|
استشراق کی سوغات |
’مطلق رواداری‘! |
جمود اور تنگ نظری کی بعض تصویریں پچھلی فصل میں آپ دیکھ آئے۔ البتہ یہاں کی ’وسیع النظری‘ کو دیکھیں تو وہ اس سے بھی زیادہ آشوب ناک ہے۔ یہاں؛ زیادہ تر استشراق کے دیے ہوئے لہجے بولتے ہیں جن کو صحابہؓ کے اُس ٹھیٹ انداز کے ساتھ جو وہ حق کے ساتھ تمسک اور باطل سے بیزاری کے معاملہ میں اختیار فرما کر رکھتے تھے، دور نزدیک کا کوئی واسطہ نہیں۔
’مطالعۂ اسلام‘ کے اِس نئے اپروچ کو زیادہ تر دانشور طبقہ کے ہاں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ میڈیا اس چیز کی تبلیغ کا موثر ترین فورم ہے۔ تعلیمی نصاب اِس انداز کے فہم اسلام کو نہ صرف فروغ دے رہے ہیں بلکہ ڈیڑھ سو سال پہلے باقاعدہ اِس کو وجود میں لائے ہیں۔
اس طرز فکر کا لب لباب یہ ہے کہ ہر آدمی اور ہر طبقے کو دین کی تفسیر کے معاملے میں اپنی رائے رکھنے کی کھلی چھٹی ہو۔ اختلاف رائے کی قطعی آزادی ہو۔ ’اختلافِ رائے‘ کا یہ حق لوگوں کو ’’اصولِ دین‘‘ کے اندر بھی اتنا ہی ہو جتنا کہ ’فروعِ دین‘ کے اندر! بس کسی کو اس کے نظریہ یا عقیدہ کی بنا پر غلط نہ کہا جائے! ’مخالفت‘ کسی کی نہیں ہونی چاہیے! ہر معاملہ میں آدمی زیادہ سے زیادہ بس ایک ’علمی‘ اور ’تحقیقی‘ نوعیت کا اور ایک ’روادارانہ‘ سا اختلاف کر سکتا ہے اور اختلاف کے وہ سب آداب جو اہلسنت کے ہاں ’فرو عِ دین‘ کے اندر ملحوظ رکھے جاتے ہیں وہ ان حضرات کے نزدیک ’’اصولِ دین‘‘ کے معاملہ میں بھی فرض ہیں! کسی کو باطل پر جاننا اور گمراہی کا پیروکار ماننا ان کے نزدیک ایک پسماندہ اور غیر علمی رویہ ہے خواہ وہ دین کا کتنا ہی بنیادی مسئلہ کیوں نہ ہو! ’جذبات‘ میں آنا، کسی بھی معاملہ میں، ان اصحاب کے نزدیک حد درجہ معیوب ہے۔ کوئی رافضی ہے اور اپنے اماموں کی عصمت کا معتقد ہے۔ دوسری طرف صحابہ کیلئے ایک لفظ اچھا بولنے تک کا روادار نہیں (یہ ظاہر کا معاملہ ہے، سینے میں جو چھپائے بیٹھا ہے وہ تو صرف خدا کو معلوم ہے) اور بخاری ومسلم سے لے کر محدثینِ سنت کی مروی کسی ایک بھی ایسی حدیث کو قابل اعتنا نہیں جانتا جس میں عائشہؓ، ابوہریرہؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، انس بن مالکؓ اور ام سلمہؓ وغیرہ ایسے نام آتے ہوں، الا یہ کہ اس کی تائید اس کے نزدیک ائمہ معصومین سے ہوتی ہو ۔۔۔ تو بھی اس پر تشنیع جائز نہیں۔ آپ مصر ہی ہیں تو اس سے ایک ’دوستانہ‘ اور ’محققانہ‘ اختلاف کر لیجئے اور خود اپنی رائے ضرور اس سے مختلف رکھیے مگر ’الجھنے‘ کی ضرورت نہیں! ایسے اختلافات کے باوجود باہم مل کر اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اُمت کی وحدت اور یکجہتی کا پروگرام سرے چڑھایا جا سکتا ہے! کوئی شخص شرک کا داعی ہے۔ وحدۃ الوجود کا مبلغ ہے۔ کوئی شریعت کو طریقت سے الگ کر دینے پر اعتقاد رکھتا ہے۔ کوئی معتزلہ کا پیروکار، وحی کو اپنی عقل کی سان پر کستا ہے۔ کوئی دین کو سیاست سے جدا کرتا ہے اور خدا کو صرف ’مذہبی معاملات‘ میں معبود مانتا ہے ۔۔۔ ان سب رحجانات کے ساتھ آپ زیادہ سے زیادہ ’اختلاف‘ رائے رکھیے۔ اس کو ’نقطہ نظر‘ کا فرق سمجھئے البتہ ایسے کسی معاملہ میں ’’جہنم‘‘ اور ’’ہلاکت‘‘ کی وعید سے کسی کی سمع خراشی کرنا ایک غیر علمی طرز عمل سمجھا جانا چاہیے اور وحدتِ اُمت کے منافی!!!
پس یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ مختلف طبقے مختلف انداز سے اس اپروچ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دانشور اس حد کو چھونے میں اپنا انداز رکھتے ہیں۔ سماجی کارکن اپنا اسلوب رکھتے ہیں۔ میڈیا اپنی وجوہات رکھتا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں مشغول بعض مذہبی جماعتوں کے ہاں اس کی کچھ اور بنیاد ہے۔ البتہ خلاصہ اس انداز فکر کا یہی بنتا ہے۔ اس کی رو سے ’وحدت اُمت‘ کیلئے دائرہ اتنا ہی وسیع کر دینا چاہئے جتنا کہ کسی دور کے اندر اسلام کے نام لیوا طبقوں کے ہاں پائی جانے والی گمراہیاں تقاضا کریں! انحرافات اور گمراہیوں کو باہر نکالنے کی کیا ضرورت ہے آپ وحدت اُمت کا دائرہ ہی اتنا کھلا کر لیجئے کہ ہر چیز اس میں آپ سے آپ آجائے اور کسی کو کسی کے سر آنے کی احتیاج ہی باقی نہ رہے! یہاں سب خوش رہیں اور اپنی اپنی سنائیں، آخر اس میں کیا مانع ہے!!!
چنانچہ یہ منہج جو کہ ’’اساسیاتِ دین‘‘ تک میں ہونے والے اختلاف پر ’مٹی ڈالنے‘ اور اس کو نظر انداز کروانے کی تلقین پر مبنی ہے، معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کے ہاں اس وقت خوب پذیرائی پا رہا ہے۔
دین اور عقیدہ کی بنیادوں کے اندر ہونے والا اختلاف شدید مہلک ہے۔ اس کو کسی صورت مسلم معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم بھی یہ ہے کہ ایک گمراہی کو صاف گمراہی کہا جائے۔ معاشرے میں اس کی شدید حوصلہ شکنی اور مذمت ہو اور اس کے پرچار کے صاف صاف آڑے آیا جائے۔ گمراہی کا شکار ہو جانے والے کسی شخص کو گمراہ کہنے سے اجتناب مصلحت کا تقاضا ہے تو ضرور اس سے اجتناب کریں البتہ یہ کہ گمراہی کو گمراہی ہی نہ کہا جائے، یہ ناقابل تصور ہے۔ انحراف کی بیخ کنی ہی معاشرے میں موقوف ٹھہرا دی جائے اور یوں مسلم معاشرے میں باطل کا چلن ہولینے دیا جائے۔۔۔ یہ بہرحال روا نہیں۔
دین کی کچھ اصولی و بنیادی اشیاء میں جو انحرافات در آئے ہیں اُن کے ساتھ محض اس وجہ سے رواداری برتنا کہ لوگوں کی ایک تعداد اب ان کی معتقد ہے، ہرگز کوئی علمی رویہ نہیں۔ باطل عقائد و افکار کا یہ کالا دھن کثیر اور بے قابو ہو جانے کے باعث سفید نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی ’انتظامی‘ معاملہ نہیں؛ مسئلہ خدا کے دین کا ہے۔ شریعت کے ثابت اور معلوم حقائق پر ثبات اختیار کرنا مسلم معاشرے کی پہچان ہے۔ ’رواداری‘ کا یہ جدید تصور ہماری اِس تاریخی پہچان کو ختم کروا دیتا ہے؛ اور اس کو اختیار کر کے ہم خدائی نصرت کا استحقاق کھو دیتے ہیں؛ جبکہ قرآن میں اہل ایمان کو ایسے کسی ’ریکونسائل‘ کا شکار ہوجانے سے بار بار متنبہ کیا جاتا ہے۔ (۱) اس کو علمی رویہ تسلیم کرنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں قطعی طور پر ایک غیر علمی رویہ ہے۔
یہ رویہ ۔۔۔ یعنی ’’اصولِ دین‘‘ میں اختلاف کو برداشت کرنا۔ مثلاً ایک غیر نبی کی عصمت، یا صحابہ یا اہل بیت کی تحقیر کے معاملہ کو، یا شرک وزندقہ کے نظریاتی وعملی رحجانات کے معاملہ کو، یا وحی کو عقل اور فلسفہ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے معاملہ کو، یا عبادتِ قبور یا کسی بھی اور گمراہی کو آدمی کا ایک ’اندازِ بے پروائی‘ سے لینا اور ان امور میں ’غیر جانبداری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس ’اپنے کام سے کام‘ رکھنا ۔۔۔ ایسا منہج رکھنے کو ایک علمی اور معقول رویہ ماننا مستشرقین کے ہاں روا ہو تو بات سمجھ آتی ہے۔ اُنکو صرف افکارِ مشرق کا مطالعہ کرنا تھا۔ کیا حق ہے اور کیا باطل، کس چیز پر آدمی کو وسعت صدر کا مظاہرہ کرنا ہے اور کس چیز پر آدمی کی غیرت کو جوش میں آجانا ہے، مستشرقین کو اس سے واقعی کچھ سروکار نہ ہونا چاہیے۔ مگر یہی رویہ قرآن پڑھنے والے معاشرے کی فکری قیادت کے ہاں بھی قابل قبول ہو بلکہ قابل فخر ہو اور اسی کو ایک علمی اندازِ فکر بھی باور کیا جائے، تو یہ بات یقیناًمسترد ہونے کے لائق ہے۔
مگر واقعہ کیا ہے؟ ہماری یہ یونیورسٹیاں جو ہمارے مسلم دانشوروں کی مادر ہائے علمی رہی ہیں کس کے زیرسرپرستی اور کس کے زیرانتظام پروان چڑھیں؟ کس کے دیے ہوئے نقشے پر ان علمی اداروں کی اٹھان ہوئی ہے؟ ’مستشرقین‘ کے سوا اس کے جواب میں آپ کس کا نام لے سکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں عالم اسلام پر قبضہ سے بہت پہلے استشراق کا شعبہ مغرب میں اپنے مطلوبہ حجم اور استعداد کو پہنچ چکا تھا۔ یورپ کی فوجوں کے حرکت میں آنے سے بہت پہلے یورپ کے مستشرقین اپنے حصے کا کام کر چکے تھے اور اب وہ لوگ عالم اسلام کو صرف ’فزکس کیمسٹری‘ نہیں بلکہ ’اسلامیات‘ تک پڑھانے پر دسترس رکھتے تھے! اب وہ ’اسلامیات‘ جو ہم نے مستشرقین سے پڑھی اور آگے مستشرقین کے ولایت پلٹ تلامذہ سے اور پھر ان کے پڑھائے ہوؤں سے نسل درنسل پڑھی۔ اسی نے بڑی حد تک ہمارے یہاں کے ’جدید‘ دینی طبقہ کی ذہنی تشکیل کی۔ ابتدائی طور پر یہاں کے کورس اور تعلیمی سلسلے وضع ہوئے، حتیٰ کہ دینِ اسلام کے ’مطالعہ‘ کا ایک پورا منہج دیا گیا، تو وہ انہی کے ہاتھوں، یعنی مستشرقین کے ہاتھوں۔ اسکے بعد پھر جتنے بھی تعلیمی ادارے اور منصوبے اپنے یہاں بنے انکی تہہ میں بڑی حد تک وہی ذہنیت اور وہی ڈھب کام کرتا رہااور آج تک کر رہا ہے۔ پھر کیا تعجب کہ استشراق کے دیے ہوئے بعض فیشن شعوری طور پر نہ بھی سہی لاشعوری طور پر ہمارے جدید تعلیم یافتہ اور دانشور اسلام پسند طبقہ کے ذہنی پس منظر میں کام کریں!
آگہی کا ’مصدر‘ source of inspirationانسان کے ذہن کی تشکیل کرنے میں بہرحال ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے جان چھڑانا ہرگز اتنا آسان نہیں۔ دین کو محدثین اور فقہاء وائمۂ اہلسنت سے پڑھنا اور دین کو مستشرقین سے یا مستشرقین کے ترتیب دیے ہوئے سلسلہ ہائے تعلیم سے پڑھنا شدید حد تک متضاد نتائج کے پیدا کرنے کا باعث ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات؟ استثنائی صورتوں کا پایا جانا ہر جگہ ممکن ہے مگر ایک سلسلۂ تعلیم اور ایک مصدرِ دانش source of inspiration کی مسلمہ حیثیت کچھ استثنائی صورتوں کے باعث مشکوک نہیں ہوجاتی۔
آج کا یونیورسٹی سے لے کر کالج اور اسکول تک پایا جانے والا جو ایک فنامنا ہے وہ اپنی پشت پر کچھ متعین اسباب اور ایک معلوم پس منظر رکھتا ہے۔ اس سے صرفِ نظر آپ یوں بیٹھے بٹھائے کس طرح کر سکتے ہیں؟ کوئی اسلامیات ’لازمی‘ پڑھے یا ’اختیاری‘ ۔۔۔ ’مطالعۂ اسلام‘ کی یہاں جو ایک اپروچ ہے اور ’مذہب‘ کو پڑھنے کی یہاں جو ایک جہت اور ایک انداز ہے وہ بہرحال کچھ تاریخی اسباب کی مرہون منت ہے۔ نصابوں کے اندر کچھ تھوڑی بہت تبدیلیاں کر بھی لی جاتی رہی ہوں، مگر اپروچ اور جہت کو تبدیل کرنے پر یہاں کون کھپا ہے؟!
سکولوں یونیورسٹیوں میں ’اسلامیات‘ پڑھی اور پڑھائی جانا یقیناًمستحسن ہے مگر وہ ذہنیت جو دین کے حقائق کا علم لینے کے پیچھے یہاں اس نظام میں کارفرما ہے وہ بلاشبہ جاہلیت کی تشکیل کردہ ہے۔ اسکے بارے میں کم از کم بھی یہ کہا جائیگا کہ ایک دیندار شخص تک کے حق میں یہ شدید آلودہ ہے۔ بہت تھوڑی استثنائات کو چھوڑ دیجئے تو عملاً یہاں ’اسلامیات‘ کا ہر طالب علم ’مطالعہ اسلام‘ کے اسی نظام کا ہی بڑی حد تک ایک تسلسل ہے جس کی یہاں کوئی ڈیڑھ دو سو سال پہلے بڑی سوچ سمجھ کر داغ بیل ڈالی گئی تھی۔
پس یہ سوال کہ آپ نے اسلام کا فہم کہاں سے لیا ہے، ایک بہت بنیادی سوال ہے۔ اسلام کچھ معلومات کا نام نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو سب سے پہلے دل میں جاگزیں ہوتی ہے اور انسان کو خدا کے حق کیلئے پوری دنیا کے مدمقابل کھڑا ہو جانے پر تیار کر دیتی ہے اور جس کی زد پھر انسان کے ہر ہر رشتے اور ہر ہر تعلق پر پڑ سکتی ہے۔ دین کا ہر معاملہ ایک ’دوستانہ اور برادرانہ اختلاف رائے‘ کا متحمل نہیں۔ الا یہ کہ دین محض ’معلومات‘ کا نام ہو یا زیادہ سے زیادہ بس حسنِ اخلاق کا ایک بے ضرر درس۔ نہ کہ ’لا‘ سے شروع ہونے والی ایک واضح اور دو ٹوک اور متعین حقیقت جس کیلئے انبیاء جہاد بھی کرتے رہے اور قتال بھی اور ہجرت بھی۔ دوستی بھی اور دشمنی بھی اور جس کو ہر تغیر سے بچا رکھنے کیلئے صحابہ وتابعین نے اہل بدعت وانحراف اور اہل زیغ وضلال کے ساتھ درشت ترین رویہ اپنا لینے سے گریز نہ کیا۔
*****
(حاشیہ۱)
وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ (المائدۃ: ۴۹)
’’ان سے ہوشیار رہیے کہ اللہ نے آپ پر جو اتار اس کے کسی ایک حصہ سے بھی یہ آپ کو منحرف نہ کرنے پائیں‘‘۔
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ (البقرہ: ۱۲۰)
’’اور اگر علم آنے کے بعد تو ان کی خواہشوں پر چلے تو اللہ سے تیرا حمایتی اور بچانے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔
وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (القلم: ۹)
’’یہ چاہتے ہیں کہ تو مداہنت اختیار کرلے تو یہ بھی مداہنت اختیار کر لیں‘‘