شرح دعائے قنوت
تحریر: حامد کمال الدین
1
اللَّهُمَّ
اهۡدِنِي فِيمَن هَدَيتَ
"الٰہا! مجھے ہدایت دے ان (خوش
بختوں) میں جنہیں تو نے ہدایت دی"
خدا سے
ہدایت کا سوال۔ ابن آدم کی سب سے بڑی مراد۔ معلوم ہوا یہ شخص جو قادرِ مطلق
کے آگے عاجزانہ ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے، سب سے بڑھ کر فکرمند ہے تو اپنے قلب و نظر
کےلیے؛ جو ہدایت کا اصل محل ہے۔ ذرا اِس کے ذوق کا اندازہ کرو؛ پہلا سوال ہی خدا
سے کیا تو کیا کیا! سبحان اللہ! اِس کی تمام تر انسانیت، تمام تر معقولیت اور تمام
تر استقامت و حق پرستی اس بات پر منحصر ہے کہ اِسے درست بات کو سمجھنے، سچ
کو جانچنے، اچھائی کو سراہنے، برائی سے گھن کھانے،
حق کی حقیقت کو پانے، خیر کے راستوں میں آگے بڑھنے اور حق کا اتباع کرنے کی توفیق کتنی ملتی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلا سوال خدا سے یہی
کیوں نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر خیرات یہ اپنے اِسی
قلب و نظر کےلیے کیوں نہ مانگے جو اِس کے وجود کا ظرف ہے۔ خدا سے یہ فریاد کیوں نہ
ہو کہ اِس ظرف میں کوئی غلیظ مادہ پڑا نہ رہے، یہاں کسی بدبودار شےء سے اُنس باقی
نہ رہے؛ ان سب غلاظتوں سے دھل کر یہ نرا حُسن کا متلاشی اور عمدہ اشیاء کی آماجگاہ
بنے اور یہاں سے ایسےایسے اعلیٰ رویے پھوٹ کر آئیں، کہ خدا بھی ان پر راضی ہو اور
مخلوق بھی فریفتہ۔
الخلیل[i] شارحِ زاد المستقنع کہتے ہیں: یہاں انسان ہدایتِ علم کا بھی سوال
کرتا ہے اور ہدایتِ عمل کا بھی۔
ہدایتِ علم کا مطلب: انسان پر حقیقتِ امر منکشف ہوجانا،
حق اور باطل کا فرق کھل جانا۔ زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر درست سمت کا سائن
نظر آ جانا۔
جبکہ ہدایتِ عمل کا
مطلب: قلب
کا اس حق کو قبول کرنا۔ اس کے آگے سر تسلیم خم ہونا۔ اور اعضاء و جوارح کا اس پر
عمل پیرا ہونا۔ ہر ہر موقع پر حق کی قیمت دے سکنا۔
ہدایتِ
علم اصلاً خدا دیتا ہے۔ لیکن یہ ہدایت دینے میں مخلوق بھی شامل ہو سکتی ہے۔ مثلاً
نبی جو تمہیں ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے۔ (وَإِنَّكَ
لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔ سورۃ الشورى 52)۔ تمارا کوئی استاد یا مرشد جو تمہیں
صحیح اور غلط کی تمییز کراتا ہے۔ تاہم ہدایتِ عمل صرف خدا ہی دے سکتا ہے، اُس ایک
کے سوا یہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ اِس بےبسی کا اندازہ بس یہاں سے کر لو کہ تمہارے
سامنے یہ خاتم الانبیاءﷺ اپنے سب سے بڑے محسن
ابو طالب بن عبد المطلب کو ایمان کا ایک بول بُلوانے کےلیے اپنا پورا زور صرف کر دیتے
ہیں مگر اُدھر سے وہ ایک چھوٹا سا بول سامنے آ کر نہیں دے رہا؛ اور آپﷺ کا ایک اتنا پیارا آپؐ
کی آنکھوں کے سامنے ایمان کے بغیر جان دے دیتا ہے۔ ہدایت کی اسی دوسری قسم کی نفی غیراللہ
سے اِس آیت میں کی گئی ہے: إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ
وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أعْلَمُ بِالمُهْتَدِينَ (القصص: 56) ’’اور تو اپنے
پیارے کو ہدایت کرنے والا نہیں، ہاں اللہ جسے چاہے ہدایت کر دے، اور وہ خوب جانتا
ہے ہدایت پانے والوں کو‘‘۔ پس اِس بےتوجہی سے نکلو اور ذرا دھیان کرو: تم خدا سے
کیسی ایک نایاب چیز مانگنے جا رہے ہو۔ ایک ایسی شےء جو جہان میں کسی کے دینے کی
نہیں۔ انبیاء بھی اپنے عزیزوں کےلیے بس اِس کی تمنا ہی کر سکے۔ بادشاہوں کے خزانوں
میں بھی یہ چیز نہیں ملتی جو اِس وقت تم خدا سے مانگنے لگے ہو۔ اور جو اگر تمہیں
نہ ملی تو تم حقیقتاً ہلاک اور برباد ہو۔ اس بربادی کے گڑھے سے تمہیں نکالنے کےلیے
اگر وہ مہربان ہاتھ نہ بڑھائے تو دنیا میں تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں، حتیٰ کہ
تم خود بھی نہیں؛ چار دن کی زندگی اور پھر دہکتی آگ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے۔ اب ذرا
اپنی خوش قسمتی کا اندازہ کرو کہ اُس شانِ کریمی کے مالک سے تم نے کیا چیز مانگ لی
ہے! اور اگر تم خدا سے یہ مانگنے میں سچے ہو تو یقین رکھو کہ تمہارے یہ ہاتھ اُس
نے اپنے آگے تبھی اٹھنے دیے جب اُس کا تمہیں یہ خیرات دینے کا ارادہ ہوا! ہر کسی
کو تو یہ مانگنے کی سعادت نہیں! بلکہ شعور ہی نہیں! یہ تو
درود ہو محمدﷺ پر اور آپؐ کے آل اور اصحاب پر جن کے دم سے آج تم اِن مسجدوں میں کھڑے،
توحید کے واسطے دے دے،اُس کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہو!
شارحِ زاد المستقنع کہتے ہیں: اول
الذکر کو ہدایتِ ارشاد اور ثانی الذکر کو ہدایتِ توفیق بھی کہا جاتا ہے۔
خوب جان
لو: پہلی قسم ہدایت کی وہ ہے جو فرعون اور ابوجہل و ابولہب کو بھی ملی تھی؛ مگر یہ
اکیلی اُن کےلیے فائدہ مند نہ ہوئی۔ جبکہ دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو ابوبکرؓ و
عمرؓ اور بلالؓ و سلمانؓ کو ملی اور ان کے نصیب ہرے کر ڈالے۔ چنانچہ شارحِ زاد المستقنع کے بقول: پہلی کو
ہم ہدایتِ
عامہ کہتے ہیں اور دوسری کو ہدایتِ خاصہ۔ یعنی وہ چیز جو خواص کو نصیب ہوتی
ہے۔ اپنوں کے سوا خدا کسی کو اس کے پاس پھٹکنے نہیں دیتا؛ ہاں اپنوں کو بھر بھر
دیتا ہے! تو پھر اپنی قسمت کا اندازہ کرو اِن ہاتھوں میں، جو خدا کے آگے اٹھے ہوئے
ہیں، اگر یہ خیرات پڑ گئی تو تمہارا شمار کن دولتمندوں میں ہونے والا ہے! بس ذرا
توجہ اور اِنابت اور گھگھیاہٹ۔
فِیمَنۡ
ھَدَیتَ
یعنی
ہدایت بھی ویسی جو تو نے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو بخشی۔
ابن
عثیمینؒ کہتے ہیں: یہ توسُّل کے باب سے ہے۔ یعنی کسی کو ہدایت یافتہ دیکھا تو خدا
کو اُس کی اسی صفت کا واسطہ دے ڈالا جس کی بدولت وہ (دوسرے) اُس کے در سے دولتِ
ہدایت پاتے رہے۔ گویا اِس شخص کی نظر ایک ایسی بھِیڑ پر جا پڑی ہے کہ کسی شہنشاہ
کے در سے لوگ بھر بھر کر خیرات پا رہے ہیں تو اِس نے بھی بڑھ کر اپنا کاسہ آگے کر
دیا اور لگا مانگنے: اُن کو بھی تو تُو نے دیا ہے مجھے بھی دے ڈال۔ مجھے اِس در کا
پتہ چل گیا جہاں سے لوگ لَد لَد کر نکلے؛ تو یہ ایک میں بھی ہوں؛ دیکھ یہ میرا
ہاتھ پھیلا ہے؛ اِس کو بھی خالی مت لوٹا! پس تصور کرلو، اِس دعاء میں مانگنے اور
وسیلہ دینے کا کیا اعلیٰ اسلوب سکھایا گیا ہے۔
پورا کتابچہ ایک پی ڈی ایف فائل میں خطِ نستعلیق کے ساتھ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
قنوتِ وتر کی تینوں دعاؤں کے متن یکجا یہاں سے حاصل کریں۔
شرح دعائے قنوت مین پیج کےلیے یہاں کلک کریں۔
[i] فقہ حنبلی کی مشہور کتاب زاد
المستقنع فی اختصار المقنع۔ اس کے کئی شارح ہیں۔
یہاں اس کے ایک شارح احمد بن محمد بن حسن بن ابراھیم الخلیل کی شرح سے ہم نے یہاں
کچھ استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب شرح
الخلیل کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔