عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
میرے بندے جب میرا پوچھیں!
:عنوان

بادشاہ آج دینے پر آیا ہوا ہے؛ اور اتنا فیاض و مہربان کہ آج جو اُس سے نہیں مانگتا وہ اس سے خفا ہو جانے والا ہے۔ ہاں عنقریب درخواستیں جمع کرانے کی یہ تاریخ گزر جانے والی ہے؛ پھر یہ دفتر کبھی نہیں کھلے گا۔ اس کا

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

آیاتِ صیام کا حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

(البقرۃ: 186۔ 187)

اور جب میرے بندے میرا پوچھیں تو (بتاؤ) میں قریب ہی ہوں۔ پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں وہ جب مجھے پکارے۔ پس چاہئے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھےہی مانیں۔ کیا بعید کہ راستہ پاجائیں۔

روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا۔ وہ تمہارا پردہ ہیں اور تم ان کا پردہ۔ اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں پاتے تھے؛ تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا۔ تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو، اور کھاؤ  اور پیئو، یہاں تک کہ الگ نظر آنے لگے تمہیں سفید دھاری سیاہ دھاری سے (پوپھٹ کر)؛ پھر رات آنے تک روزہ پورا کرو۔ اور عورتوں سے صحبت مت کرو مساجد میں اعتکاف کے عرصہ میں۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ۔ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں؛ شاید کہ پرہیزگاری پا جائیں۔

اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کے ساتھ اثرورسوخ لڑا کر کسی کا کچھ مال ظلم سے ہتھیا لیا کرو، اس حال میں کہ تمہیں علم ہو۔

******

روزہ خدا کا التفات پانے کی ایک قوی تعبیر ہے۔ لہٰذا دعاء کا ایک عظیم مبحث قرآنِ مجید میں کسی اور مقام کی بجائے یہیں پر بیان ہوا:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

احادیث میں بھی روزہ دار کی دعاء کی قبولیت کا خصوصی ذکر ہوا ہے۔

جان لو: انسان کا خدا کو پکارنا بجائےخود عبادت ہے۔ یہ توحید کا ایک مرکزی مضمون ہے۔ کسی ہستی کے آگے اپنا فقر اور ضرورت رکھنا، اور اُس کی عنایت اور مہربانی کا سوالی ہونا عبادت کا ایک نمایاں مظہر ہے اور اُس کی خدائی و فرماں روائی کا ایک کھلا اعتراف۔ اسی لیے؛ حق تعالیٰ نے یہ بات اپنے لیے خاص رکھی۔ روزہ دار، بھوکا پیاسا، جب خدا کو پکارتا ہے تو اس میں فقر و حاجتمندی کے کچھ اضافی معانی شامل ہو جاتے ہیں؛ پھر جبکہ وہ بھوک اور پیاس بھی مجبوری کی نہیں؛ بلکہ اختیاری ہو؛ اور خدا کا التفات پانے اور خدا کو اپنا شوق اور محبت دکھانے ہی کےلیے اٹھا رکھی گئی ہو۔

اصحابِ ذوق نے اِس قرآنی مقام پر بڑے بڑے لطیف مباحث اور راز و نیاز کے نکتے بیان کیے ہیں۔ ذرا اِس آیت کا اسلوب دیکھو:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي

’’میرے بندے جب میرا پوچھیں‘‘!

ماں کسی وقت بچے سے چھپ جاتی ہے؛ یہ دیکھنے کےلیے کہ بچہ ماں کو کیونکر ڈھونڈتا اور کیسےکیسے اس کےلیے بےتاب ہوتا ہے! کیا  کبھی تمہیں کسی ننھے توتلے بچے کو دیکھنے کا تجربہ ہوا جو اپنی ماں کا پوچھتا اور گھر میں ہر طرف اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہے؟! وہ ایک بار نہیں بیس بار تمہارے پاس آ کر اور موٹےموٹے آنسو بھر کر اپنی ’ماں‘ کا پوچھتا ہے! اس بچے کے چہرے پر چاہت، بےچینی اور جستجو کے رنگ آتے جاتے کبھی ملاحظہ کرو تو خود تمہارے قلب میں عبدیت کے ہزاروں معانی چھلک پڑیں! یہاں بھی عین وہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے: ایک بےتابی خدا کو پانے کےلیے۔ جوکہ شرط ہے خدا کو پا لینے کی!

اور یہاں پردہ اٹھتا ہے:

فَإِنِّي قَرِيبٌ

’’میں پاس ہی ہوں‘‘!

اور رحمتِ خداوندی اِس پوچھتے بِلکتے بندے کو فی الفور اپنی آغوش میں لے لیتی ہے:

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

دعاء میں ویسی ہی چاہت، طلب اور جستجو جو محبت اور عبدیت کے وجود سے خودبخود پھوٹ کر آتی ہے جیسی ہم نے ’ماں‘ کا پوچھتے پھرتے اُس بچے کے اندر دیکھی تھی... خاص ایسے عبد کی پزیرائی ہی کےلیے خالقِ بےنیاز نے دنیا کے اندر یہ منادی کروائی ہے... اور اس کی قدر بس یہ عبد ہی جان سکتا ہے!

سچ پوچھو تو ان چند الفاظ (وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي) میں معانی کا ایک سمندر ہے؛ ذرا اِس میں کچھ غوطے لو تو تمہیں محبت، عبادت، چاہت اور جستجو کے وہ نایاب موتی ہاتھ لگیں کہ تم دنیا کی ہر مخلوق کےلیے قابل رشک ہو جاؤ!

اور یہ بھی یاد رکھو: خدا کی تلاش تمہیں اگر نبی کے در تک لے کر نہیں پہنچتی... خالق کا پتہ پانے کےلیے تمہارے اندر اگر وہ سوال نہیں مچلتے جو وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي  سے اپنا پتہ دیتے ہیں؛ اُس حقیقتِ منتظر کےلیے تمہاری جبینِ نیاز میں اگر وہ ’ہزاروں سجدے‘ نہیں تڑپ رہے... تو تم اس پیاس سے ناآشنا ہو جس کا مداوا کرانے کےلیے دنیا میں رسالت کا حوضِ کوثر مہیا کر رکھا گیا ہے؛ اور جہاں سے قسمت والے بھر بھر پیتے رہے۔

خوب جان لو! انسان پر وجود کے کچھ ناقابلِ تصور مرحلے بیت چکے اور کچھ لامتناہی مرحلے ابھی اِس کی راہ تک رہے ہیں۔ وجود کے ان لامتناہی ادوار کے مقابلے پر ’’دنیا‘‘ گویا محض ایک گھڑی ہے۔ دنیا کی یہ مختصر سی گھڑی دراصل اِس لیے ہے کہ یہ مخلوقِ ناطق اپنی طلب آزادانہ زبان پر لائے۔ اِس کے سوا ’دنیا‘ کی سمجھو کوئی حقیقت نہیں۔ یعنی کوئی ایسا جہان جہاں بندہ خود اپنے منہ سے بول کر خدا کو بتائے کہ یہ کیا چاہتا ہے۔ لب کشائی کا ایک آزادانہ موقع کہ اُس لامحدود فضل کے مالک سے کبھی یہ مانگے تو کیا مانگے گا۔ واحد محل جہاں یہ خدا کےلیے اظہارِمحبت کرے تو وہ اُس کے ہاں سنا جاتا ہے۔ خدا کی رحمت کےلیے یہ درخواست کرے تو وہ اُس کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ اُس کے غضب اور قہر سے یہ اُس کی پناہ مانگے تو وہ اِسے پناہ دیتا ہے۔ آج وہ اِس کی سنتا ہے۔ کل وہ اِس کی نہیں سنے گا۔ ایسا کمال موقع! پس ضروری تھا کہ وہ اپنی رسالت کے ذریعے اِس نایاب ترین موقع کی خوب خوب منادی کروا دے: کہ اُس کے ہاں پزیرائی پانے کا وقت آج ہے؛ کل نہیں ہوگا۔ اور ہمت والوں کو خوب خوب یقین دلائے کہ یہ جتنا اُس کو پکاریں وہ اتنا اِن کی سنے گا۔ آج یہ جتنا اُس کا التفات پانا چاہیں، اس کا خوب خوب موقع ہے:

فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

تو (بتاؤ) میں قریب ہی ہوں۔ پکارنے والے کی پکار سنتا ہو جب وہ مجھے پکارے۔

اُس کا التفات پانے کی واحد صورت پس یہ ٹھہری کہ: غیب کی اوٹ میں یہ اسے آواز دے اور بن دیکھے اس کی جستجو کرے؛ جب وہ سامنے ہی آگیا تو کون ہے جو اُس کا التفات نہ چاہے گا۔ مگر اب موقع ختم۔ اب تو، جو پالیا گیا تھا، اسی سے محظوظ ہونے کا وقت ہے۔ اور اگر کچھ بھی نہ کیا گیا تھا، تو پچھتانے کا۔

پس قرآن کا یہ مقام اصحابِ ذوق کے ہاں یوں لیا جاتا ہے جیسے خیرات بٹنے کا اعلان۔ لُوٹ لگی ہے اور بھیڑ کرنے کا وقت ہے۔ بادشاہ نے اعلان کر دیا ہے لوگ اپنی اپنی عرضیاں لے کر پہنچیں؛ آج دفتر کھلا ہے اور ہر درخواست قبول ہوتی ہے۔ بادشاہ نے پیشگی اعلان کر ڈالا ہے کہ کوئی درخواست ہے ہی نہیں جو رد کر دی جائے گی؛ جو مانگنا ہے سو مانگ لو۔ دامن جتنا پھیلا سکتے ہو پھیلا لو؛ عطا کی کمی نہیں! یہاں؛ تنگیِ داماں سے مار کھانا اصل درماندگی ہے! بادشاہ آج دینے پر آیا ہوا ہے؛ اور اتنا فیاض و مہربان کہ آج جو اُس سے نہیں مانگتا وہ اس سے خفا ہو جانے والا ہے۔[1]  ہاں عنقریب درخواستیں جمع کرانے کی یہ تاریخ گزر جانے والی ہے؛ پھر یہ دفتر کبھی نہیں کھلے گا۔ اس کا ایک ایک ورق سربمہر ہو جائے گا اور اُس بڑی کچہری کے دن کھلے گا جو ’’جزا کا دن‘‘ ہے؛ یعنی قول اور عمل کی زبان سے آج جو ’’مانگا‘‘ گیا تھا وہ ’’دیے جانے‘‘ کا دن ہے۔

پس یہ دو گھڑی کا جہان ہے ہی ’’درخواستیں‘‘ جمع کروانے کےلیے۔ دنیا کی حقیقت اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کا نایاب ترین موقع! یہاں جو اِدھراُدھر کے کسی تماشے میں لگ گیا اس کے ہاتھ سے قسمت سنورنے کا یہ موقع ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جاتا رہا۔

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

’’پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں وہ جب مجھے پکارے‘‘۔

آج جو ہاتھ پھیلایا جائے گا خالی نہ لوٹایا جائے گا؛ یہ اُس دربار کی شان کے منافی ہے۔ جو کاسہ اُس کے آگے پھیلایا جائے گا بھر کر دیا جائے گا۔

إِنَّ اللهَ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ، نَزَلَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟ هَلْ مِنْ تَائِبٍ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ؟ هَلْ مِنْ دَاعٍ؟ حَتَّى يَنْفَجِرَ الْفَجْرُ                          (صحیح مسلم، عن ابی ھریرۃ عن النبیﷺ، رقم 758)

یہاں تک کہ جب رات کی ایک تہائی گزر جائے، تو اللہ رب العزت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ اور اعلان کرتا ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ ہے کوئی سوالی؟ ہے کوئی پکارنے والا؟ یہاں تک کہ فجر (کی پو) پھٹ جاتی ہے۔

ہاں گدائی کے کچھ آداب یہاں مقرر ہیں۔ اور بھلا وہ کونسا دربار ہے جہاں کچھ آداب نہ ہوں اور درخواست گزاروں کےلیے کوئی ضوابط نہ ہوں! اور کیا برا ہے کہ ان آداب اور ضوابط کی پابندی کر لی جائے اور قسمت بنانے کا یہ موقع کھراکر لیا جائے:

فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

’’پس چاہئے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھے ہی مانیں۔ کیا بعید راستہ پا جائیں‘‘۔

درخواست گزاروں کو ہدایت ہوئی ہے کہ وہ بادشاہ کی منادی پر لبیک کہیں۔ اُس کی بادشاہی اور اپنی بندگی و عاجزی کا نہایت خوب دم بھریں۔ اس کے سوا ہر در سے اٹھ آئیں۔ اور اُس ایک کے سوا ہر کسی کی خدائی کا انکار کریں۔

وہ کاسۂ گدائی جو اُس کے آگے پھیلایا جائے گا عبادت اور انکساری کی مٹی سے بنا ہو اور صرف اُس ایک کے آگے پھیلانے کےلیے رکھا گیا ہو۔ دربار لگنے کی جو منادی زمین پر ’’رسالت‘‘ کے ذریعے ہوئی، اس کا التزام ہو اور منادی کرنے والے کی راہنمائی تسلیم ہو۔ خدا کی رحمت کو آواز دینے کا جو طریقہ اور سلیقہ منادی میں مقرر ٹھہرایا گیا اس کی حرف بحرف پابندی ہو۔ عبدیت کے جو اطوار اس میں سکھائے گئے ان کو اختیار کیا جائے۔ بلکہ عبدیت کے یہ اطوار جو رسالت بھیج کر اِن کو سکھائے گئے بذاتِ خود ’’دعاء‘‘ ہے۔ ’’بندگی‘‘ کا کوئی عمل ایسا نہیں جو ’’طلبِ التفات‘‘ شمار نہ ہوتا ہو خواہ ’’تمنا‘‘ زبان پر آئے یا ’’تمہید‘‘ پر ہی درخواست نمٹ جائے اور ’’تمنا‘‘ زبان پر آنے سے رہ جائے! اُسے تو عبد کے اندر بس ایک شوق اور میلان دیکھنا ہے؛ ورنہ اِس کی ’’طلب‘‘ تو زبان پر آنے سے پہلے پوری ہوتی ہے!

یہاں سے؛ علماء کے ہاں ’’دعاء‘‘ کی دو قسمیں ہوئیں:

دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت۔

دعائے عبادت کے تحت علماء نے کہا:

ہر عبادت درحقیقت طلبِ التفات ہے: تسبیح دعاء ہے۔ حمد دعاء ہے۔ ذکر دعاء ہے۔ سجدہ دعاء ہے۔ رکوع دعاء ہے۔ قیام دعاء ہے۔ طواف دعاء ہے۔ قربانی دعاء ہے۔ نذر دعاء ہے۔ روزہ دعاء ہے۔ زکات دعاء ہے۔ حج دعاء ہے۔ جہاد دعاء ہے۔ ہجرت دعاء ہے۔ خدا کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور دشمنوں کے ساتھ دشمنی دعاء ہے۔ طلبِ رزقِ حلال دعاء ہے۔ ماں باپ کی خدمت اور اطاعت دعاء ہے۔ ٹھٹھرتی راتوں میں لحاف چھوڑنا اور عمدہ وضو کرنا دعاء ہے۔ خدا سے ڈرنا دعاء ہے۔ خدا سے محبت کرنا دعاء ہے۔ خدا کی حدوں کی پابندی کرنا دعاء ہے۔ خدا سے امید رکھنا اور خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا کی طرف اِنابت کرنا دعاء ہے۔ غرض وہ تمام حرکات و سکنات جو اِس فقر کے پتلے کو بذریعہ رسالت الہام کی گئیں کہ ان کے ذریعے یہ خدا کے ہاں پزیرائی پا سکتا اور اس کی رحمت کےلیے درخواست گزار ہو سکتا ہے ان تمام حرکات و سکنات کو ’’دعاء‘‘ کہا گیا۔ یہ ہوئی دعائے عبادت۔

جبکہ دعائے مسئلہ: اپنی کوئی طلب زبان پر ہی لے آنا۔ مثلاً کہنا: خدایا مجھے معاف کردے۔ خدایا مجھ سے راضی ہو جا۔ خدایا مجھ پر رحم فرما۔ مجھ پر کرم کر۔ خدایا دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچا۔ خدایا مجھے جنت الفردوس عطا کر۔ خدایا دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ۔ خدایا مجھے آفتوں اور فتنوں سے محفوظ رکھ۔ خدایا مجھے اچھا رزق دے۔ تندرستی دے۔ عافیت نصیب کر۔  میری اولاد کو نیک کر۔ مجھے نیک عمل کی توفیق دے۔ وغیرہ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کا فرق کیا ہی خوب بیان کیا۔ فرماتے ہیں:

ولفظ دعاء الله في القرآن يُراد به دعاء العبادة، ودعاء المسألة؛ فدعاء العبادة يكون الله هو المراد به، فيكون الله هو المراد. ودعاء المسألة يكون المراد منه؛ كما في قول المصلّي: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْنُ}؛ فالعبادة إرادته، والاستعانة وسيلة إلى العبادة إرادة المقصود، وإرادة الاستعانة إرادة الوسيلة إلى المقصود، ولهذا قدّم قوله: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ} وإن كانت لا تحصل إلا بالاستعانة؛ فإنّ العلّة الغائيّة مقدّمة في التصوّر والقصد، وإن كانت مؤخّرة في الوجود والحصول، وهذا إنّما يكون لكونه هو المحبوب لذاته    (کتاب"النبوات" مؤلفه ابن تيمية ج 1 ص 377)

’’اللہ کو پکارنے‘‘ کا لفظ جو قرآن میں وارد ہوا، اس سے مقصود دعائے عبادت بھی ہوتی ہے اور دعائے مسئلہ بھی۔

دعائے عبادت میں: آدمی خدا کی طلب کرتا ہے۔

اور

دعائے مسئلہ میں: آدمی خدا سے طلب کرتا ہے۔

اور یہ دونوں باتیں اس (ایک ہی آیت میں) آئیں جو نمازی کی زبان پر (باربار) آتی ہے: إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی ’’تیری ہی ہم عبادت کریں اور تجھ ہی سے استعانت‘‘۔ چنانچہ عبادت ہوئی خدا کو اپنا مقصود بنانا۔ جبکہ استعانت اِس عبادت کا ذریعہ؛ یعنی اِس مقصود کو پانے کی سبیل کرنا۔ استعانت چاہنا دراصل اس مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ اختیار کرنا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ  إِيَّاْكَ نَعْبُدُ  پہلے آیا۔ گو یہ عبادت، استعانت کے بغیر ہے ناممکن۔ کیونکہ غایت اپنے متصور اور مقصود ہونے کے اعتبار سے مقدم ہی ہوتی ہے، گو وجود میں آنے اور حاصل ہونے کے اعتبار سے وہ (ذریعے کے) بعد آتی ہے۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ خدا آپ اپنی ذات میں محبوب اور مطلوب ہے۔

خود اِس آیت کے تحت، شیخ الاسلام﷫ فرماتے ہیں:

وَعَلَى هَذَا فَقَوْلُهُ: {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ} يَتَنَاوَلُ نَوْعَيْ الدُّعَاءِ. وَبِكُلِّ مِنْهُمَا فُسِّرَتْ الْآيَةُ. قِيلَ: أُعْطِيهِ إذَا سَأَلَنِي. وَقِيلَ: أُثِيبُهُ إذَا عَبَدَنِي. وَالْقَوْلَانِ مُتَلَازِمَانِ. (مجموع الفتاوى ج 15 ص 11)

بنابریں آیت وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ دعاء کی ہر دو قسم کو شامل ہے۔ (دعائےعبادت و دعائےمسئلہ)۔ ہر دو سے ہی آیت کی تفسیر ہوئی ہے۔ یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اسے دوں جب بھی وہ مجھ سے مانگے‘‘۔ اور یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اس کو نوازوں جب بھی وہ مجھے پوجے‘‘۔ درحقیقت یہ ہر دو اقوال لازم و ملزوم ہیں۔

*****

سعدی﷫ کہتے ہیں: خدا کا قریب ہونا دو معنىٰ سے ہے: ایک اُس کا تمام مخلوقات کے قریب ہونا، اپنے علم واحاطہ کے ساتھ۔ اس میں کافر مسلم سب آتے ہیں۔ دوسرا، اپنے ماننے اور پکارنے والوں کے قریب ہونا، اپنی اجابت کے ساتھ۔ اجابت: یعنی جیسے ہی یہ اُسے آواز دیں، وہ فوراً اِن کی سنے اور اِن میں سے ایک ایک کی مراد پوری کرے۔ یہ قربت خاص اُس کے ماننے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ پس جو شخص دل کے حضور کے ساتھ اور شرع کے سکھائے ہوئے آداب کا پابند رہتے ہوئے خدا کو پکارے گا، اور اجابت کے موانع میں سے کوئی مانع بیچ میں نہ آنے دے گا، جیسے رزقِ حرام وغیرہ... تو ایسے شخص سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کی دعاء قبول کرے گا۔ خصوصاً اگر اس نے اجابت کے اسباب بھی اختیار کیے ہوں۔ اور یہ (اجابت کے اسباب) ہیں: خدا کے قولی و فعلی اوامر اور نواہی کا پابند ہونا اور خدا پر کامل ایمان رکھنا، جوکہ اس کے ہاں پزیرائی پانے کا موجب ہے۔ اس لیے فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ’’پس چاہئے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھے ہی مانیں۔ کیا بعید کہ راستہ پا جائیں‘‘۔ یعنی ایمان اور عمل صالح کی ہدایت پا جائیں، اور ان سے وہ گمراہی دور ہو جائے جو ایمان اور اعمالِ صالحہ کی ضد ہے۔ اللہ پر ایمان لانا اور اس کے حکم پر لبیک کہنا بذاتِ خود علم اور ہدایت کا موجب ہے: فرمایا: إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا ’’اگر تم خدا کا تقویٰ اختیار کرلو تو وہ تمہیں فرقان عطا کردے‘‘۔ یعنی حق اور باطل تمہیں جداجدا نظر آنے لگیں؛ جوکہ روشنی سے اصل مطلوب ہوا کرتا ہے۔

خوب یاد رکھو: خدا کا اپنے بندوں کی آہوں اور سسکیوں کو سننا اور ان کی دعاؤں اور مناجاتوں کا جواب دینا، ہر دم ان کے فیصلے کرنا اور ان کے معاملے میں حکیمانہ تصرف کرنا... یہ انبیاء کا پڑھایا ہوا وہ عقیدہ ہے جس پر ہر دور کی جاہلیت سے ہمارے راستے الگ ہوتے ہیں...

ایک ’’کرم کرنے‘‘ اور ’’جواب دینے والا‘‘ خدا A Living Responding God ہمارا وہ اعتقاد ہے جو ہمیشہ سے ہمارے اور اہل جاہلیت کے بیچ باعثِ نزاع چلا آیا ہے۔ ایک ’’سننے دیکھنے اور جواب دینے والے خدا‘‘An All-Hearing, All-Seeing, Responding God  کو نہ ماننے کا نتیجہ تھا کہ قدیم مشرک اُس ایک کے ساتھ ساتھ  اوروں کے در کی خاک جانتا تھا۔ جبکہ اِسی ضلالت کا نتیجہ جدید مشرک کے حق میں یہ رہا کہ یہ  سرے سے اُس ایک کے در کا رخ نہیں کرتا؛ جوکہ زیادہ بڑی رعونت ہے۔ جدید جاہلیت کے ہاں ’’خدا‘‘ کو کسی ’’علتِ فاعلہ‘‘ کے طور پر اگر مانا بھی جاتا ہے، اور جس کا تصور ہوتے ہوتے ’مدر نیچر‘ mother nature ایسے کسی چھوئی موئی تصور سے جا ملتا ہے... تو یہ وہ ’’جیتاجاگتا خدا‘‘ (الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ) بہرحال نہیں جسے اپنی مخلوق سے کوئی سروکار ہو اور وہ ان پر اپنی رحمت اور فضل کے ساتھ ہر دم مہربان ہوتا اور ایک ایک پر اپنی نظرِ کرم رکھتا ہو... اور جسے بندے دامن پھیلا پھیلا کر اپنی حاجتیں بتائیں، اُس کے آگے رو رو کر اپنی فریادیں رکھیں اور عاجز بن کر اس سے مرادیں مانگیں۔ یعنی موحدین کا خدا جو ’’دیکھتا، سنتا اور جواب دیتا‘‘ ہے۔ اس خدا کو نہ قدیم مشرک نے مانا اور نہ جدید مشرک نے۔ پس تصور کرلو، یہ آیت صفاتِ خداوندی کا کیسا عظیم مقام ہے اور توحید کا کیسا زبردست بیان۔

(یہ مبحث سید قطب﷫ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’مقوّمات التصور الإسلامي وخصائصه‘‘ کی فصل ’’الإیجابية‘‘ میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کر رکھا ہے)۔

*****

خدا کو اُس کی صفات میں یکتا و بےمثال ماننا، ایمان کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ صفات پر ایمان نہیں تو خدا کو پہچاننے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ یہاں دو ضلالتیں ہیں:

1.      ایک تشبیہ۔ یعنی خدا کی صفات کو مخلوق سے ملانا اور اپنے معلوم وقائع کی روشنی میں صفاتِ خداوندی کی کیفیات طے کرنے چل دینا۔

2.      اور دوسری ضلالت، تعطیل۔ یعنی خدا کو اُس کی صفات کے بغیر ماننا۔

یہ وجہ ہے کہ علمائے سلف نے کہا: تشبیہ کا معتقد دراصل (اپنے ذہن میں بیٹھے) کسی صنم کو پوجتا ہے اور تعطیل کا معتقد درحقیقت کسی عدم کو۔

خوب یاد رکھو! صفات کے مسئلہ پر اہل سنت نے جہمیہ اور معتزلہ کے ساتھ کئی سو سال کی جنگ لڑی؛ جو بظاہر ’’خلقِ قرآن‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ یونانی جہالتوں کی درآمد کے باعث ’’صفات‘‘ کا تیاپانچہ ہونے لگا تھا۔ آج پھر مغربی جہالتیں ہمارے یہاں ڈھیر ہونے لگیں۔ جنگ ایک بار پھر کائنات کے خالق کا ’’وصف‘‘ بیان کرنے پر ہے۔ بندوں کی ’’سننا‘‘ (السمیع البصیر) اور ’’کلام‘‘ کر کے ان کو اپنی منشا اور تقاضوں سے آگاہ کرنا، خالق کی بابت آج بھی ہمارے اور جاہلیت کے مابین سب سے بڑا باعثِ نزاع ہے۔

خدا کا اپنے بندوں سے قریب ہونا پس خدا کی ایک باقاعدہ صفت ہوئی۔ صفت بھی ایسی جو موحدین کے سینوں پر ٹھنڈ ڈالتی؛ اور ان کو معبود کے حقیقی معنوں سے آشنا کراتی ہے۔ خود سوچو، اِس صفت کے بغیر کیسی خدائی اور کیسی عبادت! سورۃ ق میں فرمایا:  وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ’’ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے؛ اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔ اِسی معنیٰ کی کچھ آیات دیگر مقامات پر بھی آتی ہیں۔ پس خدا کا اپنی مخلوق کے سب سے بڑھ کر قریب ہونا... پھر ان میں سے اپنے چاہنے والوں کے اور بھی قریب ہونا، قرآن سے ثابت ہے۔

جان رکھو: صفاتِ خداوندی قرآن میں جیسے آئیں ان کو ویسے ماننا اہل ایمان کا دستور ہے۔ جبکہ ان سے متعلق ’کیفیت‘ میں پڑنا اہل ضلالت کا راستہ۔ پس اس بات کی ٹوہ میں جانا کہ خدا اپنے بندوں سے کیسے قریب ہے اور اس کی پوری صورت کیا ہے، اور یہاں سے خالق کو مخلوق کے اندر ’حلول‘ کروانے یا ہردو کو ’ایک‘ ٹھہرانے چل دینا گمراہوں کا شیوہ ہے۔ متشابہات کے پیچھے جانا من کا پاپ ہے اور دل کا ٹیڑھ۔ (فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ)۔ ایسا جسارت کار قرآن سے ہدایت نہیں پاتا۔  جبکہ متشابہات پر رک جانا ؛ نص کو جیسے وہ آئی ویسے تسلیم کرنا اور نص سے اوپر ایک لفظ نہ بولنا، راسخون فی العلم کا طریقہ۔ (وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا

*****

خدا کا جو پتہ اِس آیت میں دیا گیا: کہ خدا انسان کے تصور سے بڑھ کر انسان کے قریب ہے... خدا کی یہ صفت اس کے طلبگاروں کو باغ باغ کرتی ہے۔ اُس کی تلاش میں جنگلوں اور بیابانوں کے اندر مارےمارے پھرنے والوں کےلیے اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے جو اِس مقام پر بتائی گئی۔ (بُعِثۡتُ بِالحَنِیفِیَّۃِ السَّمۡحَۃِ)۔  انہیں تو اپنی قسمت پر یقین نہ آئے کہ ان کا مالک ان سے اتنا قریب ہے؛ جسے پکارنے کےلیے صرف ایمان، بندگی اور سلیم الاعتقادی کی شرط ہے۔ سادگی، آسانی، مشکل اور تکلف سے دور، ایک فطری آسودگی پر مبنی خداپرستی اِس دین کی پہچان ہے۔ پس یہ آیت موحدین کے وجود میں جس طرح ’’عبادت‘‘ کو مہمیز دیتی ہے، اور یہ خدا کو اپنے اتنا قریب پاکر جس طرح ہر دم اُس سے محوِمناجات رہتے ہیں، ہر لحظہ اُس سے خائف رہتے، اور کھڑے بیٹھے اور کروٹوں پر ہر حالت میں اُس کا ذکر کرتے ہیں، اِن کا خدا جس بےساختگی سے ہر جا اِن کے ساتھ ہوتا ہے، اور اِن کی زندگی کے ہر گوشے ہر شعبے کو جس قدرت، وسعت اور تمکنت کے ساتھ اپنی تحویل میں لیتا ہے، وہ سوچنے والوں کے تصور سے بالاتر ہے۔

*****

رازی اور ابن قیم﷮ نے اِس مقام پر بعض صوفیہ کی گمراہیوں کا تذکرہ کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ’’دعاء‘‘ کوئی بہت مستحسن چیز نہیں؛ اس لیے کہ:

1.       یہ ’’رضا‘‘ کے منافی ہے۔ بندے کو چاہئے کہ وہ سب کچھ خدا پر چھوڑ دے اور یقین رکھے کہ وہ خود ہی جو کرے گا بہترین کرے گا!

2.       دعاء کرنا پروردگار کے کاموں میں ایک طرح کی دخل اندازی ہے۔ گویا آدمی خدا کو تجویز دیتا ہے کہ وہ یوں کرے اور یوں نہ کرے۔ لہٰذا یہ رعونت ہے اور اپنی بندگی اور خدا کے مرتبہ و وقار کے منافی!

3.       دعاء کرنا ایک بےفائدہ عمل ہے؛ کیونکہ ہر چیز پہلے سے طے ہے۔ کوئی نئی چیز تو یہاں ہونے والی نہیں؛ جو لکھا گیا وہ ہونا ہے اور جو نہیں لکھا گیا وہ ہو کر دینے والا نہیں۔ پھر دعاء کا فائدہ؟ قضا ہو چکی۔ قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے سوکھ چکے۔ لہٰذا ’’تقدیر‘‘ اگر کوئی حقیقت ہے تو ’’دعاء‘‘ اس پر ایمان رکھنے کے منافی ہوئی۔

اِن صوفیہ کے گمراہ کن خیالات کا سب سے بڑا جواب یہ ہے کہ:

1.       تمہارا یہ فلسفہ دینِ انبیاء کے ساتھ صاف صاف تصادم ہے۔ انبیاء جو ’’عبدیت‘‘ اور ’’رضا‘‘ کے پیکر تھے اور ’’قضاء و قدر‘‘ کے سب سے بڑھ کر معتقد، اور خدا کے سب سے بڑھ کر واقف... وہ خدا سے سب سے بڑھ کر مانگنے والے تھے: إنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا۔ انبیاء میں سے ایک ایک کا خدا سے مانگنا قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ انبیاء کی دعائیں اہل ایمان کے بچےبچے کو یاد ہیں۔ انبیاء کی گریہ زاری دیکھیں تو ’’دعاء‘‘ عبدیت کا نہایت اعلیٰ مقام ہے۔ سیدالمرسلینﷺ کی دعائیں تو اِس کثرت کے ساتھ ذخیرہ ہائے سنت کے اندر مروی ہوئیں، اور ان دعاؤں میں ایسا ایسا ابتہال اور ایسی ایسی منت سماجت پائی جاتی ہے کہ بندگی کے ہزاروں معنے سیدالبشرﷺ کی دعاؤں سے ہی نکل کر سامنے آجاتے ہیں۔

2.       خدا نے اپنی تنزیل میں خود یہ منادی کی ہے کہ بندے اُس سے اپنی مرادیں مانگیں اور ضرور بضرور اپنی حاجات اُس کے آگے رکھیں۔ خود سوچو کیا خدا کسی بےکار عمل کی ہدایت فرمانے والا ہے؟ خدا سے مانگنے کو اُس نے توحید کا باقاعدہ موضوع بنایا اور لاالٰہ الااللہ کے اہم ترین معنوں میں سے ایک معنیٰ ٹھہرایا۔ تو اب ہم خدا کی کتاب پر ایمان لائیں یا تمہارے اِس صغرىٰ و کبریٰ پر؟

3.       اور تمہارا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ دعاء ’’رضا‘‘ کے منافی ہے۔ خدا جو بھی فیصلہ کرے گا بندہ اس پر معترض نہیں، بلکہ درخواست گزار ہے کہ اُس کے لامتناہی خزانوں سے اِس فقیر کو یہ بخشیش عطا ہو۔ ’’خیرات مانگنا‘‘ بجائےخود اظہارِ فقر ہے اور منعم کی شان کا اعتراف۔ سو عبادت کی جان ٹھہرا۔ بلکہ خداشناسوں کا تو کہنا یہ رہا ہے کہ ’’بخدا مجھے اجابت کی فکر نہیں، کیونکہ دعاء اگر ڈھنگ سے ہوئی تو اجابت کیسے نہ ہوگی، اس کا تو سوال تب ہو جب دینے والے کو کچھ کمی ہو؛ نہ دینا اُس کی شان ہی نہیں، مجھے تو کُل فکر اس بات کی ہے کہ میں اُس سے مانگنے میں پورا اتر لوں‘‘ (ملخص قولِ عمر﷛)۔ پس ’’دعاء‘‘ تو بندے اور رب کے مابین ایک راز و نیاز ہے۔ خدا جو دے اور جیسے دے، یہ پہلے سے اس پر راضی ہے۔ لہٰذا ’’مانگنے‘‘ اور ’’راضی ہونے‘‘ کے مابین سرے سے کوئی تعارض نہیں۔

4.       موحدین کا خدا سے دعاء کرنا، جس کی صفت قرآن میں ’’خوفاً و طمعاً‘ بیان ہوئی، خدا کے کاموں میں دخل اندازی کیسے ہوگیا؟! یہ تو بندے کی اپنی حاجت اور ضرورت کا بیان ہے؛ جسے وہ اپنے مالک کو نہ بتائے تو آخر کسے بتائے۔ خدا کے منصوبوں میں دخل دینا ’’دعاء‘‘ کرنے اور ’’دستِ ذلت پھیلانے‘‘ کے مفہوم میں ہی نہیں آتا۔ یہاں ابن قیمؒ کہتے ہیں: بخدا رعونت یہ نہیں کہ آدمی خدا سے مانگے اور اُس کے در کا سوالی بنے۔ رعونت ہے تو وہ یہ کہ آدمی خدا سے مانگنے اور اس کے آگے ہاتھ پھیلانے کا روادار نہ ہو۔ انبیاء کے دین سے تصادم ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔

5.       نہ ہی دعاء کرنا تقدیر پر اعتراض ہے۔ بقول حضرت عمر﷛: یہ خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف بھاگنا ہے۔ دعاگو خدا کی تقدیر سے نکل کر نہیں مانگتا؛ بلکہ خدا کی تقدیر میں رہ کر مانگتا ہے۔ اِسے تو صرف اس سے سروکار ہے کہ خدا نے اِسے خود کہا ہے کہ مجھ سے مانگ لو؛ ہاں یہ پہلے سے اِس کا ایمان ہے کہ خدا اِسے جو دے وہ اُس کی تقدیر ہی ہوگی۔ پھر یہ رسول اللہﷺ کی اِس حدیث پر بھی ایمان رکھتا ہے: لَا یَرُدُّ القَضَاءَ إلّا الدُّعَاءُ، وَلا یَزِیۡدُ فِی الۡعُمُر إلّا الۡبِرُّ (رواہ الترمذی والطبرانی فی المعجم الکبیر، عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ، وقد حسنہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر) ’’قضاء کو نہیں رد کرتی مگر دعاء، اور عمر کو نہیں بڑھاتی مگر بھلائی‘‘۔ نیز ابن عباس﷠ کا قول جوکہ مرفوع کے حکم میں ہے: لا یَنفَع الحَذرُ مِن القَدر، ولٰکِنَّ اللہَ یَمحُو بِالدُّعاءِ مَا یشَاءُ مِن الۡقَدَر (رواہ الحاکم والبیہقی، وصححہ الألبانی) ’’اندیشے تقدیر سے فائدہ نہیں دیتے۔ البتہ دعاء کے اثر سے اللہ تقدیر سے (خود) جو چاہے مٹا دے‘‘۔ نیز نبیﷺ کا فرمان: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ (متفق علیہ، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ) ’’جسے خوش لگے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی اجل میں درازی ہو اسے چاہئے وہ اپنے رحم کے ساتھ صلہ رکھے‘‘۔

6.       رہ گیا یہ کہ ماضی میں خدا کا جو فیصلہ ہوا وہ حال میں یا مستقبل میں خدا کے ہاں بدل کیسے جائے گا... تو دراصل یہ اشکال خالق پر ’’زمانوں‘‘ کو لاگو کرنے کی جہالت کے باعث ہے۔ انسان خود چونکہ زمان اور مکان کا قیدی ہے اس لیے وہ خالق کو بھی انہی اَبعاد dimensions  میں رکھ کر دیکھنے لگتا ہے! جو ہو چکا اور جو ہونا ہے اُس کےلیے ایک برابر ہے۔ اِس وقت جو انسان اُس کے آگے بلک بلک کر دعا کرنے میں لگا ہے، تقدیر لکھتے وقت بھی اُتنا ہی وہ اُس کے سامنے تھا جتنا کہ وہ اب ہے؛ اِس میں سرِمو فرق نہیں۔ غرض زمانوں کا خدا پر لاگو نہ ہونا اِن ساری موشگافیوں کو بےوقعت کر دیتا ہے۔ ما کانَ وما یکون اُس کےلیے ایک سا ورق ہے۔ اور خدا کی خدا ہی جانے۔ ہم تو بس اتنا جانیں کہ آسمانی کتابوں میں اُس نے بندوں سے بندوں کی زبان میں گفتگو فرمائی ہے۔ اور بندوں کی زبان میں اُس نے جو فرمایا وہ یہ کہ مجھ سے خوب خوب مانگو اور بڑھ بڑھ کر میرے آگے ہاتھ پھیلاؤ، ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کو بامراد لوٹانا میرا کام رہا۔ پس ہمیں تو اس کے سوا کسی بات سے غرض نہیں کہ ہم اس سے دل کھول کر مانگیں؛ اِس یقین کے ساتھ کہ وہ سچا ہے اور اس سے متصادم ہر کلام جھوٹا۔ آسمان کی اتنی یقین دہانیوں کے بعد جو پےدرپے رسالتوں کے ذریعے کروائی گئیں، ان سے معارض ’نکتوں‘ اور ’فلسفوں‘ کے ساتھ اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ انہیں سیدھا دیوار پر دے ماریں؛ اور اپنا دامن مسلسل خدا کے آگے پھیلائے رہیں۔

*****

ابن کثیر﷫ اِس مقام پر کچھ احادیث لے کر آتے ہیں:

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَسْتَحْيِي أَنْ يَبْسُطَ الْعَبْدُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ يَسْأَلُهُ فِيهِمَا خَيْرًا فَيَرُدُّهُمَا خَائِبَتَيْنِ (رواہ أحمد، وأبو داود، والترمذی، وابن ماجۃ، عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ، وقد صححہ الألبانی)

یقیناً اللہ تعالى اس بات سے حیاء فرماتا ہے کہ بندہ اُس کی جانب اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور ان میں خیرات مانگے، تو وہ ان (پھیلے ہوئے ہاتھوں) کو نامراد لوٹا دے۔

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: إِمَّا أَنْ يعجِّل لَهُ دَعْوَتَهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدّخرها لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا" قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ. قَالَ: "اللَّهُ أَكْثَرُ"            (رواہ أحمد، عن أبی سعید الخدری۔ صححہ الألبانی)

جو بھی مسلمان اللہ کو پکارے گا کسی ایسی درخواست کے ساتھ کہ اس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، اللہ ضرور اسے تین میں سے کوئی ایک چیز عطا فرمائے گا: یا وہ اس کی دعاء دنیا میں پوری کر دے۔ یا اس کو آخرت کےلیے اپنے پاس ذخیرہ رکھے۔ یا وہ اس کے برابر کی کسی آفت کو اس سے دفع کر دے۔ صحابہؓ بولے: پھر تو ہم اور بھی مانگیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بڑھ کر دینے والا ہے۔

مَا مِنْ عَبْد مُؤْمِنٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدَعْوَةٍ فَتَذْهَبُ، حَتَّى تُعَجَّل لَهُ فِي الدُّنْيَا أَوْ تُدّخر لَهُ فِي الْآخِرَةِ، إِذَا لَمْ يُعَجِّلْ أَوْ يَقْنَطْ. قَالَ عُرْوَةُ: قُلْتُ: يَا أمَّاه كَيْفَ عَجَلَتُهُ وَقُنُوطُهُ؟ قَالَتْ: يَقُولُ: سَأَلْتُ فَلَمْ أعْطَ، وَدَعَوْتُ فَلَمْ أجَبْ.

(رواہ الطبری)

کوئی مومن بندہ ایسا نہیں جو اللہ کو پکارے اور اس کا وہ پکارنا بےکار چلا جائے؛ اس کی وہ دعاء یا دنیا میں پوری ہوگی، یا وہ آخرت کےلیے اس کے حق میں ذخیرہ کر رکھی جائے گی۔ تاوقتیکہ وہ عجلت یا مایوسی میں نہ پڑے۔ عروہؒ کہتے ہیں: میں نے (عائشہ﷞، راویۂ حدیث) سے پوچھا: اے میری اماں! عجلت اور مایوسی کیسے؟ فرمانے لگیں: یعنی وہ کہے: میں نے مانگا مگر کچھ ملا تو نہیں۔ میں نے پکارا مگر میری سنی تو نہ گئی۔

فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ أَيُّهَا النَّاسُ فَاسْأَلُوهُ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْتَجِيبُ لِعَبْدٍ دَعَاهُ عَنْ ظَهْرِ قَلْبٍ غَافِلٍ (رواہ أحمد والترمذی عن أبی ھریرۃ)

تو پھر جب تم اللہ سے مانگو اے لوگو تو اُس سے اس طرح مانگو کہ تمہیں اس کے سنے جانے کا پورا یقین ہو۔ کیونکہ اللہ تعالى ایسے کسی آدمی کی نہیں سنتا جو اُسے ایک غافل دل سے نکلنے ایسی آواز کے ساتھ پکارتا ہو۔

*****

طبری﷫ اپنی تفسیر میں ایک اثر لاتے ہیں:

ما أعطِىَ أحدٌ الدعاءَ ومُنِع الإجابةَ، لأن الله يقول: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ).

کوئی ایسا شخص نہیں جس کو دعاء کرنا عطا ہوا اور پھر وہ اجابت سے محروم رہا۔ کیونکہ اللہ فرماتا ہے: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری سنوں گا‘‘۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي کے تحت رسول اللہﷺ کو کیا سوال ہوئے، طبری﷫ اپنی تفسیر میں متنوع اقوال ذکر کرتے ہیں:

1.      ’’ہمارا رب کہاں ہے‘‘؟ فرمایا: (تمہارے) پاس ہے۔

2.      ’’اُس کو پکاریں تو کدھر رخ کریں‘‘؟ فرمایا: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ’’تم جدھر منہ کر لو ادھر ہی خدا کا رخ ہے؛ یقیناً اللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘۔ یعنی فَإِنِّي قَرِيبٌ کی یہ بھی ایک تفسیر ہوئی۔

3.      ’’ہمیں پروردگار کو اونچا پکارنا ہوگا یا دھیرے سرگوشی کرنی ہوگی‘‘؟ فرمایا: وہ پاس ہی ہے۔

4.      ’’پروردگار کو کس گھڑی پکاریں تو وہ سنے‘‘؟ فرمایا: أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔ یعنی جب بھی اُس کو آواز دے لو، اُس کی عطا پا لو۔

5.      ’’پروردگار کو کیسے پکاریں‘‘؟ جواب آیا: جیسے کسی قریب کی ہستی کو پکارا جاتا ہے؛ بلکہ ایسی قربت جس کا تصور ہی نہیں!

فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي کی تفسیر میں طبریؒ  دو اقوال لاتے ہیں:

1.      مجاہدؒ اور عبداللہ بن المبارکؒ سے: میری بات مانیں۔ یعنی اطاعت۔

2.      ابو رجاء خراسانیؒ سے: مجھ سے دعاء کریں (یا میری عبادت کریں)۔

بغویؒ نے اس کا ایک مطلب بیان کیا: کیونکہ یہ باب استفعال سے ہے تو مراد ہوگی: مجھ سے اجابت چاہیں۔

یعنی مانگنے میں پورا زور لگائیں۔ یا یہ کہ اجابت کے تمام شرعی اسباب اختیار کریں، خصوصاً جو سورۃ الاعراف میں بیان ہوئے: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً یعنی گریہ زار و پوشیدہ۔ اس سے اگلی آیت میں فرمایا: وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا یعنی خوف اور طمع کے بیچ رہ کر۔ اس سے پہلے آیت 29 میں فرمایا: وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ۔ یعنی توحید۔ بندگی اور دعاء کو اللہ کےلیے خالص کر لینا اور اس کے سوا کسی سے کوئی امید اور خوف نہ رکھنا اور کسی کی عبادت کا روادار نہ رہنا۔

بغویؒ کا کہنا ہے: اس طلبِ اجابت کی صحیح صورت اطاعت ہے۔

*****

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ

خوب جان لو: روزہ کے اندر جسمانی مطالب سے بلند اور عُلوی مطالب سے بہرہ ور ہونے کے کچھ خصوصی معانی پائے جاتے ہیں۔ عبادتِ روزہ انسان کو پاکیزگی کی کچھ نہایت اعلیٰ جہتوں سے آشنا کرواتی اور اِس میں روحانی و ملکوتی خصائص کو خوب توانا کرتی ہے۔ ان جسمانی مطالب میں ظاہرترین یہی تین ہیں: کھانا۔ پینا۔ اور جنسی ملاپ۔

جسم کے یہ تین مطالب انسان کی ساخت کا لازمی جزو ہیں۔ اِس جزو کو انسان میں کالعدم ٹھہرانا ہرگز شرائع کا مقصود نہیں۔ یہاں تک کہ جنت میں بھی، جوکہ انسان کے حق میں کامل ترین حیات ہے، یہ جسمانی مطالب (کھانا، پینا اور جنسی تسکین) برقرار رہیں گے۔ بلکہ کامل تر اور خوشگوار تر ہو جائیں گے۔ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوئے بغیر انسانی وجود اپنے کامل معانی کے ساتھ ظہور نہیں کرتا۔ پس ان کی طلب اور جستجو بھی کبھی موقوف نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ بہشت کے بالاخانوں میں بھی ان اشیاء کے دور چلیں گے۔ کوئی ایسی ’مثالیت‘ جو انسان کو اپنے وجود کے اِن مطالب سے اِس دنیا میں بےنیاز کرے یا آخرت میں، ایک باطل فلسفہ ہوگا اور ظاہرِ نصوص کے ساتھ صریح متصادم۔ بس اتنا ہے کہ انسان کے روحانی و ملکوتی اوصاف کو انسان کے اِن بہیمی مطالب کے مقابلے پر جِلا دینا شرائع کا ایک نہایت واضح مقصود ہے۔ روح کی اِسی ترقی کو ’’تقویٰ و پرہیزگاری‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی ان جسمانی مطالب کو ختم تو نہ کرانا البتہ ایک ضبط میں لے آنا اور اِس کے روحانی مطالب کو ان پر برتری دلوا دینا۔

یہاں سے وہ ’’اعتدال‘‘ سامنے آتا ہے جو دنیاپرستی اور رہبانیت دونوں سے ہٹ کر ہے۔ اِسی کو احادیث میں ’’الحنیفیۃ السمحۃ‘‘ کہا گیا ہے۔ ماہِ صیام میں اِس کی خصوصی مشق کرائی جاتی ہے۔ یعنی کھانا پینا اور جنسی ملاپ کچھ محدود ساعتوں میں قید ٹھہرا دیا گیا؛ جبکہ توجہ کا اصل محور انسان کے عقلی و روحانی قویٰ ٹھہرا دیے گئے۔ اس کے ملکوتی اوصاف کی افزودگی اصل ترجیح ہو گئی۔ ابتداء میں، جب روزہ یا مسکین کے کھانے کے مابین چناؤ تھا، اس کی صورت یہ ٹھہرائی گئی کہ کھانا پینا اور جنسی ملاپ نمازِ عشاء یا سونے کے وقت تک مباح تھا۔ جیسے ہی شب خوابی ہوئی، آدمی عورت کے حق میں یہ جسمانی مطالب موقوف ٹھہرا دیے گئے۔ اب اگلے دن غروبِ آفتاب تک وہ اِن اشیاء سے دور ہی رہیں گے۔ بعد ازاں، اِس تشریع میں نرمی کر دی گئی، اور اِن اشیاء کا وقت پو پھٹنے تک توسیع کر دیا گیا۔ ہاں فجر کے ساتھ ’’روزہ‘‘ شروع ہو گا اور پورا دن چلے گا؛ یہاں تک کہ رات آ جائے۔ تاہم ’’اعتکاف‘‘ ایک وہ حالت ہے کہ آدمی کو کئی کئی دن خدا کے ساتھ محو توجہ رہنا ہوتا ہے۔ اتنی دیر، دنیا کے تمام مشاغل اس کے حق میں موقوف کر دیے جاتے ہیں اور یہ آدمی ذکر اور عبادت کی کچھ نہایت مرکوز مرغن غذائیں لیتا ہے۔ یہ اتنا لمبا عرصہ، ظاہر ہے کھانا پینا تو اس کے حق میں موقوف نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ جنسی ملاپ پر پابندی عائد کرا دی جاتی ہے؛ اِس کی گنجائش رات کے وقت بھی نہیں۔

ہاں جب ان مطالبِ جسمانی میں پوری رات تک کےلیے توسیع کی گئی تو یہاں سحری بھی مشروع ٹھہرا دی گئی، جس کی حدیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی اور اس کو برکت والا کھانا قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ اس کو ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ کے مابین وجہِ امتیاز ٹھہرایا گیا اور یہ بھی خبر دی گئی کہ سحری کرنے والوں پر اللہ اور اُس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ سحری میں تاخیر اور افطار میں عجلت پسندیدہ ٹھہرائی گئی؛ کہ اس سے اہل کتاب کی مخالفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں بیان ہوا کہ جب تک آپﷺ کی امت ایسا کرتی رہے گی دین سربلند رہے گا (لا یزال الدین ظاھراً)، جس کے تحت ابن تیمیہ فرماتے ہیں: اہل کتاب کی مخالفت کرنے میں دینِ اسلام کا غلبہ و ظہور ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے، اہل کتاب کے مقابلے پر اِس دین کے امتیازات کو برقرار رکھنا کیسا شاندار عمل ہے۔ امتیاز خصوصاً اُن معانی میں جو اِسے ’’حنیفیتِ سمحۃ‘‘ بناتے ہیں، یعنی نہ رہبانیت اور نہ مادیت، بلکہ ایک ٹھیٹ موحدانہ طرزِعمل جس میں خوب آسائش اور وسعت ہے۔ اپنے دین اور عبادت میں یہ ’’حنیفیتِ سمحۃ‘‘ والا کردار لے کر آنا اور اِس معاملہ میں اہل کتاب سے اپنا زیادہ سے زیادہ فرق قائم کرنا جہان میں دینِ اسلام کو سربلند رکھنے کا موجب ہے۔ غرض عقیدہ میں پختگی اور اعمال میں آسانی کی روش ہماری سعادت و فلاح کا راز ہے۔

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ

بغوی﷫ ودیگر مفسرین نے اس کے متعدد معانی نقل کیے، جوکہ آپس میں معارض نہیں بلکہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں:

1.       عورتیں تمہارا پردہ اور تم ان کا پردہ۔ یہ اس کا لفظی مطلب ہوا۔ یعنی مرد عورت کے آپس میں کوئی اوٹ نہیں، بقیہ دنیا سے البتہ دونوں نے ایک دوسرے کو ڈھانپ دیا۔ رشتۂ زن و شو کی یہ ایک نہایت خوبصورت اور باحیاء تصویر ہے۔

2.       ربیع بن انس﷫ سے: وہ تمہارا فراش اور تم ان کا لحاف۔ یعنی ایک دوسرے کو مکمل کرنا اور ایک دوسرے کو وہ چیز دینا جو اس کے پاس نہیں۔

3.       ابن عباس﷛، مجاہد، قتادہ اور سدی﷭ سے: وہ تمہارا سکون اور تم ان کا سکون۔ ایک دوسری آیت میں بھی رشتۂ ازدواج کو سکون پانے سے تعبیر کیا گیا۔

خوب جان لو۔ بیاہ انبیاء کی سنت ہے؛ اور شروع دن سے خداپرستوں کا دستور چلا آیا ہے۔ یہ وجودِانسانی کی بقاء ہے۔ مقاصدِفطرت کی نگہبانی۔ ’’سوسائٹی‘‘ کا حجرِ اساس۔ عفت اور پاکیزگی کا ذریعہ۔ سرگرمیِ روزگار کا محرک اور تمدن کی بنیاد۔ آسمانی وحی اِس رشتے کو ایک خاص حرمت اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ تہذیبِ جدید میں ’’بیاہ‘‘ کو چوٹوں اور پھبتیوں کا موضوع بنانا، ’’شادی‘‘ کو مصیبتوں کا گھر بنا کر پیش کرنا، اور اس کے مقابلے پر ’رومانس‘ یعنی بدکاری کا پورا ایک تقدس قائم کروانا اور اسی پر اپنے سارے شعری و نثری ادب کی بنیاد رکھنا جنودِابلیس کا مرغوب مشغلہ ہے۔ شیطان کہیں پر دینداری کے رنگ میں لوگوں کو اِس رشتۂ نکاح سے برگشتہ کراتا ہے تو کہیں مادیت اور لذت پرستی کی ڈالی پر چڑھا کر اِس کےلیے ناگواری پیدا کراتا ہے۔ پس تم دیکھتے ہو قرآن نے صیام کی راتوں میں خاوند بیوی کے مخصوص تعلق کو حلال ٹھہرا دینے اور اسے ’’کھانےپینے‘‘ کے ساتھ ذکر کر دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اوامر اور نواہی کے سیاق کو تھوڑا موقوف کر کے اِس جملے کا ایک باقاعدہ اضافہ کیا: هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ۔ اسلامی تشریعات کی روح کو سمجھانے اور ’’انسان‘‘ کی ساخت کے ساتھ اِس دین کی موزونیت  compatibility اور نتیجہ خیزی prolificacy  واضح کرنے میں یہ ایک جملہ ایک عظیم الشان مبحث کی بنیاد رکھتا ہے۔

عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ

ظاہر ہے یہ ایک آزمائش تھی اور اس کو ایک وقتی تشریع ہی ہونا تھا...

بغوی﷫ ودیگر اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: عمر﷛ نمازِ عشاء کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کر بیٹھے۔ غسل سے فارغ ہوئے تو رونے اور اپنے آپ کو کوسنے لگے۔ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ سے اور آپ سے اِس گناہ پر عذرخواہ ہوں۔ رات عشاء پڑھنے کے بعد میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا تو اس کے عطر کی خوشبو کے آگے اپنا قابو کھوبیٹھا اور ہمبستری ہوگئی۔ نبیﷺ نے فرمایا: عمر یہ تمہارے شایان نہ تھا۔ تب  کئی اور آدمی اٹھ کھڑے ہوئے اور اعتراف کرنے لگے کہ وہ بھی ایسا ہی کر بیٹھے ہیں۔ تب عمرؓ اور ان کے ساتھیوں کے معاملہ میں یہ آیت اتری۔ یعنی جو ہوا اس کی معافی اور آئندہ کےلیے تشریع میں تبدیلی۔ ’’خدا نے جانا کہ تم اپنے آپ کو خیانت میں ڈال بیٹھتے تھے‘‘ سرزنش بھی ہے اور عنایت بھی۔ یعنی خدا اِس آدم کے بچے کو خوب جانتا ہے؛ تو پھر لو اب یہ پابندی تم پر نرم فرمائی جاتی ہے، اور خود یہ فعل تو خدا کی نظر میں کبھی معیوب تھا ہی نہیں بلکہ یہ تمہارے وجود کی ایک معتبر ضرورت رہی ہے، اب پوری رات تمہیں اس کی اجازت ہے:

فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا

کھانےپینے کے ساتھ ہی جنسی تسکین کا ذکر۔ یعنی یہ سب مطالب ایک ہی قبیل سے ہوئے؛ اور یہ بھی ہمارے یہاں نظرانداز نہیں؛ خدا کی عائدکردہ حدود و قیود کو اپنا لینا اِن اشیاء کو بھی دین اور عبادت کے سیاق میں لے آتا ہے۔

غور کرو تو جنسی عمل کو یہاں بیک وقت دو جہتوں سے بیان کیا گیا: ایک مباشرت۔ اور دوسرا، نوشتۂ خداوندی کی تلاش۔ خالی اس عمل کا جواز بیان کرنا ہوتا تو اِس کو ان دونوں جہتوں سے سامنے لانا ضروری نہ تھا۔ معلوم ہوا مرد و زن کا یہ مخصوص تعلق دنیا کے اندر نہ محض لذت ہے اور نہ خالی طلبِ اولاد ایسا کوئی ’بیالوجیکل‘ عمل۔ بلکہ شریعت نے اِس کو ہر دو انداز کا اعتبار دیا ہے۔ انسان کی دیگر تمام جائز خواہشات کی بھی یہی حقیقت ٹھہری۔ یعنی وہ دنیا کے اندر انسانی وجود کے کسی نہ کسی مقصد اور غایت کو بھی پورا کراتی ہیں جبکہ آپ اپنی ذات میں بھی باعثِ لذت اور مرغوب بنا دی گئی ہیں۔ اِن دونوں میں کوئی تعارض نہیں؛ بلکہ یہ ایک ہی تصویر کو مکمل کرتی ہیں۔ یہاں سے؛ دو منحرف اپروچ ہمارے سامنے آتی ہیں:

1.       ایک صوفیہ کے وہ طوائف جو تعلقِ مرد و زن پر مہربان ہوتے بھی ہیں تو صرف اس باب سے کہ بقائے نسل انسانی کا ’فرض‘ پورا ہو! اور بس فرض ہی پورا کرتے ہیں! بعض تو باقاعدہ اس کی نیت کرواتے اور ’نفس‘ کو یاد دلواتے ہیں کہ یہ میں تیری کوئی خواہش ہرگز پوری نہیں کر رہا اور میرے بس میں ہو تو میں تجھے تڑپاتڑپا کر ہی ماروں! یعنی یہ ایک ناگوار سی چیز ہے اور محض مجبوری جان کر ادا کی جائے گی! یہ مقاصدِ شریعت کا ستیاناس کرنے والے لوگ ہیں اور حنیفیتِ سمحۃ کے معنیٰ سے آخری حد تک ناواقف۔ یہ خداپرستی کے نام پر دنیا میں ذہنی ونفسیاتی امراض abnormality کے پرورش کنندہ ہیں۔ طبعی امنگوں اور رغبتوں کا قتلِ عام ہرگز شریعت کا مقصد نہیں، شریعت ان جذبوں کا تحفظ کرتی اورزمین میں انہیں ایک صالح جہت دیتی ہے۔ یہ سید البشرﷺ ہیں جو فرماتے ہیں: «حُبِّبَ إلَيَّ مِن دُنۡيَاكُم: النِّسَاءُ والطِّيۡبُ وَجُعِلَتۡ قُرَّةُ عَيني فَي الصَّلاةِ» (صححه الألباني، صحيح الجامع الصغير رقم 3124، عن أنس رضي الله عنه) ’’تمہاری اس دنیا سے میرے لیے مرغوب رکھی گئیں عورتیں اور خوشبو۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی نماز میں‘‘۔

2.       دوسری منحرف اپروچ وہ ہے جو اِس کو محض لذت کی نظر سے لیتی ہے اور اس سے منسلک مقاصدِ فطرت کو یکسر نظرانداز کرتی ہے۔ لہٰذا یہ اس کو ذمہ داریوں کے ایک پورے پیکیج اور سوسائٹی کی تخلیق اور پرورش کے اندر باقاعدہ ایک حصہ ڈالنے کی نظر سے نہیں لیتی۔  بہت سے حیوانات شاید اِس غیرذمہ دارانہ رویے کے متحمل نہ ہوں! اِس کو نری ہوس کے طور پر لینا ’’انسان‘‘ کے شایانِ شان تو ہرگز نہیں۔ لہٰذا اسلام اِس نشیب میں بھی انسان کو گرنے نہیں دیتا۔

حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ

یعنی فجر صادق تک۔ اہل تفسیر نے ذکر کیا: عدی بن حاتم﷛ نے اس آیت پر عمل کرنے کے معاملہ میں دو رسّیاں اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیں، ایک سفید اور ایک سیاہ۔ آخر رسول اللہﷺ سے آ کر عرض کی: مجھے تو (بڑی دیر تک) یہ الگ الگ نظر نہیں آپائیں۔ آپﷺ نے اس پر خندہ فرمایا اور انہیں سمجھایا کہ اس سے مراد افق پر طلوع فجر کی دھاری ہے۔ معلوم ہوا، قرآن کے مستندترین معانی وہ ہیں جو نبیؐ سے لیے جائیں۔

ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ

دن دن روزہ؛ اور سورج چھپتے ہی افطار: إذا جاء الليلُ مِن ها هنا، وذهبَ النهارُ مِن ها هنا" زاد مسدد: "وغابت الشمسُ، فقد أفْطَرَ الصَّائِمُ (أبو داود، عن عمر رضی اللہ عنہ، عن النبیﷺ۔ صححہ الألبانی) ’’جب ادھر سے رات چڑھ آئے اور ادھر دن غروب ہو، مسدد (ایک راوی) نے اضافہ کیا: اور سورج ڈوب جائے، تو روزہ دار کا روزہ کھل گیا‘‘۔

وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ

اعتکاف صرف مساجد میں ہی مشروع ٹھہرا۔ اس سے پہلے لوگ خدا کے ساتھ خلوت کے ایسے خصوصی لمحات گزارنے کےلیے جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرتے تھے۔ اِدھر؛ خدا کے ساتھ خصوصی لو لگانے کےلیے خدا کے گھر آباد کرائے جانے لگے۔ چنانچہ اِس امت نے روئےزمین کو مساجد سے بھر دیا، اذان (تکبیرِخداوندی) کی گونج پورے کرۂ ارض پر سنائی دینے لگی؛ ہر چند قدم پر انسان صفیں بنا کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے لگے۔ اِس موضوع پر بےشمار نصوص وارد ہوئیں کہ خدا کے فرشتے کس طرح مساجد میں ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے پھرتے اور جہاں وہ ملیں وہیں ان کے گرد حلقے باندھ لیتے اور ان کے شریکِ مجلس ہو جاتے ہیں، نیز خدا کی رحمت اور سکینت ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور عرش پر ان کا ذکر ہونے لگتا ہے۔ سورۃ نور میں منکشف ہوا کہ خدا کے اِس نور کا محل زمین پر یا تو قلبِ مومن ہے یا پھر خدا کے وہ گھر جہاں عبادت گزاروں کے جمگھٹے لگتے ہیں۔

پس مسجدیں بیک وقت اجتماع گاہیں بھی ہوئیں اور خلوت گاہیں بھی۔ مساجد میں شوروغوغا اور مساجد کو گپ شپ کی جگہیں بنانا قربِ قیامت کی علامات میں گنا گیا ہے۔

خوب یاد رکھو! اعتکاف ایک طرح کی مجاورت ہے۔ یعنی کسی کے در پر جا بیٹھنا اور وہاں سے اٹھنے کا نام نہ لینا۔ اِس عمل میں بجائےخود تعبُّد کا ایک معنیٰ ہے۔ حدیثِ بخاری کی رُو سے، رمضان کی آخری دس راتیں اعتکاف میں گزارنا نبیﷺ کا معمول رہا ہے۔ لیلۃ القدر کی تلاش آپﷺ کے یہاں اِسی اعتکاف کی حالت میں ہوتی۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا

بغویؒ: اللہ کی حدیں، یعنی اللہ کے مقرر کیے ہوئے امور اور ضابطے۔ اللہ کی شرطیں۔

سعدیؒ: دوسری کسی جگہ ’’اللہ کی حدوں‘‘ کے تحت فرائض بیان ہوئے تو وہاں کہا گیا فَلَا تَعْتَدُوهَا ’’ان سے نہ بڑھو‘‘۔ یہاں ’’اللہ کی حدوں‘‘ کے تحت محرمات بیان ہوئے تو کہا گیا  فَلَا تَقْرَبُوهَا ’’ان کے پاس نہ پھٹکو‘‘۔ یعنی ان تک پہنچانے والے اسباب اور ذرائع سے ہی دور رہو۔

اللہ کی حدوں کی ایک دھاک دل پر بیٹھی ہونا ہی دراصل اللہ کا ’’تقویٰ‘‘ ہے اور اُس کا ’’تعبُّد‘‘۔ روزہ دار پورا پورا دن اسی ایک سبق کا اعادہ کرتا ہے۔

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

سعدیؒ: کیونکہ حق واضح ہوگا تو ہی یہ اس کی پیروی کریں گے۔ اور باطل واضح ہوگا تو ہی یہ اس سے کنارہ کش ہوں گے۔ جبکہ انسان لاعلم رہے گا تو بہت سے حرام کام کر بیٹھتا رہے گا۔ اب جب خدا نے انہیں اپنی آیات بیان کردیں تو ان کے پاس کوئی عذر اور کوئی حجت باقی نہ رہی۔ لہٰذا اب تقویٰ کی حالت میں آنا ان کےلیے ممکن ہو گیا۔  یعنی بیانِ آیات حصولِ تقویٰ کا موجب ہوا۔ اور تقویٰ کی صورت بنی: آیات کا علم لینا اور ان پر عمل پیرا ہونا۔ یعنی علمِ نافع و عملِ صالح۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے کفایت نہ کرے گا۔

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ

یاد رکھو! رزقِ حلال عبادت کے قبول ہونے کی شرط ہے۔ حدیث میں ہے، مسلمانوں پر ایک دوسرے کے مال کی حرمت ایسی ہے جیسی مکہ محرمہ اور ماہِ حج کی حرمت۔ عبادت اور تقویٰ کی یہ بھی ایک باقاعدہ جہت ہے۔

سعدیؒ: شریعت کا تتبع کریں تو مالِ حرام کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں:

1.       زیادتی۔ جیسے چوری، ڈکیتی، بدعنوانی، خردبرد، ملاوٹ، ڈنڈی ماری، دھوکہ دہی۔ امانت میں خیانت، غصب، وغیرہ۔ جس میں فریق دیگر کی رضامندی نہیں۔

2.       فاسد معاوضات: یعنی فریق دیگر کی رضامندی تو ہے مگر شریعت کو ازخود ایسے عقد پر اعتراض ہے۔ جیسے سود، جوا، غرر، شراب یا خنزیر وغیرہ ایسی اشیاء کی کمائی، وغیرہ۔

وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

حکام تک رسائی کا فائدہ لینا اور اس کو لوگوں کے حقوق غصب کرنے کا ذریعہ بنانا۔ یہ مراعات یافتگی ظلم اور حرام کاری کی ایک گھناؤنی صورت ہے۔ ’سفارش‘ اور ’تعلقات‘ معاشرے کا وہ ناسور ہے جو، از رُوئے حدیث، پہلی امتوں کو ہلاک کروا تا رہا۔ یہاں شراب اور خنزیر بیچنے سے دامن کش رہنا لوگ اپنے لیے آسان جانیں گے۔ لیکن ’پہنچ‘ والے نیکوکار ’میرٹ‘ کا قتل عام نہ کریں، یہ شاید بڑے بڑے پارساؤں کے حق میں اچھنبا ہو! چنانچہ یہاں مال حرام کی اُس صورت کا ذکر ہوا جس میں آدمی سب سے بڑھ کر جری ہوتا ہے۔ نیز جس میں معاشرہ ’پہنچ والوں‘ اور ’پہنچ نہ رکھنے والوں‘ کے مابین تقسیم ہوتا؛ اور پھر معاشرے کا ایک طبقہ مسلسل دوسرے طبقے پر لعنتیں کرتا ہے۔ یہاں چوری اور ڈکیتی پر تو ایک مظلوم کی شنوائی ہو سکتی ہے لیکن اِس ظلم کی شنوائی سوائے خدا کی عدالت کے کہاں ہو سکتی ہے!

وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ کے لفظ سے یہاں فقہاء نے دلیل پکڑی کہ جب شریعتِ خداوندی سے آپ کو معلوم ہے ایک چیز آپ کا حق نہیں ہے تو کوئی عدالت یا محکمہ خواہ بیس بار آپ کے حق میں فیصلہ دے، آپ پر وہ حرام ہی ہے۔ حاکم یا قاضی خداخوف بھی ہو تو وہ لاعلمی سے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ سیدالبشرﷺ سے بڑھ کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے والا بھلا کون ہو سکتا ہے، آپؐ فرماتے ہیں: إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا (متفق علیہ، عن أم سلمۃ) ’’تم میرے پاس اپنے مقدمے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے ایک آدمی اپنا کیس بیان کرنے میں دوسرے کی نسبت زبان کا تیز ہو۔ پس جس آدمی کی تیزگوئی کے باعث میں اس کو اُس کے بھائی کی کوئی چیز فیصلے میں دے ڈالوں تو درحقیقت میں اس کو دوزخ کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں؛ اسے چاہئے کہ (پھر بھی) اسے نہ لے‘‘۔

 

(نوٹ: ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے ہیں)



آیاتِ صیام کا حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں




[1]   إِنَّهُ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ (الترمذی عن أبی ھرہرۃ عن النبیﷺ، وقد حسنہ الألبان) ’’جو آدمی اللہ سے مانگتا نہیں اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے‘‘۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز