دورِ اول کے ’’سَلَف‘‘ اور |
زمانۂ آخر کے ’’اکابرین‘‘ |
گو یہ اس گفتگو کا ایک نازک پہلو ہے مگر خدا شاہد ہے اس موضوع کی حرمت کا تقاضا نہ ہوتا تو ہم ہرگز اس طرف نہ آتے۔ہمارے برصغیر کے کئی ایک روایت پسند طبقے اپنی روزمرہ اصطلاحات میں ’اکابرین‘ اور ’بزرگوں‘ اور ’بڑوں‘ کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اصطلاحات کے استعمال میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ اور پھر ہر طبقے کے ہاں خود ان کے اپنے دور میں بھی بڑوں اوربزرگوں کا پایا جانا اور ان کااحترام اور التزام کیا جانا بے حد مستحسن ہے، بلکہ ضروری۔ ہم صرف اُس خلط کو دور کرنا چاہیں گے جو کسی کسی وقت اِس معاملے کو پیچیدہ کر دیتا ہے:’ ’سَلَف‘‘ کی اصطلاح جو کہ اصولِ اہلسنت کا ایک اہم سنگ میل ہے ابھی پچھلی فصول کے اندر بیان ہو چکی ہے۔ کیا ’’بزرگوں‘‘ اور ’’بڑوں‘‘ اور ’’اکابرین‘‘ کے الفاظ سے ہمارے ان قابل احترام حضرات کے نزدیک عین وہی مراد ہے جو اصولِ اہلسنت میں ’’سلف‘‘ سے لی جاتی ہے؟
ظاہر ہے یہ دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں؛ جس میں اصولاً کوئی غلط بات نہیں۔
البتہ جس کثرت سے ان حلقوں میں لفظ ’اکابرین‘ وغیرہ استعمال ہوتا ہے اورجس کثرت سے اکابرین کی اتباع اور ان کے طریقے کو لازم پکڑ لینے کی تلقین اور تذکیر کی جاتی ہے اور جس شدت کے ساتھ اکابرین کا راستہ ہاتھ سے چھوٹ جانے کے خطرہ سے متنبہ کیا جاتا ہے۔۔۔، اس کو دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس شدید تاکید و تذکیر کا اصل محل درحقیقت اُمت کے سلف کو ہونا چاہیے۔ ہماری یہ بات اگر کسی کی گستاخی پر محمول ہوتی ہے تو ہم اس پر معافی کے خواستگار ہیں مگر ہماری اس گزارش پر براہِ کرم غور کیا جائے۔
جہاں تک ان الفاظ کے مقصود اور محل کا تعلق ہے۔۔۔ تو یہ سمجھ آنا کچھ مشکل نہیں کہ ’’اکابر‘‘ اور ’’بزرگوں‘‘ کے الفاظ یہاں کچھ ایسے قابلِ قدر فضلاء کیلئے بولے جاتے ہیں جو آج سے کوئی پچاس یا سو سال پہلے پائے گئے۔ یا زیادہ سے زیادہ جو پچھلی دو تین صدیوں کے دوران یہاں برصغیر میں ہو گزرے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ’’اکابر‘‘ اور ’’بزرگوں‘‘ ایسے الفاظ سے ان حضرات کے ہاں اُمت کے سلف بہرحال مراد نہیں لئے جاتے۔
یہاں جو سوال سامنے لایا جانا ضروری ہے وہ یہ کہ۔۔۔ روایت پسندی بلاشبہ ایک مستحسن بات ہے اور دورِ آخر کے بزرگوں کا ادب بھی بلاشبہ قابل تحسین ہے مگر روایات اور بزرگوں کا یہ سارا سلسلہ آخر پچھلے سو دو سو سال پر ہی کیوں محیط ہے؟؟؟
بزرگوں کے راستہ پر چلنے کی تلقین کی جانا بھی حرج کی بات نہیں۔ دورِ آخر کے بزرگوں کو بزرگ ماننے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ کوئی بات قابل فکر ہے تو وہ یہ کہ جہاں ’’دورِ آخر کے اکابر‘‘ کے چھوڑے ہوئے طریقے اور راستے کا پابند رہنے کی صبح شام اس قدر تذکیر ہوتی ہو وہاں ’’دورِ اول کے سلف‘‘ کے چھوڑے ہوئے طریقے اور راستے کے حوالے دیا جانا اور ان کا پابند رہنے کی تذکیر کی جانا تو پھر اس سے ہزارہا گنا بڑھ کر ہونا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے؟
اپنے اکابر کا سلسلہ اگر پچھلے دو تین سو سال پیچھے تک ہی جا پاتا ہے تو سلف کے دور تک آپ کیونکر پہنچیں گے؟
پس ہمارا سوال دورِ آخر کے سلف کا التزام کیا جانے کے ’تذکرہ‘ پر نہیں بلکہ ہمارا سوال دورِ اول کے سلف کا التزام کیا جانے کے ’’عدم تذکرہ‘‘ پر ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ’’سلف‘‘ کا تصور تو ہو مگر وہ اپنے محل پر نہ رہنے دیا گیا ہو؟ یعنی ’سلف‘ کا تصور کوئی دس بارہ صدیاں نیچے سرک آیا ہو؟ اگر ایسا ہے تو ’’اوپر چڑھنے‘‘ کا عمل ہمیں پھر سے زور لگا کر اور شاید بہت کچھ برا بھلا سن کر از سرنو شروع کرنا پڑے گا۔
پھر ایک اہم غور طلب بات تو یہ ہے کہ پچھلی چند صدیاں دراصل اپنے زوال کی صدیاں ہیں۔ ان میں جو رحجانات ایک بڑی سطح پر عام ہوئے وہ تو بطور خاص تنقیح کئے جانے کے قابل ہیں۔ اس کیلئے بھی کسوٹی ہمارے پاس وہی سلفِ اول کا منہج ہے جس پر دورِ آخر کے سب رحجانات اور یہاں پائے جانے والے سب ایجابیات و سلبیات کو پیش کیا جانا ہے۔ (شخصیات اور افراد کا محاکمہ البتہ ہمارا موضوع ہے اور نہ ہماری دعوت)۔
ہم سب جانتے ہیں، قرونِ خیّرہ کے گزر جانے کے بعد اہلسنت کے بعض طبقوں کے ہاں بھی سنت اوربدعت کے خطوط کئی ایک مقامات پر گڈمڈ ہوئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا۔ پھر ہم جانتے ہیں یہ خلط شدہ اُمور امت کے اندر صدیوں سے چلتے اور منتقل ہوتے بھی آئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اشعری اور ماتریدی عقیدہ کے وہ پہلو جو عقلیات اور تاویلِ صفات سے تعلق رکھتے ہیں اور آج تک ہمارے بہت سے مدارس میں سبقاً سبقاً پڑھائے جاتے ہیں اور پھر نقشبندی وچشتی و سہروردی وغیرہ طریقہ ہائے عبادت و روحانی اعمال کیا ابوبکرؓ وعمرؓ اور ابن مسعودؓ و ابن عباسؓ وغیرہ ایسی اسلام کی نسلِ اول سے مروی ہیں یا عمر بن عبدالعزیزؒ اور مجاہدؒ اور عکرمہؒ اور عطاءؒ ، اور حسنؒ اور علقمہؒ وغیرہ ایسی اسلام کی نسل دوئم سے ماثور ہیں اور یا پھر ابوحنیفہؒ ، مالکؒ ،ثوریؒ ، ابن عیینہؒ ، شافعیؒ ، اوزاعیؒ ، ابن حنبلؒ اور بخاریؒ وغیرہ ایسی نسل سوئم کے علمی ذخیروں سے ثابت ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر یہ اشیاء پہلے تین زمانے گزر جانے کے بعد امت میں دیکھی جانے لگیں؟؟؟
قرونِ ثلاثہ کے بعد نیا جو کچھ آیا اور پرانا جو کچھ پس منظر میں چلا گیا.. وہ پورا فنامنا اِس چیز سے بالاتر نہیں کہ قرونِ ثلاثہ کے دستور و آئین کی روشنی میں اُس کا ایک بے لاگ جائزہ اور محاکمہ نہ کیا جا سکتا ہو۔
کتاب وسنت کا وہ استنباط اور استخراج اور فہم اور تطبیق جس کے قابل اعتماد ہونے کی ہمیں شریعت میں یقین دہانی ملتی ہے وہ صحابہ کا استنباط اور استخراج اور فہم ہے۔ رہے آخری صدیوں میں مقبول اور مشہور ہو جانے والے سلسلے تو اُنکو شریعت نے کوئی ایسی حیثیت نہیں دے رکھی کہ ہم پر اُنکو من و عن لینا اور ہر قسم کے نقد و جرح سے بالاتر جاننا ضروری ہو؛ ورنہ خرابیِ ایمان کا اندیشہ ہو۔ ہاں جس بات پر ایمان کو اندیشہ ہوجانا چاہیے وہ یہ کہ آدمی جانتے بوجھتے ہوئے دیانت اور عدل کا دامن محض رجال کی تعظیم میں ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے یا یہ کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کو حَکم ماننے سے پس و پیش کرے یا یہ کہ صحابہؓ کے راستے پر کسی اور راستے کو ترجیح دینا یا صحابہؓ کے عہد سے چلی آنے والی ایک چیز میں کوئی کمی یا کوئی بیشی ہو جانا قبول کرلے۔
کسی چیز کی تعظیم میں سر نیچا کیا جاسکتا ہے تو وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ ہے اور یا پھر خیر القرون کا فہمِ اسلام۔ اسکے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بات نہ ہو سکے۔
کیا ایسا تو نہیں کہ یہاں کے پڑھے لکھے طبقے کا جدت پسندی کی جانب متوجہ ہونا، اپنے اِس پچھلے دو تین سو سالہ جمود ہی کا رد عمل ہو؟ یہ جدت پسند جوکہ کتاب وسنت٭ کی تعبیر کرتے وقت سوائے اپنی اَھواء کے کسی قید کے پابند نہیں اور جو کہ سلف تا خلف سب کو بلا امتیاز لتاڑ دیتے ہیں.. یہیں سے ایک بنیاد پا کر لوگوں کو اپنے چنگل میں لاتے ہوں!
اگر ایسا ہے تو اس صورتحال کا شکوہ پھر کیا صرف اِس جدید تعلیمیافتہ طبقہ سے کیا جائے؟
آج اگر ہم لوگوں کو ’’غیر سلف‘‘ کی راہ سے برگشتہ ہو جانے پر قائل کر لیتے ہیں؛ اور اس کے نتیجے میں وہ وقت کے اِن جدت پسند رجحانات کو رد کر دیتے ہیں۔۔۔ تو کیا اس کے بعد ان کو پھر اُنہی جامد رحجانات کا پابند کیاجائے گا؟ جن سے بھاگ کر ہی وہ اِس جدت پسندی کی جانب مائل ہوتے رہے ہیں؟ اور جن کی اپنی تاریخ بھی دورِ زوال کی پچھلی چند تاریک صدیاں ہی ہیں نہ کہ سلف کا دورِ تابندہ!؟
کیا واقعتا پچھلے ایک عرصہ سے ہم ایک بند گلی پر نہیں پہنچ چکے؟ اور کیا ہر فریق غلط جگہ پر زور نہیں لگا رہا۔۔۔؟ ’جدت پسندی‘ کا قلع قمع کرنے کا مطلب لوگوں کو پچھلی دوتین صدیوں کے بزرگوں کا پابند کرانا ہو، اور ان بزرگوں کی پابندی چھوڑ بیٹھنے کا مطلب جدت پسندی!۔۔۔ اِن دونوں آپشنز کی بجائے، کیوں نہ آدمی پیچھے جائے اور سَلَف کے راستے کی پابندی اختیار کرے؟ محض جدت پسندی کے راستے بند کر کر کے، کیا آج ہم یہاں کے پڑھے لکھوں کے آگے سب راستے تو بند نہیں کر رہے؟ راستہ تو ایک ہی ہے جو آخر تک کھلا ہے اور جو کامیابی اور منزل پر پہنچنے کی ضمانت ہے، باقی تو سب راستے ہی کہیں نہ کہیں بند ہوتے ہیں۔ اور یہ جمود کا راستہ بھی بند گلی تک پہنچا تو اپنے ہاں جدت پسندی کی یہ نوبت آئی تھی!
شرطیہ کامیابی کا راستہ صرف سلف کا راستہ ہے۔ متاخرین کے راستے ضرور اچھے ہوں گے مگر وہاں جہاں یہ راہِ سلف کے پابند ہوں اور جہاں اِن راستوں کا ثبوت سلف کے عملی ذخیروں سے دیا جا سکتا ہو۔ البتہ وہ راستے جن کی تنقیح و محاکمہ واِثبات، آثارِ سلف کی روشنی میں نہ ہو سکتا ہو وہ بہرحال ہمیں کہیں پہنچانے والے نہیں۔ اور عملاً؛ ایک عرصہ سے ایسا ہے۔ بقول امام مالکؒ :
لن یصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا
’’اِس اُمت کا آخر بھی عین اسی چیز سے سدھرے گا جس سے اس کا اول سدھرا تھا‘‘۔
*****
البتہ جہاں تک مذاہبِ اربعہ کا تعلق ہے تو یہ قرونِ ثلاثہ سے ہی چلی آنے والی چیز ہے۔ یہ ورثۂ سلف ہی ہے۔ اِن آخری عشروں میں جو ایک تاثر اپنے یہاں تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ہے کہ متبعِ سلف ہونے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی فروع میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ ایسے فقہی مذاہب سے دستبردار ہو کر دکھائے، وہ سراسر ایک غیر سلفی رویہ ہے۔ حنفی، مالکی،شافعی اور حنبلی وغیرہ سلف کے مذاہب نہیں تو پھر سلف کے مذاہب ہیں کونسے!؟ ’’سلف‘‘ جس عہد کا نام ہے وہ مذاہب اربعہ کو شامل ہے نہ کہ مذاہب اربعہ کے مغایر کوئی ’فقہی مذہب‘۔ ’’سلفیت‘‘ کسی فقہی مسلک کا نام نہیں؛ دورِ سلف سے چلے آنے والے کسی بھی فقہی مذہب کو اختیار کر لینا سلف ہی کی پیروی ہے؛ کوئی چیز ممنوع ہے تو وہ ہے
کسی ایک مذہب کیلئے تعصب رکھنا۔ ہمارے سامنے، طحاویؒ و ابن ابی العزؒ حنفی، ابن عبد البرؒ و شاطبیؒ مالکی، بیہقیؒ وابن حجرؒ شافعی اور ابن قدامہؒ و ابن رجبؒ حنبلی ہوتے ہوئے منہجِ سنت وسلف کے امام ہوتے ہیں۔ پس منہجِ سلف تو وہ چیز ہے جس پر تمام اہلسنت طبقے اپنا تمام تر فقہی تنوع برقرار رکھتے ہوئے اکٹھا ہوسکتے ہیں۔ یہ ہرگز اتنا ’تنگ‘ نہیں جتنا آج کچھ لوگ دیکھنے لگے ہیں۔ اِس باب میں، شاہ ولی اللہؒ کی طرح، صرف تعصب سے روکئے اور علوم سنت کو پھیلائیے۔
______
٭بلکہ ان میں سے کئی ایک تو صرف قرآن سے ہی ’اپنی سمجھ کے مطابق‘ دین اخذ کرنے کو کافی جانتے ہیں