عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, November 23,2024 | 1446, جُمادى الأولى 20
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-10 TaamulAhleQibla آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
متن شیخ سفر الحوالی: منہج تعامل اہل قبلہ
:عنوان

اہل قبلہ کے ساتھ درست تعامل ان شرعی قواعد پر کھڑا ہے جو وحی کی نصوص سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ یہ کسی خالی ’مصلحت‘ پر قائم نہیں، جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ان قواعد کو کھولنا بجائےخود اہل سنت کے منہج کا حصہ ہے۔

. اصولمنہج :کیٹیگری
شيخ ڈاكٹر سفر الحوالى :مصنف

امام سفر الحوالی کا پیغام، تمام اہل سنت کے نام

(اردو متن: "منهج التعامل مع أهل القبلة")

منہج

تعامل اہل قبلہ[1]

فضیلت مآب ڈاکٹر سفر الحوالی کی یہ تحریر  "منهج التعامل مع أهل القبلة"  ایک عرصہ پہلے منظر عام پر آئی۔ مسلم صفوں پر حملہ آور فتنوں اور آزمائشوں کے تناظر میں، حال ہی میں یہ مؤلف کی جانب سے بترتیبِ نو شائع کرائی گئی۔ ادارہ ایقاظ یہاں اِس تحریر کو اردو قارئین کےلیے پیش کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہے۔ تحریر کا عربی متن ہمارے ویب سائٹ پر دستیاب ہوگا۔ ہمارے اِسی شمارہ میں اِس عالی شان رسالہ کے بعض حصوں کو کھولنے کی کوشش کی گئی ہے؛ زیرعنوان ’’شرح منہج تعامل اہل قبلہ‘‘۔

 

سفر بن عبد الرحمن الحوالی کی طرف سے

اپنی تمام اہل سنت برادری کے نام! اللہ اس کا حامی و ناصر ہو

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

آپ جانتے ہیں، ایمان کی ہدایت پالینے کے بعد  سب سے بڑی نعمت آدمی پر یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل بدعت و اھواء کی بجائے اہلِ سنت و اتباع میں سے کر دے۔[2]  اللہ کا حق ہے کہ بندے اللہ کی نعمت قبول کریں اور اِس پر اُس کے شکرگزار اور تعریف خواں رہیں۔ نعمت کو قبول کرنے اور نعمت کا شکر کرنے میں ہی یہ بات آتی ہے کہ نعمت کی قدر کی جائے اور اس کو بچا رکھنے کی سعی ہو۔ نیز اس بات سے ڈریں کہ اِن کے کسی گناہ، یا نعمت کے تحفظ میں اِن کی کسی تقصیر، کے نتیجے میں وہ نعمت اِن سے چھِن جائے۔

اللہ کی ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے سنت کو غلبہ و ظہور عطا فرمایا؛ جس کی بدولت قدیم و جدید بدعات اور الحادی نظریات یہاں چھٹ کر رہ گئے۔[3]   لیکن شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ جب کسی امت میں وہ اپنے پوجے جانے کی آس کھو بیٹھے تو پھر ان میں چھیڑچھاڑ کرانے لگتا ہے۔

اہل قبلہ کے ساتھ درست تعامل[4]  اختیار کرنا امت کی وحدت قائم رکھنے کی واحد سبیل ہے۔ اس لیے کہ یہ (اہل قبلہ کے ساتھ درست تعامل) ان شرعی قواعد پر کھڑا ہے جو وحی کی نصوص سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ یہ کسی خالی ’مصلحت‘ پر قائم نہیں، جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ان قواعد کو کھولنا بجائےخود اہل سنت کے منہج کا حصہ ہے۔ امت صرف اُسی قدر مجتمع اور نصرت یافتہ رہے گی جس قدر اس کے ہاں یہ منہج رو بہ عمل رہے گا۔

بنا بریں، کچھ نہایت اہم امور کی بابت نصیحت اور تذکیر کرنا ضروری ہوگیا ہے، خصوصاً اہل قبلہ کے ساتھ تعامل کے منہج سے متعلق:

1.                "سنت اور اتباع"  کا راستہ جہاں سب سے زیادہ ہدایت والا اور سب سے بڑھ کر راست اور مستند ہے، وہیں یہ سب سے زیادہ وسعت اور رحمت والا بھی ہے۔[5] یہ وہ راستہ ہے جو بیک وقت مہاجرین و انصار ایسے سابقین اولین کو بھی کفایت کرجاتا رہا اور (نئے نئے ایمان لانے والے) بدؤوں کو بھی۔ اور اِن دونوں کے بیچ ایمان کے اتنے متنوع مراتب جن کا شمار صرف اللہ رب العزت کے کرنے کا ہے (جیسا کہ اللہ نے سورۃ توبہ میں ان میں سے بعض کا ذکر فرمایا) [6]۔ اِس  راہ کے لوگ ’’خدا کی چنی ہوئی‘‘ اس امت میں شمار ہونے کے سب سے بڑھ کر اہل ہیں: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ   (فاطر: 32) ’’ پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چُنے ہوئے بندوں کو۔ ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرلیتا ہے۔ ان میں کوئی میانہ چال پر ہے۔ اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا۔ (اگر تم سمجھو تو) یہ (اللہ کا تم پر)  بہت بڑا فضل ہے‘‘۔[7]

چنانچہ یہ اہل سنت وہ خوش قسمت لوگ ہیں کہ: ان میں سے ’’اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے‘‘ بھی بدبخت نہیں رہتے جب یہ اپنے ’’سبقت کرنے والوں‘‘ کے ساتھ ہولیں خواہ درجے میں ان کو مل نہ پائیں۔ یہ سب ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمیوں کمزوریوں کی تلافی کرتے ہیں۔ جہاں ایک پورا نہیں اترتا وہاں دوسرا پورا اتر لیتا ہے۔[8]  یوں سبھی کی عاقبت اچھی ہوجاتی ہے۔ اِن میں سے کوئی ایسا خوش قسمت کہ اس کےلیے جنت کے آٹھوں کے آٹھوں دروازے کھلیں۔ اور کوئی ایسا کہ اس کےلیے ایک ہی دروازہ۔ اور اِن دونوں کے بیچ مختلف درجات۔

ان میں سے کوئی ایسا سرخرو جو انبیاء کی جانشینی کا حق ادا کرکے جنت میں جانے والا بنے۔ کوئی ایسا کہ اسے اخلاص کی کوئی ایک ہی گھڑی ایسی میسر آئی  کہ اس کا لاالہ الا اللہ کہنا اسے جنت میں لے گیا۔ یا آدھی رات کے وقت کوئی ایک آنسو نکل آیا جو اس کو بہشت میں لے پہنچا۔ یا کسی مسکین کے ہاتھ پر کوئی ایک درہم رکھ دیا تھا یا مسلمانوں کے راستے سے کوئی خاردار ٹہنی ہٹا گیا تھا۔

2.                پھر یہ ("سنت اور اتباع" والے لوگ) صلاحیتوں اور حیثیتوں میں متنوع ہوتے ہیں، جبکہ منہج اور مقصد میں سب یکجا و یکسو:

کوئی ان میں سے مجاہد، کوئی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مردِ میدان۔ کوئی اِن میں سے مفسر، کوئی محدث، کوئی ماہرِ لغت، کوئی شاعر، ادیب اور دانشور،[9]  اور کوئی محض عامۃ الناس جو اللہ اور رسول کی اطاعت کا دم بھریں اگرچہ علم وفضل میں کوئی خاص مقام نہ رکھتے ہوں۔

چنانچہ ہر سلیم الفطرت مسلمان جس کا ذہن اہل بدعت کے ہاتھوں مسخ نہیں ہوگیا ہے، وہ اہل سنت میں سے ہے، اور سنت کی فطرت اور اصل پر باقی۔[10]  جیسا کہ ہر نومولود اسلام کی فطرت پر ہوتا ہے، تاوقتیکہ اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی نہ بنا دیں۔

"سنت اور اتباع" والے لوگ امت کے حقوق ادا کرنے والے ہوتے ہیں؛ عین شرع کے بتلائے ہوئے طریقے پر۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ جہاں معاملہ اللہ کا حق ادا کرنے  اور اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا ہو وہاں شرع نے کامیابی اور جنت پانے کو ’’ایمان‘‘ کے ساتھ معلق کیا ہے، جیساکہ بہت سی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم جہاں معاملہ انسانوں کے ساتھ پیش آنے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو ایسے حقوق کے تحفظ کا ہو، وہاں ادائے حق کو ’’اسلام‘‘ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: كُلُّ المْسْلِمِ عَلَى المُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهٗ وَمَالُهٗ وَعِرْضُهٗ. ’’ہر مسلمان پر حرام ہے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور آبرو‘‘۔ نیز فرمایا: حَقُّ المُسْلِمِ عَلَى المُسْلِمِ سِتٌّ. ’’مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں‘‘۔ نیز یہ کہ: المُسْلمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِن لِسَانِهٖ وَيَدِهٖ. ’’مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ چنانچہ جس کا مسلمان ہونا ثابت ہوگیا اس کےلیے یہ سب حقوق ثابت ہوگئے؛ اب یہ ہرگز ساقط نہ ہوں گے سوائے کسی یقینی امر کی بنیاد پراور مصلحتِ دینی کے اقتضاء کرنے پر۔ بلکہ آپ دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دو آپس میں لڑنے والے گروہوں کےلیے ’’مومن‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا؛ تاکہ ان کے ایک دوسرے پر جو حق ہیں وہ تمام مسلمانوں پر ثابت ہوں۔ چنانچہ فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ (الحجرات: 10)’’مومن آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو ‘‘۔

3.                اہل سنت احکامِ ثابتہ اور اصولِ کلیہ کو کسی استثنائی حکم یا کسی عینی واقعہ کے مقابلے پر ساقط نہیں ٹھہراتے۔ اصولِ کلیہ ثابتہ کی ایک مثال، جس کا ثبوت آیات و احادیث  کے صریح مضامین سے ملتا ہے: مسلمانوں کی وحدت اور اجتماعِ کلمہ کو قائم رکھنے کا وجوب۔ اس کے مقابلے پر استثنائی احکام کی مثال: ایک بدعتی یا ایک فاسق کے ساتھ قطع تعلقی اختیار کرلینے کا حکم۔ چنانچہ جب تک مصلحتِ راجحہ نہ ہو، حکمِ اصلی ودائمی کو چھوڑ کر حکمِ عارضی و استثنائی کی جانب منتقل نہ ہوا جائے گا۔ اور یہ وہ چیز ہے جس میں حالات کا تغیر بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اجتہادات کا تعدد بھی قبول کیا جاتا ہے۔[11]

4.                پھر جو شخص اِن کی نماز ایسی نماز پڑھے، اِن کے قبلے کو اپنا قبلہ بنائے، اور اِنہی کے ہاں کا ذبیحہ کھائے، وہ اِن میں سے ہے۔[12]  تب جو اِن کے حقوق؛ وہ اُس کے۔ جو اِن کے فرائض؛ وہ اُس کے۔ باقی اُس کا حساب کرنا اللہ کا کام؛ اور اُس کے پوشیدہ امور اللہ کے سپرد۔ نہ دلوں میں جھانکا جائے گا اور نہ  سینے چیر کر دیکھے جائیں گے۔ نہ کسی کی بابت برے گمان رکھے جائیں گے۔ اور نہ کسی ایمان لا چکے شخص کے خلاف کدورتیں پالی جائیں گی۔ نہ ہی مسلمانوں کے مابین محض ناموں اور لیبلوں کی بنیاد پر تفریق کر ڈالی جائے گی چاہے کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ نام کیوں نہ ہوں۔ ’’مہاجرین و انصار‘‘سے بڑھ کر کیا لقب ہوگا؛ جوکہ از راہِ ستائش بولا جاتا تھا  یا از راہِ تعارف۔ (لیکن حقوق و فرائض کے مسئلہ میں اس کو کچھ دخل نہ ہوا)۔ معتزلہ نے چن کر اپنا نام رکھا: ’’اہل توحید و عدل‘‘۔ صوفیہ نے اپنےآپ کو ’’اہلِ ولایت‘‘ یا ’’اہلِ قرب‘‘ پکارا۔ مگر نفسِ امر میں اس سے کچھ فرق نہ آیا۔ پرانی امتوں میں یہود و نصاریٰ نے اپنے لیے ’’ابناءُ اللہ وأحِبّاؤُہ‘‘ ایسے القاب اختیار کیے رکھے، تو بھی (حقائق کو دیکھنے اور ان کے ساتھ پیش آنے میں) اس سے کوئی فرق نہ آیا۔[13]

5.                اہل سنت کے ہاں یہ چیز بدعت شمار ہوتی ہے اور سلف سے اس پر شدید تنبیہ پائی جاتی ہے کہ لوگوں کی جانچ اس بنیاد پر ہو کہ  ایک معیّن گروہ یا معیّن شخصیت کےساتھ کسی کی دوستی ہے، یا دشمنی؟ (لوگوں کو پرکھنے کی کسوٹی یہ ہو کہ کون کس کا حمایتی ہے اور کون کس کا مخالف؟) دوستی اور دشمنی کی جائے گی حقیقتوں کو بنیاد بنا کر، نہ کہ دعووں کو؛ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کسی نے اپنے لیے کیا  القاب اختیار کر رکھے ہیں یا لوگوں نے اس پر کیا لیبل لگا رکھے ہیں۔[14]

یوں سمجھو، اِن کی جماعتِ صغریٰ میں اِن کی جماعتِ کبریٰ کی بابت پوری ایک راہنمائی ہے: جس طرح نماز کے معاملہ میں اِن پر واجب ہے کہ خود تو اِن کی نماز نبیﷺ اور خلفائے راشدین﷡ ہی کے طریقے پر اور ایک متبع سنت امام کے پیچھے ہو، تاہم اگر کوئی منافق یا کوئی بدعمل شخص بھی اِن کی مسجد میں آ جاتا ہے اور  اِن کے ساتھ شامل ہو کر نماز پڑھنے کا خواہشمند ہے تو یہ اُس کو روکیں نہیں... اسی طرح (وسیع تر زندگی میں) یہ واجب ہے کہ اِن کی اپنی جتھہ بندی تو سنت پر ہی ہو، اور سنت بھی اپنے وسیع اور عمیق مفہوم کے ساتھ، مگر یہ اس بات میں مانع نہ ہو کہ کسی بدعت یا کسی گناہ میں گرفتار لوگ بھی اِن کے ساتھ مل کر اسلام کی نصرت کریں؛ اور اسلام دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کےاِس مبارک عمل میں اِن کے ہمرکاب ہوں۔[15]  ہاں یہ ایسے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کےلیے کوشاں بھی ہوں، جس طرح امام مسجد اپنی پوری جماعت کو نماز سکھانے پر محنت کرتا ہے۔ اور یہ بات اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ (اہل بدعت یا اہل معصیت) اپنی مسجد اور امام ہی اِن (اہل سنت) سے الگ کر لیں اور پھر اِن دونوں مسجدوں کے آپس میں ہی ٹھن جائے اور لڑائی بھڑائی کا عمل جاری ہوجائے۔

6.                اہل سنت حق کہنے میں قوی ہوتے ہیں، بغیر اس کے کہ غلو کریں۔ مخلوق کے معاملے میں رحمدل ہوتے ہیں، بغیر اس کے کہ تنگ نظر یا جفاکار ہوں۔ معروف کا حکم دینے میں معروف ہی کے پابند رہتے ہیں۔ منکر سے روکنے کے دوران کوئی اور منکر نہیں کر رہے ہوتے۔[16]

7.                "سنت اور اتباع" والے لوگ اشیاء کی جانچ تول میں پابندِ عدل رہتے ہیں۔ لوگوں کی حق تلفی سے بچتے ہیں۔ معاملات کو پرکھنے میں انصاف اور حکمت سے کام لیتے ہیں: یعنی دو برائیاں ہیں تو ان میں سے کمتر کو اختیار کرنا، دو نقصان ہوتے ہوں تو ان میں سے بڑے نقصان میں پڑنے سے بچنا، دو شر پیش آجائیں تو ان میں کم ضرر رساں شر پر ہی صابر رہ لینا، دو راہوں میں سے قریب تر کو اختیار کرنا، دو معاملوں میں سے آسان تر کو ترجیح دینا۔[17] اِن کا عدل وہ عدل ہوتا ہے جس کی پناہ میں آنے کو ہر مذہب کا آدمی کھنچا آئے۔ اِن کی تعلیم اور ارشاد ایسا کہ ہر ملت اور ہر فرقے کا متلاشیِ حق اِن کے پاس آنے میں اعتماد پائے۔[18]  ’’عدل‘‘ اِن کے ہاں ایک مطلق قدر ہے، جسے اللہ نے ہر کسی پر ہر کسی کےحق میں ہر حال کے اندر فرض کر رکھا ہے۔ چنانچہ عدل وہ مطلق قدر ہے کہ دین کا فرق بھی اس کا پابند رہنے میں مانع نہیں۔ کجا یہ کہ معاملہ دین کے فرق تک بھی نہ پہنچتا ہو! چنانچہ فرمایا: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا  (المائدۃ: )’’اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر ہرگز آمادہ نہ کرے‘‘۔ پس کافروں اور ظالموں کے ساتھ دشمنی کرنے کا وجوب اپنی جگہ ہے۔ مگر ان کے ساتھ عدل کرنے کا وجوب اپنی جگہ ہے۔ جو شخص اِن دو چیزوں کا فرق کرنے اور اِن دو فرضوں پر بیک وقت پورا اترنے سے قاصر ہو وہ ہرگز دین کی فقہ رکھنے والوں میں سے نہ ہوگا۔ نیز وہ سیدالمرسلینﷺ کی اتباع کرنے والوں میں سے نہ ہوگا، جبکہ آپﷺ کو وحی فرمائی گئی تھی: وَاُمِرۡتُ لِأعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ (الشوریٰ: 15) ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل کروں‘‘۔

8.                دعوت میں اہل سنت کے ہاں یہ حکمت اختیار کی جاتی ہے کہ یہ اُن ائمہ اور پیشوا ہستیوں کے محاسن بیان کریں جو مسلمانوں کے ہاں علم یا سلوک یا دعوت میں رتبۂ امامت پر مانے جاتے ہیں۔ یہ لوگوں پر واضح کرتے ہیں کہ امت میں اُن ہستیوں کو جو تعظیم اور ستائش حاصل ہے وہ راہِ حق میں اُن کے مجاہدہ کی بدولت۔ وہ راہِ عزیمت میں  توفیقِ خداوندی سے سرخرو ہوئے اپنے متبعِ سنت ہونے کے دَم سے۔ پھر اِسی چیز کو یہ اِس بات کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں کہ اُن کے یہ پیروکار اور نسبت یافتگان رفتہ رفتہ سنت اور اتباع ہی کی راہ پر لے آئےجائیں؛ یہ اپنے اُن پیشواؤں کےلیے تعصب چھوڑ دیں، دین کی نصرت کےلیے  یہ بھی اُسی طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح ان کے ائمہ اپنے زمانے میں حق کی نصرت کےلیے اٹھے۔ اِس طریقے سے؛ یہ اُن ائمہ اور پیشواؤں کے معاملہ میں عدل پر پورا اترتے ہیں اور اُن کے پیروکاروں کے معاملہ میں حکمت پر۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں کہ ائمۂ اربعہؒ نیز ابوالحسن اشعریؒ اور عدی بن مسافرؒ وغیرہ ایسی ہستیوں کی شان میں آپؒ نے کیا ہی اچھا کلام فرمایا۔

9.                اہل سنت ذاتِ خدوندی کے احترام میں سب سے بڑھ کر انکساری کرنے والے ہوتے ہیں۔ دعوائے کمال سے سب سے بڑھ کر دور رہنے والے۔ بھاری القاب اور لیبل لگا کر آپ اپنا تزکیہ نہیں کرتے۔ [19] اونچی اونچی نسبتیں اختیار کرنے میں نشۂ پندار نہیں ڈھونڈتے۔ کامل شعور رکھتے ہیں کہ لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ’’معاملہ نہ تمہاری تمناؤں پر منحصر ہے اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں پر‘‘۔

اپنے جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ میں پورا اترنے، یا  اہل بدعت کو سرزنش یا اپنی کسی بھی اصلاحی سرگرمی کے دوران... دلیلِ شرعی کی سرکردگی میں آگے بڑھتے اور دلیلِ شرعی کی روشنی میں پیچھے ہٹتے ہیں۔ دین کی مصلحت ہی اِس تمام عمل میں اِن کی راہنما ہوتی ہے۔ اللہ، رسولؐ اور اہل ایمان کا خیرخواہ اور وفادار رہنا ہی اِن کا محرک ہوتا ہے۔ ان فرائض کی انجام دہی کے دوران؛ یہ کوئی دل کی بھڑاس نہیں نکال رہے ہوتے۔[20]  کسی کو سبق سکھانے یا عبرت بنا دینے کا جذبہ نہیں پالتے۔ بےلوث۔ خداخوف۔ جہاں اللہ و رسولؐ کا حکم آجائے یا جہاں اسلام کی مصلحت تقاضا کرلے، وہاں اِن کو نہ اپنے قریبی ترین دوست کو سزا دینے میں ہچکچاہٹ اور نہ اپنے بدترین دشمن کو بخش دینے میں تامُّل۔

کوئی بڑے سے بڑا پاپی توبہ کر آئے، "سنت اور اتباع" والے اس پر خوش ہی ہوں گے۔ یہ عذرگزار کا عذر قبول کرتے اور گناہگار کے ہدایت پاجانے کےلیے دعاگو رہتے ہیں۔ کیونکہ؛ یہاں اِن کے اپنے نفس کا کوئی حظ  ہوتا ہی نہیں؛ اِن کا مقصود: صرف خدا کا چہرہ پانا۔ مخلوق کے راہِ راست پر آجانے کےلیے ہر دم حریص۔ اپنے مخالف کے ہاں بدعتیں یا برائیاں ڈھونڈ نکالنے کی طمع نہیں کرتے۔  کیونکہ جو کسی کے ہاں گناہ یا بدعت پا کر خوش ہو درحقیقت وہ خدا کی نافرمانی ہونے پر خوش ہوا؛ اور جو شخص خدا کی نافرمانی پر خوش ہوا اس کو خدا سے کچھ تعلق نہ رہا۔

"سنت اور اتباع" والوں کا دائمی شیوہ: مسلمانوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا۔ ان کی کمزوریوں اور خامیوں کا پیچھا نہ کرنا۔ اہل علم کی غلطیاں بیان نہ کرنا سوائے جہاں حق واضح کرنا ضروری ہو۔ وہاں بھی؛ ان کا اسلوب بیاِنِ مسئلہ کا ہوگا نہ کہ شخصیت کو گرانے کا۔ نیز جہاں تک ممکن ہو اس کےلیے عذر تلاش کرنا۔

بزرگانِ سلف کی بابت آتا ہے، وہ اپنے دور کے واعظوں اور خطیبوں کو نصیحت فرماتے کہ مسلمانوں کے گناہوں اور برائیوں کو برسرمنبر نشر نہ کیا کریں ؛ مبادا اہل کتاب اور مشرکین اس پر بغلیں بجانے کا موقع پائیں۔[21]  آج کے دور میں دینی جماعتوں کے عیب یہاں کے دین دشمن طبقوں کے ہاں جا کر نشر کرنا اِسی میں آئے گا۔

بڑی تعداد کا خیال ہے کہ: ’’سنی‘‘ یا ’’اہل سنت‘‘ صرف وہ شخص ہوتا ہے جو سو فیصد سنت پر ہو اور جو کسی خطأ یا تاویل یا جہل کا شکار نہ ہو![22]  دوسری جانب؛ ایسے لوگ بھی کم نہیں جن کا گمان ہے کہ: ’’بدعتی‘‘ صرف وہ آدمی ہے جس میں تمام اصولِ بدعت اکٹھے ہوگئے ہوں یا جو کسی ایسے فرقے سے تعلق رکھے جس میں سب اصولِ بدعت جمع ہوں! یا جن کا خیال ہے کہ جب تک آدمی کسی ایسے فرقے کی طرف نسبت نہ رکھے جس کے بدعتی ہونے پر امت کا اجماع ہو اس وقت تک اس کو بدعتی نہ سمجھا جائے گا!

حق یہ ہے کہ بدعات کا معاملہ بھی جملہ گناہوں جیسا ہے۔ بدعت کوئی چھوٹی ہوگی تو کوئی بڑی۔ کوئی صریح بدعت ہوگی تو کوئی ایسی جس میں محض اشتباہ ہو۔ ایسے لوگ تو نہ ہونے کے برابر ہی ملیں گے جن کا دامن بدعت سے سو فیصد پاک ہو۔ اکثر لوگ تاویل یا خطأ یا لاعلمی کے باعث بدعت کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص یا گروہ میں یہ ممکن ہے کہ بیک وقت وہ اتباعِ سنت کی شدید حرص بھی رکھتا ہو اور وہ کسی صریح بدعت کا شکار بھی ہو۔ جس طرح دوسری جانب؛ یہ ممکن ہے کہ کوئی بدعتی ٹولہ  اپنے بعض احوال یا بعض مقامات پر سنت کی پابندی کرلے۔ پس اصل دیکھنے کی چیز (ایک آدمی یا ایک جماعت کے) عمومی اصول اور منہج ہوگا کہ آیا وہ سنت ہے یا بدعت؟[23]  حق کی توفیق صرف خدا عطا کرے تو ملتی ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ کل توجہ اپنے محاسبے پر دے۔ عیوب اپنے تلاش کرے۔ ایمان اپنے کی تجدید کرے۔ سبھی ایک دوسرے کے ناصح اور خیرخواہ بنیں، جفا سے بچ کر۔ حق کو قبول کریں، خواہ اس کا کہنے والا کوئی ہو۔

10.          اہل سنت خود تو حق کی کامل ترین حالت ہی کے طلبگار رہتے ہیں؛ تاہم یہ بات اِس میں مانع نہیں ہوتی کہ کسی ’’دی ہوئی صورتحال‘‘ میں یہ واقعیت پسندی کی راہ چل کر حکمت اور دانائی کا بھی بہترین ثبوت دیں۔ چنانچہ اِن کی دعوت میں جو حق بیان ہوتا ہےوہ تو اپنی جگہ کامل ہوتا ہے؛ اور اس میں تو یہ کسی کمی یا نقص آنے کے روادار نہیں ہوتے۔ یہاں؛ یہ رسول اللہﷺ کی کامل و مطلق اتباع کے ہی داعی رہتے ہیں۔ البتہ اس حق پر آنے میں لوگوں کے بتدریج آگے بڑھنے کو قبول کرتے ہیں۔[24]  اس معاملہ میں رسول اللہﷺ کی اپنی سیرت، منہاج اور اسوہ ہی ان کےلیے راہنما ہے۔

11.          جس شخص کا علم و نظر "اصولِ سنت کے ساتھ تمسک" اور "امت کے ساتھ شرعی تعامل" کو ایک ساتھ چلانے سے قاصر ہے، خصوصاًمخالفینِ سنت کے معاملہ میں[25]... تو ایسے شخص کا علم دراصل رسول اللہﷺ کی اتباع سے قاصر ہے۔ اور اس کی نظر رسول اللہﷺ کی اقتداء کرنے سے کوتاہ۔ مثلاً جو شخص یہ گمان کرے کہ مخالفینِ سنت کے (مسلمان والے) حقوق ساقط ہو جاتے ہیں! یا جس کا خیال ہے، بدعتیوں کے ساتھ برتاؤ میں ایک منصفانہ روش رکھنا ایمان کی کمزوری اور مداہنت ہے! یا جس کا اعتقاد ہے کہ دین کی نصرت صرف کسی ایسے ہی شخص یا گروہ کے ہاتھوں ہو سکتی ہے جو مکمل باشرع اور سوفیصد عقیدۂ سنت پر ہو! حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس دین کی نصرت ایک فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے، اور ایسے ایسے لوگوں سے بھی کہ جن کا دامن خیر سے یکسر خالی ہو، خصوصاً امت کو درپیش جنگ وجدل کے وقت، خواہ یہ جنگ عسکری ہو یا نظریاتی (عقائدی) یا سیاسی۔

چنانچہ اصولِ سنت میں یہ باقاعدہ درج ملتا ہے کہ: ’’جہاد مشروع ہے، خواہ نیکوکار کے ساتھ مل کر یا بدکار کے ساتھ‘‘۔ یہ اصول عسکری جہاد کو بھی شامل ہے، سیاسی جہاد کو بھی اور علمی و دعوتی جہاد کو بھی۔ اس سارے مسئلے میں اعتبار اس چیز کا ہوتا ہے کہ آپ کو کسی ایسے کھلے دشمنِ دین کو زک پہنچانی ہے جس کا مسلمان بستیوں یا مسلمان ذہنوں پر تسلط پا لینا اس سے کہیں بدتر ہو کہ فلاں قیادت میں آپ کو دینداری کی فلاں فلاں شرطیں مفقود نظر آئیں اور فلاں جماعت یا فلاں طبقے میں سنت کے فلاں فلاں امور ناقص ملے!

آپ کو معلوم ہے، بہت سے علمائے سلف حجاج بن یوسف ایسے ظالم سرکش کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوتے رہے۔ اسی طرح، جس وقت بعض خلفاء یا بعض والیوں نے کچھ بڑی ہی گھناؤنی بدعات کے مرتکب ٹولوں پر ہاتھ ڈالا تو "سنت اور اتباع" والوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، باوجود اس کے کہ خود یہ خلفاء اور یہ والی بھی کوئی خالص سنت پر نہ تھے، جیسے خلیفہ متوکل یا بنو امیہ کا والی خالد بن عبد اللہ القسری۔ اِس سارے عمل میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس سے دین کو کس قدر نصرت ملتی ہے اور شریعت کی اقامت کس حد تک ممکن ہوتی ہے۔

12.           یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ ایک آدمی عمومی معنیٰ میں کتاب اور سنت کا داعی ہے مگر وہ کسی بدعت یا کسی فکری انحراف میں الجھا ہوا بھی ہے۔ جبکہ دوسرا آدمی ایک بدعت ہی کا باقاعدہ داعی اور ایک گمراہی کا ہی کھلا پرچارَک ہے۔ یہاں کچھ لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جنہوں نے ایک الحادی نظریے کو اپنی سیاسی پارٹی اور جتھہ بندی کی باقاعدہ بنیاد بنا رکھا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کا ایسے کسی نظریے سے کچھ نہ کچھ تعلق تو ضرور ہوگا تاہم یہ اُس نظریے پر جتھہ بند لوگوں کے مخالف ہیں، بلکہ ایک عمومی معنیٰ میں اسلام کی بات بھی کرتے ہیں خواہ آزاد حیثیت میں اور خواہ کسی اسلامی گروہ کے پرچم تلے آکر۔  کچھ لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو کبھی سوشلسٹ عقیدے پر تھے مگر بعدازاں ایک عمومی معنیٰ میں راہِ راست پر آگئے، اگرچہ وہ تنزیلِ خداوندی کو اب بھی تفصیل سے نہ جان پائے ہوں۔ اب ایسے شخص کے اور اُس شخص کے مابین فرق کیا جائے گا جو خم ٹھونک کر اپنے اُسی سوشلسٹ نظریے پر ڈٹا ہوا ہے۔[26]

ادھر اسلام کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلیبی یا باطنی یا تاتاری وغیرہ دشمن کے خلاف بارہا ایسے لوگوں کے ذریعے اسلام کی نصرت کروائی جو خالص اہل سنت نہ تھے۔ ہاں یہ بات ہے کہ وہ جنگجو طبقے لڑتے اسلام کی نصرت کےلیے تھے نہ کہ اپنی بدعات کو غلبہ دلوانے کےلیے۔ اب ایسے لوگوں میں فرق کرنا پڑے گا بہ نسبت[27]   ایک ایسی ریاست کے جو مثلاً باقاعدہ خوارج کی دولت ہو یا جو روافض کی کوئی باقاعدہ دولت ہو یا کسی اور باطل نظریے پر قائم ریاست؛ جس کی بہت سی مثالیں عالم اسلام کی تاریخ میں ملتی ہیں اور جوکہ اپنی اس بدعت کو نہ ماننے والے مسلمانوں کے خلاف شمشیر بکف ہوجاتیں اور انہیں اپنی بدعت کا حلقہ بگوش کروانے کےلیے باقاعدہ جنگ کیا کرتی تھیں۔

چنانچہ آج کی اسلامی جماعتیں اس پہلی صنف میں آئیں گی؛ اُس وقت جب یہ سیکولر یا رافضی یا سوشلسٹ قوتوں کے مقابلے پر آئیں، خواہ اس مقابلے کی صورت کہیں پر عسکری ہو اور کہیں پر سیاسی۔ یہاں؛ ان کی نصرت واجب ہوگی؛ کسی کھلی بدعت اور الحاد کی داعی جماعتوں کے مقابلے پر۔ ہاں اسی دوران یہ واجب ہوگا کہ اِن (اسلامی) جماعتوں کو خالص سنت پر آجانے کےلیے بھی نصیحت کی جاتی رہے۔ جو لوگ اہل فقہ اور اہل بصیرت ہیں، وہ ان دونوں باتوں کو ایک ساتھ چلانے میں ہرگز کوئی اشکال نہیں پاتے۔

البتہ یہ بات کہ اُن بدعتی الحادی ٹولوں کے ساتھ دشمنی کرنا تو ہم بھول جائیں البتہ اِن (اسلامی جماعتوں) کی دشمنی کو اپنا صبح شام کا معمول بنا لیں تو یہ عین انحراف ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر انحراف یہ کہ خلافِ شریعت نظاموں کو چلانے والوں اور سیکولر ٹولوں کے ساتھ تو ہمارے یارانے نبھیں مگر اسلامی جماعتوں کے ساتھ ہماری دشمنی چلے۔ ایسا کام یا تو کوئی صریح منافق کرے گا یا کوئی ایسا شخص جو بصیرت کا اندھا ہو اور فقہ و نظر سے کورا۔ اس کی مثال ایسے شخص کی ہوگی جو گرجے تعمیر کرتاپھرے مگر مسجدوں کو تالے لگوائے؛ اور اس کی وجہ یہ بتائے کہ یہاں نمازی سنت کے مطابق نماز نہیں پڑھتے! یا اس کی مثال اس شخص کی ہے جو لوگوں کو مردار کھلوانے میں تو تردد نہ کرے لیکن کسی معصیت یا بدعت میں گرفتار مسلمان کا ذبیحہ کھانے کی اجازت کا روادار نہ ہو! یا جو قراءت سے تمام عمر نابلد رہے اور اس سعادت سے درماندہ رہنے کا جواز یہ بتائے کہ قرآن پڑھانے والا اپنے کام کا ماہر بےشک  ہے لیکن کسی بدعت میں ملوث ہے! یا جو شخص نجس پانی سے وضوء کرلینے پر تو آمادہ ہو لیکن ایک ’شبہے والے‘ پانی سے وضوء کرنے میں ورع اختیار کرے!

13.           عقیدۂ سنت سے تمسک رکھنے والوں کو آج خوارج کی سیرت سے خاص طور پر خبردار رہنا ہے۔ خارجی منہج کا اثر لینے سے ہوشیار؛ جنہوں نے عبداللہ بن خباب﷛ ایسے صحابی کا تو خون حلال کر لیا مگر نصرانی کی بابت خدا سے ڈر گئے کیونکہ اہل ذمہ کا خیال رکھنے کی اسلام میں بڑی تاکید ہے! خوارج اسلام کے ماننے والوں سے لڑتے مگر بتوں کے ماننے والوں کو بخش دیتے! اُس وقت کے رومی، ترک، دیلم سب قومیں ان کی تلوار سے محفوظ رہیں؛ بچ نہ پائے تو اصحابِ رسول اللہؐ﷢، نیز جلیل القدر ائمۂ علم و فضل تابعین کی ایک بڑی تعداد۔ اِس صنف میں پائے جانے والے طلبۂ علم آج اگر یہ گمان پالنا شروع کردیتے ہیں کہ اہل سنت اور اہل حق دنیا میں بس یہی ہیں اور ان کے سوا کوئی نہیں، تو یہ بات ان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ ایسی سوچ رکھنا اتباعِ ھویٰ کے بدترین اسباب میں سے ہے۔ یہ قلب کے قبولِ حق سے اندھا رہ جانے اور عدل کے التزام سے درماندہ رہنے کے قوی ترین موجبات میں سے ہوگا، اللہ سے دعاء ہے وہ ہمیں اس سے سلامت رکھے۔

برادرانِ اسلام!

خبردار رہئے۔ اللہ کے دشمن آج ہمارے لیے تباہی کے بدترین جال بننے میں لگے ہیں۔ سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ وقت کے اِس جہادِ کبیر میں آج وہ ایک صف بن کر کھڑے ہوں۔ اللہ کے دشمنوں کے آگے سر جھکانے یا ان کی جانب میلان اختیار کرنے سے انکاری ہوجائیں۔ ہر ہر میدان میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں پورا اترنے کےلیے تیاری کریں۔ اور سب سے بڑی تیاری، تقویٰ اختیار کرلینے کے بعد، یہ بنتی ہےکہ اپنی صف ایک کرلیں اور مجتمع ہوجائیں۔[28]  مسلمانوں کے حق میں بجائےخود یہ ایک فتح ہوگی۔ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف: 4) ’’اللہ کو بڑے ہی محبوب ہیں وہ لوگ جو اُس کی راہ میں ایک صف ہوکر لڑتے ہیں، یوں گویا وہ ایک ہی سیسہ پلائی دیوار ہوں‘‘۔

 



[1]    اصطلاح ’’اہل قبلہ‘‘ کی وضاحت، دیکھئے:  ’’شرح‘‘ فصل1‘‘۔

[2]    دیکھئے ’’شرح‘‘فصل2۔ ’’فرقہ ناجیہ‘‘ کی وضاحت

[3]    دیکھئے  ’’شرح‘‘ فصل2۔ ’’دورحاضر میں اہلسنت کے غلبہ وظہور کی شروعات‘‘۔

[5]   ایضاً، خصوصاً پوائنٹ 2 اور 3۔

[6]   دیکھئے سورۃ التوبۃ آیت 98 تا 122

[7]   سورۃ فاطر کی ان آیات کے حوالے سے دیکھئے ’’شرح‘‘۔ فصل 5 ’’امت محمدیہ کے خطاکار‘‘

[8]   یہ مضمون ’’شرح‘‘ کی فصل 5 اور  فصل 6 میں کھولا گیا ہے۔

[9]   مغربی یلغار کے مقابلے پر عالم اسلام میں ایک ’’ہمہ گیر جہاد‘‘ کی روح پھونکنے میں سفرالحوالی علمائے شریعت کے علاوہ... امت کے شاعروں، ادیبوں اور تخلیق کاروں کا بہت بڑا کردار دیکھتے ہیں، اور اس پر جابجا زور دیتے ہیں کہ جب تک یہ نہیں اٹھیں گے معاملہ اصل زور نہیں پکڑے گا۔

[10]    اس مضمون کو ہم نے ’’شرح‘‘ کی فصل4 میں کھولا ہے: ’’عوام الناس ہمارے ہیں‘‘۔

[11]    دیکھئے ’’شرح‘‘ فصل3 میں پوائنٹ  نمبر 5

[14]   ایضاً۔

[16]    جوکہ نہایت حکمت اور دانائی کا ضرورتمند امر ہے۔  مصالح و مفاسد کے موازنہ سے بےخبر آدمی بالعموم اس باب میں بڑےبڑے نقصانات کر آتا ہے جبکہ خیال یہ کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کررہا ہے!

[18]   ایضاً۔

[20]  دیکھئے ’’شرح‘‘  فصل 3۔  پوائنٹ 6۔

[21]     دیکھئے: ’’شرح‘‘ فصل 6 کے تحت ہمارا  بیان کردہ چوتھا مقدمہ۔

[22]     دیکھئے: ’’شرح‘‘ فصل 8: ’’بدعتی کسے کہیں گے؟‘‘

[23]   ایضاً۔

[24]     دیکھئے: ’’شرح‘‘ فصل 10: ’’لوگوں کو بتدریج دین پر لانا‘‘

[25]   ایسا شخص ایک مخالفِ سنت شخص یا گروہ کے ساتھ برتاؤ میں دانشمندی چھوڑ بیٹھنے کو ’حق پرستی‘ خیال کرتا ہے!

[26]     دیکھئے: ’’شرح‘‘ فصل 11: ’’بیچ کے طبقے زیادہ سے زیادہ نظرانداز‘‘۔

[27]     یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔ ہمارے یہ فاتحین، سلاطین، جنگجو ممالیک وغیرہ جن کی شمشیر سے زمین کے بہت سے خطے اسلام کے زیرنگیں آئے، بےشک کچھ بڑی بڑی بدعتوں میں ملوث رہے ہوں، لیکن تھے وہ کچھ سادہ لوح اور ایک ’’عمومی اسلام‘‘ کو سامنے رکھ کر فتوحات کرنے کے دلدادہ لوگ۔ ساتھ میں اپنی سیادت بھی بےشک ان میں سے کسی کے پیش نظر ہو؛ وہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ پس بدعات کا ایک عام معمول کے انداز میں ان سلاطین کے اندر ہونا اور بات ہے، اور بدعاتِ ضلالت کو نصرت دلوانے اور اس کے مقابلے پر سنت کو مٹانے ایسی کسی باقاعدہ مار پر ہونا بالکل اور بات۔ جس کی مثال شیخ سفر نے کسی نظریاتی خوارج کی دولت یا باقاعدہ ایجنڈا لے کر چلنے والی ایک رافضی دولت سے دی۔ کوئی جماعت ایک نظریاتی سیکولر ریاست کے قیام کےلیے کوشاں ہے(جس کا واضح مطلب شریعت کی حکمرانی کا انکار ہے) یا جو جماعت ایک نظریاتی سیکولر ریاست کو قائم کیے ہوئے اور اس کی بقاء کےلیے دوڑدوپ کرتی پھرتی ہے، تو اس کا بھی عین یہی حکم ہوگا۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز