Hamid Kamaluddin
Eeqaz
پس جب دو فرض آپس میں ٹکرائیں اور دونوں میں جمع ممکن نہ ہو اور ایسی صورت میں دونوں میں سے اہم فرض کو مقدم کردیا جائے تو وہ دوسرا فرض (جو چھوٹ گیا) اُس صورت میں فرض ہی نہ رہے گا
قارئین کے سوالات
واقعۂ یوسف علیہ السلام کے حوالے سے ابن تیمیہ کی تقریر
ہمارے کچھ نہایت عزیز اور قابل احترام دوستوں کی جانب سے ایقاظ اپریل 2013 کے مضمون ’’درمیانی مرحلہ کے بعض احکام‘‘ کی بابت ہمیں ایک اشکال موصول ہوا ہے جس کا تعلق یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے ہے۔ لب لباب اس کا یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بادشاہِ مصر کے ہاں عہدہ اختیار کرنے کے حوالے سے ہمارا وہ استدلال کرنا درست نہیں ہے،جس کی بڑی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اُن امور میں سے ہے جو پچھلی شریعتوں سے متعلق ہیں اور اس کی مثال سجدۂ تعظیمی جیسی ہے جوکہ پچھلی بعض شریعتوں میں بےشک مباح تھا مگر ہماری شریعت میں بالاتفاق منسوخ اور حرام ہے۔
ایک دوسری وجہ بھی بیان کی گئی اور وہ یہ کہ بعض تفاسیر میں مجاہدؒ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ بادشاہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ مگر یہ دلیل درخورِاعتناء اُس وقت ہوتی جب یہ طے ہوتا کہ یوسف علیہ السلام نے عہدہ اُس وقت تک طلب نہیں فرمایا جب تک بادشاہ نے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کردیا، ظاہر ہے اس پر کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کی اس آیت } وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهٖ حتیٰ إذَا ھلکَ قُلتُم لَن یبۡعَثَ اللّٰہُ مِن بعۡدِہٖ رَسُوۡلاً (سورۃ غافر: 34)’’اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس آیا تھا دلیلیں لےکر پھر تم اس کی لائی ہوئی (دلیلوں) کی بابت شک ہی میں رہے، پھر جب وہ دنیا سے چلاگیا تو تم نے کہا یوسف کے بعد تو اللہ کوئی رسول بھیجنے والا ہی نہیں‘‘{ سےظاہر ہے کہ یوسف علیہ السلام اہل مصر کو مسلسل اسلام کی دعوت دیتے رہے لیکن مصر کی ایک بڑی اکثریت بڑی دیر تک آپؑ پر ایمان لے کر نہ آئی؛ کوئی کسی مرحلہ پر ایمان لایا تو کوئی کسی مرحلہ پر۔ بادشاہ کس مرحلہ پہ جاکر ایمان لایا (بشرطِ روایت مجاہد)، اس کی بہرحال تعیین ممکن نہیں۔ تاہم اس مسئلہ کے حوالے سے بھی، اور اُس اصل نقطے کے حوالے سے بھی جو اشکال کے شروع میں بیان ہوا، یہاں فی الحال ہم ایک مختصر بنیاد اختیار کریں گے:
یقیناً یہاں ایسے حضرات موجود ہیں جو مدرسۂ ابن تیمیہ کا کوئی علمی وزن تسلیم نہیں کرتے، اور ظاہر ہے ان کے ساتھ ہمیں گفتگو کا ایک دوسرا اسلوب ہی اختیار کرنا ہوگا۔ لیکن جن حضرات کو ہم نے شروعِ گفتگو میں اپنے عزیز قابل احترام دوست کہا ہے ہمارے گمان میں وہ مدرسۂ ابن تیمیہ کو ویسا ہی وزن اور اہمیت دیتے ہیں جو خود ہمارے ہاں دی جاتی ہے۔ اس لیے زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے فی الحال ہم اس مسئلہ کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی توضیحات کی طرف لوٹا دینا زیادہ مناسب اور مختصر سمجھیں گے۔ اس کے جواب میں ہمارے معترض پھر بھی یہ بنیاد اختیار کرسکتے ہیں کہ ابن تیمیہ کوئی غلطی سے معصوم شخصیت نہیں ہیں۔ یقیناً ابن تیمیہ کے ساتھ اختلاف کی گنجائش ہر جگہ موجود ہے، اور ہمارے یہ معزز بھائی اگر ایسی کوئی رائے اختیار کرنا چاہیں تو یہ فی نفسہٖ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ البتہ ہم اپنے بیان کردہ مقدمہ کے ایضاح میں فی الحال جس بات پر اکتفاء کرنا چاہیں گے وہ یہ کہ:
1. سجدۂ تعظیمی کا ہماری شریعت میں منسوخ ہوجانے کا ذکر نصوصِ شریعت کے علاوہ متقدمین و متاخرین اہل علم کے بیان میں جابجا ملتا ہے۔ تاہم ہمارے اِس زیربحث مسئلہ (کافر بادشاہ کے ہاں کوئی بااختیار عہدہ رکھنا) میں اگر ہماری شریعت کے اندر کوئی نسخ ہوگیا ہے تو وہ بہرحال ابن تیمیہ ایسے کبار ائمۂ علم تک پر مخفی ہے، کیونکہ ابن تیمیہ یہاں یوسف علیہ السلام کے اس واقعہ سے ہماری امت کو درپیش مسائل پر ہی استدلال فرمارہے ہیں، جیساکہ ابھی آگے چل کر آپ دیکھیں گے۔ کم از کم بھی یہ کہنا چاہئے کہ ابن تیمیہ ہمارے معترض کی بیان کردہ کسی رائے کو قابل اعتناء نہیں جانتے۔ }یہاں یہ ذکر کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں سورۂ یوسف کی اِنہی آیات کے تحت اس مسئلہ کو اٹھایا ضرور ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ ایک رائے یہ ہے کہ ایک فاجر یا کافر سلطان کے ہاں ایک صالح آدمی کا بااختیار منصب قبول کرنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ خاص تھا مگر آج ہمارےلیے یہ جائز نہیں، تاہم یہ رائے نقل کردینے کے بعد قرطبی خود ہی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس رائے کی نسبت دوسری رائے (جوکہ ہم آگے چل کر ابن تیمیہ کے ہاں دیکھیں گے) ہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لحاظ سے ہم اپنے معترض کےلیے اتنی سی گنجائش خود ہی تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان کی یہ رائے جسے ابن تیمیہ قابل ذکر تک نہیں جانتے اور جسے قرطبی بھی صرف ذکر کرتے ہیں البتہ راجح وہ بھی نہیں مانتے، کسی نہ کسی حد تک ’’ایک رائے‘‘ ضرور کہی جاسکتی ہےجو پرانے علماء میں سے بھی کسی کے ہاں اختیار کرلی گئی ہوگی۔ لہٰذا ہمارے یہ بھائی اسی ضعیف رائے کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں تو ہمیں اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔{ ہم یہاں ابن تیمیہ کی جو تقریر پیش کرنے جارہے ہیں، اُس سے ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ امت کے نہایت فاضل ائمہ نے یہی رائے اختیار کیے رکھی ہے جو ہمارے اولین مضمون[1] میں بیان ہوئی۔
2. ابن تیمیہ کے کلام سے ہمارے اِس استشہاد کے جواب میں یقیناً کوئی صاحب یہ نکتہ اٹھاسکتے ہیں کہ ابن تیمیہ جن بااختیار مناصب[2] کے قبول کرنے کے حوالے سے فتویٰ دے رہے ہیں وہ مجموعی طور پر ایک ’اسلامی نظام‘ کے اندر پائے جاتے تھےجن کے اندر بہت سا ظلم اور فساد درآیا تھا، نہ کہ وہ کافرانہ نظام جو آج ہمیں درپیش ہے، لہٰذا ابن تیمیہؒ کے کلام سے اپنی آج کی صورتحال پر دلیل لےکر ہم نے پھر بھی زیادتی کرلی ہے کیونکہ ابن تیمیہ کے وہ جوابات ایک ظالمانہ نظام سے متعلق ہیں جبکہ ہمیں درپیش صورتحال ایک کافرانہ نظام سے متعلق ہے۔ اصولاً، خود ہم اس بات کے شدید مخالف ہیں کہ اپنے مسلم سلاطینِ بنوامیہ یا بنو عباس یا ممالیک وغیرہ کے ہاں رائج صورتحال کو آج کے اِن طاغوتی سلسلوں کے ساتھ قیاس کروایا جائے اور ہردو کے حکم کو ایک کردینے کو ’سلف کے منہج‘ کے تحت بیان کیا جائے؛ ہماری تحریروں میں جابجا اس کو زیادتی قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ واقعتاً ظلمِ عظیم ہے کہ (اپنی اسلامی تاریخ میں) ماضی کے اُس ظلم اور حال کے اِس کفر کا فرق ختم کرادیا جائے۔ تاہم ہمارے اِس زیربحث مسئلہ میں، جیساکہ آپ ابن تیمیہ کے کلام میں دیکھیں گے، خود ابن تیمیہؒ ہی اپنے دور کے ظالم یا فاجر سلاطین کے ہاں اختیار کیے جانے والے بااختیار مناصب کے درست ہونے پر دلیل قصۂ یوسف علیہ السلام سے لیتے ہیں اور تصریح فرماتے ہیں کہ بادشاہِ مصر اور اس کی قوم کفار تھے جہاں یوسف علیہ السلام نے یہ بااختیار منصب قبول فرمایا۔
*****
ہماری یہ بحث کیونکر سامنے آئی؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نئے قاری پر یہ بات بھی ذرا واضح کرتے چلیں...
دراصل یہاں کی تحریکی دنیا کےلیے ہم ایک مقدمہ رکھتے ہیں اور اس کو جابجا بیان کرتے ہیں اور وہ مقدمہ یہ ہے کہ:
آپ کے سامنے خواہ ایک مسلم معاشرہ ہے یا ایک کافر معاشرہ، ایک مسلم سلطان ہے یا ایک کافر یا فاجر حکمران، وقت کے صالحین کا وہاں کے اداروں سے اٹھ آنا اور وہاں اثر ورسوخ کی پوزیشنوں کو چھوڑ آناہرگز ہرگز دینِ خداوندی کا تقاضا نہیں۔ یہ منہج کچھ واضح عمرانی حقائق سے بھی متصادم ہے اور معلوم شرعی حقائق سے بھی۔ (ظاہر ہے شرعی حقائق عمرانی حقائق کے ساتھ بہترین تعامل اختیار کرنے کےلیے ہی آتے ہیں نہ کہ ان کو نظرانداز کروانے یا ان کے ساتھ تصادم اختیار کروانے کےلیے، اسی لیے ہم نے اپنے اولین مضمون میں کہا تھا کہ ہمارے فقہاء اپنے دور کے اعلیٰ ترین سوشل سائنٹسٹ رہے ہیں)۔
اب چونکہ یہ مقدمہ ہی سرے سے غلط ہے کہ کسی معاشرے یا کسی نظام کے کافرانہ ہونے کے باعث وہاں کے اداروں اور وہاں کے بااختیار مناصب سے ہاتھ جھاڑ کر اور وہاں اثر ورسوخ کی اعلیٰ پوزیشنوں کو چھوڑچھاڑ کر گھر آبیٹھنا دینِ خداوندی کا تقاضا ہے... لہٰذا ہاتھ گھما کر کان پکڑنے کی یہ مشقت سرے سے غیرضروری ہوجاتی ہے کہ کسی معاشرے یا کسی نظام میں ایک اچھی بااثر پوزیشن پر پائے جانے کا ’’جواز‘‘ پیدا کرنے کےلیے آپ اُس نظام کو کھینچ تان کر ’اسلامی‘ ثابت کرلیں، جیساکہ مودودی صاحبؒ کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے۔ یہاں سے؛ یوسف علیہ السلام کا بادشاہِ مصر کے ہاں ایک اعلیٰ ترین عہدہ قبول فرمانا بلکہ خود وہ عہدہ طلب فرمالینا اور وہاں سے بالآخر ایک پورے ملک کو (مصر، تہذیب کا ایک قدیم ترین گڑھ) کو اسلام کی پٹڑی پر چڑھا لانا ہمارے اُس بیان[3] کے اندر مذکور ہوگیا تھا، جس پر یہ اعتراض وارد ہوا۔
اللہ کا شکر ہے مدرسۂ امام ابن تیمیہؒ اس موضوع پر آپ کو معاشرے پر اثرانداز ہونے... اور بدترین سے بدترین حالات میں بھی یہاں صالحین کے اعلیٰ کردار ادا کرجانے اور اونچی سے اونچی پوزیشنوں پہ پہنچ کر مقاصدِ حق کو انجام دےلینے... کے حوالے سے وہ ڈائنامزم فراہم کرتا ہے جو امام مودودیؒ کے اُس منہج میں ہمیں مفقود نظر آتا ہے جس کا فارمیٹ (ہمارے اندازے کے مطابق) مودودی کے ذہن پر سوشلسٹ موومنٹس کے سٹرکچر سے کسی نادانستہ انداز میں مرتسم ہوگیا تھا اور جوکہ ہماری نظر میں بہرحال ایک بانجھ منہج ہے۔ جبکہ ہمارے علمائے عقیدہ کے ہاں مودودیؒ کے بیان کردہ اِن مباحث[4] کی سرے سے گنجائش نہیں رہی تھی بلکہ اُن (علمائے عقیدہ کے بیان کردہ مباحث) کی سادگی اور بےساختگی اپنے اسلوب میں ہی مودودی صاحب کے اختیار کردہ اِن تکلفات سے اچھا خاصا اِباء کرتی ہے۔ ہم اپنے اُس مضمون[5] میں بھی یہ بات بیان کرآئے ہیں کہ ایک حقیقی اور زوردار تحریکی عمل ہونے کے ناطے سیدمودودی کو جو اعلیٰ جمعیت دستیاب ہوگئی تھی، معاشرے پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے وہ زیادہ دیر معاشرے کے اندر قائم اداروں سے الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتی تھی اور اگر ایسا کرتی تو کچھ معلوم عمرانی حقیقتوں سے تصادم کرتی۔[6] عمرانی حقیقتوں کے ساتھ اپنے اِس تصادم سے بچنے کےلیے سیدمودودی کی اُس جمعیت پر سرے سے ضروری نہ تھا کہ ایک اچھا خاصا تکلف کرکے وہ رائج جمہوری نظام کو مشرف بہ اسلام بناتی تاکہ یہاں کے اداروں میں اُس باصلاحیت جمعیت کے پائے جانے کی راہ میں جو ایک ’’اصولی رکاوٹ‘‘ حائل تھی وہ دور ہوجائے! حضرات یہ ہے وہ ڈائنامزم جو ہمیں ابن تیمیہؒ کا مدرسہ سلفیہ دیتا ہے اور جس کے سامنے لے آئے جانے کی صورت میں:
1. ہمارے باصلاحیت نوجوان باطل کی اس یلغار کے مقابلے پر اپنے عقیدہ پر استقامت اور ثابت قدمی[7] اختیار کررکھنے میں بھی ہرگز کوئی رکاوٹ نہیں پائیں گے (کسی ایسے ری کونسائل کی گنجائش ہی ان شاء اللہ نہیں رہے گی جو اِس جمہوری پیراڈائم کو اختیار کرنے کے معاملے میں بالآخر جماعت اسلامی اور اخوان کے پاؤں کی زنجیر بنی اور ان کے اسلام کی ایک ٹھیٹ پریزنٹیشن اپنا رکھنے میں مانع بنتی چلی گئی؛ نوبت باینجا رسید کہ ان کے ہاں ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا مقدمہ بھی اب تقریباً دم توڑ گیا ہے، یا کم از کم بھی کہنا چاہئے کہ وہ ان کے ’مطالبات‘ اور ان کی علانیہ جدوجہد کے ’بنیادی نکات‘ کی فہرست میں خاصا نیچے جاچکا ہے اور ’لوڈشیڈنگ‘، ’کرپشن‘ اور ’مہنگائی‘ وغیرہ ایسے ’حقیقی مسائل‘ اس کے مقابلے پر فہرست میں خاصا اوپر جگہ پاچکے ہیں)،
2. اور دوسری جانب معاشرے کی بااثر سے بااثر پوزیشن اختیار کرکے اپنی ایک معاشرتی پیش قدمی کو جاری رکھنے میں بھی ہمارے یہ نوجوان کوئی رکاوٹ نہیں پائیں گے۔
یہ مدرسہ ابن تیمیہ، جس کے فی زمانہ اعلیٰ ترین ترجمان ہماری نگاہ میں شیخ سفر الحوالی ہیں، یہاں کی بےشمار تحریکی گتھیوں کو چٹکیوں میں سلجھا تا ہے۔ اس مدرسہ کو ہم یہاں کی تحریکی دنیا کے اندر جگہ دلوانے پر اگر محنت کررہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کی یہی ضرورت ہے۔ اسی مبحث کے چند جوانب ہمارے اپریل 2012 کے شمارے میں دیے گئے شیخ صالح المنجد کے ایک فتویٰ[8] میں واضح کیے گئے ہیں۔ بلکہ ہمارے اُس پورے شمارے کا مین تھِیم مدرسہ سلفیہ کا یہی مبحث ہے، خصوصا اُس شمارہ کا ہمارا ایک مضمون: ’’دین سے وابستہ نوجوان... معاشروں سے فرار؟‘‘[9]
اب ہم آتے ہیں امام ابن تیمیہ کے اس بیان کی طرف جوکہ ان کے مجموع فتاویٰ کے ایک سنہرے مبحث ’’فی تعارض الحسنات أو السیئات أو ھما جمیعاً ‘‘ سے اقتباس ہے۔ ان شاء اللہ ہم کسی آئندہ فرصت میں مجموع فتاوی میں بیان ہونے والے اس پورے مبحث ہی کو اردو استفادہ کی صورت میں پیش کریں گے اور اس کے چند مقامات کو کھولنے کی بھی کوشش کریں گے، فی الحال اس کا یہ اقتباس پیش خدمت ہے:
ثُمَّ السُّلْطَانُ يُؤَاخَذُ عَلَى مَا يَفْعَلُهُ مِنْ الْعُدْوَانِ وَيُفَرِّطُ فِيهِ مِنْ الْحُقُوقِ مَعَ التَّمَكُّنِ لَكِنْ أَقُولُ هُنَا؛ إذَا كَانَ الْمُتَوَلِّي لِلسُّلْطَانِ الْعَامَّ أَوْ بَعْضَ فُرُوعِهِ كَالْإِمَارَةِ وَالْوِلَايَةِ وَالْقَضَاءِ وَنَحْوُ ذَلِكَ إذَا كَانَ لَا يُمْكِنُهُ أَدَاءُ وَاجِبَاتِهِ وَتَرْكُ مُحَرَّمَاتِهِ وَلَكِنْ يَتَعَمَّدُ ذَلِكَ مَا لَا يَفْعَلُهُ غَيْرُهُ قَصْدًا وَقُدْرَةً: جَازَتْ لَهُ الْوِلَايَةُ وَرُبَّمَا وَجَبَتْ وَذَلِكَ لِأَنَّ الْوِلَايَةَ إذَا كَانَتْ مِنْ الْوَاجِبَاتِ الَّتِي يَجِبُ تَحْصِيلُ مَصَالِحهَا مِنْ جِهَادِ الْعَدُوِّ وَقَسْمِ الْفَيْءِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ وَأَمْنِ السَّبِيلِ: كَانَ فِعْلُهَا وَاجِبًا فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ مُسْتَلْزِمًا لِتَوْلِيَةِ بَعْضِ مَنْ لَا يَسْتَحِقُّ وَأَخْذِ بَعْضِ مَا لَا يَحِلُّ وَإِعْطَاءِ بَعْضِ مَنْ لَا يَنْبَغِي؛ وَلَا يُمْكِنُهُ تَرْكُ ذَلِكَ: صَارَ هَذَا مِنْ بَابِ مَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ أَوْ الْمُسْتَحَبُّ إلَّا بِهِ فَيَكُونُ وَاجِبًا أَوْ مُسْتَحَبًّا إذَا كَانَتْ مَفْسَدَتُهُ دُونَ مَصْلَحَةِ ذَلِكَ الْوَاجِبِ أَوْ الْمُسْتَحَبِّ بَلْ لَوْ كَانَتْ الْوِلَايَةُ غَيْرَ وَاجِبَةٍ وَهِيَ مُشْتَمِلَةٌ عَلَى ظُلْمٍ؛ وَمَنْ تَوَلَّاهَا أَقَامَ الظُّلْمَ حَتَّى تَوَلَّاهَا شَخْصٌ قَصْدُهُ بِذَلِكَ تَخْفِيفُ الظُّلْمِ فِيهَا. وَدَفْعُ أَكْثَرِهِ بِاحْتِمَالِ أَيْسَرِهِ: كَانَ ذَلِكَ حَسَنًا مَعَ هَذِهِ النِّيَّةِ وَكَانَ فِعْلُهُ لِمَا يَفْعَلُهُ مِنْ السَّيِّئَةِ بِنِيَّةِ دَفْعِ مَا هُوَ أَشَدُّ مِنْهَا جَيِّدًا. وَهَذَا بَابٌ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ النِّيَّاتِ وَالْمَقَاصِدِ فَمَنْ طَلَبَ مِنْهُ ظَالِمٌ قَادِرٌ وَأَلْزَمَهُ مَالًا فَتَوَسَّطَ رَجُلٌ بَيْنَهُمَا لِيَدْفَعَ عَنْ الْمَظْلُومِ كَثْرَةَ الظُّلْمِ وَأَخَذَ مِنْهُ وَأَعْطَى الظَّالِمَ مَعَ اخْتِيَارِهِ أَنْ لَا يَظْلِمَ وَدَفْعَهُ ذَلِكَ لَوْ أَمْكَنَ: كَانَ مُحْسِنًا وَلَوْ تَوَسَّطَ إعَانَةً لِلظَّالِمِ كَانَ مُسِيئًا. وَإِنَّمَا الْغَالِبُ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ فَسَادُ النِّيَّةِ وَالْعَمَلِ أَمَّا النِّيَّةُ فَبِقَصْدِهِ. السُّلْطَانَ وَالْمَالَ وَأَمَّا الْعَمَلُ فَبِفِعْلِ الْمُحَرَّمَاتِ وَبِتَرْكِ الْوَاجِبَاتِ لَا لِأَجْلِ التَّعَارُضِ وَلَا لِقَصْدِ الْأَنْفَعِ وَالْأَصْلَحِ. ثُمَّ الْوِلَايَةُ وَإِنْ كَانَتْ جَائِزَةً أَوْ مُسْتَحَبَّةً أَوْ وَاجِبَةً فَقَدْ يَكُونُ فِي حَقِّ الرَّجُلِ الْمُعِينِ غَيْرُهَا أَوْجَبُ. أَوْ أَحَبُّ فَيُقَدَّمُ حِينَئِذٍ خَيْرُ الْخَيْرَيْنِ وُجُوبًا تَارَةً وَاسْتِحْبَابًا أُخْرَى. وَمِنْ هَذَا الْبَابِ تَوَلِّي يُوسُفَ الصِّدِّيقَ عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ لِمَلِكِ مِصْرَ بَلْ وَمَسْأَلَتُهُ أَنْ يَجْعَلَهُ عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ وَكَانَ هُوَ وَقَوْمُهُ كُفَّارًا كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ} الْآيَةَ وَقَالَ تَعَالَى عَنْهُ: {يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ} {مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ} الْآيَةَ وَمَعْلُومٌ أَنَّهُ مَعَ كُفْرِهِمْ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ لَهُمْ عَادَةٌ وَسُنَّةٌ فِي قَبْضِ الْأَمْوَالِ وَصَرْفِهَا عَلَى حَاشِيَةِ الْمَلِكِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ وَجُنْدِهِ وَرَعِيَّتِهِ وَلَا تَكُونُ تِلْكَ جَارِيَةً عَلَى سُنَّةِ الْأَنْبِيَاءِ وَعَدْلِهِمْ وَلَمْ يَكُنْ يُوسُفُ يُمْكِنُهُ أَنْ يَفْعَلَ كُلَّ مَا يُرِيدُ وَهُوَ مَا يَرَاهُ مِنْ دِينِ اللَّهِ فَإِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَكِنْ فَعَلَ الْمُمْكِنَ مِنْ الْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَنَالَ بِالسُّلْطَانِ مِنْ إكْرَامِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُمْكِنُ أَنْ يَنَالَهُ بِدُونِ ذَلِكَ وَهَذَا كُلُّهُ دَاخِلٌ فِي قَوْلِهِ: {فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} . فإذا ازْدَحَمَ وَاجِبَانِ لَا يُمْكِنُ جَمْعُهُمَا فَقُدِّمَ أَوْكَدُهُمَا لَمْ يَكُنْ الْآخَرُ فِي هَذِهِ الْحَالِ وَاجِبًا وَلَمْ يَكُنْ تَارِكُهُ لِأَجْلِ فِعْلِ الْأَوْكَدِ تَارِكَ وَاجِبٍ فِي الْحَقِيقَةِ. وَكَذَلِكَ إذَا اجْتَمَعَ مُحَرَّمَانِ لَا يُمْكِنُ تَرْكُ أَعْظَمِهِمَا إلَّا بِفِعْلِ أَدْنَاهُمَا لَمْ يَكُنْ فِعْلُ الْأَدْنَى فِي هَذِهِ الْحَالِ مُحَرَّمًا فِي الْحَقِيقَةِ وَإِنْ سُمِّيَ ذَلِكَ تَرْكُ وَاجِبٍ وَسُمِّيَ هَذَا فِعْلُ مُحَرَّمٍ بِاعْتِبَارِ الْإِطْلَاقِ لَمْ يَضُرَّ. وَيُقَالُ فِي مِثْلِ هَذَا تَرْكُ الْوَاجِبِ لِعُذْرِ وَفِعْلُ الْمُحَرَّمِ لِلْمَصْلَحَةِ الرَّاجِحَةِ أَوْ لِلضَّرُورَةِ؛ أَوْ لِدَفْعِ مَا هُوَ أحرم۔[10]
ابن تیمیہ کی مذکورہ بالا عبارت کا اردو مفہوم:
علاوہ ازیں، سلطان کی پکڑ ہوگی کسی ایسی زیادتی پر یا حقوق میں کسی ایسی کوتاہی پر جہاں وہ قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس مقام پر میں یہ کہوں گا کہ: وہ آدمی جو اقتدارِ عام پر فائز ہوتا ہے یا اقتدار کی بعض فروع پر جیسے امارت، یا کسی محکمہ کی افسری، یا ججی (قضاء) وغیرہ، ایسے آدمی کے لیے اگر اُس عہدے کے واجبات کو ادا کرنا یا اس میں پائے جانے والے حرام کاموں سے بچنا ممکن نہیں ہے تاہم دوسرا کوئی آدمی عمداً اور قدرت رکھتے ہوئے بھی ان امور میں پورا اترنے والا نہیں ہے، تو اس صورت میں اِس آدمی کےلیے یہ عہدہ رکھنا جائز ہوگا اور بعید نہیں یہ اُس پر واجب بھی ہو۔ وجہ یہ کہ اگر وہ عہدہ اُن واجب امور میں سے ہے جس کی مصلحتوں کو بروئے کار لانا واجب ہے جیسے دشمن کے خلاف جہاد، یا اموال فےء کی تقسیم، یا حدود کا قیام، یا راستوں کا امن و امان: تو اس عہدے کو اختیار کرنا آدمی پر واجب ہوگا۔ پھر اگر اس عہدے پر رہتے ہوئے یہ بھی لازم آتا ہو کہ آدمی کو کسی ایسے شخص کو اختیارات تفویض کرنا پڑتے ہوں جو اس کا حقدار نہیں یا ایسا مال داخل دفتر کرنا پڑتا ہو جو جائز نہیں یا ایسے آدمی پر سرکاری خرچ کرنا پڑتا ہو جس پر وہ سرکاری اخراجات جائز نہیں؛ درحالیکہ اس کام سے بچا رہنا آدمی کےلیے ممکن ہی نہ ہو، تو ان افعال کا حکم ’’ما لا یتم الواجب إلا بهٖ‘‘ والا ہوجائے گا۔ یعنی یہ فقہی قاعدہ کہ: وہ کام جس کے بغیر ایک فرض انجام نہ پاسکتا ہو فرض کے حکم میں ہی آجاتا ہے اور وہ کام جس کے بغیر ایک مستحب انجام نہ پاتا ہو مستحب کے ہی حکم میں آجاتا ہے بشرطیکہ اس کی مفسدت اُس فرض یا اُس مستحب کی مصلحت پر بھاری نہ پڑتی ہو۔ بلکہ (معاملہ اس حد تک کشادہ ہے کہ) اگر کوئی بااختیار منصب (قبول کرنا) آدمی پر واجب نہ ہو اور وہ منصب ہو بھی ظلم پر مشتمل؛ تاہم اُس منصب پر فائز جو شخص اس وقت ہے وہ تو نرا ہی ظلم مچا رکھےہوئے ہے تاآنکہ وہی منصب کسی ایسے (خدارسیدہ) شخص کے ہاتھ لگتا ہے جو یہ عزم رکھتا ہے کہ وہ اس ظلم کو کم ضرور کردے گا اور ظلم کی کسی کم تر صورت کو اختیار کرکے ظلم کی شدید تر صورت کو ختم کردے گا تو ایسی نیت کی موجودگی میں اُس شخص کے حق میں یہ فعل خوب ہوگا۔ ایسے آدمی کا ایک برائی کو اختیار کرنا اس نیت کے ساتھ کہ اس کے ذریعے وہ اس سے سنگین تر برائی کو دفع کرےگا مستحسن ہے۔ یہ وہ باب ہے جس میں عزائم اور مقاصد کے بدل جانے سے مسئلے کا حکم بدل جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ ایک بااثر ظالم کسی ناتواں شخص سے کوئی مالی تاوان طلب کرتا ہے، یہ دیکھ کر ایک تیسرا شخص بیچ میں پڑجاتا ہے تاکہ کچھ اور نہیں تو وہ اس بیچارے سے ظلم کی شدت کو ہی کچھ کم کرادے؛ یوں یہ شخص (تاوان جتنا کم کراسکتا ہو کرادینے کےبعد) اُس مظلوم سے وہ مال لے کر ظالم کو پہنچا دیتا ہے جبکہ خود طاقت رکھنے کی صورت میں وہ کبھی یہ ظلم کا کام اختیار نہ کرتا: تو ایسا شخص نیکوکار ہی شمار ہوگا۔ ہاں اگر یہ شخص ظالم کےحق میں بچولا بنے تو (عین یہی فعل کرکے) بدکار ٹھہرے گا۔[11]
مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ان امور میں لوگوں پر نیت اور عمل ہردو کا فساد غالب ہے۔ نیت کا فساد یہ کہ آدمی کا ان اشیاء سے مطمحِ نظر ہی اقتدار یا مال کا حصول ہو۔ اور عمل کا فساد یہ کہ آدمی حرام کاموں کا ارتکاب کرتا ہے اور واجبات کا ترک کرتا ہے کسی (حسنات و سیئات کے) تعارض کے باعث نہیں اور نہ اس غرض سے کہ وہ کوئی مفید تر اور خوب تر خدمت انجام دے۔
علاوہ ازیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی عہدہ (اپنی عمومی حیثیت میں) جائز یا مستحب یا واجب ہو لیکن کسی خاص آدمی کے حق میں اُس کے ماسوا کوئی عہدہ اس سے بھی بڑھ کر واجب یا مطلوب ہو۔ پس اس صورت میں اس کو دو خوب چیزوں میں سے خوب تر کو ترجیح دینا ہوگی کسی وقت ازراہِ وجوب اور کسی وقت از راہِ استحباب۔
اسی باب میں یوسف الصدیق علیہ السلام کا بادشاہِ مصر کے ہاں خزائن الارض کا عہدہ قبول کرنا بلکہ طلب کرکے لینا آتا ہے، درحالیکہ وہ بادشاہ اور اس کی قوم کفار تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے }وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ’’اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس آیا تھا صاف نشانیاں لےکر پھر تم اس کے لائے ہوئے کی بابت شک ہی میں رہے‘‘{ نیز یہ الفاظ: } يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ ’’اے میرے زنداں کے دونوں ساتھیو! کیا بہت سے متفرق خدا بہتر ہیں یا اللہ اکیلا قہار۔ نہیں پوجتے تم اسے چھوڑ کر مگر کچھ نام جنہیں تم نے اور تمہارے آباء نے اختیار کرلیا ہے‘‘{۔ پھر علاوہ اُن (اہل مصر) کے کفار ہونے کے، یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ لازماً اُن (اہل مصر) کا کوئی معمول اور کوئی دستور ہو مالیات کی وصولی کے معاملے میں بھی اور مالیات کے مصارف کے معاملہ میں بھی جوکہ بادشاہ کے درباریوں پر بھی خرچ کیے جاتے ہوں گے اور اس کے اہل خانہ پر بھی اور اُس کے لاؤ لشکر پر بھی اور اس کی رعایا پر بھی، اور (اہل مصر کے) یہ اخراجات اُس دستور پر رائج نہ ہوں گے جوکہ انبیاء کی سنت اور ان کے عدل کی شان ہے۔ جبکہ یوسف علیہ السلام کےلیے ممکن نہ تھا کہ وہ تمام امور انجام دےلیں جو وہ چاہتے ہیں اور جنہیں وہ دینِ خداوندی کا حصہ جانتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اُ ن لوگوں نے ابھی یوسف علیہ السلام کی دعوت پر لبیک ہی نہیں کہہ رکھا ہوا تھا۔ لیکن جتنا بس میں تھا اتنا عدل اور احسان یوسف علیہ السلام نے ضرور کیا۔ نیز اس اقتدار سے کام لے کر اپنے خاندان کے اہل ایمان کو اعزاز واکرام دینے میں کامیاب رہے جوکہ اس کے بغیر وہ نہ دےسکتے تھے۔ یہ سب اللہ رب العزت کے اس قول میں داخل ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہارے بس میں ہے‘‘۔ پس جب دو فرض آپس میں ٹکرائیں اور دونوں میں جمع ممکن نہ ہو اور ایسی صورت میں دونوں میں سے اہم فرض کو مقدم کردیا جائے تو وہ دوسرا فرض (جو چھوٹ گیا) اُس صورت میں فرض ہی نہ رہے گا، اور اس کا تارک جوکہ اُس سے اہم تر فرض کو ادا کرنے کے باعث اس کا تارک ہوا بلحاظِ حقیقت تارکِ فرض نہ ہوگا۔ اسی طرح؛ جب دو گناہ کے کام اکٹھے ہوجائیں اور ان میں سے زیادہ بڑے گناہ سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہو سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے چھوٹے گناہ کو اختیار کرلیا جائے، تو ایسی صورت میں چھوٹا گناہ بلحاظِ حقیقت گناہ نہ ہوگا ۔ ایسی صورت میں وہ جو ترکِ واجب ہوا تھا اُسے ایک عمومی معنیٰ میں ترکِ واجب کہہ بھی لیا جائے، یا یہ جو ارتکابِ حرام ہوا ہے اُسے ایک عمومی معنیٰ میں ارتکابِ حرام کہہ بھی لیا جائے، تو مضائقہ نہیں۔ ایسی صورت میں جو (صحیح تر) لفظ بولا جائے گا وہ ہے: ترکِ واجب بہ سببِ عذر، یا ارتکابِ حرام بہ سبب مصلحتِ راجحہ یا ضرورۃ۔ یا یہ کہ ایک حرام کو اختیار کرنا اس لیے کہ اس سے بڑے حرام کو دفع کرنا ہے۔
ابن تیمیہ کی عبارت ختم ہوئی۔
نوٹ: ہمارا یہ مضمون، ہمارے پچھلے شمارہ کے ایک مضمون پر سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہونے والے کچھ اعتراضات کے جواب میں انٹرنیٹ پر کچھ عرصہ پہلے شائع کردیا گیا تھا۔ اس پر مزید کچھ اعتراضات ہمیں موصول ہوئے ہیں، جنکی ایک خوبی یہ ہے کہ اب وہ اعتراضات ہماری بجائے براہِ راست ابن تیمیہ پر ہوگئے ہیں۔ ان اعتراضات میں مذکورہ بعض نکات پر ہم ان شاء اللہ آئندہ کسی فرصت میں قلم اٹھائیں گے۔
[1] http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1291&articlename=2013_04_darmyani_mahrlay
[2] ابن تیمیہ اس کےلیے لفظ ’’ولایت‘‘ استعمال کرتے ہیں، جیساکہ آپ ان کے فتویٰ کے عربی متن میں دیکھ لیں گے۔ ’’ولایت‘‘ کا لفظ کسی عام سی نوکری پر نہیں بولا جاتا۔ مثلاً ایک چپڑاسی یا کلرک کی نوکری کو ’’ولایت‘‘ نہیں کہا جائے گا، حتیٰ کہ ’شعبۂ تعلیم کی ملازمت‘ کےلیے بھی لفظ ’’ولایت‘‘ بعید از استعمال ہے۔یہ لفظ صرف ایک اعلیٰ اختیاراتی منصب کےلیے ہی بولا جاتا ہے۔ عربی لغت سے واقفیت رکھنے والا کوئی شخص اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا۔ ولایت رکھنے یا سونپے جانے والے شخص کو ’’والی‘‘ کہا جائے گا، جوکہ کسی حد تک اردو میں بھی مستعمل ہے۔
[3] http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1291&articlename=2013_04_darmyani_mahrlay
[4] ’’تفہیمات‘‘ میں مودودی صاحب نے یوسف علیہ السلام کے اس واقعہ پر طویل کلام کیا ہے۔ ایک زمانے تک ہم بھی امام مودودیؒ کے اس تحریری مناظرے کو بےحد سراہتے رہے ہیں کیونکہ مقابلے پر جو صاحب ہیں وہ شرک اور باطل کی بیخ کنی کے حوالے سے فی زمانہ کوئی مقدمہ ہی نہیں رکھتے۔ تاہم جب سے ہمیں مدرسۂ ابن تیمیہ کی چیزیں پڑھنے کو ملیں ہم ان مباحث سے ویسے ہی مستغنی ہوگئے۔
[5] http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1291&articlename=2013_04_darmyani_mahrlay
[6] سماجی صلاحیتوں کے حوالے سے ہم اپنے پہلے مضمون میں بھی ایک وضاحت دے آئے ہیں۔ یہاں بھی اُس وضاحت کے بغیر شاید ہمارا یہ موضوع مبہم رہے:
ہماری یہ گفتگو ایک ایسی جمعیت سے متعلق ہے جو اعلی سماجی صلاحیتوں کی مالک ہو اور معاشرے پر اثرانداز ہونے کی ایک قوی استعداد رکھتی ہو، اور جوکہ ہمارے خیال میں سید مودودیؒ کو بدرجۂ اتم حاصل تھی اور جوکہ تھوڑی دیر میں معاشرے کے سب موثر فورمز پر بولنے لگی تھی مگر رفتہ رفتہ اس میں باطل کے خلاف اختیار کیے گئے زوردار لہجے (پیراڈائم کی اُس تبدیلی کے باعث) دھیمے پڑتے چلے گئے اور بالآخر دم توڑ گئے۔ ایک ایسا تحریکی عمل بڑی دیر تک معاشرے کے موثر فورمز سے دوری اور گوشہ نشینی نہیں رکھ سکتا اور اس کےلیے لازم ہے کہ وہ معاشرے کے ہر شعبے ہر ادارے کے اندر پایا اور محسوس کیا جائے۔ ایسی باصلاحیت جمعیت کی بابت ہم نے کہا کہ وہ زیادہ عرصہ اداروں سے دور رہے گی تو معاشرے سے آؤٹ ہوجائے گی؛ جس کی وہ کبھی متحمل نہیں ہوتی۔ رہ گئے دینداروں کے وہ چھوٹے چھوٹے مردم بیزار ٹولے جو معاشرے پر اثرانداز ہونے کی ابجد سے ہی واقف نہیں اور ان کے سب فکری مباحث کھلتے ہی کونوں کھدروں اور ڈرائنگ روموں میں ہیں اور اپنی اسی دنیا میں ملنے والی ’ترقی‘ پر وہ بےحد خوش ہیں...، تو اس سیاق میں وہ ہمارے زیربحث نہیں۔ یہ، معاشرے میں کبھی ’اِن‘ ہی نہیں ہوئے اور نہ شاید کبھی ہوں گے ان کے ’آؤٹ‘ ہونے کا کیا سوال!
حضرات! سماجی صلاحیت ایک نہایت اہم چیز ہے اور تحریکی عمل کا ایک اساسی ترین عنصر؛ ہمارے تحریکی علماء بلاوجہ اس پر اتنا زور نہیں دیتے۔ خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا (مسند احمد رقم الحدیث 9922) ’’جاہلیت میں تم میں سے جو چنیدہ ہوں گے وہی تمہارے مابین اسلام میں چنیدہ ہوں گے، بشرطیکہ وہ (اسلام کی حقیقت جاننے میں) گہرے چلے جائیں‘‘
[7] http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1286&ArticleName=2013_04_nazryati_sabet_qadmi
[8] http://www.eeqaz.org/index.php/guidance/fatawa/200-coeducation-fatwa
[9] http://www.eeqaz.org/index.php/guidance/suggestions/202-deen-wabsta
[10] مجموع فتاوى ابن تیمیۃ جلد 20 ص 54۔57 فصل: ’’فی تعارض الحسنات أو السیئات أو ھما جمیعاً‘‘ دیکھئے ابن تیمیہ کی اس عبارت کا ویب لنک:
http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-9872
[11] یہ ہے وہ حقیقی فقہ جو اللہ کے فضل سے ہمارے ائمۂ سنت کو نصیب رہی ہے۔