اختصارِ آرزو
ابن رجب الحنبلی
عبد
اللہ بن عمر کی وصیت ہے:
”شام پالو تو صبح کی امید نہ
رکھو اور صبح پالو تو شام کی آس نہ لگاؤ، اور اپنی تن درستی سے اپنی بیماری کے
لئے کچھ اٹھا لو اورزندگی سے موت کیلئے کچھ لے لو“
اختصارِ آرزو کا مطلب ہے: آدمی ہر لمحہ تیار رہے کہ کب بلاوا
آجائے؛ گویا یہ وطن ہے ہی نہیں۔
’’دنیا
کی بابت زہد برتنے‘‘ کی علماءنے یہی تفسیر کی ہے۔ امام مروزیؒ کہتے ہیں: امام
احمد سے پوچھا گیا یہ ’دنیا میں زہد‘ یا ’دنیا کو بے وقعت جاننا‘ کیا ہے؟
فرمایا:’یہی کہ یہاں آرزو مختصر کر لو۔ صبح پالو تو کہو کیا پتہ شام آتی ہے یا
نہیں‘۔ امام مروزیؒ کہتے ہیں: سفیان ثوری بھی یہی کہا کرتے تھے۔
بکر
مزنیؒ کہتے ہیں: تم میں سے کوئی جب رات کو سوئے تو اگر ہو سکے تووصیت سرہانے رکھ
چھوڑے۔ کیا معلوم رات وہ اہل دنیا میں تھا تو صبح وہ اہل آخرت کے ہاں کرے۔
اویس
کو جب پوچھا جاتا: حضرت کیسی گزر رہی ہے؟ تو فرماتے: کیسی گزرے گی اس آدمی کی، جسے
کوئی صبح مل جائے تو شام کی آس نہ ہو اور شام پائے تو صبح کا یقین نہ ہو اور پھر
آگے پہنچے تو معلوم نہیں جنت یا جہنم، کہاں بھیجا جائے۔
عون
بن عبداللہ فرمایا کرتے تھے: جو آدمی کل کو اپنی زندگی میں شمار کرتا ہے وہ بھلا
آدمی موت سے واقف ہی نہیں۔ کتنے ہیں جو دن شروع کر لیتے ہیں مگر پورا نہیں کر
پاتے۔ کتنے ہیں جو کل کی آس پر رہتے ہیں مگر ان کی کل نہیں آتی۔ اگر کہیں تم اجل
کا روپ جان لو اور کہیں تم یہ دیکھ لو کہ ’اجل‘ آتی کس طرح ہے تو تم کو ’آس‘ بہت
ہی بری لگنے لگے اور ’آس‘ کے فریب میں رہنا اس سے بھی برا۔
عون
بن عبد اللہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: مومن کے حق میں سب سے کارآمد دن وہی ہوتا ہے
جسے وہ شروع کرے تو سمجھے کہ اس دن کا آخر وہ نہیں دیکھے گا۔
مکہ
میں کوئی عبادت گزار عورت تھی۔ شام پڑتی تو وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوتی: اے نفس بس
یہی رات ہے اگلی کو ئی رات کیا پتہ تم دیکھو نہ دیکھو۔ صبح ہوتی تو پھر وہ اپنے آپ
کو مخاطب کرتی: اے نفس بس یہی دن ہے جو تجھے ملا ہے اگلا کوئی دن تجھ پہ آئے یا نہ
آئے۔ جو ہو سکتا ہے بس آج ہی کر لو۔
بکر
مزنی فرماتے تھے: اگر تم نماز سے لطف لینا چاہتے ہو تو یہ سمجھ کر نماز پڑھو کہ
اس کے بعد کوئی نماز پڑھنے کو شاید ملے یا نہ ملے۔ ان کا یہ قول دراصل نبی ﷺ سے جو
روایت ہوئی ہے اس سے ماخوذ ہے یعنی صل صلاة مودع ”اس شخص کی سی نماز
پڑھو جو دنیا سے رخصت ہو رہا ہو“۔
کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے گیا۔ دروازے پر دستک دی تو
جواب ملا: صاحب گھر پر نہیں۔
پوچھا: کب واپسی ہو گی؟ یہ کوئی باندی تھی اور معرفت میں خاص
مقام رکھتی تھی۔ دروازے کی اوٹ سے بولی: جس کی جان اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں کون
بتائے وہ کب آتا ہے!
ابو
العتاہیہ کے دو شعر ہیں:
ادھر
میں عمر دراز کی آس رکھوں ادھر معلوم نہیں جس دن کی صبح ملتی ہے اس کی شام بھی
ساتھ میں ملتی ہے یا نہیں۔
تم
دیکھتے نہیں جب بھی سویر ہوتی ہے تو وہ تمہاری عمر کو کاٹ کر اور اس سے ایک دن
گھٹا کر ہوتی ہے۔
ابو
العتاہیہ کا یہ دوسرا شعر دراصل ابو الدرداء اور حسن بصری کے اس قول سے ماخوذ
ہے:
ابن
آدم! جب سے تم ماں کے پیٹ سے نکلے ہو تب سے تم اپنی عمر کی عمارت ایک ایک اینٹ کر
کے گرا رہے ہو۔
پھر
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:
”اپنی تندرستی سے اپنی بیماری
کے لئے کچھ اٹھا لو اور زندگی میں موت کےلیے کچھ کر لو“۔
اسی
عبداللہ بن عمرؓ والی روایت میں ایک الفاظ یہ بھی آتے ہیں:
فإنک یا
عبداللّٰہ لا تدری ما اسمک غداً
”وہ اس لئے اے عبداللہ کہ تم
کیا جانو کل تمہیں کیا پکارا جاتا ہے“
یعنی تم کیا جانو کل تم زندوں میں گنے جاؤ گے یا
مردوں میں۔