’بندے‘ کو
غیر متعلقہ رکھنا آپ کے "شاٹ" کو زوردار بناتا!
حامد کمال الدین
لبرلز کے ساتھ اپنے اس کھیل میں کسی وقت ایک رَن بھی لیا
کریں حضرات؛ لمبی سیریز ہے!
ابرار الحق کی ایک اچھی بات کی سرِ راہ تحسین کر دینے سے وہ
آپ کا ہیرو نہیں ہو جائے گا، خاص جس وقت دین سے بُغض رکھنے والوں کو اس کی وہ بات
چُبھ گئی ہو۔ (گو ایسا کرنے سے اس کے دین کی طرف آنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، مگر
یہ بھی سرِ دست ہمارا موضوع نہیں)۔ بہت معاملات دراصل یہاں کیس ٹو کیس case to case اور سچوایشن ٹو سچوایشن situation to situation لیے جاتے ہیں۔ کہیں
ایک بہت اچھے بندے کی کسی ایک غلط بات پر پکڑ، تو کہیں ایک بہت غلط آدمی کو کسی ایک
صحیح بات پر شاباش۔ نہ اُس سے آپ کا ایک ہیرو یک دم زیرو ہو جائے گا، اور نہ اِس
سے ایک زیرو یک لخت آپ کا ہیرو جا بنے گا۔ کیس ٹو کیس۔ کسی ایک ہی معاملے یا شخص
کو "مسئلہ" بنا دینے کا فیصلہ البتہ یہاں بڑا سوچ سمجھ کر اور کسی بہت
ہی بڑی ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے۔ ورنہ اس تیز رَو دنیا میں اپنی روانی اور
اثراندازی ہی برقرار رکھی جاتی ہے۔
اصل توجہ "کھیل" پر بھائی، ‘بندے’ پر نہیں! یہاں
ہر بال مختلف طریقے سے کھیلی جاتی ہے اور ہر شاٹ جدا انداز سے۔
ایسے میں "بندے" کو موضوع بننے دینا، خواہ مدح کے
باب سے اور خواہ مذمت کے باب سے، ایک گھاٹے کا سودا ہو سکتا ہے۔ واقعات کی اگلی
"بال" بالکل کچھ اور ہو سکتی ہے۔ ایک پل تحسین تو ایک پل چڑھائی۔ یہاں ضرب
لگانے کے زاویے بڑی تیزی سے بدلیں گے۔ کہیں رجھانا تو کہیں مارنا۔ نجانے کیوں ہمارے
کچھ نیک لوگ یہاں کھیل سے نکل کر بندے کے پیچھے جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں!؟ میں
آپ سے عرض کروں، یہ سوشل میڈیا ان حضرات کے بس کی بات نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ اپنے
وہی روایتی درس دروس جاری رکھیں؛ اور بس وہیں کسی اونچے سے سٹیج پر تشریف فرما
اپنا وہ پانچ سو سال پرانا "سرزنش کا خطاب" سامنے بیٹھی ایک دست بستہ
ہمہ تن گوش امت کو اِلقاء فرماتے جاویں۔ گو وہاں بھی مفید اب یہ نہیں، لیکن یہاں
تو تباہ کن ہے۔
ڈاکٹر رضوان
اسد خان کو میں داد دیتا ہوں انہوں نے "اپنے" رخ پر اس بال کو بہت
اچھا کھیلنے کی کوشش کی۔ (ملاحظہ فرمائیں ان کی ایک پوسٹ
جو آج صبح ہمارے ہاں شیئر ہوئی)۔ یہی رخ خوب تھا۔ بہتر تھا ہمارے سوشل میڈیا کے سب
لوگ ایک آدھ دن کے اس چھوٹے سے ایپی سوڈ کو ایک اچٹتے انداز میں اسی ڈھب پر کھیل
جاتے اور مل کر دین دشمنوں کو تھوڑی تکلیف دینے کا ایک موقع انجوائے کرتے، بغیر اس
سے کہ یہ اپنے اوپر اس سے کچھ بھی لازم آنے دیتے! مگر یہاں تو دشمن کی ایک تکلیف
کو بھی اپنی تکلیف بنا لینے کی اعلیٰ ‘صلاحیت’ دکھائی جا رہی ہے!
بہت کم لوگ اس بات کا ادراک فرما رہے کہ سوشل میڈیا اس وقت
"تبلیغ" سے بڑھ کر ایک "ابلاغی جنگ" کا اکھاڑا ہے؛ اور اس کے
سراسر اپنے ڈائنامکس۔