کرسمس کے موضوع پر عرب کبار علماء کے فتاویٰ
(مختصر)
شیخ عبد العزیز بن بازؒ :
کسی مسلمان مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ یا یہود یا دیگر کفار کے ساتھ ان کے تہواروں میں شرکت کریں۔۔۔
نہ ان کے تہواروں میں شرکت جائز ہے اور نہ ان کے منانے والوں کے ساتھ اس معاملہ میں کوئی تعاون۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں حصہ لینا جائز نہیں، نہ چائے نہ کافی اور کسی برتن کی حد تک تعاون۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/30.htm
شیخ محمد بن عثیمینؒ :
کفار کو اُن کی عید کرسمس یا ان کے دیگر شعائرِ دینی پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ابن قیم نے اپنی کتاب احکام اہل الذمہ میں اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔۔۔
اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو بھی ہم ان کو جواباً مبارکباد نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری عیدیں نہیں ہیں اور کیونکہ یہ ایسی عیدیں ہیں جن پر اللہ راضی نہیں ہے، اور خود ان کے دین میں یہ من گھڑت عیدیں ہیں۔۔۔
مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ ان مواقع پر کفار کی مشابہت میں تقریبات کریں، یا تحفہ تحائف دیں، یا مٹھائی یا کھانے کھلائیں، یا تعطیل عام کریں۔ کیونکہ نبی ﷺنے فرمایا ہے: جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔۔۔
جو شخص ان میں سے کسی بھی فعل کا ارتکاب کرے تو وہ گناہگار ہے، خواہ یہ کام اس نے لحاظ ملاحظہ میں کیا ہو، یا پذیرائی پانے کے لیے، یا کسی کی شرم میں ایسا کر لیا ہو یا کوئی بھی سبب ہو؛ کیونکہ یہ اللہ کے دین میں مداہنت ہے اور کفار کے نفوس کو تقویت دینے اور ان کو اپنے دین پر فخر کا ایک موقع فراہم کا سبب۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/18.htm
شیخ عبد اللہ بن جبرینؒ :
کرسمس یا نوروز یا مہرجان وغیرہ ایسے ان خانہ ساز تہواروں کو منانا جائز نہیں۔۔۔
عیسائی مشرکوں نے اپنے اس تہوار پر جو کھانا تیار کیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ وہ اپنی اس تقریب میں بلائیں تو اس پر جانا حرام ہے۔ کیونکہ ان کی یہ دعوت قبول کرنا ان کی حوصلہ افزائی میں آتا ہے اور یہ ان کی ان مذہبی خانہ سازیوں کو ایک طرح کا سرٹیفکیٹ دینا ہے۔ جس سے جاہل فریب کھاتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھنے لگتے ہیں کہ وہ لوگ کوئی ایسا غلط کام نہیں کر رہے۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/21.htm
مفتی محمد ابراہیمؒ :
(سعودی وزیر تجارت کو لکھے گئے ایک مراسلے میں۔ جوکہ ان کے فتاویٰ ج۳ ص ۱۰۵ پر درج ہے)
ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال کچھ تاجروں نے ایسے تحائف درآمد کیے ہیں جو نصرانیوں کی عید کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں؛ جن میں کرسمس ٹری بھی شامل تھے۔ اور یہ کہ ہمارے بعض باشندے یہ تحائف خرید خرید کر غیر ملکی عیسائیوں کو ان کی عید پر پیش کرتے رہے ہیں۔
یہ ایک منکر چیز ہے اور ان کے لیے ہرگز روا نہیں تھی۔ ہمارا نہیں خیال کہ آپ اس چیز کی حرمت سے ناواقف ہیں یا اہل علم کے اُس متفق علیہ فتویٰ سے لاعلم ہیں جس کی رو سے کفار و مشرکین و اہل کتاب کے تہواروں میں شرکت حرام ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ آپ اس پر نظر رکھیں گے کہ ملک میں یہ کرسمس تحائف یا اس کے حکم میں جو دیگر چیزیں آتی ہیں اور جوکہ کفار کی عید کے ساتھ مختص ہیں، ملک میں درآمد نہ کی جائیں۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=120325
شیخ سفر الحوالی:
کفار کے تہواروں میں شمولیت کرنا یا اس پر تہنیت دینا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اُن کے تہوار ہیں۔۔۔ ان چار صورتوں سے باہر نہیں:
۱۔ محض ایک سماجی لحاظ ملاحظہ ہو؛ ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ (الفرقان: ۷۲) کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘ ہی مراد لیا ہے۔ نیز نبی ﷺ کا فرمان: إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً (حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، وغیرہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ ؑ کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ا کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم: یہ بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے؛ کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو؛ آدمی ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو؛ جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’وحدتِ ادیان‘ اور ’اخوتِ مذاہب‘ ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔۔۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آل عمران: ۸۵)
’’اِس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔
http://www.saaid.net/mktarat/aayadalkoffar/17.htm
شیخ ابراہیم بن محمد الحقیل:
بہ عنوان: أعیاد الکفار وموقف المسلم منہا
جب تک دنیا باقی ہے حق اور باطل کے مابین کشمکش باقی ہے۔ امتِ محمدیہ میں سے کچھ طبقوں کا اہل باطل کا پیروکار ہونے لگنا اور یہود، نصاریٰ، مجوس یا بت پرست اقوام کی تقلید کرنے لگنا.. جبکہ ایک گروہ کا اپنے نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسی حق پر جمے رہنا اور کسی ’عالمی پریشر‘ یا کسی ’سیاسی‘ یا ’سماجی‘ رکاوٹ کو خاطر میں نہ لانا۔۔۔ یہ ایک دائمی خدائی سنت ہے اور اس کو آج بھی روپذیر ہو کر دکھانا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے حق میں اس خدائی سنت کے پورا ہو کر رہنے کی بابت پیشین گوئی فرمائی ہے۔ تاہم اس کے خدائی سنت ہونے یا رسول اللہﷺ کے یہ پیش گوئی کر جانے کا یہ مطلب نہیں کہ آج ہم میں سے وہ لوگ جو مغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں کا تتبع کرنے لگے ہیں ہم ان پر نکیر کرنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ جس ہستیؐ نے اِس واقعہ کی پیش گوئی فرمائی ہے وہی ہستیؐ اِس خطرناک راستے کو اپنانے سے خبردار بھی فرما گئی ہے۔ اُس مقدس ہستیؐ نے ہمیں بار بار یہ تاکید فرما دینے کے بعد دنیا چھوڑی ہے کہ اس کے بعد زمانہ کیسی بھی آندھیاں چلائے ہم اس کے دین پر ہی جمے رہیں اور اس کے چھوڑے ہوئے راستے پر ہی ثابت قدم رہیں خواہ اس سے بہک جانے والوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے اور اس سے انحراف کر لینے والے کتنی طاقت کیوں نہ پکڑ لیں۔ اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ خوش بخت وہ ہوگا جو اس حق پر جما رہے خواہ اس سے پھیر دینے والے عوامل کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں۔۔۔ اور یہ کہ اس زمانہ میں حق پر چلنے والے ایک آدمی کو دورِ صحابہؓ کی نسبت پچاس آدمیوں جتنا اجر ملنے والا ہے، جیساکہ ابوثعلبہ خشنی ص کی حدیث سے ثابت ہے۔ (ابو داود: ۴۳۴۱، ترمذی ۳۰۶۰، ابن ماجہ ۴۰۱۴)
امتِ محمد ومیں یہ ہو کر رہنا ہے کہ کچھ طبقے آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے اس حق سے منحرف ہو کر باطل کی طرف لپکیں اور یہاں تغیر و تبدل کرنے لگیں ؛ جن کی سزا __ازروئے فرمانِ نبوی __ یہ ٹھہری کہ حوض کوثر پر یہ آپ ﷺ سے پرے کر دیے جائیں اور آپ وکے دستِ مبارک سے اِن کو وہ جام پینا نصیب نہ ہو جو صرف اُن لوگوں کو ملنے والا ہے جو آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے راستے پر ہی جمے رہے تھے۔
فرمایا:
أنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ؛ وَلَیُرْفَعَنَّ إلَیَّ رِجَالٌ مِنْکُمْ حَتّیٰ إذَا أَہْوَیْتُ إلَیْہِمْ لأنَاوِلَہُمْ اخْتُلِجُوْا دُوْنِیْ فَأقُوْلُ: أیْ رَبِّ! أصْحَابِی! فَیُقَالُ: إنَّکَ لا تَدْرِیْ مَا أحْدَثُوا بَعْدَکَ‘‘ وفی روایۃ: فَأقُوْلُ: سُحْقاً لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِیْ (متفق علیہ۔ البخاری: ۶۵۷۶، مسلم: ۲۲۹۷)
’’میں تم سے پہلے حوض پر پہنچا ہوں گا (منتظر ہوں گا)۔ ضرور ایسا ہو گا کہ کچھ لوگ میرے سامنے کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب میں ارادہ کروں کہ ان کو (جام) تھماؤں تو ان کو مجھ سے پرے دھکیل دیا جائے گا۔ میں کہوں گا پروردگار! میرے ساتھی ہیں! تو کہا جائے گا: تو نہیں جانتا انہوں نے تیرے بعد کیاکچھ گھڑا ہے‘‘۔ جبکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’تب میں کہوں گا: دفع اے وہ لوگو جو میرے بعد تغیر و تبدل کرتے رہے ہیں‘‘۔
اس ’’تغیر وتبدل‘‘ کا ایک بدترین مظہر اور دینِ محمد سے بیگانہ ہو جانے کی ایک بدترین صورت یہ ہے کہ آج آپ اُس رَو کا شکار ہوں جو اللہ کے دشمنوں کا اتباع کروا رہی ہے اور اس کو ’ترقی‘ اور ’تہذیب‘ اور ’ارتقاء‘ کا نام دیتی ہے، پھر کسی وقت اس کو ’پرامن بقائے باہمی‘ کا عنوان دیتی ہے تو کسی وقت ’انسانی بھائی چارے‘ کا۔ کبھی اس کو ’نظامِ عالم جدید‘ کے تحت فٹ کرتی ہے تو کبھی ’گلوبلائزیشن‘ کے تحت۔ آج یہ رَو نہایت عروج پر ہے۔ غیرت مند مسلمان نظر دوڑاتا ہے تو اس وباء کو اپنے چاروں طرف پاتا ہے، اِلا من رحم اللہ۔ ایک بڑی تعداد تقریباً بہہ گئی ہے؛ یہاں تک کہ اب یہ اُن کے شعائر دینی کے اخص الخاص امور کے اندر ان کی اتباع کرنے لگی ہے اور ان کی وہ روایات جو ان کی خاص پہچان ہیں انہی کو اختیار کرنے لگی ہے، یعنی اُن کی عیدیں اور اُن کے تہوار جوکہ باقاعدہ شرائع کا حصہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ عَمَّا جَاء کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’اور مت پیچھے چل ان کی اھواء کے، اُس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آچکا ہے؛ ہم نے تم میں سے ہر کسی کے لیے الگ الگ شریعت اور منہاج مقرر کر رکھا ہے‘‘ لِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ (۶۷) ’’ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک دستورٹھہرا دیا ہے اور اس کو وہی دستور بجا لانا ہے‘‘
http://ar.islamway.com/article/2712
شیخ ناصر بن سلیمان العمر:
مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ کے تہواروں میں کسی بھی انداز یا کسی بھی حیثیت میں شرکت کرے؛ خواہ یہ مبارکباد دینے کی صورت میں ہو، یا تحفہ تحائف کی صورت میں ، یا ان کی تقریب میں میں شریک ہوکر، یا ان کے اعزاز میں کوئی تقریب منعقد کرکے، یا کسی بھی اور شکل میں۔
http://ar.islamway.com/fatwa/12762?ref=search
ایک عرب ریاست میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے نوٹس لیا گیا کہ مساجد میں یہود اور نصاریٰ سے متعلق آیات واحادیث کا تذکرہ زیادہ ہونے لگا ہے۔ ہدایت جاری کی گئی کہ خطباء اس رجحان کو کم کریں۔ عرض کی گئی: یہود و نصاریٰ کے ذکر کو کتنا کم کرلیں گے، :کیا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ پڑھنا بھی چھوڑ دیں؟ ارشاد ہوا: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ پڑھتے رہو، اس کی تفسیر سے ذرا احتراز کرو