فقہ
الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
حامد کمال الدین
برصغیر کا ایک المیہ،
یہاں کے کچھ تنگ نظر کینہ پرور طبقوں کی ابن تیمیہ سے نسبت سچ مان لی جانا!
جزئیات میں عمق، کلیات
میں ربط، ثوابت میں رسوخ، متغیرات کا استیعاب، دِقت، موازنہ، وسعت، معیاریت،
استناد، واقعیت، سلامتِ صدر، تراحم، رواداری، فراخ دلی، خیرشناسی، قدردانی، سب
میں اپنی مثال آپ… "سنت" اور "جماعت" ہر دو مضمون کے معانی کو
ایک ساتھ لے کر چل سکنے اور چلا سکنے والا امامِ عِلم۔ رحمہ اللہ رحمةً واسعةً۔
آئیے آپؒ کے مجموع
الفتاوىٰ سے ایک عبارت پڑھیں:
وَالْخَيْرُ وَالشَّرُّ دَرَجَاتٌ فَيَنْتَفِعُ بِهَا
أَقْوَامٌ يَنْتَقِلُونَ مِمَّا كَانُوا عَلَيْهِ إلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ (جـ13صـ95) وَقَدْ ذَهَبَ
كَثِيرٌ مِنْ مُبْتَدِعَةِ الْمُسْلِمِينَ: مِنْ الرَّافِضَةِ
وَالْجَهْمِيَّة وَغَيْرِهِمْ إلَى بِلَادِ الْكُفَّارِ فَأَسْلَمَ عَلَى يَدَيْهِ
خَلْقٌ كَثِيرٌ وَانْتَفَعُوا بِذَلِكَ وَصَارُوا مُسْلِمِينَ مُبْتَدِعِينَ
وَهُوَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَكُونُوا كُفَّارًا وَكَذَلِكَ بَعْضُ الْمُلُوكِ قَدْ
يَغْزُو غَزْوًا يَظْلِمُ فِيهِ الْمُسْلِمِينَ وَالْكُفَّارَ وَيَكُونُ آثِمًا بِذَلِكَ
وَمَعَ هَذَا فَيَحْصُلُ بِهِ نَفْعُ خَلْقٍ كَثِيرٍ كَانُوا كُفَّارًا فَصَارُوا
مُسْلِمِينَ وَذَاكَ كَانَ شَرًّا بِالنِّسْبَةِ إلَى الْقَائِمِ بِالْوَاجِبِ
وَأَمَّا بِالنِّسْبَةِ إلَى الْكُفَّارِ فَهُوَ خَيْرٌ. وَكَذَلِكَ كَثِيرٌ مِنْ
الْأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ فِي التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ وَالْفَضَائِلِ
وَالْأَحْكَامِ وَالْقِصَصِ قَدْ يَسْمَعُهَا أَقْوَامٌ فَيَنْتَقِلُونَ بِهَا
إلَى خَيْرٍ مِمَّا كَانُوا عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ كَذِبًا وَهَذَا كَالرَّجُلِ
يُسْلِمُ رَغْبَةً فِي الدُّنْيَا وَرَهْبَةً مِنْ السَّيْفِ ثُمَّ إذَا أَسْلَمَ
وَطَالَ مُكْثُهُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ دَخَلَ الْإِيمَانُ فِي قَلْبِهِ فَنَفْسُ
ذُلِّ الْكَفْرِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ وَانْقِهَارُهُ وَدُخُولُهُ فِي حُكْمِ
الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَبْقَى كَافِرًا فَانْتَقَلَ إلَى خَيْرٍ مِمَّا
كَانَ عَلَيْهِ وَخَفَّ الشَّرُّ الَّذِي كَانَ فِيهِ. ثُمَّ إذَا أَرَادَ اللَّهُ
هِدَايَتَهُ أَدْخَلَ الْإِيمَانَ فِي قَلْبِهِ.
وَاَللَّهُ تَعَالَى بَعَثَ الرُّسُلَ بِتَحْصِيلِ
الْمَصَالِحِ وَتَكْمِيلِهَا وَتَعْطِيلِ الْمَفَاسِدِ وَتَقْلِيلِهَا
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا الْخَلْقَ بِغَايَةِ
الْإِمْكَانِ (جـ13صـ96) وَنَقَلَ
كُلَّ شَخْصٍ إلَى خَيْرٍ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ بِحَسَبِ الْإِمْكَانِ {وَلِكُلٍّ
دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا
يُظْلَمُونَ} .
وَأَكْثَرُ الْمُتَكَلِّمِينَ يَرُدُّونَ بَاطِلًا
بِبَاطِلِ وَبِدْعَةً بِبِدْعَةِ؛ لَكِنْ قَدْ يَرُدُّونَ بَاطِلَ الْكُفَّارِ
مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الْكِتَابِ بِبَاطِلِ الْمُسْلِمِينَ فَيَصِيرُ
الْكَافِرُ مُسْلِمًا مُبْتَدِعًا وَأَخَصُّ مِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يَرُدُّ
الْبِدَعَ الظَّاهِرَةَ كَبِدْعَةِ الرَّافِضَةِ بِبِدْعَةِ أَخَفَّ مِنْهَا
وَهِيَ بِدْعَةُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَقَدْ ذَكَرْنَا فِيمَا تَقَدَّمَ أَصْنَافَ
الْبِدَعِ. وَلَا رَيْبَ أَنَّ الْمُعْتَزِلَةَ خَيْرٌ مِنْ الرَّافِضَةِ وَمِنْ
الْخَوَارِجِ؛ فَإِنَّ الْمُعْتَزِلَةَ تُقِرُّ بِخِلَافَةِ الْخُلَفَاءِ
الْأَرْبَعَةِ وَكُلُّهُمْ يَتَوَلَّوْنَ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ
وَكَذَلِكَ الْمَعْرُوفُ عَنْهُمْ أَنَّهُمْ يَتَوَلَّوْنَ عَلِيًّا وَمِنْهُمْ
مَنْ يُفَضِّلُهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ؛ وَلَكِنْ حُكِيَ عَنْ بَعْضِ
مُتَقَدِّمِيهِمْ أَنَّهُ قَالَ: فَسَقَ يَوْمَ الْجَمَلِ
إحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ وَلَا أَعْلَمُ عَيْنَهَا.
(مجموع الفتاوى ص 95 تا ص 97)
"خیر
اور شر (کوئی ایک ہی سطح نہیں بلکہ) درجات ہیں۔ چنانچہ ان (کلامی مباحث) سے بہت سے
لوگوں کو یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ جہاں وہ تھے اس سے ہٹ کر اس سے بہتر حالت پر چلے
گئے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں کے بدعتی مانند رافضہ اور جہمیہ وغیرہ کفار
کے ملکوں میں گئے تو ایک بڑی خلقت ان (رافضہ، جمہیہ وغیرہ) کے ہاتھوں مسلمان ہوئی،
جس سے اس (خلقت) کو فائدہ ہوا۔ چنانچہ وہ (خلقت) مسلمین مبتدعین میں بدل گئی، جو کہ بہتر ہے اس سے کہ کافر ہی رہتی۔
"اسی طرح بعض
(مسلمان) بادشاہ ایسی یلغاریں کر جاتے ہیں جس میں وہ مسلمانوں اورکفار ہر دو پر
ظلم ڈھا دیں۔ ایسا بادشاہ اپنے اس فعل سے گناہگار ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ
ایک بڑی خلقت کےلیے اس سے فائدہ ہو جاتا ہے، یوں کہ وہ کفار سے مسلمان ہو گئے۔ یہ
شے ادائے واجب کرنے والے کے حق میں تو شر
تھی، تاہم کفار کے حق میں وہ خیر ہوئی۔
"یہی معاملہ بہت
سی ضعیف احادیث کا ترغیب، ترھیب، فضائل، احکام اور قصص (ایسے ابواب) میں۔ بہت
لوگوں کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ ان کو سنیں تو جس حالت پر وہ تھے اس سے نکل
کر اس سے بہتر حالت پر چلے جائیں، اگرچہ ہیں وہ جھوٹ۔
"یہ ایسا ہی ہے کہ
ایک آدمی دنیا کی لالچ میں یا تلوار کے ڈر سے مسلمان ہو جائے، اور پھر جب وہ
مسلمان ہو جائے اور مسلمانوں کے بیچ اس کی بودوباش پر ایک لمبا عرصہ گزر لے، تو
ایمان اس کے دل میں بھی جا اترے۔ چنانچہ کفر پر ہونے کے باعث اس پر ذلت طاری کرائی
جانا، پھر (اسلام کے ہاتھوں) اس کا مقہور ہو جانا اور پھر نرا نام کا مسلمان ہو جانا،
یہ بھی بجائےخود اس بات سے بہتر ہی ہوا کہ وہ کافر رہتا۔ چنانچہ جس حالت پر وہ تھا
اس سے وہ بہرحال بہتر حالت پر آ گیا۔ اور وہ شر جس پر وہ تھا، کم ضرور ہوا۔ آخر جب
اللہ کی مشیئت ہوئی کہ اسے ہدایت دے دے، تو اس کے دل میں اُس نے ایمان داخل فرما
دیا۔
"اللہ نے دراصل
رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے: مصالح کی تحصیل اور تکمیل ہر دو کے ساتھ۔ اور مفاسد کی
تعطیل اور تقلیل ہر دو کے ساتھ۔ اور رسول اللہﷺ مخلوق کو اللہ کی طرف لائے امکان
کی حد تک۔ رسول اللہﷺ نے ہر شخص کو جس حالت پر وہ تھا اس سے نکال کراس سے بہتر
حالت پر حسبِ امکان پہنچایا۔ [وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا
عَمِلُوا وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ "اور
ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ہیں تاکہ الله ان کے اعمال کا انہیں
پورا عوض دے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا"]۔
"اکثر متکلمین کا
یہ حال ہے کہ ایک باطل کا رد ایک دوسرے باطل کے ساتھ اور ایک بدعت کا رد ایک دوسری
بدعت کے ساتھ کرتے ہیں۔ تاہم یہ تو ہو سکتا ہے کہ یہ (متکلمین) لوگ مشرکین و اہل
کتاب ایسے (صاف) کفار والے باطل کا رد
مسلمانوں والے باطل کے ساتھ کر دیں، جس سے ایک کافر (چلیں) ایک بدعتی مسلمان (ہی)
ہو جائے۔ پھر ان (متکلمین) میں اَخص (قریب تر) وہ (متکلمین) ہوئے جو بدعاتِ ظاہرہ،
مانند بدعتِ روافض، کا ردّ ان سے کچھ ہلکی قسم کی بدعت کے ساتھ کر دیں جو (چلیں)
اہل سنت والی بدعت (تو) ہو گی۔جبکہ پیچھے ہم بدعات کی اصناف بیان کر آئے ہیں۔ اور
کیا شک ہے کہ معتزلہ (کی بدعت) روافض اور خوارج (کی بدعت) سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ
معتزلہ خلفائے اربعہؓ کی خلافت تو مانتے ہیں اور سبھی معتزلہ ابوبکرؓ، عمرؓ اور
عثمانؓ سے تو ولایت رکھتے ہی ہیں۔ جبکہ معروف یہ ہے کہ علیؓ سے بھی ولایت ہی
رکھتے۔ جبکہ ان میں سے بعض تو علیؓ کو ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دے جاتے ہیں۔گو
ان کے متقدمین میں سے کسی کا یہ قول بھی نقل ہوا ضرور ہے کہ: جمل والے دن، دو میں
سے کوئی ایک گروہ فاسق ہوا ہے اگرچہ میں بالتعیین نہیں جانتا کہ ان میں سے
کونسا"۔
(مجموع
الفتاوى ص 95 تا ص 97)
*****
نوٹ: "فقہ الموازنات" پر اس سے پہلے چند اشیاء
ہمارے ہاں شائع ہوئی ہیں، مستقبل قریب میں اس پر کچھ مزید مواد دینے کی کوشش کی
جائے گی، ان شاء اللہ۔