نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
حامد کمال الدین
انٹرنیٹ
پر موصول ہونے والا ایک
سوال:
نواقض اسلام کے مرتکب اشخاص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:
"نواقضِ اسلام"
کو پڑھنا یا زیر بحث لانا فی الحقیقت تین سطحوں پر ہوتا ہے:
ایک:
نواقضِ
اسلام کا یہ مضمون خود اپنے فائدہ کےلیے پڑھنا اور سمجھنا۔ تاکہ خود آپ روشنی میں
آ جائیں اور ایسے امور سے کوسوں دور رہیں جو آپ کے ایمان کے حق میں خطرہ ہیں۔ ہر
آدمی کو چاہئے وہ ان باتوں سے خوب آگاہ اور متنبہ ہو تاکہ خدا سے اس حالت میں ملے
کہ کوئی بدعقیدگی اس کے دامن پر نہ ہو۔
دوسری
سطح:
لوگوں
کو تعلیم اور دعوت دینے کے عمل میں نواقضِ اسلام سے آگاہ کرنا۔ تاکہ اسلامی معاشرہ
ان تباہ کن امور سے محفوظ و مامون کر دیا جائے اور حقیقی معنوں میں توحید کا قلعہ
ہو۔ معاشرے میں لوگوں کو ایسے سنجیدہ امور کی بابت آگاہی دینا البتہ ہر شخص کا بس
نہیں۔ اس کےلیے ضروری ہے، آدمی ذرا اچھے درجے کا طالبعلم ہو اور اہل علم کی
راہنمائی میں چلنے والا ہو؛ ورنہ یقینی طور پر ‘تعلیم’ سے زیادہ وہ ‘حادثات’ کر کے
آنے والا ہے؛ اور اِن اشیاء کو معاشرے میں فائدہ کی بجائے فتنہ کا ذریعہ بنانے
والا۔ مختصراً، اس میں مخاطبین کو عقیدہ کی خرابیوں وغیرہ سے خوب خوب متنبہ و
خبردار کیا جاتا ہے (اور یہ نواقض اسلام پڑھانے کی اہم ترین اور مفیدترین جہت ہے)۔
البتہ ان پر، یا ان کے علاوہ کسی اور پر، حکم لگانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ حکم
لگانے سے مراد، سادہ لفظوں میں، فتویٰ لگانا۔ لوگ آپ کو ‘اُدھر’ لے جانا بھی چاہیں
تو آپ اپنی طالبعلمانہ حدود سے واقف ہونے کے باعث، نیز تعلیم اور دعوت کے چیلنج سے
آگاہ ہونے کی بدولت، اُس روٹ پر چڑھنے سے دامن کش رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں، ہم کوشش
کریں گے، چند
اقتباسات محمد قطب کے آپ کے ساتھ شیئر کیے جا سکیں، تاکہ معلوم ہو سکے دعوت
اور تعلیم فی الحقیقت دانا لوگوں کا کام ہے، اور داناؤں کی سرکردگی ہی میں رہ کر
انجام دینے کا۔ دانائی یعنی بصیرت۔ أدعو إلی اللہ علیٰ بصیرۃٍ أنا
ومن اتبعنی۔
ہاں
یہ واضح کردیں، کہ ایک عامی کے طور پر، آپ نے بھی ان داعیوں کی آواز میں آواز
ملانی ہوتی ہے جو معاشرے میں لوگوں کو شرک یا الحاد کی خطرناکیوں سے خبردار کرتے
ہیں۔ اہل علم، یا طلبۂ علم کی سرکردگی میں، خود آپ کو ماحول میں خدا کی ہر
نافرمانی سے روکنے والوں کے اندر شامل ہی رہنا ہوتا ہے۔ اور شرک کے راستے میں ایک
آہنی دیوار کھڑی کرنی ہوتی ہے۔ شرک کو ’ناں‘ کرنے کے معاملہ میں زوردارترین لہجے
لے کر آنے ہوتے ہیں، بغیر اس کے کہ لوگوں خاص طور پر غافل اور بےعلم طبقوں کے ساتھ
آپ کی محبت اور ان کےلیے آپ کی رحمت اور شفقت میں کوئی ذرہ بھر فرق آئے۔
تیسری
سطح:
نواقضِ
اسلام کو زیرِ بحث لانے کی تیسری سطح وہ ہے جہاں کسی شخص یا اشخاص پر باقاعدہ حکم لگایا
جاتا ہے۔ یہ قطعی طور پر "راسخون فی العلم" کا کام ہے۔ عام آدمی کا تو
بالکل نہیں؛ طلبہ اور داعیوں کا بھی نہیں۔ آپ کے دور کے وہ أئمۂ عقیدہ اور فقہائے
سنت، جن کے علم اور فتویٰ کی معاشرے میں ایک دھاک ہے، اگر آپ کو یہ فتویٰ دے چکے
ہیں کہ فلاں شخص یا اشخاص نواقضِ اسلام میں سے کسی ناقض کی زد میں آنے کے باعث دین
سے خارج ٹھہرایا جا چکا ہے، تو آپ اِس فتویٰ میں ان کی پیروی کیجئے۔ نہیں؛ تو
لوگوں کا حکمِ اصلی جوں کا توں رہے گا۔ یعنی وہ مسلمان ہیں، اور ان کے سب احکام
مسلمانوں والے ہیں، اگرچہ آپ ان کو کیسے ہی سنگین عمل میں ملوث کیوں نہ پائیں۔
بنا
بریں؛ معاشرے کے جن عام لوگوں کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے، ان میں سے اگر کچھ
لوگ بالفرض آپ کی نظر میں نواقضِ اسلام کے مرتکب بھی ہوں، تو آپ زیادہ سے زیادہ
جوکام ان کے ساتھ کریں گے وہ یہ کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ، انہیں ان اشیاء
کی سنگینی سے متنبہ کریں اور ان کو مسلسل تعلیم دیں۔ آج بھی، کل بھی اور پرسوں
بھی۔ اس کے سوا کسی بات کی جلدی نہ کریں۔ اس تمام عرصہ کے دوران، ان کو مسلمان ہی
مانیں اور ان کے سب حقوق اور احکام مسلمانوں والے رکھیں۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جب
تک فتویٰ کی مجاز اتھارٹی کسی شخص پر حکم لگا نہ دے، اسے تمام حقوق اور عصمت
مسلمانوں والی حاصل رہے گی۔
یہاں،
بطورِ خاص میں ایک گروہ سے خبردار کروں گا جو انٹرنیٹ وغیرہ پر ائمۂ توحید کی
بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ ایک طرف یہ حضرت آپ کو فرمائیں گے کہ میں تو کسی پر حکم
لگا ہی نہیں رہا، لیکن دوسری طرف جیسے ہی آپ ایک شخص کےلیے ’’رحمہ اللہ‘‘ بولیں
گے، یا اس کا جنازہ پڑھ آئیں گے، یا اس کا کوئی اور معاملہ مسلمانوں والا رکھیں
گے، تو یہ اس پر سیخ پا ہو جائیں گے، گویا آپ نے ایک ناجائز کام کر دیا۔ یعنی
فتویٰ لگائے بغیر یہ حضرات آدمی کے احکام غیرمسلموں جیسے رکھنے میں مہارت رکھتے
ہیں۔ آدمی کےلیے استغفار کر آنے پر آپ کے ساتھ لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں۔ (ممتاز
قادری مرحوم تک کو اِن خدا کے بندوں نے نہیں بخشا اور اس کا جنازہ پڑھ آنے والوں
پر کئی ہفتے نکیر کرتے رہے)۔ اس طبقے کی کچھ تفصیل آپ ہمارے اس
مضمون میں دیکھ سکتے ہیں:
یہ
سب کچھ.. اور ابھی فتویٰ نہیں لگایا!