عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ریاست: جبرِ حق یا دھونس؟
:عنوان

اصل پائیدار "جبر" دنیا میں وہ ہے جس کا میدان عقول ہوں... اور جس کے ہتھکنڈے کالج یونیورسٹیاں اعلیٰ تحقیقاتی ادارے دماغوں کو ٹیون کرنےوالےآلات ابلاغ اور ادبیات ہوں۔ "ریاست" کی اصل قوت اور درازیِ عمر اسی میں پنہاں

. باطلفكرى وسماجى مذاہب . ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

Text Box: 1

ریاست: جبرِ حق یا دھونس؟

’’جبر‘‘ دلیل کے ساتھ ہو تو برحق ہے ورنہ ناحق۔ ہر ریاست ہوتی ’’جبر‘‘ ہے البتہ ’’حق‘‘ نظر آنے کےلیے وہ اپنے وجود کی دلیل بھی دینے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم جسے وہ ’دلیل‘ کہتی ہے وہ نرا ’’دعویٰ‘‘ ہوتا ہے۔ ہاں اس کا نام دھونس ہے۔

ہر ریاست ایک طرح کا جبر ہوتی ہے؛ اور یہ ’’جبر‘‘ ایک خاص دائرہ کے اندر انسانی اجتماعی زندگی کی ضرورت ہے۔ عقلاء کا اس پر کوئی اختلاف نہیں۔ یہاں جتنا بھی بحث و آراء آپ دیکھیں گے وہ اِس ’’جبر‘‘ کی اصولی ضرورت پر نہیں۔ سب جدل اُس ’’دلیل‘‘ کے گرد ہے جہاں سے اِس ’’جبر‘‘ کو اپنے لیے جواز پانا ہوتا ہے؛ یعنی کوئی ’’جابر‘‘ ہے تو کیوں اور ’’مجبور‘‘ ہے تو کیوں؟ کوئی کسی کے جان و مال میں متصرف ہے تو کیوں؟ نیز یہ جدل اُن حدود و قیود کے گرد ہے جن کا اِس ’’جبر‘‘ کو پابند رہنا ہوتا ہے۔

البتہ یہ کچھ غیراختتام پذیر بحثیں ہیں۔ یہاں بےشمار فلسفے پیش کر لیے گئے اور بےشمار فلسفے وہ لوگ آکر  پیش کریں گے جو ابھی اِس جہان میں نہیں آئے۔ غرض ایک بات کی ضرورت دنیا میں ہمیشہ سے ہے، مگر اُس ضرورت کو پورا کرنے کی ’’دلیل‘‘ اور ’’حدود و قیود‘‘ سے متعلق کوئی بات آج تک بنی نوع انسان کے مابین سرے نہیں لگی اور نہ قیامت تک اِس کا امکان ہے!

البتہ ’’جبر‘‘ اپنی ضرورت منواتا؛ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا!

پھر یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ کسی جائز بنیاد اور کسی عادلانہ حدود و قیود کے بغیر یہ ’’جبر‘‘ ہی ’’ظلم‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں روزِ اول سے یہ ’’ظلم‘‘ بےحدوحساب ہو رہا ہے؛ اور یہ اتنا سارا ظلم اپنے حساب  کےلیے بلاشبہ ایک حشر کا متقاضی ہے۔

یعنی ’’جبر‘‘ ضرورت بھی ہے، اور اگر یہ حق پر ہو تو اِسی کو ’’عدل‘‘ بھی کہیں گے، لیکن کسی دستورِ حق کی غیرموجودگی میں اِس سے بڑا ’’ظلم‘‘ بھی کوئی نہیں ہے۔

نہ ایک چیز کے ہوئے بغیر چارہ.. اور نہ اس کو حق کا پابند رکھے بغیر کوئی مفر!

’’حق‘‘.. جس کے تعین پر انسانوں کے مابین معرکۂ آراء ہے؛ اور جس کا سِرا انسانی بحثوں کے الجھاؤ میں گم ہو جاتا ہے! اِسکو جتنا ڈھونڈو یہ اتنا الجھتا ہے؛ سوائے یہ کہ آدمی کو ’’ہدایت‘‘ مل جائے۔

انسانوں کے یہ نزاعات جن میں یہ قیامت تک بحث کر سکتے ہیں (جبکہ یہ وہ نزاعات ہیں جن میں کوئی فیصلہ کن بات لوگوں کو قیامت سے پہلے ان کی اِسی دنیا میں درکار تھی!)... انسانوں کے یہ نزاعات سرے لگانے کےلیے کوئی ’’حوالہ‘‘ متصور نہیں ہے سوائے اِس ایک بات کے کہ خدائے دانا کوئی پیغمبر بھیج کر خود اپنے فرمان سے ان کا فیصلہ کر دے۔ جس کے بعد یہ جھگڑا آراء کا نہ رہے،؛[i] بلکہ یہ جھگڑا ایک ’’فیصلہ کردینے والی بات‘‘ اور ’کبھی فیصلہ نہ کر پانے والی باتوں‘ کے مابین ہوجائے۔ یعنی ایمان اور کفر۔

پس کسی نظریہ پر ایک جبر (جدید زبان میں: ’’سٹیٹ‘‘) کھڑا کر لیا جانا اس کو حق ہونے کی سند نہیں دیتا، خواہ وہ روسو کا نظریہ ہو یا ہابس، لاک، کانٹ یا کسی اور کا۔ دوسروں کا زور چلے گا تو وہ اپنے نظریہ پر ’’سٹیٹ‘‘ کھڑا کریں گے۔ اور یہ عمل سدا جاری رہے گا۔ یہ اکھاڑپچھاڑ انسانی تاریخ میں برابر چلے گی۔ اصل کہانی یہی ہے۔ تاہم یہ مزید دلچسپ ہوجاتی ہے کہ:  انسان کو ایک حق پرست طبیعت بھی عطا ہوئی ہے جو جبرِ محض کو قبول نہیں کرتی۔ لہٰذا ہر ریاست کو اسی ’’جبر‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے اذہان پر عمل کرنا اور تمام امکانات کو بروئےکار لاکر عقول میں یہ بٹھانا ہوتا ہے کہ یہ کسی حق کے زور پر قائم ہے۔ یعنی ’’جبر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’عقول میں نقب‘‘ لگنے کے امکانات بھی ہمیشہ ہوں گے۔ بلکہ اصل ’’جبر‘‘ یہی ہے۔ پس تمام تر مسئلہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے کالج اور یونیورسٹیاں یہاں کس نظریے کا جبر پڑھاتی ہیں۔ آپ کی ابلاغیات یہاں کس دواساز کی تیارکردہ خوراکیں دماغوں میں انڈیلتی ہیں۔ اور  آپ کے  شعبہ ہائے حیات یہاں کے عام آدمی کو ’زندگی کی دوڑ‘ میں حصہ لینے کےلیے کونسا راستہ کھول کر دیتے ہیں۔ ایک بڑی خلقت اِس جہان میں  ہمیشہ ایسی ملےگی جو ہر نظریۂ قائمہ prevailing thesis کے فرمائے کو مستند جانے!

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ                  (الزخرف: 54)

فرعون نے اپنی قوم کی عقل مار دی؛ اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ دراصل وہ تھے ہی بدکار لوگ۔

یہ وجہ ہے کہ ایک غالب نظریہ اپنی آدھی بات بھی کرے تو لوگ اس پر سر دھنتے ہیں گویا واقعتاً اُس کی ’دلیل‘ سے گھائل ہو گئے! جبکہ وہ نظریہ جس میں ’سٹیٹس کو‘ کا عفریت نہ بول رہا ہو کم ہی کسی کو اپنا مدعا سمجھا پاتا ہے۔

پس اصل ’’پائیدار‘‘ جبر دنیا میں وہ ہے جس کا میدان عقول ہوں... اور جس کے ہتھکنڈے کالج، یونیورسٹیاں، اعلیٰ تحقیقاتی ادارے، دماغوں کو ’ٹیون‘ tune کرنے والے آلاتِ ابلاغ اور ادبیات ہوں۔ ’’ریاست‘‘ کی اصل قوت اور درازیِ عمر سمجھواسی میں پنہاں ہے۔

غرض ایک غالب تہذیب جس چیز کو اپنے تئیں دلیل کہتی ہے، اور اُس کے دماغوں پر حاوی ہونے کے باعث دنیا بھی اس کو ’دلیل‘ مانتی اور ’دلیل‘ سمجھ کر پھیلاتی ہے... ذرا غور کرنے سے آپ پر کھلتا ہے کہ وہ ’’دلیل‘‘ نہیں محض ایک ’’دعویٰ‘‘ ہے۔

نرا ایک دعویٰ... خصوصاً ’’جبر‘‘ کے موضوع پر اپنا جواز ثابت کرنے میں۔ نیز اس جبر کی حدود و قیود نشان زد کرنے میں۔

وجہ یہ کہ ’’جبر‘‘ درحقیقت ’’خدائی‘‘ کا ایک مظہر ہے؛ اور انسان سراسر بندے؛ نہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر خدا بن سکتا ہے اور نہ یہ سب مل کر خدا ہو سکتے ہیں۔ جب یہ بندے ہیں تو اِن کے ہاتھوں جاری ہونے کےلیے کسی بھی ’’جبر‘‘ کو خدا کی جانب سے آئی ہوئی کوئی واضح سند درکار ہوگی؛ جوکہ اُس کی شریعت ہی ہو سکتی ہے؛ کہ ایسی ذلت[ii]  خالق ہی اپنی مخلوق پر مسلط فرما سکتا ہے؛ اور ذلت ہی اصل عبادت۔ پس جس طرح خدائے برحق کے سوا ہر کسی کی خدائی جھوٹی ہے اسی طرح خدا کی شریعت کے سوا انسان کو اپنا  subject  ٹھہرانے والی ہر اتھارٹی ایک باطل دعویٰ ہے۔ پھر خاص طور پر جب یہ اتھارٹی محض انتظامی نہ ہو بلکہ تشکیلی ہو۔[iii]  یعنی انسانی شعور کی باقاعدہ تشکیل کرنے اور اس کے نتیجے میں سوسائٹی کو باقاعدہ ایک ساخت دینے تک جاتی ہو، نہ کہ معاشرے کے انصرام تک محدود رہتی ہو۔

آنے والی چند فصول میں اس دھونس کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔

 (زیرتالیف: ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’ریاست ایک جبر یا دھونس‘‘؟ شائع ایقاظ، اپریل 2014)

 


 

 

 



[i]     کیونکہ آراء کا فیصلہ اِس دنیا میں فی الواقع ممکن نہیں ہے؛ ’’آراء‘‘ کا فیصلہ ’’آراء‘‘ سے ہی کیا جائے گا تو یہ ایک غیر اختتام پذیر عمل ہوگا۔ لامحالہ یہ فیصلہ ’’آراء‘‘ سے نکل کر ہو گا۔

   اس کے تعلق سے مزید دیکھئے اس کتابچہ کی فصل ’’کتاب سے سوسائٹی‘‘ حاشیہ 4

[ii]   ایک خطہ میں پائے جانے والے بنی آدم کو باقاعدہ “subject” قرار دینا (جدید ریاست کی باقاعدہ اصطلاح)۔ ہو بھی کیوں نہ جب ریاست ان کی جان، مال، عزتوں آبروؤں ہر چیز کے اندر متصرف ہے اور ان کے ذہنوں کی تشکیل اور ان کےلیے خیر و شر کے پیمانے تک صادر کرنے کی مجاز!

[iii]    نظم یا جبر کے حوالے سے ’’انتظامی‘‘ اور ’’تشکیلی‘‘ کا فرق پیچھے گزر چکا۔

Print Article
  ہیومن ازم
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز