پس یہ دو الگ الگ سوال ہیں:
۱) ’’دین‘‘ کہاں سے لینا ہے؟
۲) اور، اِس ’’دین‘‘ کا جو ایک ’’مستند فہم‘‘ ہو سکتا ہے، وہ کہاں سے لینا ہے؟
اول الذکر کا تعلق ’’دین‘‘ کی حقانیت سے ہے کہ آیا آپ کے دین، آپ کے عقیدہ اور آپ کے طریقۂ زندگی کا ماخذ ’’اللہ کے ہاں سے نازل شدہ حقیقت‘‘ ہے یا یہیں زمین پر گھڑ لی گئی کوئی چیز؟ جبکہ ثانی الذکر کا تعلق ’’فہم‘‘ کے مستند ہونے سے ہے کہ ’’آسمان سے اتری ہوئی اُس حقیقت‘‘ کا آیا یہ وہی فہم اور وہی تعبیر اور وہی تفسیر اور وہی تلقی واتباع ہے جو ایک تاریخی عمل کی صورت میں __ اور بلا انقطاع __ صحابہؓ سے چلا آتا ہے.. یا بعد میں گھڑ لیا جانے والا کوئی فہم اور کوئی طریقۂ اتباع؟
مگر یہ دو الگ الگ سوال کچھ اِس طرح خلط کر دیے گئے ہیں کہ یہاں سے پیچیدگیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ نکل کھڑا ہوا ہے۔
اور اب یہ پیچیدگیاں محض کسی ایک ہی طبقے تک محدود نہیں رہ گئی ہیں۔۔۔
ألف) ایک طرف آپ دیکھتے ہیں: ’’دین کا مصدر‘‘ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہؐ کو ماننے کا یہ تقاضا سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہر وہ مصدر جس کی کتاب اور سنت کے ’’فہم‘‘ کے معاملہ میں پابندی اختیار کی جانی چاہیے، اس کو کتاب اور سنت کا ہی ہم سر قرار دے کر مسترد اور یا نظرانداز کروا دیاجائے۔
چنانچہ __ ’’فہم‘‘ کے معاملہ میں __ جب آپ لوگوں کو صحابہؓ اور تابعینؒ و اَتباع تابعینؒ کے راستے کا پابند کرتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ آیاتِ کتاب اور احادیثِ سنت سے استنباط و استدلال کے معاملہ میں وہ اُن ائمۂ علم و فقہ کے مراجع کی پابندی اختیار کریں جو صحابہؓ اور تابعینؒ و اَتباع تابعینؒ کے راستے کا صحیح صحیح علم رکھنے والے ہیں..، تو جواب آتاہے ’کیوں، وہ نبی ہیں؟!‘
جبکہ ہم ان کو سلف و ائمہ کے اقوال کا اللہ اور رسولؐ کے قول کے مقابلے میں نہیں بلکہ اللہ اور رسولؐ کے قول کے ’’فہم‘‘ کے معاملے میں پابند کرا رہے ہوتے ہیں۔
(معلوم رہے، نصوصِ شرعیہ کا ثبوت، نصوص کی دلالتوں کا تعین، اُن سے استنباط و استدلال، اُنکے مابین ترجیح اور تطبیق وغیرہ سبھی اِس ’’فہم‘‘ میں شامل ہے)..
اور یہ بھی واضح رہے کہ ’’پہلوں کے راستے‘‘ کا پابند کراتے ہوئے ہم اُن کو کسی خاص فقہی گروہ کا پابند نہیں کرا رہے ہوتے؛ بلکہ جس قدر سلف و ائمہ کے اقوال میں تعددِ آراء و مذاہب کی گنجائش ہوتی ہے (اور جوکہ اچھی خاصی ہے) ہم وہ بھی ان کو پوری دے رہے ہوتے ہیں، کہ جس کو چاہیں اختیار کریں.. البتہ صرف اِس بات سے اُن کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ مذاہبِ سلف کے اس دائرہ سے ہی باہر نہ چلے جائیں؛ اور کتاب وسنت کے فہم و تفسیر میں خاص اپنی ’اَقول‘ نہ سناتے پھریں۔۔۔
اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں’ ’اللہ اور رسولؐ‘‘ کے ماسوا ’’دین‘‘ کے کسی ماخذ کا پابند کر رہے ہیں!
چنانچہ ائمۂ فقہ و حدیث کے فہم واستنباط اور اُنہی کے علمی و فقہی قواعد کا پابند کرانے پر۔۔۔ فوراً یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ’کیا وہ نبی تھے؟!‘
اور اگر ہم یہ قواعد اور اصول اُن ائمۂ ہدیٰ سے لینے کی بجائے اپنے اِن نیک حضرات سے لیں، جوکہ اِس بات سے شاید واقف تک نہ ہوں کہ یہ ’’قواعدِ استنباط‘‘ اور یہ ’’اصولِ فقہ‘‘ ہوتے کیا ہیں، تو یہ معزز حضرات مطمئن ہوں گے کہ ہم نے اُن ائمہ کو ’’غیر نبی‘‘ مانا ہے، ورنہ کسی کسی وقت وہ اِس کو ’شرک فی الرسالت‘ کا نام دینے تک چلے جاتے ہیں!
ب) دوسری جانب وہ طبقے ہیں جو اپنے مصادر کو جن سے وہ دین کا فہم لیتے رہے ہیں، مستقل بالذات حیثیت دینے لگتے ہیں۔ یہ خاص ’اپنے‘ ائمہ اور ’اپنی‘ کتبِ فقہ کے علاوہ کہیں اور سے رجوع کیا جانے کو باطل تک سمجھنے لگتے ہیں اور انہی کے اندر وارد ہوچکے مسائل کو قیامت تک کیلئے حرفِ آخر ۔ اس سے اختلاف ہوجانے میں یہ ہلاکت کے اندیشے تک دیکھنے لگتے ہیں چاہے وہ اختلاف کتنی ہی علمی بنیادوں پر کیا گیا ہو اور دیگر مستند ائمۂ دین سے اس کا ثبوت کیوں نہ ملتا ہو۔
پھر کسی وقت کتاب اور سنت کے ساتھ، جوکہ دین کے ابدی مصادر ہیں، انکے اختیار کردہ مراجع کا صاف تعارض پایا جائے، اور وہ بھی اِس حد تک کہ آدمی کا اپنا دل بھی ٹھکتا ہو کہ اُس کا متبوع (امام) کہیں پر دلیل کا ساتھ نہیں دے پایا ہے، تو بھی گویا اُس نے طے کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اُس متبوع کو ہی مقدم رکھے گا!
حالانکہ اِن ائمۂ متبوعین کے اپنے ہی کلام سے ثابت ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا امام یا عالم ہو، اُس سے غلطی بہرحال ہو سکتی ہے اور اُس پر شریعت کی کوئی بات روپوش بھی بہرحال رہ سکتی ہے۔ بلکہ اہل سنت کے ہاں یہ ایک معلوم بات ہے کہ: کبار صحابہؓ تک سے ایسے اقوال یا افعال صادر ہوجانا محال نہیں جو کتاب اور سنت کے ساتھ مطابقت رکھنے میں پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتے ہوں جبکہ اُن صحابہ کے اقوال کے مقابلہ میں کچھ دیگر صحابہ کے اقوال ہی حق کے موافق تر ہوں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں، لوگ یہاں ’’اپنے‘‘ ائمہ کے اقوال کو اُسی اطلاق اور اُسی شدت کے ساتھ واجب اتباع ٹھہرائیں گے جس طرح کہ کتاب و سنت! اتنا ہی نہیں کسی اور کو بھی وہ ’’اپنے‘‘ اِن مراجع سے عدولی کرتا ہوا دیکھیں تو برداشت نہ کریں گے؛ اور ہر کسی پر اپنے ہی ائمہ کی اتباع لازم ٹھہرائیں گے۔
واضح سی بات ہے، اہل سنت کے ہاں پائے جانے والے فقہی مذاہب میں سے کوئی بھی فقہی مذہب اپنا لینا برحق ضرور ہے، مگر اُس ایک ہی مذہب کو ہر کسی پر واجب بہرحال نہیں ٹھہرایا جا سکتا؛ دوسروں کو اُنکے اختیار کردہ فقہی مذاہب اور اپروچز (جب تک کہ وہ اہل سنت کے معلوم دائرہ سے باہر نہ جاتے ہوں) پر چھوڑ دینا بھی اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اپنے اختیار کردہ فقہی مذہب یا اپروچ کو اپنا کر رکھنا۔ لیکن یہاں پوری امت پر ’’اپنے‘‘ ہی مذہب کو واجب ٹھہرانے کی یہ متعصب اور بندذہن اپروچ دیکھیں... تو یہاں بھی ’’فہمِ دین کے مصدر‘‘ کو قریب قریب ’’دین کا مصدر‘‘ مانا جا رہا ہوتا ہے!
گویا یہ خلط دونوں طرف برابر پایا جاتا ہے: ’’دین کا مصدر‘‘ اور ’’دین کے فہم کا مصدر‘‘۔
ابھی یہ بات ہم یہاں پر نہیں اٹھا رہے کہ کچھ نہایت بعد کی صدیوں میں جا کر سامنے آنے والے اعتقادی رجحانات جوکہ منہجِ سلف کے ساتھ ایک صاف مغایرت رکھتے تھے (مانند تصوف کے وہ کئی ایک مباحث جو سلف سے ماثور نہیں اور دین کے اندر صاف صاف ایک اضافہ ہیں اور کچھ خطرناک معانی پر مشتمل ہیں، علاوہ ازیں صفاتِ خداوندی کے معاملہ میں اشاعرہ و ماتریدیہ کی جاری کردہ وہ تاویلات جو سلف سے ماثور نہیں)، یہاں کے ایک بڑے طبقے کے یہاں اِس طرح لئے جاتے رہے ہیں گویا یہ اسلام کے عہد اول سے چلے آتے ہیں، یا پھر اس سے بھی زیادہ برحق اور واجبِ اتباع!
ج) تیسری طرف ایک الجھی ہوئی ذہنیت ہے۔ یہ قرونِ سلف کو ویسے ہی کسی خاطر میں لانا اموردِین کے فہم و استنباط کے معاملہ میں اپنے اوپر گراں سمجھتی ہے بلکہ شاید اپنے مرتبہ ومقام سے فروتر۔ اور اس سلسلہ میں سلف کے فہم کی پابندی کو اپنے کھل کھیلنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ۔ اس ’آزادی‘ کے باعث، اس طبقہ میں اب ایک سے ایک نیا رجحان آرہا ہے، حتیٰ کہ ایک ہی محقق کی زندگی میں ہر چند سال بعد فکر کا ایک نیاتر ماڈل آجاتا ہے، اور وہ بھی دین کے اچھے خاصے بنیادی قسم کے مسائل کے اندر۔ امت کا فرض ہے کہ ان محققین پر نگاہ مرکوز رکھے کہ کب ان کے سفر میں اچانک کوئی نیا موڑ آجاتا ہے اور کب اصولِ دین کے معاملے میں ان پر یکلخت کوئی نئی دلیل یا کوئی نئی توجیہ منکشف ہوتی ہے تا کہ ’حق‘ کو تسلیم ’کرتے جانے‘ میں امت کسی وقت تقصیر نہ کر بیٹھے۔۔۔ اور ’دلیل‘ کے پیچھے چلنے کا عمل (بلکہ صحیح تر الفاظ میں، ’دلیل‘ کا تعاقب) کسی تعطل یا خلل کا شکار نہ ہو!
اِس فریق کے طرزِ عمل کو دیکھیں تو اِس کے ہاں فہم دین کا ’مرجع‘ یہ خود ہے اور اس کے اپنے سوا کوئی نہیں۔ یعنی کتاب و سنت اور عقل عام وغیرہ سے ’’فہم‘‘ کے جو اصول اور معیار ہمیں یہ نکال کر دے دے گا __ اور جوکہ بجائے خود ایک ’’فہم‘‘ ہو گا، اور اِن (’اکیسویں صدی‘ کے لوگوں) کا فہم ہو گا __ صحابہؓ تک اسی پر پرکھے جائیں گے، خواہ اس کے نتیجے میں صحابہ ث صحیح نکلیں اور خواہ غلط۔۔۔!
رہی یہ بات کہ ’’فہم‘‘ کا معاملہ شروع ہی صحابہؓ سے کیا جائے اور چلا ہی ’’وہاں‘‘ سے جائے، تو اِس پر تو سوچنا بھی شاید اِس طبقہ کیلئے خارج از سوال ہو۔
*****
’’فہم سلف‘‘ ایسے مباحث کا یہاں پر عام کیا جانا پس ہماری نظر میں یہاں کے ایک گھمبیر اور دیرینہ مسئلے کا حل ہے۔ خصوصاً پہلے دو فریقوں کیلئے، جوکہ اپنے وجود سے یہاں پر اہل سنت وجود کے ایک بڑے حصے کی تشکیل کرتے ہیں اور اِسی ایک مسئلے کے واضح نہ ہونے کے باعث یہاں پر ’دو ملتوں‘ کی صورت منقسم دکھائی دیتے ہیں۔