خطبۂ حجۃ الوداع اور دستورِ جاہلیت کی منسوخی
ابن تیمیہ کی اقتضاء الصراط
المستقیم سے اقتباس
(رسول اللہﷺ کے تاریخی خطبۂ حجۃ الوداع کا ایک حصہ گویا ہے ہی اس موضوع کے گرد کہ اسلام
میں جاہلیت کے سب امور کالعدم ٹھہرائے جاتے ہیں):
أَلَا كُلُّ
شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ
الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ
بْنِ الْحَارِثِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا
الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا
رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ.
(صحيح مسلم، عن جابر رقم الحديث 2224)
خبردار! جاہلیت کے دستور کی ہر شےء منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے ہے۔ اور
جاہلیت میں ہونے والے خون ساقط ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اور پہلا خون میں اپنے (خاندان
کے) خونوں میں سے ساقط ٹھہراتا ہوں۔ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون۔ یہ بنی سعد
میں دودھ پلائی کےلیے چھوڑا گیا تھا اور اسے قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا۔ اور
جاہلیت کا سود بیاج ساقط۔ اور پہلا بیاج میں اپنے (خاندان کا) بیاج ساقط کرتا ہوں:
عباس بن عبد المطلب کا بیاج۔ وہ پورے کا
پورا ساقط ہے۔
یہاں نبیﷺ کا یہ
جو فرمانِ عام ہے: ’’خبردار جاہلیت کے دستور کی ہر شےء منسوخ ہو کر میرے قدموں کے
نیچے ہے‘‘ تو اس میں وہ سب کچھ آ جاتا ہے جس پر لوگ اسلام میں آنے سے پہلے تھے۔
خواہ وہ عادات (رواج) ہوں اور خواہ عبادات۔ مثلاً اُن کے
نعرے کہ ’فلاں کی جے‘ اور ’فلاں کی جے‘۔ نیز اُن کے تہوار۔ اور اسی طرح کے دیگر
امور جو ان کی امتیازی پہچان ہوں۔
جاہلیت کے دستور کی ہر شےء کو کالعدم ٹھہرانا... یہ تو ہوا ایک اصولی حکم نامہ۔ اس کے بعد خطبۂ
مبارک میں اُن دماء (جانوں) اور اموال کا مسئلہ آیا جو جاہلی اعتقادات کی رُو سے
مباح کر لیے جاتے تھے۔ مثلاً بیاج کی وہ رقمیں جو ابھی کہیں کہیں لوگوں کے ذمے
واجب الاداء چلی آتی تھیں۔ یا کوئی خون جس کا معاملہ جاہلیت سے چلا آتا تھا، یعنی
یا تو قاتل کے اسلام لانے یا مسلمانوں کے عہد میں آنے سے پہلے قتل ہوا تھا یا
مقتول کے اسلام لانے یا مسلمانوں کے عہد
میں آنے سے پہلے۔ اب اموال اور دماء کے متعلق ان احکام کا ( أَلَا كُلُّ
شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ ’’خبردار جاہلیت
کے دستور کی ہر شےء منسوخ ہو کر میرے قدموں کے نیچے ہے‘‘) فرمانے کے متصل بعد آنا یوں سمجھا جائے گا کہ:
· یا تو یہ ایک عام کو لانے کے بعد اس
کے تحت آنے والی کچھ اشیاء کا خصوصی ذکر ہے۔
·
یا یہ کہ یہ کچھ ایسے خاص امور کو ساقط ٹھہرانے کا اعلان تھا جن کی بابت گمان چلا آ رہا تھا کہ یہ امور واجب
الاداء حقوق میں آتے ہیں۔
اِس میں وہ اشیاء نہیں آئیں گی جن پر
اہل جاہلیت رہے تو ہیں البتہ اسلام نے ان کو برقرار رکھا۔ مثل: حج کے بہت سے
مناسک، مقتول کی دیت سو اونٹ، قسامت، وغیرہ۔ کیونکہ لفظ جاہلیت کا جو مفہومِ عام
استعمال ہے وہ اُن اشیاء کے لیے ہے جن پر اہل جاہلیت تھے اور اسلام نے ان کو
برقرار نہیں رکھا۔ ہاں اگر کوئی چیز جاہلیت میں تھی تو وہ اسی ممنوعہ زمرے میں ہی
رہے گی اگرچہ اسلام نے خاص معین کر کے اس چیز کو نہ بھی روکا ہو۔
(کتاب کی فصل
’’جاہلیت کیا ہے اور سنتِ جاہلیت کیا ہے‘‘ کا اختتامی حصہ)