’ڈھا دے مسجد، ڈھا دے مندر...‘!
(فصل 1۔ فتنۂ ہیومن ازم)
بھائی کب تک انسانوں کو ’’مومن‘‘ اور ’’کافر‘‘ کی نظر سے
دیکھو گے۔ چھوڑ بھی دو؛ اب تک ’وہیں‘
کھڑے ہو۔ آگے بڑھو۔ انسانوں کو پیار کی نظر سے دیکھنا سیکھو، مشرک ہوں کافر ہوں
ہندو ہوں سکھ ہوں انبیاء کو ماننے والوں ہوں انبیاء کو جھٹلانے والے ہوں، اس
سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ آخرت میں دیکھی جانے والی چیزیں ہیں دنیا میں
نہیں! دنیا کو پیسے، وسائل اور مواقع کی نظر سے دیکھو۔ مخلوق کو بانٹنا ہی ہے تو ’ترقی یافتہ
وغیر ترقی یافتہ‘ اور ’مہذب و غیر مہذب‘ میں بانٹو؛ کم از کم اچھے تو لگو گے،
کیونکہ یہ مطلق ’انسانی‘ قدریں ہیں، اس میں کوئی انسان تم سے اختلاف نہ کرے گا اور
جو اختلاف کرے اس کو انکل سام خود دیکھ لے گا! ایسا کرتے ہوئے کوڑھ مغز تو نہیں
لگو گے! البتہ ’’دین‘‘ کی نظر سے دیکھنا؟... جس میں انسانی ذوق اور رجحانات ہی
متفق نہیں اور نہ کبھی متفق ہوپائیں گے
لہٰذا یہ ’تفرقہ‘ کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے!؟
بھائی انسان کو انسان کے طور پر دیکھو اور صرف ’انسانی‘
قدروں کی میزان میں تولو۔ ’مطلق انسانی قدریں‘ جو اِن حالیہ صدیوں میں ہم پر یکلخت
کہیں سے الہام ہوئی ہیں! ’فضیلت‘ اور ’بھلائی‘ کا مطلق آفاقی حوالہ کوئی ہوسکتا ہے
تو بس یہی: انسان اور انسان کی متفق علیہ قدریں اور بس۔ اسلام کا بھی کوئی حوالہ
دینا ہے تو وہ جو اِس ’آفاقی‘ فریم میں فٹ آئے۔ اسلام کے اپنے مستقل بالذات حوالے
آخر کس کام کے؟! باقی سب مذہبی گروہ اسی
میں فٹ ہورہے ہیں تو اسلام کیوں نہیں؟!
مسلمانوں کی یہی عادت تکلیف دیتی ہے، ’نئی تبدیلیوں‘ کا
ساتھ دینے میں بلاوجہ دیر کرنا؛ آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا! نری ضد!
اُدھر دیکھو اِس دینِ جدید میں عیسائیت والے کب کے اپنی عیسائیت کو فٹ کرا چکےاور
تب سے وہ عیش کر رہے ہیں، کہو تو کوئی ان کی طرف انگلی بھی اٹھائے؛ کچھ اُنہی سے
سیکھ لو۔ یہودیت والے اپنی یہودیت کے لیے اِس دین اکبری میں بھاری کوٹہ پا چکے؛
دیکھ لو کس آرام سے جی رہے ہیں۔ ہندو یہاں اپنی الاٹمنٹ کروانے میں لگے ہیں۔ سِکھ
ہیں تو ان کے مزے ہیں۔ مجوسی، دہریے، ہم جنس پرست سب اپنی اپنی ’ڈومین‘ لے چکے؛
اپنی اپنی دنیا میں مگن، دن دگنی رات چوگنی ترقی... اور تم مسلمان، وہی ’’ایمان
لانے‘‘ کی ضد! ’’کفر‘‘ چھوڑنے کی ہٹ!
’’انبیاء‘‘ کو منوانے اور ان کا دامن تھامنے پر اصرار؛ جس کے بغیر نہ نیکی
تمہارے ہاں نیکی ہے، نہ کوئی خوبی تمہارے ہاں خوبی ہے۔ کسی کا جنت اور جہنم پر ایمان نہیں تو بھی اس
کی خیرات اور ’’چیریٹی‘‘ میں بھلا کیا نقص ہے جو تم اسے ذرہ بھر وقعت دینے کےلیے
تیار نہیں! کسی کا مرنے
کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور جوابدہی کےلیے خدا کے حضور پیش ہونے پر یقین نہیں تو
اس کی ’’خدمتِ انسانیت‘‘ میں آخر کیا عیب ہے
جو اس کے ان اعلیٰ کارناموں کو تم رتی بھر وزن دینے پر آمادہ نہیں۔ کوئی اپنے بتوں کے نام پر چڑھاوا دے، خدا کے
ساتھ ٹھہرائے ہوئے اپنے کسی شریک کے نام پر ذبیحہ کرے، دیویوں کی رضاجوئی میں
ہسپتال کھولے، لنگر چلائے، انسانوں کو نفع پہنچائے تم اس کو بھی جہنم کی وعیدیں
سنانے سے نہیں ٹلتے۔ خدا کا خوف کرو۔ یہ تمہارا کیسا خدا ہے جو غریب کے چہرے پر
مسکراہٹ نہیں دیکھ سکتا، نادار کے پیٹ میں کھانا پڑتا برداشت نہیں کرسکتا محض اس
لیے کہ وہ ذبیحہ یا چڑھاوا جو اس انسان کے پیٹ میں گیا خاص اُس کے نام پر ہونے کی
بجائے اس کے کسی ’شریک‘ کے نام پر کرڈالا گیا تھا؟! رزق، وسائل اور انسانی جذبوں
کی ایسی ناقدری؟!
جو حکم مردار کا وہ حکم تمہارے نزدیک اُس نفع بخش صحتمند ‘healthy’ رزق
کا جو غیراللہ کے نام کردیا گیا! حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت اس میں کوئی ایک بھی
تو کمی آئی ہو! اس میں بھی تو انسانوں ہی
کے ساتھ بھلائی کی گئی ہے۔ وہ بھی تو غریبوں، یتیموں اور ناداروں کو کھلایا
جانا تھا۔ ایسا نخرہ؟!
نہ بھلائی تمہارے نزدیک بھلائی۔ نہ اچھائی تمہارے نزدیک
اچھائی۔ انسان کا سارا ٹیلنٹ رُل جائے،
احساسات خاک میں مل جائیں، سماجی میلانات مجروح ہوکر رہ جائیں، بس تمہاری یہ ایک
شرط پوری نہیں ہوئی کہ اس آدمی نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر تمہارے قرآن اور
محمد (ﷺ) کا دم نہیں بھرا تو تم اس کا سب کچھ اکارت ٹھہرا دیتے ہو۔ دو دل جڑیں تو تمہیں تکلیف ہونے لگتی ہے،
تمہاری ’غیرت‘ جاگ اٹھتی ہے اور تمہارا یہ ’’ادیان کا فرق‘‘ ایک مسلم لڑکی اور ہندو لڑکے کے پیار میں آڑے آجاتا ہے؛
ذرا خود سوچو ’’پیار‘‘ ایسی آفاقی قدر، جس پہ دلوں کو اختیار ہی نہیں ہے! اور جس
کے ’تقدس‘ پر ہمارے ادب اور شاعری نے ڈیڑھ سو سال تک تمہارے دماغ صاف کرنے کےلیے
مغزماری کرلی، اسٹیج، فلم، ڈرامے اور شوبز
نے زور لگا لیا، تھیٹر روہانسا ہوگیا، ریڈیو نے گلا تھکا لیا، لچر گانے بازگشت بنے تمہارے پیچھے پھرتے رہے،
ہمارا آرٹ، فیشن، میڈیا سب بھاڑ جھونک بیٹھے
اور تمہاری وہی ایک رَٹ: لَا
هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ (الممتحنۃ: 10) ’’نہ
یہ (مومن عورتیں) ان (مشرک مردوں) کےلیے حلال ہیں
اور نہ وہ (مشرک مرد) اِن (مومن عورتوں) کےلیے‘‘!
’’ملتوں کا فرق‘‘ کسی گہری خلیج کی طرح تم نے اپنے اور
دوسرے انسانوں کے مابین ڈال رکھا ہے؛ اندازہ تو کرو اِکیسویں صدی میں بھی تم اِسی
خلیج کو گہرا کرنے میں لگے ہو! ’’کفرواسلام‘‘
نام کی یہ فصیل تم اِس عہدِ گلوبل ازم میں اٹھانے کی سوچ رہے
ہو؛ تمہاری یہ ہمت! ایسی اونچی فصیلیں یہاں تم ہمارے اُس مطلوبہ جہان کے راستے میں کھڑی
کرنے لگے جس کے، ہمارے ’انسانیت‘ کے غم میں گھلنے والے میسونی Freemasonic دماغوں نے، صدیوں خواب دیکھے تھے اور جس کے
راستے کی ایک فصیل ’’خلافت‘‘ کو ہم نے بمشکل تمام گرایا اور پھر اس کو گرانے کے
بعد بھی سو سال تک اپنی مطلوبہ تعمیرات
کےلیے زمین ہموار کرتے رہے کہ تم ایک نئی فصیل کھڑی کر لائے: ملتوں کا فرق! کافر سے براءت! شرک اور اہل شرک سے بیزاری! ’’مغضوب علیہم‘‘
اور ’’ضالین‘‘ ایسی بھیانک اصطلاحیں جو ’پنجوقتہ نماز‘ سے ہی نکالی
جانے لگیں! اور اس کی ایسی ایسی تفسیریں جو سوائے کچھ سرپھروں اور شدت پسندوں کے کسی کو
ہضم ہونے کی نہیں اور جو اِس کرۂ ارض کو (’’ہمارے‘‘ مطلوبہ نقشے پر) کبھی امن کا
گہوارہ بننے دینے والی
نہیں!
یہ ہے نیا مذہب جس کا نام ہے ’’انسانیت‘‘ یا ’’انسان
پرستی‘‘۔ ’’ہیومن ازم‘‘۔
ان کا کہنا ہے یہ ہیومن ازم ہر مذہب والوں کا ’’مذہب‘‘
ہوسکتا ہے، بلکہ یہ تمام مذاہب کی اچھائیوں کا نکالا ہوا سَت ہے اور انسانیت کے جملہ امراض کیلئے اکسیر۔ ہر مذہب کی
اچھی چیز اس میں آپ سے آپ آگئی ہے۔ آپ عمل اس پر کریں، پیراڈائم اِس کا قبول کریں، البتہ نیت چاہے جس
بھی مذہب کی کریں۔ اچھائی کا آفاقی
تصور یہاں سے لیں۔ بلکہ اچھائی ہے ہی آفاقی جو کسی ’اختلافی حوالے‘ کی پابند
نہیں اور کسی نزاعی حوالے کی متحمل نہیں۔ لہٰذا اچھائی وہ جو ’یونیورسل‘ ہو، یہ
کرلیں تو آپ دینِ ’ہیومن ازم‘ پر ہوئے۔ اضافی طور پر آپ کچھ اور ہوں، اس سے فرق
نہیں پڑتا؛ مسلمان، ہندو، عیسائی، دہریہ، سب غیرمتعلقہ ہے؛ دیکھنا یہ ہے کہ آپ میں
’اچھائی‘ کتنی ہے۔ یہ ’اچھائی‘ ہیومن ازم کی چیز ہے، باقی مسئلے مذاہب کے اپنے
اپنے ہیں۔ مذاہب کو اگر یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں ’اچھائی‘ کو فروغ دیتے ہیں،
اور ظاہر ہے کس مذہب کو یہ دعویٰ نہیں، تو وہ اپنے آپ کو ’ہیومن ازم‘ کی عدالت میں
پیش کریں؛ کیونکہ ’اچھائی‘ کا سارا اِجارہ اِس کے پاس ہے!
آئیے اِس ’اِجارے‘ کی کچھ روداد سنیں...