دوزخی ملتوں سے بیزاری
اقتباسات از: اقتضاءُ الصراطِ المستقمِ مخالفۃَ أصحابِ الجحیمِ
تالیف: شیخ الاسلام تقی الدین احمد ابن تیمیہؒ
اردو استفادہ (بصورت اقتباسات)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک شاہکار تصنیف: اقتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ مُخَالَفَۃَ أصْحَابِ الْجَحِیْمِ۔ اِس عنوان کا لفظی ترجمہ یوں بنے گا:
’’تقاضا کرنا صراط مستقیم کا، کہ راستہ علیحدہ کیا جائے اصحابِ دوزخ سے‘‘۔
کتاب کا یہ عنوان اور اس کے جملہ موضوعات سورۃ فاتحۃ کے جزوِ ثانی کے گرد گھومتے ہیں } قَسَمْتُ الصَّلاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ’’میں نے نماز (فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے مابین تقسیم کر دیا ہے‘‘ { کی رو سے سورت فاتحہ میں ’’بندے کا حصہ‘‘۔ ’’عبد کی طلب‘‘۔
یعنی منزل: خدا (رحمٰن ورحیم، مالکِ یوم الدین، جس کی یکتا ذات عبادت اور استعانت کا اصل محل ہے ) اور راستہ: شرائع کا۔ سورت کے مختصر ہونے کے باوجود ’’راستے‘‘ کا مبحث البتہ طویل ہو جاتا ہے؛ اور جوکہ ’’نمازی‘‘ کی ڈھیروں توجہ چاہتا ہے: صراطِ مستقیم (سیدھا راستہ) ایک مجرد تصور رہتا ہے اور اس کا تعین ہونا شدید مشکل، جب تک کہ دو کام نہ ہو لیں:
۱۔ ایک اُن لوگوں کی شناخت جو اِس راستے میں آپ کے پیشرو ہیں۔ یعنی ’’أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘۔ یہاں سے ایک ’’وابستگی‘‘ اور ’’اتباع‘‘ کا معنیٰ پھوٹتا ہے۔
۲۔ دوسرا : وہ لوگ جن کا راستہ اِس شاہراہ سے جدا ہو گیا مگر ان کا دعویٰ بدستور ہے کہ وہ شاہراہِ حق پر ہیں، اُن کی راہ سے بیزار ہونا؛ یعنی ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّالِّیْنَ‘‘۔ یہاں سے ’’علیحدگی‘‘ اور ’’دوری‘‘ اور ’’براء ت‘‘ کا ایک معنیٰ نکلتا ہے۔
یہاں سورت ختم ہوتی ہے اور یہاں؛ آپ کا مدعا پورا ہوتا ہے۔۔۔ یا یوں کہیے آپ بندگی کی ’’شاہراہ‘‘ پر چڑھ آتے ہیں اور ’’آمین‘‘ کہہ کر اپنی اِس طلب کو سربمہر کر دیتے ہیں!
ابن تیمیہؒ کی یہ کتاب سورۃ فاتحۃ کے اِسی جزو دوم سے بحث کرتی ہے، یعنی ’’راستے کے مباحث‘‘۔ سورۃ فاتحۃ کے یہ مباحث ابنی پوری عمارت اِس بنیاد پر اٹھاتے ہیں کہ: دو فریقوں کے مابین آب کو ایک لکیر کھینچنا ہے اور اسی کو گہرے سے گہرا کرتے جانا ہے؛ ’’راستہ‘‘ خود بخود واضح ہوتا چلا جائے گا! یہاں سے؛’’دو فریقوں‘‘ کا وجود پانا اور ان کے مابین ایک بعد المشرقین کا جنم لینا دنیا و آخرت کی سب سے بڑی حقیقت بن جاتا ہے؛ اور اِسی چیز کو اسلامی تصورِ اور اسلامی عقیدہ کی بنیاد بننا ہے:
دنیا کے لحاظ سے:
ایک جانب وہ جن پر انعام ہوا اور ہدایت نصیب ہوئی۔۔۔::۔۔۔ اور ایک جانب وہ جن پر غضب ہوا یا جن سے ہدات کا دامن چھوٹ گیا۔
اور آخرت کے لحاظ سے:
فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (الشوریٰ: ۷)
اِس ’’فرق‘‘ کا روپوش ہونا درحقیقت ’’راستہ‘‘ گم ہونا ہے۔ اور راستے کا گم ہونا ’’منزل‘‘ کا چھوٹ جانا!
اردو استفادہ کی صورت میں یہاں ہم کتاب کے چیدہ چیدہ مقامات پیش کریں گے۔
گھپ اندھیرا تھا تو محمد ﷺ مبعوث ہوئے
یہ بات نہایت خوب سمجھ لو:
دنیا میں رسولوں کی آمد کا سلسلہ بڑی دیر سے بند تھا (عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ) جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺکو مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا۔ یعنی وہ وقت جب اہل زمین، عرب کیا عجم، سب خدا کے ہاں رَدّ اور ناقبول تھے (۱)۔ کچھ ہوں گے تو اہل کتاب کے اکادکا باقیات؛ اور یہ بھی دنیا چھوڑ نہیں چکے تو عنقریب چھوڑنے والے تھے۔
دنیا تب دو ہی قسم کے انسانوں پر مشتمل رہ گئی تھی:
أ۔ یا کتابی: یعنی جو کسی آسمانی کتاب سے وابستہ ہو لیکن وہ کتاب تبدیل ہوچکی ہوگی، یا بیک وقت تبدیل بھی ہوگی اور منسوخ بھی، یا پھر سرے سے ناپید یعنی اس کا علم نابود اور عمل متروک۔
ب۔ یا اُمی: یعنی جو سرے سے کوئی کتاب نہیں رکھتا خواہ وہ عرب سے ہو یا عجم سے، بس اِس کو جو اچھا لگا یہ اس کو پوجنے لگا اور خیال کیا کہ یہی اُس کے لیے بھلا ہے، کوئی ستارہ پوجنے میں لگا ہے کوئی بت تو کوئی قبر تو کوئی مورت۔ وغیرہ
غرض انسانیت جاہلیت کی بدترین حد کو چھوتی تھی۔ جن عقائد کو علم سمجھا جاتا وہ جہل ہوتا۔ جن اعمال کو صلاح سمجھا جاتا وہ فساد ہوتا۔ کوئی بڑا ہی خوش قسمت ہوا تو اُس کو علم یا عمل کی کوئی ایسی صورت میسر آگئی جو انبیاء کے ترکے سے باقی رہ گئی تھی؛ البتہ حق اور باطل اس میں بھی گڈمڈ، اور تمیز دوبھر۔ عبادت کے اعمال ہو رہے تھے مگر ان کا کچھ ہی حصہ ہوگا جو خدا کی جانب سے مشروع ہو؛ اکثر انسان ساختہ تھا جو اصلاحِ نفس کی صلاحیت سے قریباً عاری تھا۔
یا پھر عقل اور فلسفہ کی پیشوائی تھی۔ قلب و نظر کی سب دولت طبیعیات اور ریاضیات کی نذر ہو جاتی۔ اصلاحِ اخلاق کے نسخے مشقت کا دوسرا نام تھا؛ جان جوکھوں کی محنت بھی کچھ ثمر نہ دیتی اور اگر دیتی تو وہ انتہائی ناکافی ، جس سے انسانیت کی بھوک مٹے اور نہ پیاس۔ پھر وہ بھی ایک ایسی مضطرب حالت میں کہ اس کا باطل عنصر، حق سے کئی گنا بڑھ کر۔ ساتھ میں سرپھٹول اور کثرتِ آراء؛ بحثیں حد سے زیادہ اور دلیلیں ناپید۔
یہ وہ وقت تھا جب اللہ نے نبوتِ محمدﷺ کی برکت سے انسانیت کو ہدایت بخشی۔ آپﷺ کی لائی ہوئی بینات اور ھدیٰ کے ذریعے اہل زمین کا بیڑہ پار لگایا۔ ایک ایسی ہدایت جس کی تجلی لفظوں کے بیان سے بالاتر ہے اور بڑے بڑے عارفوں کے اندازے سے بڑھ کر ہے۔ تاآنکہ آپ ا پر ایمان لانے والی امت کو عموماً اور اس امت کے اہل علم کو خصوصاً ایک ایسا کمال کا علم نصیب ہوا اور ایک ایسے اعلیٰ عمل صالح ، برگزیدہ اخلاق اور راستی پر مبنی سنتوں اور ضابطوں کا سراغ ملا.. کہ اگر تمام قوموں کی حکمت اور دانائی جمع کر لی جائے، علم کی صورت میں بھی اور عمل کی صورت میں بھی، اور اس کے سب شوائب بھی اُس سے نکال دیے جائیں، تو اقوام عالم کی یہ سب حکمت و دانائی مل کر بھی اُس علم و دانش کے آگے جسے لے کر محمد ﷺ مبعوث ہوئے پرکاہ کی حیثیت نہ رکھے۔ جس پر تعریف کیجئے تو اللہ وحدہٗ لاشریک کی۔
اِس مبحث کے دلائل اور شواہد بیان کرنے کا البتہ یہ مقام نہیں۔
اور یہ بھی خوب سمجھ لو:
اللہ رب العزت نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا دینِ اسلام دے کر جوکہ مطلق حق ہے؛ صراطِ مستقیم ہے تو بس یہ۔
تب اُس نے مخلوق پر فرض ٹھہرا دیا کہ یہ ہر نماز میں اُس سے سوالی ہوں کہ وہ اِنہیں اس صراط کو پانے اور اس پر برقرار رہنے کی ہدایت نصیب کرے۔ ساتھ اس صراطِ مستقیم کا وصف بیان فرما دیا کہ یہ اُن خاص لوگوں کا راستہ ہے جن پر اُس نے اِنعام کیا، اور وہ ہیں اُس کے نبی، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اتنا ہی نہیں؛ یہ بھی بتادیا کہ یہ اُن لوگوں کے راستے سے ہٹ کر ایک راستہ ہے جن پر اُس کا غضب ہوا یعنی یہود یا جو راہ بھٹک گئے، یعنی عیسائی۔
ہر رکعت میں تمہیں اِسی بنیادی سبق کا اعادہ کرنا ہوتا ہے؛ اور یہ سبق دہرائے بغیر تمہاری نماز نہیں۔ (کتاب کا صفحہ ۶۳۔۶۴)
مقصد یہ کہ واضح ہو جائے:
۱۔ صراط مستقیم کے لیے بندے کی ضرورت اور فاقہ مندی کس قدر شدید ہے،
۲۔ اور اس سے انحراف کے راستوں سے واقف اور خبردار ہونا کس قدر ضروری۔
(ص ۸۰)
"تمیز" ظاہر میں بھی مطلوب ہے۔
یہ بھی جان لو کہ صراطِ مستقیم ایک وسیع حقیقت ہے:
۱۔ صراطِ مستقیم میں باطن سے متعلقہ امور بھی آتے ہیں، یعنی وہ حقائق جو دل میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں اعتقادات بھی آتے ہیں اور اِرادات (عزائم اور ارادے) وغیرہ بھی۔
۲۔ صراطِ مستقیم میں امورِ ظاہرہ بھی آتے ہیں مثل: اقوال اور افعال۔ یہ اقوال اور افعال ’’عبادات‘‘ بھی ہو سکتے ہیں جیسے نماز و روزہ وغیرہ، اور ’’عادات‘‘ بھی ہو سکتے ہیں جیسے طعام، لباس، نکاح، رہن سہن، اجتماع، افتراق، سفر، اقامت اور نقل وحرکت وغیرہ۔
اِن امورِ باطنہ وظاہرہ کے مابین ایک خاص برجستگی اور مناسبت ہے۔ دل میں جو شعور اور احوال گزرتے ہیں وہ امورِ ظاہرہ کا موجب بنتے ہیں اور ظاہر میں جو اقوال اور اعمال چلتے ہیں وہ دل کے شعور اور احوال کو جنم دیتے ہیں۔
اب وہ جو حکم تھا کہ مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ سے ہٹ کر چلنا ہے، وہ حکم امورِ باطن کی بابت بھی ہے اور امورِ ظاہر کی بابت بھی۔
ظاہری طریقہ و سیرت تک میں مغضوب اور ضالین کی مخالفت کا حکم کیوں؟
یہ کئی وجہ سے ہے، جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے:
۱۔ ظاہری وصف میں مشترک ہونا دو متشابہ چیزوں کے مابین ایک نسبت کراتا ہے؛ جو بالآخر اخلاق اور اعمال میں موافقت لے آنے پر منتج ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ نے محمد ﷺ کو اِس تاریک جہان میں جس حکمت اور دانائی کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور جوکہ آپﷺ کی سنت ہے اور آپ ﷺ کی شریعت اور آپ ﷺ کا منہاج جس کو اللہ رب العزت نے اپنی جناب سے باقاعدہ سند دی ہے.. آپ ﷺ کی لائی ہوئی اس حکمت اور دانائی کا ایک امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے ظاہری اقوال اور افعال بھی اپنے پیروکاروں کو مغضوب علیہم اور ضالین سے چھانٹ کر رکھ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے احوال اور اعتقادات ہی میں نہیں ظاہری امور میں بھی اُن کی مخالفت کا حکم فرمایا چاہے اکثریت کو یہ امور بے ضرر ہی کیوں نہ نظر آئیں۔
۲۔ ظاہری وصف میں مختلف ہونا ہردو کے مابین ایک مغایرت کراتا ہے؛ جوکہ تمہیں غضب اور ضلال کے اسباب اور موجبات سے ہی دور کر دیتی ہے اور ھدیٰ وانعام کے اسباب و موجبات سے ہی قریب کر دیتی ہے۔ نیز یہ حزب اللہ (جوکہ فلاح پانے والا ہے) اور حزب الشیطان (جوکہ گھاٹا کھانے والا ہے) کے مابین موالات کے رشتے کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے ختم کرنے پر منتج ہوتی ہے۔
اور یہ ایک نہایت عظیم حقیقت ہے: دل جتنا زندگی سے پُراور اسلام سے آشنا ہو گا __ اور اسلام بھی وہ نہیں جو چند ظاہری اعمال اور باطنی اعتقادات کا مجموعہ ہو __ میرا مقصد ہے دل جتنا اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوگا اُس میں یہود اور نصاریٰ سے مفارقت کا جذبہ اُتنا ہی توانا ہوگا اور مسلمانوں میں عام ہو جانے والے یہود و نصاریٰ کے اخلاق اور اعمال سے اُس کا گھن کھانا اُتنا ہی شدید ہوگا۔
۳۔ ظاہری وصف میں مشترک ہونا ہردو کے مابین خلط کا موجب بنتا ہے۔ یہاں تک کہ آنکھ یہ تمیز کرنے سے عاری ہو جاتی ہے کہ ایک جانب وہ ہیں جن کو ہدایت بخشی گئی اور انعام کیا گیا اور خوشنودی کے وعدے فرمائے گئے اور دوسری جانب وہ جن پر غضب کیا گیا اور جو راہ بھٹک چکے۔
یہ ساری بحث ابھی وہاں ہے جہاں ظاہری اشتراک میں سوائے مشابہت کے کوئی اور خرابی نہ ہو۔ رہ گیا اشتراک اُن اشیاء میں جو اُن اقوام کے موجباتِ کفر میں آتی ہیں تو یہ کفر کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہوگا۔ یہاں؛ جس درجہ کی معصیت اُن کا فعل ہوگا اُسی درجہ کی معصیت اُن کی موافقت کرنے میں ہوگی۔
دین کا یہ ایک نہایت اہم اصل ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
(ص ۸۰ ۔ ۸۳)
ایک خاص مسئلہ پر گفتگو سے پہلے آپ کو کچھ عمومی قواعد سے گزرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ مسئلہ اُن قواعد کی ذیل میں لا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم نے ابتداء میں کتاب، سنت اور اجماع سے اِس اصول کے دلائل ذکر کر دیے کہ ہمارے دین میں کفار کی مخالفت کا حکم ہے اور اُن سے مشابہت کی ممانعت۔ یہ ایک اجمالی حکم ہے؛ آگے اِس مخالفت و عدم مشابہت کی بعض صورتیں عام ہوں گی تو بعض صورتیں خاص۔ بعض چیزیں واجب ہوں گی تو بعض چیزیں مستحب۔
اِس عمومی قاعدہ کو بیان کر دینے کے بعد ہم اس ذیلی مسئلہ پر آئیں گے، یعنی کفار کے تہواروں میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ممانعت۔
اب یہاں ایک نکتہ ہے جس کی میں نے اس کتاب میں خصوصی نشاندہی کی ہے۔ اس کو خوب ذہن نشین کرلیجئے:
شریعت کا کسی قوم کی موافقت یا کسی قوم کی مخالفت کا حکم دینا کسی وقت محض اس لیے ہوگا کہ ایک قوم کی موافقت بجائے خود مصلحت تھی اور ایک قوم کی مخالفت بجائے خود مصلحت۔ یعنی ایک فعل جس میں (اچھے لوگوں کی) موافقت یا (برے لوگوں کی) مخالفت ہوئی اُس سے اگر یہ موافقت یا مخالفت والا عنصر نکال دیا جائے تو خود اس فعل میں مصلحت یا مفسدت والی کوئی بھی بات نہ رہ جائے۔ لہٰذا ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مصلحت ہوگا اور ایک قوم کی موافقت کرنا آپ اپنی ذات میں مفسدت۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا، نبی ﷺ اور سابقین کی، اُن اعمال میں متابعت کرنا بجائے خود فائدہ مند ہے جن کو اگر ان برگزیدہ نفوس نے نہ کیا ہوتا تو اِن اعمال کی اپنی کوئی خوبی نہ ہوتی۔ اِس لیے کہ ان اعمال میں نبی ا اور سابقین کی متابعت بجائے خود وہ چیز ہے جو ہم میں اُن پاک روحوں کے ساتھ ایک لگاؤ اور وابستگی پیدا کراتی ہے، نیز دل کو دل سے راہ ہونے کا ایک معنیٰ دیتی ہے، نیز ہمارا یہی رویہ کچھ دیگر امور میں ان نیک ہستیوں سے موافقت اختیار کروانے کا محرک بنتا ہے۔ غرض اسی طرح کے کچھ دیگر فوائد۔
عین اسی طرح.. کافروں کی، اُن اعمال میں ہمارا متابعت کر لینا، بجائے خود نقصان دہ ہے جن کو اگر یہ کافر نہ کر رہے ہوتے تو ان اعمال کے اپنے اندر کوئی برائی نہ تھی۔
پس موافقت اور مخالفت کا ایک باب تو یہ ہے جو اوپر بیان ہوا۔
پھر کسی وقت مخالفت اور موافقت کا حکم اُن افعال میں ہوگا جن کے اپنے ہی اندر مصلحت یا مفسدت کا کوئی پہلو ہے۔ یعنی ایک فعل آپ اپنی ذات میں ہی برا یا اچھا ہے چاہے ایک قوم نے اس کو نہ بھی کیا ہو۔ یہ وہ باب ہے جہاں موافقت یا مخالفت کا ذکر ازراہِ دلالت و نشان دہی آتا ہے۔ یہاں شریعت کا موافقت سے منع کرنا مفسدت کی جانب محض ایک اشارہ اور دلیل کی حیثیت رکھے گا اور مخالفت کا حکم دینا مصلحت کی جانب اشارہ و دلیل ۔ چنانچہ اس باب میں موافقت اور مخالفت کا اعتبار ’’قیاسِ دلالت‘‘ میں آئے گا جبکہ اوپر والے باب میں اس کو ’’قیاسِ علت‘‘ کہیں گے۔ یہ دونوں مجتمع بھی ہوسکتے ہیں؛ یعنی اُس فعل کی جس میں موافقت یا مخالفت ہورہی ہے اپنی ایک حکمت ہو اور وہ قوم جس کی موافقت یا مخالفت ہورہی ہے اُس کا اپنا ایک شرعی اعتبار ہو۔ اور یہی بات اُن امور پر غالب ہے جو شریعت میں موافقت یا مخالفت کے ابواب سے وارد ہوئے ہیں۔
اِس نکتے کو پا لینا نہایت اہم ہے۔ اِس کے بغیر ہمارے پرودگار کا ہمیں کفار کی اتباع اور موافقت سے منع فرمانا اپنے مطلق اور مقید ہردو معنیٰ میں سمجھ نہیں آسکتا۔
(ص ۸۲ ۔ ۸۴)
کتاب اللہ کی دلالت: عموم اور اجمال،
جبکہ سنت: اس کا بیان اور تفسیر
خوب سمجھ لو:
اعمال پر کتاب کی خصوصی دلالت جو ان کی جزئیات تک کو واضح کرے، قرآن کے اندر صرف اجمال اور عموم کے اسلوب میں آئے گی، یا استلزام کے اسلوب میں (یعنی ایک بات بیان ہوئی تو اس سے بہت سی چیزیں خودبخود لازم آگئیں)۔ البتہ سنت آئے گی تو وہ کتاب (کے اُس اجمال یا عموم)کی تفسیر و بیان ہوگی۔ یعنی سنت، کتاب کے اجمال کو کھولتی چلی جائے گی اور اپنی تفصیلات کی صورت میں کتاب میں مذکور قواعد اور جواہر پر دلالت کرتی جائے گی۔ اِس طرح سنت کتاب کی عملی تعبیر بنتی چلی جائے گی۔
بنابریں، ہم کتاب اللہ سے وہ آیات ذکر کریں گے جو اِس قاعدے کی اساس پر دلالت کر دے، اپنے ایک مجمل انداز میں۔ اِس کے بعد ہم اُن احادیث کی طرف جائیں گے جو اِن آیات میں مذکور حقائق کی عملی تفسیر بنتی ہیں۔
اہل کتاب کی متابعت سے انتباہ پر: کتاب اللہ کی دلالت
۱۔ سورۃ جاثیہ کی آیات:
وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ وَآتَیْْنَاہُم بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوا فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّہُمْ لَن یُغْنُوا عَنکَ مِنَ اللَّہِ شَیْئاً وإِنَّ الظَّالِمِیْنَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَاللَّہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ (الجاثیۃ ۱۶۔۱۹)
اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی اُن کو ہم نے عمدہ سامانِ زیست سے نوازا اور، دنیا بھر کے لوگوں پر اُنہیں فضیلت عطا کی اور دین کے معاملہ میں اُنہیں واضح ہدایات دے دیں پھر جو اختلاف اُن کے مابین رونما ہوا وہ (ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، اللہ قیامت کے روز اُن معاملات کا فیصلہ فرمادے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد اب اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہِ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے‘‘۔ (مودودی)
یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دی جانے والی دین و دنیا کی نعمتوں کا ذکر فرمادینے کے بعد اُن کے انحراف کا حال بتایا؛ یعنی علم آجانے کے بعد دین میں اختلاف کرنا اور اس کا سبب اُن کی آپس کی دھینگا مشتی۔
پھر فرمایا کہ اب اُس نے محمد ﷺ کو شاہراہِ شریعت پر قائم کیا ہے۔ اِس راستہ میں آپ ا کو ایک حکم دیا کہ: آخر تک اسی کی پیروی کرتے چلے جانا ہے۔ اور ایک خبردار رہنے کی بات بتا دی: نادانوں کی اھواء و خواہشات کی پیروی سے بچنا ہے۔ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون ’’نادانوں‘‘ میں وہ سب لوگ آتے ہیں جو شرعِ محمد ﷺ کی مخالفت کریں۔ اور اُن کی اھواء: ان کے نفوس کی خواہشات اور فرمائشیں، اور وہ شکل و ہیئت جس پر مشرکین ہیں، اور جوکہ اُن کے دینِ باطل کے موجبات ہیں یا اس سے برآمد ہونے والی اشیاء۔ اور اس میں اُن سے موافقت اختیار کر لینے سے مراد ہے: اُن کے نفوس کی اُن خواہشات اور فرمائشوں کو پورا کر بیٹھنا۔ چنانچہ تم ہمیشہ دیکھو گے کہ جب بھی مسلمان کسی چیز میں کافروں کی موافقت یا مشابہت کریں وہ خوشی سے بے حال ہونے لگتے ہیں۔ مسلمان اُن کے پیچھے لگے نظر آئیں، اس کے لیے وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں تو گویا کم ہے! یہی وجہ ہے کہ تم شریعت کا عمومی رجحان یہ پاؤ گے کہ اہل کتاب کی موافقت کی اجازت دینا تو درکنار، اُن کی مخالفت کروانا ہی کسی ایک لمحہ کے لیے شارع کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کی مخالفت کروا دینے سے اُن کی امیدوں پر جو پانی پڑتا ہے اُس سے شرعِ محمدﷺ کی ایک نہا یت عظیم غایت پوری ہوتی ہے ؛ یعنی اہلِ صراطِ مستقیم کو منسوخ شدہ شرائع کے پیروکاروں سے ہر لحظہ ممیز رکھنا؛ یوں کہ وہ اِس شاہراہ کے آس پاس نظر تک نہ آئیں (اور آئیں تو اپنا وہ راستہ چھوڑ کر آئیں)۔ چنانچہ اُن کی مخالفت کروا دینے کی صورت میں اُن کی موافقت کا مادہ ہی ختم کر کے رکھ دینا شارع کا باقاعدہ مقصود نظر آتا ہے، کہ یہی طریقہ اِن دو راستوں کو خلط سے بچانے کے لیے کارگرترین ہے؛ وگرنہ آدمی ایک خطرناک لکیر کے آس پاس رہے تو پیر کسی وقت اندر جا سکتا ہے۔
۲۔ آیات سورۃ الرعد:
وَالَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ بَعْضَہُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّہَ وَلا أُشْرِکَ بِہِ إِلَیْہِ أَدْعُو وَإِلَیْہِ مَآبِ وَکَذَلِکَ أَنزَلْنَاہُ حُکْماً عَرَبِیّاً وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ وَاقٍ (الرعد: ۳۶ ۔ ۳۷)
جنہیں ہم نے کتاب دی تھی، وہ تو اُس چیز سے جو تم پر اتاری جاتی ہے، بڑے خوش ہیں۔ اور گروہوں میں ایسے بھی ہیں جو اِس کے ایک حصے پر معترض ہیں۔ تم صاف کہہ دو: مجھے تو حکم ہے کہ عبادت کروں اللہ کی بغیر اس کا کوئی شریک کیے۔ پس میں تو اُسی کی طرف دعوت دوں گا اور اُسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔ اِسی شان کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل فرمایا ہے، اب اگر اِس علم کے آجانے کے بعد بھی تم اُن لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتے ہو تو اللہ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ بچانے والا۔
یہاں أَہْوَاء ہُم میں ضمیر __ اللہ اعلم __ اس سے پہلے گزرنے والے لفظ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن یُنکِرُ بَعْضَہ کی طرف جاتی ہے۔ یعنی گروہوں میں سے ایسے جو شرعِ محمد ﷺ کے ایک حصے پر معترض ہیں۔ چنانچہ اِس میں یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کی وہ تمام اصناف آ جاتی ہیں جو قرآن کے کسی ایک حصے پر معترض ہوں۔ یہاں؛ نہیں فرمایا کہ تم نے اُن کے دین کے پیچھے نہیں چلنا؛ بلکہ کہا کہ تم نے ان کی خواہشوں اور فرمائشوں کی ہی پیروی نہیں کرنی۔
۳۔ آیات سورۃ البقرۃ:
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْرٍ (البقرۃ: ۱۲۰)
اورہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہ یہود اور نہ یہ عیسائی یہاں تک کہ تو ان کی ملت ہی کی پیروی نہ کر لے۔ صاف کہہ دو: اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اگر تو نے ان کی اھواء کی پیروی کر لی بعد اس کے علم تیرے پاس آچکا ہے تو اللہ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی اور نہ مددگار۔
یہاں دو چیزوں پر ذرا غور کرو: خبر دی تو بولا: مِلَّتَہُمْ ’’اُن کی ملت‘‘۔ ممانعت فرمائی تو بولا: أَہْوَاء ہُم ’’اُن کی اھواء‘‘۔ یعنی اُدھر وہ قوم راضی تب تک نہ ہوگی جب تک تم اُن ملت کے مطلق پیروکار نہ ہو جاؤ۔ جبکہ اِدھر ممانعت کہ اُن کی اھواء کو ہی سرے سے گھاس نہیں ڈالنی۔ تھوڑا نہ زیادہ، اُن کی فرمائشوں پر چلنا ہی نہیں۔ اور یہ تو واضح ہے کہ اُن کے دین کا کوئی جزء جس کے وہ پیروکار ہیں اُس میں ان کی متابعت کرنا اُن کی اھواء کے ایک حصے میں ان کی متابعت کرنے میں آتا ہے، یا اُن کی اھواء کی اتباع کے قائم مقام ہے۔
وَلَءِنْ أَتَیْتَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ بِکُلِّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَکَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم مِّن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ أَیْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ
(البقرۃ: ۱۴۵ ۔ ۱۵۰)
اور اگر تم اِن کتابیوں کے پاس ہر نشانی لے آؤ تو بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے۔ اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہو، اور نہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اب اگر تم ان کی خواہشات کے پیچھے چلے بعد اس کے کہ تمہیں علم مل چکا، تو تم ضرور ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اِس (نبی) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور بے شک اُن میں ایک فریق جان بوجھ کر حق چھپاتا ہے۔ اور ہر ملت کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر اُسے (عبادت کے لیے) رخ کرنا ہوتا ہے۔ پس تم نیکیوں میں اوروں سے آگے نکل جاؤ۔ جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کر لے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کر؛ بے شک وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔ اور تو جہاں سے نکلے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کر۔ اور تم جہاں ہوا کرو اپنا منہ اسی کی طرف پھیر لیا کرو۔ تاکہ لوگ تم پر کوئی حجت نہ رکھیں، سوائے وہ جو ظالم ہیں
سلف کی ایک بڑی تعداد نے لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ ’’تاکہ لوگ تم پر کوئی حجت نہ رکھیں‘‘ کی تفسیر میں کہا ہے: تاکہ یہود تمہارے اوپر یہ حجت نہ رکھیں کہ دیکھا انہوں نے ہمارے ہی قبلے کی موافقت کی، اور پھر کہیں کہ قبلے میں یہ ہماری موافقت کی راہ پر ہیں تو ہمارے دین کے بھی موافق ہو ہی جائیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے قبلے میں اُن کی مخالفت کروا کر اُن کی اس حجت کو کاٹ کر پھینک دیا۔ کیونکہ ’’حجت‘‘ ہر اُس چیز کو کہیں گے جس سے ایک آدمی کی جیت ہو، خواہ یہ جیت حق میں ہو یا باطل میں۔ جبکہ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ ’’سوائے وہ جو ظالم ہیں‘‘ کی تفسیر ’’قریش‘‘ سے کی۔ یعنی ہاں اب یہ ہیں جو کہیں گے کہ: ہمارے قبلے کی طرف تو لوٹ آئے، ہوتے ہوتے ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ ہی آئیں گے۔
چنانچہ اللہ رب ا لعزت نے ایک قبلہ کو منسوخ فرما کر مسلمانوں کو دوسری جانب قبلہ رخ کیا تو وہاں صرف حکم نہیں دیا، باقاعدہ حکمت بھی بیان فرمائی۔ کافروں کی مخالفت ہی نہیں کروائی بلکہ مقاصدِ شریعت کا ایک طویل بیان بھی عین وہیں پر عنایت فرمایا۔ جس کا لب لباب یہ کہ اہل باطل کی فرمائشیں جو وہ ملتِ اسلام سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنے پندار کی تسکین پاتے ہیں، اس کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی جائے اور اِس امت کا مستقل بالذات ہونا اور اِس کی ملت کا ممیز، بے مثال اور ناقابل قیاس ہونا اظہر من الشمس بنادیا جائے۔ تحویل قبلہ کے اِس موقع پر یہ جو ایک اصولی بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی۔۔۔ ظاہر ہے یہ بات ہر موافقت اور ہر مخالفت کے معاملہ میں ہی پائی جائے گی۔ کیونکہ کسی بھی مسئلہ میں آپ کی جانب سے جب کافر کی موافقت اور پیروی ظاہر ہوگی تو صورتحال وہی یا اُس سے قریب ہوگی جو قبلہ کے معاملہ میں یہود کو اسلام پر ایک قسم کی حجت فراہم کر رہی تھی۔
۴۔ آیت سورۃ آل عمران:
وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (آل عمران: ۱۰۵)
اور نہ ہونا اُن لوگوں کی طرح کا جنہوں نے تفرقہ کیا اور اختلاف میں پڑے، بعد اس کے کہ اُن کے پاس بینات آچکی تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو بڑا عظیم عذاب ہونے والا ہے۔
یہ لوگ کون ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اُن کی طرح کا نہ ہونا؟ ظاہر ہے یہود اور نصاریٰ؛ جو ستر ستر فرقے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے خاص تفرقہ اور اختلاف کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کی متابعت سے منع فرمایا، باوجود اس کے کہ آپﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرما دی تھی کہ خود آپ ﷺ کی امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔ لغت میں جب آپ کسی کو کہتے ہیں ’فلاں کی طرح کا مت ہو جانا‘ تو اس سے جو لفظی یامعنوی مفہوم نکلتا ہے اس سے اُس شخص کی مماثلت سے ایک عمومی نفی ثابت ہوتی ہے۔ آیت سے اگر یہ مفہوم نہ بھی لیا جائے تو یہ مفہوم تو بہرحال نکلتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بطورِ جنس اور ان کی مشابہت کو ترک کرنا بطورِ جنس ایک مشروع امر ہے۔ اور یہ اس چیز پر دلالت ہے کہ وہ چیزیں جو ہمیں بیان نہیں کر کے دی گئیں ان میں بھی آدمی جتنا اُن کی مشابہت سے دور رہے اتنا ہی اُس کا ممنوعہ مشابہت سے دور ہونا قوی تر ہوگا۔ اور یہ دین کی ایک جلیل القدر مصلحت ہے۔ اِسی اسلوب کی یہ آیات ہیں: موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو دی جانے والی ہدایات: فَاسْتَقِیْمَا وَلاَ تَتَّبِعَآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُون (یونس: ۸۹) ’’پس حق پر قائم رہو اور ہرگز اُن لوگوں کی راہ نہ چلنا جو نادان ہیں‘‘ وَقَالَ مُوسَی لأَخِیْہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(الأعراف: ۱۴۲) ’’موسیٰ نے ابنے بھائی ہارون سے کہا: قوم میں میرے جانشین ہو، اور اصلاح کرتے رہنا اور شریروں کا راستہ نہ چلنا‘‘ وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ (النساء: ۱۱۵) ’’جو شخص راہِ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی پیغمبر کا خلاف کرے اور مومنوں کی راہ کے ماسوا کے پیچھے چلے، تو ہم اُسے اُسی رخ پر چلا دیں گے جس رخ پر وہ چل گیا ہے اور اُس کو جہنم میں داخل کریں گے‘‘
عین یہی معنیٰ دینے والی نصوص قرآن کے اندر بے شمار ہیں، خصوصاً سورۃ مائدۃ اور سورۃ توبہ کے اندر، (اصل کتاب میں سورۃ توبہ کی آیات پر نہایت طویل اور فائدہ مند کلام کیا گیا ہے) مگر ہم فی الحال اِنہی قرآنی نصوص پر اکتفا کریں گے۔
خلاصہ یہ کہ:
شریعت کا یہ مقصود کہ اہل کفر خصوصاً اہل کتاب کی عمومی امور میں مخالفت ہمارے حق میں باعثِ صلاح ہے، تو یہ سبھی آیات یہ دلالت دینے میں نہایت واضح اور صریح ہیں۔ رہ گیا اُن کی مخالفت کرنے کا وجوب، تو اِس پر کچھ آیات کی دلالت ہوگی تو کچھ کی نہیں ہوگی۔ ہم نے اِن آیات سے جو بات ثابت کی ہے وہ یہ کہ اہل کتاب کی مخالفت بالجملہ مشروع ہے، اور یہی بات واضح کرنا یہاں پر مقصد ہے۔ ہاں یہ بات کہ کہاں دلالت وجوب کا فائدہ دیتی ہے اور کہاں غیر وجوب (صرف مستحب یا مستحسن ہونے) کا فائدہ دیتی ہے، تو وہ یہاں ہمارا موضوع نہیں۔ ہمیں اِس باب میں دین کا ایک عمومی مقصود واضح کرنا تھا، اور وہ ہم نے کر دیا۔ یہاں ہمارے پیش نظر اِس باب میں آنے والے تمام مسائل کا احاطہ کرنا نہیں، ہاں ہم یہ مسئلہ بیان کریں گے کہ اُن کی عیدوں اور تہواروں میں اُن کی مشابہت اختیار کرنا حرام امور میں آتا ہے۔ اور اس ایک مسئلہ کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری سمجھا گیا کہ وہ قاعدہ کلیہ بھی بیان کر دیں، اور جوکہ نہایت عظیم فائدہ کا حامل ہے۔
(ص ۸۴ ۔ ۹۱ )
دین کا ظہور اور غلبہ۔۔۔ ایک خوبصورت استشہاد
یہ وجہ ہے کہ ہردو عبادت (قبول ہونے والی عبادت مسلمانوں کی، اور ردّ ہونے والی عبادت یہود ونصاریٰ کی) کے مابین فرق کروادینا شارع کا ایک بڑا مقصد ہے۔ (یہاں امام صاحبؒ احادیث سے اس کے بے شمار شواہد ذکر کرتے ہوئے، ایک جگہ لکھتے ہیں:) اب ذرا سنن ابو داود کی ایک حدیث ہی دیکھ لو:
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، عن النبی ﷺ، قال:
( لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِراً مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لأنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ یُؤَخِّرُوْنَ )
’’دین اسلام چھایا رہے گا جب تک لوگ اِفطار میں جلدی کریں گے؛ کیونکہ یہود اور نصاریٰ اِفطار کو مؤخر کرتے ہیں‘‘
یہاں نبی ا کے الفاظ پر غور فرماؤ: لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِراً مراد یہ کہ دین کا غلبہ اور ظہور کافر ملتوں کی مخالفت میں مضمر ہے۔ اور جبکہ ہم جانتے ہیں دین خداوندی کو جملہ ادیان پر ظہور و غلبہ دلوانا ( لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ )رسولوں کی بعثت کی ایک باقاعدہ غایت ہے۔ لہٰذا کفار کے شعائر کے خلاف چلنا آپ اپنی ذات میں دین کو ظاہر و غالب کرنے کا معنیٰ رکھے گا اور بعثتِ نبوی کے اہم ترین مقاصد میں شمار ہوگا۔
(ص ۱۸۶ ۔ ۱۸۷)
سنتِ جاہلیت کیا ہے؟
سنتِ جاہلیت(۲) کیا ہے؟ وہ سب روایات جو اہل جاہلیت کے یہاں چلتی آئی ہیں۔ سنت ایک ایسے معمول کو کہیں گے جو کسی قوم کے ہاں باربار دہرانے میں آتا ہو، یا وہ راستہ جو ان کے ہاں تسلسل کے ساتھ چلا جاتا ہو؛ خواہ وہ اس کو عبادت گنتے ہوں یا غیرعبادت۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ (آل عمران: ۱۳۷) ’’تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ میں آچکے ہیں‘‘ اور نبیﷺ نے فرمایا: لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ ’’تم اپنوں سے پہلوں کے طور طریقے اپناکر رہوگے ‘‘ اِس حدیث میں لفظ آئے ہیں لَتَتْبَعُنَّ ’’اتباع‘‘ دو معنوں کے اجتماع سے بنتا ہے: ایک اقْتِفَاء یعنی ’’کسی کے پیچھے آنا‘‘ اور دوسرا اسْتِنَان یعنی ’’اس کو طریقے اور دستور کے طور پر لینا‘‘۔ بنابریں جو شخص کفار کے معروف طریقوں میں سے کسی طریقے پر عمل پیرا ہوگا وہ ایک جاہلی سنت کی اتباع کرے گا۔ اب نبی ﷺ کا برسبیلِ مذمت یہ فرمانا کہ : لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ ایک جامع نص ہے جوکہ جاہلیت کی سنتوں میں آنے والی جملہ اشیاء کی اتباع کو مذموم اور ممنوع ٹھہرانے کا فائدہ دیتی ہے۔ خواہ یہ اُن کے تہوار ہوں یا کچھ اور۔ (ص ۲۶۶ ۔ ۲۲۷)
نبی ﷺ کا فرمان: ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ أمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ ’’خبردار رہو، جاہلیت کے دستور کی ہر شےْ منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے‘‘ اس میں وہ سب کچھ آتا ہے جس پر اہل جاہلیت چلتے آئے تھے، خواہ وہ رواج ہوں یا عبادات۔ مثلاً اُن کے نعرے کہ فلاں کی جے اور فلاں کی جے۔ نیز اُن کے تہوار۔ اور اسی طرح کے دیگر امور جو ان کی پہچان ہوں۔
اِس میں وہ اشیاء نہیں آئیں گی جن پر اہل جاہلیت رہے تو ہیں البتہ اسلام نے ان کو برقرار رکھا۔ مثل: حج کے بہت سے مناسک، مقتول کی دیت سو اونٹ، قسم ڈالنا، وغیرہ۔ کیونکہ لفظ جاہلیت کا جو مفہومِ عام استعمال ہے وہ اُن اشیاء کے لیے ہے جن پر اہل جاہلیت تھے اور اسلام نے ان کو برقرار نہیں رکھا۔ہاں اگر کوئی چیز جاہلیت میں تھی تو وہ اسی ممنوعہ زمرے میں ہی رہے گی اگرچہ اسلام نے خاص معین کر کے اس چیز کو نہ بھی روکا ہو۔
(ص ۳۰۵ ۔ ۳۰۶)
دار الاسلام میں شعائرِ کفر کا کھلے عام ہونا
چنانچہ عمرؓ نے اتفاق فرمایا تھا، جس میں عمرؓ اکیلے نہ تھے بلکہ سب مسلمان اُن کے ساتھ تھے، پھر اسی پر بعد کے جملہ مسلمان علماء کا اتفاق رہا، نیز جن جن والیوں اور حکمرانوں کو خدا نے توفیق بخشی اُن کاعمل بھی اِسی پر رہا کہ: کہ ذمیوں کو اس بات سے روکا جائے گا کہ دار الاسلام کے اندر وہ کسی ایسی شےء کو کھلے عام کریں جو اُن کے امتیازی امور میں آتی ہو۔ جس سے اس بات کو آخری حد تک یقینی بنانا مقصود تھا کہ دارالاسلام میں مشرکین کے امتیازات ظاہر وباہر نہ ہوں۔ تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ مسلمان ہی ان اشیاء کا ارتکاب بھی کریں اور ان کو ظاہر وباہر بھی کریں! (ص ۳۳۰)
جبکہ اہل کوفہ تو اِس معاملہ میں بہت آگے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب نے ایسے شخص کے کافر ہوجانے کی بابت گفتگو کی ہے جو کفار کے ساتھ اُن کے پہناوے یا اُن کے تہواروں کے معاملہ میں مشابہت کا ارتکاب کرتا ہے۔
اور جبکہ امام مالکؒ کے بعض اصحاب اِس قول تک چلے گئے ہیں کہ: جو شخص کفار کے تہواروں پر کوئی ایک تربوز (۳)کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کردیا ہے۔
جبکہ شافعیؒ کے اصحاب نے بھی اِسی اصل کا اپنے بے شمار مسائل کے اندر ذکر کیا ہے، اور جوکہ آثار و مرویات میں وارد ہوئے ہیں۔ ایسی ہی بات دیگر علماء نے بھی بیان کی ہے۔ جیساکہ یہ علماء نبیﷺ کی یہ حدیث ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ ﷺ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت نماز سے ممانعت فرماتے ہیں، یہ توجیہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جب مشرکین سورج کو سجدہ کرتے ہیں، جیساکہ حدیث ہی میں ایک جگہ یہ صراحت ہوئی ہے۔ مراد یہ کہ کفار کی مشابہت ایسی مکروہ چیز ہے کہ نماز تک کی بابت کہا گیا کہ اس گھڑی ٹھہر جاؤ۔
امام احمدؒ نے بھی کفار سے موافقت اور مشابہت کو حرام ٹھہرانے کے معاملہ میں نہایت شدید کلام کیا ہے۔
(ص ۳۵۴ ۔ ۳۵۶)
کفار کے اعمال کی بابت ایک جامع بیان
جان لو کہ کفار کے اعمال تین اقسام بنتے ہیں:
۱۔ وہ اعمال جو ہمارے دین میں مشروع ہیں، جبکہ وہ ان کی شریعت میں بھی مشروع تھے، یا یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اعمال اُن کی شریعت میں تھے البتہ اِس وقت وہ کرتے ہیں۔
۲۔ وہ اعمال جو کبھی مشروع تھے مگر قرآن کی شریعت نے ان کو منسوخ کر دیا۔
۳۔ وہ اعمال جو کبھی مشروع نہ تھے، بلکہ انہوں نے گھڑ لیے ہیں۔
اعمال کی یہ تینوں اقسام یا تو عباداتِ محضہ میں آئیں گی۔ یا عاداتِ محضہ میں یعنی آداب وغیرہ۔ یا وہ ایسے اعمال ہوں گے جن میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ جمع ہوں گے۔ تین ضرب تین: یہ کل نو اقسام بنیں۔
اعمال کی پہلی قسم: وہ اعمال جو ہماری شریعت میں ہیں اور ان کی بھی شریعت میں ہیں یا وہ یہ اعمال کرتے ہیں۔
مثلاً صومِ عاشوراء، بلکہ جنسِ نماز و روزہ وغیرہ۔ یہاں اگر جنس میں اشتراک ہے تو صفت اور ہیئت میں مخالفت کروا دی گئی۔ مثلاً عاشوراء کے ساتھ تاسوعاء کا روزہ سنت ٹھہرا دیا گیا۔ افطار اور نمازِ مغرب میں عجلت کا حکم دے دیا گیا تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔ سحری تاخیر سے کرنے کی ہدایت فرما دی گئی تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو۔ جوتوں سمیت نماز پڑھ لینے کو مشروع ٹھہرایا تاکہ یہود کی مخالفت ہو۔ عبادات میں جابجا اس کے شواہد ملیں گے۔ عادات میں مثال کے طور پر: میت کو دفن کرنا شرائع کے مابین مشترک ہے مگر یہاں ہیئت میں فرق کروا دیا گیا۔ فرمایا: اللَّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا ’’لحد ہمارے لیے اور شق دوسروں کے لیے‘‘۔ اس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ ہے۔ جوتوں سمیت نماز عبادات میں آتی ہے تو لباس کے باب سے اس کا تعلق عادات سے بھی بنتا ہے جبکہ موسیٰ ؑ کی شریعت میں نماز کے وقت جوتا اتارنا ہوتا تھا۔ اسی طرح حالتِ حیض کے احکام میں ایک مشابہت ہے تو اس کی ہیئت میں کچھ فرق کروا دیا گیا جس پر یہود نے تعجب بھی کیا۔ غرض کسی چیز میں اگر اصل دو شریعتوں میں مشترک ہے بھی تو وصف کے اندر فرق کر دیا گیا۔
دوسری قسم: وہ اعمال جو اُن کی شریعت میں تھے مگر ہمارے ہاں منسوخ ہیں:
مثلاً سبت کی تعظیم۔ یا کسی نماز یا روزہ وغیرہ کو اپنے اوپر فرض ٹھہرا لینا۔ یہاں؛ ان کی موافقت سے کھلی ممانعت ہے۔ چاہے وہ چیز ان پر واجب تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عبادات میں آئے گی۔ اور چاہے وہ ان پر حرام تھی؛ اور اِس لحاظ سے وہ ان کی عادات میں آئے گی۔ اب مثلاً جہاں تک عادات کی بات ہے تو آج کسی مسلمان کے لیے یہ روا نہ ہوگا کہ وہ از راہِ نیکی و دینداری چربیوں یا ناخن والے جانور کے گوشت سے پرہیز کرے۔ یا پھر جس چیز میں عبادت اور عادت ہردو معنیٰ مجتمع ہو مثلاً اُن کی وہ عیدیں جو اُن کے لیے مشروع تھیں؛ کیونکہ عید جو مشروع ہوتی ہے اُس میں عبادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے یعنی نماز یا ذکر یا صدقہ یا قربانی وغیرہ جو اس موقع پر کی جائے گی، جبکہ اسی میں عادت کا بھی ایک معنیٰ آتا ہے اور وہ ہے اس دن اچھے اچھے کپڑے پہننا، اعلیٰ پکوان کھانا، جشن میلہ کرنا، روزمرہ کے بہت سے اعمال چھوڑ لینا، اور کچھ ایسے طبقوں کا جو اس میں دلچسپی رکھتے ہوں کھیل اور گانا وغیرہ کر لینا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ابوبکر ؓنے جب نبی ﷺ کے گھر میں ان دو لڑکیوں کو ڈانٹنا شروع کیا جو عید کے دن گارہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر اِن کو رہنے دو؛ کیونکہ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔ نیز حبش کے لوگوں نے عید کے روز نیزوں کا ایک کھیل پیش کیا تھا، جسے نبی ا بھی دیکھ رہے تھے۔ غرض عیدیں جو مشروع ہوں ان میں یا تو ازراہِ وجوب یا ازراہِ استحباب ایسی عبادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جو دیگر ایام میں نہیں ٹھہرائی جاتیں۔ اسی طرح عیدوں پر ازراہِ جواز یا ازراہِ استحباب یا ازراہِ وجوب ایسی عادات مشروع ٹھہرائی جاتی ہیں جن میں نفوس کو لطف اور مزہ آتا ہو، اور یہ عادات اِن عیدوں کے علاوہ ایام میں نہیں ٹھہرائی جاتیں۔ مثلاً عیدین میں افطار کو واجب رکھا۔ دونوں عیدوں پر نماز کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ ایک تہوار پر صدقہ (فطر) کو مشروع ٹھہرایا۔ نمازِ عید کے ساتھ دوسرے تہوار پر قربانی کو مشروع ٹھہرا دیا۔ اب فطرانے کا صدقہ بھی اور قربانی کا ذبیحہ بھی دونوں معاشرے کے اندر کھانے پینے کو وافر بناتے ہیں جس سے لوگ خوب مزہ کرتے ہیں۔
یہ جو قسم ہے، یعنی وہ اشیاء جو ان کی شریعت میں تھیں مگر ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئیں، یہاں ان کی موافقت کرنا خواہ وہ عبادات میں ہو یا عادات میں یا ان اشیاء میں جو عبادت و عادت ہردو معنیٰ رکھتی ہوں، یہ پہلی قسم والے اعمال میں اُن کی مشابہت سے کہیں قبیح تر ہے۔ کیونکہ وہاں؛ چیز کی اصل مشروع تھی صرف ہیئت تبدیل ہوئی تھی؛ مگر یہاں اصل ہی منسوخ ہے لہٰذا یہاں مشابہت حرام ہے۔ جبکہ اول الذکر میں ہو سکتا مشابہت صرف مکروہ ہو یا اس سے بھی کم۔
تیسری قسم: وہ اعمال جو ان کے من گھڑت ہیں اور کبھی بھی مشروع نہ تھے:
خواہ یہ عبادات ہوں، یا عادات، یا وہ چیز جو ہردو معنیٰ کو شامل ہے۔ یہ تو بدتر سے بدترین ہے۔ یعنی یہ وہ چیز ہے جو کافروں کی خالص اختراع ہے اور کسی نبی اور کسی شریعت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے (۴)۔
(ص ۴۲۲ ۔ ۴۲۴)
کفار کے تہواروں کا حکم:
اہل کفر سے مشابہت کی بابت جب یہ اصول طے ہوگئے، تو اب ہم کہیں گے کہ تہواروں کے معاملہ میں ان سے موافقت حرام ہے، اور یہ دو بنیادوں پر:
پہلی بنیاد:
جیساکہ پیچھے بیان ہوا، یہ چیز اہل کتاب کی موافقت بنتی ہے ایک ایسے عمل میں جو نہ ہمارے دین میں آیا اور نہ ہمارے پہلوں کا دستور رہا۔ کفار کے ساتھ ایسی موافقت دین کی مفسدت ہے اور اس میں اُن کی مخالفت دین کی مصلحت۔ یہ تہوار اگر ہمارے ہاں اتفاقیہ ہوتے (ہمارے ہی کچھ لوگوں نے گھڑ لیے ہوتے) اور ان کفار سے نہ لیے گئے ہوتے تو ہمارے دین کی ہدایت ہوتی کہ ہم اِن تہواروں کی مخالفت کریں، کیونکہ ایسی مخالفت ہمارے دین کا تقاضا ہے اور ایک باقاعدہ شرعی مصلحت، جیساکہ پیچھے ہم اِس جانب اشارہ کر آئے۔ اس میں جو ان کی موافقت کرتا ہے وہ اپنے حق میں یہ شرعی مصلحت فوت کرلیتا۔ تو پھر ایسے تہوار کی بابت کیا خیال ہے جو لیا ہی کفار سے گیا ہو؟
نیز نبی ﷺ کا فرمان ہے: خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ ’’مشرکوں کے خلاف کرو‘‘۔ علاوہ کتاب و سنت کے ان تمام دلائل کے جو ہم پر مغضوب علیہم اور ضالین کا راستہ چلنا حرام ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ ان کا تہوار اُن کے سبیل (راستے) کا حصہ ہیں۔
یہ کیونکہ عمومی اصول ہیں اس لیے ان کی عمومی دلالت ہی اس عمل کو ہمارے لیے حرام ٹھہرا دیتی ہے۔
دوسری بنیاد:
یہ کہ ہم خاص اِس عمل ہی کے حرام ہونے پر اپنے شرعی مصادر سے دلائل لے کر آئیں۔ اب یہاں قدرے وضاحت سے اِن خصوصی دلائل کا بیان کیا جاتا ہے:
الف۔ قرآن سے:
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (الفرقان: )
اور وہ لوگ جو ’’زُور‘‘ پر حاضر نہیں ہوتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو تو وقار اور متانت کے ساتھ گزرتے ہیں
آیت میں لفظ ’’زُور‘‘ پر سلف کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے:
ابو بکر خلالؒ نے اپنی جامع میں پورے اسناد کے ساتھ تابعی محمد بن سیرینؓ سے اس کی تفسیر نقل کی، کہا: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ میں (نصاریٰ کا تہوار ’’شعانین‘‘ آتا ہے۔
پھر مجاہدؒ سے نقل کیا، کہا: اس سے مراد ہے مشرکین کے تہوار۔ ربیع بن انسؒ سے نقل کیا، کہا: مشرکین کے تہوار۔
اسی معنیٰ میں عکرمہؓ سے روایت ہوئی، کہا: یہ ایک جشن تھا جو وہ زمانہ جاہلیت میں منایا کرتے تھے۔ قاضی ابو یعلی نے اس کو مسئلۃ فی النہی عن حضور أعیاد المشرکین کے تحت بیان کیا۔
ابو الشیخ اصفہانی ’’شروط أھل الذمۃ‘‘ میں اپنی باقاعدہ اِسناد کے ساتھ، ضحاکؒ سے روایت کرتے ہیں کہ وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ والی آیت کی تفسیر ہے: عید المشرکین۔ نیز اپنے اِسناد کے ساتھ عن ابی سنان عن الضحاک ، کہا: اس سے مراد ہے شرک کی بات۔ نیز اِسناد کے ساتھ عن جویبر عن الضحاک، کہا: مراد ہے اعیاد المشرکین۔ نیز اپنے اِسناد سے عن عمرو بن مرۃ، کہا: مراد ہے: نہیں شامل ہوتے مشرکین کے ساتھ اُن کے شرک میں اور نہ اُن کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں۔ نیز اپنے اِسناد سے عن عطاء بن یسار، کہا: فرمایا عمر ؓ نے: ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجوں سے بچو اور خبردار رہو مشرکین کے ہاں جانے سے اُن کے تہوار کے دن اُن کے گرجوں میں‘‘۔
اب یہاں ایک اصولی مسئلہ واضح کرتے چلیں: تابعین کا اِس آیت کی تفسیر کے تحت یہ کہنا کہ یہ ’’مشرکوں کے تہوار ہیں‘‘، تابعین ہی کی ایک دوسری تفسیر سے متعارض نہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے شرک یا جاہلیت کے بت، یا ان کی ایک دوسری تفسیر کہ یہ ناچ اور مجرے کی جگہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف کا یہ معمول ہے (کہ تفسیر میں ایک ہی حقیقت کے انطباق میں جو تنوع ہو، وہ مثالوں کی صورت بیان کردیں) ۔ سامع کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی وقت وہ پوری جنس کا ذکر کر دیں گے اور کسی وقت اس کی محض ایک نوع کا۔
ہاں ایک جماعت نے اس آیت میں ’’زُور‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد ہے جھوٹی شہادت(۵) ۔ اور یہ البتہ محل نظر ہے۔ کیونکہ قرآن نے لفظ بولے ہیں: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ۔ یہ نہیں بولے: لا یشہدون بالزور ۔ جبکہ ’’گواہی دینے‘‘ والا معنیٰ ’’ب‘‘ کے صلے کے بغیر بنتا۔ ’’ب‘‘ کے صلے کے بغیر عرب جب بھی بولیں گے مثلاً کہیں کہ شہدتُ کذا تو اس سے مراد وہاں حاضر ہونا اور موجود ہونا ہوگا نہ کہ گواہی دینا۔ گواہی دینے کے معنیٰ میں جب بھی بولیں گے تو کہیں گے: شہدتُ بکذا۔ اب مثلاً ابن عباسؓ کا قول: شہدتُ العید مع رسول اللہ ﷺ ’’میں رسول اللہ ا کے ساتھ عید میں حاضر ہوا‘‘۔ یا حضرت عمرؓ کا قول: الغنیمۃ لمن شہد الوقعۃ ’’غنیمت اس کے لیے جو معرکے میں حاضر ہوا‘‘۔
البتہ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ تابعین کی یہ تفسیر، لفظ ’’زُور‘‘ کے معنیٰ سے کیا مناسبت رکھتی ہے؟ دراصل ’’زُور‘‘ کا مطلب ہے کہ حقیقت کچھ ہو اور دکھایا کچھ جائے۔ ملمع اور جعلسازی۔ باطن میں غلاظت ہو اور ظاہر میں اس کو حسن کا لبادہ اوڑھایا جائے۔ اب ظاہر ہے یہ باطل کا خاص الخاص وصف ہے۔ باطل ہمیشہ اپنے آپ کو خوب سے خوب لبادے میں پیش کرتا ہے اور اِس ترکیب سے اپنی گندگی میں ایک کشش پیدا کر لیتا ہے ؛ کبھی ’’شبہات‘‘ سامنے لاکر تو کبھی ’’شہوات‘‘ کی چادر تان کر؛ جس سے ایک خلقت اُس کے پیچھے ہو لیتی ہے اور کوئی خاص صاحبِ نظر ہی اِس شبہات اور شہوات والے ’چہرہ روشن‘ سے گزر کر اُس کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا باطل اور باطل کے وہ جملہ مظاہر جو لوگوں کے لیے باعثِ کشش ہوں، اس پر ’’زُور‘‘ کا لفظ نہایت فٹ بیٹھتا ہے۔ تابعین کی تفسیر ان سب معانی کو خوب واضح کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کی تفسیر ’’شرک‘‘ سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ باطل کے اٹھائے ہوئے ’’شبہات‘‘ میں آتا ہے اور اگر اِس کی تفسیر باطل کے ’’ناچ مجروں ‘‘ سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ اس کو پرکشش بنانے والی ’’شہوات‘‘ ہیں۔ اور جہاں تک یہ تفسیر ہے کہ اس سے مراد ’’مشرکوں کی عیدیں اور تہوار‘‘ ہیں تو اس عیدِ مشرکین میں ’’شبہات اور شہوات‘‘ ہر دو آتے ہیں، اور اس کو باطل ٹھہراتے ہیں۔ رب العزت کے دین کے لیے اس میں کوئی منفعت نہیں۔ لذتِ عاجلہ ہے تو انجام، المِ دائمی۔ لہٰذا یہ اِس پہلو سے بھی ’’الزُّوْر‘‘ ہوئی۔اور اس میں شریک ہونا ’’لَا یَشْہَدُون‘‘۔ اب اگر اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں عباد الرحمن کا یہ وصف بیان فرمایا ہے اور اس کو باقاعدہ سراہا ہے کہ یہ وہاں پیر دھرنے کے روادار نہیں؛ یعنی نہ ان کی آنکھ اُس کو دیکھنے کی روادار اور نہ اِن کے کان اُس کو سننے کے.. تو پھر اس بابت کیا خیال ہے کہ آدمی وہاں حاضر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ شریک ہونے چل پڑے اور اس پر اپنی موافقت دکھائے؟
ب۔ حدیث سے:
۱۔ حدیثِ انسؓ:
عَنْ أنَسٍص قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَہُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْہِمَا فَقَالَ: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِنْہُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔
(رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث ۲۰۲۱)
روایت انس ؓ سے، کہا: نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر۔
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپ ا نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں‘‘۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے، جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے پچھلی چیز کا ترک کرانا خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انسؓ کی حدیث میں جن دو جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبی ﷺکے یہ فرمادینے کے بعد ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے رونما ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہوار یکسر نابود ہوجاتے ہیں! ان کا کوئی ادنیٰ ترین تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے چلی آتی ایک چیز معاشرے میں ختم ہوکر رہ جائے، یہ کوئی آسان بات نہیں۔ ’تہوار‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر خود سوچو، اہل مدینہ نے نبی ﷺکے الفاظ ’’إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا‘‘ سے اگر ’’ممانعت‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ ورنہ ایسا معجزہ ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ صرف شریعت سے ہی ناواقف نہیں سماجیات سے بھی نابلد ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک اور چیز سمجھ لو۔ مسلم معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بے شک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے لگیں۔
۲۔ حدیثِ ثابت بن ضحاکؓ:
عَنْ ثَابِتٍ بْنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ، فَأتیٰ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَ ﷺ: فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: أوْفِ بِنَذْرِکِ، فَإنَّہٗ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وِلا فِیْمَا لا یِمْلِکُ ابْنُ آدَمَ۔ (رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ)
ثابت بن ضحاکؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ا کے عہد میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر کچھ اونٹ ذبح کرے گا۔ تب وہ نبی ا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے نذر مان لی ہے کہ بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں اُن کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ انے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو؛ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا (اسلام میں) نہیں جو اللہ کی معصیت میں ہو، یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو
(البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)، خود امام ابن تیمیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: اِس حدیث کی اصل صحیحین میں ہے، اور یہ اسناد صحیحین کی شرط پر پوری اترتی ہے، اس کی اسناد میں سب راوی ثقہ اور مشہور ہیں، یہ متصل ہے اور اس کی سند میں کوئی عنعنۃ نہیں)
(اِس کے بعد امام ابن تیمیہ انہی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ پر مبنی کچھ دیگر روایاتِ حدیث بھی لے کر آتے ہیں، مگر ہم نے ایک ہی روایت کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے)
اِس حدیث میں وجہِ دلالت:
رسول اللہ ﷺ اس شخص کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جو دو سوال پوچھتے ہیں، وہ اِس موضوع پر فیصلہ کن ہیں۔ ایک یہ دریافت فرمایا کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ دوسرا یہ کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ جب دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا تو آپ ا نے اُس کو وہاں اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔ اور پھر جو الفاظ آپﷺ نے بولے وہ بھی قابل غور ہیں: فإنہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ یعنی ’’نذر میں خدا کی معصیت ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں‘‘۔ پس واضح ہوا جاہلیت کی عید اور تہوار خدا کی معصیت میں آتا ہے۔ حالانکہ نذر کو پورا کرنے کی بابت رسول اللہ ﷺکہاں تک گنجائش دیتے ہیں، اس کا اندازہ ایک دوسری حدیث سے کیجئے:
عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، أنَّ امْرأۃً أتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أضْرِبَ عَلیٰ رَأسِکَ بِالدُّفِّ۔ قَالَ: أوْفِیْ بِنَذْرِکِ۔ قَالَتْ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا کَذَا _ مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیْہِ أہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ _ قَالَ: لِصَنَمٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: لِوَثَنٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: أوْفِیْ نَذْرَکِ۔ (أبو داود، رقم الحدیث ۳۳۱۲، وأحمد۔صححہ الالبانی فی صحیح أبی داود ۲۸۳۳)
عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اور ان کے والد ان کے دادا (عبد اللہ بن عمروؓ) سے روایت کرتے ہیں: ایک عورت نبی ﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ میں نے نذر مان لی کہ (اللہ آپ کو بہ سلامت غزوہ سے واپس لے آئے تو) میں آپ کے سرہانے دف بجاؤں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ کہنے لگی: میں نے نذر مان لی ہے کہ میں فلاں مقام پر جانور ذبح کرو، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اہل جاہلیت اپنے جانور ذبح کر لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی صنم (بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی وثن (غیر مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ۔۔۔: ایک عورت رسول اللہ ﷺکے سرہانے کھڑی ہو کر دف (ہلکی ڈھولکی قسم کی چیز) بجانے کی نذر مان لیتی ہے تو آپ ﷺ اُس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں (اِس عمرو بن شعیب والی حدیث میں)۔ جبکہ (ثابت بن ضحاک والی حدیث میں) جاہلیت کے تہوار کی جگہ پر جا کر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے اُس صحابی نے معاذ اللہ کوئی غیر اللہ کے نام پر تو اونٹ ذبح نہیں کرنے تھے۔ مگر جاہلی تہوار کی شناعت ایسی بری ہے کہ خدا کے نام کی مانی ہوئی ایک نذر بھی وہاں پر ممنوع ٹھہرے گی۔
اب ذرا سوچو۔۔۔ جاہلی تہوار کے لیے مخصوص ایک جگہ کی یہ شناعت ہے تو خود اس تہوار ہی کی کیسی شناعت ہوگی؟ خود اُس تہوار ہی میں جا شرکت کرنا شنیع کیوں نہ ہوگا؟ اس تہوار کی مناسبت سے جو اعمال مختص سمجھے جاتے ہیں اُن میں سے بعض اعمال کا ارتکاب کر لینا شریعت میں کیوں مذموم نہ ہوگا؟
پھر ایک اور بات پر غور کرو۔۔۔ حدیث کے الفاظ ہیں فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ ’’کیا وہاں اہل جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار (منایا جاتا) تھا‘‘۔ یعنی آپ ﷺ ماضی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں نہ کہ حال کے بارے میں۔ حدیث کے بعض دیگر طرق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے نبی ا سے یہ سوال حجۃ الوداع کے موقع پر کیا تھا۔ یعنی وہ وقت جب جزیرۂ عرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا اور وہاں کے سب جاہلی تہوار موت کی نیند سلائے جا چکے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کا سوال تب ماضی ہی کی بابت ہو سکتا تھا۔ مراد یہ کہ اب تو کسی جاہلی تہوار کا سوال ہی کہاں رہ گیا، یہ بتاؤ کیا ماضی میں بھی وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو نہیں منایا جاتا تھا؟ پس واضح ہوا کہ ماضی میں بھی اگر کہیں پر جاہلی تہوار منعقد ہوتا تھا تو ایسے مقام کی یہ شناعت ہے۔جب ایسا ہے تو پھر ایک حاضر باش جاہلی تہوار میں شرکت کرنے چل پڑنا کیوں شنیع نہ ہوگا؟
اندازہ کر لیجئے، ایک خطہ پوری طرح اسلام کے زیرنگیں آجاتا ہے اور جاہلیت کا سب کچھ وہاں پر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر بھی آپ ﷺ یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ مبادا کسی جاہلی عمل یا جاہلی مظہر کو مسلم معاشرے میں ازسرنو زندگی مل جائے۔
پھر جبکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس تہوار کی بابت آپﷺ دریافت فرما رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی میلہ قسم کی چیز ہوگا، جہاں عربوں کا کھیل تماشا ہو جاتا ہوگا۔ خود مدینہ کے جو دو تہوار تھے (جن کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا) اُس میں بھی انصارؓ نے آپﷺ کے دریافت فرمانے پر کسی بت یا کسی عبادت کی مناسبت ذکر نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ اس دن ہم اپنا کھیل تماشا کر لیتے تھے (کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ)۔ یعنی اس کی کوئی مذہبی مناسبت ہمیں نہیں ملتی(۶) ۔ یہ تو رہا مدینہ والے تہوار کا معاملہ۔ پھر اِس (بوانہ والے) مسئلے کی بابت تو آپ دیکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ ’’بت‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا بوانہ کے مقام پر جاہلیت کا کوئی بت تو نصب نہ تھا) اور پھر ’’تہوار‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو نہ تھا)۔ یہ واضح دلیل ہوئی کہ جاہلیت کے تہواروں کے ساتھ مختص اشیاء میں سے کسی بھی شےء کو کسی بھی انداز میں کرنا شدید منع ہے۔
مزیدبرآں، پچھلی حدیث کے ضمن میں ہم نے ایک بات خاص مدینہ کے حوالے سے ذکر کی تھی۔ مگر اب یہاں غور کرو کہ پورے جزیرۂ عرب میں ہی عیدین سعیدین کے سوا کوئی تہوار باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ کیا تم اِس میں ہرگز کوئی دلالت نہیں دیکھتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ کتنے ان گنت تہوار ہوں گے جو جزیرۂ عرب میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیے گئے۔ ایک پوری قوم کی زندگی سے، اُس کے صدیوں سے چلتے آئے تہواروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ بغیر ’’شدید ممانعت‘‘ کے اتنی بڑی چیز کہاں ختم ہونے والی تھی؟ اِس پر ذرا تدبر کرو، تو کوئی شک ہی نہیں رہ جاتی کہ امام المتقین ﷺنے __ میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں __ اِن سب جاہلی رسوم اور تہواروں کو جزیرۂ عرب کے اندر باقاعدہ ختم کروایا تھا۔
جیساکہ کتاب کے شروع میں بھی یہ بات گزری ہے۔۔۔ رسول اللہﷺ تو اُن نیکیوں یا اُن مباحات کے معاملہ میں جو دوملتوں کے مابین کسی وجہ سے ’’مشترک‘‘ ہیں، کچھ نہ کچھ ایسے ’’فرق‘‘ جاری فرما دیتے ہیں کہ جہاں اشتراک ہے وہاں بھی ایک فاصلہ قائم ہو جائے۔ اور یہ بات تم شریعت میں جابجا دیکھو گے۔ تو پھر جس شریعت میں اِس بات پر پورا زور صرف کردیا گیا ہو کہ اشتراک والی جگہوں پر بھی ’’فرق‘‘ کو نمایاں کرکے رکھا جائے وہ اُن امور میں ’’موافقت‘‘ کی روادار کیسے ہوسکتی ہے جن میں ہے ہی مخالفت؟! بات نہایت واضح ہے؛ شریعتِ اسلام نے تمہاری ایک ضرورت کا شدید خیال رکھا ہے: تمہارے اور اصحابِ دوزخ کے مابین فاصلہ جتنا زیادہ رہے گا اُتنا ہی تمہارا، اصحابِ دوزخ کے اعمال میں جاپڑنا، دُور از امکان رہے گا۔
۳۔ حدیثِ عائشہؓ:
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ أبُوْ بَکْرٍ ص وَعِنْدِیْ جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِیْ الأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِہٖ الأنْصَارِ، یَوْمَ بُعَاثٍ۔ قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ۔ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ أبِمَزْمُوْرِ الشَّیْطَانِ فِیْ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ؟ وَذٰلِکَ یَوْمُ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَا أبَا بَکْرٍ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَہٰذَا عِیْدُنَا (متفق علیہ)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: ابوبکر ؓ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو انصاری لڑکیاں تھیں جو گا رہی تھیں اُن رجزیہ اشعار پر جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر گائے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: یہ دونوں کوئی (باقاعدہ) گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکرؓ بولے: کیا اللہ کے رسولﷺ کے گھر میں شیطان کے راگ؟ جبکہ یہ عید کا دن تھا۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہماری عید ہے۔
اِس حدیث میں وجہِ دلالت تین پہلوؤں سے ہے:
۱۔ ہر قوم کی عید اپنی اپنی۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً اِس حدیث کے الفاظ اور اِن دو قرآنی آیتوں کے الفاظ کے مابین مماثلت پر ذرا غور کرو: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا (البقرۃ: ۱۴۸) ’’ہر کسی کی کوئی سمت ہے جس کی طرف اُس کو رخ کرنا ہوتا ہے‘‘۔ اور لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر کسی کے لیے ہی ہم نے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرا دیا ہے‘‘ اول الذکر آیت، قبلہ سے متعلق ہے اور لِکُلّ کا لفظ بول کر ہر امت کا الگ الگ اختصاص واضح کیا گیا ہے، اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر یہ بھی فرمایا گیا: وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ (البقرۃ: ۱۴۶) ’’اور تم اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں‘‘۔ چنانچہ اِن دو آیتوں کی طرح حدیث (لِکُلِّ قَومٍ) میں بھی لام اختصاص کا آیا ہے۔ یعنی جس طرح از روئے آیت قبلہ میں شرعی اختصاص ہے (ہر امت کا اپنا اپنا قبلہ) ویسے ہی از روئے حدیث عید میں شرعی اختصاص ثابت ہوتا ہے؛ یعنی یہود کی اپنی عید، نصاریٰ کی اپنی، اور مسلمانوں کی اپنی۔ جب اختصاص ہے تو کوئی کسی دوسرے کے قبلہ کی طرف جائے گا اور نہ دوسرے کی عید کی طرف۔
۲۔ رسول اللہﷺ کا فرمانا: وَإنَّ عِیْدَنَا ہٰذَا الیَوم ’’اور ہماری عید آج ہے‘‘، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے تہوار اِن دو مواقع کے اندر محصور ہیں۔ الیَوم پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے؛ جیسے فرمایا: تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ ’’نماز کی تحریم، تکبیر ہے اور تحلیل، تسلیم‘‘۔ (تکبیر پر ال کا فائدہ یہ ہوا کہ: تکبیر ہی سے نماز کی تحریم ہوگی۔ اور تسلیم پر ال کا فائدہ یہ کہ: سلام سے ہی نماز کی تحلیل ہوگی۔ یعنی ایسا نہیں کہ تکبیر سے بھی تحریم ہوجاتی ہو البتہ تکبیر کے علاوہ کسی چیز سے بھی تحریم ہو جاتی ہو، یا یہ کہ سلام کے علاوہ کسی لفظ سے بھی نماز کی تحلیل ہو جاتی ہو۔ یہ فائدہ ہوا استغراق کے ’’ال‘‘ کا)۔ جبکہ لفظ ہٰذا سے رسول اللہ ﷺ کا اشارہ روزِ عید کی جنس کی طرف ہے نہ کہ عین کی طرف؛ لہٰذا عید الفطر کے ساتھ عید الاضحیٰ ( اپنے پورے ایام کے ساتھ) خود بخود شامل ہوگی؛ جیساکہ ابوداود اور نسائی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأیَّامُ مِنیٰ عِیْدُنَا أہْلِ الإسْلَامِ، وَہِیَ أیَّامُ أکْلٍ وَشُرْبٍ ’’یومِ عرفہ، یومِ قربان، اور منیٰ کے ایام ہم اہل اسلام کی عید ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
۳۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً کے الفاظ نبی ا نے بچیوں کے گانے وغیرہ پر رخصت دینے کے سیاق میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پس یہ رخصت اِس مناسبت سے ہوگی کہ یہ ’’مسلمانوں کی عید‘‘ ہے۔ کسی اور ’’عید‘‘ کے لیے یہ احکام ہی نہ ہوں گے۔ ورنہ ایک بات کی اگر ہر وقت ہی گنجائش ہے تو خاص یہ لفظ بول کر کہ ’’ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے‘‘ کوئی خصوصی گنجائش بتانے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
۴۔ ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما کی (ہفتہ وار عید والی) حدیث سے ایک اہم استدلال:
عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ ؓ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ: نَحْنُ الآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، بَیْدَ أنَّہُمْ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ ثُمَّ ہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہٗ، فَالنَّاسُ لَنَا فَیْہِ تَبْعٌ: الْیَہُوْدُ غَداً وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ (متفق علیہ)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے سنا: ’’ہم (دنیا میں) میں آخری ہیں اور قیامت کے روز پہلے۔باوجود اس کے کہ اُن کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہمیں اُن کے بعد، دن اُن کا بھی یہی (جمعہ) تھا جو اُن پر فرض کیا گیا، تو اُنہوں نے اس کے معاملے میں اختلاف کر لیا، تب اللہ نے ہمیں اس کی راہنمائی کردی۔ پس لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے، یہود کل، تو نصاریٰ پرسوں‘‘
وَفِیْ حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَؓ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمْعَۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلنَّصَاریٰ یَوْمُ الأحَدِ، فَجَاءَ اللّٰہُ بِنَا فَہَدَانَا لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالأحَدَ، وَکَذٰلِکَ ہُمْ تَبْعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أہْلِ الدُّنْیَا، وَالأوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِیُّ لَہَمْ _ وِفِیْ رِوَایَۃٍ بَیْنَہُمْ _ قَبْلَ الْخَلَاءِقِ (رواہ مسلم)
حدیثِ حذیفہؓ: فرمایا رسول اللہ ا نے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو روزِ جمعہ سے بھٹکا دیا، چنانچہ یہود کا ہفتہ ہوا، نصاریٰ کا اتوار۔ تب اللہ ہمیں لایا اور ہم کو روزِ جمعہ کی ہدایت فرما دی اور (ترتیب) رکھی: جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ ایسے ہی وہ قیامت کے روز ہم سے پیچھے ہوں گے۔ دنیا میں ہم آخری ہیں مگر قیامت کے روز ہم مخلوق میں وہ پہلے لوگ ہوں گے جن کے مابین فیصلہ کیا جائے گا‘‘
یہاں؛ آپ دیکھتے ہیں ہفتہ وار تہوار کے معاملہ میں امتوں کا اختصاص باربار کس وضاحت سے بیان ہوتا ہے۔ (لامِ اختصاص کی تکرار پر ذرا غور کرو)۔ یعنی یہود کا، ہفتہ۔ عیسائیوں کا، اتوار۔ مسلمانوں کا، جمعہ۔ لغت میں: اگر تم کہو: ’یہ کپڑا رہا زید کا، یہ رہابکر کا، اور یہ رہا عمرو کا‘۔۔۔ تو اس سے زید، بکر اور عمرو تینوں میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ ایک کپڑا ہونے کا معنیٰ لازم آئے گا۔ اِسی کو اختصاص کہا جاتا ہے۔ لہٰذا؛ اہل جمعہ کا، اہل سبت یا اہل اتوار کے ساتھ ’’شامل‘‘ ہونا آپ سے آپ باطل ہو جاتا ہے ورنہ اِس حدیث کا کوئی معنیٰ باقی نہ رہے گا۔ تو پھر اگر ہفتہ وار عید (۷)کا یہ معاملہ ہے تو سالانہ عید کا یہ معاملہ کیوں نہ ہوگا، بلکہ سالانہ عید کے لیے تو امتوں کا جوش و خروش کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
۵۔ حدیثِ ام سلمہ ؓ :
عن کریبٍ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: أرسلنی ابن عباس وناسٌ من أصحاب النبی ﷺ إلی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا، أسألہا: أیُّ الأیَّامِ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ أکْثَرَہَا صِیَاماً؟ قَالَتْ: کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَیَوْمَ الأحَدِ أکْثَرَ مَا یَصُوْمُ مِنَ الأیَّامِ، وَیَقَوْلُ: إنَّہُمَا یَوْمَا عِیْدٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ فَأنَا أحِبُّ أنْ أخَالِفَہُمْ۔ (رواہ أحمد والنسائی وابن أبی عاصم... وصححہ بعض الحفاظ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابن عباسؓ اور کچھ دیگر صحابؓ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی ﷺکونسے دنوں کا روزہ سب سے زیادہ رکھا کرتے تھے؟ ام المومنینؓ نے جواب دیا: سب سے زیادہ آپ ﷺہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے اور فرماتے: یہ دونوں مشرکین کی عید کے ایام ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میں اُن کی مخالفت کروں
یہ حدیث بھی اِس بات پر نص ہوئی کہ اہل کتاب کی مخالفت، چاہے کسی وقت ازراہِ استحباب ہو، شریعت کے مقاصد اور اعتبارات میں بہرحال شامل ہے.. اور یہ کہ اہل کفر کے تہواروں پر کوئی کام کرنے کا ہے تو وہ یہ ان کی مخالفت کی جائے نہ کہ اُن کی موافقت۔ اِس حدیث کے حوالے سے جو کئی سارے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دوسری حدیث میں سبت کا روزہ منع ہے (البتہ علت وہاں بھی یہی بیان ہوئی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے، لہٰذا مقصد کے لحاظ سے صومِ سبت سے منع کرنا بھی وہی فائدہ دیتا ہے جو یہ حدیثِ ام سلمہؓ یہاں دے رہی ہے) اور یہ کہ.. آیا سبت کا روزہ مطلق منع ہے یا مفرد طور پر (یعنی بغیر کوئی دن ساتھ ملائے)۔۔۔ تو ان فقہی سوالوں(۸) کا جواب ہم کتاب میں آگے چل کر دیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لو کہ سبت کے روزہ پر علماء کا جو بھی اختلاف ہے، اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ سبت کے معاملہ میں یہود کی مخالفت کرنا مستحسن ہے۔ جو عالم اُس دن روزہ کا قائل ہے وہ اِس اعتبار سے کہ یہ اُن کی عید کی مخالفت ہے۔ اور جو اِس سے ممانعت کرتا ہے وہ اِس اعتبار سے کہ اِس روز کوئی خصوصی عبادت کر لینے سے یہود کی مخالفت ایسا ایک مقصدِ دین متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علمائے اسلام کے فریقین میں جو بھی فقہی اختلاف ہو، ہمارے بیان کردہ اِس (اہل کتاب کی مخالفت والے) مبحث کی ہردو جانب سے تائید ہی ہوتی ہے۔
ج۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کا اپنا تعامل:
یہ تصور کرنا درست نہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ ؓکے آس پاس یہود و نصاریٰ کہیں پائے ہی نہیں گئے اور آج پہلی بار ہمیں ہی یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آس پاس پائے جانے والے یہودونصاریٰ کے اِن تہواروں پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے! یہ درست ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے محارب یہودونصاریٰ سے جنگیں کیں، مگر غیر حربی یہودونصاریٰ کے ساتھ بھی اُن کو ہرہر شہر اور ہر ہر ملک میں واسطہ رہا ہے۔ تو پھر اگر نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کو بھی یہودونصاریٰ کے ساتھ (اُن کے تہواروں سمیت) واسطہ پیش آیا ہے تو کیا سب سے بڑھ کر یہ ضروری نہیں کہ ہم دیکھیں اِس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اصحاب ثدین اسلام پر کس طرح عمل پیرا ہوئے؟
خوب جان لو: سرزمین عرب میں زمانۂ اول سے لے کر آج تک یہودونصاریٰ پائے گئے ہیں۔ یہود حضرت عمرؓ کے دور تک جزیرۂ عرب میں موجود رہے یہاں تک کہ خلیفۂ دوم نے انہیں جزیرہ سے نکالا۔ نبی ﷺکے عہد مبارک میں یہود کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپﷺ نے اُن سے ایک معاہدہ بھی فرمایا یہاں تک کہ اُن کی طرف سے پے در پے عہدشکنی ہوئی جس کے بعد اُن کی بڑی تعداد مدینہ سے نکال دی گئی پھر بھی اُن کے کچھ لوگ باقی رہے۔ آپﷺ نے رحلت فرمائی تو زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس ہی رہن تھی۔ یمن یہودیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نجران میں عیسائیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ بحرین میں فارسیوں کی بہتات تھی۔ اور یہ دورِ نبوت کی بات ہے۔ اور یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ اِن سب ملتوں کے تہوار بھی ہوتے تھے!
اب یہاں ایک قاعدہ ازبر کرلو: ایک چیز کا قوی محرک نبیﷺ کے سامنے باقاعدہ انداز میں پیش آیا مگر آپ ا نے اس کو اختیار کرنے سے احتراز ہی فرمائے رکھا۔۔۔ تو اُس چیز کو اختیار نہ کرنا ہی دین ہوگا۔
تو پھر؛ نبی ﷺاور اصحاب ؓ کی جانب سے کسی بھی انداز کی شرکت اپنے ’ہم وطن‘ اہل کفر کے تہواروں میں اگر مروی نہیں ہے۔۔۔ کیا اِس قضیہ کا فیصلہ کردینے کے لیے یہی ایک بات کافی نہیں؟
اور جہاں تک معاشرہ میں اِس کے لیے داعیہ پائے جانے کی بات ہے۔۔۔ تو کیا یہ تصور ہوسکتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے تہوار منارہے ہوں،اچھے اچھے پکوان، زرق برق لباس، رنگارنگ اشیاء، باجے، بھنگڑے، نفیریاں، کھیلیں اور کبڈیاں سب چل رہی ہوں۔۔۔ اور ادھر معاشرے کے عام بچوں، عورتوں اور فارغ طبقوں کو اُس کی طرف توجہ اور میلان تک نہ ہو!
اب جس شخص کو سیرت پر کچھ بھی اطلاع ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ عہدِ نبوت میں مسلمان، کافروں کی ایسی کسی بات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ کفار کے تہواروں کی خاطر اپنا کوئی ایک بھی معمول نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہ ا اور صحابہ ث کے لیے کفار کا تہوار ہر ہر پہلو سے باقی دنوں جیسا ہی ایک دن تھا؛ اِن دنوں کے لیے اُن کے ہاں کسی ایک چیز کا اہتمام نہ ہوتا۔ ہاں کچھ اہتمام تھا تو ان عیدوں کی مخالفت کے حوالہ سے، مثل روزہ وغیرہ!
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ وہ دین ہی جسے دورِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے سیکھا اور سمجھا تھا اِس امر میں شدید مانع ہو۔۔۔ (حتیٰ کہ اِس ممانعت کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہوتی)۔۔۔ تو عہدِ اول کے مسلمانوں کی ایک تعداد تو ضرور ہی ایسی ہوتی جو اِن چیزوں میں بدستور شرکت کر رہی ہوتی! کیونکہ ایک چیز کا محرک صحابہؓ کی زندگیوں میں قوی طور پر موجود تھا؛ اِس حقیقت پر عقل، منطق، تاریخ سب شاہد ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معلوم امر ہے کہ کافر ملتوں کے تہوار بہت پیچھے سے چلے آرہے تھے اور قوموں کا جوش وخروش اپنی عیدوں اور تہواروں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتا!
خلفائے راشدین کا پورا عہد، یہی دستور رہا۔
عہدِ اول میں اِس حوالہ سے جو زیادہ سے زیادہ بے قاعدگی پائی گئی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ازراہِ تجسس و تماشا ان کے میلوں کی رونق دیکھنے چلے جاتے۔ اس کا ذکر ضرور ملتا ہے.. اور اِس پر عمر ؓ کی سرزنش بھی! چنانچہ حضرت عمرؓ اور دیگر علمائے صحابہؓ سے اِس بات کی ممانعت ملتی ہے کہ مسلمان، ذمیوں کے میلوں کا تماشا وغیرہ دیکھنے مت جائیں (جس کی کچھ تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے)۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں حضرت عمر ؓ تو اُن کے تہواروں کی خالی سیر کرلینے سے ہی مسلمانوں کو روکتے ہوں جبکہ اُن تہواروں میں سیدھی سیدھی شرکت کر آنے میں حرج کی بات ہی نہ ہو! حضرت عمر ؓ نے اِس معاملہ میں جتنی بے قاعدگی دیکھی اُتنا نوٹس لیا، یعنی مسلمانوں کو وہاں تفریح سے ہی روک دیا۔ لیکن کیا خیال ہے کوئی مسلمان اُن اعمال اور تقریبات ہی میں ہی باقاعدہ شریک ہو کر آتا، اس کو حضرت عمر ؓ چھوڑ دیتے؟!
یہاں تک دیکھ لو کہ جب بعض مسلمانوں کے ہاں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ کفار کے تہواروں کے دن روزہ رکھیں گے اور جبکہ اس سے اُن کے پیش نظر کفار کی مخالفت کرنا ہی تھا.. تو فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛ کیونکہ اِس سے بھی مسلمانوں کے یہاں کفار کے تہواروں کی ایک خصوصی حیثیت بن جانے کا اندیشہ پیدا ہورہا تھا۔ کیا اِن حقائق سے یہ چیز واضح نہیں ہوجاتی کہ عہدِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے جو دین لیا اُس میں کفار کے تہواروں میں ’’شریک‘‘ ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں؟
د: اجماع سے:
جہاں تک اجماع کی بات ہے تو وہ کئی پہلوؤں سے ہے:
اول۔ عہدِ اول کا متفقہ طرزِ عمل:
جس کی جانب میں ابھی اشارہ کر آیا ہوں: یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، سب ذمی اقوام مسلم خطوں میں شروع سے آج تک پائی گئی ہیں۔ جوکہ جزیہ دیتی رہیں اور اس کے مقابلے میں ان کو مکمل امان حاصل رہی۔ اِن کو اپنے دین پر چلنے کی آزادی تھی، جس میں اِن کے تہوار بھی آتے ہیں۔ معاشرے میں جب کسی ایک قوم کا تہوار ہو تو باقی اقوام میں یا کم ازکم ان کے ایک طبقے میں اس کی جانب میلان اور شرکت کا محرک ضرور پیدا ہوتا ہے، جیساکہ پیچھے ہم واضح کر چکے۔ مگر سابقین ؓکے عہد میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ملتا جو اہل ذمہ کے تہواروں میں شرکت کرکے آتا ہو۔ ایک ایسے دلچسپ اور رنگ برنگے تہوار میں شرکت کی جانب نفوس کا میلان طبعی بات ہے۔ پورا معاشرہ اِس سے رکا رہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’مانع‘‘ اِس سے بھی قوی تر ہو؛ جوکہ شریعت ہی ہوسکتی ہے۔ کافر تہواروں کے لیے مسلم نفوس میں اگر داخلی کراہت ہے اور وہ اُن کو اُس طرف رخ کرنے نہیں دے رہی تو اس کراہت کے پیچھے شریعت ہے۔ اور اگر ویسے اس کو ’’منع‘‘ سمجھتے ہوئے اِس سے دور رہتے ہیں تو اِس ’’منع‘‘ کے پیچھے شریعت ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ ایک چیز کا محرک قوی ہو اور مانع کوئی نہ ہو پھر وہ چیز عمل میں آنے سے مسلسل رکی رہے۔ لامحالہ یہ مانع شریعت ہے؛ جو ایک پورے معاشرے کو برس ہا برس بلکہ صدیوں ایک عمل سے روکے رکھتی ہے باوجود اس کے کہ ماحول میں اس کے محرکات پوری طرح موجود ہیں۔
عہدِ اول میں ہمیں اِسی ایک طرز عمل پر یکسوئی ملتی ہے۔ کوئی اختلاف ہوتا تو نہ صرف سامنے آجاتا بلکہ (نفوس میں) اِتنے قوی محرکات پائے جانے کے باعث ’دوسری رائے‘ کے پیروکار اُن تہواروں میں شرکت فرماتے بھی نظر آتے۔
دوم: صحابہ ؓ کا اتفاق کہ اہل ذمہ اپنے تہوار کھلے عام نہ منائیں گے:
شروطِ عمریہ میں یہ بات باقاعدہ درج ہے، اور جوکہ اکیلے حضرت عمر ؓ کا فیصلہ نہیں بلکہ صحابہؓ نے ا س پر اتفاق کیا اوراس کے بعد سب فقہاء کا اِس پر اتفاق چلا آیا ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ ہمارے اہل ذمہ بنتے ہیں وہ دار الاسلام میں اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ فقہاء کے ہاں ان تہواروں کے نام ذکر ہوئے مثلاً شعانین اور باعوث وغیرہ۔ اب اگر مسلمان اس پر متفق ہیں کہ کافر اِن تہواروں کو اپنی چاردیواریوں کے اندر رکھیں گے اور مسلمانوں کے مابین لے کر نہ آئیں گے تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ مسلمان خود وہ افعال کرنے لگیں؟ کافر کی نسبت ایک مسلمان کا کھلم کھلا وہ افعال کرنے لگنا کیا اس سے کہیں زیادہ سنگین نہیں؟
سوم: صحابہؓ اور سلف کا اِن تہواروں میں تفریح سے ممانعت کرنا:
۱۔ ابو الشیخ اصفہانی کی عطاء بن یسار (یا ابن دینار) سے روایت کہ حضرت عمر ؓنے ہدایت فرمائی تھی : إیاکم ورطانۃ الأعاجم وأن تدخلوا علی المشرکین یوم عیدہم فی کنائسہم ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں اُن کی عید کے روز مت جاؤ‘‘۔
۲۔ امام بیہقی نے باب باندھا ہے: باب کراہۃ الدخول علی أہل الذمۃ فی کنائسہم والتشبہ بہم یوم نیروزہم ومہرجانہم ’’اس بات کی کراہت کا بیان کہ اہل ذمہ کے گرجوں میں داخل ہوا جائے اور ان کے نوروز یا مہرجان کے دن اُن کی مشابہت کا کوئی کام کیا جائے‘‘۔ اس کے تحت بیہقی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت لاتے ہیں عن سفیان الثوری، عن ثور بن یزید، عن عطاء بن دینار: قال: قال عمر: لا تعلموا رطانۃ الأعاجم وأن تدخلوا علی المشرکین یوم عیدہم فی کنائسہم، فإن السخطۃ تنزل علیہم حضرت عمر ؓ کی ہدایت: ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں اُن کی عید کے روز مت جاؤ؛ کیونکہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘
۳۔ بیہقی کی روایت: عن الثوری، عن عوف، عن الولید عن عبد اللہ بن عمر، قال: من بنیٰ ببلاد الأعاجم فصنع نیروزہم ومہرجانہم وتشبہ بہم حتیٰ یموت وہو کذلک حشر معہم یوم القیامۃ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی تنبیہ: ’’جو شخص عجمیوں کے دیس میں تعمیرات کرے، ان کا نوروز اور مہرجان منانے لگے اور ان کی مشابہت اختیار کرے، یہاں تک کہ اس کو موت آلے، روزِ قیامت اس کا حشر اُنہی کے ساتھ ہونے والا ہے‘‘
۴۔ بیہقی ایک روایت امام بخاریؒ سے کرتے ہیں کہ: مجھ کو خبر دی ابن ابی مریم نے، اُس کو نافع بن یزید نے، اُس نے سنا سلمان بن ابی زینب اور عمرو بن الحارث سے، اُس نے سعید بن سلمہ سے، اُس نے ابان سے: کہ اُس نے امیر المومنین عمر بن الخطاب ؓ کو فرماتے سنا: اجتنبوا أعداءَ اللہ فی عیدہم ’’اللہ کے دشمنوں سے دور رہو اُن کی عید کے روز‘‘۔
۵۔ بیہقی ابو اسامہ کی سند سے، عن حماد بن زید، عن ہشام، عن محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں: کہ نوروز کے دن حضرت علی ؓ کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کیا گیا تو آپؓ نے پوچھا: یہ کیا؟ عرض کی گئی: اے امیرالمومنینؓ یہ نوروز کا دن ہے۔ آپؓ نے فرمایا: یہ فیروز روزانہ کیوں نہیں کر لیتے۔ ابو اسامہ (راوی) کہتے ہیں: حضرت علی ؓ نے ناگوار جانا کہ نوروز کا نام بھی سیدھا لیں (چنانچہ نوروز کو عمداً فیروز کہا)۔
اس کے علاوہ کچھ روایات ابن تیمیہ صحابہ کے اقوال سے لے کر آتے ہیں، اس کے بعد فرماتے ہیں:
اب حضرت عمر ؓاہل ذمہ کے گرجوں میں اُن کے تہواروں کے موقع پر جانے سے ممانعت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ اب اگر اُن کے تہوار خدا کے غضب کا محل ہیں لہٰذا آدمی کا اُس روز وہاں صرف پایا جانا اتنی بری چیز ہے تو اس تہوار کے کسی حصے میں ہی شریک ہوجانا کیوں خدا کے غضب کا موجب نہ ہوگا۔
اس کے بعد تابعین و تبع تابعین کے اقوال بھی لے کر آتے ہیں۔
اہل کفر کے سب تہوار ایک ہی جنس ہیں
کفار خواہ کتابی ہوں یا اُمی، دین اسلام میں ان سب کی عیدیں ایک ہی جنس ہیں؛ بعینہٖ جس طرح ان سب کا کفر اپنے حرام اور ناپسندیدہ ہونے میں ایک ہی جنس ہے۔ بے شک کسی ایک ملت کا کفر دوسری کے کفر کے مقابلے میں شدیدتر ہو مگر اپنے حکم کے اعتبار سے مسلمان کے لیے یکساں ہیں۔ تاہم یہ درست ہے کہ اہل کتاب کو اُن کے دین پر چھوڑ دیا گیا، جبکہ اُن کے دین میں اُن کی عیدیں اور اُن کے تہوار بھی آتے ہیں۔ لیکن اُن کے ساتھ دورِ عمرؓ میں (ازروئے صغار: آیت ۲۹ سورۃ توبہ) شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنے شعائر دین کو ظاہر باہر نہ کریں گے۔ جبکہ امیوں کو (جزیرۂ عرب میں) سرے سے نہ رہنے دیا گیا۔
تاہم یہ بات بھی مدنظر رہے کہ امیوں کے جن تہواروں کو ختم کیا گیا وہ عموماً لوک میلوں کی صورت میں پائے جاتے تھے جبکہ اہل کتاب کے تہوار وہ ہیں جن کو وہ دین سمجھ کر مناتے ہیں۔ اِس لحاظ سے کفارِ اہل کتاب کے تہوار اُمی کافروں کے لوک میلوں کی نسبت کہیں سنگین تر ہیں۔ ایک شخص خدا کی حرام کردہ اشیاء کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات پوری کرتا ہے تو وہ اتنا سنگین نہیں جتنا وہ شخص جو خدا کی حرام کردہ اشیاء کو خدا کے تقرب کا ذریعہ بنائے بیٹھا ہے۔ اول الذکر بات امیوں کے میلوں پر زیادہ صادق آتی ہے تو ثانی الذکر اہل کتاب کے تہواروں پر۔ یہی وجہ ہے کہ شرک زنا سے بڑا گنا ہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب سے جہاد کرنا بت پرستوں کے خلاف جہاد کرنے کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ نیز جس مسلمان کو اہل کتاب شہید کریں اُس کو دہری شہادت کا اجر ملتا ہے۔
اب جب یہ واضح ہے کہ شارع نے بت پرستوں کے تہواروں کو سرے سے ختم کرکے رکھ دیا، باوجود اس کے کہ (حدیث کی رو سے) شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ جزیرۂ عرب میں بت پرستی کا دور دورہ کروادے۔۔۔ تو پھر کتابی کفار کے شعائر سے چوکنا رہنا تو اور بھی ضروری ہے۔ پھر جبکہ رسول اللہ ا نے جو پیشین گوئی فرمائی ہے وہ یہ نہیں کہ مسلمان اُمی کفار کی پیروی کرنے لگیں گے بلکہ یہ پیشگوئی فرمائی کہ مسلمان کتابی کفار کے راستے چلنے لگیں گے۔ (۴۲۶ ۔ ۴۶۱)
المختصر
۔ عیدیں، ایک امت کی شرع اور اس کے مناسک کا حصہ ہیں؛ بعینہٖ جس طرح اُس کی نماز اور روزہ اور قربانی۔ آپ نے اُس کی عید میں شرکت کر لی یا اُس نماز میں یا قربانی میں، ایک برابر ہے۔ اُس کی عید پر موافقت ظاہر کرنا اُس کے باقی شعائر پر موافقت ظاہر کرنے ہی کی مانند ہے۔ بلکہ عیدیں اُن نہایت خاص اشیاء میں آتی ہیں جن کے دَم سے ایک شریعت اپنے ماسوا شرائع سے ممیز ہوتی ہے۔ اس لیے؛ کسی کافر قوم کی عید پر موافقت ظاہر کرنا شرائع کفر کی اخص الخاص اشیاء پر موافقت کے مترادف ہے؛ اور کچھ خاص صورتوں میں یہ فعل کفر تک جا سکتا ہے۔
۔ اُن کے تہواروں کی ایک ایک چیز معصیت ہے۔ اُس کی جو بہترین سے بہترین صورت فرض کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ: وہ اُن کے ہاں شروع زمانہ سے چلی آرہی ہو۔ یہ بھی شرعِ محمدی کے ہاتھوں اب منسوخ ہے؛ اور اُن کا اُس کو تقربِ خداوندی کا ذریعہ سمجھ کر جاری رکھنا خدا کی معصیت۔ پس اُن کی کسی عید یا کسی دینی شعار کی جو اچھی سے اچھی صورت ہو سکتی ہے __ جبکہ اُس میں کوئی اچھائی نہیں __ تو وہ یہ کہ ایک مسلمان بیت المقدس رُخ ہو کر خدا کی عبادت کرلے!
۔ عید اصل میں دین ہے۔ رہ گیا اُس کا عادات والا (کلچرل) پہلو، جیسے پکوان، پہناوے، تفریح اور تماشے تو وہ اپنے اصل کے تابع ہے۔ (عید حق ہے تو اُس کے رنگ میلے مستحسن ہیں، اور عید باطل ہے تو اُس کے رنگ میلے گناہ)
۔ کفار کی عیدوں کے حوالے سے مسلم معاشروں میں ایک بار دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے؛ باقی کام خودبخود ہونے لگتا ہے۔ معاشرے کا ایک کم علم آدمی جب تک ایک راستے سے ہی واقف نہیں، بس وہ تب تک ہی اُس سے دور ہے۔ اس کے بعد تو منکرات جس طرح بند توڑتے ہیں اور نصاریٰ کی سنتیں ہمارے جاہل طبقوں کے ہاں جس طرح مقبولیت پانے لگتی ہیں اُس کا اندازہ مشکل ہے۔
۔ جب ایک چیز معاشرے میں کچھ دیر چل لیتی ہے تو وہ خود روایت بن جاتی ہے؛ یہاں تک کہ لوگوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ چیز ان کی اپنی شریعت میں کہیں نہیں آئی۔ اسی عمل نے، اور اہل علم کی اِسی خاموشی نے، ہم سے پہلے پوری کی پوری امتوں کی لٹیا ڈبوئی ہے۔
۔ عیدیں مخلوق کے دین اور دنیا ہردو کے حق میں نہایت عظیم منفعت رکھتی ہیں۔ اِس لیے ہر شریعت نے اپنے پیروکاروں کے لیے جہاں نماز اور زکوٰۃ اور حج وغیرہ ایسی اشیاء کو جاری کیا وہاں اپنے پیروکاروں کے لیے عیدیں بھی جاری کیں۔ وَلِکُلِّ أمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُو اللّٰہَ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الأنْعَامِ۔
۔ قوموں کے مابین مشابہت اور مماثلت ایک طرح کی محبت اور مودت پیدا کراتی ہے۔ مسلمان کی کافر سے قربت اختیار کرنا اس کے اپنے دین کا نقصان ہے۔ (۴۷۱ ۔ ۴۹۰)
عَنْ عَدِیٍّ بْنِ حَاتِمٍؓ ، قَالَ فَأتَیْتُہٗ فَإذَا عِنْدَہٗ امْرَأۃً وَصِبْیَانٌ، وَذَکَرَ قُرْبَہُمْ مِنَ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: فَعَرَفْتُ أنَّہٗ لَیْسَ بَمْلِکِ کِسْریٰ وَلا قَیْصِرَ۔ فَقَالَ: ( یَا عَدِیُّ مَا أفَرَّکَ؟ أنْ یُقَالَ لا إلٰہَ الا اللّٰہُ؟ فَہَلْ مِنْ إلٰہٍ إلا اللّٰہُ؟ مَا أفَرَّکَ أنْ یُقَالَ اللّٰہُ أکْبَرُ؟ فَہَلْ شَیْءٌ أکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ ) قَالَ: فَأسْلَمْتُ، فَرَأیْتُ وَجْہَہٗ اسْتَبْشَرَ وَقَالَ: إنَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْہِمْ: الْیَہُوْدُ وَإنَّ الضَّالِّیْنَ: النَّصَاریٰ (اابن کثیر: رواہ أحمد والترمذی، وقد روی من طرق ولہ ألفاظ کثیرۃ یطول ذکرہا)
روایت عدی بن حاتم ؓ سے:
کہا میں (بوقت قبول اسلام) آپ ا کے پاس جاضر ہوا اور آپ کے پاس ایک عورت اور کچھ بچوں کو موجود پایا جو آپ ﷺ کے بہت قریب تھے، جس سے میں نے جانا یہ کوئی کسریٰ اور قیصر جیسا بادشاہ نہیں ہے۔ آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا: اے عدی کیا چیز تمہیں ہم سے فرار اختیار کروانے کا موجب بنی؟ کیا اس لیے کہ یہ کہنا پڑجائے گا ’’نہیں کوئی الٰہ سوائے اللہ کے؟ تو کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اس لیے بھاگ لیے کہ کہنا پڑجائے گا: اللہ سب سے بڑا ہے، تو کیا ہے کوئی شے جو اللہ سے بڑی ہو؟ عدی کہتے ہیں تب میں نے اسلام قبول کر لیا۔ تب میں نے آپؐ کے چہرہ مبارک کو دیکھا کہ کھل اٹھا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: مغضوب علیہم بے شک یہود ہیں۔ اور ضالین یقیناًنصاریٰ ہیں
نوٹ: کتاب کے جس نسخے سے ہم نے استفادہ کیا ہے وہ شیخ حامد الفقی مرحوم کا تحقیق شدہ نسخہ ہے، جس کو بعدازاں شیخ ناصر عبد الکریم العقل نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع بنایا ہے ۔ ہر قطعہ کے اختتام پر، ہم نے اصل کتاب کے صفحات نمبر کا حوالہ دیا ہے اور یہ صفحات نمبر شیخ ناصر کی تحقیق ومراجعہ پر مبنی نسخہ کے مطابق ہیں۔ سرخیاں اور حواشی ہمارے دیے ہوئے ہیں۔
اصل عربی کتاب کا ویب لنک: http://www.islamhouse.com/p/102361
ادارہ ایقاظ اس پوری کتاب کا اردو استفادہ پیش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اس کتاب کا جو واحد (ہمارے علم کی حد تک) اردو ترجمہ \ اختصار مارکیٹ میں دستیاب ہے اس میں کتاب کے اصل مباحث تقریباً ناپید ہیں۔
____________
(۱) اشارہ ہے صحیح مسلم کی اس حدیث کی طرف:
وَإنَّ اللّٰہَ نَظَرَ إلیٰ أہْلِ الأرْضِ فَمَقَتَہُمْ عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُمْ إلَّا بَقَایَا مِنْ أہْلِ الْکِتَابِ وَقَالَ إنَّمَا بَعَثْتَکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَأبْتَلِیَ بِکَ، وَأنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَاباً لا یَغْسِلُہٗ الْمَاءِ تَقْرَؤُہٗ نَاءِماً وَیَقَظَانَ۔
(رواہ مسلم، عن عیاض بن حمار المجاشعی، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا۔۔ رقم: ۲۸۶۵)
اللہ تعالی نے اہل زمین پر نگاہ فرمائی تو ان کے سب عرب و عجم سے بیزار ہوا، سوائے کچھ بچے کھچے اہل کتاب (شرح نووی: یعنی اہل کتاب کے وہ معدودے چند لوگ جو اپنے اصل دین حق پر بغیر تبدیلی کے باقی تھے) اور فرمایا (اے محمدؐ) میں نے تجھے مبعوث فرمایا ہے اس لیے کہ تجھے آزماؤں اور تیرے ذریعے آزماؤں۔ اور تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے پانی نہ دھو سکے (شرح نووی: یعنی جو سینوں میں محفوظ ہوگا اور تغیراتِ زمانہ ا س کو مٹا نہ سکیں گے) جس کو تو سوتا جاگتا پڑھے گا۔
فَمَقَتَہُمْ عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُم لفظ مقت کے معنیٰ میں امام نوویؒ کہتے ہیں: أشَدُّ الْبُغْضِ۔ یہی لفظ قرآن میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ غافر (آیت ۱۰) میں: لَمَقْتُ اللّٰہِ أکْبَرُ مِنْ مَقْتِکُمْ لِأنْفُسٍکُمْ ، یہاں پر بیشتر اردو تراجم میں اس کا معنیٰ ’’بیزاری‘‘ کیا گیا ہے۔
ابن تیمیہ کتاب کی عین ابتداء میں یہ مبحث لائے ہیں کہ: چودہ سو سال پہلے ہی جملہ اہل زمین سے اللہ رب العزت کی بیزاری ہو چکی ہے؛ پوری انسانیت خدا کے ہاں ردّ disapproved تھی اورہے، سوائے اُن خوش بختوں کے جو (بصورتِ اسلام) محمد ﷺکے ذریعے دی جانے والی آزمائش میں پورا اتریں اور خدا کے ہاں سرخرو ہوں۔ گلوبلائزیشن کی دہلیز پر قدم رکھنے کے لیے پہلا سبق!
(۲)"اسلام میں سنتِ جاہلیت کا چلن کروانے‘‘ کے حوالے سے اشارہ ہے اس حدیث کی جانب:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما أن النبی ﷺ قال:
أبْغَضُ النَّاسِ إلَی اللّٰہِ ثَلَاثَۃٌ: مُلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِی الإسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِیئ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُہْرِیْقَ دَمَہٗ
(البخاری، کتاب الدیات، باب من طلب دم امرئ بغیر حق رقم الحدیث: 6468)
روایت عبد اللہ بن عباس سے، فرمایا رسول اللہ نے:
تین آدمی اللہ کو سب سے زیادہ برے لگتے ہیں: حرم میں الحاد کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کی سنت کا چلن چاہنے والا، اور جو کسی شخص کا ناحق خون کروانے کے درپے ہے۔
(۳)کیک کی بابت کیا خیال ہے ؟!
(۴)جبکہ ’’کرسمس‘‘ اسی صنف میں آتا ہے، بلکہ یہ اپنی اصل origin میں ایک رومن تہوار ہے، جس کا اعتراف عیسائی محققین بھی کرتے ہیں۔ مسیح ؑ اور آپؑ کے حواری کسی کرسمس اور سانٹا کلاز سے واقف تک نہ تھے۔ یہ تصور بھی درست نہیں کہ امتِ مسیحؑ کے بعض دیندار طبقوں نے اپنے اندازے سے اس کو مسیحؑ کا یوم پیدائش جان کر، اور اپنے نبی کے لیے فرطِ عقیدت میں آکر یہ بدعت گھڑ لی ہو۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بت پرست رومنز پہلے سے ہی اپنے ’بڑے دنوں‘ میں یہ تہوار مناتے چلے آرہے تھے۔ اپنے عیسائی دور میں اِسی عید کو وہ مسیحؑ کے نام سے منانے لگے!
(۵)برصغیر کے اردو تراجم میں اِس آیت کے تحت زیادہ تر یہی معنیٰ بیان ہوا ہے ۔ یعنی جھوٹی شہادت۔ جس کو امام ابن تیمیہؒ محل نظر ٹھہراتے ہیں اور آگے اس کی دلیل دیتے ہیں۔
(۶)یہاں وہ حضرات غور فرمائیں جو کرسمس کو عیسائیوں کا ایک سماجی تہوار قرار دے کر جائز کرنے کے چکر میں ہیں۔ اپنی اِسی ’دلیل‘ کی رو سے ابھی شاید یہ ’’دیوالی‘‘ پر بھی ہاتھ صاف کریں!
(۷)بلاشبہ حدیث میں ’’جمعہ‘‘ کو مسلمانوں کی عید کہا گیا ہے (یعنی ہفتہ وار عید)۔ اور اس دن نہانے دھونے اور خصوصی اہتمام کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: قال رسول اللہ ﷺ: إنَّ ہٰذَا یَوْمُ عِیْدٍ جَعَلَہُ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِیْنَ، فَمَنْ جَاءَ إلَی الْجُمُعَۃِ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإنْ کَانَ طِیْبٌ فَلْیَمَسَّ مِنْہُ، وَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاکِ (رواہ ابن ماجۃ کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیہا رقم الحدیث ۱۰۹۸، البانی نے اسے حسن کہا ہے، دیکھئے: البانی کی صحیح ابن ماجہ رقم الحدیث ۹۰۱، نیز مشکاۃ پر البانی کی تخریج رقم ۱۳۹۸ ) ’’ابن عباس ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (جمعہ) اللہ نے مسلمانوں کے لیے روزِ عید بنایا ہے۔ پس جو شخص جمعہ کو آئے اُسے چاہئے کہ غسل کرے، خوشبو ہو تو وہ لگائے۔ اور دانت بھی ضرور صاف کرو‘‘۔
کسی نے ابن عباس ؓ کی یہ حدیث نہ بھی سنی ہو، اسلامی زندگی میں جمعہ کی مرکزی حیثیت ایک جاہل سے جاہل انسان کو بھی معلوم ہے۔ عالم اسلام میں صلیب کی پیش قدمی کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ عشرہ پیشتر یہاں کے ایک ’رائٹ ونگ وزیر اعظم‘ کی جانب سے مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل، جمعہ سے شفٹ کر کے اتوار پر لے جانا چرچ کی عالمی مہم برائے تنصیر campaign for Christianizing the world کے لیے ایک تاریخ ساز قدم تھا۔ یہ اقدام اِس ظالم شخص نے قوم سے اپنے پہلے ہی نشریاتی خطاب میں کیا، ساتھ (علمائے دربار کے تلقین کردہ) کچھ ’شرعی دلائل‘ سے بھی قوم کو مستفید فرمایا۔ یہی ’دلائل‘ بعد ازاں اُس کی اتحادی مذہبی جماعتوں کے پیروکاروں سے جگہ جگہ سنے گئے کہ ’قرآن حدیث سے دلیل دو کہ جمعہ کو چھٹی کرنی چاہئے‘! نیز یہ کہ سورۃ الجمعۃ میں تو یہ کہا گیا ہے کہ نماز پڑھ لو تو تلاشِ روزگار کے لیے زمین میں نکل کھڑے ہو‘۔ لہٰذا یہاں تو ’’کام کرنے‘‘ کا ذکر ہے
’’چھٹی‘‘ کا ذکر کہاں ہے‘؟ گویا دین کی اصل روح اِنہوں نے ہی سمجھی ہے! بہت خوب! تو پھر قرآن حدیث میں تو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی چھٹی کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے؛ لہٰذا یوں کرو کہ ’’قرآن حدیث‘‘ کی اِس سپرٹ کو صحیح صحیح قائم کرنے کے لیے عیدین کی چھٹی ختم کر کے ’’کرسمس‘‘ کی چھٹی رائج کردو!
ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے: یہ مقامی واقعات، تیزی کے ساتھ جاری ایک عالمی عمل کی بازگشت ہیں۔ عین اِس جگہ پر مسئلہ کو قرآن حدیث سے ’تعطیل‘ ثابت ہونے یا نہ ہونے کی طرف لے جانا ایک شاطرانہ ’مذہبی‘ حربہ ہے اور اپنی اصل کے اعتبار سے صرف علمائے یہود کو زیب دیتا ہے۔
صاف سی بات ہے، اپنے اِس دُوررَس اقدام سے اِس شخص نے ملتِ اسلام کے قلب میں صلیب کا اتنا بڑا خنجر گھونپا ہے کہ ’’تہذیبوں کے گھمسان‘‘ میں دشمن کو صدیوں کے حساب سے پیشرفت دلوادی گئی۔ اِن اشیاء کو سرسری لینا ظلم ہے۔ یہ شخص (بمعہ اپنے علمائے دربار) اگر اپنے اِس جرم کا دھونا نہیں دھوتا یا کم از کم اس کے لیے پریشان اور سرگرم نظر نہیں آتا تو دعا ہے کہ اللہ اس سے پوری ملتِ اسلام کا انتقام لے جس کو باندھ کر اور اس کے تہذیبی وجود کو بے بس کرکے اِس وقت ملتِ صلیب کے آگے ڈالا جارہا ہے۔
اب آئیے آیتِ سورہ جمعہ کی اصل دلالت کی جانب۔۔۔ آپ کو یاد ہو تو شروع کتاب میں امام ابن تیمیہ نے ’’مقاصدِ شریعت‘‘ کے حوالے سے یہ نکتہ بیان فرمایا تھا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے احکام میں جہاں ظاہری اشتراک ہو، وہاں بھی شریعت کی جانب سے کچھ نہ کچھ فرق کروا دیا جاتا ہے تاکہ دو ملتوں کے مابین لکیر کو گہرے سے گہرا کیا جائے۔ اب مثلاً؛ حیض کی حالت میں نماز روزہ اور مباشرت سے اجتناب ہردو شریعت کے اندر موجود ہے، مگر یہود کی سخت شریعت کے مقابل اسلام کی نرم شریعت میں یہ فرق کروایا گیا کہ یہود عورت کو حالت حیض میں بالکل الگ تھلگ کر دیتے ہیں مگر تم مسلمان گھل مل سکتے ہو، صرف حالت نماز و روزہ یا صریح مباشرت وغیرہ سے پرہیز ہے۔ بعینہٖ اسی طرح؛ جمعہ میں نماز کی پکار لگ جانے کے بعد سب اعمالِ دنیا کو معطل ٹھہرا دینا سورۃ جمعہ میں فرض ٹھہرا دیا گیا۔ ظاہر ہے یہود بھی اپنے سبت کو یہی حیثیت دیتے ہیں۔ یہ ایک ’’اشتراک‘‘ ہوا۔ لہٰذا اگلی آیت میں ہر دو شریعت کے مابین ایک ’’فرق‘‘ کروا دیا گیا اور وہ
یہ کہ یہود کے ہاں سبت کا پورا دن اعمالِ دنیا سے پرہیز کرنا ازروئے شریعت ضروری ہے (قرآن میں سبت کو مچھلیاں پکڑنے والوں پر عذاب کا ذکر تک آتا ہے)۔ مگر مسلمانوں پر یہ چیز پورا دن فرض نہیں ہے۔ اصولِ فقہ میں ایک معروف قاعدہ ہے کہ صیغۂ اَمر اگر ممانعت کے بعد آئے تو وہ اِباحت (جواز) کا فائدہ دیتا ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں اذانِ جمعہ ہوتے ہی ہرکام معطل کر دینے کا حکم ہوا، اب یہاں اعمالِ دنیا کی اجازت دے کر باقی دن کے لیے مسلمان کو آزاد کر دیا اور یہود کی شریعت سے امتیاز بھی۔ پس یہ ایک تخفیف کا ذکر ہے، نیز یہود کی شریعت سے ہماری شریعت کا ایک فرق۔ خصوصاً جبکہ آغازِ سورت میں ’’امیوں‘‘ اور ’’یہودیوں‘‘ کے مابین کچھ نہایت عظیم الشان فرق بیان کیے گئے ہیں۔
خود اِسی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم) میں ایک جگہ امام ابن تیمیہؒ اِس بات کو مذموم ٹھہراتے ہیں کہ یہود کی دیکھا دیکھی بعض مسلمان بھی یہود کے سبت کی طرح اپنے جمعہ کو دنیوی کام کاج کے لیے معیوب اور متروک بنانے لگے ہیں اور جوکہ ’’مشابہت‘‘ میں آتا ہے جبکہ ہماری شریعت نے صراحت کے ساتھ اِس مسئلہ پر یہود کی شریعت سے فرق کروایا ہے۔
یہ ہے حقیقت آیاتِ جمعہ میں اعمالِ روزگار کے اول ممنوع اور بعد از نماز جائز ہونے سے متعلق احکام کی۔ جس کی ایک بہت بڑی بنیاد اہل کتاب سے مشابہت ختم کرنا بھی ہے۔ کوئی اِس سپرٹ کو شدید حد تک قائم کرنے کے لیے ’’ہفتہ وار تعطیل‘‘ ہی کے تصور پر تنقید کرے تو بات سمجھ آتی ہے، کہ اِس شخص کو اہل کتاب سے مشابہت اِس حد تک ناگوار ہے۔ البتہ ’’تعطیل کا تصور‘‘ تو وہ ویسے کا ویسا لے کر چلے، مگر اُسے اہل اسلام کے خصوصی دن (اہل اسلام کی ہفتہ وار عید) سے اٹھاکر عیسائیوں کی ہفتہ وار عید پر لے جائے، تو ایسے ہی شخص کے لیے عربی میں بولا جاتا ہے فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَقَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا‘‘۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیچھے کوئی فقہی استدلال نہیں، بلکہ دنیائے حقیر کے بدلے آیاتِ خداوندی کو بیچنا ہے۔ دین سے نابلد ایک پرائم منسٹر کو سورۃ الجمعۃ سے دلیل سجھانے والے، اِس آیت پر پہنچنے سے پہلے اِسی سورت کے اِس مقام سے بھی گزرے ہوں گے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً
(۸)اِس مختصر اردو اِستفادہ میں ہم اِن فقہی تفاصیل کا ذکر نہیں کر سکیں گے