شرح دعائے قنوت
تحریر: حامد کمال الدین
8
إنه لَا
يَذِلُّ مَن وَالَيتَ وَلَا یَعِزُّ مَنۡ عَادَیتَ
"نہیں ذلیل ہوتا وہ جسے تو دوست رکھے۔ اور نہیں عزت پاتا وہ جسے تو
دشمن جانے"۔
یہ بھی
توسُّل ہے۔ جوکہ عبادت کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔ یعنی خدا کی شان بیان کرنے کو اپنا
سہارا بنانا۔ مخلوق میں کوئی خدا کا دوست تو کوئی خدا کا دشمن۔ اب کون بدبخت ہے جو
خدا کی دشمنی مول لے۔ اور کون نادان ہے جو خدا سے اس کی دوستی کا سوال نہ کرے۔ پس
ان دو جملوں میں ایک طلب تو ہے مگر اس کا اسلوب بیانیہ ہے۔ خدایا تیری دشمنی سہنا
کسی کا بس نہیں۔ اور تیرا دوست ہونا کوئی چھوٹا اعزاز نہیں۔ مقصد یہ کہ مجھے اپنے
دوستوں میں کر لے اور اپنے دشمنوں میں نہ رہنے دے۔ نیز اس میں خدا سے جڑنے کا لطف
بیان ہوا کہ ایسے شخص کو کوئی آنچ نہیں۔ اور خدا سے مخاصمت کی نحوست بیان ہوئی کہ
ایسا شخص کبھی اونچا نہیں ہو سکتا۔ غرض عزت اور ذلت کا اصل سرچشمہ متعین ہوا۔ عزت
کی تلاش ہے تو وہ خدا سے دوستی کرنے اور وفاداری نبھانے میں ملے گی۔ اور ذلیل وہ
ہے جسے خدا اپنا دشمن کہہ دے۔
یہاں
ابن حجرؒ و دیگر بعض ائمہ نے بیان کیا: خدا اپنے اولیاء پر، ان کے درجات بلند کرنے
کےلیے، جو آزمائشیں کسی وقت ڈالتا اور پھر ان میں پورا اترنے کی توفیق دیتا ہے،
یہاں تک کہ وقتی طور پر اپنے کچھ دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے، حتیٰ کہ انبیاء
تک پر زمانے کے اوباش سنگ زنی کرتے، ان کے سر پر خاک انڈیلتے، ان پر آوازے کستے
اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے ہیں... یہ اللہ کے اِن ولیوں کے حق میں ذلت نہیں
بلکہ اگر یہ اس پر ڈٹ جائیں تو اِن کے بلندیِ درجات کا ذریعہ ہے۔ ذلت یہ اس وقت ہو
گی جب یہ اُن سے دب جائیں اور ان کے آگے سر نیچا کر لیں۔ مگر خدا جس کو دوست رکھے
اس کا سر نیچا نہیں ہونے دیتا۔ دعاء میں آدمی دراصل اِسی بات کا سوال کرتا ہے کہ
اِسے خدا کی ایسی دوستی نصیب ہو۔ دوسری جانب فرعونوں اور نمرودوں کو دنیا میں بڑا
بڑا کروفر ملا ہے جبکہ خدا اِن کو اپنا دشمن رکھتا ہے۔ یہ دراصل عزت نہیں۔ عزت وہ
ہے جو حق پرستوں کے دل میں کسی کےلیے ہو؛ مال کے پجاری جس کے آگے جھکتے ہوں اُسے
عزت دار نہیں کہیں گے۔ یہ دراصل مفاد کی پوجا ہوتی ہے نہ کہ ان کی اپنی تکریم۔ پس
یہاں عزت اور ذلت کے حقیقی معیار سامنے آئے اور خدا سے اِن حقیقی معیاروں merit پر عزت پانے اور ذلت سے
بچنے کی درخواست ہوئی۔ اور اصل: خدا کی صفات کا واسطہ؛ کہ یہ سب چیزیں اُسی سے
ملتی ہیں۔
یہاں
خدا کی اِس صفت کا اقرار ہوا کہ اپنے دوستوں کو بےسہارا چھوڑنا اُس کی شان کے
منافی ہے۔ وہ لازماً اپنے دوستوں کی مدد کو آتا ہے۔ نیز یہ بھی اُس کی شان کے
منافی ہے کہ اُس کا دشمن عزت و سربلندی پائے۔ گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دنیا کو
دارالامتحان ہی نہ رہنے دے؛ جس میں اُس کے دوستوں کو آزمایا جانا بھی آتا ہے اور
دشمنوں کو ڈھیل ملنا بھی۔ یہ وجہ ہے کہ بعض اہل علم نے کہا: اِس عزت اور ذلت کے
ظہور کا اصل تعلق آخرت سے ہے؛ دنیا بہرحال دارِآزمائش ہے۔ اور یہ کل چار دن تو
ہیں۔
پورا کتابچہ ایک پی ڈی ایف فائل میں خطِ نستعلیق کے ساتھ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
قنوتِ وتر کی تینوں دعاؤں کے متن یکجا یہاں سے حاصل کریں۔
شرح دعائے قنوت مین پیج کےلیے یہاں کلک کریں۔