تحریر:
ابو بکر قدوسی
مصنف کی اجازت کے بغیر شائع کی جانے والی ایک تحریر! بس ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کرنا چاہ رہے ہیں لوگوں کی ’’ادبی حس‘‘ کا۔ ذرا اگر آپ اس کو پھیلانے میں مدد دیں تو ادب کو ادب تک رکھنے اور
اس پر تنگ نظری اور جذباتی ردعمل نہ دکھانے کے رزلٹ زیادہ تعداد میں سامنے آ سکیں!
(ادارہ ایقاظ)
حیران کیا ہونا تھا میرا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا - کالا سیاہ
کتا ، لیکن سر ایک دم سفید - ایک طرف ایسے "تہذیب" سے بیٹھا تھا کہ جیسے
کوئی کتا نہ ہو انسان ہو ..لیکن تھا تو کتا ، اب کیا کیجئے -
حیرت یوں ہوئی کہ اسی بیچ ایک خوبصورت نوجوان ، جینز پہنے ادھر سے گزرا - گنگناتا
ہوا –
"جتنا بھئی ، عمران خان جتنا "
ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ سامنے سے کچھ لڑکیاں آ گئیں ، لڑکا ایک
دم شوخ سا ہو گیا ، اب گانا بدل چکا تھا :
"عمران خان دے جلسے چ نچنے نو جی کردا "
عمران خان کا نام کیا آیا ، کتے کی شرافت غراہٹ میں بدل گئی - عجیب
غراہٹ جیسی کوئی انسان بول رہا ہو - مجھے تو یہی لگا کہ اس کو عمران خان سے "
چڑ " سی تھی - اب اس نے جو بھونکنا شروع کیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا –
نوجوان نے ایک لمحے کے لیے تو نظر انداز کیا ، لیکن پھر اس نے کتے
کی طرف منہ کیا اور اس کو گالیاں دینا شروع کر دیں –
اس نے کتے کی ماں بہن ، کچھ نہ چھوڑا - میں حیرانی چھوڑ اب ہنس رہا
تھا - لڑکے کی گالیاں ہی ایسی تھیں - ایک انسان جب کتے کی کتیا سے خود کو منسوب
کرے بھلے گالی کے لیے ہی سہی ، تو کیا آپ بھی ہنس نہ دیں گے ؟
مجھے جو ہنستے دیکھا تو لڑکا مسکراتے ہوئے میری طرف مڑ کے بولا :
" سر جی ، آپ کو نہیں پتہ ، یہ بڑی " کتی شے " ہے ،
آپ اس کو معمولی کتا نہ سمجھیں - یہ انسانوں کی بولی جانتا ہے - آپ اس کی غراہٹ پر
غور کریں ، یہ گالیاں دے رہا ہے "
ہاں یار واقعی وہ گالیاں دے رہا تھا - کبھی گیند کی غراہٹ ، کبھی
پرانی پچ اور اچھی سونگ ...کتے کی غراہٹ بھی جیسے سونگ ہوئی کے آواز بدل رہی تھی -
اب لڑکے نے بھی گالیاں شروع کیں ، اور ساتھ میں ڈنڈا اٹھایا لیکن یہ کیا ؟؟؟؟؟
مزید حیرت میری منتظر تھی ، لڑکے نے پینٹ کی جیب سے کچھ تصویریں
نکالیں اور ان کو ڈنڈے پر سجا کے بولا :
"اب دیکھ .............."
یقین کیجئے کتے کی زبان بند ہو گئی اور سیدھا نوجوان کے قدموں میں
سر رکھ کے ایسا ہو گیا کہ جیسے کہہ رہا ہو :
" مجھے معاف کر دیجیے ، اور یہ تصویریں ہٹا لیجئے "
....
اگلے روز مگر عجیب ہوا کہ وہی کتا ایک بزرگ کے پیچھے پیچھے تھا - اب سفید داڑھی
والے بزرگ ، ہاتھ میں تسبیح اپنی دھن میں چلے جا رہے ہیں - کتا ان کے پیچھے پڑا -
کچھ دیر تو انہوں نظر انداز کیا - لیکن اس کی مسلسل " کتاہٹ " نے ان کو
رکنے پر مجبور کر دیا –
میں نے کہا :
" بزرگو ! یہ کتا انسانی حسیات کا حامل ہے ، ابھی میں نے کل
ہی اس کا نظارہ کیا - آپ اس کو مخاطب کریں ، اور سمجھائیں "
بزرگ کچھ حیران ہوئے ، لیکن میری بات پر یقین کر کے بولے :
"ارے میاں کتے ، ارے اچھے کتے ، دیکھ تیرے سر کی سفیدی کہہ
رہی ہے کہ تو کتوں کا بزرگ ہے ، کیوں میری راہ کھوٹی کر رہا ہے - جا اپنی راہ لگ
"
لیکن کتا تھا کہ بھونکے ہی چلا جا رہا تھا - بزرگ تھے کہ اس کی منت
سماجت کرے جا رہے تھے - ایک دم حیران سے ہو گئے ، جب انہوں نے بھی کہا کہ :
"یار یہ تو سُروں میں بھونک رہا ہے جیسے کہہ رہا ہو ، سکوٹر
پر بیٹھ ،،،ڈبے میں پیک کر اور نکل ...... "
کیا مطلب ہے اس کا ..... حیرت سے ان کے دیدے تھے کہ پھٹے جا رہے
تھے - خود میں بھی حیران تھا - اور اس کا بھونکنا تھا کہ بند ہی نہیں ہو رہا تھا -
بزرگ لاچاری سے بولے کہ:
" اس کیا علاج اس نے تو کان کھا لیے "
میں بھلا کیا بولتا - ایک دم یاد آیا کہ اس نوجوان نے ڈنڈے پر کچھ
تصویریں لہرائی تھیں ، بزرگ کو بتایا لیکن وہ معذور تھے ، میں بھی لاچار - ہم وہ
تصویر کہاں سے لاتے کہ جن کو دیکھ کے کتا ہمارے بھی قدموں میں آن سر دھرتا –
ہم چل دیے ....کتا تھا کہ بھونکے چلا جا رہا تھا ..اب شاید کہہ رہا
تھا
" ہاں میں بھونکتا رہوں گا ، تم جتنی مرضی تہذیب کا مظاہرہ کر
لو "۔