عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, November 23,2024 | 1446, جُمادى الأولى 20
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Radd-e-Kufr آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ردِّ کفر ’’وَتَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ‘‘
:عنوان

ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف


ہر دور اپنے ساتھ مخصوص فکری اَھواء intellectual whims لے کر آتا ہے جو عقول پر وائرس کا اثر رکھتی ہیں(۱) ۔ اِس میں سب سے پہلے آپکی نگاہ متاثر ہوتی ہے اور پھر ہر چیز اپنے زمانے کے مخصوص رنگوں میں نظر آنے لگتی ہے؛ اور کسی کسی وقت تو کتاب و سنت کے مدلولات میں بھی آپ ’اپنے زمانے کے تقاضے‘ پڑھنے لگتے ہیں!

یہ سب ہولناک وبائیں اِس بہتات سے ہمارے ہی دور میں کیوں پھوٹ پڑیں؟

اس کا جواب بہت سادہ ہے: ہمارے گھر کی جو ایک دیوار تھی اُس کے تھوڑے تھوڑے حصے تو بڑی دیر سے منہدم ہو رہے تھے مگر اب دو ڈھائی صدی ہونے کو ہے یہ دیوار ہی دھڑام سے آگری ہے؛ جس سے اِس کی چھت بھی جاتی رہی۔ اب ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جہاں ہر طرح کے موسمی حالات ہم پر حملہ آور ہونے کا سو فیصد موقع پاتے ہیں؛ جس کا سب سے زیادہ اثر ہمارا دانشور طبقہ قبول کرتا ہے۔ اِس مسئلہ کی اصل تشخیص بس اتنی ہے۔ باقی سب کچھ؛ اِس کی علامات symptoms کہئے۔ کتاب و سنت میں ہر طرف ’سوشل ازم‘ کا نظر آنا، پورا دینِ اسلام ’جمہوریت‘ کی دہائی دیتا نظر آنا، جگہ جگہ ’سیکولر ازم‘ کے دلائل دکھائی دینا، نصوصِ شریعت میں جابجا تقاربِ ادیان Interfaith Rapproachment کے ثبوت نظر آنا اور قرآن کے ذکرکردہ ’’کلمۃٌ سواءٌ‘‘ (۲)کو بھی اُسی ’مذہبی ہم آہنگی‘ والی تفسیر میں دیکھنا جو مستشرقین کے ڈیسک پر تیار ہوئی۔۔۔ یہ سب کچھ اِس مریض کی کچھ دکھتی ہوئی جگہیں ہیں۔ یہ اِس جان لیوا عارضہ کی محض کچھ علامات ہیں۔ اصل روگ پیچھے ہے اور وہ یہ کہ اِس امت کا گھر ڈھ گیا ہے اور فی الوقت یہ کھلے آسمان تلے بیٹھی ہے؛ جہاں کوئی ادنیٰ ترین موسمی تبدیلی بھی اِس پر اثرانداز ہوکر رہتی ہے۔۔۔ جس کا اثر آپ کبھی ایک صورت میں دیکھتے ہیں تو کبھی دوسری صورت میں!

یہ اصل روگ جب تک باقی ہے، مریض کا ایک کافی شافی علاج کر دینا تو سمجھئے کسی کے بس میں نہیں۔ ’حفاظتی تدابیر‘ نارمل حالات میں کارگر رہتی ہیں۔ البتہ اگر آپ کو پہلے سے ہی ایک غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے تب تو ایک بڑی آفت اپنا اثر دکھاکر رہتی ہے۔

حالات انتہائی نارمل ہوں تو بھی آپ کو ’’تحفظ‘‘ کی ہر صورت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ البتہ جب آپ ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوں، پھر تو یہ چیز ناقابل تصور ہوتی ہے کہ آپ اپنی ذات یا اپنے پیاروں کے تحفظ سے لاپروا ہو جائیں۔ البتہ جہاں تک موسمی وباؤں سے ’’تحفظ‘‘ immunization کا سوال ہے، تو وہ ایک ہی ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جس کا پیش لفظ أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار ایسے سرمدی الفاظ سے عبارت ہے۔ یعنی ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتی بات پر شدید درجے کا چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ یہ ایک ایسا کمال کا تحفظ immunization ہے کہ ’موسم‘ خواہ کتنا ہی بے رحم ہو لے، اور کیسی ہی مہلک وبائیں کیوں نہ پھوٹ لیں، استشراق کی لیب سے کیسے ہی خطرناک وائرس تیار ہوکر کیوں نہ نکل آئیں.. جس جس نے یہ حفاظتی عمل immunization کروارکھا ہو وہ اللہ کے فضل سے مکمل طور پر محفوظ رہتا ہے اور ’زمانے کے اثرات‘ اِس چٹان سے ٹکرائیں تو اپنا ہی سر پھوڑتے ہیں۔ پس کچھ عجب نہیں کہ یہ حفاظتی نسخہ immunization آپ کو ہر خطبے اور ہر مجلس میں دیا جائے اور اہل اسلام کی ہر تقریب اس کے بغیر ادھوری سمجھی جائے!

اِس وقت جو فتنہ کالی آندھی کی طرح چڑھا آرہا ہے وہ ہے مسلمان کی زندگی میں ’’دین‘‘ کی مرکزیت کو ختم کر دینا۔ سیکولرازم ہے تو وہ اس فتنہ کا محض ایک شیڈ shade ہے۔ نیشنلزم ہے تو وہ اسی فتنہ کا ایک دوسرا شیڈ ہے۔ اور اب یہ ’مذہبی ہم آہنگی‘ Inter-faith Harmony کی عالمی رَو ہے جوکہ بڑی تیزی کے ساتھ عالم اسلام کا رخ کر رہی ہے۔۔۔ تو یہ عین اسی فتنہ کا ایک تیسرا شیڈ ہے۔ یہاں ایک ایسی دنیا تعمیر کی جارہی ہے جہاں ’’دین‘‘ رہے تو اپنی ایک حاشیائی حیثیت میں اور معاشرے کے کونوں کھدروں میں پڑا رہنا قبول کرتے ہوئے۔ ’’دین‘‘ نہ تو انسان کی دوستی دشمنی میں جھلکے ، نہ ’’دین‘‘ انسان کی مرکزی ترین اجتماعی شناخت ہو، نہ ’’دین‘‘ انسان کے قومی و اجتماعی سیٹ اپ کا اساسی جوہر ہو، اور نہ ’’دین‘‘ انسان کی اجتماعی زندگی میں شریعت اور قانون کا درجہ پا کر رہے۔ مالکِ کائنات کی آسمانوں میں جو بھی شان ہے اور عبادت خانوں میں اُس کا جوبھی مقام ہے، برسرزمین __ معاذ اللہ __ اُس کی یہ حیثیت نہیں کہ دنیا اِس بنیاد پر تقسیم ہو کہ کون اُس کا مومن ہے اور کون اُس کا کافر؛ کون اُس کو معبودِ لاشریک مان کر اپنی پوری دنیا کو اُس کے آگے جھکادینا قبول کرتا ہے اور کون اُس کی زمین میں اُس کے ہمسر اور اُس کے مدمقابل لا کھڑے کرتا ہے۔ سب رشتوں اور بندھنوں کا سرچشمہ اُسی کی ذات ہو اور انسانی اجتماعیت اُسی کے لیے محبت اور اُسی کے لیے بغض، اُسی کے لیے دوستی اور اُسی کے لیے دشمنی کا دم بھرے، اُسی کے لیے ٹوٹنے اور اُسی کے لیے جڑنے کے قاعدہ و اصول پر استوار ہو اور صرف اُسی کی شریعت پر قائم۔۔۔ ایسے ’’دین‘‘ کے لیے اُن کے اِس مجوزہ جہان میں کوئی جگہ نہیں۔ اس کو ہمارے یہاں سے رخصت کروا دینے کے لیے اب وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اور اِس جنگ میں ہر حد سے گزر جانے پر آمادہ ہیں۔

دوسری جانب، انبیاء ہمیں جس ’’دین‘‘ کا پتہ دے گئے وہ اُس وقت تک وجود میں ہی نہیں آتا جب تک آدمی ملتِ کفر سے بیزاری نہ کر دے اور جب تک اللہ لاشریک کی عبادت کو اور اُس کے رسول سے اٹوٹ وابستگی اور اُس کی شریعت کے مطلق اتباع کو اپنی زندگی اور اپنے اجتماع کی واحد بنیاد نہ مان لے:

’’انبیاء‘‘ کی بعثت کے ساتھ ہی جہان میں دو ملتیں وجود میں آجاتی ہیں اور دونوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی عداوت۔ سب دوریاں اور ہجرتیں اِسی ایک چیز کی پیداکردہ ہوتی ہیں؛ کوئی ’حقوق‘ کا مسئلہ اور نہ ’محرومیتوں‘ کی کہانی۔ صرف اور صرف۔۔۔ ’’عبادۃُ اللہ وحدہٗ‘‘ اور ’’عبادتِ غیر اللہ‘‘ کا مسئلہ اِن دونوں کے بیچ ایک لکیر کھینچتا ہے اور پھر یہ لکیر تاقیامت انمٹ ہوتی ہے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، یہ لکیر اپنی جگہ رہتی ہے۔ توحید کی قاموس نسلِ آدم کے مابین ’’سرحد‘‘ کا کوئی معنیٰ اور مفہوم بتلاتی ہے تو وہ بس یہی۔ ’’سرحد‘‘ کا یہ وہ تصور ہے جو آج ایک بڑی سطح پر غائب ہے (کیونکہ توحید کا مجرد علم ہی ایک بڑی سطح پر آج مفقود ہے) اور جوکہ باقی سب لکیروں کو ملیامیٹ کر دینے کے بعد ہی اَذہان میں جگہ پاتا ہے۔ ’’نبی کی بعثت‘‘ ایک باہم شیروشکر قوم کی زندگی میں ایسے ہی ایک ’’نئے‘‘ واقعے کو جنم دے ڈالنے کا نام ہے: ایک ہی قوم، ایک ہی دھرتی کے فرزند، ایک ہی سانجھی معیشت اور معاشرت اور مشترکہ مفادات کے حامل ’ہم وطن‘۔۔۔ نبی کی بعثت کے ساتھ ہی دو متوازی ملتوں میں بٹ جاتے ہیں؛ ان میں ہمیشہ کے لیے جدائی پڑ جاتی ہے اور دونوں کے مابین ایک کھلے بیر اور عداوت کا رشتہ جنم لے لیتا ہے۔۔۔ تاآنکہ اِس عمل کے نتیجے میں ایک بالکل نیا اور یکسر مختلف جہان وجود میں آتا ہے جس کو ’’دار الاسلام‘‘ (اسلام کے گھر) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی وطن تھا سو وہ بدلا۔ قومیت تھی سو وہ کچھ سے کچھ ہو گئی۔ اجتماعی شناخت تھی سو وہ بالکل اور ہو گئی۔ شریعت تھی سو اَب وہ بالکل اور ہے۔ دستور تھا سو وہ دفن ہوا (۳)اور اب بالکل ایک نیا دستور ہے اور ان دونوں میں نام کو بھی کوئی خلط نہیں۔ اِس نئی اجتماعیت میں دوسری ملت کے لیے کوئی گنجائش ہے تو وہ ’’ذمی‘‘ کی حیثیت میں؛ ایک ایسی ’کیٹگری‘ جو آج کفار کو ہی نہیں بہت سے مسلمانوں بلکہ داعیانِ اسلام کو حیرت زدہ کرتی ہے! اِس نئی اجتماعیت کو دَارِ اسلام کہتے ہیں.. اور دَورِ اسلام بھی۔ اِسی کو اسلامی کیلنڈر اور اسلام کی حیاتِ اجتماعی کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے، جبکہ اِس سے ماقبل جو اجتماعیت پائی جاتی تھی اُس کے لیے صرف ایک لفظ ہے: دَورِ جاہلیت۔ اور اِس سے باہر جو اجتماعیت ابھی تک پائی جا رہی ہے اُس کا صرف ایک وصف ہے: دَارِ جاہلیت۔ محمد ا کا جہان میں مبعوث ہونا ایک مسلمان کے لیے یہ سب دلالتیں ساتھ لے کر آتا ہے؛ اور اِن دلالتوں کو مانے بغیر اپنے آپ کو محمد ا کا حلقہ بگوش جاننا اور محض آپ ا کی سیرتیں اور نعتیں پڑھ آنے کو آپ ا سے وابستگی کے لیے کافی خیال کرنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ملتِ شرک سے بیزاری دکھانا.. نہ صرف بتوں سے بلکہ بتوں کی عبادت کرنے والوں سے نہ صرف عداوت کرنا بلکہ اِس عداوت کو باقاعدہ ریکارڈ پر لے کر آنا اور اس کے مقابلے میں صرف اہل توحید سے اپنی وفاداری اور وابستگی کو ہی اپنی پہچان اور اپنی اجتماعیت کی بنیاد ماننا۔۔۔ یہی ملتِ ابراہیم ؑ ہے؛ یعنی ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ کے اس طریقے سے جو اُس ؑ نے خدا کی فرماں برداری میں ملتِ شرک کے مدمقابل اختیار کیا تھا بے رغبتی برتنے والے ’نیکوکار‘ جو خدا کو محض ایک ’مجموعۂ عقائد‘ اور ایک ’مجموعۂ اَخلاق‘ اور ایک ’مجموعۂ عبادات‘ کے ذریعہ سے ہی راضی کرلینے پر مصر ہوں، اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔

وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ (البقرۃ: ۱۳۰)

’’اور کون ہے جو ملت ابرہیم ؑ سے اعراض کرے، سوائے یہ کہ اپنے آپ ہی کو بے وقوف بنائے‘‘

قَالَ أَفَرَءَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُمُ ٱلْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّۭ لِّىٓ إِلَّا رَبَّ ٱلْعَلَمِينَ ٱلَّذِى خَلَقَنِى فَهُوَ يَهْدِينِ وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ ‏وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ ‏وَٱلَّذِىٓ أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِى خَطِيٓـَٔتِى يَوْمَ ٱلدِّينِ

(الشعراء: ۷۵ ۔ ۸۲)

ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔ جو مجھ کو کھلانے اور پلانے والا ہے اور جب بیمار پڑوں تو مجھ کو شفایاب کرنے والا۔ اور جو مجھ کو مارنے اور جِلانے والا ہے۔ اور جس سے میری یہ طمع وابستہ ہے کہ روزِ جزا وہ میری خطائیں بخش دے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِ إِنَّنِیْ بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَإِنَّہُ سَیَہْدِیْنِ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ

(الزخرف: ۲۶۔۲۸)

جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا: میں بیزار ہوا ان تمام ہسیتوں سے جنہیں تم پوجتے ہو، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے۔ اِسی چیز کو ابراہیم ؑ اپنے پیچھے باقی رہنے والا کلمہ بناگیا، تاکہ وہ (بعد والے) اس کی طرف لوٹ آتے رہیں۔

وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ وَأَدْعُو رَبِّیْ عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاء رَبِّیْ شَقِیّاً (مریم: ۴۸)

میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اُنہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا (ترجمہ جوناگڑھی)

قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ہَدَانِ (الانعام: ۷۸۔۸۰)

ابراہیم ؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! میں بیزار ہوا ان سب چیزوں سے جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں اپنا رخ سونپتا ہوں اُس ہستی کو جس نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دیا، ایک اُسی کا ہو کر، اور اب میں مشرکوں کا حصہ نہیں۔ یہاں؛ اُس کی قوم اُس سے الجھ پڑی۔ ابراہیم ؑ نے کہا: کیا تم مجھ سے الجھتے ہو اللہ رب العزت (کے حق) کے بارے میں؟ حالانکہ اُس نے مجھے راہِ راست دکھلا دی ہے..

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌۭ فِىٓ إِبْرَهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ

(الممتحنۃ: ۴)

تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ کفر کیا ہم نے تم سے۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ (۴)

بہت کم حجاجِ کرام ہوں گے جو پورے شعور کے ساتھ خدا کے اُس ’’گھر‘‘ کا طواف کر کے آتے ہوں جس کی تعمیر کی کہانی میں ایک ’’بت خانے‘‘ کے ڈھائے جانے کا ذکر اِس گھر کی تعمیر سے پہلے آتا ہے! وہ حجاجِ کرام جو ہزاروں میل کا سفر توحید کے اُس قدیم ترین مرکز کی زیارت کے لیے اختیار کرتے ہوں اور اس میں پائی جانے والی ایک ایک یادگار (مشاعر) پر مناسک ادا کرکے آتے ہوں جو شرک کی ایک دنیا کو خیرباد کہہ دینے کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا.. اور جوکہ ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ ایسے کچھ کلمات کا ہی ایک زندہ اور جیتا جاگتا ترجمہ تھا۔ اور پھر اس سے تین سو میل کے فاصلے پر ایک اور مقدس شہر: جس کی تاسیس کا کوئی اور سبب بیان ہونے میں نہیں آتا سوائے توحید اور شرک کی اُس لڑائی کے جو سید البشرﷺ کے اپنی قوم، قبیلہ، ملک اور دھرتی سے ناطہ توڑ لینے.. اور اُس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ایک پردیس کو ہی اپنا دیس قرار دے لینے.. نیز اِسی ’’پردیس‘‘ کو اپنے ملکی وقومی رشتہ داروں کے خلاف جہاد کا بیس کیمپ بنا لینے کا موجب ہوئی تھی۔۔۔؛ وہ زائرین جو اِس شہر سے جس کو ’یثرب‘ کہنا متروک ہوچکا، ’’مدینہ‘‘ اور ’’تمدن‘‘ اور ’’اجتماع و عمران‘‘ کے کچھ برگزیدہ آسمانی مفہومات لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں!

*****

آج ہمارے ہاتھ سے ہماری اُس قیمتی ترین متاع کو جو ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوتی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں انبیاء کے کیمپ کا بلاشرکتِ غیرے وارث اور امین بناتی اور ہمیں معیتِ خدواندی کا استحقاق دیتی اور نصرتِ خداوندی کا امیدوار ٹھہراتی ہے، ہمارے ہاتھ سے چھین لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ اِس ہدف کو مختصرترین وقت میں حاصل کرنے کے لیے ناقابل اندازہ وسائل جھونک دیے گئے ہیں۔ ’تعلیم‘، ’ابلاغ‘، ’ذہن سازی‘ اور ’تہذیبی روّیوں کی تشکیلِ نو‘ کے نام پر آج ہمارے گھر میں ہزاروں چور گھس آئے ہیں۔ (۵)آپ ہی سوچئے، اِس گھر کے پاسبان ہمارے اہل علم و دانش کے سوا کون ہو سکتے تھے جو قرآنی ہتھیاروں سے کام لے کر ہمارے گھر میں ہونے والی اِس ابلیسی واردات کے آڑے آتے؟ کسے معلوم نہیں، ہمارے یہ پاسبان اگر جاگ رہے ہوتے تو چور یہاں پر کامیابیوں کے جھنڈے نہ گاڑتے۔ ہمارے حاملینِ قرآن چاہے کچھ نہ کرتے اپنی پرہیبت آواز سے ماحول کو صرف خبردار رکھتے تو چوروں کو یہاں ایک حیران کن مزاحمت ملتی۔ یہ بیدار ہوتے تو امت بیدار ہوتی اور تب ہر چوک اور چوراہے پر یہاں چوروں کی شامت آئی ہوتی۔ اِس عظیم الشان امت کو کمی ہے کس چیز کی، سوائے ’’جاگتے رہو‘‘ کی گونج دار آوازوں کے؟! حق تو یہ ہے کہ خود چور ہی جوکہ حد سے بڑھ کر سمجھدار ہیں اور ’شماریات‘ میں طاق، اِس گھر کا رخ نہ کرتے اگر اُن کی اپنی ’تحقیقات‘ نے اُن پر واضح نہ کر دیا ہوتا کہ اِس گھر کے محافظ خوابِ خرگوش میں مست ہیں؛ ایک ایسا نایاب و ناقابل یقین موقع جو اِس بابرکت گھر میں نقب زنوں کو شاید ہی کبھی نصیب ہوا ہو!

مگر حق یہ ہے کہ یہ ’’موقع‘‘ جو اُن کو آج دستیاب ہے، اِس سے کہیں بڑھ کر گھناؤنا اور تشویشناک ہے۔۔۔

اِس سے پہلے بھی شاید بہت بار ایسا ہوا ہو کہ ہمارے مسلم داعی اور ہماری اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مضمحل اور غیرفعال ہو گئی ہوں اور نتیجتاً؛ وقت کے چیلنج پر پورا نہ اتر پارہی ہوں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ہمارے مسلم داعی اور مسلم تحریکیں بیرونی حملہ آوروں کے ایجنڈا میں ہی ’’اپنے لیے مخصوص جگہ‘‘ تلاش کرنے نکل کھڑی ہوئی ہوں۔ ایسا بہت کم ہوا ہو گا کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کا ترجمان طبقہ ہی باطل کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہونے لگا ہو۔۔۔ آج ہمارا بحران درحقیقت اِس حد کو چھو چکا ہے۔

پس یہ ایک دہرا نہیں بلکہ تہرا چیلنج ہے۔ صرف اتنا نہیں کہ آپ یہاں کے اُن طبقوں کو جگائیں جنہیں قوم کو جگانا تھا؛ آج نوبت یہاں پہنچی ہوئی ہے کہ۔۔۔: وہ طبقے جنہیں اِس قوم کو جگانا تھا، پہلے آپ انہیں باطل کے نظریاتی چنگل سے آزاد کروائیے! ایک عرب موحد عالم نے بڑی دیر پہلے یہ دکھ بھرا جملہ کہا تھا کہ: آج ہمارا داعی طبقہ ہی سب سے بڑھ کر دعوت کا ضرورت مند ہے!

وائے ناکامی!

تو پھر آج یہ صورت حال ہے کہ: اِس گھر کے بہت سے محافظ، وارثانِ دین و دانش خود اِس واردات ہی کا حصہ بنائے جا چکے۔ دین اسلام کی حقیقت پر مٹی ڈالنے کا کام یوں بھی ان کی مدد اور تعاون کے بغیر عالم اسلام کے اندر کیونکر تکمیل پاسکتا ہے۔۔۔؟

ایسی انہونی واردات ہم نے اپنی پوری تاریخ میں بھلا کب دیکھی تھی!

*****

دنیا جانتی ہے، نظریاتی سطح پر اِس وقت عالم اسلام میں دشمن کے دو بڑے پراجیکٹ ہیں:

ایک: دین اسلام کی حقیقت کو دھندلا کرنا، خاص طور پر کفر و اسلام کے فرق کو ملیامیٹ کرنا؛ (وہ جانتے ہیں، یہاں سے بے شمار مسائل کا خود ہی گھونٹ بھرا جائے گا، خصوصاً مسلمانوں کے تصورِ جہاد کا)۔ ’’بین الملل رواداری‘‘ کی تحریک سمجھئے اس کا ہراول ہے۔ اس سے پچھلی صف میں ’’فکرِ ارجاء‘‘ کے تہہ در تہہ غول کھڑے ہیں جو کچھ نہایت ’علمی بنیادوں‘ پر مسئلہ ایمان و کفر کو ’خوارج‘ کا کھڑا کیا ہوا ایک فتنہ ثابت کریں گے (ورنہ صوفیہ نے کہاں کبھی ’’مسلم‘‘ اور ’’کافر‘‘ کا فرق کیا تھا!)، پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!

دوسرا: مسلمانوں کو ان کے عقائدی و فقہی مسلمات سے برگشتہ کرانا۔ شریعت کے فہم و تعبیر کے سلسلہ میں مسلمان جس طرح قدم قدم پر ’’پیچھے‘‘ مڑ کر دیکھتا ہے.. ’آئین نو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پہ اڑنے‘ کی ایک ذہنیت جو اِس میں خواہ مخواہ کہیں سے آکر بیٹھ گئی ہے، اس سے عالم اسلام کو اب نجات دلوانا۔ اِس ’اینلائٹنمنٹ‘ کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں اب وہ ہر کسی کو سمجھ آتے ہیں: کچھ علمی پیمانے اور فقہی دستور جو مسلمانوں کے یہاں چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور اُن کے مجوزہ ’جہانِ نو‘ کی راہ میں ہمالیہ کی طرح حائل ہیں، اب ناقابل برداشت ہیں؛ اور ان کو لازماً متروک ٹھہرایا جانا ہے۔ (عالم اسلام میں اصل تصرف!) البتہ وہ دیدہ دلیر طبقے ابھی یہاں بہت تھوڑے ہیں جو منہ پھاڑ کر کہہ دیں کہ اپنے فقہاء و محدثین کے ہاں اگر کچھ اصول اور قواعد طے پا گئے اور صدیوں چلتے رہے تو بھی ان کی کیا حیثیت ہے ہم تو دین کے ہر ہر مسئلہ کا فائل ہی آج ازسرنو کھولیں گے اور اس کے لیے سب اصول ہم خود ہی وضع کریں گے (اپنے فقہی ورثے کو چیلنج کرنے والا طبقہ) اور جبکہ دشمن کی اصل امیدیں ہمارے اِسی دیدہ دلیر طبقے سے وابستہ ہیں، البتہ اِس ہونہار بروا کے جوان ہونے کا انتظار مشکل ہوا جاتا ہے۔ تاہم ایک بڑی تعداد یہاں ایسی ہے جو اپنی فقہی روایات کے ساتھ ’’تصادم‘‘ کی بجائے ان کو ’’نظرانداز‘‘ کر دینے کی روش پر ہے؛ لہٰذا اِس طبقہ کے ذریعے بھی فی الحال یہ کام نکالا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسے جدید نظائر new precedents یہاں پر جاری کروا لیے جائیں اور کچھ ایسے بے نظیر رجحانات unprecedented trends اور انوکھی روایات first-time practices کو فروغ دلوا لیا جائے جن سے یہ امت چودہ سو سال ناواقف رہی ہے، جبکہ یہ سب جدید نظائر اور یہ سب بے نظیر رجحانات اور یہ سب انوکھی روایات اُن کے اس مجوزہ جہان کی ہی تشکیل کررہی ہوں!۔۔۔ ہاں، البتہ اُس فریق کے ساتھ ایک کھلی جنگ.. جو ہر قول کے لیے متقدمین کے نظائر ڈھونڈتا پھرے ، جو امت میں پہلے سے طے شدہ مسائل کے فائل آج نئے سرے سے کھولنے پر معترض ہو، اور جو امت کو قرونِ سلف سے چلے آنے والے علمی دساتیر کی پابندی کروائے.. اور سب سے بڑھ کر؛ جو دنیا کو ’’کفر اور اسلام‘‘ کا فرق بتائے۔ یہ طبقہ تو بلاشبہ گردن زدنی ہے! ’’وھابیت‘‘ اور ’’سَلَفِیت‘‘ سے بڑھ کر بھلا اِس دور میں کیا جرم ہوسکتا ہے!

آپ تسلیم کریں گے۔۔۔ یہ دونوں پراجیکٹ ایسے ہیں جن میں دینی طبقوں کا پورا پورا تعاون درکار ہے! صرف عدمِ مزاحمت نہیں۔۔۔ بلکہ باقاعدہ تعاون! سیاستدان، ڈپلومیٹ، تعلیم کار، میڈیا، سب اپنی اپنی جگہ اہم ہوں گے مگر ’مذہبی قیادتوں‘ کی اپنی ایک برکت ہے؛ اور یہ ’مذہبی خانہ‘ کسی اور کے پر کرنے کا نہیں!

آپ اس بربادی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اندھادھند وسائل کے مالک ادارے، این جی اوز اور قونصل خانے آج ہمارے مولویوں اور مذہبی پیشواؤں کی قدرافزائی کی جانب متوجہ ہو جائیں!

حضرات! یہ واقعہ عملاً ہو چکا ہے اور مسلسل رُو بہ ترقی ہے۔ آنے والے سالوں میں اب آپ اِس کے ثمرات دیکھنے والے ہیں!

فاللّٰہم لا تقتلنا بغضبک، ولا تہلکنا بعذابک، وعافِنا قبل ذٰلک۔

*****

یہ منظرنامہ اگر آپ پر واضح ہے۔۔۔ تو اِس وقت یہاں مقبول کروایا جانے والا ایک ایک ’’نیا رجحان‘‘ اہم ہو جاتا ہے۔ ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا آپ کے حق میں نہایت کافی اور کاری ہوتا ہے؛ کہ کیا بعید دشمن وہاں سے جو راستہ بنائے وہ آپ کے باقی سب محاذ الٹ کر رکھ دے۔ وہ کوئی انتہائی ناعاقبت اندیش سپہ سالار ہو گا جو یہ طرزِفکر رکھے کہ ’صرف ایک محاذ چلا جانے سے کیا فرق پڑتا ہے‘! اور یوں وہ اپنے سب محاذ ’ایک ایک‘ کر کے دشمن کو دیتا چلا جائے! (ذرا دو سو سال پیچھے نگاہ دوڑا کر دیکھئے؛ آپ کیا کیا کچھ دے آئے ہیں؛ اور اپنے ’ہنوز دلی دور است‘ والے اس طرزِ فکر کا جائزہ لیجئے، جس کی رُو سے ہر بار ’’اِتنا سا‘‘ دے دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہوتا! اور جس کی رُو سے کسی ایک ہی ایشو کو ’’بڑھا چڑھا دینا‘‘ ایک معیوب روّیہ ہے!)۔۔۔ جہاں آپ کو ایسے سپہ سالار نصیب ہوں وہاں دشمن شدید بے وقوف ہوگا اگر سب کچھ آپ سے ایک ہی بار طلب کرے؛ جبکہ ہمارا دشمن بے وقوف نہیں ہے! وہ ایک ہنڈیا کو دھیمی آنچ پر پکانا خوب جانتا ہے اور اگر آپ نظر اٹھاکر دیکھیں تو وہ یہاں اپنے پکوانوں کا ایک عظیم بازار سجا چکا ہے۔ جبکہ ہم اپنے اُسی منہج پر قائم کہ ہم اِن بدیسی اشیاء کو ایک پیکیج کے طور پر کبھی نہ لیں گے بلکہ pick & chose کا وہ ’زریں اصول‘ ہی لاگو رکھیں گے جس نے چند عشروں میں اِس گھر کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’حکومتی اقدامات‘ کا رونا اب بہت پیچھے رہ گیا؛ یہاں ہمارا وہ سماجی فیبرک تار تار ہو چکا جس سے آج تک ہم نے اپنا تن ڈھانپا تھا! کہاں وہ وقت جب اِس گھر کے گر جانے پر ہمارا آہ و گریہ نہ تھمتا تھا؛ اور کہاں یہ وقت کہ اپنی تن برہنگی کا رونا رونا خبط اور انتہاپسندی ہے! فإلی اللہ المشتکیٰ

اِس پر دشمن سے زیادہ اپنے اس منہج کو داد دینا بنتا ہے جو اپنی تہہ میں ’مرحلہ در مرحلہ پسپائی‘ کا پورا ایک پروگرام رکھتا ہے اور جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ’’شکست‘‘ کے ہر بیدارکن جھٹکے سے یہ قوم کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے!

*****

ایک ایک محاذ پر ڈٹ جانے کی رِیت البتہ ہمیں آج بھی زندہ کر سکتی ہے؛ خصوصاً عقیدہ کے محاذوں پر؛ جوکہ ہماری زندگی کا اصل راز ہے اور دشمن کو مات دینے کا اصلی اور یقینی نسخہ۔ اور اب تو ہمای جنگ کا اصل میدان۔ جس میں اگر ہم ثابت قدم رہ کر دکھا دیں تو ان شاء اللہ ہماری فتح یقینی ہے:

ادْخُلُواْ عَلَیْہِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ

’’عقیدہ‘‘ کے محاذوں پر رباط(۶) آج سب سے بڑھ کر ضروری ہے۔ جس کا ایک ایک مورچہ اِس وقت خطرے میں ہے؛ اور جس کا ایک ایک میدان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے!

اِس محاذ پر مسلسل پسپائی آج ہمیں اِس مقام پر لا چکی ہے کہ شرک کے تہواروں پر صرف کیک ہی نہیں کاٹے جارہے، بلکہ اِس پورے معاملے میں ہمیں اپنے چودہ سوسالہ دستور سے ہٹ کر ایک ’نئے اجتہاد‘ کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی ہے، بلکہ کچھ لوگ ہمت کر کے گول مول الفاظ میں ’’لا حَرَج‘‘ کے راگ الاپنے بھی لگے ہیں؛ کہ جانتے ہیں باطل کو اپنا آغاز کرانے کے لیے ایک گول مول اسلوب ہی بہت کافی ہوتا ہے؛ ’وقت‘ ایک ایسا بے رحم فیکٹر ہے کہ ہر ’گول مول‘ خودبخود ’’سپاٹ‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابھی یہ رونا ’جدت پسندوں‘ کا نہیں بلکہ روایات کے محافظ طبقوں کا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ’پیچ ڈھیلے کرنے‘ کا کام کس سطح پر جا پہنچا ہے!

*****

ہر راستہ اپنے کھلنے کے لیے ایک جہاد اور ایک اجتہاد چاہتا ہے۔ اِس کے لیے درکار عملی محنت کو آپ ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں اور ذہنی محنت کو ’’اجتہاد‘‘۔ آپ راہِ حق میں ہوں تو ’جہاد‘ اور ’اجتہاد‘ آپ کی ضرورت ہوتے ہیں راہِ باطل میں ہوں تو یہ ہردو آپ کی ضرورت رہتے ہیں۔ یعنی، یہ آپ پر ہے کہ کس راستے میں آگے بڑھنے کے لیے آپ کو ’جہاد‘ اور ’اجتہاد‘ کرنا ہے۔ یہ ’’سعی‘‘ کی دنیا ہے؛ جہاں اِس ہردو محنت کے بغیر نہ حق راستہ کھل کر دیتا ہے اور نہ باطل۔

یہاں سے آپ پر اُس ’اجتہاد‘ کی حقیقت کھلتی ہے جس کا تقاضا اِس وقت آپ کا ’’دین‘‘ نہیں بلکہ ’حالات‘ اور ’ضرورتیں‘ کروا رہی ہیں۔۔۔ اور جس میں آگے بڑھتے وقت آپ ہربار ایک داخلی خلجان سے گزرتے ہیں!

آپ کی الجھن آج یہ ہوگئی ہے کہ: وہ راہ ہی جس پر آپ قدم رکھ چکے (۷)اپنی انتہائی صورت میں باطل کے گھر جاتا ہے ۔ آپ کی اِس راہ کو بند کرنے والا خود آپ کا دین ہے۔ پس یہاں آپ کو جس ’اجتہاد‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفردترین اجتہاد ہے۔ یعنی آپ کا ’’دین‘‘ ایک راہ کو باربار آپ پر بند کرے گا اور آپ کو ’اجتہاد‘ کی مدد سے اسے باربار کھولنا ہوگا!

اِس کا پائیدار حل یا تو یہ ہے کہ آپ اُس راستے سے جان چھڑا لیں جو اپنی انتہائی صورت میں آپ کو باطل کا پیروکار بناتا ہے۔۔۔ اور یا پھر اِس دین سے جان چھڑا لیں جو اُس راستے کو آپ پر باربار بند کرتا ہے!

اور یہی آپ کا اصل مخمصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ’حقیقی اجتہاد‘ جس کی دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے لیے مستشرقین ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، تاحال یہاں کا مشکل ترین کام ہے! ’حالات‘ مسلسل زور لگا رہے ہیں مگر اُن کی فرمائش کا ’اجتہاد‘ عالم اسلام سے ہو کر نہیں دیتا۔ پورا جہان اِس کے لیے چیخ چیخ کر رہ گیا، مگر ہمارا یہ ’اجتہاد‘ ہے کہ سامنے آنے سے مسلسل جھجک رہا ہے! اِس میں رکاوٹ صرف ایک ہے: امتِ محمدﷺ میں طبعی شرم کا مادہ خدا نے بے حدوحساب رکھ دیا ہے اور مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً(۸) کی ہمت یہاں کسی کسی روسیاہ کو ہوتی ہے ۔ محسوس وہ بھی کر رہے ہیں کہ قرآن پڑھنے والا یہ معاشرہ نہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہے اور نہ ’’سینٹ پال کی پروردہ امت‘‘۔

یہاں سے؛ یہ مخمصہ بے اندازہ بڑھ جاتا ہے!

اور اگر صاحب بصیرت داعیوں کی کوئی باصلاحیت جماعت آج میدان میں اترآتی ہے اور اُن مقامات پر جہاں اس دین کی قوت پوشیدہ ہے اپنی پورا زور دے لیتی ہے۔۔۔ تو یہ ’مخمصہ‘ دلچسپ بھی بے اندازہ ہے!

*****

مسئلہ کی یہ سنگینی اگر آپ پر واضح ہو جاتی ہے تو قوم کو خبردار کرنے کا کوئی ایک بھی موقع ضائع جانا آپ کو گوارا نہ ہونا چاہئے۔۔۔

ایک پوری جنگ ہار دینے کے لیے کسی وقت اپنا ایک ہی محاذ ہار دینا کافی اور کاری ہوسکتا ہے۔۔۔ تو کسی ایک محاذ پر دشمن کو پسپا کر دینے میں کامیاب ہونا ایک پوری جنگ جیت جانے کے لیے بنیاد بھی بن سکتا ہے!

اور یہ تو عقیدہ کا مسئلہ ہے جو اہل ایمان کے ہاں ہمیشہ سنجیدگی کا متقاضی رہا ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ ہمارے نظریاتی وجود کا ہی دوسرا نام ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے لیے حساس نہیں ہوتی۔ اِس پر کوئی مصلح خاموش کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔:

دورِ عمرؓ میں نصارائے شام کے ساتھ جو صلح نامہ دستخط کیا جاتا ہے اُس کی ایک باقاعدہ شق یہ ہے کہ وہ اپنے شعائرِ دینی اپنے عبادت خانوں میں بند رہ کر انجام دیں گے اور ان کو اپنے عبادت خانوں سے باہر لا کر مسلم معاشرے کے لیے باعث اذیت نہ بنیں گے (رب العالمین کے ساتھ شرک اور شرکیہ شعائر سے بڑھ کر کونسی چیز مسلم معاشرے کے لیے باعثِ اذیت ہو سکتی ہے؟)۔ ’’شروط عمریہ‘‘ کے عنوان سے یہ چیز نہ صرف کتب تاریخ میں جابجا مذکور ملتی ہے بلکہ فقہ کی بے شمار کتب میں اِس سے استدلال و استشہاد کیا گیا بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک مسلم معاشرے میں وہ بخوشی رہیں البتہ اپنے شرکیہ شعائر کو مسلمانوں کے سامنے نہ لائیں؛ کیونکہ مسلم سرزمین میں کفر کا کلمہ ظہور کا مجاز ہے اور نہ علو کا۔ اِسی وجہ سے ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اہل اسلام کا کفر کے تہواروں میں جاکر شریک ہونا تو رہی دور کی بات، اِن کفریہ شعائر کا اہل اسلام کے سامنے ظاہر ہونا ہی کب جائز تھا؟ مگر آج عام اہل اسلام کی بات چھوڑ دیجئے، فاسق فاجر حکمرانوں اور بے دین سیاستدانوں کی بات بھی بہت پیچھے رہ گئی؛ اہل شرک کے نخرے اور فرمائشیں اب اِس سے کہیں آگے جا چکیں؛ آج یہ حال ہے کہ عمامے اور جبے ہی جب تک رونق افزائی نہ کریں تب تک اُن کی ’’کرسمس‘‘ ادھوری اور بے مزہ رہنے لگی ہے! یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بتوں اور صلیبوں کو جہان بھر میں توڑ کر آنے والی اِس امتِ بیضاء کی تاریخ میں اِس بڑی سطح پر پہلی بار رونما ہو رہا ہے اور اگر آپ خبروں اور تجزیوں سے کچھ بھی سروکار رکھتے ہیں تو آنے والے دنوں اور سالوں میں اب یہ رجحان ناقابل اندازہ ترقی کرنے والا ہے۔ آج آپ دیکھنا چاہیں تو ’علمائے کرام‘، ’وارثانِ علومِ نبوت‘ کو جوق درجوق ’سفارت خانوں‘ کا رخ فرماتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ہوٹلوں اور گرجوں کے اندر اِن تہواروں کے لیے منعقد تقریبات میں (العیاذ باللہ) ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کی نمائندگی فرماتا دیکھ سکتے ہیں۔ ’علمبردارانِ شریعتِ مصطفوی ﷺ اور عبادِ صلیب کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر ’کرسمس کیک‘ کاٹتا اور مسکراہٹوں سے ایک دوسرے پر فدا ہوتا ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اپنی مسجدوں اور تراویح میں خوش الحانی کے ساتھ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ أَفَلاَ یَتُوبُونَ إِلَی اللّہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ مَّا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأُمُّہُ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَأْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّی یُؤْفَکُونَ قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَہْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ کَثِیْراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ تَرَی کَثِیْراً مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَبْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہ والنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَاء وَلَکِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُمْ فَاسِقُون (۹)کی تلاوت کرنے والے اِس عیدِ شرک پر البتہ صرف ’گلے ملنے‘ اور ’تہنیت دینے‘ کے روادار ہیں! یعنی قرآنی آیات کی صورت میں اہل کفر کو جہنم کی وہ سب وعیدیں، اُن پر کفر کی وہ سب فردہائے جرم اور اُن پر خدا کی وہ سب لعنتیں ہماری مسجدوں میں، بغیر شرح و تفسیر.. جبکہ مبارکبادیں اور تہنیتیں اور قربت و محبت کی مکرر یقین دہانیاں اُن کے گرجوں اور اُن کی عید تقریبات کے لیے، واضح الفاظ میں اور پورے شدومد کے ساتھ!

کیا یہ عجیب نہیں: ہماری عبادات اور ہماری تراویح اُن کو مغضوب علیہم اور ضالین کہے اور اُن پر ’’خدا کے غضب‘‘ اور ’’قہر‘‘ اور ’’لعنت‘‘ کا ذکر کئے بغیر نامکمل.. جبکہ اُن کے شعائر اور کرسمس ہماری ’’نیک تمناؤں‘‘ اور ہماری ’’مبارکبادوں‘‘ کے بغیر نامکمل!

*****

حضرات! آنے والے سالوں میں آپ یہاں جو کچھ دیکھنے جارہے ہیں فی الحال اس کا تصور ہی ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہاں ایسے ایسے فکری طاعون اور سماجی وبائیں پھوٹنے والی ہیں کہ خدا ہی بچائے ورنہ بڑی خلقت کا ’لقمہ اجل‘ بننا یقینی ہے۔ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِناً وَیُمْسِی کَافِراً، أوْ یُمْسِی مُؤمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا خدا سے سلامتی مانگئے(۱۰)۔ ’’حفاظتی تدبیر‘‘ جس کا ابتدا میں ذکر ہوا اور جوکہ یقینی اثر رکھنے والی ہے، صرف ایک ہے: کتاب اور سنت سے چمٹ رہنے کا وہ ٹھیٹ طریقہ جو چودہ سو سال سے بلا انقطاع چلا آتا ہے اور جوکہ أمَّا بَعْدُ فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَکُلَّ ضَلالَۃٍ فَی النَّار کے الفاظ میں باربار بیان ہوتا ہے۔ یہ نسخہ آپ پر کہاں تک اثر کرتا ہے، اِس کا بہت آسان چیک ہے: ہر نئی بات پر کان کھڑے ہو جانا، اور پیچھے سے چلی آتی بات پر شدید درجے کا چین اور اطمینان محسوس کرنا۔ کوئی چیز ان شاء اللہ آپ کا بال بیکا نہ کرسکے گی۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ

___________

(۱)  وَإنَّہ سَیَخْرُجُ فِیْ أمَّتِیْ أقْوامٌ تُجَارِیْ بِہِمْ تِلْکَ الأھْوَاءُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ لِصَاحِبِہ، لا یَبْقیٰ مِنْہُ عِرْقٌ وَلا مِفْصَلٌ إلَّا دَخَلَہ

(رواہ أبو داود وابن أبی عاصم عن معاویۃ بن أبی سفیان ص، وحسنہ الألبانی، انظر صحیح أبی دواد، رقم الحدیث 3843 )

’’اور میری امت میں ایسی اقوام رونما ہوں گی جن میں اَھواء (فکری ٹیڑھ) یوں سرایت کریں گے جیسے کتے کے کاٹے کا اثر؛ آدمی کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس کی تاثیر سے سلامت نہیں رہتا‘‘

(۲)کَلِمَۃٌ سَوَاء: وہ بات جس پر آنے کے لیے قرآن نے اہل کتاب کو کھلی دعوت دی ہے اور جوکہ سب انبیاء اور شریعتوں کا پڑھایا ہوا بنیادی ترین سبق ہے، یعنی خالص توحید۔ آل عمران: ۶۴ میں جہاں یہ لفظ ملتا ہے وہاں اسی آیت کے اندر اس کا نہایت واضح بیان بھی ملتا ہے، یعنی شرک کی کھلی نفی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ’بین المذاہب مکالمہ‘ کی مارکیٹنگ کرنے والے مسلمان پوری آیت کو سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں اس پر علیحدہ سے ایک تحریر بھی دی جارہی ہے۔

(۳)نبیﷺ کے ان زندہ جاوید کلمات میں جو آپ ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخ ساز موقع پر فرمائے، ہمارے غوروفکر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے: ألا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ أمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ

(صحیح مسلم کتاب الحج، عن جابربن عبد اللہ، باب حجۃ النبی ﷺ رقم الحدیث: 1218 )

’’خبردار رہو، جاہلیت کے دستور کی ہر شےْ منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے ‘‘

(۴)ابراہیم ؑ اور اُن کے اصحاب کایہ رویہ جس کو اہل کفر کے مدمقابل اپنانے کے حوالہ سے قرآن ہمارے لئے ’’اسوۃُ حسنۃٌ‘‘ قرار دیتا ہے (بحوالہ سورۃ الممتحنہ آیت ۴)، اس کی بابت آپ کو یہاں کچھ عجیب و غریب توجیہات سننے کو ملیں گی:

۱۔ مثلاً یہ اشکال کہ: یہ اعلانِ عداوت تو ابراہیم ؑ اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے اُس وقت کیا گیا جب اُن کی قوم کا ظلم و تعدی حد سے بڑھ گیا۔ مراد یہ کہ اگر وہ اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑ رہے ہوتے (اور ’بین المذاہب قربت و ہم آہنگی‘ کی وہ پیش کش کھلی رکھتے جوکہ آج زوروں پر ہے!) تو اِس اعلانِ عداوت کی ضرورت ہی سرے سے پیش نہ آتی! حالانکہ اس کا جواب اِسی آیت کے اندر موجود ہے: ابراہیم ں اور اُن کے ساتھیوں کی جانب سے یہ اظہارِ عداوت محض قوم کے ظلم و ستم کے باعث ہوتا تو اُن کو حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ یعنی ’’تاوقتیکہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ‘‘ کی بجائے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ’تاوقتیکہ تم اپنا یہ ظلم و ستم نہ چھوڑ دو اور ہمیں حریتِ فکر یا حریتِ اظہار سے بہرہ مند نہ ہو جانے دو‘! جبکہ حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ کے الفاظ واضح دلیل ہیں کہ یہ عداوتِ دینی ہے جوکہ اہل توحید اور اہل شرک کے بیچ ہوتی ہے نہ کہ محض ’مذہبی تشدد‘ کا کوئی رونا۔

۲۔ ایک اور اشکال یہ کہ: یہ آیت فتح مکہ سے ماقبل منظرنامے سے متعلق ہے جب دو فریقوں کے مابین ویسے ہی تلواریں نکل آئی ہوئی تھیں اور ہوتے ہوتے یہ جنگ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس کا جواب بھی خود اِسی آیت کے اندر موجود ہے۔ جو نمونہ اِس عداوت کے معاملہ میں آیت کے اندر واجب الاتباع ٹھہرایا گیا وہ ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں کا ہے، جن کی زندگیوں میں ’تلواریں نکل آنے‘ کی صورت ہی سرے سے پیش نہیں آئی! پس یہ کوئی ’جنگی حالت‘ سے متعلقہ ہدایات نہیں بلکہ اُس عداوت کا بیان ہے جو اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین منجانبِ خداوندی رکھ دی گئی ہے اور جس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو توحید کی ابجد سے ناواقف ہے۔ٓ

(۵)مزید تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیے ہمارا پمفلٹ ’’مسلم معاشرے پڑھے لکھے بھیڑیوں کے نرغے میں‘‘

(۶)’’رباط‘‘: یعنی محاذ پر پایا جانا یا اُن خطوں میں ہوشیار اور چوکنا حالت میں موجود رہنا جو دشمن کے حملوں کا ہدف ہو سکتے یا جہاں سے اہل ایمان دشمن پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔

(۷)’’آپ‘‘ سے مراد: یہاں کا وہ دینی طبقہ جو باطل کے ساتھ مفاہمت اور قربت کی راہ اختیار کرتا ہے

(۸)وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً (النحل: ۱۰۶) ’’ بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے‘‘ (جالندھری)

(۹)(المائدۃ: ۷۲- ۸۱) یقیناًکافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مریم کا بیٹا مسیح درحقیقت اللہ ہے۔ جبکہ مسیحؑ صاف کہہ گیا: ’’اے اولادِ اسرائیل عبادت کرو ایک اللہ کی جو میرا پروردگار ہے اور تمہارا پرودگار ہے؛ خبردار! جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر ڈالی اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور نہیں ہے ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار‘‘۔یقیناً کافر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ حالانکہ نہیں کوئی خدا مگر ایک ہی خدا۔ اگر یہ اپنی اِس جسارت سے باز نہیں آتے تو اِن میں سے جتنوں نے اِس کفر کا ارتکاب کیا ہے وہ سب عذاب پا کر رہیں گے۔ آخر کیوں یہ خدا کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اُس سے اپنے اِس پاپ کی معافی نہیں مانگ لیتے اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔مسیح بن مریم کچھ نہیں سوائے یہ کہ رسول ہے۔ اور رسول اس سے پہلے بھی ہو گزرے ہیں۔ اور اس کی ماں ایک راستباز عورت تھی۔ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔دیکھ لو کس طرح ہم ان کے سامنے نشانیاں واضح کیے جاتے ہیں اور پھر دیکھ لو وہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں۔ کہو: کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا، جبکہ اللہ سننے جاننے والا ہے۔ کہو: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُن لوگوں کے تخیلات کی پیروی مت کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے۔ بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر لعنت فرمائی گئی داود ؑ اور عیسی بن مریم ؑ ہر دو کی زبان سے۔ یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا۔ وہ جو برے کام کرتے اس پر ایک دوسرے کو روکتے ٹوکتے نہ تھے؛ بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ تم ان میں بہت کو دیکھو گے کہ کفار سے دوستی کرتے ہیں؛ بہت برا ہے جو ان کے نفس ان کے لیے آگے بھیجتے ہیں؛ یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ دائمی عذاب میں رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ ایمان لائے ہوتے اللہ پر اور نبی پر اور اس پر اترنے والی (ہدایت) پر تو ہرگز دوستی نہ کرتے کافروں سے، مگر ان کے اکثر نافرمان ہیں۔

(۱۰)’’آدمی صبح مسلمان ہوگا تو شام تک کافر، یا شام کو مسلمان ہوگا تو صبح تک کافر، دنیوی مفاد کے عوض اپنا دین بیچ ڈالے گا‘‘

(صحیح مسلم، عن أبی ہریرۃ: کتاب الایمان، باب الحثِّ علی المبادرۃ بالأعمال قبل تظاہر الفتن، رقم الحدیث: 118 )

 

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز