دو قوموں کے مابین سیاسی طور پر کچھ امور متنازعہ ہوں تو حرج کی بات نہیں کہ ان کو حل کرنے کے لیے فریقین کچھ مشترکہ نکات پر آجائیں اور متنازعہ امور کو نظرانداز یا رفع دفع ہوجانے دیں۔ مگر دو ملتوں کے مابین دین کا کوئی تنازعہ ہو، اور وہ تنازعہ نبیؐ نے اٹھایا ہو، تو اس تنازعہ کو نظرانداز یا حاشیائی کروانا.. اور مشترکہ امور کو ہی ’’ہم آہنگی‘‘ کی بنیاد ٹھہرانا گمراہی ہے۔ البتہ یہ گمر اہی سنگین تر ہوجاتی ہے جب اس کی ’دلیل‘قرآن سے دی جارہی ہو۔
’’گلوبلائزیشن‘‘ کی ضرورتوں کیلئے پریشان ’تقاربِ ادیان‘ کے داعی یہاں پر قرآن کی آیت قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَبَیْنَکُم (آل عمران: ۶۴) سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے ساتھ ’مشترک نکات‘ ہی کو نمایاں کرنا اور سب گروہوں اور فریقوں کو ایسے ہی کچھ ’مشترک نکات‘ پر آنے کے لیے کہنا دین کا ایک مشروع عمل ہے!
قرآن اللہ کے فضل سے وہ کتاب ہے کہ باطل نہ سامنے سے اِس کے اندر راہ پاسکتا ہے اور نہ پشت سے۔ اِس موضوع پر تفصیل سے بات کسی اور مقام پر ہو گی، لیکن مختصراً یہاں یہ چند نکات بیان کردیے جانا ہی اللہ کے حکم سے کفایت کرے گا:
۱) سورۂ آل عمران کی یہ آیت توحید کی نہایت صریح اور واشگاف دعوت ہے اور خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں سے برگشتہ ہو جانے اور شرک سے دستبردار ہو جانے کا ایک ’’شدید حد تک‘‘ صریح مطالبہ:
أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِأنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: ۶۴)
یہ کہ ہم (ہر دو فریق) نہ پوجیں مگر اللہ کو۔ اور یہ کہ نہ شریک کریں اُس کے ساتھ کچھ بھی۔ اور یہ کہ نہ پکڑے ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو ارباباً من دون اللہ۔ اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو: پھر گواہ رہنا ہم تو فرماں بردار ہوئے
یہ ہے آل عمران کی وہ آیت جس کا یہ تقارب ادیان کے داعی حوالہ دیتے ہیں!
بتائیے اِس سے زیادہ صریح دعوت باطل معبودوں کی نفی کے باب میں کیا ہوسکتی ہے؟ بلکہ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ کے الفاظ لا إلٰہَ اِلا اللّٰہ کا ترجمہ ہی تو ہے!
توحید کا اِس سے زیادہ قوی بیان کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اِس آیت کا مطلب واضح نہیں کہ ہمارا اشتراک ہو سکتا ہے تو باطل خداؤں کی نفی پر اور خدا کی بلا شرکتِ غیرے عبادت پر، جوکہ موسی ؑ کی بھی دعوت تھی اور عیسی ؑ کی بھی، بلکہ خدا کے ہر نبی اور ہر رسول کی دعوت، جسے ان کے نام لیوا آج چھوڑ بیٹھے ہیں؟ ’’اشتراک‘‘ کی بنیاد کوئی ہو سکتی ہے تو انبیاء کی دعوت کے اُن حصوں کو سامنے لا کر جنہیں اہل کتاب نے شرک کا شکار ہو کر اب طاقِ نسیاں میں رکھ چھوڑا ہے۔ یعنی ’’اشتراک‘‘ کی کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو انبیاء کی دعوت کے وہی حصے جن کو اپنے شرک کے باعث اہل کتاب اب ’متنازعہ‘ کر چکے ہیں۔ پس یہ تو ایک ’’تنازعہ‘‘ کو ریکارڈ پر لانا ہے نہ کہ اُس کو روپوش کرا دینا۔ اور بفضلہ تعالیٰ یہ بات قرآن کی اسی آیت سے واضح ہے جسے یہ لوگ اپنی گمراہی کے ثبوت کے لیے لاتے ہیں۔
۲) پھر اِس آیت کا سیاق بھی قابل غور ہے۔ سورۂ آل عمران کی یہ آیت اُن آیات کے متصل بعد آتی ہے جن میں اہل کتاب کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ مفسرین آپ کو بتائیں گے کہ یہ وفد نجران کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا وہ مناظرہ ہے جس میں نجران کے پادریوں کو جواب دینے سے آپ ﷺ کو اس لئے روک دیا گیا تھا کہ ان کا جواب خود قرآن کو دینا تھا، اور تب سورۂ آل عمران کی یہ آیات اتری تھیں! خود اِس آیت کو دیکھئے اور اِس سے متصل پہلے گزرنے والی آیتِ مباہلہ کو دیکھئے، دونوں آیتوں کا اختتام فَإنْ تَوَلَّوْا ’’اگر یہ منہ موڑیں‘‘ کے الفاظ پر ہوتا ہے، جس سے واضح ہے کہ آیتِ مباہلہ اور اِس زیر نظر آیت کا ایک ہی سیاق ہے اور ایک ہی تسلسل۔
۳) پھر یہ بھی واضح ہے کہ وفد نجران نے آپ ﷺا کی اِس دعوت کو قبول کرنے سے منہ موڑ لیا تھا۔ نہ مباہلہ کرنا قبول کیا جو کہ پہلی آیت میں ان کو کہا گیا، اور نہ اِس ’’کلمۃٌ سواء‘‘ پر آنا قبول کیا جو کہ اِس زیر بحث آیت میں مذکور ہوا۔ جس پر وہ جزیہ دینا قبول کرکے نجران واپس لوٹ گئے، گو واپسی میں ان میں سے کچھ لوگ مشرف بہ اسلام بھی ہوئے۔ کوئی تقاربِ ادیان کے اِن داعیوں سے سوال کرے، اِس آیت میں وہ کونسے ’مشترکہ نکات‘ تھے جو وفد نجران کو جزیہ دے دینے سے بھی بڑھ کر ناقابل قبول تھے؟
(ماخوذ از: شرح شروط لا الٰہ الا اللہ فصل: میثاق لا الٰہ الا اللہ ص ۸۹۔۹۰)