سلف سے استغناء |
مگر بیشتر استدلالات درست! |
وہ حضرات جو قرآن و حدیث کو سمجھنے کے مستند مراجع (سلف اور سلف کے وضع کردہ معیارات و نظائر) کی پابندی کو ایک غیر ضروری چیز، اور کسی وقت تو ’تقلید‘ اور ’بدعت‘ قرار دیتے ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک فریق ایسا ہے جو خود تو اتنا ’سمجھدار‘ (اور فی الواقع چالاک) ہے کہ سلف کی راہ سے ہٹ کر کوئی خطرناک مفہوم اخذ کرنے سے اچھا خاصا ہوشیار رہتا ہے.. البتہ ایک ’تجاہل عارفانہ‘ سے کام لیتے ہوئے بضد اِسی بات پر نظر آتا ہے کہ اس کا اور سلف کا ایک بات کو ’’صحیح طور پر‘‘ سمجھنا محض ایک اتفاق 'co-incidence' ہے! گویا اِن گمراہیوں اور اِن گڑھوں سے بچنے کیلئے ’’فہمِ سلف‘‘ کی کوئی نظیر پہلے سے ہونا اِن حضرات کیلئے کوئی ایسا ضروری نہ تھا؛ یوں کہ ’’فہمِ سلف‘‘ کی کوئی رپورٹ متعلقہ موضوع پر اِنکو کہیں سے دستیاب نہ ہوتی تو بھی محض عربیِ مبین وغیرہ کی مدد سے اِ نکو دین کی یہ سب باتیں ویسے ہی اور اتنے ہی واضح انداز میں سمجھ آ جاتیں جتنی کہ اِنہوں نے اب سمجھ کر دکھا دی ہیں!!! حالانکہ بہت سے ٹریک اِس پورے عمل میں خود اِن حضرات نے بھی ہو بہو ویسے ہی اختیار کئے ہوتے ہیں جو سلف کے ہاں اختیار کئے گئے تھے اور وہ بھی taken for granted ۔ پھر؛ بہت سے مہلک گڑھوں سے یہ لوگ ’’خبردار‘‘ بھی محض اس لئے ہوتے ہیں کہ اُنکی سنگینی پر سلف کے ہاں اچھا خاصا کلام ہو چکا ہے۔ لیکن اِس بات کو صاف تسلیم کر لینا اِسلئے اِنکے وارے کا نہیں کہ اِس سے منہج سلف کی خوامخواہ ایک تعظیم ہو جاتی ہے اور اس راہ کا پابند ہونے کی ایک بنیاد بھی پیدا ہو جاتی ہے جو پھر بعض خاص جگہوں پر ’آزاد‘ ہو جانے میں رکاوٹ بھی ہونے لگتی ہے! پس زیادہ بہتر یہی ہے کہ کن انکھیوں سے دیکھا تو سلف کی راہ کو ہی جاتا رہے مگر اس کا سب حوالہ خود اپنی ہی اَقُول سے دیا جاتا رہے! اِس سے ایک تو آدمی کی کوئی ایسی بڑی غلطی نہیں پکڑی جائے گی، سوائے اُن چند جگہوں کے جہاں سلف کی راہ چھوڑنا کچھ خاص اَھواء کے باعث آدمی کے ہاں عمداً ’ضروری‘ ہو گیا ہو۔ دوسرا، یہ ثابت کر کے دکھا دیا جائے کہ سلف کی راہ سے آزاد رہ کر بھی دین کے ایک بہت بڑے حصے میں آدمی عین اُنہی نتائج پر بڑے آرام سے پہنچ لیتا ہے جن پر سلف ’بھی‘ کسی طریقے سے پہنچ گئے تھے، اور یوں بڑی آسانی کے ساتھ سلف کی بابت وہ عظیم الشان تاثر اور وہ پرشکوہ تصور کہ یہ نہ ہوتے تو فہمِ دین کا کوئی درست و مستند راستہ ہوتا ہی نہ، غیر ضروری اور ’تقلیدی رجحانات‘ کا شاخسانہ بنا کر پیش کر دیا جائے!!!
چنانچہ ایک عام آدمی اِس فنکاری سے کم از کم ’’متاثر‘‘ ضرور ہوتا ہے کہ سبحان اللہ، سلف کی راہ کی پابندی بھی کہیں نہیں ہے مگر بے شمار معاملات میں عین وہی نتائج جو کسی زمانے میں سلف کی ’تحقیق‘ سے ’’بھی‘‘ سامنے آ گئے تھے اِدھر آپ سے آپ آرہے ہیں!!! یہاں تک کہ ’’اعتقاد‘‘ وغیرہ سے متعلق کچھ نازک ترین مقامات پر بھی، دامن غلطیوں اور گمراہیوں سے یوں بچا چلا جاتا ہے کہ اب یقین آیا یہاں تباہی و بربادی سے بچنے کیلئے ’عربیِ مبین‘ وغیرہ کے سوا درحقیقت کسی بھی چیز کی ضرورت نہ تھی! رہ گئے وہ سب خطرناک عواقب جو سلف کی راہ سے منحرف ہونے والوں کے حق میں آج تک ذکر ہوتے آئے تھے اور وہ سب خوفناک ہوّے اور ڈراوے جو اِس باب میں ہم نسل در نسل سنتے آئے تھے.. تو نجانے وہ کن کم عقلوں کیلئے تھے، یہاں تو سوائے ’نیک نیتی‘ اور ’مثبت ذہن‘ اور ’عقل عام‘ وغیرہ کے التزام کے، ضرورت ہی کسی بات کی نہ تھی؛ کتاب و سنت آپ سے آپ یوں سمجھ آتی چلی جاتی ہے کہ کہیں کوئی رکاوٹ ہی پیش نہیں آتی!!!
عین جس طرح _ انبیاء سے مستغنی طبقوں کی نگاہ میں _ بہت سے اخلاقیات اور سماجیات، بلکہ انسانی زندگی کے بہت سے اشد ضرورت کے امور، اور حق و باطل اور معروف و منکر کے بہت سے بنیادی مسائل، انبیاء کے بغیر بھی انسانوں کو سمجھ آ جاتے ہیں.. اور کوئی ایسی رکاوٹ نہیں کہ جس کیلئے معاملہ ’’انبیاء‘‘ پر موقوف رکھا جائے!!!
بنا بریں، سلف کے منہج کا التزام کئے بغیر سلف سے ’خاصی حد تک ملتے جلتے‘ تحقیقی نتائج دے دینے کے دعوے بے شک ایک بڑی محنت اور کاوش کے غماز ہوں، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو یہ ایک نہایت سطحی، سرسری اور جعلی اسلوب پر قائم ہیں؛ جن کے اندر دیانت بھی شدید حد تک مفقود ہے۔
اور کچھ بھی نہیں تو ایک ’’صفاتِ خداوندی‘‘ اور ’’تقدیر‘‘ کے مسئلہ پر ہی کوئی شخص منہجِ سلف کی ہیبت سے بے نیاز ہو کر ’’حق‘‘ کا بیان کر دے تو دنیا اُس کی حقیقت دیکھ لے۔ یا تو ایسا آدمی گمراہیاں بیان کر کے دے گا (البتہ ایک تیز طرار شخص بالعموم اپنے لئے ایسی مصیبتیں کھڑی نہیں کرے گا)۔ اور یا پھر آپ صاف دیکھیں گے کہ وہ ایک ایک گڑھے سے، جن سے سلف خبردار کرتے چلے گئے ہیں، پوری بیداری اور انتباہ کے ساتھ بچتا چلا جا رہا ہے البتہ اِس چیز کو اپنے ہی فہم سے منسوب اور اپنے ہی زورِ بازو کا کمال باور کراتا جا رہا ہے۔ یعنی یہ پورا عمل وہ نہایت توجہ اور باریک بینی کے ساتھ سلف کے دیے ہوئے پراسیس سے گزر کر چلے گا، مگر ایک فضل کو اُس کے اہل سے منسوب کرنے میں اچھی خاصی بددیانتی برتے گا۔ اس کا معاملہ ایسے شخص سے مختلف نہ ہو گا جو ایک پہلے سے بنے ہوئے جہاز کے نقشے پر ہی ایک ’نیا‘ جہاز بنا دے اور اُن سب باتوں کی بابت نہایت متنبہ رہے جو اُس کے اصل صانع کے یہاں پیر پیر پر مدنظر رہی ہیں (ہاں اس کے اندر اگر کوئی تھوڑی بہت تبدیلی کرے تو وہ البتہ خاصی اوٹ پٹانگ ہو) مگر دعویٰ یہ کرے کہ اُس نے خود اپنا کوئی پراسیس اختیار کیا ہے اور یہ کہ ہر دو فریق کا عمل آپ سے آپ ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہمیشہ ’’جہاز‘‘ ہی بنتا ہے!
آپ اِن چند مثالوں ہی کو لے لیں جو پچھلی فصل میں (ص ۶۷ تا ۷۱) دی گئی ہیں.. اِن مثالوں کے اندر پائے جانے والے خطرناک و نازک مقامات کا خطرناک ہونا ہمارے اِن لوگوں کو معلوم تک نہ ہوتا اگر سلف کے ہاں اِس طرح کی باتوں پر چہرے لال پیلے نہ ہوئے ہوتے۔
اِس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ فہم کے پیمانے کہیں پر اگر کچھ صحیح ہیں تو وہ لئے ہی سلف سے گئے ہیں اور سلف کے علاوہ وہ کہیں سے ملنے والے ہی نہ تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے مگر اس حقیقت کا صاف اعتراف کر لینے سے کہیں کہیں پر _ جہاں سلف کو گم گشتہ قرار دینا ’ضروری‘ نظر آتا ہو _ اپنی ھوائے نفس کی تحکیم دشوار ہو جاتی ہے!
بہرحال گزشتہ فصل میں گزرنے والی اِن مثالوں پر ہی اگرذرا غور فرما لیا جائے کہ قرآن و حدیث کی اِس جیسی بے شمار نصوص سے، اور باقاعدہ اِن نصوص کا حوالہ دے کر، بعض گمراہ دعوتیں کیسے کیسے غلط مفہومات نکال کر لوگوں کو دیتی رہی ہیں اور کس کس طرح یہاں پر مسلمانوں کو گمراہ کرتی رہی ہیں، تو لازماً آپ اِس بات کی ضرورت محسوس کریں گے کہ مسلم معاشروں کو ایک اصل پر باقی رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ فہمِ نصوص کے معاملہ میں یہاں پر ایک واضح، اسٹینڈرڈ اور معلوم انداز کے نظائر ہوں، جو نہ صرف محکم اور محفوظ ہوں بلکہ وہ اِس امت کے اندر عین شروع سے ہی چلے آ رہے ہوں۔ اور اُن کا باقاعدہ حوالہ دے کر اُن کی پابندی ہو۔ نیز یہ کہ دین کے کچھ بنیادی اور واضح اور معلوم امور میں: نئی نئی بولیوں کی نہ تو گنجائش ہو اور نہ اِن نئی نئی بولیوں کو ایسا کوئی اصولی رخنہ حاصل ہو کہ ہر نئی بولی کے آنے پر امت کو طویل و عریض بحثوں اور جواب در جواب الجھنوں میں جا پڑنا ہو، یا جب تک ایک نئی بولی کا ’’رد‘‘ سامنے نہ لائے امت اُس کی مقروض اور دیندار مانی جائے!
اگر یہ بات درست ہے تو اِس کی عملی صورت آپ اِس کے سوا اور کوئی نہ پائیں گے کہ نصوصِ شریعت کو سمجھنے کے معاملہ میں لوگوں کو عین قرونِ سلف سے چلے آنے والے اُس ٹکسالی فہم پر قانع کروایا جائے؛ دین کے اصول و مبادی کو اُنہی پرانی بنیادوں پر من و عن باقی رکھا جائے، اور نصوص کے نئے نئے مطلب نکالنے کا راستہ کھول کر ہرگز نہ دیا جائے۔
چونکہ ’’آسمانی امت‘‘ وہ چیز ہے جس کو ایک بچھی بچھائی پٹڑی پر، ایک بھاری بھرکم ٹرین کی صورت، زمانے کی رفتار سے، پیش قدمی کرنی ہوتی ہے اور پورے جہان کو اپنے عمل کی زد میں لانا ہوتا ہے؛ یوں اس زوردار عمل کی اپنی طبیعت ہی اِس بات کی متحمل نہیں کہ یہ (امت) آوارۂ صحرا ہوتی اور رک رک کر راستے جھانکتی اور ایک کے بعد ایک اپروچ کو آزماتی اور ترک کرتی پھرے... یعنی ’’آسمانی ملت‘‘ ایک نہایت کشادہ اور معلوم اور پہلے سے تیار وطے شدہ، پختہ اور ناقابل تبدیل شاہراہ پر رواں دواں عمل سے عبارت ہے۔۔۔ لہٰذا بعض خرانٹ ذہنوں نے اِس حقیقت کو بھانپتے ہوئے یہیں سے اِس کے پیچ ڈھیلے کرنا شروع کر دیے؛ چنانچہ اب یہ اہل اسلام کا ایک ’’امت‘‘ ہونا ہی مشکوک ٹھہرانے لگے ہیں۔ اِس کے بعد تو ظاہر ہے آپ اِسکے ساتھ جو مرضی کریں!