جس شخص پر غیر مسلموں کو کافر کہنا گراں گزرے
علامہ انور شاہ کاشمیریؒ
ماخوذ از: إکفار الملحدین
جو اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں کو کسی بھی وجہ سے کافر نہ کہے:
فرماتے ہیں:
’’اسی لیے (یعنی صریح اور مجمل علیہ نصوص میں تاویل و تحریف کرنے والے کی تکفیر کے یقینی ہونے کی وجہ سے)ہم ہر اس شخص کو بھی کافر کہتے ہیں جو اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو کافر نہ کہے، یا ان کو کافر کہنے میں توقف(وتردد) کرے،یا ان کے کفر میں شک وشبہ کرے،یاان کے مذہب کو درست کہے،اگرچہ یہ شخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو،اور اسلام کے علاوہ ہر مذہب کو باطل بھی کہتا ہو،تب بھی یہ غیر مذہب کو کافر نہ کہنے والا،خود کافر ہے، اس لیے کہ یہ شخص ایک مسلّم کافر کو کافرکہنے کی مخالفت کر کے خود اسلام کی مخالفت کرتا ہے، اور دین پر کھلا ہو طعن اور اس کی تکذیب ہے(مختصر یہ ہے کہ کسی بھی دین اسلام کے نہ ماننے والے کو کافر نہ کہنا،دین اسلام کی مخالفت اور تکذیب کے مترادف ہے،لہٰذا یہ شخص کافر ہے)۔‘‘
(اِکفَارُ المُلحَدِین صفحہ نمبر 221 )
اتمامِ حجت سے کیا مراد ہے؟
حضرت مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تصانیف میں تکفیر سے پہلے(منکرین پر)اقامتِ حجت کاجو تذکرہ فرماتے ہیں،اس سے مراد صرف ’’ادلہ‘‘واحکام شرعیہ کی تبلیغ ہے،(نہ کہ ان کو منوا لینا اور لاجواب کردینا) جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (جو کہ صفحہ 201 پر آتی ہے)’’فادعہ‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہے(کہ مرتدکو صرف اسلام کی دعوت دیناکافی ہے،اگر قبول نہ کرے تواس کو قتل کر دو) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خیبر کے یہودیوں کو صرف دعوتِ اسلام دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسی اکتفاتبلیغ پر’’اخبارالاحاد‘‘کے ذیل میں ایک باب قائم کیا ہے،حضرت مصنف فرماتے ہیں سورۂ انعام کی آیت کریمہ : ’’وَاُوحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْانُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَ مَنْ بَلَغَ‘‘سے بھی اس پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔
(اِکفَارُ المُلحَدِین صفحہ نمبر 232 )