کرسمس، شرک اور
سیکولرزم کا سنگم
ابو زید
یورپ
کے زمانہ قدیم جب کہ شرک کا دور دورہ تھا،
25 دسمبر مشرکین کا ایک خاص سردیوں کا تہوار ہوا کرتا تھا۔ بالکل اسی طرح
جس طرح ہندؤوں کے ہاں دیوالی اور بسنت ہوتے ہیں۔ قبل از مسیح پچیس دسمبرکی باریخ
کے بارے میں کئی کہاناں مشہور ہیں، لیکن یورپ کے مورخین کے درمیان اس کی اصلیت کے
بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن یہ بات طئے شدہ ہے کہ عیسی علیہ اسلام کی پیدائش 25
دسمبر کو ہونے کی کوئی تاریخی دلیل موجود
نہیں ہے۔جب مسیحیت میں بدعات در آئیں اور غلط عقائد کی بنیاد پر یہ ایک شرکیہ مذہب
بن گیا تو وہی قدیم یورپ کے شرکیہ تہوار کو ہی مسیح کی پیدائش کا دن قرار دے کے
کرسمس منایا جانے لگا۔ یہ امر بالکل ہی طئے شدہ ہے کہ پچیس دسمبر کا کوئی تعلق
عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے نہیں ہے اور اس بارے میں عیسائی علماء کو بھی کوئی اختلاف
نہیں ہے۔ لیکن چونکہ انہیں بھی عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا کوئی پتہ نہیں
ہے اس لئےعلامتی طور پر ایک مشرکانہ تہوار کو پیدائش مسیح کے طور پر منانے میں
کوئی حرج نہیں جانتے۔
مسیحیوں
کے نزدیک عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ اور جب مسیحی عیسی علیہ السلام کی
پیدائش مناتے ہیں تو گویا وہ اس دنیامیں نعوذ باللہ خدا کے بیٹے کی آمد کا جشن
مناتے ہیں۔ اب ہم مسلمان اپنی طرف سے جو بھی سمجھ کر انہیں مبارک باد دیں، اس کے
معنی بہرحال یہی بنتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے جس کو وہ انسانیت کا نجات دہندہ
سمجھتے ہیں کی آمد پر ان کی خوشیوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اللہ کے بارے میں جھوٹی
صفات گھڑنا اور خاص طورپر اس کے لئے بیٹا تجویز کرنا شرک کی انتہائی سنگین صور ت
ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں اس قسم کے عقیدے کے لئے سخت سے سخت لہجہ
اختیار کیا ہے۔
اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا
رکھتا ہے ۔ (ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری
بات (زبان پر) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس (افتراء)
سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ۔ کہ انہوں نے خدا کے لئے بیٹا تجویز کیا۔ اور خدا
کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ سورہ مریم 88-92
پہلے
تو یہ ایک زمانہ قدیم کے شرک کا تسلسل ہے اور اوپر سے خدا کے اوپر بد ترین قسم کا
افتراء کا جشن، کوئی بھی توحید کا دعویدار
کرسمس کو ہلکے انداز میں نہیں لے سکتا چہ جائیکہ مسیحیوں کی "خوشی" میں
خود جاکر شریک ہوجائے یا انہیں تاریخ انسانی کے بدترین شرک پر مبارک باد دیں۔
مزید
یہ کہ آج کے دورمیں کرسمس کسی اور ہی چیز کا رمز بن گیا ہے۔ آج کے دور میں
مسلمانوں پر یہ دباؤ پڑا ہوا ہے ہم بھی میری کرسمس کہیں۔ مسیحی ہمیں کتنی خوش دلی
سے عید مبارک کہتے۔ انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ اور ایک ہم ہی اتنے بد اخلاق ٹھہرے
کہ "اپنے مسیحی بھائیوں" کو عید مبارک کہتے ہوئے عقائد کے بارے میں
سوچتے ہیں۔یہ کتنی غلط بات لگتی ہے کہ وہ ہمیں عیدمبارک کہیں اور ہم "میری
کرسمس" جیسے "بے ضرر" الفاظ کہتے ہوئے ہچکچائیں۔
آج
کا دین سیکولرزم کا دین ہے جس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دین اس
دنیا میں چلنے نہ پائے۔ کرسمس کا تہوار، کرسمس ٹری، سانتا کلاز اور اسکے تحفے گویا
کہ پوری دنیا پر رواداری کے نام پر مسلط کئے جارہے ہیں۔ کچھ خلیجی ممالک تک میں یہ
"خوشیوں" کا موسم بن گیا ہے اور جگہ جگہ پر کرسمس ٹری اور سانتا کلاز کے
مجسمے نظر آنے لگے ہیں۔ مسلمان بچوں کو سکولوں میں کرسمس کے ترانے سکھائے جارہے
ہیں۔ مسیحیت کے کرسمس میں عیسی علیہ السلام کو مرکزیت حاصل تھی اور آج کے جدید
کرسمس میں سانتا کلاز کو مرکزیت حاصل ہے۔اور یہ سب کچھ ہورہا ہے رواداری اور
خوشیوں کے نام پر۔
ہماری
عیدیں ہماری تاریخ کے برے سے برے دور میں بھی ہمیں ولاء اور براء کا سبق بھلانے
نہیں دیتی تھیں۔ لیکن اس مسیحی جشن کی سیکولرائزیشن سے آہستہ آہستہ ہمارا دینی
امتیاز ہم سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
الغرض
ایک طرف قبل از مسیح کی شرکیہ گندگی، پھر
مسیحیت کا بدترین شرک اور اب جاکر سیکولزم
کا وسیلہ، گویا کہ یہ کرسمس تین تاریکیوں کا مجموعہ ہے۔ شرک سے براءت چاہے
وہ مشرکین کا شرک ہو، اہل کتاب کا خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا ہو یا اجتماعی زندگی
سے اللہ کے احکامات کو خارج کرنا ہو، بہرحال مسلمانوں کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔
ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی کو کرسمس کی
"مبارک باد" دے یا وہ اس تہوار
میں شریک ہو۔اور پھر جس طرح سے دینی حساسیت کو ختم کرکے سیکولرزم کو تقویت دینے کے
لئے اس تہوار کو استعمال کیا جارہا ہے اس بنا پر جتنا اس سے براءت کا اظہار کیا
جائے اتنا ہی کم ہے۔