یہاں برصغیر میں جو جمود پایا گیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ شاہ ولی اللہؒ ومابعد کے محدثینِ دہلی کی محنت سے یہاں بہت سی برف پگھلی، {اور گو ’’عقیدہ‘‘ کے اندر اصولِ سلف کے اِحیاء کو اب بھی بہت کم توجہ ملی، } پھر بھی برصغیر کے اس ضرب المثال جمود کی برف پگھلنے کا آغاز بہرحال ہوا۔ جمود کیا تھا؟ ’’بعد والوں‘‘ کی بات کو حرفِ آخر جان لینا اور ’’پہلوں‘‘ کی بات کو سرے سے اپنے فکر و فہم کی بنیاد نہ بنانا۔ سب سے پہلا حق ’’عقیدہ‘‘ کا تھا کہ اس میں ’’بعد والوں‘‘ کی جاری کردہ بدعات ’’پہلوں‘‘ کے چھوڑے ہوئے صاف شفاف منہج پر پیش کی جاتیں اور حق کی ’’تحریر‘‘ ہوتی۔ ’’عقیدہ‘‘ ہی وہ میدان تھا جس میں حق اور باطل کا نزاع اٹھانے سے یہاں کا تحریکی عمل خودبخود ایک رخ پاتا اور آپ سے آپ اس کے اندر ایک زور اور بلاخیزی آتی (جس کی ایک بہترین مثال محمد بن عبدالوہابؒ کی تحریک ہے)، نیز وہ دوسرے بہت سارے میدان آپ سے آپ پیچھے چلے جاتے جوکہ ’حق و باطل‘ کی جنگ کا میدان نہیں، اور نہ مسلمانوں کے یہاں وہ میدانِ کارزار ہو سکتے ہیں، اور نہ کبھی تھے۔ (مانند فقہی مسائل وغیرہ)۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں، اصل میدانِ کارزار __ یعنی ’’عقیدہ‘‘ __ جب اِس جدوجہد کا بہت بڑا حصہ نہیں لے سکا تو پھر وہ کئی ایک میدان جوکہ ’’کارزار‘‘ کیلئے نہ تھے، اب اِس خلا کو پر کرنے لگے تھے۔ پھر بہت جلد اِس عمل نے ’عوام‘ کی طرف بھی اپنا رخ کر لیا۔ اِس میں شک نہیں کہ تحقیق کے وہ بہت سے میدان جو شاہ ولی اللہؒ ومابعد کے محدثینِ دہلی و بھوپال وغیرہ کے تجدیدی عمل سے سامنے آئے تھے (شاہ اسماعیلؒ کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ یا شاہ عبد العزیز کی ’’التحفۃ الاثناعشریۃ‘‘ اور اسی طرح کے معدودے چند مصنفات کو اس سے منہا کرتے ہوئے) وہ کوئی لڑنے لڑانے کا میدان نہیں تھے، بلکہ بحث و تحقیق کا میدان تھے۔ ظاہر ہے یہ گرم سرد ہونے کا میدان ہی نہیں۔ اِس کی اپنی طبیعت ہی اِس چیز سے اِباء کرتی ہے۔ یہ وہ جھگڑے ہی نہ تھے جو سڑکوں اور چوراہوں پر لا دھرے جاتے اور ہر آدمی کو اِس میں فریق بن جانے پر آمادہ کیا جاتا۔ یہاں سے؛ برصغیر ایک ایسے عمل کا اکھاڑا بنا جو __ ہماری معلومات کی حد تک __ عالم اسلام کے کسی اور خطے میں اِس بڑی سطح پر نہیں پایا جاتا۔ آج یہاں ہمیں ایک ایسا ’فقہی گھمسان‘ درپیش ہے جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی۔
مقصد یہ کہ وہ علمی و تحقیقی روش جو بارھویں صدی ہجری میں ہمارے اِس برصغیر کے اندر رونما ہوئی اور جس نے یہاں پر پایا جانے والا بہت سا جمود توڑا تھا اور جس سے مزید آگے بڑھنے کے کچھ نہایت اچھے راستے ہمیں میسر آئے تھے اور مزید میسر آسکتے تھے۔۔۔، ’’عوام الناس‘‘ کو اُن سے ’’مستفید‘‘ کرانے کی یہ صورت بہرحال نہ ہونی چاہیے تھی جو ہمیں تیرھویں صدی ہجری کے وسط سے ’’عوامی سطح‘‘ پر نمودار ہونے والی ایک کشمکش کی صورت میں نظر آتی ہے؛ یعنی وسیع سطح کا ایک ’فقہی دنگل‘ جو یہاں گلی گلی اور محلے محلے میں لڑا جانا تھا؛ اور جس کی بنیاد پر واقعتا یہاں ’دو ملتیں‘ بنتی ہوئی صاف نظر آنے لگی تھیں:۔۔۔ ’’مقلد‘‘ ا ور ’’غیر مقلد‘‘!
یہ در اصل ’’جمود‘‘ ہی کی دو صورتوں کے مابین ایک جنگ تھی جس نے تیرھویں صدی ہجری کے وسط سے یہ صورت دھار لی تھی؛ اور جس کیلئے ہمارے مسلم برصغیر نے ایک بہت بڑی قیمت دی ہے اور مسلسل دے رہا ہے۔ اسی ’’دوگانہ جمود‘‘ کا فائدہ اٹھا کر یہاں پر سیکولر قیادتیں میدان مار لینے میں کامیاب ہوئیں، اِسی ’سنہری موقعہ‘ کو غنیمت جانتے ہوئے لبرل قیادتیں یہاں کے معاشرتی خدوخال تک کو مسخ کر دینے میں کامیاب ہوئیں اور ابھی تک ہو رہی ہیں.. اور یہیں سے جدت پسندوں کی بھی خوب خوب چاندی ہونے لگی ہے۔ یعنی پورا ایک میدان ہے جو ہمارے ہاتھ سے لے لیا گیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں صدیوں کے حساب سے پیچھے دھکیل دیا گیا؛ یہاں تک کہ اب معاشرے میں ہم پائے تک نہیں جاتے۔۔۔، مگر یہ ’’دورویہ جمود‘‘ ہے جو اب بھی ہماری جان بخشی کرنے پر آمادہ نہیں؛ اِس کو اب بھی اپنی ہی ضد پوری کرانی ہے اور اپنی ہی شرطوں پر ’دنیا‘ فتح کرنی ہے! زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے اور ہمارے دین، ہمارے عقیدے اور ہماری تہذیب کو ’نقش کہن‘ کی طرح مٹا دینے کے منصوبے میدان میں ہیں جن پر دنیا بھر کے شیطان مصروف عمل ہیں، مگر ہماری یہ دنیا اب بھی ’مقلد و غیر مقلد‘ ہی کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے! یہ دو طرفہ جمود اب بھی ہم پر رحم کھانے کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں رکھتا!
صورتحال نے آگے چل کر جو بھی خطرناک موڑ مڑے، وہ پہلا جمود جو یہاں برصغیر میں پایا گیا تھا اور ابھی تک جوں کا توں ہے، ابتداءً اِس کا سبب بنا۔
*****
جمود اور اس کے رد عمل میں بھی جمود! |
’’جمود‘‘ جب ایک لڑائی بھڑائی کی صورت دھارتا ہے تو ’’ردِّ عمل در ردِّ عمل‘‘ کے ایک تسلسل کو جنم دیتا ہے اور جوکہ رفتہ رفتہ انتہاپسندی کی طرف بڑھتا ہے.. یہ وہ چیز تھی جو بالآخر طرفین کیلئے باعث پریشانی بھی ثابت ہوئی۔۔۔
طرفین کی کھینچاتانی سے جو ایک مومنٹم بنا۔۔۔ لازم تھا کہ یہاں پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے تشکیل پانے والا وہ فنامنا بھی سامنے آتا جو اپنی ذات میں ایک جہان ہوتی ہیں اور جن کی خود اپنے سوا نہ کسی کے پیچھے نماز ہوتی ہے اور نہ ایمانی اشتراک کا کوئی اور اجتماعی مظہر۔ یہ فنامنا ہر طرف پایا گیا، مگر اِس کا زیادہ رخ اس سائڈ پر رہا جہاں قرآن اور حدیث کو ’خود‘ سمجھنے کی ایک طرح ڈال دی گئی تھی۔ ایک ایک مسئلہ پر ایک ایک جماعت: کہیں عذابِ قبر پر ایمان رکھنے کو ’’شرک‘‘ کا موجب ٹھہرانا۔ کہیں جنات کا انکار۔ کہیں کرامات کا انکار۔ کہیں جادو کی تاثیر مان لینے کو ’’شرک‘‘ ٹھہراتے پھرنا۔ کہیں سماعِ موتیٰ کو ’’شرک‘‘ قرار دینا۔ کہیں محض اپنے آپ کو ’جماعت المسلمین‘ سمجھنے کا تصور۔ کہیں ’بیعت‘ اور ’امارت‘ کی مضحکہ خیز تفسیر مع بیہودہ تطبیقات۔ کہیں فوت شدہ علمائے اسلام میں سے ’کافر‘ قرار پانے والوں کی فہرست جاری کرنے کا ’اصلاحی و دعوتی ماڈل‘۔ کہیں نزولِ مسیح کا انکار۔ کہیں احادیثِ مہدی کا رد۔ کہیں ’’دجال‘‘ کی بابت نئی نئی تفسیرات و انکشافات۔ کہیں جدت پسندوں کے ہاتھوں دین کی ایک تعبیرِ نو، بلکہ دین کا مسخ۔ غرض کوئی ’’مقیاس‘‘ تو رہ ہی نہیں گیا تھا؛ ہر شخص قرآن اور حدیث کو خود اپنی تحقیق کرکے سمجھے گا اور اس کے نتیجے میں چاہے پھر وہ جہاں بھی پہنچے! قرآن اور حدیث کے ’بے انتہا واضح ہونے‘ کا ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے ہاں یہی مطلب تھا کہ آدمی ان کو خود سمجھ سکتا ہے! جس کیلئے سوائے عربی زبان کے (بلکہ شاید تراجمِ کتب کے) یا کچھ تھوڑا بہت ’ذاتی مطالعہ‘ کرلینے کے وہ کسی چیز پر انحصار کا پابند نہیں! اب جو اس کو سمجھ آئے اس کو حق ماننے کا بھی وہ اپنے اس انداز فکر کی رو سے خودبخود پابند ہوتا ہے! نہ صرف یہ بلکہ دوسرے اس قرآن اور حدیث کو اس سے مختلف انداز میں سمجھیں تو اُن کو ’’غلط‘‘ جاننے کا بھی اپنے آپ کو پابند جانتا ہے!
چنانچہ جلد ہی یہاں پر وہ رو چلی کہ: ہر شخص قرآن و حدیث کو خود سمجھنے کا جس قدر مکلف ہے اپنے سے مختلف قرآن و حدیث سمجھنے والوں کو ’’غلط‘‘ جاننے کا بھی اُسی قدر مکلف ہے! بھلا ایسا نزاع کب ختم ہو سکتا ہے جو خود ’دین‘ ہی نے فرض کر رکھا ہو!
اور یہ تو سوچنا بھی ضروری نہ رہ گیا تھا کہ: کیا سب لوگ قرآن اور حدیث کو ایک ہی طرح سمجھ سکتے ہیں؟ کہ جب بھی ان کے سمجھنے میں فرق آئے ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہو؟؟؟ بلکہ درست مراجع اور صحیح ضوابط نہ ہوں تو کیا قرآن اور حدیث کو سرے سے سمجھ بھی سکتے ہیں؟؟؟ الا یہ کہ ایک چیز کا ’آپ کو حق ہے اور دوسرے کو نہیں‘! یعنی عین وہ چیز جو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے تنازعہ کی جڑ ہوا کرتی ہے! ایک چیز آپ کیلئے جائز ہے تو دوسرے کیلئے ناجائز کیوں؟ اور اس بات کی آخر کیا ضمانت ہے کہ قرآن اور حدیث سے اپنے تئیں آپ نے یا آپ کی جماعت نے جو سمجھا وہ ضرور ہی درست ہے اور دوسرے نے یا اس کی جماعت نے جو سمجھا وہ ضرور ہی غلط ہے؟ معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو!!؟
مگر یہ سوچنے ضرورت کیا تھی؛ اسلام کا کونسا کام تھا جو یہاں رکا ہوا تھا، سوائے اس کے کہ ہر شخص یہاں پر ایک نئے سرے سے ’’اسلام‘‘ کو سمجھ کر دے؟!