شیخ عبد العزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ
الولاء والبراء کا مطلب ہے:
۔ محبت اور موالات؛ جوکہ مومنوں کے ساتھ ہو
۔ بغض اور معادات؛ جوکہ کافروں کے ساتھ ہو
۔ نیز ایک کھلی برأت جوکہ کافروں سے اور کافروں کے دین سے کر دی گئی ہو
یہ ہے: الولاء والبراء۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے سورۃ الممتحنۃ میں فرمایا ہے:
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَء اؤا مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ (الممتحنۃ: ۴)
تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ ہم نے تم سے کفر کیا۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ
البتہ اِس بغض و عداوت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان پر ظلم کریں یا ان کے ساتھ زیادتی کرنے لگیں؛ اِلا یہ کہ وہ ہمارے خلاف محارب ہوں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بطور مسلمان آپ ان سے ایک دلی نفرت اور عداوت رکھیں۔ وہ ہرگز آپ کے دوست نہ ہوں۔ اس کا یہ مفہوم بہرحال نہیں کہ تم ان کو ایذاء پہنچاؤ، یا ان کا کوئی نقصان کر کے آؤ یا اُن پر ظلم ڈھانے لگو! اگر وہ سلام کریں تو تم اس کا جواب دو۔ ان کو نصیحت اور آموزش کرو اور خیر کی راہ دکھاؤ؛ جیساکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ (العنکبوت: ۴۶)
اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر اس طریقے سے جو عمدہ ترین ہو، سوائے ان میں کے وہ لوگ جو ظلم و ناانصافی پر اتر آئیں
اِس آیت میں اہل کتاب کا ذکر ہوا ہے، جس سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں۔ یہی حکم اُن دیگر کفار کا ہو گا جن کو ہمارے یہاں سے کوئی امان یا عہد یا ذمہ حاصل ہے۔ ہاں اُن میں سے کوئی ظلم کرے تو اس ظلم کا بدلہ ان کو دیا جائے گا۔ بصورتِ دیگر اُن سے عقیدہ کا جھگڑا اور اختلاف محض اور محض عمدہ طریق سے ہی کیا جائے گا۔ جھگڑے میں عمدہ طریق اختیار کرنا مسلمان کے ساتھ بھی ہے اور کافر کے ساتھ بھی؛ باوجود اس کے کہ کافر کے ساتھ وہ بغض بھی برقرار رہے گا جس کا ذکر پیچھے آیتِ کریمہ کے اندر گزرا ہے۔ نیز اللہ رب العزت کا یہ فرمان:
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۵)
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ حکمت کے ساتھ اور عمدہ فہمائش کے ذریعے۔ اور ان سے جھگڑو صرف اُس طریقے سے جو عمدہ ترین ہو
چنانچہ باوجود اس کے کہ آدمی اُن کے ساتھ خدا واسطے کا بغض اور بیر رکھتا ہو گا (از روئے آیت سورۃ الممتحنۃ ۴) مگر ان پر کوئی ظلم اور تعدی پھر بھی نہیں کرے گا۔ مسلمان کے لیے یہی مشروع رہے گا کہ وہ ان کو اللہ کے راستے کی طرف بلاتا رہے۔ ان کو رشد و ہدایت کی تعلیم دیتا رہے کہ کیا بعید اللہ کسی دن ان کو راہ حق پر آنے کی توفیق عطا فرما دے ۔ اس چیز میں بھی شریعت کے اندر کوئی مانع نہیں کہ آدمی اُن کے ساتھ صدقہ و احسان کرے؛ از روئے فرمانِ الٰہی:
لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنۃ: ۸)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتل بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا ۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
مزید برآں، صحیحین میں یہ حدیث ثابت ہے کہ نبی ا نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ (مکہ سے آئی ہوئی) اپنی ماں کے ساتھ صلہ کا برتاؤ کرے، اور یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب نبی ا اور اہل مکہ کے مابین متارکۂ جنگ کا ایک معاہدہ (صلح حدیبیہ) ہو چکا تھا۔
اصل مضمون کا ویب لنک:
http://www.ibnbaz.org.sa/mat/1764