عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ایک بے قابو مجمع!
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ایک بے قابو مجمع!

   

جس امت کو ایک بڑی سطح پر داخلی یکسوئی حاصل نہ ہو وہ اپنے دشمن کے مدمقابل کونسا معرکہ سرانجام دے سکتی ہے؟

غور طلب بات یہ ہے کہ دشمن کے مدمقابل ہمارا جو اصل ہتھیار تھا وہ ہمارا فکروعقیدہ ہی تھا اور ہمارے دین کے بنیادی تصورات؛ کہ جن کا دشمن کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ برتری قائم رکھنے کے معاملہ میں یہی ہمارا اصل میدان تھا اور اسی میں ہم دشمن کو بآسانی مات دے سکتے تھے۔ مگر یہی میدان ہمارا آپس کا کارزار بنے تو دشمن کے مدمقابل ہم کس کام کے! یہی وجہ ہے کہ پچھلی دو صدیوں میں کسی بڑی سطح پر ہم نے کچھ محنت اور ہمت کرکے دشمن کے خلاف بندوق اٹھائی ہو تو اٹھائی ہو مگر فکر و نظریہ کے ہتھیار کسی بڑی سطح پر استعمال نہ کر سکے۔ جبکہ معاملہ کیا ہے؟ دشمن اپنے وجود کے لحاظ سے ہم سے دور ہو تو ہو مگر اپنے فکر ونظریہ کے لحاظ سے وہ ہمارے اندر بیٹھا ہے بلکہ ہماری جڑوں میں بیٹھا ہے۔ ایک فکری ونظریاتی یکسوئی اس لحاظ سے ہماری سب سے پہلی ضرورت تھی مگر ہم اس سے روز بروز دور ہو رہے ہیں اور اس بات پر ہی مصر، کہ یہ معرکہ زیادہ سے زیادہ کوئی بندوق اور توپ کا معرکہ ہے۔

*****

اتفاق اور اختلاف کے ضوابط اس لحاظ سے ہماری ایک بنیادی ضرورت ہے۔ دین کے فہم کی بابت ایک ایسی بنیاد جو درست بھی ہو اور امت کے ایک معتدبہٖ طبقے کے مابین مشترک بھی، اس کو اپنی سب سے پہلی ضرورت کہیں تو شاید غلط نہ ہو۔

*****

اللہ تعالیٰ نے یہ دین نازل کیا تو ’افراد‘ کیلئے نازل نہیں کیا۔ یہ دین ’جماعتوں‘ کیلئے نازل نہیں ہوا۔ یہ ایک ’’امت‘‘ کو بنانے اور ایک ’’امت‘‘ کو چلانے کیلئے اترا ہے۔۔۔ اور اسکا یہی قد کاٹھ ذہن میں رہنا اور اسکا یہی مرتبہ دلوں میں جانشین کرایا جانا ضروری ہے۔

’جلتے بجھتے‘ سلسلے

یہاں ایک آدمی اٹھے۔ وہ اپنا ’حاصلِ مطالعہ‘ لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ ’گہرے غور وخوض‘ کے بعد وہ اسلام کی ایک تعبیر متعارف کرائے۔ ’کتاب وسنت‘ سے اس کے ثبوت دے۔ کچھ لوگوں کو وہ ’ثبوت‘ نظر آئیں اور وہ اس کے ساتھ ہو لیں اور اس کی دعوت کو کتاب اور سنت کا تقاضا سمجھیں۔ کچھ کو وہ ثبوت نظر نہ آئیں اور وہ اس کو رد کر دیں اور باطل پر سمجھیں۔ یہ اپنے اس فہمِ اسلام کو لوگوں سے منواتا اور اس کے ثبوت دیتا اور لوگوں کو اور اطراف سے توڑ توڑ کر اپنے ساتھ شامل کرتا دنیا سے رخصت ہو جائے اور پسماندگان کو ’’مشن جاری رکھنے‘‘ کی وصیت کر جائے۔ کچھ اس کو جاری رکھ پائیں اور کچھ ہمت چھوڑ جائیں اور کچھ ذرا عرصہ بعد کسی اور ’زندہ‘ دعوت میں حق کے ثبوت دیکھنے لگیں۔۔۔ عالم اسلام کے ہر خطے اور ہر علاقے میں سینکڑوں کے حساب سے بیک وقت ایسے ’سلسلے‘ چلیں اور ہر لمحہ یہ چراغ جلتے اور بجھتے رہیں۔۔۔ غرض امت کے اندر توڑ پھوڑ کا یہ عمل مسلسل اور پورے اخلاص کے ساتھ جاری رہے اور بالآخر کوئی ’جماعت‘ بھی ’امت‘ کو فتح نہ کر سکے، گو ہر جماعت ہی اس تاک میں ہو اور نیک نیتی کے ساتھ امت کا بھلا کرنے کی یہی ایک صورت جانتی ہو۔۔۔ تو ’دین کے کام‘ یا ’دین کی دعوت اور تفہیم‘ یا ’دین کے قیام‘ کا یہ تصور اسلام کی فطرت سے بالکل ہی بیگانہ ہے۔ اس کی ضرر رسانی کے عملی شواہد بھی اب دیکھنے ہوں تو جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔

کسی روزنامہ یا کسی جریدہ میں کوئی شخص دِین کے کسی موضوع پر ’اظہار خیال‘ کرتا ہے۔ کچھ حوالے قرآن اور حدیث کے دے لینا بھلا کیا مشکل ہے۔ اِس شخص کا اپنا مبلغ علم، خدا معلوم۔ ہو سکتا ہے محض تراجم پر انحصار کیا گیا ہو یا حتی کہ ’اُردو بازار‘ سے کسی بھی اچھے چھاپے کی کوئی کتاب اُٹھا کر حوالہ دے لیا گیا ہو۔ بس شرط یہ ہے کہ مضمون ذرا انداز سے باندھا گیا ہو۔ اسلوب دلچسپ ہو اور ’خیال‘ نیا ہو اور اس باب میں بعض ’روایتی خیالات‘ کو جابجا غلط اور فرسودہ ٹھہرایا گیا ہو۔ لیجئے ایک ’تحقیق‘ حاضر ہے۔ اس پر جوابی تبصروں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلے اور کئی دیگر پرچوں اور جریدوں کے صفحات کھل جائیں تو ہرگز تعجب نہ کیجئے۔ مضمون میں اگر ایک خیال پیش کیا گیا تھا تو اس پر جتنے تبصرے اور اعتراض اور جواب آئیں گے اتنے ہی خیال اس موضوع پر تب آپ کے پڑھنے کو دستیاب ہوں گے۔ خود صاحبِ مضمون جواب در جواب جو مزید خیال پیش کریں گے وہ اس پر مستزاد۔ کہاں رکا جائے؟ (ویسے رکنے کی کیا ضرورت ہے!) کہاں ٹھہرا جائے؟ کہاں پہنچا جائے؟ جہاں اخبار اس سلسلہ کو مزید جاری رکھنے اور مزید کسی مضمون کو شائع کرنے سے معذرت کر لے! اس کے بعد آپ کی انفرادی اور شخصی ’تحقیق‘ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں!!!

بہت سے لوگ اُردو اور انگریزی کتب پر مشتمل اپنی ذاتی لائبریری میں بیٹھ کر (زیادہ تر ریٹائرمنٹ کی عمر میں!) دِین کے بہت سے اہم اور بنیادی اُمور پر بڑے آرام سے نہ صرف ’تحقیق‘ کر لیتے ہیں بلکہ اپنی اس تحقیق کے پرچار میں بھی مصروف دیکھے جاتے ہیں! علماء تک کو ان موضوعات پر غلط ٹھہرانے اور خاموش کرانے کی فکر میں ہوتے ہیں اور کسی کسی وقت تو ان موضوعات پر تالیف کیلئے طبع آزمائی تک نوبت آتی ہے!

یہ درحقیقت ہمارے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ایسے میں آپ چلیں گے بہت اور پہنچیں گے کہیں نہیں۔ سرگردانی اسی کو کہتے ہیں! اس دین کی حقیقت، اس کی فطرت اور اس کا مزاج یقیناًاس سے کہیں برگزیدہ ہے کہ اس کے ساتھ یوں تعامل کیا جائے۔

ضروری ہے کہ دین کے فہم کی بابت کچھ ایسے مستند مراجع اختیار کئے جائیں جو نہ صرف صحیح ہوں بلکہ وہ ’’امت‘‘ کی سطح کے ہوں۔ صرف ایک ’فرد‘ یا ایک ’جماعت‘ کو کام دینے والے نہ ہوں؛ بلکہ ایک فرد یا ایک جماعت اپنی بات چھوڑ کر اور اپنے فہم واستدلال سے دستبردار ہو کر ’’امت‘‘ کے فہم پر آنے کا پابندہو؛ وہ ’’امت‘‘ جو صحابہؓ کے وقت سے ہے! ان کو اپنا کر ایک جماعت ’’امت‘‘ کی سطح پر آئے نہ کہ امت کو ’جماعت‘ کی سطح پر لانے کی کوشش کرے۔ ایک بڑی چیز اپنے سے چھوٹی چیز میں فٹ نہیں ہوسکتی۔ یہ کوشش درحقیقت عبث ہے۔ بڑا ہونے کی صرف یہی صورت ہے کہ جس طرح ایک فرد سے اس کا اپنا آپ ’جماعت‘ میں گم کرایا جاتا ہے اور اس کو اس بات کے بے پناہ فضائل بتائے جاتے ہیں ویسے ہی اور اتنے ہی اخلاص کے ساتھ ’جماعت‘ اپنا آپ ’’امت‘‘ میں گم کر دے۔ اس عمل کے جہاں اور بہت سے تقاضے ہیں وہاں فہم دین کیلئے کچھ ایسے مراجع کا اختیار کیا جانا بھی جو بیک وقت مستند بھی ہوں اور مشترک بھی، ازحد مطلوب ہے اور ’’امت‘‘ بننے اور بنانے کا ایک لازمی تقاضا۔

*****

جب بھگدڑ مچی ہو

ایک مجمع جہاں بہت سارے لوگ اپنی اپنی سناتے اور بیک وقت بولتے ہوں، کسی مثبت سمت میں حرکت نہیں کر سکتا۔ اس میں موجود چھوٹی چھوٹی ’ٹولیاں‘ اپنے اپنے انداز سے جو طریق اپنائیں گی بے شک اپنے حساب سے کسی ٹولی کا عمل کتنا ہی ’منظم‘ کیوں نہ ہو مگر ’مجمع‘ کے لحاظ سے اس کو ایک بے ہنگم عمل ہی کہا جائے گا۔ ایسے مجمع کو اگر کوئی افتاد پڑے تو وہ اپنی اس ہیئت ترکیبی کے باعث بھاری نقصان اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے۔

فی الوقت، اپنا یہ نقصان ہم بڑی محنت اور تن دہی کے ساتھ کرا رہے ہیں!

کسی مجمع کو شامتِ اعمال سے اگر ایسی صورت پیش آچکی ہے (اور جوکہ ہماری اِس حالیہ صورتحال میں صدیوں کی کوتاہی کا نتیجہ ہے)، اس میں اگر کچھ سمجھدار ہیں تو بھی مجمع کا کچھ نہ کچھ نقصان ہو جانا تو بہرحال یقینی ہے۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں تو یہ کہ اس ’نقصان‘ کا عرصہ دراز ہو جانے کی راہ میں پوری سنجیدگی سے حائل ہوں اور معاملے کو __ رفتہ رفتہ __ بہتری کی جانب لانے کیلئے کوشاں ہو جائیں۔ جس کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ آپ کوئی ایسی چیز سامنے لائیں جس کی جانب ہر فرد اور گروہ کا رجوع کرلینا ایک معقول ترین بات ہو؛ جو کہ ظاہر ہے آپ کی ’اپنی بات‘ یا ’اپنا ایجنڈا‘ نہیں ہونا چاہیے ورنہ آپ بھی ٹولیوں میں سے ایک ٹولی ہوں گے اور عین وہی کام کر رہے ہونگے جو ’اپنی اپنی جانب‘ دعوت دے کر مجمع کو بے ہنگم رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ آپ کی ’اپنی تفسیر‘ اور ’اپنا فہم‘ نہیں ہونا چاہیے جس کا کہ اصولاً سب کو ہی برابر حق ہے۔ یہ آپ کی ’اپنی بات‘ سے بلندتر کوئی چیز ہونی چاہیے جس پر سب لوگوں سے اتفاق کرلینے کا تقاضا کرنا واقعتا ایک معقول تقاضا کہلا سکے۔ جس کے ماننے اور منوانے میں کوئی فاتح اور مفتوح نہ ہو۔ کوئی بڑا اور چھوٹا نہ ہو۔ پھر یہ کہ۔۔۔ لوگوں کو اپنی سمجھ پر چلنے کیلئے اس میں ایک حد تک آزاد بھی چھوڑا گیا ہو؛ یعنی اس کے اندر ’’وحدت‘‘ اور ’’تنوع‘‘ ہر دو کی بابت ایک بہترین اور مستند ترین راہنمائی ہو۔ گو لوگوں کا آپ کی اس بات کو سمجھ لینا اور مان لینا پھر بھی ضروری نہیں؛ کیونکہ لوگوں کے مان لینے کا تعلق خود لوگوں سے ہے اور اس بات سے ہے کہ خدا کو ان کی بھلائی کہاں تک اور کب تک منظور ہے۔ البتہ ایک ایسا تقاضا جو بیک وقت درست بھی ہو اور سب کو ایک مشترک بنیاد پر بھی لا سکتا ہو اور جس میں کسی ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار نہ ہو اور جو کہ لوگوں کو اس بحران سے نکال لانے اور کامیابی کی جانب گامزن کر دینے کیلئے بالفعل لازم ہو، اُن کے سامنے رکھ دینا اور اس پر ان کو قائل کرنے کیلئے آخری حد تک جان کھپا دینا بہرحال لازم ہے۔ خدا کو اگر منظور ہوا.. اور جب منظور ہوا.. لوگوں کی ایک معقول تعداد کو وہ بات سمجھنے اور تسلیم کرنے کی توفیق مل جائے گی جو ’مجمع‘ کو بالآخر اُس بھگدڑ اور اُس بحران سے باہر لے آسکے؛ یعنی جو اُس بحران سے باہر لانے کی امکانی Potential صلاحیت رکھتی ہو۔ خدا کو منظور نہ ہو گا یا جب تک منظور نہ ہوگا تب تک افراتفری کی یہ صورتحال بہرکیف باقی رہے گی۔

صورتحال کو بالفعل بدل دینے کی ضمانت پس خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ کسی انسان کے ہاتھوں نتائج کی یقین دہانی بہرحال نہیں کرائی جا سکتی۔۔۔ البتہ اجتماع کا وہ درست طرز عمل اختیار کرنا جو ’’اصول اہلسنت‘‘ ہمارے لئے فراہم کرتے ہیں اور جو کہ موجودہ دور کے اہلسنت طبقوں کو یا ان کی ایک معتدبہ تعداد کو مجتمع کرنے کی واقعتا اور معقول ترین حد تک صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی تبلیغ کرنا اور آخر تک کرتے رہنا، البتہ ضرور انسان پر فرض ہے۔ اس سے بڑھ کر اس معاملہ میں انسان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ ایک مجمع کا خجل اور خراب ہوتے رہنا جتنی دیر تک خدا نے لکھ رکھا ہے __ گو اس کے اسباب اہل مجمع کے اپنے پیدا کردہ ہوں گے __ تب تک ’’صبر‘‘ اور ’’محنت‘‘ کے سوا کچھ چارہ نہیں، بشرطیکہ ’’محنت‘‘ اور اس پر ’’صبر‘‘ کی صحیح بنیاد دریافت کرلی گئی ہو۔ اس ’درستیِ حالات‘ کی ضمانت دے دینا تو پس کسی کے بس کی بات نہیں، لیکن اگر انسان اس مطلوبہ اصلاحی عمل کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کر رہا ہے اور اپنی استطاعت کی حد تک عین وہ کام کر رہا ہے جو اس مجمع کو مجتمع اور یکسو کر دینے کی راہ میں (یا یوں کہیے ’مجمع‘ کو ’’جماعت‘‘ میں بدل دینے کی راہ میں) کر دیا جانا آدمی سے مطلوب ہے تو مجمع پھر درست ہوتا ہے یا بدستور خراب ہوتا چلا جاتا ہے وہ شخص بہرحال ضائع نہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول مشہور ہے:

الجماعۃ ماوا فق الحق ولو کنت وحدک

’’جماعت وہ ہے جو حق کے تابع ہو چاہے تم اکیلے کیوں نہ رہ گئے ہو‘‘۔

اب جس مجمع کو ایک بڑے بحران سے بلکہ ایک عدیم النظیر بحران سے نکال لانے کا چیلنج ہمیں درپیش ہے __ جیسا کہ حصہ اول میں بھی ہم اس جانب اشارہ کر آئے __ وہ طبقہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کو اپنے لئے حجت مانتا ہے۔ اس کو طبقہ ہائے اہلسنت کہا جاتا ہے اور اس میں مذاہبِ اربعہ مثل احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ، علاوہ ازیں اہل الحدیث اور اہل الظاہر وغیرہ سبھی آجاتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسے ضوابط ہیں جو ان سب طائفوں اور ان طائفوں کے ذیل میں آنے والی سب جماعتوں اور دھڑوں اور گروہوں کو __ ان کا تنوع برقرار رکھتے ہوئے __ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کی جانب رجوع کرنے اور دین کو لے کر ایک ساتھ چلنے کے اس عمل میں مدد دے سکیں؟ ان کیلئے اجتماع کی ایک معقول بنیاد فراہم کر سکیں اور ان کے اتفاق اور اختلاف ہر دو کو ایک ضبط میں لا سکیں اور یوں اس عمل کے نتیجہ میں وحدت کے تصور کو ایک عملی جامہ پہنا سکیں؟ ’’اصول اہلسنت‘‘ میں درحقیقت ہمارے ان سب سوالات کا جواب موجود ہے۔

*****

اجتماع کی صحیح بنیاد

’’اجتماع‘‘ کیلئے ’اتفاق‘ کی شرط لگانا نہ تو نقل کا تقاضا ہے اور نہ عقل کا۔ یہ لوگوں سے ایک غیر طبعی مطالبہ ہے۔ شریعت نے یہ بات کہیں فرض نہیں کی۔ البتہ شریعت میں اور اصول اہلسنت کے اندر اس کی کچھ حدود اور قیود ہیں۔ ’’اختلاف‘‘ ایک انسانی واقعہ ہے۔ درست ترین بات یہی ہو سکتی تھی کہ اس کی ممانعت نہ ہو بلکہ اس کی حدود متعین کر دی جائیں۔

پس نہ تو ہر امر میں ’’اتفاق‘‘ لازم ہے اور نہ ہر معاملہ میں ’’اختلاف‘‘ کی اجازت۔ البتہ ’’اجتماع‘‘ کا حکم ہے اور ’’افتراق‘‘ کی ممانعت۔ ’’’اجتماع‘‘ دراصل ’’اتفاق‘‘ سے ایک وسیع تر چیز ہے۔ اسی طرح ’’افتراق‘‘ محض ’’اختلاف‘‘ سے ایک مختلف واقعہ ہے۔ نہ تو ہر معاملے میں اتفاق کا ہونا اجتماع کیلئے شرط ہے اور نہ اختلاف کا بعض معاملات میں ہو جانا افتراق کا موجب۔

البتہ وہ معاملات بے حد واضح ہو جانے چاہئیں: جن پر اتفاق ہو جانا فرض ہے اور اجتماع کیلئے ایک پیشگی شرط۔ اسی طرح ان معاملات کا بھی واضح ہو جانا ضروری ہے: جن میں اختلاف قطعی طور پر حرام اور ناقابل قبول ہے اور اجتماع کے راستے کی ایک قطعی رکاوٹ۔ ان دونوں کے مابین پھر وہ معاملات خودبخود واضح ہو جاتے ہیں جن میں: نہ اتفاق شرط ہے اور نہ اختلاف رکاوٹ۔

جب ایسا ہے ۔۔۔ یعنی نہ تو اختلاف کی کھلی چھٹی ہے اور نہ اتفاق کی کلی شرط۔۔۔ تو پھر آپ کے پاس کوئی ایسا متوازن ضابطہ ہوناچاہیے جس میں ان دونوں کی حدود طے کر دی گئی ہوں اور جس میں ہر دور اور ہر خطے کے لوگوں کیلئے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی گنجائش نہ رہنے دی گئی ہو۔

ایک بے قابو مجمع کو یکسوئی کی راہ پر ڈال دینا بے حد محنت طلب اور وقت طلب کام ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس میں خدا کی توفیق درکار ہے۔ اس پر وقت اور محنت صرف ہو، یہ ہرگز باعث تعجب نہ ہونا چاہیے اور ایک سمجھدار کو تو ہرگز اس سے جی نہ چرانا چاہیے۔ اس پر محنت نہ ہوگی تو اور کس بات پر محنت ہوگی؟ امت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو مجتمع کرنے سے بڑھ کر کیا نیکی ہو سکتی ہے۔۔۔؟ البتہ جو چیز دیکھنے کی ہے اور اس معاملہ میں بے انتہا اہم اور فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی ہے وہ یہ کہ: ’’اجتماع‘‘ کا وہ نسخہ جس پر ایک منتشر مجمع کو لایا جانے کیلئے ایک طویل محنت ہونا ہے کہاں تک اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ آپ کے وقت اور محنت کا عین صحیح مصرف ہے۔۔۔؟ اور یہ کہ کہاں تک وہ ’’اجتماع‘‘ کا واقعتا ایک درست طریقہ ہے۔۔۔؟ اور کہاں تک وہ اتفاق اور اختلاف کے درست اور متوازن ضوابط پر مبنی طرز عمل ہے؟

’’اصولِ اہلسنت‘‘ دراصل ان سب باتوں کا ایک صحیح ترین جواب ہے۔ یہ نہیں تو پھر آپ کے پاس اجتماع کی کوئی بنیاد نہیں سوائے اس کے کہ ہر آدمی ’’اجتماع‘‘ کیلئے ایک ہی شرط رکھے اور وہ یہ کہ سب دوسرے لوگ بس ایک اسی کے یا اسی کی جماعت یا اسی کے بڑوں کے فہم دین پر آجائیں اور یہ کہ قرآن اور حدیث سے جس طرح خود اس کو یا اسکے بڑوں کو دین کے سب مسائل سمجھ آئے ہیں عین اسی طرح سب دوسروں کو سمجھ آنے لگیں!

طرفہ یہ کہ کچھ لوگ دوسروں پر اپنی یا اپنے مذہب کی تقلید کی شرط بھی نہیں لگاتے مگر یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ لوگوں کودین کے سب اصولی اور فروعی مسائل قرآن وحدیث سے ویسے ہی سمجھ آئیں جیسے خود ان کو یا ان کی جماعت کو او ران کے بڑوں کو سمجھ آئے ہیں بصورت دیگر لوگ انما ھم فی شقاق(۱) کی حالت سے باہر نہیں اور وہ خود إنک علی الحق المبین(۲) کا مصداق! کیونکہ اپنے تئیں یہ خود کتاب وسنت کے متبع ہیں اور دوسرے لوگ اپنی باطل خواہشات کے پیروکار! اب جس بات کا یہ اپنے تئیں حق رکھتے ہیں عین اسی بات کا اتنا ہی حق اگر دوسروں کو بھی حاصل ہو تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو حق کا مصدر ماننے والوں کے مابین ’’اجتماع‘‘ کی کیا صورت باقی رہ جاتی ہے؟

اسی طرح وہ لوگ جو کتاب وسنت کے فہم واستنباط کی بابت خود اپنی یا اپنے بڑوں کی تقلید کی شرط لگاتے ہیں وہ درحقیقت امت کو اپنی شروط پر مجتمع کرنا چاہتے ہیں۔ ہر شخص اگر دوسروں پر یہ شرط لگانا شروع کر دے تو امت کا اجتماع کہاں گیا؟

لامحالہ آپ کو کوئی ایسا طریقہ کار درکار ہے جو لوگوں کو کسی بات کا حق دے تو سب کو ایک سا حق دے اور اگر کسی بات کی پابندی لگائے __ (ظاہر ہے کہ پابندیوں سے بالکل آزاد اجتماع کا کوئی تصور نہیں) __ تو سب پر ایک سی پابندی لگائے۔ اس کے اس ’’حق دینے‘‘ اور ’’پابند کرنے‘‘ میں کچھ ایسا توازن اور حکمت ہو کہ لوگ مجتمع بھی رہیں اور مصادرِ دین سے فہم واستنباط کرنے اور زمان و مکان کے لحاظ سے اپنے فرائضِ دین کی بابت اجتہاد کرنے میں ایک خاص حد تک آزاد بھی رہیں۔ یگانگت بھی ہو اور سوچ اور فہم کا ایک تنوع بھی برقرار رہے۔ نہ یہ ہو کہ اختلاف کی کھلی چھٹی ہو اور دین کی کسی بھی بنیاد کو کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چیلنج کر لینے کا مجاز ہو.. اور نہ یہ کہ فروعِ دین کے ہر ہر مسئلہ میں لاکھوں کروڑوں لوگ نسل درنسل اور صدیوں تک ایک ہی طرح سوچنے اور ایک ہی سا عمل کرنے کے پابند ہوں چاہے علم اور دلیل کی روشنی میں کسی کو اس سے کتنا ہی اختلاف ہو، یا زمان و مکان کی تبدیلی کسی وقت کتنے ہی بڑے فرق کی جانب اشارہ کرتی ہو۔

*****

مقیاسِ مفقود

اِس ’مجمع‘ کی کیفیت سے نکل آنے کیلئے۔۔۔ ہمیں وہ مقیاس چاہیے جو ہر چیز کی جگہ متعین کرے۔ شدت کے مقام پر واضح شدت ہو اور وہاں مفاہمت خارج از امکان ہو۔ جبکہ نرمی کے مقام پر نرمی ہو؛ وہاں مفاہمت و رواداری پائی جائے اور تشدد کا گزر نہ ہو۔ کوئی چیز بڑھ کر دوسری کی جگہ نہ لے۔ جہاں سختی اور محاذآرائی confrontation ضروری ہو وہاں وسعت نظر کا سوال اٹھ کھڑا نہ ہو اور جہاں دوستانہ اختلاف رائے رکھا جانا چاہیے وہاں ’رزم حق وباطل‘ نہ برپا ہونے لگے۔ اتباع کی حدود بھی واضح ہوں اور ابتداع کی بھی۔ جمود بھی رد ہو اور اجتہاد بھی پروان چڑھے۔

ایسا پیمانہ بنایا نہیں جائے گا بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ ہمارے دین نے ہمیں کسی ایسے پیمانے کی طرف رہنمائی کی ہے ؟ آیا ہمارے پاس پہلے سے کوئی ایسا دستور موجود ہے جس میں اس توازن کی صحیح ترین مساوات equation ہمیں بتا دی گئی ہو؟ بلکہ صدیوں تک اس کی عملی تطبیق کرکے ہمیں دکھا دی گئی ہو؟ ’’اصول اہلسنت‘‘ دراصل اسی سوال کا کافی و شافی جواب ہے۔ ہمیں اس سلسلہ میں ایک پیمانہ اور ایک کسوٹی بلاشبہ حاصل ہے۔ بنانے کی بات ہے تو پیمانے بنائے کہاں جاتے ہیں؛ ہر پیمانہ اپنے بننے کیلئے ایک پیمانے کا ضرورت مند ہوتا ہے! یہاں تو ایک ہی پیمانہ ہے جس کو ابتدائی طور پر صاحبِ وحی نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑا اور مِن مِن کر اور تراش تراش کر اور پوری ایک ربع صدی لگا کر تیار کیا اور اس کے عین مطابقِ وحی ہونے کی خوب خوب تسلی کی اور بعد والوں کو کرائی۔ اور قیامت تک آنے والوں کو اسے ’’پیمانہ‘‘ تسلیم کرنے کی تاکید فرمائی۔ ’’ما أنا علیہ وأصحابي‘‘(3) اس کا عمومی تسلسل پھر تابعین اور اتباع تابعین رہے۔ ان تین نسلوں کو سلف کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فتنوں اور انحرافات نے بڑی بڑی سطح پر مقبولیت پائی اور معاشرے میں حق کا وہ بول بالا نہ رہا۔ مگر بعد والوں کو ایک پیمانہ اور کسوٹی دے دینے کیلئے یہ بہت کافی تھا۔ ایک سطح پر یہ تسلسل قائم بھی رہا اور تاریخ کے بعض ادوار میں تو یہ خاصی اچھی سطح پر بھی چلا جاتا رہا۔۔۔ اس تسلسل کا نام اہلسنت تھا۔ اس کو پسپائی بھی ہوئی۔ یہ ہم مانتے ہیں۔ خصوصاً آخری صدیوں میں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کی پسپائی اُمت کے زوال کا پیمانہ ٹھہرا۔ پس یہ ہر معاملے میں ایک پیمانہ رہا۔ اُمت کا عروج بھی اسی سے ماپا جا سکتا ہے اور زوال بھی۔

پس یہ سچ ہے کہ آج آپ اصول اہلسنت کو عمل کے میدان سے بڑی حد تک روپوش پاتے ہیں۔ تاہم یہ اِس صورتحال کے درست ہونے کی دلیل نہیں؛ بلکہ یہ اس زوال کی تفسیر ہے جو ہمیں پچھلی کچھ صدیوں سے لاحق ہے اور جو کہ ایک بے قابو مجمع کی صورت میں اب ہمارے سامنے ہے۔

ہم ایک خود کفیل اُمت ہیں۔ یکسوئی ہمارا حق ہے۔ تجربات کرنے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے سے ہم کو پورا پورا تحفظ حاصل ہے۔ کن باتوں میں ہم کو یک آواز ہونا ہے اور کن امور میں اپنی آوازوں اور لہجوں کا تنوع باقی رکھا جا سکتا ہے، ہمیں اس معاملے میں رہنمائی بالفعل حاصل ہے۔ اس لحاظ سے ہم دنیا کی ہر قوم سے بڑھ کر پیدآور productive قوم ہو سکتے ہیں۔


(1) البقرۃ: ۱۲۷ ’’وہ تو صاف مخالفت (ہٹ دھرمی) پر ہیں‘‘

(2) النمل: ۷۹: ’’بے شک تو ہی بین حق پر ہے‘‘

(3) رواہ الترمذی (کتاب الإیمان، باب ما جاء فی افتراق الأمۃ رقم: ۲۶۴۱)، وغیرہ، وحسنہ الألبانی (انظر صلاۃ العیدین للألبانی ص ۴۶)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز