے)۔ معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دینے والی چیز کچھ واضح شرعی حقائق کو ماننا یا انہیں ماننے میں پس و پیش کرنا ہو جائے؛ اس کا نام ہے دعوتی اپروچ، جس پر ہم بےحد زور دیں گے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور معاشرے کے ثقافتی مراکز میں اسلام کی کچھ بنیادی باتوں کو منوانے اور جاہلیت کے کچھ مرکزی مضامین کا انکار کروانے پر کُل زور ہو جائے (دعوتی اپروچ) بہ نسبت اس بات کے کہ ہمارے نظم میں آئیے (تنظیمی اپروچ)۔ یہاں سے؛ معاشرے کی ایک خالص نظریاتی تقسیم عمل میں آئے گی؛ جو بےحد ضروری ہے۔ معاشرے میں ایک خالص نظریاتی اختلاف کھڑا کیا جائے گا؛ جوکہ دعوت کا ایک بڑا مطلوب ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا بہت سے علماء، مشائخ، پروفیسر، دانشور، سماجی، سیاسی، ثقافتی اثر ور رسوخ کی مالک شخصیات ایک نظریے سے وابستہ ہونا حتیٰ کہ اس نظریے کا عَلَم اٹھانا بآسانی قبول کرتی ہیں بہ نسبت ایک تنظیم سے وابستہ ہونے کے۔  لیکن یہاں غلطی سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چونکہ منہج ہی یہ ہے کہ لازماً لوگوں کو ایک تنظیم میں لایا جائے، جبکہ تنظیم میں آنے کےلیے اکثر سربرآوردہ لوگ تیار ہی نہیں ہوتے، اس لیے معاشرے میں آگے بڑھنے اور مؤثر افراد کو دعوت کا عَلَم اٹھوانے  کے معاملہ میں اپنا کام غیرضروری طور پر مشکل کر  رکھنا ہماری ایک منہجی مجبوری ٹھہری! یعنی کام ہو تو پورا ہو (اور وہ یہ کہ ہر بڑے سے بڑا آدمی سیدھا سیدھا ہماری اطاعت میں آئے اور ہمارے تنظیمی احکامات کی تعمیل کرنے لگے)؛ نہیں تو نہیں! ایسا کام بھلا کب آگے بڑھے گا؟ وہ تو تنظیم ہی کے پوائنٹ پر کھڑا رہے گا۔ (نہ بڑےبڑے لوگ تنظیم میں آئیں اور نہ بات آگے بڑھے!) حیرت یہ کہ اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ سب لوگ تنظیم میں آنے پر آمادہ نہیں ہوتے کچھ جماعتوں کے ہاں حامی یا ہمخیال ایسا خانہ رکھا گیا تو وہ بھی تنظیم کا حامی یا ہمخیال! بھائی تنظیم کو بالکل ہی پیچھے لے جائیے۔ اصل مسئلہ بنا دیجئے کچھ نظریات (عقیدہ) پر ایمان رکھنے اور نہ رکھنے کو۔  معاشرے میں ہلچل اسی بنیاد پر ہونی چاہئے (اور ہو سکتی ہے) کہ فلاں بات حق ہے اور فلاں بات باطل۔ کُل محنت اسی پر ہو۔ یہاں کوئی مضمون ہو جس کو منوانے پر کُل زور صرف ہو رہا ہو؛ اور بس۔ گلی گلی، محلے محلے، کچھ ایشوز ہوں (اور وہ بھی ایمانی انداز کے) جو لوگوں کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑ رہے ہوں (دوبارہ واضح کردیں: وہ ’’عقیدہ‘‘ کے ایشوز ہوں نہ کہ انقلاب کے) تاآنکہ لوگوں کےلیے ان (ایمانی) ایشوز کے معاملہ میں غیرجانبدار رہنا دشوار کر دیا جائے۔ اسے ہم کہتے ہیں دعوتی اپروچ؛  جو ایک طویل محنت چاہتی ہے۔  ہاں دعوت جب معاشرے میں ایک راستہ بنا لیتی ہے، ذہنوں کو متاثر کر لیتی ہے، ایک جاندار اختلاف یہاں کی ایک ایک بیٹھک ایک ایک چوپال میں برپا کر لیتی ہے، ایک صحتمند ڈیبیٹ debate  جگہ جگہ کھڑا کر لیتی ہے، جس پر خوب وقت لگتا ہے... اور اس کے نتیجے میں ایشوز یہاں بچے بچے کی زبان پر بولنے لگتے ہیں، حمایت اور مخالفت کی بنیاد کچھ ایمانی موضوعات ہوتے ہیں، اور ان (موضوعات) کے حق میں ایسےایسے لوگ ایسی ایسی جگہوں پر آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں جو آپ کے نظم میں تو کیا، آپ کے عِلم اور آپ کے سان گمان میں نہیں ہوتے۔ (دعوت اصل میں کہتے ہی اس نامیاتی organic    چیز کو ہیں جو اپنا عمل خود کرتی ہے؛ آپ کو صرف اس کا بیج ڈالنا اور ایک تسلسل کے ساتھ اُس کو سیراب کرنا ہوتا ہے؛ باقی کا کام خود اسی پر چھوڑنا ہوتا ہے)... غرض کچھ ایمانی موضوعات معاشرے میں جب ایک صحتمند اختلاف پیدا کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک صحتمند تقسیم معاشرے کے اندر انجام پا لیتی ہے... تو تب یہ ہوتا ہے کہ ان ایشوز (ایمانی موضوعات) کےلیے معاشرے میں جو شخصیات اور تنظیمیں اور فورَمز سب سے زیادہ سرگرم رہے ہوں وہ بھی توجہ کا مرکز بنیں۔ تب ایک الگ محور پر لوگ ان شخصیات اور تنظیموں اور فورَمز سے جڑتے بھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایک عقیدت کی صورت میں اور کچھ لوگ باقاعدہ راہنمائی لینے کی صورت میں۔ البتہ ایک بڑی تعداد کی وابستگی تب بھی صرف اُس کیس کے ساتھ ہوتی ہے جس کی آپ نے معاشرے میں ایک گونج اٹھائی تھی (نہ کہ آپ کی تنظیم یا آپ کی شخصیت کے ساتھ)۔ خصوصاً سربرآوردہ لوگوں کی وابستگی؛ جن کے بولنے سے واقعتاً معاشرے کو کچھ فرق آتا ہو۔ (یعنی تنظیموں اور شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہونے والے لوگ کبھی بھی بہت بڑی تعداد میں نہ ہوں گے؛ ابھی کی تو سوچیے ہی مت!) البتہ تب یہ ہوتا ہے کہ تنظیمیں یا شخصیات یا فورَمز دعوت کے لیور lever   سے معاشروں ایسی بھاری چیز کو ہلا لیتے ہیں۔ اس کے بغیر البتہ معاشرے ہِل کر دینے کے نہیں۔

سو دعوت ایک نرسری ہے۔ یہ آپ کا اصل ہے۔ یعنی بنیاد۔ اس کا رنگ ہرگز نہ تو تنظیمی ہونا چاہئے اور نہ مسلکی۔ تنظیمیں اور مسلک وغیرہ یہاں سو فیصد پس منظر میں چلے جائیں۔ یہاں؛ دین کے حقائق خود ہوں جو براہِ راست لوگوں سے مخاطب ہوں (دین کے حقائق جو وقت کی جاہلیت کو چیلنج کریں)۔ دین کے بنیادی ایشوز ہوں جو لوگوں سے بول بول کر بات کر رہے ہوں۔ اپنی طرف آپ کسی بھی حیثیت میں لوگوں کو نہ بلا رہے ہوں۔ (یہاں کسی بھی حیثیت میں خود کو نبی کی جگہ پر رکھنے کا قیاس تباہ کن ہے؛ وہ حیثیت بس نبی کی ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ خاص)۔ دعوت یوں بولے گویا خدا اپنی طرف بلا رہا ہے اور بیچ کے لوگ بولنے کے باوجود بیچ سے غائب۔ یوں گویا ہر آدمی کو براہِ راست خدا ہی کو ہاں یا ناں میں جواب دینا ہے۔ یہاں؛ جتنا آپ بیچ سے غائب ہوں گے اور خدا، آخرت اور رسالت کو جتنا بولنے دیں گےاتنا ہی اس عمل پر دعوتی رنگ آتا چلا جائے گا۔

] براہِ کرم نوٹ کیا جائے یہ بات ہم خاص اخلاصِ نیت کے حوالے سے نہیں کر رہے؛ کیونکہ اخلاصِ نیت (خدا کو راضی کرنے کا سچا جذبہ) تو ایک تنظیمی دعوت میں بھی ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں باقاعدہ ایک منہج کی کہ خود اسی کے اندر دین بول رہا ہو اور دین کے سوا کچھ نہ بول رہا ہو، باقی ہر چیز اس میں پیچھے کر دی گئی ہو۔ دعوت نام ہے اس چیز کا[۔

پس دعوت آپ کی نرسری ہے۔ یہی آپ کی اصل سرمایہ کاری۔ باقی سب کچھ آپ کے پراجیکٹ ہیں، جو متنوع ہو سکتے ہیں۔ پراجیکٹس چلیں گے ایک بالکل الگ محور پر، لیکن اپنی کامیابی کےلیے انحصار اِسی نرسری پر کریں گے۔ یہاں اگر جان ہو گی تو ہی آپ کے پراجیکٹس میں جان ہو گی، خواہ وہ سیاسی ہوں، خواہ سماجی اور خواہ انتظامی۔ دعوت وہ پانی ہے کہ جیسےجیسے اس کی سطح بلند ہو گی، ویسےویسے آپ کی سب کشتیاں اوپر ہوتی چلی جائیں گی اور جیسےجیسے اس کی سطح نیچی ہو گی ویسےویسے آپ کی سب کشتیاں زمین سے لگتی چلی جائیں گی، یہاں تک کہ اکثر پر تیرنے اور حرکت کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی اور یہ مسلسل حالات کو کوستی رہیں گی۔ صورتحال اس وقت یہ ہے کہ کشتیاں اب بھی آپ کے پاس کم نہیں لیکن ان میں سے اکثر زمین میں دھنسی پڑی ہیں۔ ان کو اوپر اٹھانے کےلیے آپ کو پانی کی سطح ہی بلند کرنی ہے۔ مراد ہے: دعوت کے اندر ایک بھاری سرمایہ کاری۔

غرض دعوت نام ہو گا یہاں تنظیمی اور مسلکی لہجوں سے اوپر اٹھ آنے کا۔ جبکہ سرِدست یہاں اِلاماشاءاللہ دو ہی لہجے پائے جاتے ہیں، تنظیمی یا مسلکی۔  دین کی خدمت کے یہی دو ڈھب modes   مانے جارہے ہیں فی الحال! جبکہ اِنہی دو کو پیچھے کرنا دین کے سامنے آنے کے حق میں مطلوب ہے۔ تاکہ فی الواقع یہاں دعوت پنپ سکے۔ جس سے؛ ہمارے سبھی پراجیکٹس میں جان پڑے۔ دین اور بےدینی ہی کے مابین ایک صاف مڈھ بھیڑ ہو؛ اور یہاں کے ایک ایک انسان کو اس میں اپنی پوزیشن طے کیے بغیر چارہ نہ رہے۔ ایسی ایک کیفیت بنانا اپنے سب سیاسی و سماجی منصوبوں میں جان ڈالنے کےلیے ناگزیر ہے۔ گو ہمارے نزدیک یہ آپ اپنی ذات میں مطلوب ہے۔

چنانچہ دعوت ہوا اِس پورے عمل کا وہ پیندا جسے آپ کے تمام پراجیکٹس کا بوجھ سنبھالنا ہے۔ پراجیکٹس اس پر سہارا کریں گے لیکن ہوں گے ایک الگ تھلگ چیز۔

دعوت اور سیاسی سرگرمی کو الگ الگ کردیں

یہاں سے ہمارا دوسرا پوائنٹ شروع ہوتا ہے۔

اگر کچھ سربرآوردہ شخصیات  __  خصوصاً کچھ عظیم المرتبت مشائخ نیز کچھ راسخ العقیدہ دانشور  __   دعوت  کا عَلَم اٹھا کر میدان میں اتر آتے ہیں... علمی و روحانی وسماجی حوالوں سے یہ یہاں کے عمل پسند نوجوان کو ایک بھرپور چھتری فراہم کر دیتے ہیں، اور پھر دینی طبقوں کو مسلکی خول سے نکال کر زیادہ سے زیادہ اس سماجی دعوتی عمل کی پشت پر لانے کی کوششیں عمل میں آنے لگتی ہیں، نیز یہاں کے خواص اور عوام کو  اس کا مخاطَب کرنے کے کچھ مؤثر طریقے اور ذرائع اختیار کر لیے جاتے ہیں  (اور اِسی کو اِس وقت کے اسلامی تحریکی عمل کی سب سے بڑی ترجیح مان لیا جاتا ہے...

تو یہاں ہم تجویز دیں گے کہ دین سے داعیہ inspiration   پانے والے ہمارے سیاسی یا سماجی پروگرام ترکی و مصر کی طرح کسی خاص اسلامی لیبل کے بغیر بھی میدان میں اتر لیں۔

بوجوہ، اس وقت اِن دو میدانوں کو خلط کرنا ممکن نہیں۔ پچھلا کچھ عرصہ آپ کے سامنے ہو تو

o     دعوت کو یہاں کی لامتناہی سیاسی رکاوٹیں ہٹانے کےلیے دورِ حاضر کی فکری اھواء اور اصطلاحات کے ساتھ مسلسل ایک مفاہمت (ریکونسائل reconcile)   کرنا پڑا ہے؛ جو دعوت کی موت ہے۔

(دعوت میں آپ کی زندگی اور جاہلیت کی موت اِسی ایک چیز میں مضمر تھی کہ: جاہلیت کے ساتھ آپ ایک بنیادی اختلاف اٹھائیں اور اس کا آہنگ اونچے سے اونچا کر دیں۔ لیکن آپ کی سیاسی مجبوریاں اس اختلاف کو زیادہ سےزیادہ اٹھانے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان سیاسی مجبوریوں کو یکسر نظرانداز کرنا بوجوہ ممکن نہیں ہوتا)۔

o     دوسری جانب آپ کی سیاست  اپنے اعلانیہ مذہبی نعروں، وعدوں اور دعووں کے باعث جگہ جگہ  اپنے راستے تنگ کر لیتی ہے۔ یہ بات سیاست میں آپ کی ناکامی کا موجب بنتی چلی گئی ہے۔

نتیجتاً: دعوت آپ کی سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہی۔ اور سیاست آپ کی دعوت کے متاثرین victims    میں رہی ہے۔ یوں نہ دعوت میں آپ کےیہاں کوئی جان آ پائی اور نہ سیاست نے آپ کو کوئی پیش رفت کر کے دی۔ یہ اُس پر قربان کرائی جاتی رہی اور وہ اِس پر؛ نتیجتاً دونوں قربان؛ کوئی ایک بھی چیز ہاتھ میں نہیں۔

اِن دونوں کےلیے الگ الگ جمعیتوں کا میدان میں اترنا نہایت خوب تدبیر ہو گی۔

Üدعوت کا ٹھیٹ پن ]کہ اس میں اپنے دور کی فکری اھواء کے ساتھ ذرہ مفاہمت نہ کی گئی ہو اور اپنے فکری مدِمقابل (مغرب) کی کسی ایک بھی اصطلاح کو گھاس نہ ڈالی گئی ہو (کم از کم اپنے لوگوں کےلیے درآمدشدہ اصطلاحات کو دُوردُور تک حوالہ نہ بننے دیا گیا ہو)[ ایک طرف دعوت کا یہ ٹھیٹ پن برقرار رکھنا

Üاور دوسری جانب عمل اور پیش قدمی میں دستیاب مواقع کو بھرپور طور پر لینا

یہ دونوں باتیں اسی صورت ممکن ہیں کہ:

ü                        دعوت کو محض ایک سماجی بیس base   بنایا جائے۔ اور ہاں دعوت کو تمام سیاسی مجبوریوں سے پاک بھی رکھا جائے؛ تاکہ وہ ہیومن اسٹ شرک اور اس کی تمام مصنوعات کا کھل کر ابطال کرے اور وقت کے شرک کے خلاف ایک برہنہ مزاحمت معاشرے کے اندر برپا کر سکے۔ یہ دراصل معاشرے میں ایک وسیع تر اور دُوررَس گراؤنڈ تیار کرنا ہے۔  ’’دعوت‘‘ کو یہاں کی سیاسی مجبوریوں سے آزاد کرانا  یہاں کی نظریاتی و تہذیبی جنگ میں پورا اترنے کےلیے  نہایت ضروری ہے۔

ü                      تاہم سیاست میں (ترکی ومصری تجربے کی طرح) مذہبی دعوے اور نعرے کے ساتھ اترنے کی بجائے کسی ایسے چہرے face   کے ساتھ اتر لیا جائے جسے اپنے آگے بڑھنے کےلیے یہاں کم سے کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔[2] ہاں اِس آگے بڑھنے کے دوران جتنی جتنی زمین فی الواقع صاف ہوتی جائے، جتنی جتنی زمین اس قابل ہوتی جائے کہ وہاں شریعت کے تقاضے پورے کرنے کی واقعتاً کچھ سیاسی و سماجی گنجائش بن رہی ہو ]یعنی شریعت کے ان اجزاء کا قیام آپ کی اِس سیاسی پیش قدمی میں جہاں رکاوٹ نظر نہ آرہا ہو (استطاعت کا یہ ایک باقاعدہ معنیٰ ہے؛ جبکہ شریعت کے سب احکام عمل کے معاملہ میں استطاعت سے ہی مشروط ہیں)[... غرض جتنی جتنی زمین (ایک معروضی تجزیے کی روشنی میں) شریعت پر عملدرآمد کےلیے صاف ہوتی جائے اتنی اتنی زمین پر اللہ کی شریعت قائم کرنا فرض ہو گا۔ رہے وہ ایریاز areas   جہاں استطاعت مفقود ہے وہاں یہ شرعی قاعدہ ہی لاگو رہے گا: لَا يَكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إلَّا وُسْعَهَا خدا مکلف نہیں کرتا کسی نفس کو سوائے اسی قدر جو اس کی گنجائش ہے۔ یوں آپ یہاں ایک ایسی سیاسی جماعت کے طور پر آگے بڑھیں گے جو اسلام نافذ کرنے کے کوئی خاص نعرے تو نہیں لگاتی ]اسلام کے واحد قانونِ حق ہونے اور اسلام سے متصادم ہر قانون کے باطل اور موجبِ شرک ہونے کا مقدمہ دعوت کھل کھلا کر معاشرے میں (الگ سے) پیش کر جو رہی ہوگی؛ لہٰذا اِس (سیاسی جماعت) کے پاس اِس معاملہ میں ایک درجہ خاموشی اختیار کر رکھنے کی گنجائش ہے[.. سیاسی محور پر البتہ آپ ایک ایسی جماعت کے طور پر آگے بڑھ رہے ہوں گے جو (پہلے سے) اسلام نافذ کرنے کے کوئی بلندبانگ دعوے تو نہیں کرتی (نفاذِ اسلام کا کوئی لمبا چوڑا ذکر ہی  __ پہلے سے __  نہیں کرتی) اور نہ شاید کسی مخصوص مذہبی گیٹ اَپ کے ساتھ سیاست میں اترتی ہے (تاکہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ طبقوں کو ساتھ چلا سکے؛ کیونکہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ طبقوں کو ساتھ چلا پانا ہی فی الوقت یہاں قوت کے سوتوں کو ہاتھ میں کرنا ہے؛ اور قوت کو ہاتھ میں کیے بغیر چارہ نہیں)، البتہ جہاں جہاں اسے شرعِ خداوندی کے تقاضے پورے کرنے کا موقع (سسٹم کے اندر) ملتا جاتا ہے وہاں وہاں یہ شرعِ خداوندی کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کمی بھی نہیں کرتی۔ (ترکی کا حالیہ عمل کسی حد تک اس کی ایک مثال)۔ یوں یہ گَرجے بغیر جہاں جہاں برس سکتی ہے برستی چلی جاتی ہے۔

       غرض معاملے کی تصویر یوں بنی کہ:

ý    شریعت کا کیس نظریاتی وسماجی سطح پر دعوت لڑے گی، اس شدت کے ساتھ کہ آخر وہ پورے معاشرے کو شریعت پر ایمان یا شریعت سے اِعراض کی بنیاد پر بانٹ کر رکھ دے (جوکہ کوئی چند دن کے اندر انجام پا جانے والا عمل نہیں)، گو ہو گا یہ کام ایک دعوتی میدان میں (نہ کہ سیاسی میدان میں)۔ اور اس کے اپنے رجال ہوں گے۔

ý    جبکہ شریعت کا راستہ عملی میدان میں آپ کی (دین سے داعیہ inspiration پانے والی)سیاسی جماعتیں/شخصیات حسبِ استطاعت بنا رہی ہوں گی۔ نیز آپ کے وہ رجال اور فورَم جو مذہبی نعرے لگائے بغیر، یہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی پیشہ ورانہ اہلیت و دیانت سے کام لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے اور اوپر جانے کی کوشش کریں گے۔ ان سب کی پیش رفتیںacheivements   مل کر یہاں عمل کے میدان میں دین کےلیے راستہ بنائیں گی۔

رول roles   بانٹنے کی یہ گنجائش یقیناً شریعت میں ہے۔

    یہاں سے:

£      آپ کے عقیدے میں جو قوتِ تسخیر ہےاور جوکہ اپنے دور کے شرک کے ساتھ ایک کھلا ٹاکرا کر کے ہی اپنا پوٹینشل دکھاتی ہے... آپ کے عقیدے کی یہ قوتِ تسخیر بھی میدان میں آ گئی۔

£      اور  آپ کے آگے بڑھنے کے راستے بھی کھلے رہے، جوکہ پہلے سے مذہبی نعرے لگانے کی صورت میں بڑی حد تک آپ پر بند ہو جاتے ہیں۔ نیز آپ کے وقتی مصالح بھی معطل نہ ہوئے۔

       یہ مجوزہ تقسیمِ کار اِس فقہی بنیاد پر ہے کہ دعوت (اپنی تمام تر اہمیت کے على الرغم)  ہے ایک فرضِ کفایہ۔ جبکہ سیاسی یا معاشی یا انتظامی شعبوں میں مسلمانوں کو ایک ممکنہ پیش رفت کر کے دینا بھی ایک فرضِ کفایہ۔  (فرضِ کفایہ: یعنی مسلمانوں کی ایک تعداد وہ کام انجام دے لے تو باقیوں کی جانب سے وہ ادا متصور ہو گا۔ ہاں اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو وہ سب کا بوجھ ہو گا)۔  اسلام میں فروضِ کفایہ کا تصور صلاحیتوں اور مواقع کے تنوع کو کام میں لانے کی ایک بہترین و خوبصورت ترین بنیاد فراہم کرتا ہے۔

پیش رفت کےلیے: سیاست  واحد میدان نہیں ’’شعبہ ہائے حیات میں جڑیں بنانے‘‘ کا عمل فی الوقت اس سے بھی اہم تر ہے

اسلام کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ نفوذ اور تاثیر دلوانے کےلیے سیاست فی الوقت کوئی واحد میدان نہیں۔ یوں بھی اگر کسی کا خیال مکمل باگ ڈور حاصل کرنے کا ہے (یعنی انقلاب) تو وہ تو حالیہ سیاست میں بھی ایک غیرمعینہ مدت تک آپ کے ہاتھ آنے کا نہیں۔ فرض کیا آپ ایک اچھی سیاسی کارکردگی دکھا لیتے ہیں (جوکہ آسان نہیں)، حتیٰ کہ کسی وقت اقتدار تک جا پہنچتے ہیں، تو بھی مکمل باگ ڈور والی بات اِس تمام کوچے میں نہیں، جیساکہ آپ جانتے ہیں۔ یہ وجہ ہے، بہت سے ملکوں میں سیاسی میدان میں اترنے والی دینی جماعتیں انقلاب کی بجائے اصلاح بقدر استطاعت والی اپروچ ہی اختیار کر چکی ہیں، جس سے کچھ پیش رفت بھی وہاں پر ممکن ہوئی ہے۔ اب اگر آپ کے یہاں انقلاب کی بجائے اصلاح بقدرِ استطاعت اپروچ اختیار کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے، (جس کے سوا چارہ ہی نہیں۔ خود شریعت کا اقتضاء یہی ہے، جیسا کہ ہم ایک علیحدہ مضمون میں واضح کر چکے)...  تو جاننا چاہئے کہ اصلاح بقدرِ استطاعت کا واحد ذریعہ یہاں سیاسی جدوجہد نہیں ہے۔ سیاسی جدوجہد ضرور کیجئے، مگر باقی میدانوں کو نظرانداز مت کیجئے، خصوصاً اگر سیاسی میدان میں کوئی بہت اچھی پیش رفت فی الحال ہو کر بھی نہیں دے رہی، اور خصوصاً جبکہ وہ (دوسرے میدان) سیاست سے بھی بڑھ کر اہم ہوں، پھر خاص طور پر اگر خود آپ کی سیاست ہی اِس بات پر انحصار کر رہی ہو کہ پہلے اُن دوسرے میدانوں میں آپ نے ایک اچھی کارکردگی کر لی ہو۔

دین پر گہرا ایمان رکھنے والوں کا زندگی کے اہم اہم شعبوں میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنا؛ یہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا؛ اور اِس طریقے سے معاشرے پر اثرانداز ہونے کی پوزیشنوں تک پہنچنا بسااوقات سیاسی جدوجہد سے بھی زیادہ ثمربار ثابت ہوتا ہے۔

ہمیں یاد ہے، مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی نے صرف تعلیم کے شعبے کو ہاتھ ڈالا تھا اور یہاں ایک غیرمعمولی بھرتی کر کے دماغوں کو اپنے ہاتھ میں کر لینے کا حیرت انگیز کارنامہ کر دکھایا تھا۔ یہاں تک کہ اتھارٹیز مکتی باہنی کے کام کے نتائج دیکھتی اور بےبسی سے ہاتھ ملتی رہ گئیں، اور وہ اپنا مقصد حاصل کر کے چلتی بنی۔ ظاہر ہے وہ ایک تخریب کار تحریک تھی۔ کیا ہم تعمیری کام کےلیے (معاشرے کو اسلام کی پٹڑی پر چڑھانے کےلیے) ان شعبوں کے اندر نہیں اتر سکتے؟  تعلیم صرف ایک شعبہ ہے، جسے ہم نے بطورِ مثال ذکر کیا۔ اور بےشمار شعبے ہیں جو صالحین کے منتظر ہیں۔ اس وقت حال یہ ہے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ کو صحیح معنوں میں متاثر  کرنے والے پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس  اساتذہ، جو دین کی روشنی بھی رکھتے ہوں، کم ہی کہیں پائے جاتے ہیں۔ آخر کس نے روکا ہے  کہ ہم یہاں ایسے اساتذہ کی ایک بھاری کھیپ مہیا نہ کر دیں اور دماغوں تک اپنا راستہ نہ بنا لیں؛ جس سے تھوڑی دیر میں پورا معاشرہ روشن ہو جائے؟ تعلیم کے علاوہ بےشمار شعبے ہیں جن میں صالحین کا اوپر کی پوزیشنوں تک جا پہنچنا اچھی خاصی معاشرے کی کایا پلٹ سکتا ہے۔

ہمارے علم کے مطابق ترکی میں اِس (شعبہ جاتی) میدان کے اندر اسلامی پیش رفت بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔ بڑھتے بڑھتے یہی عمل آخر سیاسی پیش رفت میں بھی اپنے ثمرات دکھانے لگا۔ اِس لحاظ سے یہ سب پراجیکٹ ایک دوسرے کے متبادل نہیں بلکہ ایک دوسرے کو مکمل کرنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے والے ہیں۔

[یہ چیز (یعنی شعبہ ہائے حیات میں اپنی جڑیں گہری کرنا اور اوپر کی پوزیشنوں تک پہنچنا) ہمارا دینی سیکٹر اِس میں کس قدر پیچھے ہے، اور صورتحال ہماری پستی اور لتھارجی کا کیسا برا رونا رو رہی ہے، اس کا کچھ بیان  ہمارے ایک اداریہ فاعلیت کا فقدان (ایقاظ جولائی 2015) میں ہوا ہے؛ یہاں ہم اس کی مزید تفصیل میں نہیں جائیں گے]۔

یہاں ایک بات ہم ذکر کرنا چاہیں گے۔ براہِ کرم اسے خصوصی طور پر نوٹ فرمایا جائے: گو باقی میدان بھی اپنی کامیابی کےلیے ’’دعوت‘‘ کے مرکزی عمل پر غیرمعمولی انحصار کریں گے مگر یہ (شعبہ ہائے حیات میں اپنی جڑیں گہری کرنا) وہ خاص میدان ہے  جو کلیتاً یہاں دعوت کے سرگرم ہونے پر انحصار کرے گا۔ کسی کا اگر خیال ہو کہ یہ تنظیمی اسٹائل میں کرنے کا ایک کام ہے تو وہ بہت بڑی غلط فہمی میں ہے۔  کم از کم یہ وہ میدان نہیں جس میں آپ تنظیمی سیٹ اپ کے ساتھ آگے بڑھ لیں گے۔ تنظیمی فارمیٹ کے ساتھ، بوجوہ آپ یہاں ناکام ہوں گے۔ یونینز unions   وغیرہ کا تجربہ کئی شعبوں میں شاید آپ کر ہی چکے۔ ہم اِسے جس طرح دیکھتے ہیں، یہ خالصتاً ایک نامیاتی organic   عمل ہے۔ اسے آپ کو صرف بیج اور پانی دینا ہے اور اس کا باقی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی۔ ظاہر ہے یہ ایک دعوتی اپروچ کو میدان میں لانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

’’دعوت‘‘ کو سامنے لانے کا طریقہ یہ ہو گا کہ :

ý                  وقت کی جاہلیت کے ساتھ ایک بنیادی ’’اختلاف‘‘ سامنے لایا جائے۔ (اس کےلیے الگ سے آپ کو ایک ڈسکورس discourse   لے کر آنا ہو گا)۔ اسی ’’اختلاف‘‘ کو زیادہ سے زیادہ اٹھایا جائے۔ (تبلیغی جماعت کی مساعی کو بےشک ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہاں پر مطلوب ’’دعوت‘‘ میں اس کو شمار نہیں کرتے۔ اس لیے کہ اس میں اپنے زمانے کے شرک کے ساتھ معارضت conflict with the shirk of your times   تقریباً مفقود ہے)۔ اپنے زمانے کی جاہلیت کے تعلق reference   سے ہی پھر آپ یہاں دینِ حق کا بیان کریں گے اور اسی کو ’’ایمان‘‘ کی بنیاد ٹھہرائیں گے۔ اس سارے عمل کا عنوان ’’خدا‘‘ اور ’’آخرت‘‘ ہو گا۔ اور اس کا فریم ’’رسالت‘‘۔[3] (رسولؐ کا ہمارے اِس معاشرے، اِن گلیوں، اِن محلوں اور اِن بستیوں میں جو ایک رول role  اور سٹیٹس status   خدا کی جانب سے مقرر ہے،اس کو ’’ایمان‘‘ کی بنیاد بنانا ہو گا)۔ ’’دعوت‘‘ کا کُل موضوع یہاں ’’ایمان‘‘ ہی ہو گا اور ’’ایمان‘‘ کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ اِس بنیاد پر معاشرے میں ایک ’’کردار رکھنے‘‘ کو  ایمان باللہ اور اخروی جوابدہی کا مسئلہ بنایا جائے گا۔ اور ’’ایمان‘‘ کی یہ یاددہانی ہی صبح شام تذکیر کا موضوع۔

ý                     مسجدوں اور محرابوں کو ’’ایمان و کفر‘‘ کے اِس نزاع کی پشت پر لانا ہوگا۔  یہاں کوئی خطبہ، کوئی جمعہ، کوئی درس اور کوئی بیان ایسا نہ ہونا چاہئے جس میں ’’ایمان‘‘ کا وہ تقاضا بیان ہونے سے رہ جائے جس کا نام ’’فرد کا معاشرتی کردار‘‘ ہے۔ خصوصاً

ý       فرد کا معاشرتی کردار اُس جاہلیت کے مقابلے پر جو اس کے نبیؐ اور اس کے دین کے ساتھ ایک بنیادی و محوری نزاع رکھتی ہے۔ اِس نزاع کے اندر اِس کو اپنے نبی کے ساتھ کھڑا ہونا اور اُس کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کر کے اُس کی شفاعت کا استحقاق پانا ہے۔ یہاں سے؛ ہر ہر فرد کو ’’اسلام کے ماسوا‘‘ سے بیزار کرانا دعوت کا ایک مرکزی موضوع ہو گا۔

ý       نیز فرد کا معاشرتی کردار اُس حق کو لے کر کھڑا ہونے میں جس کے ساتھ اس کا نبیؐ دنیا میں مبعوث ہوا ہے.. اپنے گھر میں، اپنے دفتر میں، اپنے شعبے میں، اپنے حلقۂ اثر میں، اور اپنے اِس جہان میں، وغیرہ۔ اپنی اِن سب حیثیتوں میں (اور ان میں سے ایک ایک دائرے کے اندر) اس نے دینِ محمدؐ کے حق میں کس قدر گواہی دی اور اس کو کیونکر نصرت اور تقویت دی؟[4]  اِس سوال کو ’’فرد‘‘ کے تصور ہی کا حصہ بنا دینا دعوت کا ایک محوری موضوع ہو گا۔

ý       اِسی بات کو ہم ’’اسلامِ مجمل‘‘ سے وابستگی بھی کہتے ہیں۔ دعوت میں اِس وقت یہیں تک رہنا ضروری ہے۔

دعوت کے اندر فی الوقت ’’اسلامِ مجمل‘‘ سے آگے بڑھنا، یعنی

1)    ان موضوعات میں جا اترنا جن کے اندر اہل سنت طبقوں کا کچھ اختلاف ہوا ہے،

2)    یا اصطلاحات و تعبیرات کی کسی ایسی صورت میں الجھنا جہاں اہل سنت طبقے تعبیر کا ایک تنوع رکھتے ہیں جبکہ مفہوم میں سب ایک بات پر متفق و یکجہت ہیں،

3)    یا ایسے دقیق مسائل چھیڑ لینا جو اسلام کے بنیادی مسائل میں نہیں آتے، اگرچہ وہ اسلام ہی کے مسائل کیوں نہ ہوں۔ یا کچھ ایسے اعمال کی صدا لگانا جو اسلام کے بنیادی فرائض میں نہیں آتے، اگرچہ وہ اسلام ہی کے اعمال کیوں نہ ہوں)..

       ’’اسلامِ مجمل‘‘ سے آگے بڑھنا دعوت کے اندر کبھی بھی درست نہیں، مگر اندریں حالات تو یہ مہلک ہو گا۔ (’’اسلامِ مجمل‘‘ سے آگے کی جتنی بات ہو گی وہ ’’تعلیم‘‘ میں ہو گی نہ کہ ’’دعوت‘‘ میں؛ ہاں تعلیم مختلف لوگوں کےلیے مختلف سطحوں کی ہو گی مگر دعوت عام ہوگی اور نہایت سادہ وغیرپیچیدہ رکھی جائے گی)۔ یہ بات اسلامی تحریک کی قوت کا ایک بڑا راز ہے؛ اگر اس کو سمجھ لیا جائے۔ اِسی بات کو ہمارے شیخ سفر الحوالی اور صلاح الصاوی یوں بیان کرتے ہیں:  معاشرے کے ایک عام آدمی کو اِس وقت آمادہ کیا جائے گا صرف

1)         ’’ماسوائےاسلام‘‘ سے ایک مجمل براءت کردینے پر۔ خواہ اُس ’’ماسوائےاسلام‘‘ کی تفصیلات میں وہ بہت جگہوں پر غلط ہی کیوں نہ ہو۔ کم از کم بھی یہ ہوگا کہ وہ چیز جو اس کے علم میں ’’ماسوائےاسلام‘‘ (یعنی اسلام سے متصادم) ہے وہ اس سے بری و بیزار ہونے میں ایک نہایت دوٹوک زوردار لہجہ دکھائے۔ یہ بھی اس کےلیے بہت ہے۔ اس سے بھی؛ اسلامی سیکٹر کو معاشرے میں جو قوت ملتی ہے وہ اندازے سے باہر ہے؛ اور فی الوقت غنیمت۔

2)         اور ’’اسلام‘‘ سے ایک مجمل وابستگی رکھنے پر۔ خواہ اس کی تفصیلات میں وہ کئی جگہوں پر غلط ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جو چیز اسے معلوم ہے کہ یہ اسلام ہے، اس کےلیے تمسک، جذبہ اور غیرت رکھنے میں وہ ایک شدیدترین لہجہ لے کر آئے۔  یہ بھی فی الوقت اس کےلیے بہت ہے۔ اس سے بھی؛ اسلامی سیکٹر کو معاشرے میں جو قوت ملتی ہے وہ اندازے سے باہر ہے؛ اور فی الوقت غنیمت۔

       [ہاں ایک الگ محور پر، معاشرے کے اندر جاری کرایا جانے والا ’’تعلیمی عمل‘‘ اس ’’ماسوائےاسلام‘‘ کی بھی توضیح کرتا چلا جائے گا  اور ’’اسلام‘‘ کی تفصیلات بھی لوگوں کے ذہن نشین کراتا جائے گا۔ (تعلیمی عمل ہر فرد کےلیے اس کی سطح کے مطابق)۔ لیکن وہ ایک لانگ ٹرم پروگرام ہے۔ اس کے سرے لگنے کی جلدی نہ کی جائے گی۔ نیز اس کے فی الحال سرے نہ لگ پانے کا اعتبار بھی کیا جائے گا اور معاشرے کے عام آدمی کو اس کا فائدہ اور چھوٹ بھی دی جائے گی؛ اور اس پر صبر و حوصلہ سے بھی کام لیا جائے گا]۔

    دعوت میں ’’اسلامِ مجمل‘‘ کو بنیاد بنانا شاید ہم الگ سے بھی کسی مضمون میں واضح کر سکیں۔

     گویا ’’ماسوائےاسلام سے شدیدترین بیزاری‘‘ اور ’’اسلام سے شدید درجے کی وابستگی‘‘ ایک فریم کے طور پر آپ کو دعوت تیار کر کے دے گی (عوامی سطح پر)؛ اور اس پر تو پورا زور صرف کر دیا جائے گا۔ البتہ اِس فریم کی بھرتی (کہ ’’ماسوائے اسلام‘‘ مفصل طور پر ہے کیا اور ’’اسلام‘‘ یعنی خدا کی اطاعت مفصل طور پر ہے کیا) آپ کا تعلیمی عمل کرے گا [جس کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہی عوامی سطح پر فی الحال انجام دیا جائے گا؛ البتہ اس کا ایک بڑا حصہ مقتدر طبقوں کو اپنا طرفدار بنانے کے بعد ہی انجام پا سکے گا، اس سے پہلے نہ یہ ممکن ہے (خواہ آپ جو مرضی کر لیں) اور نہ اس کےلیے فی الحال پریشان ہونا ضروری]۔ فی الحال پریشان ہوں تو

‌أ.            صرف دعوت کےلیے (جس کا دائرہ، امید ہے، اب واضح ہو گیا ہو گا کہ وہ کوئی ایسا ناقابلِ تحصیل unacheivable نہیں)۔

‌ب.         نیز ضروری ضروری تعلیم کےلیے۔

     بس اِسی چیز سے آپ کو ان شاءاللہ وہ ’’سماجی مومنٹم‘‘ مل جائے گا جو یہاں کے ایک ہزار مسئلے کا حل ہے؛ ’’سیاست‘‘ کے اندر بھی اور ’’شعبہ ہائےحیات‘‘ کے اندر بھی۔ آپ کی کشتیاں یہاں ایک بار اوپر اٹھ گئیں تو پھر دیکھئے راستے آپ کے سامنے قطار اندر قطار کیسے آتے ہیں۔ ان شاءاللہ وبفضلہٖ تعالیٰ۔ البتہ پانیوں کی سطح اوپر لائے بغیر راستوں کی لکیریں کھینچنا اور منہج کے زائچے بنا بنا دینا ایک غیرنتیجہ خیز کام ہے اور ایک درجہ میں مایوس کن۔

ý                     ترتیب اِس عمل کی یہ ہو گی کہ:

ý       معاشرے کی کچھ بھاری بھرکم شخصیات (علماء، مشائخ، دانشور، سیاستدان، بیوروکریٹ، سماجی اثرورسوخ کی مالک شخصیات جو صاف ستھرے کردار کی مالک ہوں)  اپنے پورے ایک کیس case   کے ساتھ میدان میں آئیں گی۔  (کوئی ایک سربرآوردہ شخصیت ہو تو بھی کافی ہے)۔ اس کا کیس بہت سادہ ہو گا۔ اسلامِ مجمل:

1)    ماسوائے اسلام سے صاف بیزاری۔ ماسوائےاسلام کا وہ موٹاموٹا بیان جو یہاں کی اکثریت اپنے حق میں متعلقہ relevant and substantial   جانے۔ اپنے زمانے کے شرک پر فوکس ۔ بچےبچے کو اس سے بیزار کروا دینے کی ایک دلنشیں دعوت۔ اِس (ماسوائےاسلام سے بیزاری) کو ہی نبیؐ سے وابستگی کا عنوان بنا کر رکھنا۔

2)    اسلام کے مطلق حق ہونے (اور دنیا میں واحد حق ہونے) کی شہادت۔ ساتھ میں اسلام کے کچھ بنیادی مطالب اور اساسی فرائض کا ایک سادہ و آسان بیان۔ اسلام کو واحد حق جانتے ہوئے؛ اس سے بطورِ عقیدہ، بطورِ شریعت و دستور اور بطورِ تہذیب وبطورِ سماج  وابستہ ہو رہنے کی دعوت۔ اس کے کچھ موٹے موٹے تقاضے سامنے لانا۔ اور اسی کو نجات کا موضوع بنا کر رکھنا۔

3)    یہاں ایک ایک فرد کو دین پر قائم ایک معاشرتی کردار ادا کرنے پر کھڑا کرنا۔ نصرتِ دین کے اِس فریضہ کی صبح شام آوازیں۔ [اِس (دین پر قائم ایک معاشرتی کردار) کی عملی صورت گو ہر شخص اپنے حق میں اہل علم سے جُڑ کر معلوم کرے گا]۔

4)    مکارم کی منادی۔ اعلیٰ رویّوں کا احیاء مانند: صلہ رحمی، خاندان اور رشتوں کی حرمت، بھوکوں کو کھلانا، ننگوں کو پہنانا، مظلوم کی فریادرسی، ظالم کو ٹوکنا، ظلم و سماجی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا، محروموں کی دادگیری بلاتفریق رنگ و مذہب۔ گلی گلی، محلہ محلہ، شہر شہر۔ غرض مسلمان کو مکارم کا باقاعدہ عَلَم اٹھوانا۔ اس بات کو فلسفوں کی بجائے ’’روزمرہ اعمال ومعمولات‘‘ کا حصہ بنانا اور مساجد کو اس عمل کے باقاعدہ محاذ بنا دینا۔

5)    مسلم وحدت (جماعۃ المسلمین/ اجتماعِ کلمہ/ شیرازہ بندی)، الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ کا خصوصی بیان۔ فقہ الجماعۃ کا اِحیاء۔ رنگوں، نسلوں، قبیلوں، مسلکوں، تنظیموں، پارٹیوں اور قومیتوں کا اپنی اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود، اپنے ایک صحیح سیاق perspective  میں لایا اور ایک بڑی وحدت (جماعتِ اسلام) کے اندر پرویا جانا اور ان تمام جہتوں سے فرقہ واریت کے خاتمہ کو عقیدہ کا مسئلہ بنانا۔

6)   برسراقتدار طبقوں کے ساتھ صبر صبر اور صبر، قطع نظر اس سے کہ فی الوقت وہ کس نظام پر ہیں۔ نہایت دلنشیں پیرائے اختیار کر کے ان کو اسلام پر کھڑا کرنے، ان میں اسلام کے مددگار تلاش کرنے اور ان کے اندر دینِ محمدؐ سے وفا کی جوت جگانے کی ایسی حوصلہ مند تحریک اٹھانا جو اِس باب میں کبھی ہمت نہ ہارے۔ باہر کے کافر اور اندر کے ففتھ کالمسٹ کے مقابلے پر جہاں اور جس صورت ممکن ہو ان کے ساتھ کھڑے ہونا۔ اور اگر ان کی جانب سے آپ پر زیادتی ہو تو صبر۔ قومی مفاد کو امانت کے طور پر لوگوں کے ذہن نشین کروانا۔

ý       ان کے کیس کا ایک بڑا حصہ: اپنے دور کی جاہلیت کا اِبطال۔ معاصر جاہلیت کے کچھ مرکزی مضامین اور کچھ موٹےموٹے مظاہر کی نشاندہی۔ اور ان کو مٹا ڈالنے کی ایک غیرمبہم دعوت۔ خصوصاً شرک کا رد۔ اور اس کے خلاف ایک معاشرتی محاذ اٹھانے کی تلقین۔ نیز ایمان کے کچھ نمایاں مطالب اور فرائض کا ایک موٹا اور سادہ  بیان۔ کفر اور نفاق کے مقابلے پر ایمانی بلاک کی تشکیل؛ عالمی سطح پر بھی، علاقائی سطح پر بھی، ملکی سطح پر بھی، اور ضرورت پڑے تو شہر و محلے کی سطح پر بھی۔ یہ کیس بھی بڑا ہے۔ اکثر مقامات پر اس کا کوئی ایک آدھ نکتہ بھی کفایت کرے گا، جس کا انتخاب موقع مناسبت کی رعایت سے ہو گا۔

ý       ملکی سطح پر دعوت کا بیڑا اٹھانے والی یہ شخصیات

1)      ملک کی تمام سربرآوردہ شخصیات کو فرداًفرداً اپنی دعوت پہنچائیں گی۔ ایک ایک سربرآوردہ شخصیت کے پاس بیس بیس بار جائیں گی۔ اور ان کے آگے اپنے کیس کا اعادہ کرتے چلے جانے سے ہرگز بوریت محسوس نہ کریں گی۔

2)     معاشرے سے ایک زوردار عمومی خطاب سامنے لائیں گی اور اس کا آہنگ برابر اونچا کرتی چلی جائیں گی۔

3)      اسلام سے متصادم نظریات کی داعی شخصیات کو دلیل کے میدان میں کھلا چیلنج دیں اور ہر ہر جگہ ان کا سامنا کریں گی۔  دلیل و بیان کی قوت سے ان کا راستہ آخری درجے تک تنگ کر ڈالیں گی۔ حجت اور برہان کا پورا ایک معرکہ اسلام کو جیت کر دیں گی۔ یہاں کے پڑھے لکھے ذہنوں پر دین کی دھاک بٹھانے کےلیے باقاعدہ ایک ڈسکورس سامنے لائیں گی (جسے ہمارے بعض اصحاب ماڈرن علم الکلام بھی کہتے ہیں؛ اور جوکہ فی الحال یہاں کے پڑھےلکھوں کو کسی باقاعدہ انداز میں دستیاب نہیں ہے)۔ پھر اس کو لوگوں کے ذہن نشین کرانے کےلیے طویل اور مختصر دورانیوں کے کورسز آفر کریں گی۔ ہر شہر میں اس کا تانتا باندھ دیا جائے گا۔ ہر مسجد ’’اپنے زمانے کی جاہلیت کے رَدّ‘‘ پر کورسز آفر کر رہی ہو گی۔ یہ شخصیات مادرہائے علمی کے اندر جا اتریں گی اور وہاں ایک صحتمند مباحثے debate   کی طرح ڈالیں گی؛ جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی لوگوں کے سامنے آتا چلا جائے۔ شہر شہر تعلیم یافتہ عقول پر اپنے کیس کی حقانیت عیاں کرنے کے وسیع و عریض بندوبست کریں گی اور اپنے مخالف کا فکری اِفلاس اور تہذیبی دیوالیہ اس طرح طشت از بام کریں گی کہ لوگ خود دیکھیں یہ نرا کوئی دعویٰ یا بڑھک نہیں بلکہ سامنے کی ایک حقیقت ہے۔ غرض ایک نظریاتی یلغار جس کے مدمقابل کوئی نظریہ کھڑا نظر نہ آتا ہو۔ دھونس کرے تو فریقِ مخالف؛ یہ البتہ دلیل اور حجت سے سرِ مُو تجاوز نہ کرے۔

4)      عوامی داعیوں کی بڑی بڑی کھیپیں نکالیں گی (بھاری محنت کا کام)۔ جو ایک ایک گلی  ایک ایک محلے تک پہنچیں۔ ایک ایک کلاس روم میں بولیں۔ ہر ہر فورَم پر پہنچیں۔ دوردراز علاقوں تک جا ڈیرے لگائیں۔ ہر اہم مقام، ہر اہم موقع پر، نیز ادب، تخلیق اور پروڈکشن کے ہر ہر رنگ ہر ہر اسلوب میں قوم انہیں اپنے سے مخاطب پائے اور یہ مسلسل لوگوں پر خدا کی حجت قائم کریں۔ چند سال یوں گزریں جیسے کسان بیج کی جھولی اٹھائے کھیت میں چھَٹہ دیتا چلا جاتا ہے۔ اس کے سوا کسی بات کی جلدی نہ کریں۔

5)      ان سے وابستہ ہوتے چلے جانے والے لوگ قوم کی نظریاتی وسماجی کایاپلٹ کا یہ پروگرام لےکر ون ٹو ون اپروچ مشن پر نکل کھڑے ہوں۔ یہاں کے ایک ایک پروفیسر، ایک ایک خطیب، ایک ایک صحافی، ایک ایک ادیب، ذہن سازی opinion making   کے مقام پر فائز ایک ایک شخص کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اسے قوم کو اسلام کی شاہراہ پر لے آنے کے اِس مشن میں شامل ہوجانے پر آمادہ کریں گے۔ چونکہ یہ عمل معاشرے میں دینداروں کا ایک ’’کیس‘‘ ثابت کرنے اور لوگوں کو محض اُس ’’کیس‘‘ کا ہمنوا بنانے سے عبارت ہو گا نہ کہ کسی تنظیم کی اطاعت میں آنے کی دعوت، لہٰذا اِس میں پس و پیش کرنا وہ اپنے نفوس میں نسبتاً مشکل پائیں گے۔ یعنی ایک چیز آپ کےلیے مانگنا کہیں آسان اور ان کےلیے اس سے مُکرنا کہیں مشکل۔

6)      خطباء کی ایک تھوڑی تعداد بھی اگر اصلاحِ احوال کے اِس پروگرام کا حصہ بننے پر آمادہ ہو جائے (درمندانِ قوم کو ایک ایک خطیب کے دروازے پر جا کھڑا ہونا ہو گا اور قوم کی بپتا کہہ کر اُسے اصلاح کا عَلَم اٹھانے پر باربار آمادہ کرنا ہو گا)[5].. تو مسجدیں یہاں جاہلیت کا ابطال کرتی نظر آئیں گی، معاصر شرک کے رد، اسلام کے بنیادی مطالب کی تلقین اور اسلام کے بنیادی فرائض  کی تعلیم کا گڑھ بنیں گی۔ ذہن سازی کے دیگر میدانوں کے رجال بھی ایک تعداد میں اگر اصلاح کا یہ علم اٹھا لیتے ہیں تو یہاں کی مادرہائےعلمی سے لے کر ثقافتی مراکز تک  ’’دین‘‘ اور ’’بےدینی‘‘ کا ڈائلیکٹ خودبخود سامنے  آنے لگے گا۔ مخالفت ملنے کا مطلب یہ ہو گا کہ کامیابی کا آغاز ہو چکا؛ اب ایک طویل عرصے تک اس عمل کی شدت میں ہی اضافہ کرنا ہو گا۔

7)   دعوت کی ایک زوردار اشاعت کے نتیجے میں جو جو طبقے اسلام کی صدا پر لبیک کہنے والے سامنے آتے جائیں، ان کو ’’تعلیم‘‘ کے ایک مختصر پراسیس سے گزارنے کا بندوبست سامنے لانا ہوگا؛ جس کا اصل مرکز مساجد ہوں۔ ساتھ میں ایمانی ماحول کی فراہمی جو ’’تعلیم‘‘ کو خودبخود ’’تربیت‘‘ میں ڈھالتی اور ’’نظریے‘‘ کو خودبخود ’’روحانیت‘‘ دھارتی جائے۔ یہاں خیال رکھنا ہوگا، ’’اعمالِ دین‘‘ کا پیکیج ہرگز بھاری نہ ہونے پائے اور چیزیں حد درجہ آسان رکھی جائیں۔ حُلیوں پر محنت کرانے کا یہ وقت نہیں۔ فضائل تو کیا، فرائض میں بھی صرف اسلام کے بنیادی فرائض ہوں گے جن پر معاشرے کے ایک عام فرد کو پختہ کرایا جائے گا۔ اور بس۔ بڑےبڑے محرّمات (كَبَائِرَ‌ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ) سے اجتناب، اور بس۔ پیکیج کو سادہ اور مختصر رکھنا ایک عوامی رَو اٹھانے کے باب میں کامیابی کی کلید سمجھا جائے گا۔[6]

8)    ’’تعلیم‘‘ مختصر مگر ’’صحبت‘‘ نااختتام پزیر۔ جس کا مرکز خدا کے گھر ہوں۔ یہاں سے؛ ’’ماڈل مسجد‘‘ کا ایک تصور سامنے لانا ضروری ہو جاتا ہے۔  ’’دعوت‘‘ کی کامیابی بہت بڑی حد تک اسی کے اندر پنہاں ہو گی۔  ’’مسجد‘‘ جو روزمرہ عبادات ہی کو روحانی وسماجی توانائی کے اندر ڈھال دینے کی مہارت سامنے لائے۔ ’’عبادت‘‘ جو خودبخود یہاں ایک معاشرتی کردار میں ڈھلتی اور سماج کو جنت بناتی چلی جائے۔ ’’مُصلِّین‘‘ کے جمگھٹے جو کسی اضافی ٹانکے کے بغیر (آپ سے آپ) ’’طعام المسکین‘‘ کے ادارے ہوں اور جن کے اردگرد کئی کئی کلومیٹر تک بھوک یا ننگ یا گند نہ پھٹک سکتا ہو [کجا یہ کہ ایک پرائم ٹائم پر  (نمازِ جمعہ کا سلام پھرتے ہی) بیسیوں کراہتی آوازیں سائلوں کی دل چیر دینے والی اٹھیں اور مسجد انتظامیہ کی طرف سے انہیں موقع پر تنبیہ فرمانے والے ذمہ دار تعینات ہوں کہ شاباش باہر جا کر مانگو! (مانگتے ضرور رہو!) مساجد پر یہ وقت بھی آنا تھا! نمازیوں سے کھچاکھچ بھرے اس مجمعے کی بلا سے، ان دلدوز چیخوں میں کونسی آواز کسی حقیقی ضرورتمند کی ہے اور کون نرا پیشہ ور گداگر جو حقیقی ضرورتمندوں کا حق مارنے اور مسلم معاشرے میں بھیک ایسی لعنت کو فروغ دینے کے باعث درحقیقت لائقِ تادیب ہے نہ کہ قابلِ مدد۔ یہ لااُبالی ان صدقہ گزاروں کے چہرے پر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں جو باہر مانگنے والے مردوں اور عورتوں کے ہاتھ پر کچھ روپے دھرتے ہوئے رخصت ہو جائیں گے! (نمازیوں کو کوئی ایسی معلومات دستیاب کرانا کہ ان کے اس پورے علاقے میں حقیقی ضرورتمند کون اور کہاں کہاں واقع ہیں اور ان کو باعزت زندگی کی پٹڑی پر چڑھا لانے کی کیا کیا اسکیمیں قابلِ عمل ہیں، یہ مسجد انتظامیہ کے دائرۂ کار میں نہیں آتا! نہ نمازیوں کو یہ جان رکھنے سے سروکار!  نہ یہاں امامت کرانے والے کا دردِ سر!)]

وہ مسجدیں جہاں صبح شام سورۃ الماعون کی تلاوت ہوتی ہے (زیادہ تر اس لیے کہ یہ ایک چھوٹی سورت ہے اور جلد پڑھی جاتی ہے!) آخر کیا مانع ہے کہ یہ مسجدیں  اپنی اس پنجوقتہ گہماگہمی کو کسی سنسان این جی او سے بڑھ کر یہاں کے فقراء و مساکین کےلیے کارآمد نہ بنا دیں؟ کیوں وہ انجیل بردار این جی اوز سات سمندر پار سے آکر یہاں قدم قدم پر سوشل سروس کے تھڑے لگا لیتی ہیں؟ یہ اتنا بڑا خلا ان کےلیے آخر چھوڑا کس نے ہے؟ ذرا نام ہی پر غور فرمائیں: non-governmental organizations! یعنی کسی ریاستی انتظام کے بغیر چلنے والی انجمنیں! جو سات سمندر پار سے ہماری مدد کو آ پہنچیں۔ ادھر ہمارا رونا یہ کہ ریاست اور انقلاب کے بغیر  ہم کریں تو کریں کیا! (اپنے محلے کا سہارا بھی بغیر انقلاب اور خلافت کے کیونکر بنیں!)

این جی اوز کو بےحدوحساب کوسنے دیتے وقت کیا ہم نے ’’مسجد‘‘ کو دستیاب پوٹینشل کی اُس فراوانی پر بھی کبھی غور کیا جو ہمارے خلاف شاید ایک حجت بننے والی ہے؟ کتنی مہنگی پڑتی ہے ہمیں وہ روٹی جو این جی او سے آپ کی اِس بیٹی کو میسر آتی ہے۔ کتنی تلخ ہے وہ مسکراہٹ جو اِس چہرے پر اُس کے احسان سے آتی ہے۔ وہ اِس کے آنسو پونچھتی ہے تو اِس کے سر کی چادر ہی نہیں تن کا لباس تک عنقا ہونے لگتا ہے۔ یہی روٹی اسے ’’الماعون‘‘ کی خوش الحان تلاوت والوں سے آخر کیوں میسر نہیں آسکتی؟ تاکہ اِس غریب کا پیٹ بھرے تو دین و آبرو بھی بچے۔ آخر کچھ initiative   ہی تو لینے ہیں آپ کو۔ وہ این جی اوز بھی تو ہمارے ہی وسائل کو گردش میں لاتی ہیں۔ صرف سوچ اور اقدام اُن کا ہوتا ہے باقی تو سب کچھ ہمارا اور یہیں کا ہوتا ہے۔ اِن دو باتوں کی ہی شاید کمی ہے ہمارے یہاں: سوچ idea  اور اقدام initiative ۔ اِنہی دو باتوں سے آپ ہمیشہ راج کرتے ہیں، باقی تو کارِ خر donkey work  ہے جو آج بھی ہمارے ہی لوگ کرتے ہیں اُن باہر کے دماغوں کےلیے۔[7] کیا ہم اِنہی دو باتوں میں مفلس ہو چکے؟  مؤثر روزگار سکیمیں، صفائی مہمات، تعلیمِ بالغان، سماجی انصاف، محروموں کی دادرسی، محلے کے بےسہارا اور آوارہ بچوں کو معاشرے کا ایک مفید اور پیدآور حصہ بنانا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت... جرائم، ماردھاڑ، منشیات، ملاوٹ، رشوت، خیانت، کام چوری، دونمبری، گھٹیا پیداوار وغیرہ کے خلاف عوامی آگہی  public awareness   و عوامی مزاحمت public resistence   کو باقاعدہ ایک چینل دینا (آخر کیوں یہ کام اخبارات اور ٹی وی کےلیے چھوڑا جائے؟)[8]، بےحیائی کی روک تھام، امر بالمعروف و نہی عن المنکر... ایسے سب امور کے تھَڑے یہ اونچےاونچے میناروں والی مسجدیں کیوں نہیں ہو سکتیں؟ جس معاشرے میں ہر چند قدم پر ’’مسجد‘‘ میسر ہو وہاں ’’ترقی‘‘ کو آوازیں پڑیں! ہر طرف لتھارجی کا مارا ہوا سماج! نرا ایک کونزیومر اور دوسروں پر جینے والا معاشرہ! عزتِ نفس مفقود! کشکول برداری! سب ناقابل یقین ہے۔ یہاں ’’امامت‘‘ کا ایک تصور ہی تو درست کرانے کی ضرورت ہے؛ باقی کمی کیا ہے؟ دورکعت کے امام کو ’’زندگی کے امام‘‘ میں ڈھال دینے کے پلانٹ جگہ جگہ لگا دیجئے؛ آپ کا بحران کہیں بھی نہیں۔ یہ سب رونے کیسے؟ طاقت کے سرچشمے پر بیٹھ کر ناتوانی کے گلے! وہ مار گیا، وہ کھا گیا، وہ این جی او، وہ یہودی، وہ عیسائی، وہ سازش، وہ ملی بھگت... بھائی ہم اپنے گریبانوں میں کب جھانکیں گے؟ ہمارا بحران تو ہماری ’’امامت‘‘ میں ہے۔ یہ تلچھٹ تو آپ سے آپ چھٹ جاتی ہے۔ یہ مسجدوں کے مینار آج بھی مبارک ہیں اور ہمیں کفایت کر دینے والے ہیں۔

غرض مسجد کی حیثیت سماج میں وہ ہو جو جسد میں کلیجے اور دل کی ہوتی ہے۔ یہاں صالح خون کی افزائش ہونے لگے، اور یہاں سے پورے جسم کو خون کی ترسیل ہونے لگے تو ’’جسم‘‘ تو خودبخود اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مصیبت یہ ہے جب ’’دل‘‘ کو بھی اعضاء میں سے ایک عضو سمجھ لیا جائے جو بیچارہ خود بھی خون کے عطیات پر جینے لگے، نہ کہ وہ ’’عضو الاعضاء‘‘  جس کا کام ہے کہ پورے جسم کا خون صالح وکارآمد کردینے کے بعد اس کو جسم میں لوٹائے اور دن میں پانچ بار اس عمل کو کامیابی کے ساتھ دہرائے۔ یہ جو اپنا ایک بحران ہے حضرات اس پر تو ہمیں خود ہی قابو پانا ہے! اِس کےلیے تو کسی آرڈینینس اور کسی بل کی ضرورت نہیں! میں کہتا ہوں کوئی حرج نہیں اگر ’’دعوت‘‘ کا بیڑا اٹھانے والی کچھ مرکزی شخصیات ’’ائمہ‘‘ کا صرف ایک پلانٹ اِس ملک میں ایسا لگا دیں اور ان کے ذریعے سے ’’مساجد‘‘ کے ایسے کامیاب نمونے سامنے لائیں جن میں ’’سماجی زندگی‘‘ کو ایک صالح رخ دینے کی  صلاحیت ٹپکے۔ پھر دیکھتے ہیں یہاں ہمارا گراس رُوٹ ورک کیسے نہیں پھوٹتا۔ یوں مساجد معاشرے کےلیے حقیقی انجن کی حیثیت اختیار کر لیں گی۔ اِسی کو ہم کہتے ہیں مسجد کا تاریخی کردار بحال کروانا۔ دعوت کا بیڑا اٹھانے والی مرکزی شخصیات یا ان میں سے کچھ، سب سے پہلے اس (’’ماڈل مسجد‘‘) کے کچھ پائلٹ پراجیکٹ لائیں پھر ابتدائی تسلی کر لینے کے بعد اس کو قریہ قریہ بستی بستی پھیلا دیں۔ سب اندھیرے آپ کے راستے سے چھٹتے چلے جائیں گے، ان شاءاللہ۔

9)    نئی نسل کے معاملہ میں ایک چیز جسے ہم تعلیمی سپلیمنٹ supplement کہتے ہیں۔ ’’دعوت‘‘ یہاں سے بھی معاشرے کے اندر ایک بہت بڑا راستہ بنا سکتی ہے۔ لوگوں کی ایک معتدبہٖ تعداد ایسی ہے جو اپنے بچوں کو سٹینڈرڈ کے ان اداروں میں پڑھانے کے سوا فی الحال چارہ نہیں پاتی جہاں تعلیمِ دین کی کوئی صورت میسر نہیں۔ جبکہ اپنے بچوں کو اساسیاتِ دین کی تعلیم دلوانے میں دلچسپی اِدھر بھی کم نہیں، بشرطیکہ ایک معیاری انداز میں دستیاب ہو، جوکہ نہیں ہے۔ یا تو آپ اپنے بچوں کو کسی فل ٹائم اسلامی سکول میں پڑھائیے۔ لیکن اگر وہ بوجوہ ممکن نہیں تو پھر انہیں کوئی دینی تعلیم اور ماحول سرے سے میسر نہیں۔  حاملانِ دین تھوڑی ہمت سے کام لیں تو اِس رخنہ کو بڑی آسانی سے پر کر سکتے ہیں۔ ایسے مؤثر وِیک اینڈ ادارے اور سمر پروگرام جو لوگوں کی اس ضرورت کو ایک مشنری جذبے کے ساتھ پورا کریں اور باقاعدہ کورسز اور گریڈز کی صورت میں یہ خدمت انجام دیں۔ اور ہوتےہوتے نوجوانوں کی سطح تک کے پروگرام سامنے لائیں۔ اِسے ہم کہتے ہیں ’’تعلیمی سپلیمنٹ‘‘۔ یہ چیز نہ صرف نئی نسل کو اسلام سے جوڑنے میں ممد ہو گی، بلکہ اس کے ذریعے ’’دعوت‘‘ یہاں کے سیکولر اداروں کے اندر جا اترے گی۔ اس ’’سپلیمنٹ‘‘ کی معیاری فراہمی کےلیے صرف کچھ نیٹ ورک میدان میں لانا ہوں گے۔

10)    دعوتی جذبے کے ساتھ یہاں کئی گروپ اور پروگرام ایسے میدان میں اترنے چاہئیں جو دعوتی ضرورت کی میڈیا پروڈکشنز کا ایک سیلاب لے آئیں۔  اور ہوں وہ بےحد مؤثر۔ تقریروں، وعظوں اور ٹاک شوز کے سی ڈیز کا زمانہ پرانا ہو چکا۔ مختصر آئیڈیا پر مشتمل کچھ تخلیقی اشیاء آنی چاہئیں۔ شارٹ فلم ایک بہت قوی ہتھیار ہے۔ ایک ایک دو دو منٹ کا پاورفل میسیج بسااوقات تین گھنٹے کی تقریر پر بھاری ہوتا ہے۔ تہذیبی ایشوز کو خاص طور پر  موضوع بنانا ہو گا۔ سمجھو ’’عقیدہ‘‘ کو جتنی بات کرنی ہو اس کےلیے وہ ’’ثقافتی پیرائے‘‘ اختیار کرے۔ یہی چیز اس وقت آپ کی تعبیری قوت کا امتحان بھی ہو گی۔ (خواص کی بات اور ہے، دعوت کو عوام کے اندر بولنے کےلیے اِن اشیاء سے چارہ نہ ہوگا)۔ سوشل میڈیا ایک بہت بڑا جہان ہے، جو آپ کے پاس چینل نہ ہونے کے گلے خاصی حد تک ختم کر دیتا ہے۔ آئندہ سالوں میں تو یہ اور بھی پھیل جانے والا ہے۔ پھر جمعہ کے سٹال۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس یہاں دینے کو ہے کیا؟  اسلامی جذبہ رکھنے والے تخلیق کاروں کی ایک فوج ظفر موج درکار ہے جو اِس ثقافتی جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دے۔ تاثرات کی جنگ تاثرات کی زبان میں لڑے (عوام میں دلیل اور علمیت ایک حد تک ہی کام کرتی ہے)۔  دردمندوں کو ایسے رجالِ کار لازماً میدان میں لانا ہوں گے۔ اب ہرگز یہ کافی نہیں رہ گیا کہ مساجد کے باہر صرف وعظوں اور ترانوں کے کیسٹ ہی بکیں۔  یہاں اب کچھ تخلیقی چیزیں آنی چاہئیں۔ البتہ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر اِس وقت سوشل میڈیا وغیرہ پر کچھ پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چند گروپ ایسے کھڑے کر دیے جائیں (جس پر آپ کی خوب محنت ہو گی) تو وہ تھوڑے عرصے میں صورتحال کو بدل سکتے ہیں۔ اصل چیز پروڈکشن ہے۔

ý       ان سب یا ان میں سے کچھ بھی جہتوں  پر اگر کام ہونے لگتا ہے تو تھوڑی دیر میں ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے یہاں زندگی کے گوناگوں شعبوں کے اندر ’’مسلمان‘‘ سر اٹھانے لگا ہے اور لادینوں کو پیچھے چھوڑ جانے لگا ہے۔ بس یہاں سے آپ کے دن پھرنے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عمل کو نامیاتی organic   ہی رہنا اور ایک دھیمی رفتار سے ہی چلنا ہے۔ آپ کی وہ محنت جو پیچھے مذکورہ میدانوں میں ہوئی، یہاں کے اداروں اور شعبہ ہائےحیات کے اندر آپ سے آپ بولے گی؛ اس کےلیے کسی اضافی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ البتہ توجہ اِدھر خوب رکھنی ہے اور لوگوں کو ان میدانوں میں آگے بڑھنے اور پروفیشنل معیار دینے پر خوب آمادہ کرنا ہے۔ میرٹ کی جنگ میرٹ پر ہی لڑی جائے گی۔ خود اسلامی تحریکی عمل کو گیج guage  کرنے کا یہ ایک پیمانہ ہو گا کہ ’’دیندار‘‘ یہاں زندگی کے شعبوں میں کس قدر پیش قدمی کر پایا ہے (’’دیندار‘‘ سے مراد یہاں کچھ مخصوص حلیوں کے لوگ نہیں، براہِ کرم یہ تصور ضرور درست کرا دیجئے)۔ ’’دین Vs   بےدینی‘‘ کا ڈائلیکٹ اگر آپ دانشمندی سے یہاں اٹھاتے ہیں.. اس کےلیے آپ کے دینی خطاب میں جس قدر پختگی maturity ، سماجی نظر social vision    نیز جس استقلال، صبر، برداشت (بدترین سے بدترین مخالفت کو خندہ روئی سے لوٹانا، جو اِس پورے عمل کی جان ہے)، جس وسعت، فراخ دلی، جاذبیت، دلنشینی، ادبی لہجے، سلیقہ اور جمالیاتی حس کی ضرورت ہے.. اُس کا اگر اپنے دینی خطاب میں بندوبست کر لیا جاتا ہے.. اپنے وقت کے انسان کو خطاب کرنے کی صلاحیت اگر بہم پہنچا لی جاتی ہے.. تو سماجی شعبوں میں دین کی پیش قدمی کو ان شاءاللہ کوئی نہیں روک سکتا۔

شدت پسند ڈسکورس کو اسلامی پیراڈائم سے بیگانہ ٹھہرانا.. اِس وقت کی اہم ترین ضرورت

عمومی حالات میں یہ تکرار ضروری نہ تھی۔ (پچھلی فصول میں اس پر بات ہو چکی) تاہم ’’دعوت‘‘ کو بچانے کے حوالے سے سفارشات میں اس کا علیحدہ ذکر کر دینا ضروری ہے:

پچھلے ایک عرصہ میں ملک پر جو ماردھاڑ کی صورتحال گزری ہے اور اس ماردھاڑ کا ایک حصہ بدقسمتی سے اسلام کے نام پر لانچ کروایا گیا ہے جس کا نقصان ملک اور قوم کو بھی یقیناً بہت ہوا... لیکن جو نقصان اِس کا یہاں پر ’’دعوت‘‘ اور ’’اسلامی ایجنڈا‘‘ کو ہوا وہ ہر چیز سے سوا ہے۔ خرانٹ لبرلز کا ایک غول تو بیٹھا ہی گویا اِسی تاک میں تھا۔ اور اب حالت یہ کہ لبرلز کا یہ غول، جو یہاں کے ذرائع ابلاغ پر بھی حاوی ہے، اسلامی اِحیاء کی ہر کوشش اور کاوش کو ایک جرم کے رنگ میں پیش کرنے کی مار پر ہے۔ ہم پیچھے اشارہ کر آئے کہ اسلامی سیکٹر نے اسلام کے نام پر ہونے والی اس جنگجوئی militancy    کا سب سے نمایاں ناقد نظر نہ آ کر ایک شدید کوتاہی کی ہے (جس طرح اور بےشمار دعوتی ضرورتوں میں اس سے کوتاہیاں ہو رہی ہیں، یہ بھی ایک سُستی ہوئی)۔[9]  اس کے نتیجے میں یہاں کی صورتحال پر لبرلز کا اتنا بڑا ہاتھ پڑا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی نہیں پڑا تھا۔ ایک بہت بڑا نقصان جو ہو چکا۔ وقت واپس لایا نہیں جا سکتا۔  اب یہ پانسہ بڑے صبر و دانشمندی کے ساتھ اور عام معمول سے بڑھے ہوئے کچھ اقدامات لا کر ہی کسی نہ کسی حد تک پلٹنے کی سبیل کرنا ہو گی۔ اسلامی ایجنڈا کا مفاد ہر چیز پر مقدم ہے۔ لہٰذا:

ý       اب یہاں کے کسی بھی اسلامی اِحیائی عمل کو جہاں اور چیزوں پر توجہ دینا ہو گی وہاں اپنا ایک ایسا چہرہ سامنے لانے پر معمول سے بڑھ کر محنت کرنا ہو گی جو:

1)    اِس وقت دنیا بھر میں اسلام کے نام پر جاری شدت پسندی کو نہ صرف کھل کر اور آخری حد تک رد کرتا ہے، بلکہ اسلام کے حوالے سے اُس (شدت پسند) ڈسکورس کے پیداکردہ شبہات اور اِشکالات (جو بہرحال نوجوانوں کی ایک تعداد کو متاثر کرتے ہیں) کا علمی جواب دینے پر بھی سب سے بڑھ کر یہی قدرت رکھتا ہے۔  اور عملاً ایسا کر رہا ہے۔ (اپنا ایک ایسا چہرہ سامنے لانے پر معمول سے بڑھ کر محنت کرنا ہو گی، نیز یہ واضح کرنے پر کہ) نوجوانوں کو اس شدت پسند ڈسکورس سے باہر لانے کا واحد طریقہ ان سے جیلیں بھر دینا نہیں(گو لبرلز اسی صورتحال کو ششکارنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی صورت دھار لے اور اس کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع ہو جائے، جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے جانیں جاتی رہیں، تاکہ اِن کی اور اِن کے غیرملکی سرپرستوں کی خوب چاندی ہو، یہ مسلسل ملک کے خیرخواہ بھی نظر آئیں اور اس کے اندر ایک دُوررَس جنگ کی چنگاریوں کو بھی ہوا دیتے چلے جائیں، جس کی حد یہ ہو کہ یہاں اسلام کا ہر نام لیوا اِس جنگ کا حصہ بنا دیا جائے)۔ بلکہ اس صورتحال پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دیندار طبقے ہی یہاں کے نوجوان ذہن کو تشدد کی راہ سے دور کریں جو اِس شدت پسند ڈسکورس کا علمی رد کر سکتے ہوں [آخر سوچتے کیوں نہیں ’’نفاذِ اسلام‘‘ کی بات تو یہاں روزِ اول سے ہوتی آئی ہے جبکہ یہ شدت پسندی جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ اب اگر لبرل خبثِ باطن ’’نفاذِ اسلام‘‘ کے سب داعیوں کو اِس جنگ کا فریق بنا دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بات نہ صرف خلافِ واقعہ ہے بلکہ یہ ایک جنگ کو وسیع کر دینے کی گھناؤنی کوشش بھی ہے؛ یعنی ایک ایسے ملک میں ’’ریاست‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کی جنگ اٹھانا جو بنا ہی ’’اسلام‘‘ کے نام پر ہو! یعنی ملکِ پاکستان کے تصور کو undo   کروانے کی ایک شاطرانہ کوشش، اس کے وجود میں آنے کے صرف چھ عشرے کے اندر اندر! بخدا، لبرل کچھ ایسے ذہین نہیں ہمارے لوگ کچھ سادہ نکلے جو ایک بالکل سامنے کی صورتحال کو بھانپنے یا اس پر بولنے میں دیر کر گئے۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم محض اپنے ایک نکماپن (ایک صحیح بات بروقت بول نہ پانے) کے باعث لبرلز کو وہ چیز دے دیں جو وہ کبھی خواب میں بھی نہ سوچ سکتے تھے]۔ لبرلز کا یہ داؤ، جس کا موقع بلاشبہ یہاں کے شدت پسندوں کی نادانی نے ہی انہیں فراہم کیا ہے.. لبرلز کا یہ داؤ ہمیں ہر حال میں ناکام کروانا ہو گا خواہ اس کےلیے جو بھی کرنا پڑے۔ ورنہ ہماری نسلیں شاید ہمیں معاف نہ کریں۔ اتنے بڑے نقصان کے ہم متحمل ہی نہیں ہیں۔ ملک میں اسلام آنے کو دیر لگے یا سویر، البتہ یہ حربہ اِس موقع پر چل جانے دینا ہمیں کسی صورت اور کسی قیمت پر قبول نہیں۔ اسلام اور پاکستان کے رشتے کو لازوال رکھنے کے داعیوں کو لازماً یہ کرنا تھا اور کرنا ہو گا (اگر وہ اِس رشتے کو کم از کم اچھے وقتوں کےلیے بچا رکھنا چاہتے ہیں) کہ:

o     ’’نفاذِ اسلام‘‘ کے ساتھ لگا دیے گئے ’’تشدد‘‘ کے اس ٹانکے کو ختم کرنے کے سب سے بڑے داعی بن کر یہ ازخود سامنے آئیں تاکہ معاملہ پچھلی پوزیشن پر واپس آئے (جب ’’نفاذِ اسلام‘‘ کی دعوت یہاں زوروشور سے تھی مگر ’’تشدد‘‘ کا کہیں نام و نشان نہ تھا)۔

o     اور یہ بھی واضح کریں کہ اس ملک میں ’’نفاذِ اسلام‘‘ کے حقیقی داعی کچھ حوصلوں والے لوگ ہیں جو قوم کے ساتھ صبر کرنا جانتے ہیں۔ آج بھی، کل بھی اور سو سال بعد بھی یہ قوم کا ہاتھ تھام کر ہی چلیں گے۔  اور ان کو معلوم ہے ابھی قوم کس حالت میں ہے اور کن خطرات میں گھِری ہے۔  لہٰذا ’’نفاذِ اسلام‘‘ کےلیے یہ جس شدت کے حریص ہیں اُسی ہمت کے ساتھ یہ اس کےلیے لمبا چلنے کا برتہ بھی رکھتے ہیں۔ ’’نفاذِ اسلام‘‘ کا راستہ اِن کے ہاں ’’سماجی عوامل‘‘ سے گزرتا ہے نہ کہ بندوق کی نالی سے اور اپنے ہی لوگوں کا خون کرنے اور اپنے ہی ملک کو غیرمستحکم کر ڈالنے سے۔ یہ (امن پسند ڈسکورس) اِن کے اپنے نظریے اور اعتقاد conviction   کی بات ہے؛ جس پر یہ روزِ اول سے کاربند ہیں اور جس کے یہ اللہ کے فضل سے ڈھیروں دلائل پاس رکھتے ہیں۔

o     اور یہ کہ ’’نفاذِ اسلام‘‘ کے ساتھ ظلم یا جہالت سے لگوا دیے جانے والے ’’تشدد‘‘ کے اِس ٹانکے کو ختم کروانا اور اس پر وہ شرعی دلائل لانا جو یہاں کے جذباتی نوجوانوں کی معتد بہٖ تعداد کو مطمئن کر سکیں، یہ بھی ان شاءاللہ اِنہی کے بس کی بات ہے۔

2)    اِس ملک کے سٹرٹیجک مفادات، قومی اثاثہ جات، یہاں کے قومی اداروں  اور اس کی سلامتی و استحکام اسے دل و جان سے عزیز ہیں۔ ان پر کسی قسم کی آنچ آنے کے اندر یہ ایک دُوررَس معنیٰ میں اسلام ہی کا نقصان دیکھتا ہے۔ اِس وقت اِن (مسلم) ملکوں کا مفاد کسی بھی طرح اسلام کے مفاد سے الگ نہیں ہے۔ (اِس نقطہ پر پیچھے ہم تفصیل سے بات کر آئے ہیں، یہاں اس کو صرف ایک سیاق میں لانے کےلیے اعادہ ہوا)۔

ملکی تاریخ کے اِس موڑ پر یہ چیز ویسے بھی ضروری ہے۔ اور اسلامی تحریک ہی کے انجام دینے کی ہے۔ تاہم اسلام کے احیائی عمل میں کسی نئی پیش رفت کےلیے فکرمند طبقوں کا اِس طرف توجہ دینا کچھ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ اس سے صرفِ نظر کرنا نہ صحیح ہو گا اور نہ ممکن۔ بلکہ صورتحال جس قدر حساس اور پیچیدہ کردی گئی ہے، ہماری نظر میں اسلامی تحریک کو کچھ دیر تک توجہ ہی اس پر مرکوز کردینا ہو گی۔ یعنی دہشتگردی اور تشدد کا اسلامی فکر سے ہرگز کوئی ناطہ نہ ہونے کا بیان۔ قومی سلامتی اور قومی مفاد کو یہاں اس حد تک اون own  کرتے ہوئے نظر آنا کہ کچھ نادان کوششیں اس کو ضرر پہنچانے والی اگر اسلام کے نام پر سامنے آتی ہیں تو اس کا سدباب کرنے والا سب سے نمایاں فریق نہ تو یہاں کا لبرل نظر آئے اور نہ حتیٰ کہ حکومتی مشینری۔ اسلام کے نام پر قومی سلامتی یا قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی جو بھی کوشش سامنے آتی ہے، سب سے بڑھ  کر اس کا سدباب کرتا نظر آنے والا خود اسلامی سیکٹر ہی ہونا چاہئے، اور کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ ایک داخلی داعیۂ عمل کے تحت۔ آئندہ سو سال تک کےلیے اس بات کو گرہ باندھ لیجئے اور پیچھے والوں کو اس پر نصیحت کر جائیے۔ بڑی قیمت دی ہے ہم نے اس کی؛ آئندہ یہ کبھی نہ دینی پڑے۔ اس صورتحال کی درستی کو حالیہ مرحلہ میں اپنی سب سے بڑی ترجیح قرار دینا ہو گا۔ ہم تو کہیں گے، کچھ دیر تک اسلامی سیکٹر کے اِس image repair   کے علاوہ آپ کی فی الحال کوئی اور سرگرمی نہ ہو تو ٹھیک ہے۔

*****

واضح رہے، اوپر صرف دعوت کا ایک خاکہ آیا ہے کیونکہ یہیں سے اس تمام بیداری کا آغاز ہوتا ہے۔ رہ گئی آپ کی سیاسی یا شعبہ جاتی جدوجہد تو اس کی کوئی تفصیل ہماری اِن سفارشات میں بیان نہیں ہوئی۔ البتہ یہ بات خصوصی طور پر نوٹ ہونی چاہئے، اور جوکہ ہماری اس تمام گفتگو کا مرکزی نقطہ ہے  کہ: دعوت میں ایک جاندار پیش رفت اگر علیحدہ سے ہونے لگتی ہے تو  آپ کی سیاسی یا شعبہ جاتی پیش رفت یہاں کسی لمبےچوڑے مذہبی نعرے یا دعوے یا کسی مخصوص مذہبی پہچان face   کے بغیر ہی ہونی چاہئے۔

سیاست میں مذہب کا باقاعدہ بیگیج اٹھا کر چلنا اِس وقت بوجوہ ممکن نہیں۔ اس پر خوامخوہ زور لگا کر وقت اور توانائیاں ضائع نہ کی جائیں۔

(نوٹ کیا جائے، ہم نے کہا ہے: اس وقت ممکن نہیں۔ یہ نہیں کہا کہ صحیح نہیں۔ یعنی بات ازراہِ تدبیر ہو رہی ہے نہ کہ از راہِ اصول)۔

مسئلہ ایک جماعت کو دو شعبے کر دینے سے بڑھ کر ہے

یہ بھی واضح کر دیں کہ یہاں جو وِژن vision   بیان ہوا وہ محض کوئی اتنی سفارش نہیں کہ ایک ہی جماعت اپنا شعبۂ دعوت اور شعبۂ سیاست الگ الگ کر لے، اور بس! مسئلہ اس سے حل نہیں ہو گا۔  ہم یہ کہتے ہیں: دعوت اور سیاست کےلیے جمعیتیں ہی الگ الگ میدان میں اتریں۔ دونوں ایک دوسرے کی مجبوریوں سے ہی کُلی آزاد ہوں۔  ہماری اِس سفارش کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ

o     دعوت کو فی الواقع یہاں جو طاقت boost    دلانے والی باتیں ہیں وہ (شارٹ ٹرم میں) سیاست میں آپ کے تقویت پانے کے اندر رکاوٹ ہیں۔

o     دوسری جانب سیاست میں جو جو راستے بنانا فی الوقت ممکن ہے وہ ایک داعی کے طور پر آپ سے تقریباً منہ بند رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

(اگر آپ حقیقتِ حال کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں)۔

اس لیے؛ بجائے اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھیں، دونوں اپنےاپنے strength points   کے ساتھ آگے بڑھیں۔ جس کےلیے ضروری ہے، دونوں الگ الگ محور پر آگے بڑھیں۔ ہاں راستے میں جہاں جہاں اپنی پیش رفت سے یہ دونوں ایک دوسری کو صرف فائدہ دلا سکتی ہو، بس وہ دلائیں۔  یعنی دعوت سیاست کی یا سیاست دعوت کی کمزوری تو بالکل نہ بنے۔ مضبوطی جہاں بن سکتی ہو وہاں بنے، ورنہ ہر دو اپنی اپنی راہ چلیں۔ یہ چیز ایک ہی جماعت کے دو الگ الگ شعبوں سے حاصل نہ ہو گی۔ وہ شہ زوری جو دونوں جانب درکار ہے، اس سے حاصل ہونے والی نہیں۔

پھر خاص طور پر جبکہ ’’دعوت‘‘ میں آپ کو ویسے بھی تنظیم سے اوپر اٹھ جانا ہو گا۔اس کےلیے بڑے بڑے مشائخ (فُحُول giants ) کو سامنے لانا ہو گا جو کفر کی ایک تہذیبی پیش قدمی کے مدمقابل قوم پر خدا کی حجت قائم کریں؛ اور محسوس ہو کہ ’’امت‘‘ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔  اور بلاشبہ یہ مشائخ کے کرنے کا کام ہے بھی۔ البتہ یہ (مشائخ) لوگ کسی تنظیم یا گروپ سے نسبت جوڑنے پر بالعموم آمادہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس معاملہ میں کچھ الرجک بھی واقع ہوئے ہیں۔ ہاں کچھ ’’موضوعات‘‘ کے حق میں (اگر وہ صریح ’’دین‘‘ ہیں) بولنے اور آواز اٹھانے میں ان کو کیا مانع ہے؟ یہ تو ان کا خدائی منصب ہے (لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنّاسِ) جس کی انہیں یاددہانی کرانا ہمارا حق ہے۔ (ہاں ان موضوعات کے حق میں ’’بولنے‘‘ اور ’’آواز اٹھانے‘‘ کو سٹرکچرڈ structured   بنا دینا ضروری ہے)۔ جبکہ ’’دعوت‘‘ ہے ہی اس ’’بولنے‘‘ اور ’’آواز اٹھانے‘‘ سے عبارت۔ یہی معاملہ دین سے وابستہ بڑےبڑے دانشوروں کا ہے۔ یہ بھی ایک ’’ایشو‘‘ کے حق میں بول سکتے ہیں (اور مجھ سے اور آپ سے بہتر بول سکتے ہیں) ایک جماعت کو جوائن کرنے کے سوال پر البتہ یہ ہزار بار سوچتے ہیں؛ اور بڑی حد تک درست بھی ہیں۔ لہٰذا دعوت کا پوٹینشل اپنے ہی انداز میں آگے آئے، یہی اس کی قوت strength   ہے، اس پر اضافی قدغنیں لگانا (ہر بڑی شخصیت کو تنظیم میں لانے کی کوشش کرنا) اس کا زور کم کر دینے کا باعث ہو گا، ایک ایسے وقت میں جب ہمیں دعوت یہاں پورے زور سے اٹھانی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ہیومن اسٹ یلغار ہمارا کچھ نہیں چھوڑنے والی۔

بلکہ ہم تو کہیں گے یہاں جگہ جگہ دردمندوں کے سرکل سامنے آنے چاہئیں جو اپنےاپنے شہر کے اہل علم وفضل کو  دعوت کی پشت پر لے آنے پر پورا زور صرف کر دیں۔ یہ اپنے علاقے کا کوئی عالم، کوئی دانشور، کوئی پروفیسر، سماجی اثر و رسوخ کی مالک کوئی شخصیت ایسی نہ چھوڑیں جس کے دروازے پر یہ بار بار نہ جا کھڑے ہوئے ہوں، اِس ایک مقصد کے ساتھ کہ یہاں دینِ خداوندی کے حق میں جس آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک ایک شخصیت اس کے اندر اپنا کما حقہٗ حصہ ڈالے۔  غرض ’’دعوت‘‘ کو ایک دھارا بنانے کےلیے کچھ نیٹ ورک تو ضرور جگہ جگہ سرگرم ہوں، لیکن عملاً یہاں کے بڑےبڑے فحول giants   (سربرآوردہ  علماء، دانشور) ہی (ایک informal   غیرتنظیمی انداز میں) اس کے سرکردہ دیکھے جائیں۔

مالک بن نبیؒ کا دیا ہوا ایک مبحث ’’معاشرتی جہت‘‘ تحریکی فکر میں شاملِ مضمون کرانا

یہ وہ نقطہ ہے جو شروع میں کسی حد تک مودودی صاحبؒ کے زیربیان رہا۔ بعد میں سیاسی توقعات حاوی ہوتے چلے جانے کے باعث پس منظر میں چلا گیا۔ سیدقطبؒ کے آخری ایام کی تحریروں میں یہ مبحث قدرے کھل آیا۔ لیکن ’’نظام‘‘ والا پہلو اِن دونوں بزرگوں کے ہاں ’’معاشرے‘‘ والے پہلو پر مجموعی طور پر چھایا رہا۔ باقاعدہ مبحث کے طور پر البتہ یہ الجزائری مفکر مالک بن نبیؒ (جنہیں دورِ حاضر کا ابن خلدون کہا جاتا ہے) کے بیان میں ہی آیا ہے۔  ہماری درخواست ہو گی اسے یہاں کے تحریکی مباحث میں باقاعدہ شامل کروایا جائے۔ یہاں ہم اِس مبحث کو مع کچھ تطبیقات اختصار کے ساتھ اپنے اسلوب میں بیان کریں گے:

مالک بن نبیؒ کے فکر کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ تبدیلی کے مباحث میں سب سے زیادہ نمبر کسی قوم کی ’’معاشرتی صورتحال‘‘ کو دیے جائیں گے۔ دیگر عوامل کو نمبر ملیں گے ضرور، لیکن اِس مرکزی عامل کے مقابلے پر بہت کم۔ ابن نبیؒ کا کہنا ہے، ایک معاشرے کو دیکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ وہاں کیا کچھ بآسانی ہو جانے والا ہے اور کیا کچھ کی توقع رکھنا وہاں پر خام خیالی کے زمرے میں آئے گا۔  مثلاً ایک قابلِ استعمار معاشرہ استعمار کی تھوڑی کوشش کے نتیجے میں بڑی آسانی سے اُس کے نرغے میں آ جائے گا اور پھر بڑے مزے سے اُس کو کام دیتا چلا جائے گا۔ البتہ ایک قابلِ استعمار معاشرے سے اگر آپ یہ چاہیں کہ یہ ایک زندہ و آزاد و ذمہ دار معاشرے کی طرح عمل کرے، تو یہ بات محض نعروں، خطبوں یا چند جذباتی انجیکشنوں کی مدد سے انجام نہیں پا جائے گی۔ اس کےلیے آپ کو یہاں کے کچھ سماجی عوامل ہی کو ہاتھ پر کرنا پڑے گا اور یہ معاشرتی کایاپلٹ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہو گا (بشرطیکہ معاشرتی عمل میں آپ کچھ مؤثر کارگزاری کر سکیں، جبکہ یہاں کل امیدیں سیاسی عمل سے ہی وابستہ رکھی جا رہی ہیں اور اس کے اندر بھی ہاتھ میں کچھ نہیں!)۔  معاشرے کے اندر بولنے والی بہت سی سیاسی حقیقتیں بھی درحقیقت وہاں کی سماجی حقیقتوں کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہیں۔ گو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’سماجی حقیقتوں‘‘ پر اگر آپ ’’سیاسی‘‘ راہ سے اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہوں تو اِس کی ہرگز کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ ’’سیاست‘‘ یقیناً آپ کو ایک قوم کی سماجی صورتحال کو بدل دینے کے کچھ غیرمعمولی مواقع فراہم کرتی ہے (جوکہ اِس وقت لبرل یہاں بدرجۂ اتم لے رہے ہیں، سیاست میں لمباچوڑا خود سامنے آئے بغیر!)۔  تاہم ’’سیاست‘‘ میں اگر آپ کا ہاتھ پڑے بھی، تو اصل توجہ آپ کو وہاں کی سماجی حقیقتوں پہ اثرانداز ہونے پر ہی مرکوز کر دینا ہوتی ہے، نہ کہ کچھ قانون قاعدوں وغیرہ کے اجراء میں پھنس کر رہ جانا ہوتا ہے۔ (لبرلز فی الوقت بڑی حد تک اِسی پالیسی پر گامزن ہیں، ایک نہایت اہم نکتہ جو دراصل ہمارے سمجھنے کا تھا)۔  

بنابریں، ایک ماحول سے توقعات رکھنے میں آپ کو تلخ ہو جانے کی حد تک حقیقت پسند رہنا ہوتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے:

ý         شارٹ ٹرم میں صرف وہ اہداف ہی رکھنے ہوتے ہیں جن کے متعلق قوم کی ’’معاشرتی صورتحال‘‘ بول کر بتا رہی ہو کہ یہ کام فی الواقع یہاں پر ہو جانے کے ہیں۔ خواہ وہ (اہداف) آپ کی ’’وِش لسٹ‘‘ wish list   کے حوالے سے شدید ناکافی ہوں، لیکن شارٹ ٹرم میں آپ کو بس انہی تک رہنا ہوتا ہے۔ ’’شارٹ ٹرم اہداف‘‘ کا فلسفہ ہی یہ ہے جیسے ایک آدمی دھیرےدھیرے ایک قدم دھرنے کی جگہ بناتا ہے۔ پھر دوسرے  قدم کی۔ پھر چلنے پھرنے کی گنجائش نکالتا ہے۔ اور پھر اس سے آگے کی کوئی صورت ممکن بناتا ہے۔ آخر ہوتےہوتے بہت کچھ کر لیتا ہے۔ البتہ ہر مرحلہ میں اتنا ہی ہدف رکھتا ہے جو وہاں کی ’’معاشرتی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ممکن الحصول ہو۔ (منہجِ استطاعت)۔  حتیٰ کہ کسی وقت آپ اقتدار میں کیوں نہ ہوں، یا اہل اقتدار کی بھرپور تائید میں کیوں نہ لوٹ رہے ہوں، ’’شارٹ ٹرم‘‘ میں آپ اتنا ہی ہدف بناتے ہیں جو اندریں حالات ممکن الحصول acheiveable    ہو۔ یہ وجہ ہے، آپ نے دیکھا ہو گا، کسی وقت لبرل بھرپور طاقت رکھنے کے باوجود ملک میں بہت سی اسلامی اشیاء کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب، بعض ملکوں میں اقتدار رکھنے کے باوجود اسلام پسند طبقے اپنے اسلامی اقدامات میں ایک حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ یعنی ’’استطاعت‘‘ خود اپنا آپ منواتی ہے۔ ضروری یہ ہے کہ اس کو ایک قانون کے طور پر بھی سمجھ لیا جائے (جیسے کشش ثقل کے قانون کی دریافت سے پہلے بھی لوگ چھتوں سے چھلانگیں نہیں لگا دیا کرتے تھے لیکن اس کو بطورِ قانون سمجھنے کے بعد بہت سی منظم ترقی ممکن ہوئی)۔   ’’معاشرتی صورتحال‘‘ کو مرکز مان کر اپنے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اہداف متعین کرنا ایک قانون کے طور پر تحریکی عمل میں ہمیں ویسا ہی فائدہ دے سکتا ہے جیسے نیوٹن کا قانون کشش ثقل سائنسی ترقی میں۔

ý         جبکہ لانگ ٹرم میں آپ کو وہ اہداف رکھنے ہوتے ہیں جو اس ’’معاشرتی صورتحال‘‘ کو رفتہ رفتہ اس قابل بنائیں کہ آپ اپنے شارٹ ٹرم اہداف زیادہ سے زیادہ مؤثر substantial  اور زیادہ سے زیادہ براہِ راست direct     بنانے لگیں، یعنی گھماپھرا کر اپنے عمومی اہداف کی جانب بڑھنے کی مجبوریاں کم سے کم ہو جائیں۔

واضح رہے، ہم نے یہاں کسی ماحول کی معاشرتی صورتحال کو مرکز مان کر شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اہداف متعین کرنے کی بات کی ہے۔  البتہ جہاں تک بات ہے خود اِس ’’شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اہداف مقرر کرنے‘‘ کی، تو وہ تو ایک چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی کرتا ہے۔ ہماری بڑی بڑی دینی جماعتوں کے ہاں اگر آپ کو ایسا کوئی وِژن vision   نظر نہیں آتا کہ شارٹ ٹرم میں واضح واضح یہ کن اہداف کا تعاقب کر رہی ہیں اور لانگ ٹرم میں ان کے یہاں کن اہداف پر محنت ہو رہی ہےتو یہ بات افسوس ناک ہے۔ لہٰذا شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اہداف کا تعین تو ضروری ہے ہی، ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ چیز یہاں کی ’’معاشرتی صورتحال کو مرکز مان کر‘‘ ہو:

ý         شارٹ ٹرم میں آپ دیکھیں گے: یہاں کی ’’معاشرتی صورتحال‘‘ آپ کو گنجائشیں کیا کیا دے رہی ہے، جہاں سے آپ اپنے عمومی اہداف کی جانب کچھ مؤثر راستے بنا سکتے ہوں۔ پھر اس کے مطابق اپنے کچھ فوری اہداف وضع کریں گے۔ وہ اہداف آپ کو بظاہر کتنے ہی ناکافی لگیں، شارٹ ٹرم میں صرف انہی کے اندر کامیاب ہو کر دکھائیں گے۔ شارٹ ٹرم میں ناکامی کا سوال ہی نہ ہونا چاہئے۔ ایسا ہو تو زیادہ امکان یہ ہے، یہ اہداف وضع کرتے وقت آپ حقیقت پسند نہیں رہے تھے بلکہ آرزومند wishful  ہو گئے تھے۔ یاد رکھیے ایک آرزومند wishful   قیادت اپنے پیروکاروں کے حوصلوں کا ستیاناس کر دیتی ہے خواہ وقتی طور پر وہ ان کے حوصلوں کو آسمان پر کیوں نہ پہنچا لے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شارٹ ٹرم میں آپ اپنے لوگوں کو اہداف ہی وہ دیتے ہیں جو سر ہو جانے والے achievable   ہوں۔ اس سے ان کے حوصلے جوان اور قیادت میں ان کا اعتماد بڑھتا چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پہاڑوں کو اٹھا لینے کا برتہ پیدا کر لیتے ہیں۔ سکندر یونانی پہلے دن فتحِ ہند کے پیمان نہیں باندھتا۔ لیکن اس کی ابتدائی فتوحات اس کے سپاہیوں میں ہند جا پہنچنے کا حوصلہ ضرور پیدا کرا دیتی ہیں۔

ý         جبکہ لانگ ٹرم اہداف میں آپ نے کسی ماحول کی معاشرتی صورتحال کے اندر اپنے اہداف کےلیے گنجائشیں پیدا کرنا ہوتی ہیں۔ (یعنی شارٹ ٹرم میں آپ گنجائشیں ڈھونڈتے ہیں تو لانگ ٹرم میں آپ گنجائشیں پیدا کرتے ہیں)۔ اور یہاں بلاشبہ ایسی ہی ایک حوصلہ مند ambitious   منصوبہ بندی ہونی چاہئے اور اسی کے مطابق اس پر محنت کا ایک باقاعدہ عمل بھی۔

’’معاشرتی صورتحال‘‘ کو بنیاد بنانے کے اِس قاعدہ کی بعض ضروری تطبیقات ہم یہاں ذکر کریں گے:

1)         ’’نفاذِ شریعت‘‘ ایسے ایک بڑے ہدف کو آپ لانگ ٹرم میں رکھتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا ہدف ہے جس کےلیے آپ کو پہلے ایک باقاعدہ زمین تیار کرنی اور گنجائش بنانی ہے۔ یہ اگر آپ کا ہدف ہے تو آپ کو بتانا ہو گا، اس کےلیے زمین تیار کرنے کا آپ کے پاس کیا پلان ہے؟ نفاذِ شریعت کے حق میں ایک دھواں دھار تقریر یا دھرنا اِس سوال کا جواب بہرحال نہیں ہو گا۔

2)          اور جہاں تک برسر اقتدار طبقوں سے شریعت نافذ کروانے کا تعلق ہے، تو اس کےلیے ایک عمومی انداز اختیار کرنا اپنی جگہ درست۔ لیکن عملاً چند ایسے مطالبے ہی (نفاذِ شریعت کے حوالے سے) سامنے لائیے،[10] یا کوئی ایک ہی اچھا سا مطالبہ سامنے لائیے جس کو حکمران طبقوں کی طرف سے انکار ہونا معاشرتی طور پر شدید اچھنبے کی بات ہو، جس کی بنیاد پر آپ یہاں کے عوامی طبقوں کو زیادہ سے زیادہ موبلائز mobilize   کر سکتے ہوں (اِس موبلائز کرنے میں گو آپ کے کچھ اور تحریکی مقاصد بھی حاصل ہو رہے ہوں گے، اور اس پر پس و پیش کرنے میں حکمران طبقے معاشرے کے اندر زمین کھونے (ground lose  کرنے) لگیں گے۔ اور اگر پس و پیش نہیں کرتے تو اسلامی سیکٹر کی ایک پیش قدمی سامنے آتی ہے۔ گویا ہر دو صورت آپ win win   پوزیشن میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ ایک مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ریاست اقامتِ صلاۃ کے معاملہ میں اپنی شرعی و دستوری ذمہ داری پوری کرے۔ فی الحال کےلیے آپ اس کے سوا کوئی مطالبہ نہ کریں، البتہ اِس ایک بات پر خیبر تا کراچی قوم کو کھڑا کر دینے کی تحریک چلا دیں۔  یہ ایک ایسی بات ہے جس پر لبرل ایجنڈا کےلیے کارآمد (substantially effective) اسلامی دلیلیں فراہم کرنے والے (المورد ایسے) طبقے تک آپ کی مخالفت پر دلیل کا بازار گرم نہیں کر سکیں گے (ان کی اب تک کی تحقیق یہی ہے کہ ریاست یہاں لوگوں کو نماز کا پابند کرنے کی پابند ہے۔ کم از کم اِن سے وہ تو لیں!)۔ البتہ اس ایک بات میں لبرل عقیدے کا پورا ابطال ہے (کہ ہر آدمی اپنے ذاتی اعمال میں سو فیصد آزاد ہے)۔ نیز سرکاری سطح پر اقامتِ صلاۃ کا بندوبست ہو جانے کی صورت میں یہاں کے معاشرتی خدوخال دنوں کے اندر بدلتے ہیں (یہاں ایک مذہبی معاشرہ آپ سے آپ تشکیل پا جاتا ہے)۔  البتہ حکومت کی جانب سے اس کو انکار ہو جانے کی صورت میں بھی اسلامی سیکٹر کو ایک مومنٹم ملتا ہے۔[11] (اصل دیکھنے کی چیز یہ ہوگی کہ کس کامیابی کے ساتھ آپ نے اس کےلیے rallying  کی)۔ یہ (اقامتِ صلاۃ) محض ایک مثال ہے۔ انسدادِ فحاشی و عریانی اس کی ایک اور مثال ہو سکتی ہے۔ ان دونوں کی بجائے آپ کچھ اور چیزیں دیکھ سکتے ہیں، جن کے حوالے سے حکومت کے پاس یہ کم سے کم گنجائش ہو کہ  اپنی کوئی مجبوری بتائے یا نام ہی کو عذرِلنگ پیش کر سکے، یا لبرلز کے اسلامی وکیل اس پر زیادہ دلیلیں لاسکیں۔ یہاں سے آپ فریقِ مخالف کو ایک ایسی پوزیشن میں لا سکتے ہیں کہ وہ ہر دو صورت آپ کے اسلامی ایجنڈا کی پیش رفت کروانے پر مجبور سا ہو جائے اور آپ ہر دو صورت معاشرتی زمین پر پیش قدمی کریں۔

3)          یہ گردان rhetoric   کہ ستر سال گزر جانے کے باوجود حکمران طبقوں نے اسلام کے نفاذ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی... عوامی کھپت  public consumption   کےلیے شاید بری نہیں (کیونکہ اس کے اندر کوئی غلط بیانی بہرحال نہیں ہے)۔ لیکن فرزندانِ تحریک کی داخلی کھپت internal consumption    کےلیے یہ rhetoric    تباہ کن ہے۔ یہاں تو یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ: اگر حکمران طبقوں کے تیور آپ کو ستر سال سے معلوم ہیں تو اسلامی تحریک کے پاس اِس صورتحال کے ساتھ پیش آنے کےلیے کیا لائحۂ عمل تھا؟ اور اگر حکمرانوں کے تیور اب بھی ویسے ہیں تو کیا ستر سال بعد بھی آپ یہی rhetoric    دہرائیں گے کہ حکمران طبقوں نے اسلام کے نفاذ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی  اور اگر ایسا ہے، تو وہ رخنہ جو اسلامی تحریکی عمل کو یہاں پُر کرنا ہے بس یہ rhetoric    دہرانا ہے کہ حکمران طبقوں نے یہاں نفاذِ اسلام کی جانب کوئی توجہ نہیں دی؟ تحریکی عمل میں یہاں ہم جس مبحث کی داغ بیل ڈالنا چاہیں گے وہ یہ کہ: مطالبات کی زبان صرف ابلاغی کھپت کےلیے ہو۔ البتہ فرزندانِ تحریک کی توقعات کا کوئی رشتہ اِس زبان کے ساتھ نہ رہنے دیا جائے۔ اِس دائرہ میں: اُس rhetoric    کو اِس  rhetoric    کے ساتھ بدل دیا جائے کہ: وہ سماجی عوامل جو ذوالفقارعلی بھٹو ایسے دین بیزار آدمی کو بھی کچھ اسلامی اقدامات پر مجبور کر دیتے ہیں،[12] ویسے سماجی عوامل ہاتھ میں کرنے کےلیے کیا کیا لائحۂ عمل اور کیا کیا مؤثر اقدامات خود ہماری طرف سے ہو پائے ہیں؛ اور اِس معاملہ میں ہماری کیا منصوبہ بندی رہی ہے؟ ذہنوں پر چھا جانے اور شریعت کے حق میں ایک سماجی فضا تشکیل دینے کےلیے آئندہ بھی ہمارے پاس کیا انتظام ہے اور اس میں کہاں تک یہ جان ہے کہ ’’شریعت‘‘ یہاں کا سکۂ رائج الوقت بنا دی جائے؟  ’’بل‘‘ اور ’’آرڈیننس‘‘ تو ایک طویل عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں، وہ خالی آواز دینے سے تو نہیں آ جاتے! وہ ’’طویل عمل‘‘ بھلا ہمارے ہاں کہاں ہے؟

4)          جب یہ طے ہے کہ ’’شریعت‘‘ کو لامحالہ اپنی پشت پر ایک سماجی قوت درکار ہے، اور اس کے بغیر شریعت کے خیرخواہ بھی اقتدار میں ہوتے ہوئے شریعت کےلیے بہت کچھ نہ کر پائیں گے... تو یہ درست نہیں کہ آپ اپنی تمام اسلامی امیدیں یہاں کی مذہبی جماعتوں کے انتخابات جیتنے کے ساتھ وابستہ کریں (اندریں حالات)۔ ہماری وہ دلیل کہ پارلیمنٹ کو مکمل طور پر اسلام دشمن عناصر کے سپرد ہو جانے دینا یہاں باطل کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کے مترادف ہو گا... ہماری یہی دلیل کچھ مخصوص حالات میں یہ تقاضا بھی تو کر سکتی ہے کہ یہاں مسلم لیگ اور تحریک انصاف وغیرہ ایسی جماعتوں میں لبرلز کو دندنانے اور اس پوزیشن میں آنے دینا کہ وہ ان جماعتوں کا رخ دین دشمنی کی طرف کر دیں، یہاں باطل کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کے مترادف ہے۔ آخر یہی جماعتیں تو ہیں جنہیں حکومت اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے حالیہ برسوں میں ملکی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا ہے۔ ان پارٹیوں کو بھی دین دشمنوں کی کھل کھیل کےلیے کیسے چھوڑ دیا جائے؟ خود ان کے اندر جو ایک غیرمعمولی تعداد دین سے ایک گونہ وابستگی رکھنے والوں کی پائی جاتی ہے اس کے دینی جذبہ کو کارآمد بنانے کی کوئی دانشمندانہ اسکیم بھی کیوں نہ اختیار کی جائے اور خود یہیں پر لبرلز کے راستے کیوں نہ (ممکنہ حد تک) تنگ کیے جائیں؟ آخر کیا تُک ہے کہ پوری کی پوری ایک پارٹی کو تو لبرلز کی گود میں پڑ جانے دیں اور پھر اُس کے فیصلوں کے ساتھ اُس وقت جا کر الجھیں جب ان پر علمدرآمد کی نوبت ہو، وہ بھی پارلیمنٹ میں اپنی شدید ناکافی تعداد کے ساتھ! آخر جب یہ فیصلے پارٹیوں کے اندر لیے جاتے ہیں (بےشک وہاں پر فردِواحد حاوی ہو) اُن پر وہیں اثرانداز ہونے کی کوئی (ممکنہ) کوشش کیوں نہ ہو؟ چلیے کچھ نہ کچھ مزاحمت تو انہیں وہاں پر دی جائے۔ غرض ’’سماجی عوامل‘‘ کو ہاتھ میں کرنے کی یہ بھی ایک جہت ہے جو اندریں حالات توجہ کی مستحق ہو سکتی ہے۔ پس بےشمار سمتوں سے آپ کو ’’شریعت‘‘ کے حق میں ایک سماجی قوت اکٹھی کرنا ہو گی؛ اگر مقصد آپ کا یہاں ’’شریعت‘‘ کےلیے ایک سازگار فضا قائم کرنا اور اس کےلیے زیادہ سے زیادہ گنجائش ڈھونڈنا ہو۔ نفوذ penetration   کے ایسے ایریاز areas    کی تلاش اگر شروع ہو جائے تو دین سے جذبہ پانے والے دعوتی اور سیاسی عناصر کو اپنے سرگرم ہوجانے کے ان گنت محاذ ملیں گے اور مختلف لوگ یہاں مختلف مورچے سنبھالتے چلے جائیں گے۔ دینی ایجنڈا رکھنے والوں کی ایک فوجِ ظفرموج یہاں ہر جگہ اپنے لیے ’’کام‘‘ دیکھے گی۔ یوں اسلام کی کشتیاں اوپر لے جانے کےلیے یہاں ایک نہایت متنوع محنت سامنے آنے لگے گی۔ اصل چیز مجموعی طور پر اسلامی سیکٹر کو صورتحال پر حاوی کروانا ہے نہ کہ اس کی کسی خاص صورت پر اصرار کرنا۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ لوگوں کی ہمدردیاں لینا ان کے ساتھ پیار اور ملاطفت کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی کے بڑے پر طعن و تشنیع کرنا دل کی بھڑاس نکالنے کی تو ایک آسودہ صورت ہے لیکن اُس کی محبت اور ہمدردی لینے کا موقع یقیناً ضائع کروا دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے عکرمہ﷜ کے سامنے ابوجہل تک کےلیے برے الفاظ ممنوع ٹھہرا دیے تھے۔ دل جیتنا، نفوس کے ساتھ معاملہ کرنا پوری ایک سائنس ہے۔ یہاں اسلامی ایجنڈا کو اعلیٰ نتائج لے کر دینے کےلیے آپ کو پہاڑ ایسے حوصلے چاہئیں ہوں گے۔

5)      سماجی مقوِّمات social essentials   کو ہاتھ میں کرنے کا یہ قاعدہ اگر طے ہو جاتا ہے تو ایک عربی مقولہ بھی اس کے ساتھ رکھ لیجئے: إذا أرَدْتَ أن تُطَاع، فَاسْئَلْ مَا يُسْتَطَاع ’’اپنی بات منوانا چاہتے ہو تو وہ بات کرو جو پوری ہونے والی ہو‘‘۔ یہاں سے؛ ماحول میں دستیاب سماجی مقوِّمات social essentials   کو دیکھنے کی دو جہتیں بیک وقت سامنے آئیں گی:

‌أ.             معاشرے میں موجود مساجد، اذانوں، نمازوں اور دیگر دینی مظاہر کو ایک قیمتی اثاثے asset   کے طور پر دیکھنا۔ یہ مظاہر چاہے مزید آپ کو کچھ بھی نہ دیں، پھر بھی ان کو اپنی ایک قیمتی چیز کے طور پر لینا۔ اس کو اگر بہتر نہیں کیا جا سکتا تو اس حالت میں بھی اس کو شدید قدر کی نگاہ سے دیکھنا اور اِس حالت میں بھی اس کی حفاظت ہی کےلیے پریشان ہونا۔ تصور کیجئے ان سب کاموں کا بیڑا بھی یہاں پر آپ ہی کو اٹھانا پڑتا! بڑی اچھی بات ہوتی لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھتے۔ اس کےلیے ڈھیروں پروگرام بھی سامنے آنے چاہئیں۔ لیکن بڑی ہی خوشی کی بات ہے لوگ بےسمجھے سہی، قرآن کو پڑھتے ہیں۔ یہاں کی سماجی تشکیل میں اس کا بھی ایک اثر ضرور ہو گا اور عنداللہ یہ اس پر مأجور بھی ضرور ہوں گے۔ اور ڈریں اس بات سے کہ یہ بےسمجھے قرآن پڑھنے والے بھی معاشرے میں کم ہونے لگیں۔ تصور کریں تب اِس معاشرے کا کیا بنے گا۔ خصوصاً ایک عجمی معاشرے میں تو یہ غنیمت ہے۔ نبیﷺ کے ساتھ لوگوں کی عقیدت چاہے کچھ بدعات لیے ہوئے کیوں نہ ہو اُس ملحد عفریت کے مقابلے پر جو تیزی کے ساتھ آپ پر مسلط کرایا جا رہا ہے، بسا غنیمت ہے۔ تراویح کے یہ ٹھٹھ، چاہے ان میں سے ایک بھی شخص یہ سمجھ نہ رہا ہو کہ یہاں کیا پڑھا جا رہا ہے، دل کو باغ باغ کر جانے والی چیز ہے۔ یہ سب خدا سے محبت کرنے والے اور آخرت کے طلبگار یہاں قطاریں بنائے کھڑے ہیں۔ یہ جیسے بھی ہیں، اپنی تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ مؤذن کی صدا جانفزا ہے، چاہے کوئی ایک بھی یہاں نہیں سمجھ رہا کہ ان کلمات میں کیا شاندار حقیقتیں بیان ہو رہی ہیں اور وہ ان کی روزمرہ زندگی میں کیا پیغام رکھتی ہیں۔ خطۂ بلقان یا وسطِ ایشیا کے بعض علاقوں یا برما یا مشرقی ترکستان وغیرہ میں معاملہ اس سے بھی دگرگوں ہے تو ہماری نظر کی یہ جہت وہاں اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ یہاں نماز روزہ تک ایک بڑی سطح پر غائب ہے اور رہن سہن میں کافروں سے شاید ہی کوئی فرق باقی ہے، اور یہ بات ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے، تو یہاں کے ایک عام آدمی یا حتیٰ کہ ایک بےپرد عورت کی زبان پر ٹوٹےپھوٹے لفظوں میں ’’لاالٰہ الااللہ محمدٌرسول اللہ‘‘ سن کر اور اِس کلمہ کےلیے اُس کی آنکھوں میں ایک چمک دیکھ کر خود ہماری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے ہیں۔ بےشک یہ چیز ’’انقلاب‘‘ اور ’’اسلامی نظام‘‘ کےلیے انتہائی ناکافی ہےمگر اس پر بھی ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور کچھ وقت کےلیے ہمیں صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ یہ چیز بھی کیسے بچی رہ سکتی ہے۔ یہ ہے ’’سماجی نظر‘‘ جسے انقلابی یا سیاسی اپروچ نے کسی حد تک ہمارے یہاں متاثر کر دیا ہوا ہے اور جس کے باعث نظام ہمارے پیراڈائم میں ضرورت سے کچھ زیادہ جگہ لے گیا ہے۔ حالانکہ دنیا کے اندر بھی ’’ڈیموگرافی‘‘ میں یہ سب چیزیں اپنا وزن رکھتی ہیں اور آخرت کے اندر بھی کچھ خاص احوال میں موجبِ نجات ہیں۔ غرض ان سب اشیاء کو اپنے اُس بچےکھچے اثاثے کے طور پر لینا جو اِس وقت ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ اپنی جتنی تعمیرات ہونی ہیں، اسی سے ہونی ہیں۔ اور کہیں سے ہمیں یہ مواد نہیں ملنا۔

یہاں ایک اہم نکتہ ہے: موسیٰ﷣ کے احوال قرآن میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ بلکہ بہت سی باتیں مکرّر آئی ہیں۔ بنی اسرائیل کو بڑی شدید سرزنش بھی جابجا وارد ہوئی ہے۔  لیکن بنی اسرائیل کو سرزنش کا جتنا بیان ہے وہ فرعون سے خلاصی پانے کے بعد کا ہے۔ کیا مصر میں اُن کی سب خصلتیں ٹھیک ہی ہوں گی اور وہاں ان کی تمام زندگی اسلام پر قائم ہی ہوگی؟ اسلام پر قائم ہوتے تو فرعون سے جوتے ہی کیوں کھاتے۔ لیکن وہاں اُنہیں وہ جس حال میں ہیں بظاہر قبول کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ڈانٹ ڈپٹ بھی وہاں نہیں ملتی (صرف ہمتیں بڑھانے اور اعتماد دلانے والا اسلوب ملتا ہے)۔ حالانکہ کیساکیسا زوال نہیں آیا رہا تھا وہاں اُن پر۔ اسے کہتے ہیں سماجی نظر۔  اس حالت میں امت پر شرطیں عائد نہیں کی جاتیں۔ اُن سے جو مل سکتا ہے وہ لیا جاتا ہے۔ إذا أرَدْتَ أن تُطَاع، فَاسْئَلْ مَا يُسْتَطَاع اور ان کو ایسی اسکیمیں بنا کر دی جاتی ہیں جو ان کے انجام دینے کی ہوں۔

یہ ہوا ماحول میں دستیاب سماجی مقوِّمات کو ایجابی انداز میں لینا۔

‌ب.       دوسرا ہے اِن سماجی مقوِّمات social essentials   کو کارآمد بنانا۔

لوگوں سے ایسے مشکل تقاضے کیے بغیر جو وہ ادا کرنے والے نہیں، آپ کو انہیں کچھ ایسی اسکیمیں بنا کر دینا ہوتی ہیں جو ایک وسیع تر تناظر میں in the long run   معاملے کی مجموعی تصویر بدل کر رکھ دینے والی ہوں۔ یہاں اگر آپ عام لوگوں کو، وہ جیسے ہیں کی شرط پر، اپنے ساتھ انگیج engage   نہیں کر سکتےاور یہاں دستیاب پوٹینشلز کو کوئی کارآمد راستہ نہیں دکھا سکتے تو آپ کی قیادت اور منصوبہ بندی میں ضرور کوئی خلل ہے۔ اِس کا گلہ آپ اُن سے نہیں اپنے سے کریں۔ ہر آدمی سے طلب کرنے کےلیے آپ کے پاس کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہئے اور وہ ایسا آسان کام ہو جو اُس کے کرنے کا ہو۔ کم از کم بھی، اللہ اور اُس کے رسول سے اپنی عقیدت نمایاں کرنے کے کچھ مظاہر تو اُس کو ضرور مہیا کرنے چاہئیں۔ ایک مجموعی تصویر میں یہ بات بھی ایک کمال اثر رکھے گی۔ ہمارے ائمۂ سنت امت کے فاسق سے فاسق طبقوں کے ساتھ بھی ایک کمال کمیونی کیشن رکھتے اور گویا ایمان کے کچھ سماجی تقاضے اُن سے بھی ادا کروا لیتے تھے۔ شیخ سفر نے کئی مقامات پر اس جانب خصوصی توجہ دلائی ہے۔ امت کے یہ فاسق فاجر بھی باطل کے ساتھ ہماری جنگ میں ایک فریق بن سکتے ہیں بشرطیکہ ہمیں کمیونی کیشن کا ڈھنگ آ جائے اور ہر آدمی کےلیے ہمارے پاس خدمتِ اسلام کا ’ایک ہی‘ پیکیج نہ ہو۔ ٹھیک ہے کچھ مخصوص لوگوں کے سامنے آپ یہ تقاضا رکھ لیں کہ ہماری جماعت میں آئیں اور اس کے پورے پروگرام کو سمجھ کر اختیار کریں اور اس کی منظم جدوجہد میں باقاعدہ شریک ہوں۔ مگر سامنے کی بات ہے، یہ تقاضا تو چند ہزار لوگ ادا کر لیں تو بڑی بات ہے۔ آپ خود جانتے ہیں ایک بڑی تعداد اِس پر آنے کی نہیں۔ آخر اُن کےلیے آپ کے پاس کیا ہے؟ کوئی ایسی چیزیں جو اُن کے بھی کرنے کی ہوں اور وہ چیزیں یہاں کی مجموعی تصویر پر اثرانداز ہونے والی بھی ہوں۔ اگر آپ ایک قیادت ہیں تو ہر کسی کو دینے کےلیے آپ کے پاس کچھ کام ہونا چاہئے۔ پوری قوم کی قیادت کیجئے۔ بصورتِ دیگر آپ اُن چند سو یا چند ہزار لوگوں کو بھی قوم سے کاٹ ڈالیں گے جو آپ کے ساتھ چلنا قبول کر چکے ہوں۔ اور عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔  یہاں ہر جماعت معاشرے سے کٹی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہر جماعت کے پاس اپنے کارکن کو دینے کےلیے کام ہے ’’معاشرے‘‘ کو دینے کےلیے کوئی کام نہیں۔ بھئی یہ عام آدمی آپ کی جماعت جوائن کرنے پر آمادہ نہیں۔ ووٹ آپ کو دینے والا نہیں۔ ہے یہ آپ کی امت۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت اس کو بھی ہے۔ کیا واقعتاً اس کو ایمان کے کچھ تقاضوں کے ساتھ اینگیج engage   کرنے کی کوئی صورت آپ نہیں دے سکتے۔  یہاں آپ کو خاصا حوصلہ مند ambitious    اور خاصا تخلیقی creative   ہونا ہوتا ہے اور تنظیم سے اوپر اٹھ کر ’’امت‘‘ کی سطح کے کچھ پروگرام اور منصوبے سامنے لانا ہوتے ہیں۔ ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ کی اس جنگ میں آپ کو لہجے ہی ایسے لانے ہوں گے جو معاشرے کے زیادہ سے زیادہ افراد کے حق میں شمولیت انگیز inclusive  ہوں نہ کہ امتیازی اور باہر رکھنے والے exclusive ۔ یہ بات ہو جائے تو بس یہ میدان آپ کا ہے۔ ان شاءاللہ

  ******

اس سلسلہ کے گزشتہ مضامین:





 



[1]  پہلا نقطہ ایقاظ کا عمومی موضوع ہے۔ یہ دوسرا نقطہ ان مضامین میں کچھ واضح کیا گیا ہے:

1.           ’’درمیانی مرحلہ کے بعض احکام‘‘ (ایقاظ، اپریل 2013)

2.           واقعۂ  یوسف﷣ کے حوالے سے ابن تیمیہ کی تقریر (ایقاظ جولائی 2013)

3.           غیرشرعی نظام کو بنانے اور اس کے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے (ایقاظ اپریل 2014)

4.           ’’لوگوں کو بتدریج دین پر لانا‘‘ (ایقاظ، اکتوبر 2014)

5.           الحنیفیۃ السمحۃ (ہماری تالیف ’’موحد تحریک‘‘ کی ایک فصل)

[2]  یہاں ایک ممکنہ اعتراض کے حوالہ سے، ہماری دوبارہ درخواست ہو گی، شیخ ابراہیم السکران کا یہ مضمون دیکھ لیا جائے: غیرشرعی نظام کو بنانے اور اسکے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے (ایقاظ اپریل 2014)۔ اس کے علاوہ ہمارے وہ دیگر مضامین جن کا ہمارے پچھلے حاشیہ میں ذکر ہوا ہے۔

[3]  ’’رسالت‘‘ کو ایمان اور عمل کا محور بنانا اِس وقت خاص طور پر ضروری ہو گیا ہے۔ یعنی

Ü  اسلام (رسالتِ محمدی) کا واحد حق ہونا، اور اس کے سوا ہر دین، ہر طرزِ حیات کا باطل اور موجب جہنم ہونا،

Ü  عمل کی روحِ رواں اتباعِ شرعِ محمدﷺ نہ ہو تو خواہ وہ عمل سونےچاندی کا کیوں نہ ہو نرا مردود اور موجبِ ہلاکت ہے

چونکہ مقابلے پر ہیومن اسٹ ڈسکورس ہے، لہٰذا اس عقیدہ کا احیاء  اسلامی سیکٹر کو ایک زندگی دے جائے گا اگر بروقت اِس کے سُر چھیڑ دیے گئے۔ ان شاء اللہ۔ رسالت پر ایمان کی اِس جہت پر اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیے ہماری ایک مختصر تحریر ’’ہیومن ازم اپنی برہنہ صورت میں‘‘۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک پمفلٹ: فتنۂ ہیومن ازم۔

[4]  اِس ’’نصرت‘‘ کو کسی ایک شکل میں محصور کر دینا البتہ سنگین غلطی ہو گی۔ (مثلاً ہر کسی کو ایک ہی mode   دینا کہ تمہیں لازماً کسی تنظیم میں جانا ہو گا اور اس کے علاوہ نصرتِ دین کی کوئی صورت نہیں! یہ چیز معاشرے میں دینِ محمدؐ کی نصرت و تقویت کے عمل کو شدید مشکل، محدود اور جامد کر دینے کا باعث ہو گی)۔ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ دعوت تو دینِ محمدؐ کی نصرت ہی کو (ایک مطلق انداز میں) ’’ایمان‘‘ کا موضوع بنا کر رکھے۔ ہاں ’’فرد‘‘ جب دینِ محمدؐ کی نصرت پر اصولاً آمادہ ہو جائے، تو اسے صرف اس بات کی تلقین ہونی چاہئے کہ وہ اپنی پہنچ کے اہل علم سے رجوع کرے اور مسلسل ان کی ہدایت وتربیت میں رہے جو اُس کے احوال کے مطابق، نیز معاشرے کی ضرورتوں کی رعایت سے، اُسے دین کے فرائضِ شخصی و اجتماعی پر کاربند ہونے میں مدد دیں گے (جس میں اُس فرد سے متعلقہ نصرتِ دین کی صورتیں اور اس کے ممکنہ میدان خودبخود آ جائیں گے) نیز وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس کے فرائض اور عمل کے ممکنہ میدانوں میں ضروری تبدیلیاں developments   بھی تجویز کر دیا کریں۔  نیز بعض لوگوں کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور ذمہ دار رویّوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اِس لائق بھی قرار دیں کہ اپنے تدبیری فیصلے وہ خود کرے اور اہلِ علم سے صرف علمی و فقہی راہنمائی لے۔

[5]  یہاں ہماری تجویز ہو گی کہ ’’حق گوئی‘‘ کی نصرت و اعانت کےلیے، کچھ دردمندانِ قوم یہاں ایک فنڈ ایسا قائم کریں کہ معاشرے میں جو بھی خطیب یا عالم یا مفتی یا مصلح اپنی حق گوئی کے باعث جاب لیس jobless   کر دیا جائے (جس کا جگہ جگہ امکان ہے)، یا کسی اور پریشانی کا سامنا کرے، اُسے اُس پریشانی سے نکل آنے تک ایک معقول مالی تعاون فراہم ہو۔ یا کم از کم ایسا سیٹ اپ جو علاقہ کے اصحابِ خیر کو اِس جانب توجہ دلانا اور اس کی اعانت کو یقینی بنوانا اپنی ذمہ داری جانے۔ نیز کوئی نیٹ ورک جو ایسے ہیروں کو بہتر سے بہتر متبادل جگہوں پر کھپانے کا انتظام کرے۔

غرض دعوت کی خدمت میں علم والے اپنا علم لے آئیں اور مال والے اپنا مال۔ اور انتظامی صلاحیتوں والے اپنی یہ صلاحیت۔

[6]  دعوت کا پیکیج ویسے بھی مختصر رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم اِس پورے مضمون میں جس دعوتی ضرورت کی بات ہو رہی ہے وہ ہے اِس وقت ہمارے معاشرے پر حملہ آور ہیومن اسٹ کفر اور اس کی اہم اہم مصنوعات  کے مقابلے پر مسلم عقول کی قلعہ بندی اور اسلام کے سماجی کردار کی بحالی۔

[7]  آپ نے نوٹ فرمایا ہو گا باہر سے چلنے والے پروگراموں کےلیے ہمارے یہیں کے ملازم اور افسر نہایت معیاری کارکردگی دکھاتے ہیں! یعنی باہر کے ملک جائے بغیر گویا یہ یہاں کے نہیں! ایک لمحۂ فکریہ۔ یہاں ’’امامت‘‘ کے افلاس پر ایک واضح و افسوسناک دلیل۔

[8]  ذرا اندازہ کرتے جائیں، یہاں چند درجن دین باختہ کالم نگار اور اینکر پوری قوم کی ذہن سازی کر جائیں اور ہزاروں ائمہ و خطباء بڑےبڑے مجمعوں کے ساتھ اس کام سے عاجز، ہاتھ ملتے رہ جائیں! واللہ، خدا کے اِس جہان میں کوئی قوم بےوجہ مار نہیں کھاتی!

[9]  مکرر عرض کر دیں، ہم نے یہ نہیں کہا کہ اسلامی سیکٹر نے اس جنگجوئی militancy   کی  کبھی کوئی تائید کی ہے۔ ہرگز نہیں۔  حق یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر نے بالعموم اس کا رد ہی کیا ہے۔  ہم یہاں جو بات کہہ رہے ہیں وہ یہ کہ جس شدت کے ساتھ اسلامی سیکٹر کو اس کا رد کرتے ہوئے پچھلے سالوں میں نظر آنا چاہئے تھا وہ شاید اس سے نہیں ہو سکا، گو اس کی کچھ اپنی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر اس کا نقصان ملک کے اندر اسلامی ایجنڈا کے حق میں شدید رہا۔

[10]  پیچھے جو وضاحت ہو آئی ہے اس کی روشنی میں: ایسے کوئی مطالبے کرنا یا ایسی کوئی تحریک چلانا (نفاذِ شریعت کے حوالے سے) ہم ایک دعوتی جماعت کے حق میں تجویز کریں گے نہ کہ ایک سیاسی جماعت کے حق میں، اندریں حالات۔ کیونکہ ایک سیاسی جماعت کےلیے فی الوقت ہماری تجویز یہی ہو گی کہ وہ مذہب کا لمبا چوڑا نام لیے بغیر، اور کوئی مخصوص مذہبی فیس face   اختیار کیے بغیر، یہاں سیاست کے میدان میں کچھ راستے بنائے۔ تفصیل کےلیے اِس فصل کا دوسرا مبحث پڑھیے۔

[11]  بغور دیکھیں تو قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے کی تحریک جو دو عشرے چلتی رہی، صرف اِس ایک نقطے پر تھی۔  اس کے ذریعے آپ نے گویا امت کی ایک دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ یہ ایک مطالبہ ایسا تھا جس پر ایک کامیاب rallying   کرنے کے نتیجے میں اسلامی سیکٹر معاشرے کے اندر مسلسل ایک مومنٹم حاصل کر رہا تھا اور فریقِ مخالف ایک مشکل پوزیشن میں چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اُس کو گھٹنے ٹیک دینا پڑے۔ لیکن اسلامی سیکٹر کیونکہ کسی منصوبہ بندی کے تحت یہ نہیں کر رہا تھالہٰذا اس کے بعد وہ اپنا کوئی اگلا پتہ نہ پھینک سکا۔

خلاصہ یہ کہ ’’پوری شریعت‘‘ کا مطالبہ ایک عمومی انداز تک ہی محدود رہنا چاہئے؛ گو اس میں بھی بھرپور زور ہونا چاہئے۔ البتہ عملاً  چند (یا ایک ہی) اسلامی مطالبہ ایک وقت میں سامنے لائیے۔ اس (ایک مطالبے) کا انتخاب کرنے میں البتہ بھرپور سماجی و سیاسی بصیرت کا ثبوت دیجئے۔  فریقِ دیگر جب شریعت کو اون own   نہیں کر رہا اور وہ شریعت کو جو دے گا ازراہِ مجبوری دے گا تو اصل چیز ہوئی اُس کےلیے ایک مجبوری کھڑی کرنے میں کامیابی پانا (شریعت کےلیے اس کے بغیر یہاں آپ کو جگہ نہیں مل سکتی)۔ یہ مجبوری پیدا کرنے کی کوئی صورت عوامی موبلائزیشن اور برسراقتدار طبقوں کے اچھے عناصر کو شریعت کا طرفدار بنانے کے علاوہ فی الوقت آپ کو میسر نہیں ہے۔ اب جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو انہیں کوئی ایک آدھ موٹی tangible   بات زیادہ آسانی سے سمجھ آتی ہے بہ نسبت کسی بڑے پیکیج کے۔ دوسری جانب حکومت بھی کسی ایک آدھ بات کو انکار کر کے زیادہ بری پڑتی ہے جبکہ وہ بات بھی ایسی ہو کہ حکومت کے پاس اسے ناں کرنے کے کم سے کم بہانے ہوں۔  خود برسراقتدار طبقوں میں کسی ایک آدھ بات کے حق میں رائے ہموار کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے بہ نسبت ایک بڑا پیکیج منوانے کے۔ یہاں (برسراقتدار طبقوں میں) آپ نے اپنے ہم خیال پیدا کرنا ہوتے ہیں، اور جو ہم خیال نہ ہو سکیں ان میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا ہوتا ہے، اور ایسے لوگوں کو سنگل آؤٹ single out   کرنا ہوتا ہے جو تن کر شریعت کے مقابلے پر آئیں۔ [واضح رہے، شریعت کی ایک بات بھی شریعت ہی ہے؛ او ر یہ مسئلہ اول تا آخر ایمان کا ہے، اس میں ایمانی اسلوب ہی اختیار کرنا چاہئے، جس میں حکمران طبقوں کے ساتھ قولِ لیِّن (نرم اندازِ خطاب) کو آخری حد تک ترجیح دی جاتی ہے فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ

[12]  کسی اور مقام پر یہ بات ہم نے تفصیل سے کی ہے مگر یہاں اتنا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ یہ اسلامی اقدامات آپ نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر نہیں کروائے تھے، بلکہ بہت تھوڑی سیٹیں رکھتے ہوئے اتنا کچھ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بس اِسی فن میں آپ کو طاق ہونا ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز