یہ "سیزفائر" یا "جان بخشی" کی خوشی نہیں،
دانش گرو!
حامد کمال الدین
فلسطینی قوم کی خوشیوں پر حیران اپنے دانشور!
زیادہ فلسفیانا چیزوں کو اچھا نہیں، میرے زیادہ
پڑھے لکھے بھائیو! یہ بھی سادہ کاری کی اِفراط oversimplification کی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔
اُن کو بھی پتہ ہے ان کا کیا کیا نقصان ہو چکا
پچھلے دس دن میں، ضروری نہیں ہے تمہارے "یاد دلانے" سے اُن کو یاد آئے!
وہ سب ان پر "بیتا" ہے جو آپ نے دور بیٹھ کر "سنا" ہے؛ آپ ان
سے زیادہ "حساس" نہیں ہو سکتے۔ پھر بھی… یعنی اپنے عزیزوں اور پیاروں کی
شہادتیں سہہ کر بھی… اپنے کراہتے زخموں کو اٹھا کر بھی… وہ کسی اتھاہ خوشی کا اظہار
کر رہے ہیں تو ہو سکتا ہے اس کی کچھ وجہ بھی وہ اپنے پاس رکھتے ہوں۔ اتنا بےوقوف
سمجھنا کسی کو ویسے عقلمندی نہیں ہے!
وہ تو اس دن شکر کے سجدے کر رہے تھے جس دن انتفاضہ
کے ہاتھ میں پتھر آئے تھے… خالی پتھر… گویا ایک مردہ بدن میں زندگی کی لہر دوڑ گئی
تھی؛ آج تو ان کے جیسے کیسے میزائلوں نے ایک فرعون کے ہوش درست کیے ہیں!
آپ میں اور اُن میں کئی فرق ہیں۔ ایک نہیں کئی۔
آپ ان کا موازنہ اسرائیل سے کر رہے ہیں اور وہ اپنا موازنہ اپنی اَسی کی دہائی
والی حالت سے کر رہے ہیں جب قریب تھا کہ "فلسطینی" ہونا دنیا میں
مایوسی، پناہ گیری، دربدری اور رحم اور زندگی کی بھیک مانگنے کے مترادف لفظ ہو کر
رہ جائے!!! آج وہ اپنے ایک نہایت ہونہار بچے "انتفاضہ" uprising
کو تیزی کے ساتھ جوان ہوتا اور "مقاومة" resistance سے بھی آگے گزر "مواجھة"
confrontation کے آس پاس پہنچتا دیکھ رہے ہیں،
تو اس میں اپنے زخموں کا مداوا دیکھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اسے یوں گبھرو ہوتا
دیکھ کر وہ اپنے زخم بھول جاتے ہیں۔ پس یہ خوشی کسی مخصوص واقعے کی نہیں ایک
مجموعی عمل کے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جانے کی ہے، اگر ہمارا یہ ‘مبصر’ اسے
دیکھنے پر آمادہ ہو۔ وہ ایک "شیرخوار موسیٰ" کو جس کی بابت ان کو یقین
ہے کہ اس کی جوانی کا مطلب ہی ایک "فرعون" کو نشانِ عبرت بنانا اور رہتی
دنیا تک کو اسلام کا کوئی معجزہ دکھانا ہے، رعنائی کی منزلیں ایک کے بعد ایک طے
کرتا دیکھتے ہیں اور "ہونہار بروا" کی سب نشانیاں اس کے اندر ایک کے بعد
ایک اپنی آنکھوں دیکھتے ہیں، تو ایسی ہر نشانی سامنے آنے کے ساتھ خوشی اور بےیقینی
سے نہال ہونے لگتے ہیں۔ اُن کی خوشی یہ کہ اپنے ایک نہایت طویل سفر میں وہ ایک
منزل اور بڑھ لیے، پوری کامیابی اور تمکنت کے ساتھ۔ آپ کا خیال، یہ محض ایک
"سیزفائر" یا کوئی "جان بخشی" ہو جانے پر ان کا خوشی سے بےحال
ہو جانا ہے! یہ سادہ فکری کی انتہا ہے دانش گرو، کاش آپ ایک فلسطینی کی نظر سے
پورے معاملے کو دیکھ سکتے۔ آپ شاید اُس حالت سے نہیں گزرے جس سے وہ ساٹھ اور پھر
ستّر اور اَسّی کے عشرے میں گزرے، لہٰذا، "غزّہ"، خدا کے اِس معجزے کو
وہ سمجھتے ہیں، آپ نہیں۔ شاید سمجھ بھی نہیں سکتے…
اَسّی کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے، فلسطین اور
فلسطینی دنیا میں "خیمہ بستیوں" کے سوا کسی شےء کا نام نہ رہ گیا تھا،
یا پھر اندرونِ مقبوضہ اراضی صیہونی ‘ماسٹرز’ کے ساتھ اُن کا منتظر وہ تاریک،
سفاک، ذلت ناک مستقبل جو کبھی بنی اسرائیل کا مصر میں آلِ فرعون کے ساتھ تھا، یا
پھر اس سے بھی بد تر۔ آنے والے عشرے بس اب یہی تھا اُن کےلیے، افق پر۔ رات چڑھتی
چلی جا رہی تھی اور سورج کا دور دور تک کوئی نشان اور نہ امکان۔ ساٹھ تا اَسی کا
وہ دور… جب چالیس میں ان کو سبز باغ دکھا کر اُن کے فلسطینی گھروں سے اُنہیں اُٹھا
خیمہ بستیوں میں لا بٹھانے والے عرب راجواڑے صیہون کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں
آگے پیچھے باریاں لگا چکے تھے؛ اور سبھی کی دوڑیں اُسی طرف کو تھیں؛ کوئی تیز تو
کوئی آہستہ، اپنی قوم کو ‘ساتھ’ لے کر چلنے کی آس میں! جس کی باری
"ابھی" نہیں بھی آئی تھی، درونِ پردہ وہ بھی اُسی عطار کے لونڈے سے دوا
لیتا یہاں تک کہ آگے بیچتا تھا۔ سبھی
پُڑیاں اب اُسی ملعون کے تھڑے سے آنے لگی تھیں کم از کم عربستان کی حد تک۔ مسلم
شرقِ اوسط اب نرا ‘عرب لیگ’ اور ‘او آئی سی’: عربوں اور مسلمانوں کےلیے تھپڑ کھا
کر اُس کی ‘آفیشل رسید’ دینے پر مامور ایک ڈیسک! دنیا اس سے زیادہ تاریک نہیں ہوئی
تھی کبھی قدسیوں پر۔ پھر نوے کی دہائی میں قدم دھرنے کے ساتھ ہی، یہ تاریکی اپنی
انتہا پر پہنچی جب "بعث" اور "مشرقی بلاک" کے زمیں بوس ہونے
کے ساتھ "پی ایل او" جیسی فلسطینیوں کی اُس وقت تک کی آخری اور واحد
امید بھی دم توڑ گئی، اور فلسطینی تعبیر میں وہ بھی، یعنی پی ایل او بھی، صیہون کی
گود میں جا بیٹھی، میڈرڈ اور اوسلو معاہدے کر کے!!! کسی کو کیا اندازہ، نہتے ناتواں
ہاتھوں میں پتھر تھامے خدا پر توکل کیے دھیرےدھیرے نمودار ہونے والی یہ
"انتفاضہ" اس قوم کےلیے کیسی اندھیری رات کے بعد طلوع ہونے والی ایک صبح
تھی! اُس فجرِ کاذب کے بعد، جو پی ایل او کے ساتھ روپوش ہوئی، یہ "دن"
جو اِس فجرِ صادق کے ساتھ ایک قوم پر طلوع ہوا تھا، جانتی تھی کہ یہ ایک بےحد گرم،
تلخ، جھلسا دینے والا، کارزار کا دن ہو گا، جان لیوا ہو گا، اور اس کی ایک ایک
ساعت اس کے وجود میں تڑپتے جذبوں کا ایک نہایت کٹھن امتحان، لیکن آبرو کے ساتھ
قربانیاں دینے کے موقع کی پیاسی قوم کو "مقاومة" کی یہ شاہراہ جو خدا نے
لا کر دی، وہ نعمت نظر آتی تھی جس کا اِس ‘جہانِ تگ و دَو’ میں کوئی متبادل نہیں۔
سو اِس چڑھتے دن کی ہر ساعت، بےشک قربانیوں اور شہادتوں سے لبریز، فلسطینیوں کےلیے
سعادت ہی سعادت ہے، اگرچہ باہر بیٹھا ایک ‘تجزیہ کار’ فلسطینیوں کے اس جھٹپٹے سویرے
کا موازنہ صیہونیوں کے نصف النہار سے کرے، لیکن فلسطینی اب گزرتے وقت کی ہر گھڑی
کو اپنے اوپر چڑھنے والا دن اور صیہون پر پڑنے والی شام دیکھتا ہے، تو وہ لمحۂ
حاضر سے خاصا آگے گزر، وہاں چلا جاتا ہے جہاں اپنا یہ باہر بیٹھا ‘تجزیہ کار’ نہیں
پہنچ پاتا جس کا سب حوالہ اِس حالیہ گھڑی ہی کی صورتحال ہوتی ہے، نہ اس سے پیچھے
کی روح فرسا رات، اور نہ اس سے آگے ایک سے بڑھ کر ایک روشن ہوتی چلی جانے والی
ساعت۔
"انتفاضہ" خود کسی معجزہ سے کم نہ
تھی، سب انسانی اندازوں کو ششدر کر جانے والا جہانِ انسانی کا ایک واقعہ۔ مادیت، وسائل،
پلاننگ اور مکر و سازش کے عروج کے آگے بےسرو ساماں روحانیت اور خداپرستی کا ایک
حیرت انگیز کرشمہ۔ آگے بڑھتے بڑھتے، اب اس کی رعنائی کا وہ مرحلہ جسے لوگ
"غزہ" کے نام سے جاننے لگے ہیں، انسانی صبر، حوصلہ، امید، قوتِ ارادی،
بہادری، دلیری، ہوشیاری، ذہانت، استقامت اور توکل کی وہ ناقابلِ یقین مثال جسے
نسلیں دم بخود ہو کر پڑھیں گی… اپنی اس حالیہ پیش رفت کے ساتھ جو پچھلے چند دن میں
سامنے آئی، یقینی طور پر اتنی بڑی زقند بھر چکی ہے کہ سمجھو برسوں کا سفر کامیابی
سے ہو چکا۔ فلسطینی مجاہد اب اس سے آگے اپنی کامیابی کےلیے جن بہت سارے عوامل پر
نظر لگائے ہوئے ہے، حالیہ پیش رفت نے ان کے بر آنے کی ڈھیروں صورتیں پیدا کرا دی
ہیں۔ "آزاد عالمی میڈیا" کے صیہونی باندی ہونے کے باوجود امریکہ تا یورپ
"رائےعامہ" میں جس کامیابی کے ساتھ دراڑ ڈالی جا چکی، وہ حیرت انگیز ہے
اور اس کے اثرات آہستہ آہستہ نمودار ہونے والے ہیں۔ فلسطین کی بےبسی و ناتوانی کی
تصویر جو کسی ‘محمود عباس’ کی صورت فلسطین کے گلے میں لٹکا رکھی گئی تھی، اس جنگ
کے ملبے میں روپوش ہو چلی اور شاید ڈھونڈنے سے بھی اب نہ ملے۔ ‘ڈیل آف دا سنچری’
تہِ خاک ہوئی۔ ‘نارملائزیشن’ کی تحریک، جو کچھ عرب ملکوں میں فیشن بنی جاتی اور
شرفاء کے منہ آتی تھی، اب منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ صیہیونیوں کی اندرونی سیاست پر
نظر رکھنے والے مبصرین کے نزدیک، ان چند دنوں میں صیہونی پارٹیوں کی رائے جتنی بٹی
ہے (فتنازعوا أمرھم بینھم) اور فلسطینیوں میں جس قدر یکجہتی آئی ہے، وہ
غیر معمولی ہے۔ قیادت کے معاملہ میں فلسطینیوں کے ہاں ایک ابہام اور اختلاف والی
صورتحال بےاندازہ کم ہوئی ہے۔ اور اس معاملہ میں سب سے اہم، ستر سال میں پہلی بار
اسرائیل کے باشندے نے اپنے آپ کو اس قدر غیرمحفوظ دیکھا ہے جس کا وہ کبھی تصور نہ
کر سکتا تھا۔ اس کے نتائج "ھجرة عکسیة" کی صورت ایک بڑی سطح پر بہت جلد
سامنے آ سکتے ہیں۔ مطلب: یہودی آبادکاروں کا یہاں سے واپس جانے کی سوچنا۔ واقفانِ
حال بڑی دیر سے لکھ رہے ہیں، دمڑی کی پوجا کرنے والی، اور زندگی کو جان سے عزیز
جاننے والی، پیسے کی پُتر اس قوم کو، یا پھر اس کی اکثریت کو، ایک چین، آرام اور
خوشحالی کے سبز باغ دکھا کر، اور یورپ اور امریکہ سے بھی زیادہ حسین اور آرام دہ زندگی کے شیشے میں اتار کر یہاں لا بسایا گیا
تھا اور یہ سارے کسی پختہ عقیدے پر تربیت پا کر یہاں نہیں آئے تھے۔ قسام کے
میزائیلوں کی اس حالیہ بارش کے دوران بار بار اُن کے ہاں یہی رونا سنا گیا کہ کیا
لندن، پیرس اور نیویارک میں اس قدر غیرمحفوظ زندگی کا تصور کیا جا سکتا ہے جو اس
وقت تل ابیب، حیفہ اور اسدود کے بنکرز میں
بیٹھے ان کا منہ چڑا رہا ہے! لہٰذا آئندہ مہینوں اور سالوں میں، زندگی کے تعیش پر
مرنے والی قوم میں ایک "غیرمحفوظ اسرائیل" کا امیج اللہ کے فضل سے ایک
گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے؛ اور ان میں سے بہت سے اپنی نسلیں یہاں چھوڑنے کا خیال
اب ترک کر سکتے ہیں، جو اگر ایک ٹرینڈ بن گیا تو معاملہ بالکل ہی کسی اور رخ پر جا
سکتا ہے۔ مزید برآں، فلسطین کے وہ مقبوضے خطے جو سن اڑتالیس والے ہلے میں ہی
اسرائیل کا باقاعدہ حصہ بنا لیے گئے تھے، وہاں پر بھی انتفاضہ کا اٹھ کھڑا ہونا
بالکل ایک نیا واقعہ ہے جو اب تک رونما نہیں ہوا تھا۔ اس کے آگے بڑھنے کے متعلق
وثوق سے کچھ کہنا گو ابھی قبل از وقت ہے، تاہم اس کی یہ شروعات جو اِن دنوں دیکھی
گئیں، اگر اِسی طرح آگے بڑھتی ہیں تو یہ دولتِ صیہون کے قدموں تلے زمین لرزانے کے
مترادف ایک شےء ہو گی۔ مزید برآں، عالم اسلام کے وہ ملک جو اقتصادی یا عسکری لحاظ
سے کچھ اچھی پوزیشن میں ہیں، اب غزہ اور اس کی صلاحیت کو ان شاء اللہ بالکل ایک
اور نظر سے دیکھیں گے۔ حتیٰ کہ خطے کی ہی کچھ انٹیلی جنسیں معاملے کو اب ایک مختلف
جہت سے دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔ اسرائیل کے ‘ناقابل تسخیر’ بت میں ایک نہتے کے وار
سے جو بدنما شکن پڑی ہے، بت بےشک اس سے ٹوٹا نہ ہو، لیکن اس کے رعب میں خاصا فرق
آیا ہے۔ شیخ سفر الحوالی کا کئی سال پیشتر کہا ہوا ایک جملہ اب بہت سارے کمزور
ایمان لوگوں کو بھی شاید سمجھ آنے لگے: "اس صیہونی ریاست کے ساتھ دنیا کے کسی
ایک بھی ملک اور کسی ایک بھی فوج کی لڑائی نہیں، پھر بھی اس کا یہ حال کہ وہ اپنے
سائے سے ڈرتی ہے، اور کچھ نہتوں کے ہاتھوں ہی اس کے اوسان خطا ہیں، تصور کریں،
مسلمانوں کا کوئی ملک جس دن اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور زمین اندر سے اس کے نیچے
کھولنے لگی! آج یا کل اگر کوئی مسلم ملک اس کے خلاف میدان میں آیا تو یہ 67 یا 73
کا ‘مقبوضہ فلسطین’ ثابت نہیں ہو گا بلکہ دنیا کو حیران کر جانے والی مسلم صلاحیت
کا ایک مظاہرہ ہو گا۔ یوں پوری اسلامی دنیا پر ایک حجت قائم کر دی گئی کہ عزت کی
راہ معدوم بہرحال نہیں ہے۔ غرض "قسام" نے بت پر ایک ایسی ضرب لگا دی ہے،
جس کے بعد نامردوں میں بھی مردانگی جنبش کر اٹھے۔ ایک تنگ دشوار گزار گھاٹی کے
باقاعدہ راہ گزر بن جانے کی صورت قریب لے آئی گئی ہے، میرے رب کے فضل اور حکم سے۔