2
جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تحریر: حامد
کمال الدین
مضمون: خلافتِ نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں
دوسری قسط
کچھ شک نہیں، سیاسہ شرعیہ میں بہت مقامات پر آپ کو
"اصل" سے نکلنا پڑتا ہے۔ اس سے انکار پر ہی ہمیشہ اڑے رہنا دین اور دنیا
ہر دو دولت کھو دینے کا موجب ہو سکتا ہے۔ یہ ایک مبدأ principle ہے، جس پر مراسلہ نگار کی ذکر کردہ ہر ہر مثال میرے
نزدیک حق ہے، خواہ وہ اسلامی تاریخ کے گزشتہ ادوار میں "اصل" سے کچھ
عدول ہو جانے سے متعلق ہو، یا اُس مجوزہ چیز سے متعلق جسے دورِ حاضر کے حوالہ سے
فاضل مراسلہ نگار نے "ابوالکلام آزاد اور ابوالاعلیٰ مودودی کا اجتہاد"
قرار دیا ہے اور جس میں آزادؒ اور مودوددیؒ اکیلے نہیں، بہت سے اہل علم کی تقریر
اس پر موجود ہے… اس مؤخرالذکر "اجتہاد" کی فی الحال تفصیل میں جائے
بغیر۔
اس میں اتنی سی بات کا اضافہ کر لیا جائے کہ "اصل"
اور "خروج عن الاصل" کے مابین جو ایک فرق ہوتا ہے… اس کا ادراک اور
احساس رہنا آپ کا ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ اس اثاثے کی بقاء اسی ایک بات پر منحصر
ہے کہ عاملینِ اسلام کے یہاں اٹھتے بیٹھتے اس کا ذکر ہو، اور پڑھنے سیکھنے والوں
کا ٹھیک ٹھاک زور اسی"فرق" کی یاددَہانی پر صرف کروا رکھا جائے۔ سلامتی
کا سب سامان سمجھیے اِسی میں پڑا ہوتا ہے۔ یہی، تربیت اور ذہن سازی میں آپ کے
ہاں"معیار" قائم رہنے کی اصل کسوٹی۔ اس سے ہاتھ چھوٹنا، یا اس پر گرفت
ڈھیلی ہونا، آپ کو پورے کھیل سے آؤٹ کروا دیتا ہے، جیسا کہ فی الوقت آپ دیکھ سکتے
ہیں۔ اس محاذ پر ناکام رہنا مجھ طالب علم کی نظر میں اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ
عندالضرورة "خروج عن الأصل" سے انکار پر اڑے رہنا، یا اس سے بھی کہیں
بڑھ کر ضرررساں۔
پس یہاں دو انتہائیں ہوئیں: ایک تفریط۔ ایک اِفراط۔ جبکہ
ایک وسط، جو کہ حق ہے:
ایک انتہا: "اصل" سے "عدول" کے
متعلق "ضرورات" کا اعتبار ہی نہ کرنا اور اپنے اس جمود سے جس کو آدمی
اپنی کوتاہ نظری کے باعث"استقامت على الحق" سمجھ رہا ہوتا ہے، مسلمانوں
کے سب دین اور دنیا کا ستیاناس کر بیٹھنا، جو کہ آج بھی فضلاء کی ایک کثیر تعداد
کا پسندیدہ مذہب ہے۔ "موازنۂ مصالح و مفاسد" ایسے ایک معلوم فقہی قاعدہ
کا اس طبقہ کے ہاں مذاق تک اڑا لیا جاتا ہے۔ سب سے آسان اور کم لاگت حق پرستی شاید
یہی باور کی جاتی ہو! یا یوں کہیے، "امت" کے نقصان کی قیمت
پر"اپنی" حق پرستی اور توکُل على اللہ کا ثبوت دینا۔ مختصراً، گوشۂ
عافیت اختیار کرنے کا یہ دوسرا نام ہے۔
دوسری انتہا: "اصل" سے ایسا خروج، کہ
"اسثناء" ہی کا ہو رہنا۔ یہ ہمارے
کیس کی آفیشل موت ہوتی ہے، اگرچہ لوگ ہمیں برسرِ عمل دیکھیں۔
"ضرورات" وغیرہ کا وہ پورا مبحث جو "کبھی" اس اجتہاد کی بنیاد
بنا ہو گا ظاہر ہے اس کے ساتھ ہی دفن ہو چکا ہوتا ہے۔ سو "اجتہاد" ماننا
بھی اس کو، اب ایک فارمیلٹی کہیے؛ کچھ غیر معمولی اہتمام اس لفظ کا رہے تو شاید اس
وجہ سے کہ زمانہ "اجتہاد" کا ہے! (ایک ایسا دور جہاں "اجتہاد"
کا رُعب "نص" سے بڑھ کر ہے!)
مراسلہ نگار سے اصولی اتفاق کر آنے والے ایک شخص کے متعلق
اندیشہ چونکہ پہلی انتہا کا شکار ہونے کا نہیں، بلکہ دوسری انتہا کی نذر ہو جانے
کا ہے، لہٰذا اس پر مزید ابھی مجھے کچھ بات کرنی ہے، تھوڑا آگے چل کر۔
جبکہ وسط: اصل کو اصل اور اسثناء کو استثناء ہی
رکھنا۔ نظریاتی، وجدانی، تعلیمی، ابلاغی، ہر سطح پر۔ (جوکہ تحریکوں کی زندگی میں
ٹھیک ٹھاک محنت کا ضرورت مند رہتا ہے)، تاکہ "اصل سے خروج" کےلیے
"اضطرار" کا صحیح و شرعی معنیٰ ہی قلوب کے اندر پیوست رہے۔ آپ کو معلوم
ہے دین کو اس کی حقیقت پر
قائم رکھنا اور کوئی ایک انچ اس میں فرق اور تفرقہ نہ آنے دینا (أنْ
أَقِیْمُو الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ) قرآنی تعبیر
"اقامتِ دین" کا معنیٰ دینے میں
قوی تر ہے بنسبت دین کو نافذ کرنے وغیرہ ایسا معنیٰ دینے کے۔
نوٹ: "ضرورة" اور "اضطرار"
ہمارے اِس پورے مبحث میں ایک ہی شے ہے۔
پچھلی
قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے اگلی قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
مضمون: خلافتِ
نبوت سے عدولی، ملوکیتی ادوار پر جمہوری فارمیٹ کا قیاس
پہلی قسط: مقدمہ، ابن تیمیہؒ کی ایک تأصیل سے
دوسری قسط: جمہوری راستہ اختیار کرنے پر، دینداروں کے یہاں دو انتہائیں
تیسری قسط: جمہوری پیکیج، "کمتر برائی"… یا
"آئیڈیل"؟
چوتھی قسط: جمہوریت… اور اسلام کی تفسیرِ نو
پانچویں قسط: جمہوریت کو "کلمہ" پڑھانا کیا ضروری ہے؟
چھٹی قسط: جمہوری راستہ… اور اسلامی انقلاب
ساتویں قسط: "اقتدار" سے بھی بڑھ کر فی الحال ہمارے پریشان
ہونے کی چیز
آٹھویں قسط: دینداروں کے معاشرے میں آگے بڑھنے کو، جمہوریت واحد راستہ
نہیں