آیاتِ صیام کا حصہ دوم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ
قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ
مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ
يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ
لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ
كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ
الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ
مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ
فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ
بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا
هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرۃ: 183۔185)
اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے!
فرض کیا گیا ہے تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا یہ تم سے پہلوں پر۔ تاکہ
تم پرہیز گار بنو۔
گنتی کے چند دن۔ تو جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو، تو گنتی (پوری
کرلے) اور دنوں سے۔ اور ان لوگوں پر جو روزہ کی طاقت رکھیں، ایک مسکین کا کھانا
ہے۔ اور جو رضاکارانہ خیر کرے وہ اس کےلیے بہتر ہے۔ اور یہ کہ تم خود روزہ رکھو،
تمہارے لیے افضل ہے اگر تم جانو۔
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا؛ جو انسانوں کےلیے راہنمائی ہے اور
ہدایت کی کھلی نشانیاں اور حق کو باطل سے جدا کرنے والا۔ تو جو کوئی تم میں سے یہ
مہینہ پائے اسے چاہئے کہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو گنتی
(پوری کرے) اور دنوں سے۔ اللہ کو تمہارے ساتھ آسانی منظور ہے؛ سختی منظور نہیں۔
تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ کی تکبیر کرو؛ اس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت بخشی،
اور تاکہ تم (اس کے) شکرگزار بنو۔
******
خطاب ایمان والوں سے... يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
اُس پاک رشتے کا حوالہ جو
کلام فرمانے والے اور سننے والوں کے مابین بڑی دیر پہلے قائم ہو چکا۔ عبادت کا
رِشتہ۔ خدا کو پانے کی لگن۔ جستجوئے آخرت۔ بندے اور معبود کا تعلق۔
بہت سے علماء نے لکھا: آگے
بڑھنے سے پہلے ذرا اِس يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا پر ہی رکو؛ اس میں تمہارا ذکر ہے؛ یہاں خالقِ کائنات
نے تمہیں آواز دی ہے! جیسا کہ ایک عرب شاعر نے کہا: فخر سے میرے قدم زمین پر نہیں
لگتے؛ یہ سوچ کر کہ میرا بھی نام ’’یا عِبادی‘‘ میں درج ہے! تصور تو کرو پروردگارِ
عالم تمہیں پکارے!
پس سب سے پہلے تو اِس
’’ایمان‘‘ کی حقیقت کو پانا ہے؛ جس کے نام سے یہاں خطاب ہوا۔ ایمان یعنی توحید۔
خدا کے مرتبے اور مقام کی پہچان۔ خدا کی چاہت، محبت، تعظیم اور امید۔ خدا کے ماسوا
ہستیوں کی خدائی کا انکار۔ اُس کی آخرت کے آگے اپنی اِس دنیا کو ہیچ جان رکھنا۔
ہدایت کے جملہ امور صرف اور صرف مصدرِ رسالت سے لینا، اور رسالت سے متصادم ہر
فلسفہ، ہر ازم، ہر قانون، ہر دستور، ہر شریعت، ہر معیار اور ہر تہذیب کو ردّ کرنا؛
اور اپنے جملہ امور خدا کو سونپ رکھنا۔
یہ خطاب ہے ان لوگوں سے جو
ایمان کی راہ اختیار کر چکے...
كُتِبَ عَلَيْكُمُ
الصِّيَامُ
ایسے لوگوں پر جو خدا کی
طلب میں محو ہیں... عبادت کی ایک خاص صورت فرض ٹھہرائی جاتی ہے؛ جس کا نام ہے
صیام۔
پو
پھٹنے سے لے کر غروبِ آفتاب تک سب مطالبہ ہائے شکم و شرمگاہ سے مکمل دستکش رہنا؛ خواہشاتِ
نفس کو پورا دن محبتِ خداوندی پر قربان کر رکھنے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے
کی ایک شعوری ریاضت؛ بھوک اور پیاس کی
زبان میں معبود کی بندگی اور اطاعت کا اظہار۔
یہ عمل تم پر باقاعدہ فرض
کیا جاتا ہے۔
اور یہ فرض کرنے والا
خدائے مالک الملک خود ہے...
یاد رکھو! پروردگارِ عالم
کو پانے اور پوجنے کے دعویدار دنیا میں بہت ہیں۔ لیکن پروردگارِ عالم صرف وہ عبادت
قبول کرتا ہے جسے وہ خود اپنے بندوں پر مقرر ٹھہرائے۔ اُس کے ہاں صرف اُس چیز کی
پزیرائی ہے جسے وہ خود طلب کرے۔ ذرا تصور تو کرو ایسے نصیب والوں کا! خالقِ کائنات
وہ رویّے اور طور طریقے اِن کو مقرر کر کے دیتا ہے؛ جن کے ذریعے یہ اُس کو یقینی
طور پر پا سکتے اور اُس کے ہاں نعمتِ خلود کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ ایسا احسان بھلا کب کسی پر ہوتا ہے۔ اپنے ہاں
باریاب ہونے کے طریقے وہ خود ہی بتلائے؛ بھلا اِس سے بڑھ کر انسان کےلیے کیا سعادت
ہو گی۔ شریعت جو تبدیل یا منسوخ نہیں، اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہوگی؟ یہ اس نبی پر
ایمان کی بدولت ہوا جو انسانوں کو خدا کی رسالتیں پہنچانے پر خدا کی جانب سے مامور
ہے۔
كَمَا كُتِبَ عَلَى
الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ
خدا
کو پوجنے کی یہ ادائیں ہمیشہ سے چلی آئی ہیں۔ آج کوئی نئے سرے سے فرض نہیں ہوئیں۔
یاد
رکھو! عبادت کی وہ صورتیں جو ہر شریعت اور ہر رسالت میں خدا کو مطلوب رہی ہیں، ایک
خصوصی شان رکھتی ہیں۔ ہر ہر زمانے کے عبادت گزار اِن کے ذریعے خدا کو پانے کےلیے
کوشاں رہے؛ اور خدا اِس ذریعے سے اُنہیں اپنے حضور باریاب کرتا رہا۔ پس روزے کی
عبادت مسلمان کو تاریخ میں بہت پیچھے تک لے جاتی ہے؛ اور یہ ازل سے زمین پر خدا کی
عبادت کرنے والے انسانوں کے ساتھ جا ملتا اور زمین پر تمام عبادتگزاروں کا جو
اپنےاپنے دور میں خدا کو پوجتے رہے، واحد جانشین ٹھہرتا ہے۔ وہ عبادت جو صرف خدا
کے مقرر ٹھہرانے سے مقرر ٹھہرتی ہے نہ کہ انسان کے خود اپنے وضع کر لینے سے؛ اور
جوکہ خدا کی طرف سے ہر دور میں اُس کے سچے طلبگاروں سے ’’مانگی‘‘ جاتی رہی... آج
وہ اِس خوش نصیب سے ’’مانگی‘‘ جا رہی ہے۔ بھلا اِس سے بڑھ کر کیا شرف ہو سکتا ہے!
یہاں؛ ابن کثیرؒ نے اس
اصول کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جہاں پہلی
امتوں پر مقرر ٹھہرائی گئی عبادتوں کا ہمارے سامنے ذکر کیا گیا؛ اور ہماری اور ان
کی عبادت میں مماثلت بیان ہوئی... وہاں دو باتیں شریعت کو مطلوب ہوتی ہیں: ایک،
پچھلے عبادت گزاروں کو اپنا پیش رَو ماننا اور ان میں اپنے لیے نمونہ دیکھنا۔
دوسرا، ان پر بازی لے جانے کی کوشش کرنا۔ جیساکہ فرمایا: {لِكُلٍّ جَعَلْنَا
مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً
وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ’’ہر
ایک کےلیے ہم نے ایک شریعت اور راستہ مقرر کیا۔ اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت
کر دیتا، مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے؛ تو بازی لے
جاؤ بھلائیوں کی طرف}۔ غرض امتحان کے کچھ سوال ایسے ہیں جو
ہر امت کے پرچے میں آئے، تاکہ معلوم ہو کون کس سے بڑھ کر نمبر لے جاتا ہے۔ پس یہ
’’روزہ‘‘ کی عبادت امتوں کے ایک دوسرے کے مقابل زور لگا دینے کا میدان ہے۔ بلکہ
امتوں کا ایک کھلا مقابلہ۔ سعدیؒ کہتے ہیں: یہ اِس امت کی ہمتوں کو مہمیز دینا ہے
کہ عبادت کے اس مخصوص عمل میں، جس میں ہر امت کو آزمایا گیا، دیکھتے ہیں دوسروں کے
مقابلے پر یہ کیسے ثابت ہوتے ہیں۔
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
سعدیؒ کہتے ہیں: یہ ہوئی
حکمت روزے کو مشروع ٹھہرانے سے۔ یعنی پرہیزگار بننا۔ اس سے ثابت ہوا روزہ میں
تقویٰ پیدا کرنے کی کوئی خاص ہی صلاحیت ہے۔ کیونکہ اس میں خدا کے حکم کی تعمیل اور
اُس کے ممنوعہ امر سے رکنے کی نہایت خوب مشق کرائی جاتی ہے۔ نفس کےلیے سب سے بڑھ
کر مرغوب دو چیزیں ہیں: ایک اس کے شکم کی ضرورت۔ اور ایک اس کی شرمگاہ کی شہوت۔
روزہ، خدا کے خوف اور چاہت میں اِن دونوں کو لگام ڈال دینے کا نام ہے۔ پورا پورا
دن اِن خواہشات کو دبانا اور اس ذریعے سے خدا کی قربت پانا۔ خدا کے اجر و ثواب پر
نگاہ لگا کر رکھنا اور اس کے مقابلے پر اپنے جسم اور نفس کے فوری مطالبہ کو مسترد کرتے
چلے جانا۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
علاوہ ازیں، روزہ ایک طویل
مراقبہ ہے۔ مراقبہ یعنی اس شعوری عمل سے گزرنا کہ آدمی خدا کو دیکھ رہا ہے یا خدا
اسے دیکھ رہا ہے۔ اب ایک چیز پر نفس کو قدرت بھی ہے اور نفس اس کےلیے للچاتا بھی
ہے، لیکن یہ اپنے آپ کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ خدا اِسے دیکھ رہا ہے۔ یہ تقویٰ کی
ایک نہایت خوب جہت ہے۔
یاد رکھو! شیطان کو ابن
آدم کے ہاں نقب لگانے کے دو راستے میسر ہیں۔ ایک اِس کا شکم۔ اور ایک اِس کی
شرمگاہ۔ ’’روزہ‘‘ اِن دونوں پر پہرے بٹھا دینے کا نام ہے۔ شکم اور شرمگاہ کو کچھ
دیر کےلیے اُس چیز سے بھی روک دیا جاتا ہے جو عام حالات میں اِس کےلیے مکمل طور پر
حلال ہے۔ یعنی کچھ طویل ساعتیں ’’خواہش‘‘ کو اِس کے حق میں سرے سے معطل ٹھہرا
دینا، اور اِس حال میں اِس کو خدا کی جانب متوجہ کرنا۔ اور یہ تو تمہیں معلوم ہے،
خواہشات معصیت کا پیش خیمہ ہیں تو نیکیاں اطاعت وعبدیت کا ذریعہ۔ یعنی نفس کے اندر
ممنوعہ راستوں کو مسدود کردینا اور مطلوبہ جہتوں کی جانب نفس کے رجحانات کو زیادہ
سے زیادہ تحریک دینا۔ تقویٰ فی الحقیقت اِسی کا نام ہے۔
اِس سے پہلے ہم بیان کر
چکے، نماز خالق کے ساتھ معاملہ ہے تو زکات مخلوق کے ساتھ احسان؛ گو ہیں دونوں خالق
ہی کی عبادت۔ روزہ بیک وقت یہ دونوں خصائص رکھتا ہے۔ یہ خالق کی جانب التفات بھی
ہے اور بھوکی مخلوق پر گزرنے والی حالت کا احساس بھی؛ جس کے نتیجے میں جہاں خدا کی
چاہت اور یاد پیدا ہوتی ہے وہاں مخلوق کےساتھ بھلائی کا داعیہ بھی جنم لیتا ہے۔
تقوىٰ عملاً اِنہی دو جہتوں پر پایاجاتا ہے۔
أَيَّامًا
مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ
أَيَّامٍ أُخَرَ
یہاں اُس مبحث کا بیان ہے
کہ تشریعاتِ خداوندی انسان کی اپنی منفعت کےلیے ہیں اور ان میں انسان کی سہولت بھی
خاطرخواہ حد تک پیش نظر رکھی گئی ہے۔ بھاری بھرکم ریاضتیں یہاں ہیں ہی نہیں۔ یہ
دینِ خداوندی ہے جو انسان کی فطرت کے ساتھ کلی مطابقت رکھتا ہے۔ ’’عبادت‘‘ اِس کے
نفس کو پاک صاف کرنے کےلیے ہے تاکہ یہ خدا کے ہاں قبولیت پا سکے؛ کیونکہ وہ پاک ہے
اور صرف پاک کو قبول کرتا ہے۔ اب چونکہ نفس کا ایک عمل سے گزرنا اس کی اپنی افزودگی
و ترقی کےلیے ہے، تاکہ یہ خدا کی مجاورت(دارِ خلود) میں رہنے کی اہلیت پائے...
لہٰذا اِس کو ایک خوشگوار عمل ہی رہنا ہے نہ کہ کوئی بوجھ بننا ہے۔ چنانچہ:
ü
ایک یہ فرمایا کہ یہ کوئی
تمام زندگی کا عمل نہیں؛ محض چند دنوں کی ریاضت ہے۔ جس طرح آدمی کو کسی مخصوص کورس
سے گزارا جاتا ہے؛ اور وہاں سے اس میں کوئی خصوصی اہلیت پیدا کرانے کے بعد اس کو
معمول کی زندگی میں واپس بھیج دیا جاتا ہے؛ جہاں اس اہلیت کا اصل استعمال ہو؛ اور
پھر اس کے نتیجے میں اس کی لیاقت ثابت ہو؛ اور یہ لائقِ اِنعام و اِکرام ٹھہرے۔ لہٰذا
اصل یہ ہے کہ اِن چند دنوں کی محنت سے واقعتاً نفس میں وہ چیز پیدا ہو جائے جو اِس
کمال عبادت سے خدا کا مقصود ہے۔
ü
دوسرا، فرمایا کہ ایک مریض
یا مسافر کے حق میں یہ عمل موخر ہو سکتا ہے تاوقتیکہ وہ اِس خوبصورت عمل کو کامل
خوشگوار حالت میں انجام دینے کے قابل نہ ہو جائے۔
رخصت کی دیگر صورتیں جو
آگے چل کر آئیں گی، وہ بھی اِسی مضمون کا تسلسل ہوں گی۔
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ
مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔
سعدیؒ فرماتے ہیں: یہ صیام
کی ابتدائے فرضیت کے وقت تھا۔ چونکہ وہ لوگ روزہ کے عادی نہ تھے اور روزہ لازمی
ہونے کی صورت میں ان پر مشقت ہوتی، لہٰذا پروردگار نے ان کے ساتھ تدریج کی راہ
اختیار کی اور ابتداء میں ان کو ایک سہولت دے دی۔ یعنی روزہ پر قدرت رکھنے والے
آدمی کو ایک چناؤ حاصل تھا کہ وہ روزہ رکھ لے یا ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ ہاں
ایک سے زیادہ کو کھلائے تو یہ اس پر ہے کہ وہ اپنے اجر و ثواب کو اور بھی بڑھا لے۔
گو روزہ رکھنا اُس کے حق میں ہے افضل۔ تاہم، بعدازاں یہ حکم تبدیل کر دیا گیا، جس
کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے؛ یعنی چناؤ ختم؛ اور روزہ ہر حال میں لازمی، سوائے
ایک مریض یا مسافر کی استثناء کے۔
سعدیؒ اور ان سے پہلے
متقدمین نے ذکر کیا کہ: (ابن عباس سے مروی) ایک قراءت کی رُو سے یہ لفظ یُطَــیَّـقُونَهٗ بھی پڑھا گیا ہے (ط کی زبر اور ی کی شد اور زبر کے ساتھ) جس کا مطلب ہوگا کہ ’’جن
لوگوں پر یہ (روزہ رکھنا) شدید باعثِ مشقت ہے‘‘؛ اور جس کی تفسیر ابن عباس نے
’’عمررسیدہ شخص‘‘ سے کی ہے۔ اسی پر وہ مریض قیاس ہوگا جس کا مرض ختم ہونے کی اب آس
نہیں۔ اس قول کی رُو سے یہ حکم منسوخ نہ ٹھہرا؛ بلکہ بوڑھے اور لاعلاج مریض کے حق
میں مخصوص ہوگیا۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي
أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى
لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
یعنی روزوں کا مہینہ اب یہ
ہوگا۔ اِس مہینے میں خاص بات کیا ہے جو روزہ ایسی مخصوص عبادت کےلیے موزوں ٹھہرایا
گیا؟
نزولِ قرآن۔
خوب جان لو! روزہ اور قرآن
کے مابین کوئی خصوصی تعلق ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ماہِ قرآن کو ماہِ صیام ٹھہرا دیا گیا۔
رمضان کے دن: روزہ کےلیے۔ اور رمضان کی راتیں: قرآن کےلیے۔ اس سے پہلے ہم کہہ چکے
کہ روزہ خواہشاتِ شکم و شرمگاہ کے آگے بندھ باندھ کر نفس کو خدا کے آگے زیر کرنے
سے عبارت ہے۔ ادھر قرآن اس کی عقل کو مہار ڈالنے اور خدا کے آگے سجدہ ریز کرانے
کےلیے ہے۔ یہ قلب و شعور کو خالق کی پہچان سے بہرہ ور کراتا ہے؛ اور اِس کی زندگی
کو عبادت کی وہ جامع جہت دیتا ہے جو اسے خدا کے در تک لےجاتی ہے۔ اِس قرآن سے بڑھ
کر انسانوں پر خدا کا کوئی انعام نہیں؛ اور یہ بےمثال واقعہ ماہِ رمضان میں پیش
آیا؛ جس پر اب یہ حق ٹھہرا کہ یہ یادگار مہینہ لوگ عبادتِ صیام میں گزار کر شکرانہ
ادا کریں۔ چنانچہ قرآن کے صرف نزول کا ذکر نہیں ہوا، بلکہ وہ فنکشن بھی بیان ہوا
جو قرآن انسانوں کی زندگی میں انجام دیتا ہے۔
ü
هُدًى
لِلنَّاسِ: انسانوں
کو خدا کے در تک پہنچانے والا۔ اہل زمین کو دیا گیا خدا کا پتہ۔ کائنات کے سربستہ
رازوں سے اٹھایا گیا پردہ۔ زندگی کی حقیقتوں کا اصل سراغ۔ وہ باتیں جن پر سوچتے
سوچتے عقلاء اور حکماء نے بال سفید کرلیے، مگر ان کی سرگردانی بڑھتی ہی چلی گئی،
اور کوئی ایک بات یقین اور وثوق کی کبھی ان کے ہاتھ نہ آئی... خالقِ کائنات نے خود
ہی کلام فرما کر اُن سب رازوں سے پردہ اٹھا دیا؛ اور جو جو باتیں انسانوں کے جاننے
کی تھیں، اور وجود کے اِس بحر ناپیداکنار میں ان کو پار لگانے کی تھیں، وہ نہایت
واضح لفظوں میں اُن کےلیے بیان کردیں۔ اس قرآن میں حقیقت بھی ہے جو وجود کی بابت
انسانوں کی سرگردانی دور کرتی ہے۔ اِس قرآن میں طریقت بھی ہے جوانسانوں کو خالق تک
پہنچنے کا راستہ متعین کر کے دیتی ہے۔ مبتدا بھی ہے اور منتہا بھی۔ عقیدہ بھی اور
شریعت بھی۔ اور فلاح وکامرانی کے سب کے سب نسخے بھی۔ قلب کی راحت بھی، ذہن کا سکون
بھی، ضمیر کا اطمینان بھی، اور زندگی کے ایک ایک قضیے کی بابت باقاعدہ ایک میزان
بھی۔ یہ ہے وہ نسخۂ کیمیاء جو اِس موسمِ
قرآن کے دوران قلوب کی سرزمین میں گہرا اتارا جانا ہے۔
ü
وَبَيِّنَاتٍ
مِنَ الْهُدَى: اس
ہدایت کے دلائل بھی اس کے اپنے ہی اندر
موجود ہیں۔ یہ راہ بھی ہے اور نشانِ راہ بھی۔ یہ حقیقت بھی ہے اور حقیقت کا بیان
بھی۔ یہ ایک روشن دستاویز ہے؛ کسی باطنی تفسیر کی محتاج نہیں۔ اس میں کوئی ایسے رموز
نہیں جو ’سالک‘ کو کسی حجرہ در حجرہ بند مقام پر لےجا کر، یا درجہ بدرجہ ’سیڑھیاں‘
چڑھا کر، منکشف کرنے کے ہوں۔ کوئی سربستہ راز نہیں جو ’خواص‘ کے ماسوا کسی کو دینے
کے نہ ہوں۔ رازی اِس اشکال کا جواب دیتے ہوئے کہ قرآن کےلیے یہاں ’’ھدیٰ‘‘ کا لفظ
دو بار کیوں آیا ہے: تین وجوہ بتاتے ہیں:
1)
یہ کہ نہ صرف یہ ہدایت ہے
بلکہ اس سے ہدایت لینا بہت آسان بھی ہے۔
2) آل
عمران کی آیت 3، 4 نَزَّلَ عَلَيْكَ الكتاب بالحق مُصَدّقاً لّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ
التوراة والإنجيل * مِن قَبْلُ هُدًى لّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الفرقان کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے (جس میں تورات اور انجیل کو دورِ ماضی کی ھدیً للناس کہا گیا)، مراد یہ
کہ: قرآن نہ صرف بجائےخود ہدایت ہے اس میں قدیمی کتب میں پائی جانے والی ہدایت کے
تمام نشانات بھی دستیاب ہیں۔
3)
یہ
کہ پہلی بار مذکور ’’ھدیٰ‘‘ کو اصولِ دین پر محمول کیا جائے اور دوسری بار کی
’’ھدیٰ‘‘ کو فروعِ دین پر۔ اس طرح بھی تکرار کا یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔
ü
وَالْفُرْقَانِ: یہ بھی بنیادی طور پر ’’ھدیٰ‘‘ اور ’’بیان‘‘ کا ہی ایک
درجہ ہے۔ یعنی وہ چیز جو سب اشکال ہی ختم کردے۔ یہ قرآنِ مجید کا اخص الخاص وصف
ہے۔ بےشک ایک دو مقامات پر تورات کو بھی فرقان کہا گیا ہے، لیکن آل عمران کے شروع
میں تورات اور انجیل کے مقابلے پر قرآن کو خصوصی طور پر فرقان کے نام سے ذکر کیا گیا۔ کئی ایک مقامات پر قرآن کا نام ہی فرقان ذکر
کیا گیا۔ یہ وہ سورج ہے جو کبھی جہان میں
اندھیرا نہ ہونے دے گا۔ جاہلیت کے لشکروں کی اِس کے آگے ایک نہ چل پائے گی۔
باطل اِس کے آگے کبھی نہ ٹھہر پائے گا۔ اندھیرے اِس کے آگے سمٹتے ہی چلے جائیں گے۔
شرک کی قوتیں پسپا ہوتی چلی جائیں گی۔ نہ دل کی تاریکیاں اس کی تاب لانے کی اور نہ معاشرے کی ظلمتیں۔ ابلیس کے سب جنود
اس کے آگے بھاگ جانے والے ہیں۔ دنیا میں شرک کو مٹانے اور جاہلیت کو پیغامِ
اجل سنانے والوں کےلیے ہمیشہ یہ ایک راہنما کتاب ہوگی۔ برے سے برے اور الجھے سے
الجھے حالات میں یہ ایک قولِ فیصل دے سکے گی اور ہر قسم کے فتنوں سے باہر نکال لانے
والی کتاب ہوگی۔ ہر انحطاط اور ہر زوال کے وقت یہ پار لگنے والوں کا توشہ اور امید
ہوگی۔
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ
الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
ایسا بابرکت مہینہ اب
تمہارے لیے مقرر ٹھہرایا جاتا ہے کہ اسے عبادتِ صیام میں گزارو۔ سعدی کہتے ہیں:
یعنی وہ چناؤ جو پچھلی آیت میں ذکر ہوا، یعنی روزہ یا مسکین کا کھانا، اب باقی
نہیں رہا۔ اب ہر شخص کو لازماً روزہ ہی رکھنا ہے۔
وَمَنْ
كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
سعدیؒ
کہتے ہیں: چونکہ پچھلی آیت میں مذکور ایک رخصت ختم کر دی گئی اور ہر کسی پر ہر حال
میں
روزہ ہی فرض ٹھہرا دیا گیا، لہٰذا اندیشہ پیدا ہوا کہ مریض اور مسافر کی رخصت بھی
باقی نہ رہے۔ چنانچہ اس رخصت کا اعادہ کر دیا گیا کہ یہ بہرحال برقرار ہے؛ کیونکہ
اِس مسئلہ کے ساتھ شریعت کے کچھ آفاقی اصول
وابستہ ہیں؛ وہ چیز جسے شاطبیؒ کلیاتِ شریعت کا نام دیتے ہیں۔ یعنی دین میں
یُسر اور رفعِ حرج؛ جوکہ شریعت کا ایک کُلی قاعدہ ہے۔
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ
الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ
طبری قاسم بن محمد سے بیان
کرتے ہیں: کہ مسافر کو جو چیز آسان نظر آئے وہ کر
لے۔ روزہ ابھی رکھنا، یا فی الحال چھوڑ لینا اور بعد میں گنتی مکمل کر لینا؛ جو
بھی اس کو آسان تر لگے۔ نیز قتادہ سے
قول لاتے ہیں: اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں
چاہتا؛ پس تم بھی اپنے لیے آسانی ہی چاہو اور اپنے ساتھ تنگی مت چاہو۔
یہاں سے اِس دین کی طبیعت
اور مزاج واضح ہو جاتا ہے:
حدیثِ نبوی ہے: إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ (رواہ البخاری، عن أبی ھریرۃ، رقم 39)۔ ’’دین درحقیقت
آسانی ہے۔ جو شخص بھی دین پر قابو پانا چاہے گا دین اس کو مات دے دے گا‘‘۔ یعنی اس
دین پر چلتے ہوئے آدمی تواضع اور انکساری رکھے اور جھنڈے گاڑ آنے کی سوچ کے ساتھ
اس میں بالکل آگے نہ بڑھے۔ دین میں آسانی کی روش پر رہے؛ کیونکہ شدت کی جانب گیا
تو دین اس کو بےبس کر دے گا اور آخر اس کو دین سے ہار ماننی پڑے گی۔ امام بخاری ’’الدینُ یُسۡرٌ‘‘ کے
عنوان سے باقاعدہ باب باندھتے ہیں اور اس میں معلق حدیث لے کر آتے ہیں؛ جوکہ دیگر
کتبِ حدیث سے صحیح ثابت ہے: أَحَبُّ الدِّينِ إِلَى
اللَّهِ الحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ ’’خدا کے ہاں سب سے پسندیدہ اندازِ دینداری وہ حنیفیت
(موحدانہ طرزِ عمل) ہے جس میں وسعت اور گنجائش ہو‘‘۔
وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ
عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
مفسرین نے کہا: اس سے مراد
عید کی تکبیرات ہیں۔ یعنی عبادت کا خصوصی مہینہ گزارا تو یہ توفیق ملنے پر ازراہِ
شکرانہ خدا کی بڑائی کرنے لگے۔ سعدی کہتے ہیں: یہ تکبیر ہلالِ شوال (عید کا چاند)
دیکھنے کے ساتھ شروع ہوگی اور خطبۂ عید کے اختتام تک چلے گی۔
(نوٹ:
ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور
پر شامل ہوتے ہیں)
آیاتِ صیام کا حصہ دوم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں