عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
PamphHumanism آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مذاہب حاضر کیے جائیں! (فصل 2 فتنۂ ہیومن ازم)
:عنوان

حضرتِ ’’انسان‘‘ جاگے، اور اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت و صلاحیت معلوم کی، تو اُلٹا اِن مذاہب کی اصلاح کر ڈالی اور اِن کو ایسا سیدھا کیا کہ اب ایک ایک مذہب ’بندہ‘ بن کر حضرت کی درگاہ سے دوا لینے پہنچتا ہے! ہر مذہب باقاعدہ یہاں ’علاج‘ کروانے آتا ہے

. باطل :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

مذاہب حاضر کیے جائیں!

فصل 2۔ فتنۂ ہیومن ازم

چنانچہ آج ہر مذہب ’ہیومن ازم‘ کی عدالت میں ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ اپنی ’اچھی باتیں‘ اس کے حضور زیادہ سے زیادہ نمایاں، اور اپنی وہ باتیں جو اِس عدالت میں رد ہوسکتی ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ پیچھے کرنے لگا ہے! اپنی ان ’قابلِ اعتراض‘ باتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے، یا ہیومن اسٹ پیراڈائم کے ساتھ ان کی زیادہ سے زیادہ مطابقت کروانے کی خاطر  ان کو ’تاویل‘[1]  کے عمل سے گزارتے ہوئے... ہر مذہب آج یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ نمبر لینے کےلیے کوشاں ہے؛ اور اپنی کارکردگی روزبروز ’بہتر‘ کرنے لگا ہے۔ ہر ہر مذہب کے حاصل کردہ نتائج پر آپ اگر ایک نظر دوڑا لیں  اور چند عشرے پیشتر کی صورتحال کے ساتھ اس کا سرسری موازنہ ہی کرلیں، تو آپ دنگ رہ جاتے ہیں... خدایا! یہ تو مذاہب کی ’اصلاح‘ بھی ہے!

’مذاہب‘ جو کبھی ’’انسان‘‘ کی اصلاح کرنے بیٹھے تھے اور ہزارہا سال تک اِس کو جہنم، تباہی، عذابِ الٰہی، ’دیوتاؤں‘ کی پکڑ، ’دیویوں‘ کے روٹھ جانے، پریوں کے بگڑ جانے، ارواح کے انتقام، اور نجانے کیسی کیسی بھیانک اشیاء سے ڈراتے اور مرعوب کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ بےچارے کا ڈر ڈر کر برا حال ہوگیا تھا... حضرتِ ’’انسان‘‘ جاگے، اور اپنے ’اختیارات‘ اور اپنی ’حیثیت‘ و ’صلاحیت‘ معلوم کی، تو اُلٹا اِن مذاہب کی اصلاح کر ڈالی اور اِن کو ایسا سیدھا کیا کہ اب ایک ایک مذہب ’بندہ‘ بن کر حضرت کی درگاہ سے دوا لینے پہنچتا ہے! ہر مذہب باقاعدہ یہاں ’علاج‘ کروانے آتا ہے، جوکہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور آئے روز اپنے ناقابل یقین نتائج سے حیران کرتا ہے! 

یہاں سے مذاہب کی تاریخ میں باقاعدہ ایک تحریک سامنے آئی جوکہ اب دنیا کا ایک مقبول ترین فیشن بھی ہے، تحریک بھی، اور ایجنڈا بھی: religious reform   یعنی مذاہب کی اصلاح۔ یہ کوئی ہمارا دیا ہوا لفظ نہیں، اور نہ یہ کوئی فقرہ چست کرنے والی بات ہے۔ یہ ایک باقاعدہ اصطلاح ہے جو اِس تاریخی عمل کو خود اہل مغرب کی طرف سے دی گئی: ’’ادیان کا ریفارم‘‘، اور جوکہ ’’ہیومن ازم‘‘ کے ضمنی نتائج میں شمار ہونے والی ایک بہت بڑی عالمی حقیقت ہے۔ سب باخبر لوگوں کا ماننا ہے کہ ’’ہیومن ازم‘‘اِس لحاظ سے لادین فلسفوں ہی نہیں روحانی مذاہب کی تاریخ کا بھی ایک نہایت عظیم قابل ذکر واقعہ ہے۔ ایک ایسا واقعہ جس نے ادیان ایسی ’خودسر‘ اور ’عقل‘ سے بالاتر ’مافوق الفطرت‘ چیز کا رخ موڑ دیا۔ اس کے پر کُتر ڈالے۔ ایک نری ’غیر روحانی‘ چیز جس نے ’روحانیت‘  کا دھارا بدل دیا۔ بلکہ ادیان کی ہیئت ہی تبدیل کر ڈالی۔ یہاں تک کہ سب مافوق الفطری مذاہب ’انسان‘ کا کلمہ پڑھنے لگے! اپنی اِس کامیابی پر خود ’ہیومن اسٹ‘ حیران ہیں؛ شروع میں یہ بات اُن کے اپنے وہم و گمان میں نہ ہو گی کہ سب ’خدارسیدہ‘ مذاہب اِس رند کی دست بوسی کو ایک دن یوں حاضر ہوں گے!

زیادہ لوگ تو ’ہیومن ازم‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی لیتے رہے تھے جو خدا (یا ’خداؤں‘!) کی بجائے انسان کی مرکزیت پر اعتقاد رکھتا ہے، جس کی بنیاد پر انسان نے اپنے معاملاتِ زندگی اب خود اپنے ہاتھ میں لےلیے ہیں اور ان کو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا ہے جس کےلیے اسے یہاں کے پنڈتوں، گیانیوں، احبار، رہبان اور مشائخ کے پاس جانا ہوتا اور ان کے نخرے اٹھانے پڑتے۔ انسان نے فیصلہ کیا کہ کوئی بیرونی قوت اپنے اِن ’مخصوص نمائندوں‘ کے ذریعے اس کو اپنے قیود اور ضوابط کا پابند نہ کرے؛ بلکہ کوئی قیود اور ضابطے اگر اس کی ضرورت ہیں تو یہ بات وہ خود اپنی سوچ سے طے کرے، کیونکہ اپنے برے بھلے کی تمییز یہ انسان خود کرسکتا ہے، خیروشر کا شعور اِس کو بدرجہ اتم حاصل ہے، اچھائی اور بھلائی خود اِس کے پاس بہت ہے  اور بھلائی کی آفاقی قدریں خود اِس کو بہت سمجھ آتی ہیں، اس کےلیے خدا اور آخرت کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں، اور اگر کسی کی ضرورت ہیں تو وہ لائے مگر اس کو اپنے تک رکھے اور اس کو کوئی ایسا ’مطلق حوالہ‘ بنانے کی کوشش نہ کرے جس پر انسان کا خوب یا بد ہونا ’موقوف‘ ہی ہو کر رہ جائے۔ خیر اس کے بغیر بھی پائی جاسکتی ہے۔ اور شر سے اس کے بغیر بھی اجتناب ہوسکتا ہے۔ بلکہ ’’ہو رہا‘‘ ہے!!! لہٰذا کوئی ایسے آسمانی حوالے جو کسی شخص کے اپنے دل کو تسکین دیتے ہیں وہ سب پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ وہ ایک ’اضافہ‘ ہوتو ہو ’’اصل‘‘ نہیں ہے۔ ’’حوالہ‘‘ وہ نہیں ہو سکتا۔ ’’سند‘‘ ہم اُس کو نہیں کہیں گے۔ ایسی اشیاء ’موضوعی‘  ‘subjective’  ہی ہوسکتی ہیں یعنی جس کے من کو بھائیں وہ انہیں اختیار کرے؛ مگر سب کو ان کا پابند نہ کرے۔ ’’خیر‘‘ ایک مطلق و مستقل حوالے کے طور پر البتہ وہ ہے جو انسان کو سمجھ آئے۔ اور ’’شر‘‘ بھی وہ ہے جو انسان کو سمجھ آئے۔ اور جب خیر اور شر کی تعریف ہی یہ ہے[2]   تو خیر اور شر کے حوالے ’آفاقی‘ universal   ہی رہیں گے، یعنی جن میں انسانوں کے مابین نزاع نہ ہو اور نہ کسی ایسے نزاع یا جھگڑے کی اِس جہان میں اجازت ہونی چاہئے۔

بہت ہولیا، انسان خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر بہت لڑ لیا؛ ایسے جھگڑے خرد کی اِس دنیا میں اب مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ اب یہ تو کوئی جاکر خدا (یا ’خداؤں‘!) کو سمجھاتا کہ اِس ڈھیر ساری عقل کے مالک انسان کی دنیا میں خدا  کو اگر ایک آفاقی حوالہ  universal reference   بننا تھا تو اُس  کو یہاں اتنے متضاد و مختلف الخیال مذاہب کے ذریعے انسانوں سے رابطہ نہیں کرنا چاہئے تھا! یہ تو اپنا اعتبار   credibility  خود کھو دینے والی بات ہوئی! کون اِن کے اختلافات کا فیصلہ کرتا پھرےکہ اِن میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؛ اِس جھوٹ سچ کے فیصلے نے ہی تو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر یہ اتنی ساری لڑائی کروائی ہے؛ جو اِس جھگڑے  کا ’فیصلہ‘ کرنے چلے کیا وہ خود بھی اِس کا فریق نہ بن جائے گا؟! اور ویسے اس کے بغیر ہمارا کونسا کام رُکا ہے جو سب کچھ چھوڑ کر یہ فیصلہ کرنے چلیں کہ خدا کے نام پر بولنے والوں میں یہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا؛ لہٰذا ہم تو بلا تمییز اِن سب سے کہیں گے کہ مہربانی فرما کر آپ ہمیں یہ کارِجہان نبیڑنے دیں اور اپنے یہ جھگڑے اٹھا کر باہر تشریف لےجائیں، اُدھر یہ شوق پورا کریں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؛ ہماری تو یہ ضرورت نہیں ہے! پس خدا کے نام پر سچ بولنے والے بھی دنیا میں اگر کوئی ہیں (اور جن کو زمین کے تین جڑے ہوئے براعظموں کے وسط میں بسنے والی ڈیڑھ ارب کی ایک امت کے یہاں ’’خدا کے فرستادہ انبیاء‘‘ کہا جاتا ہےاور جن کی ایک ایک بات کو ان کے ہاں پوری سند کے ساتھ تلاش کیا جاتا ہے) تو ہماری بلا سے[3]، وہ اتنے ہی غیرمتعلقہ ہیں  جتنے وہ لوگ جو آپ کے خیال میں خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ لہٰذا ’آسمانی قوتیں‘ اگر کہیں ہیں بھی تو انسانوں کے ساتھ ’کومیونی کیشن‘ کے معاملہ میں پہلے قدم پر وہ ایسی فاش غلطی کر بیٹھی ہیں کہ اس سے سارا مسئلہ الجھ کر رہ گیا ہے (اور جس کی بنیاد پر ہم نے تو اپنی طرف سے ان کو ’فیل‘ کردیا ہے) اور جس سے لازم آچکا ہے کہ خدا کے نام پر جھگڑنے والے اِن سبھی طبقوں کو بلاامتیاز ہم اپنی دنیا سے باہر کردیں۔ (هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ)[4] سچے اور جھوٹے، سب باہر جا کر جھگڑیں؛ ہمارے پاس نہیں! اور باہر بھی ہم ان کو ایک حد تک ہی جھگڑنے دیں گے؛ اِس دنیا کا امن و امان اب ہماری ذمہ داری ہے؛ ’خدا‘ کے ہاتھ میں یہ دنیا دے کر ہم نے بہت دیکھ لیا،  اب ’خدا‘ والوں کے ہاتھ میں یہ دنیا نہیں رہی ہے تو خود دیکھ لو پچھلی دو صدی سے دنیا کیسا امن و سکون کا گہوارہ ہے![5] 

  چنانچہ زیادہ لوگوں نے تو ’’ہیومن ازم‘‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی لیا تھا جو خدا (یا ’خداؤں‘!) کو ہٹا کر زمین کے سب معاملے ’’انسان‘‘ کو سونپتا ہے۔ اس میں انسان آپ ہی اپنا مقصود ہے؛ کوئی اور ہستی ایسی شان نہیں رکھتی کہ یہ اُس کےلیے پیدا ہوا ہو اور وہ اِس کی مقصود اور معبود ہو، اور یہ اُس کی رضاجوئی کےلیے پریشان ہوتا پھرے۔  اس میں انسان کی اُن ’طبعی‘ خوبیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جو خیر اور شر کی تمییز کرنے میں ایک مستقل بالذات حوالہ ٹھہرتی ہیں اور اس کے ماسوا کسی ’حوالے‘ کی محتاجی ختم کروادیتی ہیں۔  جس کا آپ سے آپ نتیجہ ہوگا کہ یہ ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ کا صرف ایک ایسا تصور قبول کرے جو انسانوں کے مابین نزاعی[6]   نہ ہو۔ یوں انسان کو اُن سب اختلافی حوالوں سے بےنیاز کردینے کے بعد (ان ’اختلافی حوالوں میں ظاہر ہے سرفہرست ’مذاہب‘ آتے ہیں)، کہ جب اِس کے پاس صرف وہ قدریں بچتی ہیں جن پر ’آفاقی‘  (universal) اور ’غیرنزاعی‘ (non-controversial)   ہونے کا ٹھپہ ہو[7]... انسان کو اپنی ’انسانیت‘ نکھارنے، ’بھلائی‘ اور ’خدمتِ خلق‘ کرنے اور ’برائی‘ اور ’زیادتی‘ سے اجتناب کرنے کے اعلیٰ ترین اسباق دیے جاتے ہیں۔ تو پھر اب خوب، بد، درست، غلط، جائز،ناجائز، واجب، مباح، رشتوں ناطوں کی نوعیت اور رہن سہن کے جملہ امور یہ ’’انسان‘‘ (اپنے کچھ ’’مخصوص‘‘ دماغوں کے ذریعے) ’’خود‘‘ طے کرسکتا ہے؛ انبیاء کو اِس معاملہ میں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں...!  اس لحاظ سے ’’ہیومن ازم‘‘ وہ اصل زہرناک شجر ہے جس پر ابھی تک ’ڈیموکریسی‘، ’کیپٹل ازم‘، ’سیکولرزم‘، ’نیشنلزم‘، ’لبرلزم‘، ’کمیونزم‘ ایسی خوفناک ڈالیاں نمودار ہوئیں اور اسی طرح کی اور بےشمار ڈالیاں ابھی مزید پھوٹ سکتی ہیں۔ یا یوں کہئے اِن سبھی کا الٰہ ایک ہے (’انسان دیوتا‘) اور دین بھی ایک ہے (’انسان دیوتا کی خوشنودی‘)،  پھر بھی اِن کے مذاہب یا تو متنوع ہیں یا متضاد۔(مثال کے طور پر اس دین کا ایک ہی اصول ’’انسان کی آزادی‘‘ کی تفسیر کیپٹل ازم کے ہاں جو ہوتی ہے کمیونزم کے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے؛ جبکہ اصول دونوں کا ایک ہے: ’انسانی آزادی‘)۔ پس اصل دین ان سب لوگوں کا ایک ہے: ہیومن ازم، باقی اس کی شاخیں ہیں۔

’’ہیومن ازم‘‘ کو اِس پہلو سے تو سبھی جانتے ہیں۔ اور اس حوالے سے یہ ایک باقاعدہ دین ہے ان سب روایتی مذاہب کے مقابلے پر جو انسان کو ایک مستقل بالذات ہستی کے طور پر لینے کی بجائے اسے ایک مافوق الفطری طاقت ( یا ’طاقتوں‘) کا پرستار بناتے ہیں۔  ’’ہیومن ازم‘‘  کا ایک الگ تھلگ دین ہونا بھی کوئی باعث تعجب بات نہیں۔ روایتی  مذاہب کے مقابلے پر ایک نیا دین، اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔  ادیا ن ایک دوسرے کے حریف ہوں، یہ  بھی کوئی نئی بات نہیں۔ انسانوں کا ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں چلے جانا بھی کوئی انہونی خبر نہیں۔  ہر دین کا اپنا ایک ڈسکورس ہے جو چاہے اسے قبول کرے اور جو چاہے اس کو مسترد کرےاور کسی دوسرے دین کے ڈسکورس میں اپنی تسلی ڈھونڈے۔ کہیں تسلی نہیں ہوتی؛ خود کوئی دین گھڑ لے۔  ’’ہیومن ازم‘‘ بھی ان ادیان میں سے ایک دین ہوا؛ کسی کی تسلی ہیومن ازم میں ہوتی ہے تو وہ سو بار اسے قبول کرے۔ہمارے اور اس کے فیصلے کےلیے قیامت کا ایک دن طے ہے؛ اور موت تک اس کی مہار ڈھیلی ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟



[1]  تاویل... جوکہ یہاں پر سب سے زیادہ ’قدر‘ پانے اور سب سے بڑھ کر ’دستگیری‘ کے لائق مانی جانے والی چیز ہے! ہر مذہب آج بڑی تیزی کے ساتھ اِس ’عمل‘ سے گزارا جا رہا ہے اور اس کی ’نہ سمجھ آنے والی‘ باتیں طریقے طریقے سے دورِ حاضر کے تصورات کے مطابق ’ایڈجسٹ‘ کی جا رہی ہیں؛ figurative study of the spiritual text  کے تحت۔ اس پر کچھ بات آگے آ رہی ہے۔

[2]   خود ہمارے مذہبی جدت پسندوں کے بقول: معروف اور منکر کی حقیقت ’ازروئے اسلام‘ بھی یہی ہے، یعنی ’رائے عامہ‘ جس کی تشکیل آپ جانتے ہیں کو ن کرتا ہے؛ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں!

[3]  اس کو ہمارے علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ’’کفرِ اعراض‘‘ کہتے، اور جوکہ انبیاء کے ساتھ کفر کرنے کی سب سے عام صورت ہے۔ ’’کفرِ اعراض‘‘ کی تعریف کرتے ہوئےامام ابن قیم  فرماتے ہیں:

وأما كفر الإعراض فأن يعرض بسمعه وقلبه عن الرسول ، لا يصدقه ولا يكذبه ، ولا يواليه ولا يعاديه ، ولا يصغي إلى ما جاء به البتة     (مدارج السالکین ج 1 ص 347)

’’رہا کفرِ اعراض تو وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کان بھی رسول کی جانب سے پھیر لے اور اپنے دل کی توجہ بھی؛ نہ وہ رسول کی تکذیب کرے اور نہ تصدیق۔ نہ وہ رسول کا ساتھی ہے اور نہ رسول کا دشمن۔ یہ رسول کی بات پر کان دھرنے کےلیے ہی تیار نہیں‘‘۔

[4]  (الحج: 19) ’’یہ دو فریق جن کا جھگڑا اپنے رب کی بابت ہے‘‘۔

[5]  ایسا ’امن کا گہوارہ‘ ہے کہ دورِ ماضی کا انسان اِس پر رشک ہی کرے! یہ خود جانتا ہے، بیسویں صدی کے نصف اول میں لڑی گئی صرف دو ’عالمی جنگوں‘ میں جو ہرگز ہرگز ’خدا‘ کے نام پر نہیں لڑی گئیں ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں انسان لقمۂ اجل بنے۔ اِس کے بعد نصف صدی تک چلنے والی ’سرد جنگ‘ میں  جو ہرگز ہرگز ’خدا‘ کے نام پر نہیں لڑی گئی کروڑوں انسانوں نے زندگی اور آزادی سے ہاتھ دھوئے؛ یہاں تک کہ آدھی صدی یوں گزری کہ ’ایٹمی جنگ‘ تمام اہل زمین کے سروں پرکسی ’کوہِ بنی اسرائیل ‘ کی طرح  لٹکتی رہی، اور ایسا اِس زمین نے آج تک کبھی نہیں دیکھا تھا، اور جوکہ اب بھی ختم نہیں ہوگیا ہے بلکہ وہ صورتحال مسلسل سُلگ رہی ہے اور آئندہ عشروں میں اس سے کہیں زیادہ بھڑک کر سامنے آسکتی ہے...  اس سارے فساد کا، جو زمین نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، حوالہ دور نزدیک سے ’’خدا‘‘ نہیں تھا بلکہ ایک ’انسانی مسئلہ‘ تھا کہ دولت کا حصول اور تقسیم کس طرح ہو (کیپیٹل ازم اور کیمونزم کا جدل)۔  یہ ہے بیسویں صدی کا قصہ؛ پوری تاریخ انسانی میں اتنا خون نہ بہا ہوگا جتنا اِس ایک ہی صدی میں بہہ گیا۔ کون اِس ’ہیومن‘ جانور کو بتائے کہ فساد اور خونریزی خود اِس کی خصلت میں ہے (جس کا حساب دینے کیلئے ہم انبیاء کے پیروکار اِس نفس کو تزکیہ دیتے اور ’’مالکِ یومِ الدین‘‘ کا وِرد کرتے ہیں، جو اگر دل میں اتر جائے تو کسی کا خون کرنا تو درکنار آدمی  کسی کا بال بیکا کرتے ہوئے بھی جوابدہی کے خوف سے کانپتا ہے)۔  ظلم اور بغی دراصل اِس درندے کی سرشت میں ہے جو زمین کو قتل گاہ بناتی ہے؛ اِس ظلم اور زیادتی کو تو ’خدا‘ اور ’ایمان‘ کے کھاتے میں ڈالنا البتہ بھلائی اور انصاف کو اپنی (ہیومن)  نیچر سے جوڑنا اِسکا غرور اور تکبر ہی نہیں بلکہ شیطنت ہے کہ  اِسے حجت بنا کر یہ مخلوق کو قائل کرتا پھرے کہ وہ ’خدا‘ کو اِس ’’اپنی‘‘ دنیا سے باہر کردیں۔ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ

[6]  البتہ اِس ’نزاع‘ کا فیصلہ کرنے کےلیے ایمپائری ایک خاص فریق کے ہاتھ میں رہے گی جس کو ’’مذہبِ ہیومن ازم‘‘ کے پنڈت کہئے اور جوکہ ’’انسان‘‘ کے نام پر ویسی ہی ’دکانیں‘ لگاتے، ویسا ہی ’جھوٹ سچ‘ بولتے اور ویسا ہی ’خون‘ بہاتے ہیں جو اِس سے پہلے ’’خدا‘‘ کے نام پر ہوتا رہا۔ کسے معلوم نہیں کیپٹل ازم اور کمیونزم کی جنگ میں معبود ہر دو طرف یہی ’انسان‘ اور ’نیچر‘ تھی جس نے مغربی بلاک پر کچھ ’وحی‘ کی تو مشرقی بلاک پر کچھ اور! چلئے ’’خدا‘‘ کی تو یہ شان ٹھہری کہ اِس فانی جہان میں وہ یوں مخلوق کے روبرو نہ آئے کہ یہاں ہر کسی سے ہم کلام ہو  }وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران: 179) ’’اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ وہ تم سب کو غیب کا علم دے دے؛ (تمہیں غیب سے مطلع کرنے کےلیے تو) اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کرتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر ہی۔ اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرلو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے‘‘ (اور اِسی ’’بڑے ثواب‘‘ میں یہ شامل ہے کہ ایک دن یہ آدم زاد اُس ذاتِ کبریاء سے اور وہ اِس سے ہم کلام ہو۔ پس مالک کا انسان سے  ہم کلام ہونا ایک ’’ثواب‘‘ اور ’’جزاء‘‘ ہے جوکہ اُس کی شرطوں کو پورا کرنے کا انعام ہے اور اُس کی شرط ہے: بن دیکھے اُس پر ایمان، اور اپنی دنیا میں اُس کے رسولوں کی پزیرائی، اور زمین پر ایک پرہیزگاری کی زندگی؛ جس کے نتیجے میں وہ لازماً ایک دن اِس کو اپنے حضور باریابی بخش دے گا اور اس سے باقاعدہ ہم کلام ہوگا اور اِس کی ہر ہر خواہش پوری کرے گا اور خود اپنے پاس سے اِس کو بہت کچھ دے گا۔ البتہ وہ انسان جو مالک کی شرطوں کو پورا کرنے کی بجائے الٹا مالک پر ’’شرطیں‘‘ لگائے کہ وہ یہاں آکر ہر ہر انسان سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا، یعنی مالک کا اِس سے ہم کلام ہونا مالک کا اِس پر انعام اور ثواب نہ ہو بلکہ اِس کا مالک پر ’ڈیمانڈ نوٹس‘ ہو جس کو پورا نہ کر پانے کی صورت میں مالک کو ہی اِسکے ’التفات‘ سے محروم رہنا ہو؛ جبکہ اُس کے اِسکی جانب پیغمبر بھیج دینے اور کتابیں نازل فرما دینے سے اِسکا وہ ’’ڈیمانڈ نوٹس‘‘ پورا نہ ہوتا ہو... تو ایسے شخص کو بھی وہ حکمت اور دانائی کا مالک بھولا نہیں ہے؛ اِس کیلئے بھی اُس نے ’بہت کچھ‘ تیار کر رکھا ہے، صرف اِسکے وہاں پہنچنے کی دیر ہے، اِسکو معلوم ہوجائے گا کہ یہ زمین کس کی تھی، یہ جان کس کی ڈالی ہوئی تھی،  یہ ’نیچر‘ کس کے کہنے پر اِسکا پانی بھرتی تھی اور یہ ’’مہلت‘‘ اِسکو کس مقصد کےلیے ملی ہوئی تھی!){، غرض مالک کی تو یہ شان ٹھہری کہ وہ یہاں اِس سے براہِ راست ہم کلام نہ ہو بلکہ اِسے آنکھیں، کان، دل اور دماغ دے دینے اور اپنی قدرت کی نشانیاں ہر طرف پھیلا دینے کے بعد ’’رسول‘‘ بھیجنے اور ’’کتابیں‘‘ نازل فرما دینے  پر ہی فی الحال اکتفا کرے؛ اور یوں اپنی پہچان کرانے میں ہی اِس کا ایک نہایت خوبصورت و پرلطف امتحان کرے؛ پس وہ ذاتِ کبریاء تو سامنے نہیں آتی تو اس کی کوئی وجہ ہے... یہ ’نیچر ماتا‘ اور ’انسان دیوتا‘ تو یہیں پایا جاتا ہے؛ اِس کی ’وحی‘ بھی اِس قدر مختلف؟! کہ اِس دیوتا سے ملنے والی ’وحی‘ کی اتباع میں ہردو فریق (سرد جنگ کے دو فریق، جن کے مابین تقریباً پورا ’گلوب‘ تقسیم ہوگیا تھا) ایک دوسرے کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے تک چلے جائیں... اور ’’انسان دیوتا‘‘ سہما ہوا، پون صدی تک اس پر ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘؟!

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کمیونسٹ بلاک کے گھٹنے ٹیک دینے کے بعد ’’انسان‘‘ کے نام پر بہایا جانے والا خون بظاہر کچھ تھم گیا ہے... تو اِس کو ’یونی پولر‘ ورلڈ کا کمال کہئے! کوئی بھی ایک فریق دنیا میں ’آل اِن آل‘ ہوجاتا ہے تو کچھ دیر کےلیے ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے؛ اس میں تعجب کی کیا بات؟ (ایسی گرمی اور گھٹن میں کسی نئی جنگ کی گھٹائیں ضرور اٹھ رہی ہوتی ہیں جو اپنے تشکیل پانے میں ذرا وقت لیتی ہیں، البتہ لوگ ان کی طرف توجہ اسی وقت کرتے ہیں جب وہ ’’برسنے‘‘ ہی کےلیے چڑھ آئیں)۔ ہم کہتے ہیں، ’’خدا‘‘ کو ماننے والا کوئی فریق بھی اگر اس قدر غالب آجائے جتنا سرد جنگ کے اختتام پر کیپٹل اسٹ بلاک غالب اور سر چڑھ کر بولنے لگا ہے  تو دنیا میں ’کسی بڑی جنگ‘ کے خطرات اتنے سے ضرور ٹل سکتے ہیں جتنے سے اس وقت ’ٹلے ہوئے‘ دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ وہ سچا مہربان خدا جس کی خبر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے دی ہے، اُس کو ماننے والے اگر کسی وقت زمینی عمل پر اس حد تک غالب آجائیں جتنا اِس وقت کیپٹل بلاک غالب آیا ہوا ہے تو ہم على وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ زمین صدیوں تک کےلیے فی الواقع امن اور چین کا گہوارہ بن جائے۔ اس ’پوسٹ کولڈ وار‘ سے تشکیل پانے والی ایک جعلی وغیرطبعی صورتحال کا کریڈٹ البتہ اگر ’خدا کو زمین سے بےدخل کردینے‘ ایسی ملعون پیشرفت کو دیا جائے تو اس سے بڑا جھوٹ اور گمراہ کن اسلوب کوئی نہ ہوگا جس کےلیے فی الوقت ’دانشوری‘ کے نام پر تالیاں پیٹی جا رہی ہیں!

[7]  یہ ٹھپہ جہاں بنتا اور ’اپ گریڈ‘ ہوتا ہے اس کا اوپر کچھ ذکر ہوچکا۔

فہرست موضوعات

مقدمہ:فتنۂ ہیومن ازم

ڈھا دے مسجد، ڈھا دے مندر

مذاہب حاضر کیے جائیں

ادیان کی ریفارم

بتانِ رنگ و خوں میں ایک اور اضافہ: ’مذہب‘!

ہیومن ازم کےلیے ’اسلامی‘ بنیادوں کی فراہمی

کفر کو گھناؤنی چیز بنا کر بھی پیش مت کرو!

مـنــشـــــــــــــوراتِ ايقــــــــــــــــــــاظ

پوسٹ بکس نمبر  10262 لاہور   matbooateqaz@gmail.com      

http://www.eeqaz.org/
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز