"حُسینٌ
منی & الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنة" صحیح احادیث ہیں؛ ان پر ہمارا ایمان
ہے
حامد کمال الدین
"حُسَيۡنُ مِنِّيۡ"
اور ’’الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘ صحیح احادیث ہیں؛ ان پر
ہمارا ایمان ہے:
عَنْ يَعْلَى بْنِ
مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((حُسَيْنٌ
مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ
سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ))
یعلیٰ بن مرہؓ سے روایت
ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ محبت
کرے اس سے جو حسین سے محبت کرے۔ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے۔
یہ حدیث ترمذی میں آئی
ہے۔ (لنک
ابن ماجہ میں آئی ہے۔ (لنک
مسند احمد میں آئی ہے۔
(لنک
اور دیگر ذخیرہ ہائے
احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے۔
البانی کے سلسلہ احادیث
صحیحہ سے حدیث کا لنک
"سِبْطٌ
مِنَ الْاَسْبَاطِ" کی محدثین نے جو شرح کی وہ یہ کہ: حسینؓ میری
اولاد کے خانوادوں میں سے ایک خانوادہ ہیں۔ (آپﷺ کے گھرانے کے تسلسل کی لڑیوں میں
سے ایک لڑی ہیں)۔ علامہ سندیؒ ابن ماجہ کی شرح میں کہتے ہیں: اس حدیث میں حسین رضی
اللہ عنہ کے بڑا ہونے اور آپؓ کی نسل جاری ہونے اور پھلنے پھولنے کی پیشن گوئی
ہوئی ہے۔ (اعجازِ نبوت)۔ نیز فرماتے ہیں: "حُسَيْنٌ مِنِّي
وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ" کی دلالت ہے کہ حسین رضی اللہ کوئی ایسی اولاد
نہیں جس سے معاذاللہ کسی وقت بیزاری یا شرمساری ہو جیسے نوح علیہ السلام کا بیٹا،
بلکہ وہ ہے جو اولاد ہونے کا حق ادا کرتی ہے۔ نبیﷺ اور حسین رضی اللہ عنہ ایک
دوسرے کا حصہ ہیں۔ اس میں وحدت کا ایک معنیٰ ہے۔
*****
دوسری حدیث:
عنْ أَبِي سَعِيدٍ
الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
’’حضرت ابو سعید خدریؓ سے
روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘
ترمذی:
لنک
ابن ماجۃ: لنک
سلسلہ احادیث صحیحہ، از
البانی: لنک
*****
حضرت حسین رضی اللہ عنہ
کی محبت، از روئے حدیث خدا کی محبت پانے کا ذریعہ ہے۔ نیز رسول اللہﷺ کے سینے پر
ٹھنڈ ڈالنے کا موجب۔ بأبیہ ھو وأمی، صلى اللہ علیہ وسلم۔
روافض نے حسینؓ کی بابت
ویسے غلو کیا جیسے نصارىٰ نے عیسیؑ کی بابت۔ اس سے ہماری عیسی علیہ السلام کے ساتھ
محبت و وابستگی کو کچھ فرق آیا اور نہ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔ دونوں (نصاریٰ
اور روافض) جو کہنا ہے کہتے رہیں، ہم نہ مسیحؑ اور حسینؓ میں غلو کرنے کے اور نہ
تنقیص۔ ان کی تعظیم اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور رہے گا۔
حسین رضی اللہ عنہ و
دیگر اہل بیت کے فضائل شمار سے باہر ہیں۔ آپؓ کی تنقیص کی طرف کو میلان ہونا آدمی
میں کسی ٹیڑھی رگ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عرف عام میں اس ٹیڑھی رگ کو "ناصبیت"
کہا جاتا ہے، جو دل کی سختی اور اندھاپن کا دوسرا نام ہے، خواہ ایسے آدمی نے پوری
تاریخ رٹ رکھی ہو۔ ہمارے اس معاشرے میں بھی یہ ناصبیت خال خال جاہلوں میں پائی
جاتی ہے۔