دورِ صحابہ وسلف کی |
’’اتباع‘‘، نہ کہ محض ’تعظیم! |
دورِ صحابہ وسلف کی جانب دیکھنے کا انداز درست کرلینا بھی ہماری ایک اہم ترین وبنیادی ترین منہجی ضرورت ہے۔۔۔
اگر آپ بغور دیکھیں..، تو ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں صحابہؓ اور قرون اولیٰ کا تذکرہ کم ہوتا ہو۔ البتہ سوال یہ ہے کہ صحابہؓ کا یہ تذکرہ ہوتا کس حیثیت میں ہے؟
عقیدت کے طور پر۔ سیرت کے تذکرہ و بیان کے دوران۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے۔ فضائل اور مناقب کے طور پر۔ حیاتِ صحابہؓ کے ایمان افروز واقعات کے بیان میں۔ رقائق، زہد، دین داری اور تقوی ونیکی کی تاب ناک مثالیں دیتے ہوئے۔ فتوحات کے حوالہ سے۔ بہادری، دلیری اور جہاد کی روح پرور داستانیں بیان کرتے ہوئے۔ کچھ عظیم الشان و ناقابل یقین کارناموں کے حوالہ سے، جو صحابہؓ کے ہاتھوں دنیا میں انجام پائے۔ تبلیغِ اسلام کے حوالہ سے۔ رافضی الزام تراشیوں کے مدمقابل صحابہؓ کا دفاع کرتے ہوئے اور باطنی بغض کے بالمقابل صحابہؓ کے ساتھ اپنی ایمانی وابستگی جتاتے ہوئے۔۔۔ جوکہ سب کے سب نہایت مستحسن کام ہیں۔ پھر بھی ایک نہایت اہم منہجی بات اِس پوری تصویر کے اندر مفقود ہے۔
یہاں تک کہ صحابہؓ کا تذکرہ ایک ’اسوۂ‘ اور ’نمونہ‘ کے طور پر بھی ہمارے ہاں ہوتا ضرور ہے، اور اقتدائے صحابہ کی تاکیدیں بھی اللہ کا شکر ہے بے حد و حساب ہوتی ہیں۔۔۔۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو ایسی بیشتر تلقینیں صحابہؓ جیسا ’سیرت وکردار‘ اپنانے کے حوالوں کے ساتھ مخصوص ہوتی ہیں۔
رہی یہ بات کہ صحابہ فہمِ دین کا معیار ہیں ۔۔۔ رہی یہ بات کہ عقائد، اعمال، تزکیۂ نفس کیلئے اختیارکردہ طریقے، شریعت (وطریقت)، اور اصول و مبادی وغیرہ ایسے سب امہات المسائل فہمِ صحابہ سے لیے جانا ہیں اور صحابہؓ کے مابعد ظاہر ہونے والے محدثاتِ امور کو بدعت جاننا اور ان سے احتراز اور ممانعت کی جانا ہے خواہ وہ کتنے ہی بڑے بڑے بزرگوں کے ہاں کیوں نہ پائے گئے ہوں ۔۔۔ رہی یہ بات کہ کتاب وسنت کے معانی اور مفہومات اور اصولِ استدلال کی بابت کسوٹی صحابہؓ ہیں۔۔۔ رہی یہ بات کہ صحابہؓ سنت اور بدعت کا مفرقِ طریق cross road ہیں۔۔۔ تو ان حوالوں سے صحابہ کا تذکرہ کبھی کم ہی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔
کوئی صاحب جہاں صحابہؓ کے ایمان افروز واقعات کے پرتاثیر ذکر سے دلوں کو صبح شام گرمائیں گے وہاں تعبیرِ دین کے معاملہ میں وہ کتاب وسنت سے اپنا ہی فہم پیش کریں گے اور اپنی ہی ’اَقول‘ سنائیں گے۔۔۔؛ یہاں پر ’’اصحابِؓ رسول اللہؐ‘‘ شاید ان کو نظر تک نہ آ رہے ہوں!
کوئی صاحب خطبہ میں بڑی پابندی سے خیر القرون قرني، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم کے الفاظ ’تلاوت‘ کریں گے مگر ’عقیدہ‘ اور ’طریقت‘ اور ’مشرب‘ وغیرہ کے معاملہ میں کل انحصار اور سب کے سب حوالے جب دیں گے دورِ آخر کے کچھ بزرگوں کے ہی دیں گے۔ (کیونکہ اِن مستحدث طریقوں اور ریاضتوں کے سب حوالے مل ہی دورِ آخر کے بزرگوں کے ہاں سکتے ہیں)۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے ان بزرگوں پر جو لوگ انحصارنہیں کرتے ان کو تقریباً تقریباً اہل بدعت سے بھی بُرا جانیں گے!
مختصر یہ کہ قرون اولیٰ کی جانب تعظیم اور عقیدت سے دیکھنے کے باوجود ہمارا زاویۂ نگاہ درست ہو جانے میں ابھی اس اہم امر کا فقدان ہے۔ خیر القرون کو ’’فہمِ دین کے معیار‘‘ کے طور پر نہ لیا جانا __ اسکی تمام تر تعظیم کے باوجود __ اسلام کے زمانۂ اول کو گویا ایک سلیقہ سے طرح دے جانا ہے۔ گو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس امر کی جانب بہت سے لوگوں کی توجہ نہیں جا سکی، وگرنہ صورتحال شاید بہت مختلف اور بہت بہتر ہوتی۔
پس لازم ہے کہ صحابہ و قرونِ سلف کی جانب رجوع کا ایک صحیح و مستند اسلوب متعارف کرایا جائے، جس میں صحابہؓ اوران کے تلامذہ تابعین و تبع تابعین کے لئے جہاں ’’حمیت‘‘ پائی جائے وہاں ’’اتباع‘‘ اور ’’اقتداء‘‘ کا منہج بھی مفقود نہ ہو۔
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ۔۔۔ (التوبۃ: ۱۰۰)