شرح
’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 1
’’اہل قبلہ‘‘ کی اصطلاح
(بسلسلہ حاشیہ
1،
متن سفر الحوالی)
اللہ، قرآن، محمدﷺ پر ایمان کا
دعویٰ رکھنے والے تمام طبقے، جماعتیں، گروہ، فرقے، افراد، جب تک کہ وہ اسلام سے خارج قرار نہ دے دیے گئے
ہوں،[i] علمائے عقیدہ کے ہاں ’’اہل قبلہ‘‘ کے نام سے ذکر
ہوتے ہیں۔
یہاں؛ ملت سے نسبت
رکھنے والے ہر شخص کو – ابتداءً
– ایک درجہ کی حرمت حاصل ہے خواہ اس کی بدعت یا اس
کا پاپ کتنا ہی سنگین کیوں
نہ ہو۔
’’ابتداءً‘‘ سے مراد یہ کہ..:
ملت سے نسبت رکھنے والے ہر شخص کی جان، مال، آبرو کی حرمت اگر کہیں ساقط ہوگی یا اُس کےلیے نصرت اور
احترام کا رشتہ اگر کہیں ختم ہوگا تو وہ
’’استثناء‘‘ کے طور پر ہوگا۔ اصل یہی ہے کہ اس کی حرمت اور احترام ہو۔ احکام میں ’’اصل‘‘
اور ’’استثناء‘‘ کا یہ تعین ہوجانا بہت
اہم ہے: ’’اصل‘‘ کو دلیل کی ضرورت نہیں رہے گی؛ وہ آپ سے آپ ثابت
ہوگا۔ البتہ ’’استثناء‘‘ ہمیشہ ثبوت کا
محتاج ہوگا؛ مجتہد کو اس پر معتبر دلیل کی ضرورت ہوگی اور عامی کو معتبر فتویٰ کی۔
اور جہاں یہ دلیل یا فتویٰ نہ ہو، یا محل نظر ہو، وہاں معاملہ خودبخود اپنے
’’اصل‘‘ پر ہو گا؛ اور وہ ہے ملت سے نسبت رکھنے والے ہر شخص کی جان، مال، عزت،
آبرو کی حرمت اور مسلمانوں سے نصرت، محبت، احترام، سلام اور استغفار پانے کا حق۔ ’’احتیاط‘‘
اصل کو لاگو کرنے میں نہیں بلکہ استثناء کو لاگو کرنے میں ہوگی۔
اِس اصطلاح کی مناسبت: یہ مشہور حدیث:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ
ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ
رَسُولِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ (صحیح البخاری: کتاب الصلوٰۃ،
باب فضل استقبال القبلۃ۔ رقم
384)
انس بن
مالک سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے:
جو شخص
ہماری نماز ایسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کو اپنا قبلہ بنائے، اور ہمارے ہی (ہاں کا)
ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کو اللہ کا ذمہ اور اللہ کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔
پس اللہ کے ذمے کی حدشکنی مت کرو۔
علمائے عقیدہ کے روایتی
مباحث میں اِس اصطلاح کا سیاق: جہاں مسلمان
کے بطور مسلمان حقوق زیربحث آئیں، جن میں جان،
مال اور آبرو کی حرمت تو خیر سرفہرست ہے، اس کے علاوہ بھی کئی امور خصوصی
بیان ہونے میں آتے ہیں، مثلاً ایک مسلمان کےلیے استغفار، جنازے میں شرکت، سلام کا
جواب، حسن ظن، مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن، وغیرہ۔ اس کے ساتھ بغض، تمسخر،
غیبت، لعن طعن وغیرہ سے اجتناب۔ معاشرے میں اس سے مانوس رہنا اور اس کو مانوس رکھنا،
اور بہت سے حقوق، جن کا ساقط ہونا کچھ
معیّن حدود اور قیود کا پابند ہے۔
’’تکفیر‘‘
سے مانع ہونے میں لفظ ’’اہل قبلہ‘‘ ایک قوی دلالت رکھتا ہے۔
اکٹھے
جمعہ، جماعت و عیدین کی ادائیگی، دکھ سکھ کا ساجھ، نیز جہاد و اقامتِ دین ایسے
فرائض میں امت کے ساتھ چلنے اور امت کو ساتھ چلانےسے متعلقہ مباحث میں بھی ’’اہل
قبلہ‘‘ کی اصطلاح بکثرت مستعمل ہے۔ اسی میں یہ مضمر ہے کہ مسلم معاشرے میں اگر
کوئی اہل بدعت یا اہل فسق پائے جائیں تو ان سے براءت اور مقاطعہ بس ایک حد تک ہی
ہے۔ بطور مسلمان، آدمی کے جو بنیادی حقوق basic rights ہیں وہ کچھ استثنائی صورتوں کو
چھوڑ تے ہوئے، بہرحال برقرار رہتے ہیں۔ پس ’’اہل قبلہ‘‘ کے ساتھ تعلقات میں آدمی کی
اپنی طبیعت، موڈ اور ’جماعتی پالیسی‘ ایک حد تک ہی چلتی ہے؛ شریعت کی رِٹ بالاتر
ہے؛اور گروہی نسبتیں اس کے مقابلے پر سلباً اور ایحاباً ہیچ۔
یہ
انتباہ بھی ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ خالصتاً ایک آسمانی معاشرہ ہے؛ لہٰذا ایک دوسرے
کے ’’حقوق‘‘ یہاں خالصتاً ایک
آسمانی حوالہ۔ ’شہری حقوق‘ یا ’سِوِل رائٹس‘ ہماری
تاریخ میں کچھ اجنبی الفاظ ہیں؛ جوکہ آسمانی شریعت کو دیس نکالا دے کر تشکیل
پانے والے ایک خاص (لادین) تصورِ معاشرت کے نمائندہ ہیں۔ (اس پر ہم ابن تیمیہ کی
’’خلافت و ملوکیت‘‘ کی شرح میں کچھ روشنی ڈال چکے ہیں) ’’حقوق‘‘ کے مبحث کو ’’اہل قبلہ‘‘ کے تحت پڑھنا
بلاشبہ ایک منفرد دستوری حوالہ ہے۔
[i] مراد
ہے: کسی باقاعدہ قضاء کے ذریعے سے کسی گروہ کو اسلام سے خارج قرار دے دیا جانا۔ یا
پھر اسلامی قضاء کی غیرموجودگی میں علمائے امت کے کسی فتوائے عام کی رو سے، جو کہ
ایک سماجی اثر social
impact رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر
قادیانیوں کی تکفیر، وغیرہ۔
حق یہ ہے کہ جب تک قادیانیوں کو کافر کا درجہ دےرکھنے
سے متعلق بعض مسلم ملکوں میں ریاستی سطح پر قانون سازی نہیں ہوئی تھی تو بھی اِن
مسلم معاشروں میں قادیانی گروہ کے ساتھ کفار والا برتاؤ ہی ہو رہا تھا۔ بلکہ کئی
مسلم ممالک میں قادیانیوں کی تکفیر سے متعلق آج تک کوئی قانون سازی نہیں ہے، مگر
اس سے معاشرے میں ان کے کافروں والے سٹیٹس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ زیادہ سے زیادہ،
یہ ہوتاہے کہ کسی خطے میں لوگ قادیانیوں کی حقیقت سے لا علم ہوں، مگر جیسے ہی ان
کو مستند ذرائع سے بتایا جاتا ہے کہ علمائے اسلام اِس ٹولے کی تکفیر کرتے ہیں وہ
قادیانیوں کو کافر کے طور پر ڈیل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ہے اللہ کے فضل سے
’’علماء کی رِٹ‘‘۔
البتہ یہ چیز کہ ’ہمارے اعتماد کے چند مفتیوں نے اتنی
ساری خلقت کو دائرہ اسلام سے خارج کر رکھا ہے‘ تو جن علمی حلقوں میں ’’اہلِ قبلہ‘‘
ایسی یہ اصطلاحات رائج ہیں، وہاں یہ ایک مضحکہ خیز بات جانی جائے گی۔ ہر کوئی
’’احمد بن حنبل‘‘ نہیں ہوتا! کہ وہ اکیلا کسی کو کافر کہہ دے تو یہ فتویٰ اہل سنت
کے ہاں کرنسی نوٹ کی طرح چلے! (محلے کا مفتی احمد بن حنبل کی مثالیں دے تو یہ ایسا
ہی ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ عمر بن خطابؓ کے بیعت کرلینے سے ابوبکرؓ خلیفہ ہوگئے
تھے؛ لہٰذا میرے کسی کو بیعت دے دینے سے وہ خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا! بات یہ ہے کہ
عمر بن خطابؓ اور احمد بن حنبلؒ کچھ ایسی ہستیوں کا نام ہے جن میں پوری امت بولتی
ہے؛ یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا)۔ فتویٰ کی سماجی جہت، خاص طور پر لوگوں کو
دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دینے ایسے خطیر مسائل میں، نہایت اہم ہے۔ ایسے فتووں
سے لوگوں کو کنفیوز کرنا، خاص طور پر جب علم کا قحط ہو اور فتنوں کی پہلے سے
بھرمار ہو، فتنوں میں ایک ناقابل اندازہ اضافہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
واضح رہے، فتوائے عام قادیانیوں
کو کافر اور اہل قبلہ سے خارج ٹھہرانے سے متعلق ہے نہ کہ ان کا خون مباح کرنے سے
متعلق۔
’’قادیانیوں‘‘ کی مثال متفق علیہ تکفیر کے حوالے سے
تھی۔ یقیناً تکفیر کی ایک دوسری قسم بھی
ہے؛ جس کو آپ ’’مختلف فیہ‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے روافض کی تکفیر۔ مگر اس میں بھی امت کے کبار علماء کی ایک
ناقابلِ اندازہ تعداد جو عالم اسلام کے
کچھ وسیع و عریض خطوں میں باقاعدہ پیشوا جانی جاتی ہو، کسی گروہ کو کافر ٹھہراتی
ہے۔ اب اِسی مثال کو لے لیں: روافض کی تکفیر پر خلافتِ عثمانیہ کے اکثر یا (شاید
سب) مشائخ الاسلام (بلکہ ابن عابدین نے تو اس کو مفتی دولتِ عثمانیہ ابو السعود
آفندی کے حوالہ سے اجماعی مسئلہ کے طور پر بیان کیا ہے)، جزیرۂ عرب کے علماء
تقریباً سارے، برصغیر کا مکتب ولی اللّٰہی صاحبِ تحفہ اثناعشریہ اور اس کی متابعت
میں مشائخ دیوبند (اگر سارے نہیں تو ان کی بڑی تعداد) پائی جاتی ہے۔ اور اہلحدیث
کی ایک تعداد۔ پس اس کو ہم نے مختلف فیہ مانا تو کسی اکادُکا مفتی کی وجہ سے نہیں۔
’’تکفیر‘‘ کا مسئلہ دین میں ہے تو سہی مگر اتنا سادہ نہیں کہ کھیل بن جائے اور ہر
شخص اپنااپنا فتویٰ چھاپتا پھرے۔